My Blogger consists of a general news in which I upload articles from all types of news including science, technology, education, crime, how-to, business, health, lifestyle and fashion.

New User Gifts

استحکام خاندان

مسز نعیم  ۔ ۔۔۔ احسن آ باد

خاندان انسانی معاشرے کی ایک بنیادی اکائی ہے۔ اگر خاندانی سسٹم میں موجود افراد کی تربیت درست نہج پر ہو تو ایک عظیم قوم وجود میں آتی ہے۔ بطور مسلمان ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہمارے دین نے ایک مشترکہ خاندانی نظام کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی ہے۔ 
اسلامی معاشرے میں خاندان میاں بیوی کے رشتے سے بنتے ہیں۔ اس رشتے کا آغاز نکاح جیسے مقدس مذہبی فریضے سے ہوتا ہے۔ پھر رشتے کے بعد نسل انسانی میں بڑھوتری شروع ہوتی ہے۔ اور خاندان بالخصوص ماں کی گود بچے کی پہلی نرسری اور تربیت گاہ بن جاتی ہے۔ یہی بچہ یہاں اپنے دیگر رشتہ داروں اور بزرگوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے پروان چڑھتا ہے۔ جہاں اس کی جسمانی افزائش کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی جاری رہتی ہے۔ بچہ بڑھوں سے بات کرنے کا طریقہ، اٹھنے بیٹھنے کا انداز ، چھوٹے بڑے کے احترام کا طریقہ سیکھ رہا ہوتا ہے۔ کسی فرد کی روح کے لیے عمدہ اخلاق اتنا ہی ضروری ہوتا ہے جتنا اس کے جسم کے لیے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید نے خلق عظیم یعنی نہایت بلند اخلاقی خوبیوں کا مالک قرار دیا ہے۔ پھر یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اخلاقی تربیت کا ہی کرشمہ تھا کہ عرب قوم جو جہالت کی گہرائیوں میں پہنچی ہوئی تھی مہذب ترین قوم شمار ہونے لگی۔
بات چل رہی تھی خاندان اور اس کے افراد کی۔ 
اسلام نے خاندانی نظام کو استحکام دینے کے لیے گھر کے افراد کی ذمہ داریوں کو تقسیم کر دیا ہے۔ گھر کا سربراہ مرد کو بنا دیا اور اسے تمام افراد کے قیام و طعام اور نان نفقہ کی ذمہ داری دے دی۔ جب کہ بیوی کے ذمے گھر داری اور بچوں کی پرورش و تربیت کا کام لگایا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ازدواجی زندگی کو دیکھیں تو آپ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ بہترین سلوک کا معاملہ فرماتے۔ گھریلو امور میں ان کی مدد بھی فرما دیتے اور ان کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کرتے اور ان کی دلجوئی کے لیے کھیلتے بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان کا مفہوم بھی یہی ہے کہ تم میں سے سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے۔ شوہر کو بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور بیوی کو شوہر کی اطاعت اور اس کی عزت آبرو اور مال کی حفاظت کا حکم دیا۔
دیگر رشتوں کا خیال رکھنے اور صلہ رحمی کی بار ہا تلقین کی۔ اپنے سگے رشتہ داروں کے علاوہ رضاعت کے رشتوں اور والدین کے قریبی رشتے داروں اور دوستوں کی عزت و احترام کر کے ہمارے لیے بہترین اسوہ چھوڑا۔

