مائل خیر آبادی
ایک تھا بادشاہ۔ ہمارا تمہارا اللہ بادشاہ، آنکھوں کی دیکھی کہتے نہیں، کانوں کی سنی کہتے نہیں، مثال کے طور پر بیان کرتے ہیں کہ ایک بادشاہ تھا۔ بادشاہ چاہتا تھا کہ اس کے ملک میں سب لوگ آرام اور چین سے رہیں۔ نیکیاں پھیلیں اور برائیاں مٹیں، ملک میں چوری، ڈاکہ، لڑائی، دنگا اور لوٹ مار نہ ہو، کوئی کسی کو نہ ستائے کوئی ننگا بھوکا نہ رہے، نہ کوئی کسی کی کوئی چیز چھینے، نہ جھوٹ بولے اور نہ دھوکہ اور دھاندلی کر کے کسی کو ٹھگ لے۔
بادشاہ دن رات اسی فکر میں رہتا تھا مگر اس کے ملک میں برائیاں ختم نہ ہوئی تھیں۔ اس نے برائیوں کی روک تھام کے لیے بہت سی پولیس بھی رکھ لی تھی مگر پولیس کے سپاہی راتوں کو پہرہ تو دیتے مگر چوروں سے کہتے: ’’چوری کیے جائو۔‘‘
بادشاہ جب ساری تدبیرین کرکے ہار گیا تو اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ وہ دیر تک گڑ گڑاتا رہا۔ دعا سے فرصت پاکر بیٹھا ہی تھا کہ ایک سپاہی نے آکر کہا: ’’حضور! شیخ الہام صاحب تشریف لا رہے ہیں۔‘‘ بادشاہ نے اپنے استاد شیخ الہام صاحب کے آنے کی خبر سنی تو فوراً اٹھے اور ان کا استقبال کیا، بری عزت کے ساتھ لایا اور لونڈی غلاموں سمیت ان کی خاطر داری میں لگ گیا۔
شیخ الہام صاحب نے بادشاہ کو پریشان دیکھا تو وجہ پوچھی بادشاہ نے برائیوں کا رونا روتے ہوئے کہا:
’’سمجھ میں نہیں آتا کیسے نیکیاں پھیلیں اور برائی مٹیں؟‘‘
شیخ صاحب نے جواب دیا: ’’یہاں سے بہت دور ایک چھوٹا سا گائوں ہے ’’مومن پور‘‘ مومن پور میں ایک حکیم صاحب رہتے ہیں، ان کا نام حکیم ’’ایمان اللہ‘‘ ہے۔ ان کا ایک لڑکا ہے ’’عمل بیگ‘‘ اور ایک لڑکی ہے ’’عاقبت بیگم‘‘ اگر تم ان تینوں کو لا کر اپنے ملک میں بسائو تو تمہاری مراد پوری ہو جائے گی، ملک سے برائیاں مٹ جائیں گی اور نیکیاں پھیلیں گی۔‘‘ بادشاہ نے استاد شیخ الہام صاحب سے ایمان اللہ صاحب، عمل بیگ اور عاقبت بیگم کا اتا پتا پوچھا۔ اصطبل سے اپنا گھوڑا منگوایا، معمولی سا سامان لیا، گھوڑے پر سوار ہوا، استاد کو سلام کیا اور مومن پور کی طرف چل دیا۔
٭٭٭