My Blogger consists of a general news in which I upload articles from all types of news including science, technology, education, crime, how-to, business, health, lifestyle and fashion.

New User Gifts

Columns

اسلامی جمہوریہ پاکستان قومی زبان اردو


تحریر :علی رضا رانا ،حیدرآباد سندھ


زبان کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتی ہے جو قومیں اپنی زبان ، تہذیب وثقافت اور ورثے کا خیال رکھتی ہے ، وہی دنیا میں اعلی مقام حاصل کرتی ہے ، مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایسا ممکن نہیں ہوا۔ اردو پاکستان کی قومی زبان اور دنیا میں بولی جانے والی پہلی پانچ زبانوں میں سے ایک ہے ۔ مگر اس زبان کے ساتھ اپنے ہی لوگ سو تیلوں جیسا سلوک کر رہے ہیں اور اگر یہی صورت حال بد ستور قائم رہی تو زبان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ اس اردو دشمنی میں عام آدمی عمومی اور ہمارا اشرفیہ طبقہ خصوصی کردار ادا کرر ہاہے ۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان میں اردو کو بحیثیت قومی زبان رائج کرنا چاہتے تھے ۔ یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے ، کیوں کہ تحریک پاکستان کے دوران بھی اور قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اردو کے قومی زبان کی حیثیت سے نفاذ پر ہمیشہ زور دیا تھا ۔یہ موضوع اپنے اندر تاریخی طور پر بڑی وسعت رکھتا ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ نہ صرف ہندوستان کے تاریخی پس منظر میں بحیثیت زبان اردو کا جائزہ لیا جائے بلکہ یہ دیکھا جائے کہ اردو دشمنی نے کس طرح متحد ہ ہندستان کے مسلمانوں کی ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کے لئے ذہن سازی کی۔ اردو زبان کی اہمیت کیا ہے اور اس زبان کا قومی زبان کے طور پر نفاذ کیوں ضروری ہے ۔ اس سوال کا جواب ہمیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ہی کی ایک تقریر کے اقتباس سے ملتا ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ " کوئی رسائی حاصل نہیں ہوسکی جب تک  بغیر ملکی سا  لمیت اور فکری یکجہتی تک رسائی نہیں جاتی"۔  
زبان کسی قوم کے افتخار کا نشان ہوتی ہے ۔ زبان صرف اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ کسی قوم کی تہذیبی شناخت اور اس کی شخصیتی  ترجمان ہوتی ہے۔ کسی بھی قوم کی زبان کا عملی و ادبی سرمایہ اس قوم کی ثقافتی ،تہذیبی اور ملی امنگوں اور کامیابیوں کا عکاس ہوتی ہے۔ اس لئے قومی زبان سے انحراف اور گریز کسی صور ت میں بھی جائز نہیں ہے۔ قومی زبان قومی شعور اور فکرو تخیل کی امین ہوتی ہے اور کوئی قوم اپنے آباو اجداد کی روشنی طبع سے صرف نظر کرکے خود آگاہی کامرحلہ طے نہیں کرسکتی۔ اردو صرف تاریخی سرمایہ نہیں بلکہ ایک جدید ترین ترقی یافتہ زبان ہے۔ اس ملک میںلچک اوروسعت موجود ہے۔ گزشتہ چار سو سال میں اس زبان نے مقامی اور پردیسی زبانوں کے لفظ اپنے معنوں ، مزاج اور لہجے میں ڈھال کر قبول کیے ہیں اور اپنے اندر ضم کیے ہیں۔ گویا کہ یہ زبان کائنات کی طرح مسلسل پھیلائو کی طرف گامزن ہے، اس میں جدید علوم و فنون کے مکمل ابلاغ کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ اس لیے اردو کو بحیثیت قومی زبان کے قبول کرنا ہماری قومی ضرور ت ہیں۔ آزاد اور خو دمختار قوموں کا یہ شیوہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی قومی زبان کے فروغ کے لیے مسلسل جدو جہد کرتی رہتی ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کے تناظر میں اردو کی اہمیت اور ضرورت کے لئے اپنی زندگی کے آخری دورمیں یعنی 1934 سے 1948 تک وہ مسلسل اردو کی وکالت کرتے رہے۔ 1940 میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد انہوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ "پاکستان کی قومی زبان ہوگی کیونکہ اردو ہی برصغیر کی واحد زبان ہے جس میں نہ صرف مذہب ثقافت اور ادب کے حوالے سے مسلمانانِ برصغیر کا عظیم عملی سرمایہ محفوظ ہے بلکہ یہ رابطہ کی زبان بھی ہے، اس لیے ضروری ہوگا کہ اسے پاکستان کی قومی زبان کی حیثیت دی جائے"۔
اب ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ سرکاری و نجی اداروں میں اردو کی اہمیت کے حوالے سے کاغذاتی کاروائی اور استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے ، سرکاری اسکولوں کی طرح نجی اسکولوں میں بھی اردو اور اردو کی کتابوں کو اہمیت دینی ہوگی۔ کیونکہ قوم کا مستقبل اپنی قومی شناخت ہی سے جوڑا ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نجی اسکولوں میں مشکل انگلش اور اردو کتابیں پڑھانے سے بہتر ہے کہ انتظامیہ سندھ ٹیکسٹ کی کتابوں کا استعمال کرئے اور بچوں کو بہتر مستقل اور روشن خیال سوچ اپنانے کا موقع فراہم کرے۔ کیونکہ تاریخ اور تاریخ دانی کے حوالہ جات قومی اسباق میں ہی موجو ہوتے ہیں نہ کہ نجی اور خواہش پر مبنی کتابوں میں ۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ عدالتی کاروائی ،محکمہ ڈاک اوردیگر سرکاری محکمے خودکو اردو کی طرف راغب کریں اور سرکاری طور پرقائد اعظم محمد علی جناح کے واضح حکم کے بعد اب عدالتی حکم کے مطابق آئین پاکستان کی روشنی میں اردو کو مکمل طور پر پر رائج کریں ۔ ملک پاکستا ن کی تعمیر کو 75 سال ہوگئے ہیں مگر ہم آج بھی بنیادی طورپر کمزور ہیں کیونکہ ہم نے ادبی قومی زبان کو اہمیت نہیں دی اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم اپنی شناخت بھی تباہ کر بیٹھیں گے۔

________________________________________________

انسانیت کا درد

از قلم: سماویہ وحید

کشمیر ،برما،شام ،عراق ،فلسطین اور تو اور بوسنیا اب بھی جل ریے ہیں اب تو کافروں کی بے رحمی کے خلاف لکھ لکھ کر قلم بھی ٹوٹ گئے ہیں, لیکن امت محمدیہ صل اللّٰہ علیہ وسلم اب بھی بیدار نہیں ھوئی..... کیا یہ اہل ایمان کی بد بختی ہے, یا یہ ایمان کی کمزوری ھے کہ وہ اب بھی غیر مسلموں کے خلاف نہیں اٹھتے.....

        زرا پڑھتے چلیے! کشمیر میں کرفیو لگے کتنا عر صہ گزر چکا ہے؟؟ وہاں بھوک و افلاس سے ہی لوگ مرنے لگے ہیں, تو آپ ان درندوں سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ کرفیو ختم کر دیں گے ہرگز نہیں وہ تو انہیں مجبور کر رہیں کہ کرفیو جب ختم ہوگا کہ جب تم بھارت کو اپنا ملک تسلیم کر لو گے, جب کہ اس کے بر عکس اہلِ کشمیر, پاک وطن کی محبت میں دیوانے ہیں.....

     اب زرا بتایئے! کیا پاکستان کے اندر اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ بھارت سے اپنے کشمیر کا دفاع کر سکے؟؟ کیا پاکستان ایٹمی قوت نہیں ہے؟؟؟ کیا پاکستان اسلام کے سائے میں جینے والا نہیں ہے؟؟ جب حقیقی معنوں میں آپ اسلام کو تھامنے والے ہیں تو کافر کے سامنے ڈگمگا نہیں سکتے.

    دراصل بات مختصر ہے دلوں میں نور کی کمی ہے نفسانفسی ہے اسی عالم میں نہ ہم کسی کے ہیں اور نہ وہ ہمارے ہیں....

    زرا پڑھتے چلیے! برما، شام کے حالات کس قدر سنگین ہیں, کس طرح تاریک میں ڈوبے ہوئے ہیں, ماؤوں کے سامنے بچوں کو انگاروں پر لیٹایا جا رہا ہے, معصوم پھولوں کی چیخوں سے عرش تک ہل رہا ہے.....کیا ماووں پر قیامت نہیں ٹوٹ رہی ہوگی؟؟؟ کیا مائیں اپنے بچوں کو مرتا دیکھ کر خوشی کا جشن منارہی ہونگی؟؟؟ کیا وہ جیتے جی مر نہیں رہی ہونگی؟؟؟


     اب زرا بتائیں! کیا دنیا میں اسلام  کے کہلوانے والے زمین میں دفن ہوگئے ہیں؟؟؟ کیا یہ انسانیت کا درد نہیں ہے؟؟؟ کیاجو  معصوم سولی پر چڑھائے جا رہے ہیں اسلام کے بچے نہیں ہیں؟؟؟ زرا اپنے اوپر رکھ کر دیکھیں اگر تمہارے سامنے  تمہاری ہی اولاد کو کوئی گالی دے دیں تو تم کیسے بھڑک اٹھتے ہو.... ادھر تو زندگی اور موت کا سوال ہے.....

      اب بتائیے! کیا آپ امت محمدی صہ نہیں ہیں؟؟ کیا آپ مسلمان کہلوانے والے نہیں ہیں؟؟؟

    اب زرا پڑھتے چلیے! فلسطین ،عراق  بوسنیا میں اس قدر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں کہ زمین لرز رہی ہے, ہر طرف قیامت کا سما ہے, اہل ایمان کو جلتی ہوئی آگ پر بھنا جارہا ہے, ہر طرف خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں, کیا ہم اب بھی انسانیت کو جلتا دیکھ کر خاموش رہ سکتے ہیں؟؟


     اب زرا بتائیں! کیا نبی صل اللّٰہ علیہ وسلم نے  نہیں فرمایا تھا کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں؟؟؟ کیا نبی صہ کا  مطلب یہ نہ تھا کہ مسلمان ایک دوسرے کا درد محسوس کرنے والے کا نام ہے؟؟ کیا اس دنیا میں اہل ایمان کی کمی ہوگئ ہے؟؟ کیا اتحاد و یکجحتی میں کوئی طاقت نہیں ہے؟؟ اگر طاقت ہے تو کیوں کلمہ گو یکجا ہو کر دنیا کے نقشے پر نمودار نہیں ہوتے؟؟ کیوں غفلت میں ڈوبے پڑے ہیں؟؟

     کیوں کہ دراصل بات مختصر ہے بات صرف سمجھنے کی ہے، ہم میں ایمان کی کمی ہے ہم میں نور کی کرن باقی نہیں بچی ہمیں دین سے کوئی لگاؤ نہیں ہے, ہم نے صرف اسلام نام کا لبادہ اوڑھا ہے, اندر سے ہم بھی کافروں سے کم نہیں ہیں, جو کافر کرتے ہیں وہ ہم بھی کرتے ہیں. یہ ظاہری مسلمان کا چہرہ دیکھا کر ہم دھوکہ بازی کر رہے ہیں جب کہ رب تعالی تو خوب جانتا ہے....


   میرے عزیزوں! کیا ہماری زبانیں گونگی ہیں؟؟ ہماری آنکھیں اندھی ہیں, ہم ہاتھ , پیر سے معذور ہیں کیا؟.   ہم اب بھی کیوں خاموش ہیں یہ وقت خاموشی کا نہیں ہے بلکہ اٹھ کھڑے ہونے کا ہے , اعلان جنگ کرنے کا ہے اگر آج ہم اعلان جنگ کریں گے تو دنیا کی کوئ طاقت ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی کیوں کہ قرآن کو تھامنے والے کبھی نہیں ہارتے. اے مسلمانوں! اٹھو اور اینٹ سے اینٹ بجا دو تاکہ کافروں میں مزید ظلم و ستم کرنے کی ہمت نہ بچے اور آنے والی نسلیں ہماری کامیابی کے گیت گائے نہ کہ غلامی اور بربادی کے.....


    اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور  کلمہ گو کو کافروں کے شر سے بچا..... آمین