اگر آج ہم بحیثیت مسلمان اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے گھروں میں عزت احترام محبت و الفت کے رشتے کو برقرار رکھیں۔ اور بچوں کی تربیت کا نبوی منہج اختیار کریں تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرے بن جائے۔
لیکن موجودہ دور میں دنیا جس قدر ترقی کرتی جا رہی ہے۔ مادیت کی دوڑ بڑھتی جا رہی ہے۔ انسان ہر طرح کی سہولیات سے مستفید ہونے کے باوجود ہر گزرتے دن کے ساتھ بے چینی کا شکار ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس بے چینی افراتفری اور خاندان جیسی مضبوط اکائی میں درڑا پڑنے کے اسباب کیا ہیں؟ 
۔ ہمارے معاشرے میں خاندان کا استحکام خطرے کا شکار کیوں ہے؟
اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلی اور بڑی وجہ ہمارے مثالی معاشرے کو خراب کرنے کی بیرونی کوشش ہے۔ مخصوص سوچ اور ایجنڈے کے تحت پاکستان میں ایسی این جی اوز اور اداروں نے کام شروع کیا جنہوں نے عورت کی آزادی، حقوق نسواں اور عورتوں کو مردوں کے شانہ بہ شانہ لانے کے لیے مہم شروع کی۔ اور اس کے لیے مغرب کی ترقی اور جدت کو بطور نمونے کے پیش کیا گیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہم بھی تہذیب مغرب سے متاثر ہو کر اس کی چکا چوند کا شکار ہو گئے۔  عورت گھر کی چار دیواری سے نکل کر رونق بازار بن گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گھر میں بجائے بہتری کے مزید خرابی پیدا ہونے لگی۔ 
عورت پر گھر کی ذمہ داری کے علاوہ بیرونی ذمہ داری بھی عائد ہو گئی۔ مصروفیات بڑھنے سے نہ خاوند کے پاس وقت رہا کہ وہ بیوی کو وقت دے سکے۔ نہ بیوی کو اتنی فرصت کہ وہ میاں کے ساتھ وقت گزار سکے۔ ایسے میں بچوں کی تربیت بھی ملازموں کے سپرد ہو گئی۔ بچے احساس محرومی کا شکار ہو کر طرح طرح کے نفسیاتی عوارض کا شکار ہوتے گئے اور معاشرے کو اپنا دشمن سمجھتے ہوئے عملی زندگی میں مختلف لوگوں سے انتقام لے کر اپنے جذبات کی تسکین کرتے رہے۔۔
بچیاں والدہ کی مصروفیت کی وجہ سے ماں کے سائے سے محروم رہیں۔۔ ایسی بچیاں جب اپنے گھروں کی ہوں گی تو امور خانہ داری سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے انھیں اپنے سسرال میں طرح طرح کے مسائل کا سامنا رہے گا۔
ہمارے مثالی خاندانی سسٹم میں کمزوری کا سبب ایک ٹیلی ویژن کے ڈرامے ہیں۔ جہاں نئے شادی شدہ جوڑے کو اس بات کی تعلیم دی جاتی ہے کہ ساس سسر کے ساتھ رہنے کے بجائے تم الگ سیٹل ہونا۔ نہ ساس بہو کی روک ٹوک ہو گئی نہ نندیں تمہاری پرائیویسی میں حائل ہوں گی۔ بہو بیٹا الگ تو ہو جاتے ہیں۔ مگر جب ان کی اولادیں ہوتی ہیں۔ کوئی ان کی تربیت کرنے والا موجود نہیں ہوتا۔ 
دوسرا ہمارے ہاں دیکھا جانے والے ڈراموں میں دیور بھابھی، سسر بہو ، کزنز ، اور دفاتر میں ساتھ کام کرنے والے لوگوں کے رشتوں اور تعلقات کو اس قدر متنازعہ انداز میں دکھایا گیا ہے کہ حقیقی زندگی میں بھی یہ ڈرامے رشتوں کے درمیان شک اور بداعتمادی کا بیج بو رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ ناچاقی سے بڑھ کر طلاق تک نوبت آتی جا رہی ہے۔ مجھے بہت سی ایسی لڑکیوں اور لڑکوں کا علم ہے۔ جن کی شادی کو دو تین سال گزرنے کے بعد علیحدگی ہو چکی ہے۔ اور ان کے والدین ان کی دوسری شادی کے لیے فکر مند ہیں۔ ان طلاقوں کی وجوہات بہت معمولی ہیں۔ بیوی کسی سے فون پر بات کرتی ہے۔ شوہر ہر وقت موبائل پر لگا رہتا ہے۔ مجھے وقت نہیں دیتا۔ شوہر ڈھنگ سے کام نہیں کرتا اور اس کی تنخواہ بہت کم ہے۔ شوہر بیوی کے نت نئے فیشن کے کپڑے اور میک اپ اور بیوٹی پارلر کے خرچے برداشت نہیں کر پا رہا۔ ساس بیٹے سے ملنے۔اکثر آتی رہتی ہے۔
اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے گھر اجڑ رہے ہیں۔ بات طویل ہو رہی ہے۔ بات کو سمیٹ کر یہ عرض کرنی ہے کہ گھروں میں زیادہ غیر محرم لوگوں کا بلا روک ٹوک آنا جانا ختم کر دیں۔ گھریلوں ملازم چاہے وہ عورتیں ہوں یا مرد بچے بچیوں کے پاس انھیں آزادانہ نہ چھوڑیں۔ شادی جے بعد مشترکہ خاندان میں رہنے سے ممکن ہے کچھ مسائل بھی ہوں لیکن اس کے فوائد زیادہ ہیں۔ میاں بیوی بچوں کے سامنے احترام سے ایک دوسرے سے پیش آئیں۔ باقی رشتہ داروں کے بارے میں بھی اچھی بات کریں۔ کسی قسم کی بدگوئی یا گالم گلوچ سے اجتناب کریں۔ مائیں بچوں پر چیخنے اور انھیں بلاوجہ مارنے کے بجائے تحمل کے ساتھ ان کی شرارتوں کو برداشت کریں۔ ساس سسر ہوں یا کوئی بھی بزرگ ہو ان کا احترام کریں۔ ان کی بات کو اہمیت دیں۔ اور ان کی خدمت کریں۔ خاندانوں میں برکت اور خوشحالی تب ہی آتی ہے جب سب۔ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے دلوں میں باہمی محبت و الفت ڈالے اور ہمارے گھروں کو امن کا گہوارہ بنا دے۔ آمین


