ضیاء الرحمن غیور
جمیلہ اپنے نام کی طرح ہی خوبصورت تھی۔ اس کے سیاہ نرم و ملائم بال ذرا سے ہوا کے چھونکے سے چہرے پر بکھر کر اس کو اور حسین بنا دیتے تھے۔ اس کی ماں نے اس کے چہرے پر پھیلے ہوئے بالوں کو پیار سے سمیٹا۔ اس وقت وہ اس طرح اس کی گود میں لیٹی ہوئی تھی۔ جیسے وہ دنیا و مافیا سے بے خبر ہو۔ پھر کسی خیال سے چونکہ کر اس نے ایک جھر جھری لی اور مزید ماں کی گود میں دبک گئی۔ اس کے جھر جھری لینے پر ماں نے اسے اس طرح بھیچ لیا جیسے کہیں کوئی اس کی بچی کو اس سے چھین نہ لے۔ وہ سوچ رہی تھی اس کا باپ جہاد کے لیے پتہ نہیں کہاں گیا ہے پتہ نہیں زندہ بھی ہے یا شہید ہو گیا۔ اس کی یہ امانت جمیلہ اس کی گود میں لیٹی ہے اس کو بچانے کے لیے میں مسلسل سفر میں ہوں۔ مگر اس آگ و خون کے دریا میں میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اور نہ اس بچی کی زندگی کی کوئی ضمانت ہے۔ اچانک زور دار دھماکوں سے زمین لرزنے لگی۔ لڑکی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی اور زور سے چیخی۔ ابا آئو ان آوازوں سے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے جمیلہ کی ماں نے ارد گرد دیکھا۔ عورتیں بھی اپنے بچوں کو سینوں سے چمٹائے زمین پر خو فزدہ لیٹی تھیں۔ ماں نے بیٹھی کو پیار سے چمکارا۔ بیٹھی جمیلہ ہماری مدد تو صرف اللہ کر سکتا ہے اور کر رہا ہے۔ جمیلہ نے کہا ماں۔ ہماری مدد کو کوئی کیوں نہیں آتا؟ ماں نے کہا بیٹا تم اکیلی تو نہیں دنیا کے مجاہد تمہارے ساتھ ہیں۔ بمباری ذرا تھم جائے تو ہم سے محبت کرنے والوں کے تمہیں وہ معصوم چہرے دکھلائوں گی جو ہماری مدد کرنے آئے تھے اور اپنے ہی خون میں نہا کر ابدی نیند سو گئے۔ بمباری تھمی تو یہ قافلہ غار میں سے نکلا۔ خواتین اور بچوں کے ساتھ کچھ مرد بھی تھے جو راہنمائی کرتے تھے۔ جب یہ قافلہ چند بے گور و کفن لاشوں کے پاس سے گزرا تو جمیلہ کی ماں بے چینی سے آگے بڑھی مگر اسے جمیلہ کا باپ کہیں نظر نہیں آیا۔ اس نے جمیلہ کو اپنے قریب بلایا اور ایک لاش کی طرف اشارہ کرکے کہا بیٹی اس چمکتے چاند جیسے چہرے کو دیکھ رہی ہو۔ یہ عرب مجاہد ہے جو اپنی آسائشیں، سہولتیں دوست رشتے دار چھوڑ کر اس دکھ بھرے افغانستان کے پہاڑوں میں اللہ کی راہ میں آیا تھا اور شہادت پا گیا پھر ایک نوجوان کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔ یہ دیکھو، اس پاکستانی کو دیکھو۔ یہ میرا بچہ مر گیا ہے نا؟ مگر یہ مر نہیں سکتا، شہید کبھی نہیں مرتے۔ یہ ہمیشہ زندہ رہے گا جمیلہ نے بے بسی سے کہا، ماں ہمارا دشمن کون ہے؟ ماں نے کہا بیٹا اللہ کے دین کا دشمن ہمارا دشمن ہے ماں ہمارا دوست کون ہے؟ ہمارا آخری سہارا اللہ ہے اور ہمارے دوست مجاہد ہیں۔ یہ قافلہ بڑھتا رہا اور اپنی بقاء کے لیے چھپتا رہا۔ ایک دن یہ قافلہ سفر میں تھا۔ اچانک بمباری شروع ہو گئی۔ چھپنے کے لیے جگہ نہیں تھی ایک پہاڑ کے دامن میں پناہ لی لیکن ارد گرد اڑنے والے چھوٹے بڑے پتھروں اور گردو غبار نے ہر ایک کو ڈھک دیا۔ قافلے کے بچ جانے والوں نے اپنے ارد گرد نگاہ دالی تو بمباری میں زیادہ تر لوگ کام آگئے تھے جمیلہ کی ماں نے ہوش آنے کے بعد جب اٹھنے کی کوشش کی تو درد کے مارے اس کی چیخ نکل گئی۔ اس نے اپنے بدن کو ٹٹولہ تو اس کا بدن بہت زخمی تھا مگر بیٹی کا خیال آتے ہی وہ تمام تکلیفوں کو بھول گئی اس نے ارد گرد دیکھا۔ تھوڑے فاصلے پر جمیلہ سو رہی تھی وہ اپنے بدن کو گھسیٹتی ہوئی آگے بڑھی۔ آواز دی جمیلہ، مگر جمیلہ خاموش رہی۔ ماں نے قریب ہو کر اپنی بیٹی کے چہرے کو دیکھا تو اس کے چہرے پر وہی ابدی مسکراہٹ نظر آئی جو عرب پاکستانی اور دیگر شہیدوں کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی۔ ماں نے اپنے ہاتھ آگے بڑھا کر بچی کو اپنی آغوش میں سمیٹ لینا چاہا مگر اس کی ہمت نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ایک دفعہ وہ پھر بے ہوش ہو گئی۔ جب اسے دوبارہ ہوش آیا تو اسے قافلے والوں نے بتایا کہ ہم نے تمام شہیدوں کو دفن کر دیا ہے۔ جمیلہ کی ماں خاموشی سے اٹھی۔ بچی کی قبر پر گئی اور کافی دیر تک خاموشی سے آنسو بہاتی رہی۔ پھر اس نے قبر پر چہرے کی طرف اس طرح ہاتھ پھیرا جیسے وہ جمیلہ کے چہرے پر سے بال ہٹا رہی ہو۔ پھر اٹھی اور ایک طرف کو چل دی۔ قافلے کی عورتوں نے کہا جمیلہ کی ماں کہاں جارہی ہو؟ ہم سرحد کی طرف جا رہے ہیں جمیلہ کی ماں نے کہا۔ اپنی امانتوں کی حفاظت کرو۔ میں نے اپنا سب کچھ اپنے وطن پر نچھاور کر دیا۔ میں تم پر بوجھ نہیں بننا چاہتی۔ میری منزل کا کوئی پتہ نہیں میں اللہ کی راہ کی مسافر ہوں اور اللہ کی راہ میں یہ سفر جاری رہے گا۔ خدا حافظ
قافلہ دور تک ایک لٹی ہوئی افغان ماں کے پائوں سے اڑتے ہوئے غبار کو دیکھتا رہا جب اس گردو غبار نے اس ماں کو ڈھانپ لیا تو قافلے والوں نے اس گرد و غبار کی طرف ہاتھ اٹھا کر خدا حافظ کہا اور اپنی منزل کی طرف چل دیئے۔
٭٭٭