My Blogger consists of a general news in which I upload articles from all types of news including science, technology, education, crime, how-to, business, health, lifestyle and fashion.

New User Gifts

Showing posts with label #tipusultan. Show all posts
Showing posts with label #tipusultan. Show all posts

شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی صد سالہ زندگی سے بہتر ہے



  (شیر میسور سلطان ٹیپو ؒ کے  دو سو اکہترویں یوم پیدائش پر تحریر)

امتیاز یٰسین فتح پور

ہندوستان پر بر طانوی تسلط کے خاتمہ،مذہب ،ملت اور آزادی کی خاطرتا دمِ آخر سر بکف رہنے والے فتح علی ٹیپو سلطان جرأت و بہادری،غیرت و حمیت،شجاعت وصلابت،حلیم و حیاء،محبت و شفقت،اور رحم و کرم کے ایسے لاز وال عہد کا نام ہے جسے تاریخ صرفِ نظر کر سکی نہ کھبی فراموش کر پائے گی۔1707میں اورنگ زیب کی وفات کے بعدہندوستان پر مغلیہ خاندان اور فرمانرواؤں کی حکومتی گرفت کمزور ہونے لگی۔1744تا1764تک فرانسیسیوں سے انگریزوں کی کرناٹک کے میدان میں جاری محاز آرائیوں میں کامیابیوں سے مشرقی ہندوستان میں انگریزوں کی طاقت بڑھنے لگی۔ہندوستان میں مغلیہ او راسلامی سلطنت کا سورج غروب ہونے کے بعد برطانوی سامراج اپنے مکمل اقتدار کے غلبہ اور حکومت کی راہ میں اگر کسی کو مزاحم سمجھتے تو وہ جنوبی  ہندوستان میں تین قوتیں نظام،مرہٹے اور سلطان حیدر علی (والد ٹیپو سلطان) تھے۔حیدر علی جذبہ ایمانی اور جرأت و فراست سے انگریزوں کی عملداری اور ریشہ دوانیاں ختم کرنا چاہتے تھے  اس لئے برطانوی سامراج انہیں اپنا زبر دست حریف تصور کرتے تھے۔عظیم سپہ سالار و جرنیل حیدر علی کو اپنے ہاں اولاد نرینہ کی کمی کا احساس انہیں ایک ولی کامل حضرت مستان ٹیپو کی درگاہ تک لے آیا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے فقیر کی دعاء کو شرفَ قبولیت بخشتے ہوئے امتِ مسلمہ کی راہنمائی اور اسلام کی ترویج و اسلام کے لئے حیدر علی کے ہاں منگلور (دہلی) کے مقا م پر 20نومبر 1759کو چاند سے بیٹے سے نوازا۔جنہیں دنیا آج شیر میسور کے نام سے جانتی ہے۔عظیم باپ نے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دی اور انہی تربیت کا خاصہ تھاکہ سلطان عملی زندگی میںعالم با عمل ،زیرک و دور اندیش،بہادر ،سیاسی و عسکری قیادت کے طور پر سامنے آئے۔آپ علم و ادب اور ثقافت کے دلدادہ تھے۔آپ کی قابلیت و اہلیت جانچتے ہوئے حیدر علی نے آپ کو صرف سترہ سال کی عمر ہی میں ریاست کے سفارتی و فوجی امور کا اختیار سونپ دیا تھا۔وہ ریاست کے اندرونی بد خواہوں(نظام،مرہٹے)اور بیرونی مخالفوںانگریزوں کے مقابلے میں اپنے باپ کے دستِ راست سمجھے جاتے تھے،انہوں نے ریاست میسور کے ساتھ انگریزوں کی جنگ 1767تا1769کم عمری میں دفاعی و عسکری امور کی قیادت کی اور بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے کارہائے نمایاں سر انجام دئیے۔جنگی میدان میں انگریزی افواج کو رگیدتے اور ناکوں چنے چبواتے ہوئے انہیں مدراس کے قلعہ تک پہنچا کر ذلت انگیز شکست سے دوچار کر دیا۔انہوں نے عالمی طاقتوں میں ریاست میسور کو جنوبی بھارت کی ایک ناقابلِ تسخیر قوت اور خود کوطاقت ور و کامیاب ریاست کے حکمران کے طور پر منوایا۔سلطان ٹیپوؒ اپنے باپ کی وفات کے بعد چوبیس دسمبر1782کومیسور کی حکمرانی پر مسند نشیں ہوئے۔اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے بہت سی تعمیری ،اصلاحی، معاشی،دفاعی اصلاحات کیںا ور معاملات درست کئے۔