میری دنیا

 طارق جاوید سیال

میرا آج کا موضوع کھیل ہیں۔ کیوں کہ میرا کھیلوں سے بہت پرانا اور گہرا تعلق ہے ، میرے ارد گرد کھیلوں کے حوالے سے بہت سی چیزیں ہیں جو کہتی ہیں مجھے دیکھو، پرکھو اور مجھ پر لکھو،اور میں ہمیشہ کہتا تھا جو میں سالوں سے دیکھ رہا ہوں،محسوس کررہا ہوں جب باری آئے گی تم کو ایک کالم کی شکل ضرور دوں گا، مگر اطمینان سے۔
میں کھیلوں کے بہت قریب رہا ہوں، ہوش سنبھالتے ہی پتا چلا کہ والد محترم ایک ریسلر ہیں وہ نماز فجر کے بعد اپنے اکھاڑے میں اپنی ٹرینینگ کے سلسلے میں جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ میرا بیٹا ایک پروفیشنل ریسلر بنے۔لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ میں کرکٹ کی جانب راغب ہو گیا تھا۔ بابا نے جب میری رغبت دوسرے سپورٹس کی جانب دیکھی تو اپنے من میں چھپائی میرے ایک پہلوان بننے کی خواہش بھی مٹا ڈالی۔
وقت اور حالات کی ستم ظریفیاں ان کے دل میں ناسور پالتی رہیں اور پھر ایک دن ان کے دل کو ساکن کر گئیں اور مجھے وہ جوانی میں قدم رکھنے سے پہلے چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔تب میں کرکٹ کو سمجھ رہا تھا، لیکن کھیلنے کا مکمل ڈھنگ آ گیا تھا۔خاندانی ذمہ داری کو صدق دل سے قبول کیا اور چھوٹی موٹی محنت اور نوکریوں سے اپنے فرائض منصبی کو انجام دیتا رہا۔
اپنے خوابوں اور خواہشات کو اپنے ہی پیروں تلے روندتا ہوا آگے کی جانب دیکھتا ہوا گزر گیا،پندرہ سال کے بعد اپنی تعلیم(ماسٹر ان سپورٹس سائنسز & ماسٹر ان ہسٹری) مکمل کی اور پھر اپنا ایک چھوٹا سا کھیلوں کے سامان کا کاروبار شروع کیا۔یعنی جہاں سے میرا خمیر نکلا تھا پھر سے میں وہیں آن بسا۔آج میرا اوڑھنا بچھونا اور خاندانی کفالت اسی کھیلوں کے کاروبار سے وابستہ ہے۔۔
دکان پر بیٹھتا ہوں، سپورٹس سے وابستہ کسٹمر آتے ہیں، بہت سی باتیں ہوتی ہیں،بہت ساری چیزیں ایک دوسرے کو دھکیلتی ہوئی بالکل اس طرح جیسے لوگ بس میں سوار ہوتے ہیں میری طرف بڑھتی ہیں اور میرے دماغ پر سوار ہوتی جاتی ہیں۔ تیز و تند لہجے، کھیلوں میں پلتی منافقت، غیر سنجیدہ اور خود پرست لوگوں کی بالا دستی کو دیکھتا ہوں تو تڑپ جاتا ہوں، کبھی کبھار تو بہت مایوس ہوتا ہوں تو کبھی معاف کر دیتا ہوں جیسے بس کنڈیکٹر نئی سواریوں کے آتے ہی پچھلی سواریوں کے مسائل اور چھبتی باتوں کو بھول جاتا ہے۔
میرا بھی کچھ یہی حال ہوتا ہے۔