_________________

 ماہنامہ نو عمر ڈائجسٹ شمارہ جنوری 2021

تبصرہ نگار: مریم صدیقی، کراچی

سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں بچوں کی نظریں موبائل، ٹی وی اور کمپیوٹر کی اسکرین سے ہٹنے کا نام نہیں لیتیں۔ صبح دوپہر شام حتی کہ کھانا بھی اسکرین کے سامنے ہی کھایا جاتا ہے۔ کتب بینی کی بات کریں تو اس کا تعلق صرف نصابی کتب تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ والدین بھی اس سلسلے میں کوئی خاص جدو جہد کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ اسی دور میں کتب بینی کے فروغ اور بچوں کو دلچسپی کا سامان فراہم کرنے کا بیڑا اٹھایا نو عمر ڈائجسٹ کی انتظامیہ و مجلس ادارت نے۔ مدیر ماہنامہ نو عمر ڈائجسٹ محترم کاوش صدیقی صاحب کی اس خوب صورت سی کوشش کو جتنا سراہا جائے کم ہے۔ 
دیدہ زیب سرورق لیے سال نو کا تحفہ سال کے اختتام پر ہی نو عمر ڈائجسٹ کی صورت میں پیش کیا گیا۔ جنوری 2021 کا پہلا شمارہ پوری آب و تاب کے ساتھ سال نو کی مبارکباد اور خوشیاں لیے ہمارے سامنے موجود ہے۔ ڈائجسٹ کے ابتدائی صفحات میں نو عمر کی مجلس ادارت کے اسمائے گرامی جگمگا رہے ہیں۔ نیز انہی صفحات پر فہرست کو خوب صورتی سے ترتیب دیا گیا ہے۔ نو عمر کے پہلے شمارے میں کم و بیش 15 کہانیاں شامل ہیں جن میں ایک مکمل اور ایک قسط وار ناول بھی شاملِ اشاعت ہے۔ اس کے علاوہ کئی مزید دلچسپ سلسلے ہیں جن پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔ 
فہرست کے بعد نوید مرزا صاحب کے قلم سے لکھی گئی حمد و ثنا اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باقاعدہ آغاز کیا گیا ہے۔ نیز محترم کاوش صدیقی کی جانب سے لکھا گیا اداریہ بھی انہی صفحات پر جلوہ افروز ہے۔ اداریے میں ڈائجسٹ کا مختصر تعارف اور مزاج کے حوالے سے کاوش صدیقی صاحب لکھتے ہیں کہ،” یہ ٹین ایجر بچوں کے لیے ہے جو بچوں کی کہانیوں سے آگے کچھ پڑھنا چاہتے ہیں، آگے لکھنا چاہتے ہیں“۔ یعنی ایسے بچے جنہیں ایڈوینچر، سسپنس اور جاسوسی کہانیاں لکھنے اور پڑھنے کا شوق ہے وہ بچے اس ڈائجسٹ کا مطالعہ ضرور کریں۔ 
کہانیوں کی بات کریں تو پہلی کہانی ”مسجد دادی جان“ کاوش صدیقی صاحب کی ہی ایک دلچسپ اور سبق آموز کہانی ہے۔ جیسے کہ نام سے ہی کہانی کی انفرادیت عیاں ہورہی ہے۔ کاوش صدیقی صاحب کی کہانیاں ہمیشہ منفرد انداز و موضوع لیے قاری کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑ جاتی ہیں۔ وہ سادہ سے انداز میں گہری بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ مسجد دادی جان بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے جس میں ایک مسجد کی تعمیر کی روداد رقم کی گئی ہے۔ کیسے ایک مسجد کو تعمیر کرنے میں ہر شخص نے روپے پیسے کی پروا نہ کرتے ہوئے عقیدت و محبت سے ایک ایک اینٹ لا کر مسجد کی بنیاد رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ہر شخص نے اپنی ہمت اور استطاعت سے بڑھ کر کام کیا اور یوں سب نے متحد ہوکر ایک خوب صورت مسجد کی تعمیر مکمل کی۔ 
نو عمر جاسوس بچوں کے معروف ادیب ابن آس محمد کے قلم سے لکھا گیا قسط وار ناول ہے۔ جس کی پہلی قسط جنوری کے شمارے میں شامل ہے۔ مزاح اور سسپنس کا عمدہ امتزاج لیے یہ ناول ٹین ایجر بچوں کو یقیناً پسند آئے گا۔ ناول کے ابتدا میں ابن آس محمد نے قارئین کے لیے ایک مختصر خط بھی تحریر کیا ہے۔ 
”اجلا من، اجلا تن“ مصنفہ بینا صدیقی جو بچوں کی معروف ادیبہ ہیں نے لکھی ہے۔ ایک ایسی کہانی جو آغاز سے اختتام تک قاری کو باندھے رکھتی ہے۔ احمر، شہزاد اور ندا کی کہانی جن کی نظر میں ظاہری صفائی کی تو بہت اہمیت تھی لیکن وہ اپنے باطن پر توجہ نہ دیتے تھے اور اپنی ملازمہ شہناز کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ اپنائے رکھتے تھے۔ بینا صدیقی نے کہانی میں کرداروں کے ذریعے ایک اہم سبق پڑھنے والوں کو دیا کہ جتنی اہم تن یعنی ظاہری جسم اور کپڑوں کی صاف صفائی اتنی ہی زیادہ اہم انسان کے باطن، اس کی نیت اور اس کے دل کا صاف رہنا بھی ہے۔ 
معروف بچوں کے ادیب محمد ندیم اختر بھی اپنی کہانی” بھوت بنگلے کی آزادی“ کے ساتھ نو عمر کے صفحات پر جلوہ گر ہیں۔ یہ بچوں کے ایک جاسوسی گروہ کی کہانی ہے جو امریکا میں ہونے والی ایک بینک ڈکیتی کا سراغ لگاتے ہیں اور ڈکیتی میں ملوث افراد کو پکڑوانے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔ 
”جب میں بہت ہنسا“ ایک نہایت دلچسپ سلسلہ جس کی جمع و ترتیب کا کام سر انجام دے رہے ہیں ادیب اختر سردار چودھری صاحب۔ اس سلسلے میں مختلف علمی و ادبی شخصیات اپنی زندگی کے مزاحیہ واقعات سناتے نظر آئیں گے۔ 
آدھی ملاقات قارئین اور مدیر کے درمیان خطوط کے تبادلے کا ایک دلچسپ اور میرا پسندیدہ سلسلہ ہے۔ قارئین کے تحریروں پر کیے گئے تبصرے و تنقید سے مصنفین کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے اور قاری کی پسند ناپسند کا بھی پتا چلتا رہتا ہے۔ جنوری کے شمارے میں قارئین کے تبصرے تو شامل نہیں ہیں لیکن کاوش صدیقی صاحب نے نو عمر کے مصنفین کے نام خوب صورت پیغامات تحریر کیے ہیں۔ 
ڈائجسٹ کے آخری صفحات جنہیں ادارے نے گولڈن پیجز قرار دیا ہے کیوں کہ ان آخری صفحات کو ہر ماہ ایک مکمل ناول سے مزین کیا جائے گا۔ ہر ماہ ایک مکمل ناول پڑھنا یقینا قارئین کے لیے دلچسپ تجربہ ہوگا۔ جنوری کے شمارے میں گولڈن پیجز کی زینت بننے والا مکمل ناول ”راجا موتی“ مصنف علی اکمل تصور نے لکھا ہے۔ یہ ناول ان جانوروں کی کہانی پر مبنی ہے جنہیں انسانوں نے انتہائی کرب ناک حالات سے دوچار کیا۔ 

اس کے علاوہ دیگر مصنفین کی کہانیاںبھی شامل اشاعت ہیں۔ احمد رضا انصاری، محمد توصیف ملک، معروف اھمد چشتی، روہنسن سیموئیل گل اور عاطر شاہین بھی اپنی دلچسپ اور عمدہ کہانیوں کے ساتھ پہلے شمارے میں شامل ہیں۔ ڈائجسٹ کو جس عرق ریزی اور جانفشانی سے ترتیب دیا گیا ہے نو عمر کی پوری ٹیم داد کی مستحق ہے۔ قیمت کی بات کریں تو فی شمارہ 100/-پاکستانی روپے بے حد مناسب قیمت ہے۔کتب بینی اور مطالعے کو فروغ دینے کے لیے تمام والدین اور اسکول منتظمین کو چاہیے کہ وہ اس ڈائجسٹ کو اپنی لائیبریری کی زینت ضرور بنائیں۔ بچوں کو پڑھنے کے لیے ضرور دیں۔

__________________________________________________

نیا سال اور مسلم معاشرہ


 2020کے ختم ہونے میں اور2021کے شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں۔اس موقع پر نوجوان طبقہ کچھ زیادہ ہی پرجوش نظر آرہا ہے۔کہیں کارڈز کے تبادلے ہورہے ہیں اور کہیں فون کرکے مبارکباد دی جارہی ہے نئے سال کے موقع پر پر تکلف جشن منانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔غیرمسلم بڑے زور شور سے اس کو منانے کی تیاری کر رہے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے کے اکثر نوجوان ان غیر مسلموں سے پیچھے نہیںہیں۔مسلم اور غیر مسلم میں کیا فرق رہ گیا ہے کہ یہ نیا سال منانے کے تقاضے کو بھی بھول گئے ہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کبھی کسی غیر مسلم کو مسلمانوں کے تہوار کو اتنے جوش وخروش سے مناتے دیکھا ہے؟؟؟نئے سال کی آم آمد ہے ہر شخص نئے سال کاجشن منانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔مہینہ بھر کی کمائی کو دوسرے شہر جاکرضائع کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔رقص وسرور کی محفلیں سجانے کی تیاریاں عروج پرہیں۔شراب،شباب اور کباب جمع کئے جارہے ہیں۔ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں نئے سال کو خوش آمدیدکہناچاہتا ہے۔عیسوی سال کی خوشی منانے والے 
مسلمان یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ مسلمانوں کا نیا سال تو محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے۔کیا مسلمان رمضان المبارک،عیدالفطراور عیدالاضحی قمری مہینے کے ساتھ نہیں مناتے۔جی ہاں!مناتے ہیں تو پھر آج انہیں کیا ہو گیا کہ شراب کی بوتلیں اٹھائے،چرس کے سگریٹ سلگائے، رقص کی مستی میں ہاتھ ُاٹھائے جھومتے گاتے نظر آرہے ہیں انہیں کس بات کی خوشی ہے۔کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ ان کی زندگی کا ایک سال کم ہوگیاہے اور دن بدن قبر کے نزدیک ہو رہے ہیں اس سے بے خبر کیوں ہیں۔کیا ان کی انکھوں پر عشق ومستی کی پٹی بندھی ہوئی ہے جو انہیں کچھ اور دیکھنے ہی نہیں دیتی۔آنے والا سال عیسوی ہو یا قمری اس کے بارے میں تھوڑا وقت نکال کرسوچ لیا کریں۔ ہرآنے والا سال امیدیں اور توقعات لیکرآتا پے اور انسان کے عزم کوپھر سے جوان کر دیتا ہے کہ جو کام پچھلے سال ادھورے رہ گئے تھے انہیں اس سال مکمل کرنا ہے۔نیا سال شروع ہوتے ہی نجومی بھی آنے والے حالات و واقعات بتانے کیلئے کمر کس کر میدان میں اتر آتے ہیں۔نیا سال قوموں کو گزشتہ سال کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ آنے والے سال میں بہتر طریقے سے کام کیا جائے۔آج کے لبرل مسلمانوں سے یہ پوچھا جائے کہ کونساہجری سال ہے تو اکثریت کا جواب معذرت ہوگا۔یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ رات''گیارہ بج کر انسٹھ منٹ سے بارہ بجے کے درمیان صرف ایک منٹ کافاصلہ ہے۔اس ایک منٹ میں دنیا میں ایسی کون سی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے کہ ہم اپنے ہوش وحواص کھو بیٹھتے ہیں اور عجیب وغریب اور غیر سنجیدہ حرکات پر اتر آتے ہیں۔کیاہماری مذہبی تعلیمات،پاکیزہ روایات اورصاف ستھرا تمدن اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم نئے سال کا اس انداز سے استقبال کریں یقینا'' جواب نفی میں ہوگا۔ہماری دینی تعلیمات اور اسلاف کی زندگیاں تو ہمیں یہ بتلاتی ہیں کہ ہمیں کسی بھی کام کے آغاز میں اپنے خالق حقیقی کو یاد کرنا چاہیے۔بحیثیت انسان اپنے معاشرتی،اخلاقی اور دینی فرائض مخلصانہ عزم سے کرنے چاہئیں۔سال نو کی ابتداء اپنے مالک حقیقی کے سامنے سر بسجودہوکر کرنی چاہیے۔ہماری توجہ شب گزاری،انسانوں کی فلاح اور بھلاء کی جانب کیوںنہیں جاتی۔ہماری سوچ اس طرف کیوں نہیں جاتی کہ ہم سال کے پہلے دن کاآغاز کسی اچھے کام سے کریں تاکہ سارا سال اچھے کام کرنے کی توفیق ملتی رہے۔ہمیں اپنے تمدن اورمذہبی اقدار کواسلامی تعلیمات کی چھلنی سے چھان کراپناناچاہیے۔آیئے ہم عزم کریں کہ اس سال نو کی ابتداء نیکی،بھلائی اورفلاحی کاموں سے کریں گے۔مغربی طرز زندگی اور ان کی تہذیب کامکمل بائیکاٹ کر کے ایک بامقصد زندگی گزارنے والے انسان اور اپنی دینی وقومی روایات سے محبت کرنے والے مسلمان کی طرح نئے سال کو خوش آمدید کہیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی تلافی کا پختہ ارادہ کریں۔

_____________________________________________

''احساس کمتری''



