دوربین دس لاکھ کلومیٹر دوری پر موجود دمکتے جگنو کو بھی آسانی سے شناخت کرسکتی ہے، کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانے میں مددگار ثابت ہو گی، 2021میں مدار میں داخل کیا جائے گا
کیلیفورنیا(ایچ ایم نیوز) یہ اتنی حساس اور جدید ہے کہ دس لاکھ کلومیٹر دوری پر موجود دمکتے جگنو کو بھی آسانی سے شناخت کرسکتی ہے۔ اس جدید ترین خلاجی دوربین کو جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کا نام دیا گیا ہے جو ہبل خلائی دوربین کی جگہ لے گی اور کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھائے گی۔ناسا گزشتہ دو عشروں سے اس خلائی دوربین پر کام کررہا تھا اور کئی طرح کے تجربات جاری تھے۔ اس طرح جیمز ویب خلائی دوربین انسانی تاریخ کی سب سے طاقتور، پیچیدہ، جدید ترین اورمدار میں بھیجی جانے والی سب سے بڑی خلائی دوربین کا اعزاز بھی رکھتی ہے۔یہ ہبل خلائی دوربین سے سات گنا زائد روشنی مجتمع کرکے ہمیں کائنات کی بہترین تصویر دکھائے گی اور انفراریڈ (زیریں سرخ)روشنی دیکھنے کی بدولت کائنات کے دوردراز اجسام کی تصویر بھی لے سکے گا اور شاید ہم قدیم کائنات کی وہ جھلک بھی دیکھ سکے جس کا آج کوئی وجود ہی نہیں ہے اور وہ کب کی ختم ہوچکی ہے۔جیمزویب خلائی دوربین کا ابتدائی منصوبہ 1990 کے عشرے میں بنایا گیا تھا ۔ لیکن اس سفر میں کئی بار یہ منصوبہ ڈانوڈال رہا اور کئی تکنیکی رکاوٹوں کی وجہ سے بار بار تاخیر کا شکار رہا۔ 2007 میں اس کی تیاری کا باقاعدہ منصوبہ شروع ہوا۔ اب اس کے تمام پرزے جوڑدیئے گئے ہیں اور اسمبلی مکمل ہوچکی ہے۔ایک کرین کے ذریعے دوربین کے دو حصوں کو باہم جوڑا گیا ہے جس میں انتہائی درست اور حساس آئینے لگائے گئے ہیں۔ اس کی تیاری میں ہزاروں افراد اور ماہرین کی محنت شامل ہے ۔ ناسا کے علاوہ، یورپی خلائی ایجنسی، کینیڈا خلائی ایجنسی، نارتھ روپ گرومان اور کئی جامعات اور اداروں کے اشتراک سے اسے بنایا گیا ہے۔ سال 2021 میں اسے مدار میں بھیجا جائے گا۔