میرا علاقہ پہلے سے ہی پسماندہ ہے اور کھیلوں کی کوئی خاطر خواہ سہولیات نہیں ہیںاور سونے پر سہاگا غیر سنجیدہ اور ان پروفیشنل لوگ کا ان سرگرمیوں میں گھس جانا تباہ کن ہے،کھیلوں میں آئے روز بدلتے بگڑتے رویے، شخصیت پسندی، انا، ہٹ دھرمی اور لوگوں کی میں، میں کو دیکھتا ہوں، محسوس کرتا ہوں تو دل اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بے لوث ہیں بغیر کسی غرض،لالچ مطلب کے کھیلوں کے فروغ پر بے انتہا اور مثبت کام کررہے ہیں، کھیلوں میں محبت اور بھائی چارہ کو پروان چڑھانے میں اپنا جاندار اور مثبت کردار ادا کررہے ہیں، اپنا قیمتی وقت اور مال خرچ کررہے ہیں، یہ لوگ نوجوان نسل کے لئے رول ماڈل ہیں، ایک نئی نسل ایک اچھا سبق حاصل کر کے آنے والے دنوں کھیلوں کو مزید بہتر بنانے میں کار آمد ثابت ہونے میں پیش پیش ہوگی۔
کچھ اچھا ہوتے وقت جب میری آنکھیں دیکھتی ہیں کان سنتے ہیں، تو میرا دماغ ان سب کو اپنی یاداشت میں محفوظ کر لیتا ہے اور پھر میرا قلم کاغذ پر اور میرے انگوٹھے اور انگلیاں ان احساسات کو لفظوں کا لبادہ دے سوشل میڈیا پر اگل دیتی ہیں۔۔جو اچھا دیکھتا ہوں، سنتا ہوں وہی لوٹا دیتا ہوں۔
جیسے کھیل کا میدان، کھلاڑی اچھا کھلاڑی، اچھا کھلاڑی کے ساتھ بہترین اسپورٹس مین، بڑا کھلاڑی، چھوٹا کھلاڑی، وہ لالچی،وہ ایسا، وہ مطلبی، یہ خود غرض، میچ کی منصوبہ بندیاں، ایسا ہوتا تو ویسے ہو جاتا، فلاں ایسے کرتا تو یہ نتیجہ برآمد ہوتا، کھلاڑیوں کے پویلین سے لے کر ایمپائر کی پوزیشن تک اور گھر سے لے دکان تک اور پھر کھیلوں کی بات چیت تک۔۔
غرض جدھر جدھر جاتا ہوں مجھے کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے،کچھ ہماری سپورٹس کمیونٹی کی حماقتیں اور کچھ اپنی، اور کبھی کبھی میں ان دونوں کو ایسے ملا دیتا ہوں جیسے دودھ میں پانی مل جاتا ہے۔ جیسے میں اب تک لکھ چکا ہوں وہ ایک کالم کا رنگ ہے۔ یعنی ذہنی تخلیق۔۔میرا ذہن جو کچھ سوچتا اور سمجھتا ہے، آنکھیں دیکھتی ہیں کان سنتے ہیں وہی ایک خاکہ بنا لیتا ہوں۔
یہ ساری چیزیں مجھے سپورٹس سوسائٹی میں کچھ مصنوعی فرنٹ مین بنے لیڈروں کے بیان، خود کے علاوہ سبھی بڑے جیسے تعصب میں لتھڑے متضاد بیانات اور ان کی دلچسپ منافقت۔۔غرض یہ چیونٹی سے لے کر ہاتھی تک اور گدھے ریڑھے سے جہاز تک میری دنیا ہے۔۔میں کھیلوں کے فروغ اور بہتری کے لیے جو بھی لکھتا ہوں وہ کافی دن میرے ذہن رہتے وہ لہجے،رویے اور قول و فعل کے تضاد کے وار ہوتے ہیں جو میں سہتا ہوں۔کھیلوں میں سرایت بے انتہا منافقت اور مفاد پرستی کو دیکھتا ہوں تو ایسی چیزیں میرے ذہن میں ہفتوں تک گردش کرتی رہتی ہیں۔اور جب میں کسی نتیجے پر پہنچتا ہوں تو سب لکھنے پر مجھے میرا من اکساتا ہے۔۔
سالوں سے اسی کوشش میں ہوں کہ ہو سکتا ہے میرے لکھنے سے اگر کھیلوں کی دنیا میں تھوڑا سا بھی مثبت ردعمل ظاہر ہوا تو میں سمجھوں گا کہ میں اپنی کوشش میں کامیاب و کامران رہا۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ کھیلوں میں اجارہ داری بنائے کچھ لوگوں کو اپنا نقطہ نظر ہمیشہ ٹھیک لگتا ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے علاوہ سپورٹس میں بیٹھے لوگ جو کھیلوں کو فروغ دینا چاہ رہے ہیں سبھی بے وقوف ہیں سوائے ان کے۔۔