احساس برتری احساس کمتری کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے اور ہم اکثر احساس برتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں جب ہم احساس برتری میں مبتلا ہوتے ہیں تو ہم میں میں کرنا شروع کردیتے ہیں ہر بات میں خود کو آگے کر دیتے ہیں دوسرے کی چیز جتنی مرضی اچھی ہو اپنی معمولی سی چیز کو اس کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیتے ہیں دوسرے کی چیز میں خوامخواہ کیڑے نکالتے ہیں دوسرے کی چیز کو حقیر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے مقابلے میں اپنی ادنیٰ سی چیز کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں احساس برتری غرور تکبر اور خودپسندی سے ذرا مختلف چیز ہے۔احساس برتری میں جب ہم مبتلا ہوتے ہیں تو دراصل پہلے ہم احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں ۔اور یہ احساس کمتری ہمارے اندر خلا پیدا کر دیتا ہے۔نا دانستہ طورپر ہم یہ سمجھنا شروع ہوجاتے ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔دوسرے ہم سے بہتر ہیں دوسروں کے پاس جو ہے وہ ہم سے بہتر ہے اور یہ کہ ہمارے پاس کچھ بھی اچھا نہیں ہے۔یہ احساس ہم میں بہت بڑا خلا پیدا کر دیتا ہے ہم چڑ جاتے ہیں غصہ کرتے ہیں ہمارا مزاج عجیب سا ہو جاتا ہے ہمیں لگتا ہے ہر کوئی ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ایسا اس لیے لگتا ہے کیونکہ ہم خود کو اپنی نظروں میں کم تر سمجھتے ہیں سو ہمیں لگتا ہے کہ دوسرے ہمیں کم تر سمجھتے ہیں اور ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں پھر ہم اپنی چیزوں کے بارے میں بہت حساس ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی ہماری چیز میں نقص نکال دے تو ہم چڑ جاتے ہیں فوراََ غصے میں آ جاتے ہیں ہمیں لگتا ہے دوسرے ہم پر طنز و تنقید کر رہے ہیں سو ہمارا رویہ کافی اکھڑ ہو جاتا ہے ہم اپنے اہل و عیال رشتہ داروں یہاں تک کہ دوستوں تک سے چڑنے لگتے ہیں اور ہمارا دل چاہتا ہے کوئی ہمارے بارے میں منفی تاثر نہ دے یہ تو سب کا ہی دل چاہتا ہے مگر جب ہم احساس برتری میں مبتلا ہوتے ہیں تو بالخصوص ہم خود کو لے کر بے حد حساس ہو جاتے ہیں اگر کوئی بہت مخلص محض ہماری بھلائی کی خاطر بھی ہماری کسی غلطی کی نشاندہی کرے تو ہمیں بے حد تکلیف ہوتی ہے یا تو ایسے میں ہم اس سے لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں یا پھر ہم خاموش ہو جاتے ہیں اور اکیلے بیٹھ کر رونا شروع کر دیتے ہیں۔مطلب ہمارا حوصلہ بہت کم ہو جاتا ہے خود پر ذرا سی تنقید یا اپنی چیز کی ذرا سی برائی ہم سے برداشت نہیں ہوتی اور ہم لڑنا شروع کر دیتے ہیں یا چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے لگتے ہیں۔اب ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اپنی ذات میں پورے نہیں ہوتے۔پورا تو کوئی بھی نہیں ہوتا اللّٰہ پاک نے ہر کسی کو کسی نہ کسی چیز سے محروم رکھا ہوتا ہے ایسا تو کوئی بھی نہیں ہوتا جس کے پاس سب کچھ ہو یا وہ جو چاہے اس کے پاس وہ موجود ہو مگر بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ہوئے پر راضی رہنا سیکھ جاتے ہیں انہیں اس بات کی سمجھ آ جاتی ہے کہ سب کے پاس سب۔کچھ نہیں ہو سکتا اگر بندے کو سب کچھ مل جائے تو بندہ تو خود کو بندہ ہی نہ سمجھے۔اگر بندہ ہر طرف سے پورا ہو جائے تو وہ تو بے نیاز ہو جائے پھر وہ رب کو کیسے یاد کرے۔گا۔بے نیاز تو صرف اللّٰہ پاک کی ذات ہے ہوئے کی قدر تب ہی ہوتی ہے جب محرومی کا مزہ چکھا ہو اور ہم سب کسی نہ کسی چیز سے محروم ہوتے ہیں سو جھکنے کے اور شکر گزاری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں بندے کو سب کچھ مل جائے تو وہ تو خود کو خدا ہی سمجھ لے۔جیسے فرعون اور نمرود نے کیا تھا۔یہ تو اللّٰہ پاک کا احسان ہے ہم پر کہ اس نے ہمیں ادھورا رکھا ہوا ہے اس طرح ہمیں اپنی اوقات یاد رہتی ہے کہ ہم بندے ہی ہیں اور ہمارے پاس جو بھی ہے وہ اللّٰہ پاک کی عطا ہے اگر اس میں ہمارا ہی کمال ہوتا تو پھر ہم اپنے لیے ہر وہ چیز نہ حاصل کر لیتے جس کی ہمیں چاہ ہے اور یہ کمی یہ محرومی ہی ہمیں اللّٰہ پاک کی عطاؤں پر سجدہ شکر بجا لانے کے قابل بناتی ہے اور یہی محرومیاں ہی ہمیں اللّٰہ پاک کے در کا سوالی بناتی ہیں۔تو یہ محرومیاں تو انسان کے حق میں بہتر ہیں  کہ  انہی کی وجہ سے انسان کو اس چیز کی قدر ہوتی ہے جو اس کے پاس ہے اور شکر گزار بنتا ہے۔اگر انسان نے کبھی محرومی کا مزہ چکھا ہی نہ ہو تو وہ ہوئے کی قدر کیسے کر پائے گا۔جو لوگ اپنی ذات میں پورے ہوتے ہیں دراصل انہیں ان چیزوں کا احساس ہوتا ہے جو ان کے پاس موجود ہوتی ہیں اور وہ ان کے قدر دان ہوتے ہیں ان پر شکر گزار ہوتے ہیں اور ان کی موجودگی کی اہمیت سے آگاہ ہوتے ہیں اور یہی احساس انہیں احساس کمتری میں مبتلا ہونیںسے بچاتا ہے۔جب ہم اپنے پاس موجود چیزوں پر راضی ہوتے ہیں تو ہمیں کسی کی ہیرے جیسی چیز بھی احساس کمتری میں مبتلا نہیں کرتی اور نہ ہی ہم اس کی چیز میں نقص نکالتے ہیں اور نہ۔ہی اس کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تب ہمارا رویہ غیر جانبدارانہ ہوتا ہے اچھی چیز کو اچھا کہتے ہیں بری کو برا کہتے ہیں دوسروں کی اچھائیوں کی تعریف کرتے ہیں اور برائیوں پر مثبت انداز سے تنقید کرتے ہیں جس سے اصلاح کا پہلو نکلتا ہو نہ کہ کسی کو نیچا دکھانا مقصد ہوتا ہے اور پھر دوسروں کی اچھی چیز دیکھ کر ہمیں خوشی ہوتی ہے ذیادہ سے ذیادہ ہم اس کو پانے کی چاہ کرتے ہیں مگر دوسرے کے پاس دیکھ کر ہمیں تکلیف نہیں ہوتی۔اور ہم اپنی ذات میں اس  قدر مگن اور پر اعتماد ہوتے  ہیں کہ ہم بڑے حوصلے سے تنقید سنتے ہیں اور اس کو مثبت انداز سے لیتے ہیں اور اگر ہمیں لگے کہ ہم بہتر ہیں توہم عموماً دوسروں کی رائے کو ذیادہ خاطر میں نہیں لاتے۔اور دوسروں کی تنقید اگر وہ ہمیں نیچا دکھانے کے مقصد سے بھی ہو تو ہمیں تکلیف نہیں ہوتی کیونکہ ہم اپنے آ پ پر پر اعتماد ہوتے ہیں سو ہم دوسروں کی رائے سنتے ہیں اس بات کو ان کا حق جانتے ہیں مگر ذیادہ خاطر میں نہیں لاتے اور اپنے آپ میں خوش رہتے ہیں۔مگر جب ہم اپنے اپ میں پر اعتماد نہیں ہوتے خود کو خود ہی کم تر سمجھتے ہیں اپنی چیزوں کو حقیر جانتے ہیں تو ہماری ذات میں خلا آجاتا ہے اور اس خلا کوپر کرنے کے لیے نادانستہ طور پر دوسروں کے سامنے خود کو اور اپنی چیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور دوسروں کی چیزوں کو حقیر اور کم تر ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں دراصل اس طرح ہم اپنی انا کی تسکین کرنیکی  کوشش کر رہے ہوتے ہیں چونکہ اندر ہی اندر ہم دوسروں کو خود سے بہتر سمجھتے ہیں اور یہ احساس ہمیں اندر ہی اندر کھوکھلاکر رہا ہوتا ہے سو دوسروں کو کم تر گردان کر ان کی چیز کو حقیر ظاہرکر کے اور اپنی بڑائی بیان کر کے ہم اپنے اندر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش۔کر رہے ہوتے ہیں ہم دوسروں سے ذیادہ خود کو اپنی برتری کا احساس دلانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔مگر ایسے میں ہمارا اپنا نقصان ہوتا ہے کیونکہ ہم اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔اس قسم کے رویے عموماً ہم میں پائے جاتے ہیں سو بہت ضروری ہے کہ ہم خود سے ہر پل آگاہ رہیں اپنیرویوں پر غوروفکر کریں اور خود کی اصلاح کی کاوش کریں۔احساس برتری میں مبتلا ہونا دراصل احساس کم تری کی نشانی ہے جو ذہنی پستی کی طرف اشارہ کرتی ہے اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اللّٰہ پاک کی نعمتوں کا شمار کریں جو کہ ہم نہیں کر پائیں گے تب ہمیں احساس ہوگا کہ ہمارے پاس تو کتنا کچھ ہے پھر دل خود ہی شکر گزاری میں جھکنے لگے گا اور احساس کم تری اور احساس برتری میں مبتلا ہونے کا جواز ہی نہیں بچے گا۔اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کا بھی یقین ہو جائے گا کہ سب کے پاس سب کچھ نہیں ہوتا اور اگر ہم سب۔کچھ نہیں تو اس کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں۔ہر انسان کا اپنا مقام ہے ہرکوئی قابل تکریم ہے حقیر کوئی بھی نہیں فضیلت کا معیار اللّٰہ کے ہاں صرف تقویٰ ہے انسان کے پاس جو   کچھ بھی ہے اس میں اس کا کوئی کمال نہیں سب اللّٰہ کی عطا ہے اس نے جو عطا کیا وہ بہتر ہے اورجس سے  محروم رکھا وہ بھی بہتر ہے سب کے پاس سب کچھ نہیں ہوتا مگر شکر کرنے اور خوش رہنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔


__________________________________________________

خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو


عروبہ امتیاز خان 


خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو

پختہ ہو جائے تو ہے شمشیر بے زنہار تو!


 "اب آپ سب اپنے جوتے اتاردیں اور اپنے برابر میں موجود ساتھی کے جوتے پہن لیں۔" چچا جان کا یہ کہنا تھا کہ ہم الجھی سوچوں اور ششدر نظروں کے ساتھ ایک دوسرے کی شکلیں تکنے لگے کہ اچانک سے یہ کیا افتاد آن پڑی۔ اف! اب ذرا تھوڑی حرکت کرنی پڑے گی اور جوتے۔۔۔ بھلا لکھنے لکھانے کا جوتوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ ہم یہاں جوتے چٹخانے، جوتے سیدھے کرنے یا جوتوں میں دال بانٹنے تو نہیں آئے ہیں۔

 ہفتہ کا روز تھا اور دن کے دس بج رہے تھے۔ موسم میں ہلکی سی خنکی کی آمیزش تھی اور ہم پچھلے بیس منٹ سے گاڑی میں بیٹھے بھنا رہے تھے کیوں کہ کچھ لیٹ لطیف افراد خواب خرگوش کے مزے لوٹنے میں ایسا مگن تھے کہ وہ بھلا بیٹھے کہ حقیقی زندگی کی چند ذمےداریوں سے بھی نبردآزما ہونا ہے۔ یکایک سوچوں کا دھارا ایک نکتے کی جانب بہہ نکلا۔ یہ قلم کی طاقت بھی کتنی انمول شے ہے نا۔ ذرا کہیں نگاہ پڑتی ہے، ذہن کا حصہ حرکت میں آتا ہے، آنکھ مشاہدہ کرتی ہے، دل میں جذبات کا سمندر رواں ہوتا ہے جو مجبور کرتا ہے ہمارے ہاتھوں کو کہ یہ صدا جو دل کے نہاں خانوں سے پنپ کر آواز دے رہی ہے، انہیں الفاظ کا پیرہن پہنا دو۔ اگر اس خداداد صلاحیت کو بہترین لوگوں کی صحبت میں مانجھا جائے تو یقینا ہماری تحریر کو چار چاند لگ جائیں اور پیغام قاری کے دل پر کاری وار کر جائے۔ جمعیت بھی کتنی بھلی تنظیم ہے نا۔ مختلف مواقعوں کی راہیں ہموار کرتی ہے تاکہ پیارے ساتھی کچھ نہ کچھ سیکھیں اور ان کی اہلیت میں مزید اضافہ ہو۔ اسی تناظر میں شعبہ علم و ادب کراچی، اسلامی جمعیت طالبات نے 14 نومبر کو قبا آڈوٹیریم میں قلمکاران کی بزم سجائی۔ اتفاق سے ہم مقررہ وقت پر ہال میں قدم رکھنے میں کامیاب ہوگئے جہاں پر ساتھی بہنیں انتہائی مستعدی کے ساتھ اپنے اپنے کاموں میں جتی ہوئی تھیں۔ ایک ولولہ تھا جو ان کے انگ انگ سے عیاں تھا۔ ابھی ہم نشست کی جانب بڑھ ہی رہے تھے کہ دیدہ زیب اودر دلنشین تزئین و آرائش نے ہمیں مبہوت کرکے رکھ دیا اور بے ساختہ ہمارے منہ سے تعریفی کلمات نکل پڑے۔ ہال کی آرائش کا اس قدر باریک بینی سے خیال رکھا گیا کہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ کسی ماہر مصور دان نے کینوس پر خوبصورت رنگ بکھیر دیے ہوں اور سیاہ اور سنہرے غباروں کی کہکشاں نے تو ماحول میں یوں سما باندھ دیا کہ ساری کلفت دور ہوگئی اور ہمارے اندر موجود بچہ جاگ اٹھا جس کی خواہش تھی کہ وہ صرف ان غباروں سے ہی محظوظ ہوتا رہے۔ دل بے پرواہ کو ہم نے ڈانٹا کہ ہم یہاں کچھ سیکھنے آئے ہیں اور تم کوئی اور ہی ارادے باندھنے لگے اور پھر ہم نشت پر جاکر براجمان ہوگئے۔ لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور یوں آمنہ صدیقی نے سورہ رحمن کی تلاوت سے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا جس کے بعد سماویہ وحید نے نعت رسول مقبول پیش کی۔

 اب باری آئی زبیر منصوری صاحب کی جنہوں نے اپنے منفرد اسلوب بیان اور طاقت گفتار کی بدولت پروگرام کی شان میں مزید اضافہ کر دیا۔ انہوں نے آتے ہی سامعین سے کہا کہ اپنے برابر والوں کے جوتے پہن لیں۔ ہم حیران و پریشان یہ سوچنے لگے کہ آخر دوسروں کے جوتوں میں کیا راز پوشیدہ ہوسکتا ہے۔ خیر ساتھ والی کے جوتے تو کوشش کے باوجود ہمارے پیر میں نہ آسکے یوں پھر سب نے غور کیا کہ ان پرائے، اجنبی جوتوں کو پہن کر کیا محسوس ہورہا ہے۔ کسی نے کچھ بتایا، کسی نے کچھ۔ اس طرح زبیر چچا انوکھی سرگرمی کے ذریعے ہمیں اس نکتے پر لے کر آئے کہ جب تک آپ لوگوں کے جوتوں میں اتر کر، ان کو پہن کر ان کے دل میں چپھے درد اور جذبات کو محسوس نہیں کریں گے تب تک آپ بہترین قلمکار نہیں بن سکتے۔ یہی لکھنے کا پہلا اصول ہے۔ ایک صاحب طرز ادیب کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ایک زمانہ تھا جب انہیں کوئی موضوع نہیں ملتا تھا تو انہوں نے اردگرد موجود لوگوں کو دیکھنا، غوز کرنا اور محسوس کرنا شروع کردیا۔ پھر تو انہیں ہر گلی کے کونے میں ایک نیا موضوع نظر آنے لگا کیوں کہ درحقیقت ہر انسان اپنے اندر کوئی نہ کوئی کہانی سموئے ہوئے ہے۔

