تحریر : منزہ گل
ماں صرف ایک لفظ نہیں بلکہ یہ مہرومحبت اور ممتا کا ایک استعارہ ہے۔ جس کی ترجمانی شاید لفظوں نہ ہوسکے۔ وہ ہستی جوجاڑے میں خود گیلی جگہ پر سو جائیں مگر اپنے بچے کو خشک جگہ پر سلاتی ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جو اپنے بچے کی خاطر کئی کئی راتیں جاگتی ہے۔ کھانے پینے اور اپنے آرام و سکون کا احساس کیے بغیر صرف اسی کے لیے جیتی اور مرتی ہے۔ دن اور رات صرف اس کے پلنے بڑھنے کی فکر میں گزاردیتی ہے۔ جو اپنے منہ کا نوالہ منہ سے نکال کے اپنے بچے کو کھلاتی ہے اور اف تک نہیں کرتی۔ ماں تو وہ ہستی ہے جو اپنے بچے کے اوپر کسی مصیبت کو دیکھ کے خود ہی اس کے اوپر اپنی جان نچھاور کرکے جان جان آفریں کے نام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے والدین کے حقوق کی ادائیگی پر بہت زیادہ زور دیا۔ حدیث مبارکہ میں تو اس بات کی بھی وضاحت موجود ہے۔ رسول اللہ سلم نے ماں کے 3حق اور باپ کا ایک حق مقرر کیا۔
لوگ ماں سے محبت کے متعلق سوشل میڈیا پر پوسٹ تو شیئر کرتے ہیں مگر اپنی حقیقت میں ماں کے لیے ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ کیا ماں سے پیار صرف لوگوں کے چند لائیک تک محدود کر لیا گیا ہے۔ جس لمحے وہ پوسٹ کر رہے ہوتے ہیں تب دوسری طرف ماں بے چاری تکلیف میں تڑپ رہی ہوتی ہے مگر اس بدبخت کو احساس تک نہیں ہوتا۔ ماں کی قدر اس سے پوچھو جس کی ماں اس دنیا سے جا چکی ہے اگر ہم پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطا لعہ کریں تو ہمیں اس رشتے کی قدر سمجھ آئے۔
پیارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رضائی ماں حضرت حلیمہ سعدیہ کو دیکھا تو اپنی چادر مبارک بچھا کر اپنی ماں کو بٹھایا۔ یہاں ہماری حالت شاید اس سے کہیں مختلف ہے۔ پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہو کر ہم اپنے والدین خصوصا ماں کے ساتھ ناروا برتاﺅ رکھتے ہیں۔ کچھ تو بد بخت ایسے بھی ہیں کہ جو اپنے بچوں کی خاطر اپنی ممتا کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں۔ وہ ایک پل کو بھی نہیں سوچتے کہ جس جگہ وہ کھڑے ہیں کل وہی اس کا بیٹا بھی کھڑا ہوگا۔
یہ بات صرف والدہ کے لیے نہیں بلکہ والدین کے لیے کہی جائے تو زیادہ بہتر ہوگی۔ آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ انسان کے اعمال اس کے لیے وبال جان بنتے ہیں۔ دعاﺅں میں تاثیر نہیں رہی، سکون چھن گیا، معاش تنگ ہوگیا، روزگار ختم ہوگیا وغیرہ وغیرہ جانے ہر شخص اپنی بدقسمتی کا رونا روتا ہوا دکھائی دیتا ہے وجہ سیدھی سی ہے کہ ہم نے اپنے گھر سے اپنی رحمتوںکو ہی نکالا ہوا ہے۔ انہیں نہ خوش کیا ہوا ہے۔ اگر میں اسے یوں لکھوں تو شاید غلط نہ ہوگا کہ ہم نے اپنے سکون کو گھر سے نکال کر سکون کی تلاش میں بھاگتے پھر رہے ہیں۔ اپنی رحمت کو گھر میں زحمت سمجھ کر باہر رحمت ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ خدارا اپنی جنت کو ٹھوکر مت ماریں۔ سب کویہ جنت اور ایسے مواقعے نہیں ملتے۔
ورنہ ایک بات تو سنی ہی ہوگی، آج جو تم بہو بن کر اپنی ساس کے ساتھ کرو گی، یا بیٹے سے ان کے والدین کے ساتھ کرواﺅ گے وہی تمہاری اولاد تمہارے ساتھ کرے گی۔ دنیا میں ذلیل و خوار تو ہوگے ہی مگر ساتھ ہی آخرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ خدارا اپنے آج کو سنوار لیں۔ یہی وقت ہے کہ اپنے والدین کو اپنی رحمتوں کے لیے گھر میں بسا لیں۔ دعاﺅں کے اسباب پیدا کردیں۔ گھر جنت نظیر منظر پیش کرنے لگے گا۔
سوشل میڈیا نے ہمیں یقینا بہت سے لوگوں سے ملوا دیا، دوریوں کو قربت میں بدل دیا مگر گھر میں بیٹھے والدین سے ہمیں بے گانہ کردیا۔ کچھ پل کو سوچیں آپ اپنے بچوں کے بغیر ایک پل نہیں گزار سکتے تو پھر اپنے والدین کو اپنے بچوں سے کئی کئی دن تک دور رکھا ہوا ہے۔ آپ بڑے ضرور ہوگئے ہیں مگر ہیں تو آج بھی اپنے والدین کے بچے۔ انہیں ان کے بچے واپس لٹا دیں۔۔۔ یہ کام آپ کو ہی کرنا پڑے گا۔ کچھ نہیں دینا نہ دیں مگر ان سے ناراضی مت رکھیں، انہیںمسکرا کر ایک بار گلے سے لگائیں اور یہ احساس دلائیںکہ آپ ہی وہی ہو جسے انہوں نے بچپن میں پل پل دیکھ بھال کر کے کچھ خواب بنے تھے۔ ان کے خوابوں کو ٹوٹنے مت دیں۔ کچھ ہی دن باقی ہیں مگر ان دنوں کو اپنے والدین کے لیے جینے کا سبب بنا ئیں اور یہ بھی آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
کچھ زیادہ نہیں بس یہ سوچ لیں کہ آخری بار ان سے بات کیے، ان کے پاس بیٹھے، ان کی سنے ان کو سنائے اور ان سے مشورہ کیے کتنے دن بیت چکے۔ انہیں کے لیے چاہیے والدہ ہیں یا والد صرف اور صرف ان کے لیے آپ نے آخری بار کتنا وقت نکالا تھا۔ جب ان کے قدموں میں بیٹھ کر انہیں دبایا تھا۔ انہیں ایک معصوم بیٹے یا بیٹی کا احساس دلایا تھا۔ سوچیں اور پھر خود کو ملامت کرنے کے بجائے ابھی جاکر ان سے مل لیں۔یہ سب کرلیں۔ والدین تو والدین ہوتے ہیں۔ وہ کبھی آپ سے دور نہیں رہ سکتے۔ دوریاں تو آپ نے بڑھائی ہوئی ہیں۔ باتیں بہت مگر سب باتوں کا خلاصہ یہی ہے کہ اپنے والدین کے اچھے بچے بننے کی کوشش کریں، وہ بھی راضی اللہ بھی راضی اور پھر دنیا کی نعمت آپ کے لیے ہوں گی۔