سگھڑاپا ۔۔ کچھ خواب تھے میرے

تحریر: سیدہ ہاشمی (کرولی چکوال )

مرغے کی پہلی بانگ پر اس کی آنکھ کھلی ساتھ ہی رکھے سائیڈ ٹیبل پہ دھرے موبائل فون کو اٹھایا تو صبح کے چار بج رہے تھے جلدی سے اٹھی وضو بنایا اور تہجد ادا کرنے کھڑی ہو گئی وہ تھی ہی ایسی رات کے اس پہر جب دنیا خواب و خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہوتی تو وہ بستر سے اٹھ کر رب کے حضور سجدہ ریز ہو جاتی، تہجد کے نوافل ادا کرنے کے بعد وہ کچھ دیر تلاوت کرتی اتنے میں فجر کا وقت شروع ہو جاتا فجر کی نماز کے بعد معمول کے اذکار اور پھر باورچی خانے میں ۔
پورے خاندان میں روشانے احمد کے سگھڑاپے کے چرچے تھے ہر گھر میں اسی کی مثال دی جاتی تھی۔ سب پیار سے اسے روشنی کہتے اور وہ تھی بھی اپنے نام کی طرح روشن، چمک دار خو بصورت اور ہر کام میں طاق ۔ آج کل لڑ کیوں کی طرح بناﺅ سنگھار کا کوئی شوق نہ تھا آنکھوں میں کاجل کی معمولی سی دھار ہی اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتی اور وہ اس بات پہ نازاں بھی نہ تھی۔
عاجزی کا پیکر ، خوبصورتی کا مجسمہ ، یونانی دیوی بلکہ یوں سمجھ لیں کہ وہ ناولز کی ہیروئین تھی جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر فن مولا ہوتی ہیں۔ دس مرلے کا گھر صاف کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا گھر کی صفائی کے ساتھ ساتھ وہ واشنگ مشین لگاتی سارے کپڑے دھو کر،استری کر کے الماری میں لٹکا دیتی اور اگر باورچی خانے میں جاتی تو ڈھیروں مزے مزے کے پکوان جھٹ پٹ بنا لیتی۔ عقلمندی، سلیقہ شعاری، نفاست (یہ سب چیزیں) اس میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔
آج اسے دیکھنے کے لیے کچھ لوگ آ رہے تھے وہ اس چاند کی مانند تھی کہ جس خاندان میں بھی جاتی اپنی چاندنی سے سب کو منور کر دیتی بہت سے لوگوں کی خواہش تھی کہ یہ چاند ان کے آنگن میں اترے روشنی نے سارا گھر صاف کیا اپنے ہونے والے سسرال کے لیے اچھے اچھے پکوان تیار کیے اور تیاری کرنے کے لیے چلی گئی ۔ وہ آئے ہوئے مہمانوں کو بہت پسند آئی تھی اس کی سلیقہ شعاری اور سگھڑاپے نے سب کا دل موہ لیا تھا۔
ابھی اس کی ہونے والی ساس اس کو انگوٹھی پہنانے ہی لگی تھیں کہ اماں نے اسے جھنجھوڑ کے اٹھایا اٹھ سورج سوا نیزے پہ پہنچ گیا ہے اور مہارانی صاحبہ کی نیندیں ہی پوری نہیں ہو رہیں اٹھ جا نیستی کی ماری ۔ اماں وہ انگوٹھی... وہ مہمان... اس نے بمشکل سر چادر سے باہر نکالا اور اماں سے استفسار کیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی اماں نان اسٹاپ شروع ہو گئیں۔ دیکھی ہے گھر کی حالت کتنا گندہ ہو رہا ہے۔ اڑھائی کمرے کا گھر نہیں صاف ہوتا تم سے، اپنا حلیہ ہی دیکھ لو سر جھاڑ منہ پھاڑ بنی رہتی ہو، نہ ہی پڑھائی لکھائی کی اور نہ ہی گھریلو کام کاج کی، سدا کی پھوہڑ لوگوں کی چھوٹی چھوٹی بچیوں نے سارا گھر سنبھال رکھا ہوتا ہے اور یہاں بس ماں ہی اپنی بوڑھی ہڈیاں گلائے اور ان مہارانی صاحبہ کی نیندیں ہی نہیں پوری ہو رہیں۔
محترمہ روشنی صاحبہ نے بستر سے اٹھ کر گھر کی طرف سرسری سی نگاہ دوڑائی تو بکریوں اور مرغیوں کی پھیلائی ہوئی گندگی اور اماں کے منہ سے جھڑتے پھول اس خوابناک ماحول سے نکالنے کے لیے کافی تھے ۔
بقول شاعر
خواب ٹوٹیں یا بک جائیں
قیمتیں کب وصول ہوتی ہیں