 دکھادوں گا جہاں کو جو میری آنکھوں نے دیکھا ہے

تجھے بھی صورت آئینہ حیران کرکے چھوڑوں گا

 اس کے بعد دوسری سرگرمی کی باری آئی جس میں انہوں نے ہم سب سے ہمارے پسندیدہ ادیب اور ان کی تحاریر کی خوبیاں دریافت کیں جس کی وجہ سے ہم انہیں شوق سے پڑھتے ہیں۔ یوں پانچ ادبا منتخب کرنے کے بعد سب نے بھانت بھانت کی خوبیاں بیان کیں اور پھر آخر میں ووٹنگ کے ذریعے پانچ ایسی باتیں تختہ سفید پر لکھ دی گئیں جو اکثریت کے خیال میں تحریر کے بنیادی اجزا اور لوازم تھے۔ اب ان باتوں میں سبق، نئی بات، معاشرتی حالات، مخاطب اور دلچسپ انداز شامل ہیں۔ سبق کے اوپر گفتگو کرتے ہوئے چچا جان نے پانی سے بھرے ہوئے گلاس کی مثال دی جس میں چینی گھلی ہوئی ہو۔ بظاہر وہ عام سا پانی نظر آئے گا لیکن جب وہ پانی ہماری رگوں کو سیراب کرے گا تب ہی ہمیں مٹھاس کا احساس ہوپائے گا۔ یہی حال تحریر کا بھی ہے۔ سبق تحریر میں صرف اس حد تک سمویا جائے جو قاری کی طبیعت کو بوجھل نہ لگے اور وہ سبق کی چاشنی کو دل میں محسوس کرے۔ اپنی بات مزید آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے ایک اکسیجن سلینڈر کی مثال دی جس میں ایک مقررہ حد تک ہی اکسیجن بھری جاسکتی ہے جو 21 فیصد ہوتی ہے اور 78 فیصد حصہ نائیٹروجن کا ہوتا ہے۔ انسان کی اصل ضرورت تو اکسیجن ہوتی ہے اور نائیٹروجن کا استعمال ہمارا جسم نہیں کرتا لیکن ہوا میں نائیٹروجن کا تناسب اکسیجن سے زیادہ ہے۔ اسی طرح ایک تحریر میں سبق اتنا ہی موجود ہو جتنی اس کی گنجائش ہے اور باقی اس کے تفریحی لوازم ہوں جس سے تحریر جاندار بن جائے۔ پیغام جتنا کم ہوگا، تحریر اتنی خوبصورت ہوگی۔ ایسا پیغام جو صاف اور واضح ہو کیوں کہ لوگ تحریر سبق کے لیے نہیں بلکہ دلچسپی کے لیے پڑھتے ہیں اور ساتھ میں پیغام یوں پوشیدہ ہو کہ قاری خود سوچنے، سمجھنے اور پیغام کھوجنے میں مصروف ہو جائے۔ نئی بات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر تحریر میں نیا اسلوب، معلومات، شماریات اور دلائل پیش نہیں کیے جائیں گے تو ایسی عمومی تحریر کوئی نہیں پڑھتا۔ اگر آپ نے قاری کو تحریر کے کانٹے میں پھنسانا ہے تو آپ کو کانٹے کے ساتھ چارا لگانا پڑے گا جو حقیقت میں ایک اچھوتا اور مزیدار ابتدائیہ ہے۔ اگلے پوائنٹ پر کہا کہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے بارے بات کی جائے کیوں کہ انسان کو اپنے بارے میں سننا اچھا لگتا ہے اور اگر ساتھ میں تعریف بھی کر دی جائے تو اسے اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ اگلا نکتہ معاشرتی حالات تھے کیوں کہ جب تک ہماری تحریر معاشرتی حالات کی عکاس نہیں ہو گی تب تک ہم یہ کیسے باور کرا سکتے ہیں کہ سارے معاشرے کا درد ہم دل میں سمیٹ چکے ہیں۔ آخری بات دلچسپ انداز تھی اور یہ بات اپنی جگہ قائم ہے کہ پرانی، گھسی پٹی اور عمومی تحریر پڑھنا کوئی پسند نہیں کرتا۔ چچا جان کی ورکشاپ ختم ہوئی اور ہم نے عہد کیا کہ ہمیں شیطان کو ہرا کر ایک کامیاب قلم کار بننا ہے۔  

 عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے

 پھر ہمیں ایک کورا کاغذ تھما دیا جاتا ہے جس میں اقبال کے ایک مصرعے "دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی" کے بارے میں پچاس الفاظ پر مبنی تحریر لکھنی ہوتی ہے اور یوں وقفے کی باری آئی جس میں ہم نے بریانی اور جوس کے ڈبوں کے ساتھ خوب انصاف کیا۔ آخر پیٹ کے چوہوں نے دھما چوکڑی جو مچائی ہوئی تھی۔ اب پینل ڈسکشن بعنوان "تیرے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے" کا آغاز ہوا جس کی صدارت فریحہ منیر اور مسفرہ رضوان نے کی۔ اس پینل ڈسکشن میں شہر کے نامور ادبا، بلاگرز اور شعرا مدعو تھے جن کے قیمتی مشورے، خیالات اور آرا نے ہمارے ذہن کی وسعتوں میں مزید اضافہ کر دیا۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم نے شاعری کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آمد ایک برجستہ احساس ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی میرا سوز دروں بےخواب کرکے مجھے فکر کرنے پر مجبور کر دے۔ شاعری میں موضوع اور وزن ضروری ہے۔ اگر قافیہ ردیف نہیں تو وہ شاعری ہرگز نہیں۔ ساتھ ہی اچھے شعرا کا مطالعہ کریں۔ فرحی نعیم نے موضوع کر بارے میں بتایا کہ موضوع زندگی سے قریب تر ہو، حقیقی ہو، آپ کا مشاہدہ منفرد ہو اور پامال موضوعات سے اجتناب کریں۔ افشاں نوید سے مستقل مزاجی کے بارے میں سوال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت نے ہمیں شعور دیا۔ اگر ہمیں معرفت حاصل ہوجائے اور نفس کو پہچان لیں تو اس عمر میں محمد بن قاسم، حسن البنا اور مولانا مودودی بن جاتے ہیں کیوں کہ یہی تو وہ چنیدہ لوگ ہیں۔ اب آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ کا مزاج کیسا ہے۔ ہمیں اپنے وقت کا صحیح استعمال کرنا چاہیے اور لکھنا ہماری ترجیحات میں شامل ہو۔ اگلی باری راحت عائشہ کی تھی۔ انہوں نے بچوں کی کہانیوں کے بارے میں بتایا کہ ہر بچے کی کہانی کا الگ درجہ ہوتا ہے اور بچوں کی کہانیاں لکھنا بچوں کا کھیل نہیں۔ فریحہ مبارک نے کالم نگاری پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ کالم نگاری ایک خشک صنف ہے مگر اسے دلچسپ بنایا جا سکتا ہے۔ کالم کا ابتدائیہ مزیدار ہو۔ کالم میں واقعہ، منظرکشی، محاورہ، ضرب مثل اور لطیفہ کا استعمال کریں۔ مطالعہ وسیع ہو اور ساتھ میں ایک مشاہدے والی آنکھ اور سوچنے والا ذہن موجود ہو۔ محنت کریں جیسا کہ محمد علی باکسر کا ایک مشہور قول ہے کہ اس مکے کے پیچھے 21 سال کی ریاضت اور شکستیں شامل ہیں۔ شاعری کے ذریعے اصلاح معاشرہ پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر عزیزہ انجم نے کہا شاعری ایک فطری صلاحیت ہے۔ محنت، اچھے آمد اور موسیقی سے بہترین شاعری تخلیق ہوتی ہے۔ شاعری ذات اور کرب کا اظہار ہے۔ اچھی شاعری تو وہ خود ہوتی ہے جو کہے کہ وہ اچھی ہے۔ کا، کی، کہ کا استعمال شاعری کو بدنما کردیتا ہے۔ معروف شاعرہ اور بلاگر سمیرا غزل نے کہا کہ بلاکنگ ایک قسم کی ڈائری ہے۔ سوشل میڈیا کا دور ہے جس کے ذریعے رسائی آسان ہوگئی ہے اس لیے ہماری ذمےداری ہے کہ مثبت پیغام پہچائیں۔ دوبارہ گفتگو کرتے ہوئے افشاں آنٹی نے کہا کہ اصل بات ہے کہ آپ لکھنا کیا چاہتے ہیں۔ اگر میں اس لیے لکھوں کہ زیادہ لائکس اور کمنٹس مل جائیں تو یہ نیت کا کھوٹ ہے جو ادبی دنیا کا بڑا المیہ ہے۔ کہانی، افسانے اور ناول میں فرق کرتے ہوئے فرحی نعیم نے بتایا کہ ناول کردار کی زندگی پر محیط ہوتا ہے اور کہانی سیدھا سادا سپاٹ بیانیہ ہے لیکن جب اسی کہانی کو فنی لوازم سے ہمکنار کردیا تو وہ افسانہ بن جاتا ہے۔ ادبی چاشنی اور اسلوب کہانی کو افسانے میں بدل دیتی ہیں۔ افسانے میں وحدت تاثر یعنی ایک کہانی ہو۔ موضوعات پیوست اور مختصر ہوں اور ساتھ میں پلاٹ کشمکش پر مبنی ہو۔ راحت عائشہ سے بچوں کی بچوں کی کہانیوں کی پسند کے بارے میں دریافت کیا گیا جس کے جواب میں انہوں نے اپنا ایک مشاہدہ پیش کیا۔ ان کی مطابق ذہین بچے سائنسی اور ڈرائونی کہانیاں پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ اوسط بچے شہزادی اور پریوں کی اور جہاں تک بات آتی ہے انسانوں کی تو ہر انسان کا سافٹ وئیر الگ ہے جو اپنی پسند کی چیز پڑھنا چاہتا ہے۔ پینل ڈسکشن کے اختتام پر ڈاکٹر عزیزہ انجم اور سمیرا غزل نے اپنا دل پذیر کلام حاضرین کے گوش گزار کیا۔

 جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہوجانا

یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمع انجمن بھی ہے

 باری آئی اب کوئز سیشن کی جس میں چند ادبی سوالات کیے گئے اور تحفے کے طور پر قلم پیش کیس گیا۔ تقسیم اسناد کی باری آئی جو ناظمہ شہر عریشہ سلیم نے مہمانان میں تقسیم کیں جنہوں نے اپنے علم اور تجربے کی بیش بہا دولت سے ہمیں فیض یاب کیا تھا۔ حاضرین کی حوصلہ افزائی کے لیے اسناد بانٹی گئیں جسے مسکراتی نگاہوں کے ساتھ ہم نے بھی وصول کیا اور تو اور اس کورے کاغذ پر بہترین تحریر لکھنے والے تین افراد کو کتاب کا تحفہ بھی دیا گیا۔ عریشہ باجی کے خطاب کی باری آئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالعہ وسیع ہو، مشاہدہ خوب تر ہو، تحریر میں مثبت پہلو نمایاں ہو، مقصد واضح ہو اور ایک سوچ ہو جو جو تحریر کو بامقصد بنا دے۔ سمیہ رمضان نے دعا کروائی جس کے ساتھ ہی تاروں کی محفل اختتام پذیر ہوگئی۔ بستہ کندھے پر لٹکائے پھاٹک کی جانب ہم بڑھ رہے تھے اس سوچ کے ساتھ اس انجمن نے تو ہمارے دل میں ایک شمع روشن کردی جس کی تپش سے نمو پاکر بعید نہیں ہمارا سوز دروں گرمی محفل نہ بن جائے۔ نگاہیں اٹھائیں تو ہر چہرہ پرامید نظر آیا۔ ایک جوش تھا جو خون گرما رہا تھا اور نظریں افق کے اس پار ایک بہترین منزل کی جانب مرکوز تھیں جس کے لیے خوب تگ و دو کی ضرورت ہے سو ہم نے تمام تر اندیشوں کو بالائے طاق رکھا اور اپنے رستے پر قدم جما کر کمر کس لی۔ 

 