انہوں نے اپنی سلطنت کو مملکتِ خدا داد کا نام دیا۔آپ ؒ نے سوچا کہ برِصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ ملک سے برطانوی اخراج ہے۔ اس لئے انہوں نے اسلحہ سازی ،فوجی نظم و نسق اور دفاعی اصلاحات میں تاریخ ساز کام کیا۔۔وہ مرد، مجاہد اور مردِ میداں تھا۔فنوں سپہ گری کے ماہر ،حسنِ وتدبر،جاہت ورعب ا ور جنگی مہارت کے تذکرے آپ ؒ کے دشمن بھی کرتے۔با ہمت و حوصلہ مند  مسلمان تھے۔آپؒ بھارت میں پہلے راکٹ سازی کے موجد مانے جاتے ہیں،سرنگا پٹم کی عظیم تاریخی مسجدِ اعلیٰ کی تعمیر کا سہرا آپؒ کے سر ہے۔ان کی کامیاب اور سحر انگیز مہمات میں لوگوں کو معجزات کا گماں ہونے لگتا۔شرعی عدالتوں کا قیام اور غیر اخلاقی و غیر شرعی،معیوب رسومات کا خاتمہ اور منشیات کو ممنوع قرار دیا۔ ٹیپو سلطانؒ نے اپنے باپ کی طرح برِ صغیر کے عوام کو غیر ملکی تسلط سے نجات دلانے کے لئے سنجیدہ و عملی اقدامات کئے۔ انگریزی سامراج کو ٹف ٹائم دیا۔ اور مضبوط مزاحم برقرار رکھی۔میسور کے آخری معرکے میں آپ کے جرنیلوں ننگِ وطن،ننگِ دیں میر جعفر،میر صادق کی غداری سے جب آپ کے قلعہ سرنگا پٹم کے داوازے کھول دئئے گئے اور اسلحہ بارود کو آگ لگا دی گئی ۔ اپنے ساتھیوں کی کمزور ہوتی مزاحمت دیکھی تو چشم، فلک نے دیکھا کہ ریاست کا حکمران خود تلوار لیکر اپنے وفادار ساتھیوں کے ساتھ جنگ کے کارزار میں مکار دشمن کے خلاف نبرد آزما ہے۔شکست کے واضح آثار میں فرانسیسی افیسر نے آپ ؒ کو جان بچا کر بھاگ جانے کا مشورہ دیا۔مگر آپ کے خون میں یہ شامل تھا نہ غیرت کو گوارا۔اس نے شکست تسلیم کر کے سرنڈر کرنے کی ہزیمت ،بزدلی دکھانے او بزدلی    کے داغ کی بجائے اخلاقی طور پر ایک فاتح کی حثیت سے جان دینے کو ترجیح دی۔ اس موقع پر آپؒ نے شہرہ آفاق اور تا ریخی ٰ جملہ کہا ’’گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘ آپ انگریزی فوج کے خلاف اپنے ساتھیوں کے ساتھ لڑتے رہنے کے دوران 4مئی1799کو جامِ شہادت نوش کر گئے۔آپ ساتھیوں کے ساتھ زخمی حالت میں میدان جنگ میں پڑے تھے تو ایک انگریزی سپاہی نے قریب آ کر طنزیہ جملہ کہا تو آپ نے تلوار کا وار کر کے اسے ڈھیر کر دیا پھر آپ کی شہادت کے کئی منٹوں بعد تک برطانوی افواج کو آپ کے قریب آنے کی ہمت نہ ہوئی۔مرنے کے بعد آپ کی تلوار آپ کے ہاتھوں میں مضبوطی سے جکھڑی ہوئی تھی۔شہادت کے وقت سلطان کی عمر پچاس سال تھی۔اس مردِ میدان نے اپنی زندگی کے پینتیس سال ہندوستان کو غلامی کی زنجیروں جھکڑنے والے غیر ملکی طاغوتی قوتوں اور برطانوی سامراج کے خلاف بر سرَ پیکار رہنے میں گذاری۔اپنے عہد کے ناساز حالات میں ٹیپو ؒ کی اصلاحات اور کارناموں سے ان کا موازنہ مشرق میں صلاح الدین ایوبیؒ اور مغرب میں نپولین بونا پارٹ سے کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔14اگست 1947میں پاکستان کا قیام در اصل ٹیپو سلطانؒ کی کاوشوں و مقاصد کا ہی تسلسل ہے جن کی شہادت نے انگیزوں کو پیغام دیا تھا میرے بعد تم زیادہ دیر یہاں قدم جما نہ سکو گے۔ آج اس مرد ِمجاہدکادو سو اکہترواں یومِولادت ہے۔ 



alibaba

web

amazon

Followers

Website Search

Tweet Corornavirus

Please Subscribe My Chennal

Sub Ki News

 
‎Sub Ki News سب کی نیوز‎
Public group · 1 member
Join Group
 
Nasrullah Nasir . Powered by Blogger.

live track

Brave Girl

Popular Posts

Total Pageviews

Chapter 8. ILLUSTRATOR Shape Builder & Pathfinder-1

Chapter 10. Illustrator Drawing & Refining Paths-1

Labels