یہ انفارمیشن ہر پاکستانی شہری کے لیے جاننا ضروری ہے

 دفعہ 295-A کسی مذہب کی توھین کرنا

دفعہ 295-B قرآن پاک کی غلط تشریح کرنا

دفعہ 295-C توھین رسالت 

دفعہ 298-A توھین صحابہ

دفعہ 307 = قتل کی کوشش کی

 دفعہ 302 = قتل کی سزا

 دفعہ 376 = عصمت دری

 دفعہ 395 = ڈکیتی

 دفعہ 377 = غیر فطری حرکتیں

 دفعہ 396 = ڈکیتی کے دوران قتل

 دفعہ 120 = سازش

 سیکشن 365 = اغوا

 دفعہ 201 = ثبوت کا خاتمہ

 دفعہ 34 = سامان کا ارادہ

 دفعہ 412 = خوشی منانا

 دفعہ 378 = چوری

 دفعہ 141 = غیر قانونی جمع

 دفعہ 191 = غلط ھدف بندی

 دفعہ 300 = قتل

 دفعہ 309 = خودکش کوشش

 دفعہ 310 = دھوکہ دہی

 دفعہ 312 = اسقاط حمل

 دفعہ 351 = حملہ کرنا

 دفعہ 354 = خواتین کی شرمندگی

 دفعہ 362 = اغوا

دفعہ   320  = بغیر لائسنس یا جعلی لائیسنس کے ساتھ ایکسڈنٹ میں کسی کی موت واقع ہونا(ناقابلِ ضمانت)

دفعہ322   = ڈرائیونگ لائسنس کے ساتھ ایکسیڈنٹ میں کسی کی موت واقع ہونا (قابلِ ضمانت)

 دفعہ 415 = چال

 دفعہ 445 = گھریلو امتیاز

 دفعہ 494 = شریک حیات کی زندگی میں دوبارہ شادی کرنا

 دفعہ 499 = ہتک عزت

 دفعہ 511 = جرم ثابت ہونے پر جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا۔

  4

 ہمارے ملک میں، قانون کے کچھ ایسے ہی حقائق موجود ہیں، جس کی وجہ سے ہم واقف ہی نہیں ہیں، ہم اپنے حقوق کا شکار رہتے ہیں۔

  تو آئیے اس طرح کچھ کرتے ہیں

 پانچ دلچسپ حقائق آپ کو معلومات فراہم کرتے ہیں،

 جو زندگی میں کبھی بھی کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔

 (1) شام کو خواتین کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا -

 ضابطہ فوجداری کے تحت، دفعہ 46، شام 6 بجے کے بعد اور صبح 6 بجے سے قبل،  پولیس کسی بھی خاتون کو گرفتار نہیں کرسکتی، چاہے اس سے کتنا بھی سنگین جرم ہو۔  اگر پولیس ایسا کرتی ہوئی پائی جاتی ہے تو گرفتار پولیس افسر کے خلاف شکایت (مقدمہ) درج کیا جاسکتا ہے۔  اس سے اس پولیس افسر کی نوکری خطرے میں پڑسکتی ہے۔

 (2.) سلنڈر پھٹنے سے جان و مال کے نقصان پر 40 لاکھ روپے تک کا انشورینس کا دعوی کیا جاسکتا ہے۔