اور دکھلائیں گے مضمون کی ہمیں باریکیاں

اپنے فکر نکتہ آرا کی فلک پیمانیاں

تلخی دوراں کے نقشے کھینچ کر رلوائیں گے

یا تخیل کی نئی دنیا ہمیں دکھلائیں گے

اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبل شیراز بھی

سینکڑوں ساحر بھی ہوں گے، صاحب اعجاز بھی

_________________________

دربارِ رسالت کے ایک بے باک سپاہی حضرت سیدناسعدبن معاذ رضی اللہ عنہ 

تحریر:مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی 

صحابہ کرام جانثارانِ مصطفی تھے ،وہ ہر وقت اللہ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاکی تلاش میں تھے ان کا ہر قدم رضائے الٰہی میں اٹھتا تھا ۔صحابہ کرام کی دین کے لیے محنت اور میدانِ عمل میں مشقت کو دیکھا جاتاہے تو دل اس بات کی گواہی دیتاہے یہ لوگ رب کے خوشنصیب بندے ہیں جنہیں دنیامیں ہی جنت کی بشارتیں مل چکی ہیں بعض صحابہ کرام کے واقعات پڑھ کر عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے آج ان صحابہ کرام میں سے ایک صحابی رسول کے ذکر خیر کوقلم و قرطاس کے حوالے کر رہاہوں جو آپ کے ایمان کوتازگی بخشے گا تو جی ہاں یہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ قبیلہ اشہل کے سردار اور معزز صحابی ہیں جن کی وفات سے اللہ رب العزت کا عرش ہل گیا تھا۔
نام ونسب
سعد نام،ابو عمر وکنیت،سید الاوس لقب، قبیلہ عبد الاشہل سے ہیں سلسلہ نسب یہ ہے ،سعد بن معاذ بن نعمان بن امر اء لقیس بن زید بن عبد الاشہل بن حشم بن حارث بن خزرج
 والدہ کا نام: کبشہ بنت رافع تھا، جو ابو سعید خدری کی چچا زاد بہن تھیں، قبیلہ اشہل ،قبائل اوس میں شریف ترین قبیلہ تھا اور سیادت عامہ اس میں وراثت چلی آتی تھی۔
 والد نے ایام جاہلیت ہی میں وفات پائی،والدہ موجود تھیں ہجرت سے قبل ایمان لائیں اورسعد کے انتقال کے بعد بہت دنوں تک زندہ رہیں۔
حضرت سعد بن معاذؓکلمہ شہادت پکاراٹھے
عقبہ اولیٰ میں یثرب میں اسلام آ چکا تھا،لیکن حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی وجہ سے بہت لوگ مسلمان ہوئے شروع میں حضرت سعد بن معاذرضی اللہ عنہ ابھی حالت کفر میں تھے، ان کوحضرت مصعب رضی اللہ عنہ کی کامیابی پر سخت حیرت اور اپنی قوم کی بے وقوفی پر انتہا درجہ کا حزن وملال تھا۔
 اسعد بن زرارہ نے حضرت مصعب رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ سعد بن معاذ مسلمان ہوجائیں گے تو کوئی کافر نہ رہ سکے گا، اس لیے آپ کو ان کے مسلمان کرنے کی فکر کرنی چاہیے، سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں،آپ بیٹھ کر سن لیجئے،ماننے نہ ماننے کا آپ کو اختیار ہے حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے منظور کیا تو حضرت مصعب ؓنے اسلام کی حقیقت بیان کی اور قرآن مجید کی چند آیتیں پڑھیں جن کو سن کرحضرت سعد بن معاذرضی اللہ عنہ کلمہ شہادت پکار اٹھے اورمسلمان ہو گئے۔ قبیلہ عبد الاشہل میں یہ خبر فوراً پھیل گئی۔
حضرت سعدرضی اللہ عنہ نے سب کو کہا جب تک مسلمان نہیں ہوگے میں تم سے بات چیت نہیں کروں گا،آپ رضی اللہ عنہ کو اپنی قوم میں جو عزت حاصل تھی اس کا یہ اثر ہوا کہ شام ہونے سے قبل تمام قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ مسلمان ہوکرحضرت سعدرضی اللہ عنہ نے حضرت مصعب ضی اللہ عنہ کو اسعد بن زرارہ کے مکان سے اپنے ہاں منتقل کر لیا۔
حضرت سعدؓ کا مقام و مرتبہ 
اخلاقی حیثیت سے حضرت سعدبن معاذرضی اللہ عنہ بڑے درجہ کے انسان تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنھافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد سب سے بڑھ کر عبد الاشہل کے تین آدمی تھے،سعدبن معاذ، اسید بن حضیر اور عبادہ بن بشر۔ وہ خود کہتے ہیں کہ یوں تو میں ایک معمولی آدمی ہوں لیکن تین چیزوں میں جس رتبہ تک پہنچنا چاہیے پہنچ چکا ہوں ،پہلی بات یہ ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے جو حدیث سنتا ہوں اس کے منجانب اللہ ہونے کا یقین رکھتا ہوں،دوسرے نماز میں کسی طرف خیال نہیں کرتا، تیسرے جنازہ کے ساتھ رہتا ہوں تو منکر نکیر کے سوال کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ خصلتیں پیغمبروں میں ہوتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اعمال پر جو اعتماد تھا وہ اس حدیث سے معلوم ہو سکتا ہے جس میں مردہ کو قبر کے دبانے کا ذکر آیا ہے،اس کا ایک فقرہ یہ بھی ہے کہ اگر قبر کی تنگی سے کوئی نجات پاسکتا تو سعد بن معاذ نجات پاتے۔
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ وہ عظیم و جلیل القدر بدری صحابی ہیں کہ ان کی وفات سے اللہ رب العزت کا عرش ہل گیا تھا 
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت سے رحمن کا عرش ہل گیا (رواہ بخاری رقم الحدیث ۳۰۸۳، رواہ مسلم رقم الحدیث ۶۶۴۲)
حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا!عرش کا ہلنا سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی محبت کی وجہ سے ہے۔(سیراعلام النبلا جلد ۱ صفحہ ۷۹۲)
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ریشمی حلہ (جوڑا)تحفہ آیا، صحابہ کرام اسے چھونے لگے اور اس کی نرمی پر تعجب کرتے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا تم اس کی نرمی پر تعجب کرتے ہو؟ جنت میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے رومال اس سے بہتر اور اس سے زیادہ نرم وملائم ہیں (رواہ بخاری رقم الحدیث ۲۰۸۳، رواہ مسلم رقم الحدیث ۸۶۴۲)
نیز آپ نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی جان ہے۔جنت میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے رومال اس سے زیادہ حسین وخوبصورت ہیں(رواہ مسلم رقم الحدیث ۹۶۴۲)
روایات میں ہے کہ ایک قوم (یہود بنوقریظہ)نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ثالث مان کر ہتھیار ڈال دیئے انہیں بلانے کے لئے ایک آدمی بھیجا اور وہ ایک گدھے پر سوار ہوکر آئے جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنے بہترین شخص یا اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو (کر بڑھو)
پھر آپ نے فرمایا:اے سعد!بلاشبہ انہوں نے تمہیں ثالث مان کر ہتھیار ڈال دیے ہیں (سعد رضی اللہ عنہ)فرمایا:پھر میرا فیصلہ ہے کہ ان کے جنگی لوگوں کو قتل کیا جائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیا جائے نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم نے اللہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا ہے یا فرشتے کے فیصلے کے مطابق(رواہ بخاری رقم الحدیث ۴۰۸۳)
غزوات میں شرکت
حضرت سعد رضی اللہ عنہ عمرہ کی غرض سے مکہ روانہ ہوئے اور امیہ بن خلف کے مکان پر (جو مکہ کا مشہور رئیس اوران کا دوست تھا)قیام کیا(امیہ مدینہ آتا تھا تو ان کے ہاں ٹھہرا کرتا تھا)اورکہا کہ جس وقت حرم خالی ہو مجھے خبر کرنا، چنانچہ دوپہر کے قریب اس کے ساتھ طواف کے لیے نکلے راستہ میں ابو جہل سے ملاقات ہوئی ،پوچھا یہ کون ہیں؟ امیہ نے کہا"سعد" ابو جہل نے کہا تعجب ہے کہ تم صابیوں (بے دین ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  اورصحابہ مراد ہیں)کو پناہ دے کر اوران کے انصار بن کر مکہ میں نہایت اطمینان سے پھر رہے ہو ،اگر تم ان کے ساتھ نہ ہوتے توتمہارا گھر پہنچنا دشوار ہوجاتا، سعد نے غضب آلود لہجہ میں جواب دیا، تم مجھے روکو پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے؟ میں تمہارا مدینہ کا راستہ روک دونگا امیہ نے کہا "سعد !ابو الحکم (ابو جہل)مکہ کا سردار ہے،اس کے سامنے آواز پست کرو" 
حضرت سعدرضی اللہ عنہ نے فرمایا،چلو ہٹو، میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا ہے کہ مسلمان تم کو قتل کریں گے،بولا کیا مکہ میں آکر ماریں گے؟ جواب دیا اس کی خبر نہیں۔
اس پیشن گوئی کے پورا ہونے کا وقت غزو بدر تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کو خبر ہوئی تو صحابہ سے مشورہ کیا، حضرت سعدرضی اللہ عنہ نے اٹھ کر کہا یا رسول اللہ !( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم آپ پر ایمان لائے، رسالت کی تصدیق کی،اس بات کا اقرار کیا کہ جو کچھ آپ لائے ہیں حق اور درست ہے سمع اورطاعت پر آپ سے بیعت کی پس جو ارادہ ہو کیجئے، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا اگر آپ سمندر میں کود نے کو کہیں تو ہم حاضر ہیں ہمارا ایک آدمی بھی گھر میں نہ بیٹھے گا، ہم کو لڑائی سے بالکل خوف نہیں اور اان شاء اللہ میدان میں ہم صادق القول ثابت ہوں گے، خدا ہماری طرف سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کرے۔
 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  اس تقریر سے خوش ہوئے قبیل اوس کا جھنڈا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے حوالہ کیا، غزوہ احد میں انہو ں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے آستانہ پر پہرہ دیا تھا۔ غزوہ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  سب سے زیادہ ثابت قدم تھے اورآپ کے ساتھ دو اصحاب تھے انہی میں حضرت سعد بن معاذرضی اللہ عنہ بھی تھے۔
وفات 
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جنگ خندق میں زخمی ہوگئے ایک (ابن عرقہ نامی)شخص نے ان کے بازو کی رگ پر نشان مارا تھا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے لئے مسجد میں خیمہ لگوا لیا تاکہ قریب ہی سے ان کی عیادت کرتے رہیں (رواہ بخاری رقم الحدیث ۳۲۴، ابودائود ۱۰۱۳)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا زخم خشک ہوکر اچھا ہونے والا تھا کہ انہوں نے دعا کی اے اللہ!تو جانتا ہے کہ مجھے تیری راہ میں ان لوگوں کے خلاف جہاد کرنے سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں جنہوں نے تیرے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا اور(مکہ سے)نکالا ۔اے اللہ!اگر قریش کی لڑائی ابھی باقی ہے تو مجھے زندہ رکھ میں ان سے جہاد کروں گا 
اے اللہ!میں سمجھتا ہوں کہ تو نے ہمارے اور ان کے درمیان لڑائی ختم کردی ہے اگر اسی طرح ہے تو اس زخم کو کھول (کر تازہ کر)دے اور میری موت اسی میں (شہادت والی)کر پھر وہ زخم (اسی رات)ہنسلی کے مقام سے بہنے لگا مسجد میں ان کے ساتھ بنوغفار کا خیمہ تھا اور خون ان کی طرف بہہ کر آرہا تھا وہ خوف زدہ ہوکر کہنے لگے اے خیمہ والو!یہ تمہاری طرف سے ہماری طرف کیا چیز بہہ کر آرہی ہے؟ جب انہوں نے دیکھا تو سعد رضی اللہ عنہ کا زخم بہہ رہا تھا پھر وہ اسی میں فوت ہوگئے (رواہ مسلم رقم الحدیث ۹۶۷۱)
جب آپ رضی اللہ عنہ کا جنازہ روانہ ہوا تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  ساتھ ساتھ تھے، فرمایا کہ ان کے جنازہ میں ستر ہزار فرشتے شریک ہیں،لاش بالکل ہلکی ہو گئی تھی، منافقین نے مضحکہ کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ ان کا جنازہ فرشتے اٹھائے ہوئے تھے۔(سبحان اللہ)


____________________________________________________________
سقوط مشرقی پاکستان ایک رستا زخم
ابو الہاشم ربانی 

برصغیر کی تقسیم کے بعد انڈیا کو چاہیے تھا کہ پاکستان کو تسلیم کر لیتا اور امن و ترقی کی راہ پر اچھے ہمسائے کی طرح اپنا کردار ادا کرتا۔ مگر برہمن کی سامراجی سوچ تھی کہ وسائل سے خالی پاکستان اپنے بقاء کی جنگ نہیں لڑ سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا کی ناپاک سوچ رہی کہ دھونس ، دھمکی اور جارحیت سے پاکستان پر جلد قبضہ کر کے دوبارہ ایک ہی ملک بنا دیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اول روز سے ہی انڈیا نے جارحانہ رویہ اختیار کیا اور وطن عزیز کے خلاف ہر سازش کو آزمایا۔ یہاں تک کہ ستمبر 1965ء میں جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے بین الاقوامی سرحد کو روند کر بھارتی ترنگا لہرانے لاہور پہنچ گیا۔ مگر اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں۔ پاکستان نے بھی بھرپور جواب دیا اور اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ جس کے باعث انڈیا کی ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر زور کا جھٹکا لگا۔ 
اپنی اس ہزیمت کا بدلہ لینے کے لیے انڈیا نے مشرقی پاکستان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ وہاں نہ صرف نفرت کے بیج بوئے بلکہ ان کی آبیاری کے لیے ہر قسم کے حربہ اختیار کیا۔ بھارتیوں نے یہ پراپیگنڈا پھیلا دیا کہ وسائل کی تقسیم میں بنگالیوں کا معاشی استحصال کیا جارہا ہے۔ حقیقت میں مشرقی پاکستان کی معیشت اور تعلیم پر ہندوؤں کا قبضہ تھا۔ یہی نہیں بلکہ قومی دولت کے 80فیصد پر ہندو قابض تھے۔ اسکولز اور کالجز کے95فیصد پر ہندوؤں کا کنٹرول تھا۔ ہندواساتذہ نے بنگالی نوجوانوں کو مغربی پاکستان کے خلاف بھڑکانے میں اہم بنیادی کردار ادا کیا۔ یہی اساتذہ نصاب کے لیے جو کتب تجویز کرتے وہ نظریہ پاکستان کے خلاف مواد پر مشتمل ہوتیں۔سینکڑوں ہندوؤں کو مشرقی پاکستان میں داخل کیا گیا جنہوں نے جلسے جلوسوں میں نہ صرف ملک کے خلاف نعرہ بازی کی بلکہ اکھنڈ بھارت کے نعرے بھی لگائے۔ تعلیمی اداروں میں ہندواساتذہ کے ذریعے طلبہ کے اذہان میں مغربی پاکستان کے خلاف منفی نظریات پھلائے گئے۔ اس تعصب، نفرت اور تنگ نظری نے مشرقی پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ انڈیا نے مشرقی پاکستان کے عوام کے دلوں میں شدید نفرتیں پیدا کر دیں ۔ انڈیا مشرقی پاکستان میں وطن دشمن تلاش کرنے میں بھی کامیاب ہوچکا تھا۔ اسی دوران شیخ مجیب الرحمن نے بھی 6 نکا ت پیش کر دیے۔ عوام کی معاشی بدحالی کی وجہ سے ان چھ نکات کو بھرپور پھیلنے کا موقعہ مل گیا۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کی دوستی کا روپ دھارلیا اور انہیں مغربی پاکستان کے تسلط سے نام نہاد آزاد کرانے کا مژدہ بھی سنادیا۔ جبکہ عوامی لیگ کوبھارت پہلے ہی شیشے میں اُتار چکا تھا،اس کے ساتھ ساتھ عوام کو اپنا ہم نوا بنایا۔ نومبر 1971 ؁ء کو بھارت نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے تانے بانے بنے جارہے تھے، مایوس کن اور نفرت انگیزپراپیگنڈے کے ساتھ بھارت کی دراندازیاں عیاں ہورہی تھیں۔ بھارت جنگ کے لیے راستے ہموار کرتا جارہا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت سے قبل یورپ کے کئی ممالک اور امریکہ کا دورہ کیا۔ انسانی حقوق کے نام پر مشرقی پاکستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی مدد کی منظوری حاصل کی اور اسی آڑ میں اس نے مشرقی پاکستان پر فوجی کاروائی کی ۔ امریکہ کے صدر نکسن کو یقین دہانی کرائی کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں اسے وہاں فوجی اڈے فراہم کیے جائیں گے ۔ اندرا گاندھی نے پاکستان کو ٹکڑے کرنے کے لیے روس سے بھاری فوجی امداد حاصل کی۔ بھارت نے مشرقی پاکستان پر قبضے کی صورت میں روس کو بحری اڈا فراہم کرنے کا وعدہ کیا اس طرح انڈیا نے مشرقی بازو کاٹنے کے لیے ایک طرف بڑی طاقتوں سے جدید ترین اسلحہ لیا اور دوسری طرف عالمی سطح پر اس ’’ جرم‘‘ کی حمایت بھی حاصل کر لی۔ 
انڈیا نے بھر پورفوجی طاقت کے ساتھ مشرقی پاکستان پر حملہ اور مغربی پاکستان کے سرحدی علاقوں پر فائرنگ شروع کردی۔ اس حملے کے ساتھ روس نے اپنی فوجیں چین کی سرحد کے ساتھ الرٹ کردیں۔ تاکہ چین پاکستان کی مدد کو نہ آسکے۔بڑی طاقتیں بشمول امریکہ پرزور مشورے دیتے رہے کہ پاکستان سخت ملٹری ایکشن کی بجائے پرامن حل کی تلاش کے لیے اقدامات کرے۔ تاکہ مزید قتل وغارت کو روکا جاسکے۔آخر کار ان بڑی طاقتوں نے یحییٰ خان کو کہا کہ وہ مشرقی پاکستان چھوڑ دیں۔ یہی وجہ تھی کہ انڈیا بڑے دھڑلے کے ساتھ مشرقی پاکستان کے بین الاقوامی بارڈر کوروند کر فوجی غاضبانہ قبضہ کر رہا تھا۔ انڈیا کا مروڑ شدت سے بڑھ رہا تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 15 جون 1971 ؁ء کو یہ اعلان کیا کہ بھارت مشرقی پاکستان کے مسئلے کا ایسا کوئی سیاسی حل قبول نہیں کرے گا جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی موت ہو۔اسی لیے بھارت مسلسل حالات کو بے قابو کر رہا تھا ہر طرف ہنگامے کھڑے کرنے میں اس کے ادارے مصر وف عمل تھے۔ بظاہر سارے حالات اتفاقی معلوم ہورہے تھے اصل میں یہ سب کچھ باقاعدہ پلاننگ اور منصوبہ بندی کے مطابق ہو رہا تھا۔ مارچ1971 ؁ء کے ہنگاموں کے بعد فوجی آپریشن شروع ہوا تو ہزاروں بنگالی فوراََ مشرقی پاکستان سے بھاگ کر بھارت چلے گئے۔ جہاں ہندوستان سرکار نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بھارتی حکومت نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مارچ کے ہنگاموں سے پہلے ہی ہزاروں جھونپڑیاں مغربی بنگال کی سرحد کے ساتھ ساتھ تیار کروا رکھی تھیں جہاں آنے والے بنگالی نوجوانوں کو پناہ کے بہانے رہائش مہیا کی گئی۔ یہی نوجوان مکتی باہنی کہلاتے تھے۔ مکتی باہنی گوریلا تنظیم کی تشکیل بھارتی فوج افسر ملٹری اکیڈمی میں کرتے رہے۔ ابتداء میں نہ صرف اس میں بنگالی شامل تھے بلکہ انڈین افواج کے لوگ بھی شامل تھے ۔ انہوں نے ہی مکتی باہنی کے کارکنان کو گوریلا جنگ کی ٹریننگ دی۔اس گوریلا تنظیم نے اپنے ہم وطنوں اور بہاریوں کا قتل عام کرتے ہوئے دہشت گردی اور وحشت ناکی کی تاریخ رقم کی۔ ’’مکتی باہنی ‘‘جس نے پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ کر بنگلہ دیش بنانے میں نہ صرف انڈین مقاصد کو پورا کیا بلکہ اپنے اور اپنے بھائیوں کے لہوسے انڈین دہشت گردی کو بھی سینچا۔ حالات تیزی سے بگاڑے جارہے تھے۔ پاکستانی فوج کئی محاذوں پر لڑرہی تھی جبکہ سرحدوں پر شدید دباؤ تھا۔ بھارتی فوج نہ صرف مکتی باہنی کے باغیوں کو اسلحہ مہیا کر رہی تھی بلکہ ان کی نگرانی کے ساتھ ساتھ بھارتی فوجی اہلکار سادہ لباس میں ان سے زیادہ تخریبی کاروائیوں میں خود شامل تھے ۔ عمارتیں اور ذرائع مواصلات خاص طور پر ان کے نشانہ پر تھے جبکہ غیر بنگالی مسلمان تو بالکل غیر محفوظ تھے۔ ہندوستانی فوج اور مکتی با ہنی خود کارہتھیار سنبھالے بازاروں میںآزاد انہ پھرتے اورجو چاہتے کرتے۔ اتحاد پرزور دینے والوں کو راستے کا کانٹا سمجھا جاتا۔ جہاں کہیں ان امن پسندوں سے آمنا سامنا ہوجاتاان کا صفا یا کردیا جاتا۔ اس دوران بین الاقوامی سازشیں اصلاح کی کوششوں کو ناکام کر رہی تھیں۔ امریکی ساتواں بحری بیڑہ، چین کی مدد سب محض طفل تسلیاں تھیں۔ پاکستانی فوج مسلسل 9ماہ سے برسر بیکار تھی۔
پھر 16دسمبر کی وہ سیاہ صبح جو دلوں پرلرزہ طاری کرنے والی اور جسم کو چیر کر دو حصوں میں تقسیم کرنے والے اُس لمحہ کے ساتھ آہی گئی جس کے بارے میں افواہیں جاری تھیں’’سرنڈر سرنڈر‘‘۔ جو پاکستان کی محبت میں فدا ہو رہے تھے ان پر بجلی گر رہی تھی، آسمان ٹوٹ رہا تھا ۔ محمد پور اورمیر پور کی گلیاں لہو لہو کر دی گئیں۔ سرنڈرکی خبروں کی تصدیق ہو چکی تو بھارتی افواج نے بنگالی فوج اور عوام میں اپنے پالتوؤں کے ذریعے ڈھاکہ پر قبضہ کرلیا ۔ 90 ہزار پاکستانیوں کو جنگی قیدی بنایا گیا پاکستان کا مشرقی بازوں کٹتے ہی پاکستان اسلامی دنیا کی سب سے بڑی مملکت کے اعزاز سے بھی محروم ہوگیا ۔ مغربی اور مشرقی پاکستان جو ایک دل و جان تھے کٹتے رہے ، جلتے رہے ، کڑتے رہے جبکہ ہندو خوش ہوتا رہا اور اپنا کام کرگیا۔ بنگلہ دیش کی کامیابی پر بدحواس انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی نے دہلی میں اپنی پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا ’’یہ کامیابی جو ہمیں حاصل ہوئی ہے یہ ہماری افواج کی نہیں بلکہ ہمارے نظریے کی کامیابی ہے ۔ ہم نے کہا تھا کہ ان کانظریہ غلط ہے اورہمارا نظریہ درست ہے۔ لیکن وہ نہ مانے اور ہم نے ثابت کر دیا کہ ان کا نظریہ غلط تھا۔ آج ہم نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے کر پاکستان کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ ‘‘ 
بھارت نے جوظلم وتشددمشرقی پاکستان میں کیاتھاوہی ظلم اب وہ مقبوضہ جموں کشمیر میں کررہاہے۔ بھارتی فوج نے کشمیر میں آپریشن آل آؤٹ کے نام پر بدترین ظلم و دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ وادی میں کئی کئی روز تک کرفیو معمول بن چکا۔ یہاں تک کہ بھارتی فوج نے کشمیریوں کیخلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں شدت پیدا کر دی ہے۔لیکن الحمدللہ کشمیریوں کا ذوق شہادت اور عزم حریت آسمان کی وسعتوں کو چھو رہا ہے۔ تمام تر ظلم و جور کے باوجود انڈین سرکار اور اس کی دہشت گرد غاصبانہ افواج بے بس ہیں۔شہداء کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ تحریک آزادی عروج پر پہنچ چکی۔یہ وقت مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے۔اس لئے کہ کشمیر کی آزادی سے پورے خطے کے حالات تبدیل ہوں گے۔ 
______________________________________________________
’’مسائل اور وسائل‘‘
محمد عنصر عثمانی

