مائل خیر آبادی
ابھی دو تین دن کی بات ہے، عائشہ نے میری ڈرائنگ کاپی سے گلاب کے پھول کا صفحہ پھاڑ لیا تھا۔ شام کو جب میں گھر آیا تو وہ بڑی خوشی کے ساتھ اس پھول سے کھیل رہی تھی۔ بے وقوف سونگھتی تھی۔ بھلا کہاں تصویر اور کہاں اصل پھول! میں نے اپنی ڈرائنگ کاپی کا ایک صفحہ اُس کے ہاتھ میں دیکھا تو پکڑ کر مارنا شروع کردیا۔ چار برس کی ننھی جان تتلا تتلا کر ’’بھائی جان معاف… بھائی جان معاف‘‘ یعنی معاف کردیجیے کی التجا کررہی تھی، پھر میں نے کئی تھپڑ اور گھونسے رسید کردیے اور وہ گر گئی۔ امی جان نے یہ مار دھاڑ سنی تو دوڑی آئیں اور اسے میرے چنگل سے چھڑا کر لے گئیں۔ رات ہوتے ہوتے عائشہ کو بخار ہوگیا۔ وہ بخار میں ’’بھائی جان معاف… بھائی جان معاف‘‘ بک رہی تھی۔
ابو جان دکان سے عشاء کے بعد آتے ہیں۔ وہ عشاء کے بعد آئے اور سارا حال سنا تو بڑے افسوس کے ساتھ فرمانے لگے کہ ’’ایک زمانہ وہ تھا کہ مسلمان معافی کا لفظ سن کر دشمن کو معاف کردیتا تھا، آج اپنی سگی بہن، وہ بھی ننھی سی جان کو معاف نہیں کیا جاتا اور صاحبزادے ہیں کہ مسلمان کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر ابا جان عائشہ کو پیار کرنے لگے اور مجھے کچھ نہ کہا۔ میرا غصہ بھی اتر چکا تھا، اب مجھے بھی افسوس ہورہا تھا کہ عائشہ کو فضول مارا۔ اس کے بعد ابا جان کھانا کھا کر عائشہ کے پاس آبیٹھے۔ میں بھی جاکر بیٹھ گیا۔ امی جان کے آنے پر ابا جان نے معافی کا ایک ایسا واقعہ سنایا جیسے سن کر میں دنگ رہ گیا کہ کبھی ایسے مسلمان بھی ہوا کرتے تھے! یہ واقعہ ایک بدو سردار کا ہے، جو کچھ یوں ہے:
ایک بار ایسا ہوا کہ ایک یہودی نے ایک مسلمان بدو کو قتل کردیا اور بھاگ گیا۔ دوسرے بدوئوں نے سنا تو یہودی کے پیچھے دوڑے۔ یہودی بھاگ کر ایک نخلستان میں گھس گیا اور نخلستان کے مالک سے کہا: ’’اللہ کے واسطے مجھے بچا لو، میرے دشمن میری جان لینے آرہے ہیں۔‘‘ نخلستان کا مالک ایک بوڑھا شخص تھا۔ اس نے یہودی کو نخلستان میں چھپا دیا، پھر جب دوسرے بدو دوڑے ہوئے آئے تو انہوں نے بوڑھے کو بتایا کہ ایک یہودی نے آپ کے بیٹے کو قتل کردیا ہے اور وہ آپ کے نخلستان میں آیا ہے۔‘‘
یہ سننا تھا کہ شیخ دل پکڑ کر رہ گیا۔ اس نے بتایا کہ ہاں، ہاں وہ یہاں آیا ہے، میں نے اسے اپنے گھر میں پناہ دی ہے، اب تم اسے قتل نہیں کرسکتے۔ نوجوان بدوئوں نے بہت ضد کی لیکن بوڑھا بیٹے کے غم میں روتا تو جاتا تھا، پھر بھی یہی کہے جاتا کہ میں نے اسے اللہ کے واسطے پناہ دی ہے، میں نے اسے معاف کردیا ہے، تم اسے قتل نہیں کرسکتے۔
جب نوجوان بدو چلے گئے تو بوڑھے شیخ نے یہودی سے کہا: ’’لو تم یہ گھوڑا لو اور جس قدر تیزی سے بھاگ سکو یہاں سے نکل جائو۔ نخلستان سے باہر میں تمہاری جان کی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔‘‘ یہودی گھوڑے پر سوار ہوکر بھاگ گیا۔
یہ واقعہ سناکر ابا جان نے میری طرف دیکھا تو شرم کے مارے میرا سر جھک گیا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
٭٭٭