 عوامی ذمہ داری کی پالیسی کے تحت، اگر کسی وجہ سے آپ کے گھر میں سلنڈر ٹوٹ جاتا ہے اور آپ کو جان و مال کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، تو آپ فوری طور پر گیس کمپنی سے انشورنس کور کا دعوی کرسکتے ہیں۔  آپ کو بتادیں کہ گیس کمپنی سے 40 لاکھ روپے تک کی انشورنس دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔  اگر کمپنی آپ کے دعوے کو انکار کرتی ہے یا ملتوی کرتی ہے تو پھر اس کی شکایت کی جاسکتی ہے۔  اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو ، گیس کمپنی کا لائسنس منسوخ کیا جاسکتا ہے۔

(3) کوئی بھی ہوٹل چاہے وہ 5 ستارے ہو… آپ مفت میں پانی پی سکتے ہیں اور واش روم استعمال کرسکتے ہیں -

  سیریز ایکٹ، 1887 کے مطابق، آپ ملک کے کسی بھی ہوٹل میں جاکر پانی مانگ سکتے ہیں اور اسے پی سکتے ہیں اور اس ہوٹل کے واش روم کا استعمال بھی کرسکتے ہیں۔اگر ہوٹل چھوٹا ہے یا 5 ستارے، وہ آپ کو روک نہیں سکتے ہیں۔  اگر ہوٹل کا مالک یا کوئی ملازم آپ کو پانی پینے یا واش روم کے استعمال سے روکتا ہے تو آپ ان پر کارروائی کرسکتے ہیں۔  آپ کی شکایت کے سبب اس ہوٹل کا لائسنس منسوخ ہوسکتا ہے۔

  (4) حاملہ خواتین کو برطرف نہیں کیا جاسکتا

 زچگی بینیفٹ ایکٹ 1961 کے مطابق، حاملہ خواتین کو اچانک ملازمت سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔  حمل کے دوران مالک کو تین ماہ کا نوٹس اور اخراجات کا کچھ حصہ دینا ہوگا۔  اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو پھر اس کے خلاف سرکاری ملازمت تنظیم میں شکایت درج کی جاسکتی ہے۔  یہ شکایت کمپنی بند ہونے کا سبب بن سکتی ہے یا کمپنی کو جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔

 (5) پولیس افسر آپ کی شکایت لکھنے سے انکار نہیں کرسکتا

 پی پی سی کے سیکشن 166 اے کے مطابق، کوئی بھی پولیس افسر آپ کی شکایات درج کرنے سے انکار نہیں کرسکتا ہے۔اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر اس کے خلاف سینئر پولیس آفس میں شکایت درج کی جاسکتی ہے۔اگر پولیس افسر قصوروار ثابت ہوتا ہے تو، اسے کم سے کم (6)ماہ سے 1 سال قید ہوسکتی ہے یا پھر اسے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔

 یہ دلچسپ حقائق ہیں، جو ہمارے ملک کے قانون کے تحت آتے ہیں، لیکن ہم ان سے لاعلم ہیں۔

 یہ پیغام صرف اپنے پاس نہ رکھیں بلکہ جہاں تک ممکن ہو آگے پہنچائیں، یہ حقوق کسی بھی وقت کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔

#court #law #kidnap #kidnapping #robbery #Kill

معاملہ ذاتی دشمنی یا عشق جنون چاروں مقتول ٹک ٹاکر نکلے

 نبی بخش پولیس اسٹیشن کی حدود انکل سریا اسپتال کے سامنے فائرنگ سے خاتون سمیت 4 افراد کے قتل کا واقعہ


 واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج وضاحت نیوز کو موصول 


کراچی ( ایچ ایم نیوز) تھانہ نبی بخش کی حدود میں ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں خاتون سمیت چار افراد کےقتل کے معاملے میں وضاحت نیوز کی انوسٹی گیشن ٹیم کے مطابق خاتون جسکا نام مسکان معلوم ہوا ہے ایک ٹک ٹاکر تھی اور لانڈھی کی رہائشی تھی اسکے علاوہ طلاق یافتہ اور ایک بیٹے کی ماں تھی اور بلدیہ ٹاؤن کے رہائشی عامر عرف بلا سے پیار کرتی تھی گذشتہ رات بھی رکشہ میں سوار ہو کر بلدیہ ٹاؤن  PK ھوٹل نزد روبی موڑ آئی اور عامر عرف بلا کو کال کر کے بلایا عامرعرف بلا نے اپنے دوست شاہد نامی شخص سے کار لی اور مسکان کو لیکر صدام آفریدی کے گھر پہنچا جہاں دونوں نے ٹک ٹاک ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی مسکان کے ہمراہ صدام آفریدی و ریحان شاہ عرف انعام شاہ اور عامر ڈیفینس کی طرف روانہ گے ذرائع کے مطابق انہوں نے کھانا کھا کر مسکان کو لانڈھی اسکے گھر چھوڑنا تھا مگر اچانک رات  3 بجکر 20 سے 30 منٹ کے درمیان انکل سریا اسپتال کے سامنے نامعلوم افراد نے انکی گاڑی روک کر فائرنگ کی جس سے مسکان اور عامر عرف بلا کو گولیاں لگیں جس سے وہ زخمی ہوگئے 