ایم اے عربی اسلامیات کراچی یونیورسٹی ۔مکان نمبر آر تین سو نارتھ کراچی
موت کے کنویں میں نوجوان بڑی بہادری سے موٹر سائکل کو مہارت سے چلا کر بچوں ،بڑوں ،عورتوں کو پل بھر میں ورطہ حیرت میں ڈال دیتا تھا ۔جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے تو وہ نڈر رائڈربھی بوڑھا ہوتاچلا گیا۔جب اس میں سکت باقی نہ رہی تو گھر کا چولہا جلانے کے لیے بیٹا آگے بڑھااور باپ کی سیٹ سنبھال لی۔آج بھی سرکس کاکروباراپنے تمام تر ساز وسامان کے ساتھ ویسی حالت میں ہے جیسا ہم نے بچپن میں دیکھا تھا۔ٹرک اسی بوسیدہ حالت میں سرکس کے جھولوں کو شہر شہر اٹھائے پھرتا ہے۔اتنے سالوں میں سرکس مالکان نے ٹکٹ کے لیے صرف چند روپوں کا اضافہ کیا ۔لازمی بات ہے اس مہنگائی کے دور میں یہ کرنا ضروری تھا۔ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا۔غریبی پہلے جیب میں گھر بناتی ہے۔پھر آہستہ آہستہ یہ اژدھے کی شکل دھار لیتی ہے اور ہر طرف سے کھانے کو دوڑتی ہے۔
وقت گزرتا گیااوراب غریب خود ایک اژدھا بن چکا ہے۔ جس سے امراء ڈرتے ہیں اور اسے ختم کرنے کے درپے ہیں۔غریب کو دیکھ کر ناک پہ کپڑا رکھناان کے لیے فیشن ہے۔پنجاب میں غربت کی شرح بہت خطرناک صورت حال کو پہنچ چکی ہے۔سندھ تھر پارکر کے پسماندہ ،مفلس ،جھونپڑی پناہ گزین اس ملک کے باسی سمجھے جاتے توریاست اپنا فرض پورا کرتی۔کیوں کہ ریاست خود کئی بیانیوں میں اٹکی رہتی ہے ،اس لیے سیاست کے عروج تک غریب کی آواز نہیں پہنچ سکتی۔آواز گلے سے تب نکلے گی جب بولنے لائق ہوں گے۔انہیں بھوکا رکھا جائے ۔معاشی ابتری پیدا کردی جائے ۔ان کے احساس کومردہ کردیا جائے۔نہ رہے گا سانپ نابجے بانسری۔میٹرو ،گرین لائن بس،اورنج ٹرینوں کے جھولے غریب کا پیٹ بھر سکتے ہیں۔تعلیم کے نام پہ دھوکہ ،دوائی میں ملاوٹ ،علاج معالجہ کے نام پہ فراڈ۔ غریب کے لیے آنے والی اربوں ڈالر ز کی رقم سے پنجاب کے دیہی علاقے میں پڑی مائی سرداراں کو کچھ ملے گا۔چار پائی اس نحیف کو دھیرے دھیرے موت کی طرف دھکیل رہی ہے ۔مائی سرداراں کو معلوم ہے کہ زندگی اور موت کی اس جنگ میں شکست زندگی کوہی ہونی ہے۔اس لیے کہ ہم نے صرف ترقی یافتہ ہونے کا ڈھونگ رچانا ہے۔ دکھاوا کرنا ہے۔
کل جب مائی سرداراں کے بیٹے سے معلوم پڑا کہ انہیں کینسر جیساموذی مرض لگ چکا ہے تودل دکھ سے بھر گیا۔غریب کا سفر ویسے بھی دشوار ہے ۔جب اس طرح کی آفت آن پڑے تو پھر کفن سستا لگتا ہے۔غریب ایک تو جیب کا غریب ہوتا ہے دوسرا یہ ڈرپوک بھی ہوتا ہے۔یہ ڈر بھی اس کے اندر پیدا کیا گیا ہے۔یہ ڈاکٹر سے ڈرتا ہے کہ محافظ شکاری بن چکاہے۔اس کا کہنا بجا تھا کہ ہم کس کو دکھائیں۔کس سے ٹیسٹ کرائیں ۔کس کے در پہ دھائی دیں۔ جہاں مائی سرداراں جیسے لوگ رہتے ہیں،ایسی پسماندہ غریب آبادیوں کے نام تک ان دعویداروں کو یاد نہیں ہوں گے۔ہمیں حیرت اس لیے نہیں ہوتی کیوں کہ ایسے واقعات روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔اگر پنجاب کی آبادی دیکھی جائے،ہریالی، خوبصورتی کے نظارے کیے جائیں تو دل اپنی آزاد فضاؤں میں اڑتا پنچھی بن جاتا ہے۔لیکن ملک میں مائی سرداراں جیسے3 کروڑ مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔غیر معیاری غذا ،گٹر کا پانی،نامناسب اقدامات ،ملاوٹ شدہ اشیاء سے ہر دوسرا شخص جان لیوا مرض میں مبتلا ہورہا ہے۔یہی ہولناکی غریب ترین علاقوں میں دندناتی پھررہی ہے۔تھر کی قحط سالی میں جن ماؤں کے پھول ریاست کی بے توجہی سے مسلے گئے ،ان ماؤں کی آہیں خدا کے حضور سربسجودہوکر حکمرانوں کے خلاف گواہی دیتی ہوں گیں۔
غریب کے لیے معاشی عذاب ہی ٹارچر سیل ہوتا ہے۔خدانخواستہ کوئی مہلک بیماری لاحق ہوجائے تو وہ ادھ مواہوجاتا ہے۔ٹی بی ،ہیپا ٹائٹس ،کینسر جیسے مرض اپنے نام سے ہی غریب کی جان نکال لیتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق 22 کروڑ کی آبادی میں سے ہر آٹھواں شخص ہیپا ٹائٹس کا شکار ہے۔لیکن حکومت شہریوں کو اس خطرناکی سے بچانے کے لیے کوائی اقدامات نہیں کررہی۔یادش بخیر حکومت نے 5 ارب کا فنڈ مختص کیا تھا،مگر کیا 5 ارب روپوں سے سینکڑوں کھرب انسانی جان کے دشمن جرثوموں کا مقابلہ ممکن ہے؟سرکاری اسپتالوں میں ہر تیسرا بیڈ ایسے مریض کا ہے جسے گھر واپسی کی امید ہی نہیں ۔ایسا اس لیے کہ وہ جانتا ہے میرے مرض کی دوا ناپید ہے۔دوردراز علاقوں سے آنے والے غریب مریضوں کو اسپتال کے ٹھنڈے فرش پر سوتے دیکھ کر کلیجہ برف کا پہاڑ بن جاتا ہے۔یہ اس امید سے رات کو اسپتال میں سو جاتے ہیں کہ شاید صبح کوئی مسیحا ڈاکٹر کے روپ میں آئے ،انہیں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منھ میں جانے سے بچالے۔جیسے مائی سرداراں کینسر سے لڑرہی ہے ۔
مائی سرداراں کی جنگ ایک جان لیوا مرض سے نہیں ، امید سے ہے۔وہ امیدجو اولاد کووالدین سے ،غلام کو آقا سے اور رعایا کو وقت کے بادشاہ سے ہوتی ہے۔غریب کے پاس وسائل نہیں کہ جن سے اس کے مسائل حل ہوسکیں۔حکومت کے پاس وسائل ہیں مگر بے جا ضائع کردیے جاتے ہیں۔وسائل کو درست جگہ استعمال کرنے کا نظم بنانے والے درددل رکھتے تو مسائل کا خاتمہ کوئی مشکل نہ تھا ۔انہیں مسائل کا ادراک ہوتا تو وسائل کا ضیاع نہ ہونے دیتے۔دارالحکومت میں 20 کروڑ سے جگر کی پیوند کاری کا اسپتال بنایا گیا ،عجب بات ہے کہ ایک جگر کی پیوند کاری بھی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔جناب عمران خان صاحب ترقی پذیر ممالک کی بہت مثالیں دیتے ہیں۔ان کے اب تک غیر ملکی دوروں میں ایسے ممالک شامل رہے جو معیشت میں مستحکم ،صحت کے مسائل کے حل میں سنجیدہ ہیں۔چین کا ہر ادارہ سرکاری تحویل میں ہے۔اسپتال بھی گورنمنٹ کے انڈر میں ہیں ۔عام آدمی اپنے مسائل سرکارکی نگرانی میں حل کراتا ہے۔چین کی عقابی نظریں ہیلتھ پر ہمیشہ مرکوز رہتی ہیں۔وہ لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کو تیار ہے مگر صحت کے مسائل پر کوئی سمجھوتا کرنے کو راضی نہیں۔چین کا ماننا ہے کہ اگر عوام صحت کے مسائل میں کھو گئی تو ترقی کا ہاتھ پکڑے رکھنا مشکل ہو جائے گا۔کیا عمران خان صاحب چین سے صحت کا کوئی فارمولہ لائے ہیں؟ جس سے مائی سرداراں جیسے لاکھوں مریضوں کادرد کم کیا جا سکے؟ کوئی ایسا نسخہ کیمیا جس سے وسائل سے ہی سہی ،مسائل کو حل کیا جاسکے؟
____________________________________________________

انجام 

محمد عنصر عثمانی
ایم اے عربی اسلامیات کراچی یونیورسٹی ۔مکان نمبر آر تین سو نارتھ کراچی

4فٹ کا پہلوان اگر 6 فٹ کے پہلوان کو چت کردے تو جیتنے والے پہ نہیں ،ہارنے والے پہ ہجوم کف افسوس ملتا ہے۔اس پر طعن کیا جاتا ہے۔ہم جب بھی افغانستان میں امریکہ کی بوکھلاہٹ دیکھتے ہیں تو نائن الیون کے غبار سے نکلنے والے آدم خور کی چنگھاڑ کان پھاڑ دیتی ہے۔امریکہ نے انجام کی پرواکیے بغیر سوکھے ٹکڑے کھانے والوں کو تَر نوالہ سمجھا ۔غروریت ماتھے پہ سجائے امریکہ جب پتھروں کے ملک پہنچا تو اسے لگا کہ یہ اٹھارہ دن کی لڑائی ہے۔لیکن وہ یہ بھول گیاکہ عمامہ،چادروں والے ایمان کی طاقت سے مالا مال ہیں۔ان کے قلوب میں بدروحنین کی روحیں بسیرہ کرتی ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو پیاز روٹی کھا کر عزت کی زندگی جی لیتے ہیں ،مگر مادیت کی ڈشوں پر نفوس کی سوداگری نہیں کرتے۔بہادری شجاعت انہیں ورثہ میں ملی ہے۔جب ان کی رگوں میں ایمان کا کرنٹ دوڑتا ہے تودنیا سپر پاور کو راہ فرار تلاش کرتا دیکھتی ہے۔ معلوم نہیں اس آدم خور کو کس نے یہ بات گھول کر پلادی ہے کہ دنیا پر اثرورسوخ، اپنا سکہ رائج کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔طاقت کا استعمال ۔اس نے سوچادنیا کے سامنے نائن الیون کا جنازہ اٹھا کر خود کو اتنا مظلوم ظاہر کیا جائے جس سے ساری عالمی برادری میری ہمدرد بن جائے۔پھر بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی سا لمیت پر حملہ تودور،مبادا کوئی تخیل بھی کرے تو اسے تختہ مشق بنادیا جائے۔اور اس عالمی دہشت گردی کو قانونی حق دلواکر اپنے تحفظ کے لیے لاکھوں انسانوں کی لاشوں کی دیوار کھڑی کردی جائے۔
 طاقت کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے ۔آخر پہلوانی کاشوق پورا ہوا ۔تکبر سی تنی گردن پھر ٹوٹی جس پر روس فخر کیا کرتا تھا۔امریکہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے بے گناہوں کا قبرستان کہاں چھپائے گا۔افغانستان کے پہاڑ خالی آنکھوں سے انا کا بت چکنا چور ہوتے دیکھ رہے ہیں۔اس مندر کے سارے پجاری کھسک گئے۔بڑاپجاری نہ جی سکتا ہے نہ مر سکتا ہے۔یہ چٹانیں بزبان حال یہ کہتی ہیں کہ ہمارے بڑے کہ گئے تھے ایک بھیڑیا ہمارے دور میں آیا تھا جسے ہم نے الٹے پاؤں بھاگتے دیکھا۔وہ ہمارے گوش و گزار کرگئے تھے جب تم بڑے ہو جاؤ گے تو دنیا کا ایک سورما یہاں سے بوریا بستر گول کرتا دکھے گا۔وہ منظر ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔یہ وادیاں جب اپنی گودوں میں ہزاروں پاکستانیوں کے سر لے کر پاکستان کی طرف دیکھتی ہیں تو ان کے چہروں پر اپنی آزادی کی خوشی ،پاکستان کے لیے غیر کی جنگ میں شراکت کے شکوے نظرآتے ہیں۔
افغانستان کے ان میدانوں کو چمڑی ادھیڑنے والے درندے کی سفاکی کا علم تھا۔انہیں قطعی علم نہیں تھا کہ ان کا پڑوسی آمر امریکہ کی ذیلی ریاست ہونے کا ثبوت دے گا۔اب جب افغان سرزمین چھوڑنے کی تجویز پر عمل ہوناقریب ہے تو امریکہ کو جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کی فکر ستا رہی ہے۔پاکستان کاعالمی فورم پر کالی بلی کی طرح راستہ کاٹا جارہا ہے۔جب کہ امریکہ خود فوجی استحکام کے قحط سے گزررہا ہے۔صدر ٹرمپ روس کی دھمکیوں سے ہیجانی کیفیت کا شکار ہے۔اس کے لیے ایران پر لگائی جانے والی اقتصادی پابندیاں ڈراؤنا خواب بن گئی ہیں۔جو بھی ہو یہ بات عالمی دنیا پہ واضح ہوچکی ہے کہ امریکہ جن کو پتھر کے دور میں دھکیلنے آیا تھا،ان کی پگڑیاں گلے کا پھندا بن چکی ہیں۔صرف ارض افغان ہی امریکہ کا قبرستان نہیں بنی ،بلکہ فلسطین میں اسرائیل کی حمایت نے بھی امریکہ کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیا ہے۔جس کی وجہ سے کئی امریکی ادارے اس حمایت کی شدید مخالفت کررہے ہیں۔امریکہ کی نیویارک یونیورسٹی نے صیہونی ریاست کے بائکاٹ کا اعلان کیا ۔یونیورسٹی کی60 طلباء تنظیموں اور تدریسی عملے کے30 ارکان نے اس بائکاٹ کی بھر پور حمایت کی اور پیٹیشن دائر کی کہ ان تمام امریکی کمپنیوں سے تعاون سے انکار کیا جائے گا جو اسرائیل کے ساتھ کسی بھی طرح کی شراکت داری میں ملوث ہیں۔اس اقدام سے امریکہ کی تین بڑی کمپنیاں متاثر ہوں گی،جن میں کٹریلر ، جنرل الیکٹرک اور لاک ہیڈ شامل ہیں۔  
دنیا کی طاقت ور کہلائی جانے والی امریکی فوج جس کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں ۔ جس پر اپنے دس ہزار ٹن فاسفورس بموں کا خمار تھا۔اپنے انجام کے نزدیک ہوچکی ہے۔وقت قریب ہے یہ بے بسی اسے پاگل کردے گی۔لیکن جنگی ہتھیاروں کا جنون تاحال سر چڑھ کر بول رہا ہے۔بھارت نے روس سے ہتھیاروں کا معاہدہ کیا تو امریکہ کا منھ اتر گیا۔دس برسوں میں انڈیا کے جنگی ہتھیاروں میں دل چسپی اور خرید میں چوبیس فیصد اضافہ ہوا ۔آج بھارت دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جس نے سب سے زیادہ جنگی ہتھیار خریدے۔انٹر نیشنل اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ جنگی ہتھیار کی خریداری میں مشرق وسطیٰ اور ایشیا سب سے آگے ہیں۔اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔رپورٹ میں لکھا گیا کہ ہتھیار وں کی برآمدات میں امریکہ ،روس ،جرمنی ،فرانس اور چین سر فہرست ہیں۔2013 سے5 5 2017 تک پوری دنیا میں جتنے ہتھیار خریدے گئے اس کا بارہ فیصد اکیلے بھارت نے خریدا۔
گزشتہ دس برسوں میں روس نے بھارت کو سب سے زیادہ جنگی ہتھیار بیچے۔امریکہ دوسرے اور اسرائل تیسرے نمبر پر ہیں۔امریکہ اپنی اس سپلائی میں کمی کاازالہ بھارت کا افغانستان میں مضبوط قدم جمانے سے پورا کرنا چاہتا ہے۔امریکہ کا افغان جنگ میں پاکستان کو آنکھیں دکھانا،بھارت نوازی ،روس سے مخاصمت ،اسرائل سے پینگیں بڑھانا،یمن جنگ میں سعودی حکومت کے ہم دم کھڑے ہونے کا وعدہ ،یہ سب قرائن بتاتے ہیں کہ امریکہ اب شہر کی طرف دوڑرہا ہے۔ اسے انجام تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

____________________________________
سموگ یافوگ کیوں اورکیسے ؟
راشدعلی
گزشتہ ہفتے مجھے نجی مصروفیت کی وجہ سے لاہور جانا پڑ ا ۔ہمیشہ کی طرح شاہدرہ پھاٹک پر گاڑیوں کا رش تھا دو کلومیٹر کاسفر ایک گھنے میں طے ہوا اورواپسی پر تو حد ہوگئی دو گھنٹے تک گردوغبار میں گزارنے پڑے ۔یہاں ٹریفک کاجام ہونا روزانہ کا معمو ل ہے کچھ بدقسمتی سے ہرطرف ڈسٹ ہی ڈسٹ ہے نومبر تا جنوری فوگ اورسموگ اس فضا کو مزید پریشان بنادیتی ہے ۔آنکھوں میں جلن سے پانی آنے سانس بنداورگلے میں خارش ہونے لگی ۔خیال کبھی یورپ گیا توکبھی متحدہ عرب امارات ہماری ریاست کہاں کھڑی ہے ۔ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ہماری سابق اورموجودہ حکومت نے کیوں خاطرخواہ کام نہیں کیا ۔جلدی امراض میں فضا کے آلودہ ہونے کی وجہ سے روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔سالہا سال تعمیرات کے منصوبے چلتے رہتے ہیں ڈسٹ اڑتا رہتا ہے ۔سڑکوں کی تعمیرمیں فٹ پاتھ نہیں بنائے جاتے سبزہ اوردرخت نہیں لگائے جاتے ۔دیہات میں بننے والی سٹرکیں ازخود فضا کو خراب کرنے کاباعث بنتی ہیں سارا دن دھول اڑتی رہتی ہے ۔ہرطرف دھول ہی دھول ہے کبھی حکومت میں بیٹھے مشیروں اوروزیروں نے اسمبلی میں اس پر بحث نہیں کی ۔ماحول کو آلودہ ہونے سے بچانا ہوگا ورنہ یہ بھی ہمارے لیے بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا ۔اب آتے ہیں فوگ اورسموگ کیطرف ۔
۔فوگ کیسے بنتی ہے؟ ٹھنڈی ہوا زیادہ درجہ حرارت رکھنے والی زمین یا پانی سے ٹکراتی ہے تو فوگ پیدا ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین اور ہوا میں دق ہوتا ہے۔ عام طور پر فوگ سردیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ ہوا میں نمی زیادہ ہو اور گرم پانی سے اٹھنے والے بخارات کی تعداد زیادہ ہو تو فوگ پیدا ہوتی ہے فوگ سے ٹریفک حادثات ہوتے ہیں مگر بیماری پھوٹنے کے چانس کم رہتے ہیں
سموگ فضا ء میں زہر آلود کثافتوں کا مجموعہ ہے کارخانوں ،گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں فضا میں جمع ہوتاہے اس دھوئیں میں زہریلی گیسیں گردوغبار ودیگر کثافتیں جمع ہوتی رہتی ہیں اِس دھویں میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی زہریلے مواد شامل ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جب یہ تمام اجزا باہم مل جاتے ہیں تو سموگ پیدا ہوتی ہے جو بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہے جونہی سرد موسم زور پکڑتا ہے تو یہ کثافتیں فوگ کی صورت اختیار کرلیتی ہیں جنہیں سموگ کا نام دیا گیا ہے سموگ میں ٹریفک حادثات کے ساتھ آنکھوں اورپھیپھڑوںکے امراض جنم لیتے ہیں اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو اس کے انسانی صحت پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کرکے سموگ کے اثرات سے بچاجاسکتا ہے گھر سے نکلتے وقت ماسک پہناجائے بغیر ضرورت باہر رہنے سے پرہیز کیا جائے گھر اورسکولوں کی کھڑکیاں دروازے پنکھے بندرکھے جائیں زمین پر پانی کا چھڑکائو کیا جائے ریاست مصنوعی بارش برسا کر اس پر خاطرخواہ کنٹرول کرسکتی ہے سموگ سے لاہور ہی متاثر نہیں ہے بلکہ دنیا کے متعدد شہر اس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سرفہرست چین کا شہر بیجینگ ایران کا احواز بھارت کا نئی دہلی ،منگولیہ کادارالحکومت اولان اورباتور کودوسرے نمبر پر سموگ کے اعتبارسے بدترین قرار دیا جاچکاہے سعودی عرب کا دارلحکومت ریاض ،مصرکا قاہرہ ،بنگلہ دیش میں ڈھاکہ ،ماسکو اورمیکسیکو کو سموگ سے متاثرہ شہر ہیں سموگ پھیلنے کی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے جس پر افراد اورریاست اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا نہیں کرتے اوریہ مرض بڑھتا جارہا ہے اگر خاطر خواہ اقدامات نہ کیے گئے تو اس کے اثرات بہت بھیانک ہوسکتے ہیں ارضِ پاک میں تو سموگ نے جلدی امراض میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔اس کی وجہ سے مسافروں کو صعبوتیں برداشت کرنا پڑرہی ہیں اورحکمران چور چور کی صدا لگارہیں ۔ڈالر انٹرا مارکیٹ میں تاریخ کی بلند ترین سطح پرپہنچ چکا ہے۔وزیرخزانہ صاحب چپ سادھے ہوئے ہیں وزیراعظم قوم کو صبر کی تلقین کررہے ہیں وہ قوم جو گزشتہ سات دیہائیوں سے برداشت کررہی وہ یہ دن بھی برداشت کرلے گی ۔
 سموگ ماحولیات آلودگی کا ساخشانہ ہے اورماحول کو آلود ہ حیونات نباتات یاجمادات نہیں کرتے بلکہ انسان کرتے ہیں ،درختوں اورجنگلات کے ذریعے ماحولیاتی آلودگی پر خاطر خواہ قابو پایاجاسکتاہے مگر افسوس سے ہمارے ہاں درخت لگانے والا اکادکا اورکاٹنے والے ہزاروں ہیں جہاں لگانے اوراکھاڑنے والوں کے درمیان اتنابڑافرق موجود ہو وہاں ماحول کیسے آلودگی اورسموگ سے محفوظ رہ سکتاہے ۔ ہم سب جانتے ہیں درخت جتنے زیادہ ہوں گے اتنی ہی آب وہوا صاف شفاف ہوگی اورفضائی آلودگی کو پنپنے کا موقع نہیں ملے گا ماہرین برملا درختوں کی اہمیت کا اعتراف کررہے ہیں ،ماہرین کی رائے اپنی جگہ یہاں تو درخت کاٹ کاٹ کر پیسے بٹورے جاتے ہیں ۔ناروال پسرور تا شکرگڑھ روڈ پر ہزاروں درخت تھے سٹرک کشادہ کرنے کے بہانے سارے کٹوادیے گئے سڑک وہیں کی وہیں ہے ۔پلاننگ کا تو ہمارے ملک میں نشان تک نہیں ہے ۔ادارے تباہ حال لٹیرے ان کی نگرانی کررہے ہیں خان صاحب کا نعرہ تو ہے ادارے ٹھیک کرنے خدا کرے یہ ٹھیک ہوجائیں ۔بات ہورہی تھی درخت کاٹنے کی تویہ سلسلہ ہر شہر میں جاری وساری ہے حلانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جدید آلاتِ مشینری کے ذریعے ان درختوں کو اک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ منتقل کردیا جاتا مگر زر کی حریصوں کو ماحول اورانسانوں سے کیا دلچسپی ہے ان کے لیے تو سب کچھ پیسہ ہے یہ اس کے لیے جیتے ہیں اور اس کے لیے مرتے ہیں ۔۔۔عوامی مفادات کیا ہوتے ہیں ۔۔۔یہ تویہ بھی نہیں جانتے کہ یہ ان پر واجب بھی ہیںیا کہ نہیں ،ووٹ بٹورنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کی خدمت ایساقرض ہے جو ان پر فرض ہی نہیں ہے اس لیے یہ اپنی تمام ترتوانائیاں اپنی ذات اہل وعیال اورعزیز واقارب پر صرف کرتے ہیں یا خوشامد کرتے ہیں سارا سارا دن سب کچھ ٹھیک ہے کی رٹ لگائے رکھتے ہیں کام کرنے کا انہیں ذوق ہی نہیں ہے ۔الزام تراشی اوردشنام تراشی ہماری حکومت اوراپوزیشن کا کلچر بن چکا ہے ایسے میں مشترکہ بنیادوں پر کام کیسے ہوسکتاہے ۔