اسی اثناء میں صدام آفریدی اور انعام شاہ کار سے اتر کر بھاگے تو نامعلوم افراد نے پہلے صدام آفریدی کو گولیاں ماری اور بعد میں انعام شاہ کو انکل سریا اسپتال کے گیٹ پر گولیاں ماریں

 نامعلوم ملزمان نے دوبارہ کار میں موجود مسکان اور عامرعرف بلا کو دم گولیاں ماریں اور فرار ہوگئے 

ذرائع نے مزید بتایا کہ مسکان سے جنون کی حد تک پیار کرنے والا ایک عاشق جس کا نام رحمان معلوم ہوا ہے لانڈھی کا رہائشی ہے نے اس سے قبل بھی صدام آفریدی اور عامر عرف بلا کے سامنے مسکان کے کان کے قریب فائر مارا تھا اور کہا تھا کہ مسکان کے لیے مجھے سو آدمیوں سے بھی ٹکر لینی پڑے تو میں لونگا جس کا بعد میں شاہ جی نامی شخص ( مبینہ منشیات فروش ) جو کہ لانڈھی میں رہتا ھے کے ڈیرے پر صائم تنولی مبینہ( پیپلزپارٹی کارکن) کے سامنے راضی نامہ بھی ہوا تھا 

صدام آفریدی و انعام شاہ کی کچھ دن پہلے گلشن غازی میں ھوائی فائرنگ کی ویڈیو بھی وائرل ھوئی تھی جس پر اعلی افسران کے حکم پر تھانہ اتحاد ٹاؤن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا انعام شاہ اور صدام آفریدی ضمانت پر تھے 

صدام آفریدی پر بھی منشیات فروشی کے الزامات تھے صدام آفریدی کا بھائی بھی پچھلے دنوں اتحاد ٹاؤن تھانہ میں منشیات کے مقدمہ میں بھی بند ھوا تھا جو کہ فی الوقت جیل میں ھے 

صدام آفریدی تحریک انصاف کا کارکن تھا مقتول چاروں دوست تھے صدام آفریدی کی ذاتی دشمنی بھی چل رہی تھی جسکی وجہ سے وہ ہر وقت اسلحہ سے لیس رہتا تھا جب کہ اسکا دوست انعام شاہ بھی ہمہ وقت اسلحہ سے لیس رہتا تھا

 مگر حیرت انگیز طور پر جائے وقوعہ سے ان کا اسلحہ نہیں ملا شبہ یہ بھی ہے کہ سفاک قاتل انکا اسلحہ بھی چھین کر فرار ہو گئے 

مسکان نامی خاتون کا عاشق رحمان جسکی مسکان کے ساتھ سوشل میڈیا پر ویڈیو بھی موجود ہیں 

اب انوسٹی گیشن پولیس نے یہ دیکھنا ہے کہ آیا قتل ذاتی دشمنی کی بنا پر کیے گئے یا مسکان نامی خاتون کے عشق میں مبتلا رحمان نامی لڑکے نے اپنے ساتھیوں سے ملکر کیے ہیں جبکہ موقع واردات سے 9 خول پولیس نے برآمد کیے ھیں مزید تفتیش کا عمل جاری ہے۔

alibaba

as

ad

web

amazon

Followers

Website Search

Tweet Corornavirus

Please Subscribe My Chennal

Sub Ki News

 
‎Sub Ki News سب کی نیوز‎
Public group · 1 member
Join Group
 
Nasrullah Nasir . Powered by Blogger.

live track

Popular Posts

Total Pageviews

Chapter 8. ILLUSTRATOR Shape Builder & Pathfinder-1

Chapter 10. Illustrator Drawing & Refining Paths-1

Labels