موجودہ حکومت نے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے بھٹے بند کیے تھے اینٹیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں دس سے گیارہ ہزار ریٹ پر فروخت ہورہی ہیں بھٹے چل رہے ہیں ۔پرانی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں ۔ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تعمیرات سے لے کر ٹریفک تک اورگاڑیوں سے لے کر صنعت تک تمام اداروں کی مانٹرنگ کا نظام لائے بغیر ماحول کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا ہے۔
____________________________________________________________

سارک سربراہ کانفر نس اوربھارتی ہٹ دھرمیاں 

راشدعلی



آٹھ جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم برائے علاقائی تعاون، سارک کو قائم ہوئے 33 برس ہوچکے ہیں لیکن ماہرین کا کہناہے کہ اس تنظیم کے قیام سے جو توقعات وابستہ تھیں وہ ابھی تک پوری نہیں ہوسکیں ہیں ۔بیشتر ماہرین کے خیال میں سارک کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتوں، بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ہے۔ فوجی اور سیاسی اعتبار سے ان دو روایتی حریفوں کے درمیان کشمیر اور سیاچین سمیت کئی دیگر متنازعہ معاملات ہیں جو خطے کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں جبکہ کشادہ ذہن اورزمینی حقائق سے آگاہی رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ بھارتی ہٹ دھرمیاں سارک کانفرنس کے اہداف کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔پاکستان ہمیشہ مذکرات اورمفاہمت کا خواہاں رہا ہے دوسری جانب بھارت نے ہمیشہ مثبت امن کوششوں کو سپوتاز کیا ہے ۔بھارت 2016میں ہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا اورہمسایہ ممالک کو بھی اپنے موقف پر کھڑا کرنے کی ناجائز کوشش کی بھارت سمیت چار ممالک کی جانب سے جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک کے پاکستان میں منعقد ہونے والے سربراہ اجلاس میں شرکت سے انکار کے بعد یہ اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے۔

اس اجلاس کے ملتوی ہونے سے خطے کی منفی تصویر دنیا کو دیکھنے کوملی ۔دنیا میں یہ تاثر شدت سے محسوس کیا گیا کہ ایشیاء میں کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ سارک سربراہ کانفرنس ہی ملتوی ہوگئی ہے ۔نریندر مودی نے بھرپور کوشش کی ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی دنیاسے تنہاکردے جس کا وہ برملا اظہار بھی کرچکا مگر اسے ندامت کے سوا کچھ نہیں ملا۔بھارت کی امن دشمنی کو لگام ڈالنے کی ضرورت ہے ۔سابقہ روایات کے عین مطابق بھارت نے پھر وہی کھیل کھیلا ہے ۔بھارت کا خیال ہے کہ ایسے اُچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے پاکستان کشمیر پر اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائے گا تو یہ مودی جی کا وہم ہوگا پاکستان کشمیریوں کی حق خودارادیت کا کل بھی سب سے بڑ ا سپورٹر تھا آج بھی ہے اورآئندہ بھی رہے گا۔

اس مرتبہ جب پاکستان میں دوبارہ سارک سربرہ کانفرنس ہونے جارہے ہی تو بھارتی وزیرخارجہ ششماسوراج نے نریندر مودی کی شرکت سے انکار کردیا ہے ۔یہ اعلان ایسے وقت کیا گیا ہے جب پاک بھارت کرتارپور راہداری کوریڈور تعمیر ہونے جارہا ہے جس کا باقاعدہ افتتاح وزیراعظم عمران خان نے کردیا ہے ۔اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو مذکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھے گا توپاکستان دو قدم آگے بڑھے گا۔بھارت اپنے جارحانہ اقدام سے خطے کے امن کو نقصان پہنچانے کے در پر ہے۔گزشتہ ایک ماہ میں بھارت مقبوضہ کشمیر میں 40سے زائد کشمیریوں کو شہید کرچکا ہے ۔یہ جبر وبربریت ،ظلم وتشدد ،قیدوبند کب تک چلے گا اگر بھارت نے اپنی انتہاپسندانہ روش نہ بدلی تو یہ ظلم بھارت کو نگل جائے گاکیونکہ ظلم کو دوام نہیں ہے ۔

بھارت ایک ایسا ملک ہے جو خطے میں اپنے تئیں اجارہ داری قائم کر چکا ہے اسی زعم کے پیش نظر وہ دیگر ممالک کیساتھ من مرضی کا برتاو اختیارکرتا ہے، بھارتی وزیرخارجہ نے ایک بار پھرثابت کردیا ہے کہ وہ امن کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے یہ جانتے ہوئے بھی کہ انیسویں سارک سربراہ کانفرنس کے بعداس سارک سربراہ کانفرنس کا ملتوی ہونا مناسب نہیں ہے ۔بھارت پاکستان کو دباؤ میں لانا چاہتا ہے ۔منفی اورغیر سفارتی انداز اپنا کر علاقائی امن کو نقصان پہنچانے کے در پے ہے ۔بھارت رقبے، آبادی اور وسائل کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے اسی وجہ سے مودی جی کہہ چکے ہیں کہ دنیاکو بھارت کی ضرورت ہے بھارت سوکروڑ لوگوں کا ملک ہے ۔بھارت انسانوں اورمصنوعات کی منڈی ہے اسی زعم میں وہ دیگر ہمسایہ ممالک پر اپنا رعب جمائے رکھتا ہے ۔ ان سب ممالک میں صرف پاکستان ہی ہے جو آزادانہ حیثیت میں اس کے مدمقابل کھڑا رہتا ہے اور سارک میں بھارتی ڈکٹیشن قبول نہیں کرتا اسلئے جب بھی اسلام آباد میں سربراہ کانفرنس یا وزرائے خارجہ کا اجلاس ہونا ہوتا ہے وہ کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کردیتا ہے ۔
گزشتہ سارک سربراہ کانفرنس کو معطل کرنے کے لیے بھارت نے جوازگھڑا تھا کہ بھارت دہشت گردی سے متاثرہے اوردہشت گردی پاکستان کی پیدا کردہ ہے جبکہ ساری دنیا کو خبرہے کہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک پاکستان ہے 75000ہزار شہریوں اور آرمڈ اورسول فوجیوں کی قربانیاں پاکستان نے پیش کی ہیں پاکستان نے دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے ۔
پاکستان نے بھارت کے اس جھوٹ کو ناکام بنایا ۔بین الاقوامی دنیا کو بھارت کے اس دہشت گردانہ اقدام کو رد کرنا چاہیے اور بھارت پر زور ڈالنا چاہیے کہ وہ اپنے حل طلب معاملات میز پر بیٹھ کرحل کرے ۔
اگر سارک تنظیم نے اسی طرح لولے لنگڑے انداز میں چلنا ہے تو اس اپاہج تنظیم کے وجود کیا ضرورت ہے ۔بین الاقوامی دنیا میں متعدد فورم موجود ہیں مگر اس طرح کسی فورم پر نہیں ہوتا کہ کوئی ملک اپنی ذاتی ہٹ دھرمیوں کی بنیاد پر علاقائی تنظیم پر اثر انداز ہوتا ہو ۔ اگر بھارت ہر چند سال بعد کانفرنس کو ناکام بنانے کیلئے کوئی نہ کوئی نیا حربہ آزمانے کی روش ترک کرنے کیلئے تیار نہیں تو اس تنظیم کو ختم کردیا جائے یا بھارت کی رکنیت معطل کردی جائے ۔اب وقت آگیاہے کہ دنیا کوبتایا جائے کہ مودی اوراس کی ٹیم امن کی راہ میں رکاوٹ ہے اس کے ساتھ مزید نہیں چلاجاسکتا ہے ۔
اس مرتبہ اگر بھارت اپنی روش نہ بدلے تو اس کی آرتھی جلاکر آخری رسومات ادا کرکے اسے دفن کردیا جائے اور اس قبر پر تختی لگا دی جائے کہ یہ سارک سربراہ کانفرنس بھارت کی تنگدلی اور ذہنی پسماندگی کے بسبب مٹی کے ڈھیر کے نیچے دفن ہوچکی ہے ۔اس باغ کو اچھی روایات قائم کرنے کے لیے لگایا گیا تھا مگر بدقسمتی سے بھارت نے اس باغ کو ویران کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔امن کے باغ کواجاڑنے اور پھولوں کو مسلنے سے بھارت باز نہیں آیااسی وجہ سے اس اتحاد کی آخری رسومات ادا کی جارہی ہیں تاکہ پوری دنیا بھارت کے دہشت گردانہ چہرے کوپہچانے۔بھارت بے ثمر درخت ہے اور اس کا سایہ دھوپ کی شدت کم نہیں کرتا اس کی ٹہنیاں خار دار تاروں کی مانند ہیں جونقصان کاباعث ہیں ۔
______________________________________________________


بھارتی آرمی چیف کی پاکستان کوجنگ کی دھمکی!
قاضی کاشف نیاز 



بزدل بھارتی سیناکے بزدل مہاراجبپن راوت صاحب پاکستان کوجنگ کی ایک بارپھردھمکی دینے لگے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہم پاکستان کوسرپرائز دیں گے۔ ایسادرد دیں گے کہ پاکستان درد محسوس کرے۔ویسے ہمیں شک پڑتاہے کہ جنرل بپن صاحب کے دماغ میں نجانے یادداشت کاخانہ بھی آج کل باقی ہے یانہیں کیونکہ ابھی 4ماہ بھی نہیں گزرے جب یہی جنرل بپن راوت جوکشمیرمیں8لاکھ بھارتی دہشت گرد فوجیوں کے مقابلے میں برسرِپیکار مٹھی بھرکشمیری مجاہدوں کے ہاتھوں اپنی ناکامی اورشکست کایہ کہہ کر اعتراف کررہے تھے کہ کشمیر کے مسئلے کاحل بندوق سے نہیں ہوسکتا۔ اس کاکوئی فوجی حل ممکن نہیں133اور اس سے بھی صرف 2سال پہلے اسی ستمبرکے مہینے میں اس وقت کے بھارتی آرمی چیف جنرل دلبیرسنگھ نے پاکستان پر حملے اورسرجیکل سٹرائیک کی دھمکی دی تھی145اس کا حشر بھی سب کومعلوم ہے133اس مقصدکے لیے ان بھارتی انتہاپسنددہشت گردوں کے سرخیل مودی کی زیرصدارت بھارت کے سارے بڑے بڑے مہاشیطان وزراء اور جرنیل سرجوڑکربیٹھ گئے تھے لیکن جب انہوں نے پاکستان کو تباہ کرنے کے لیے اپنے شیطانی منصوبوں کاجائزہ لیاتو معلوم ہوا کہ زمینی حقائق کی دنیامیں اب ایساکرنا ممکن نہیں۔ اس اجلاس میں وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ145وزیردفاع منوہرپاریکر145قومی سلامتی کے مشیر بلکہ پاکستان دشمن منصوبوں کے اصل مشیراجیت ڈوول اوربھارتی دہشت گرد فوج کاسربراہ جنرل دلبیرسنگھ اور دیگر فوجی کمانڈرز بھی شریک تھے۔

اس وقت مودی اوراس کے شیطان مشیر اجیت ڈوول نے بھارتی دہشت گرد فوجی کمانڈوز سے پاکستان کے خلاف جارحیت کے آپشن مانگے۔اس پردہشت گرد کمانڈروں نے مودی کو پاکستان سے متعلق محتاط روّیہ اپنانے کا مشورہ دیا۔ خود روسی میڈیا نے بھارتی فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایاکہ نریندر مودی کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں بھارتی فوج کے تینوں سربراہوں نے ہاتھ کھڑے کردئیے کہ بھارتی فوج پاکستان کے ساتھ جنگ کے لیے تیارنہیں ہے۔ اس پر پَردھان منتری جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ بھارتی ائیرچیف نے مودی کوبتایا کہ بھارت ابھی پاکستان کے ساتھ جنگ کے لیے تیارنہیں ہے۔ بھارتی لڑاکاطیارے جنگ کے قابل ہی نہیں۔ذرائع نے بتایا کہ بھارتی فوجی کمانڈروں نے وزیراعظم مودی کوکسی بھی فوجی کارروائی کاخیال دل سے نکالنے کامشورہ دے دیا۔بھارتی آرمی چیف کاکہناتھا کہ کنٹرول لائن پرحملے کی صورت میں نقصان ہماراہی ہوگا۔پاکستان نے کنٹرول لائن پر دفاعی انتظامات مزید مضبوط بنالیے ہیں ۔ اس لیے کنٹرول لائن پرپاک فوج سے چھیڑچھاڑ کاخیال دل سے نکال لیناہی بہترہوگا۔ جنرل دلبیرسنگھ نے اجلاس کوبریفنگ دی کہ انہوں نے فیلڈ کمانڈروں سے ملاقاتیں کیں اور خود کنٹرول لائن کا بھی جائزہ لیاہے145انہوں نے کہا145 کوئی بھی ایڈونچرخود بھارت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔چنانچہ یہ اس کااثرتھا کہ مودی نے جب اڑی حملے کے بعدپہلی تقریرکی توایک طرف وہ پاکستان کوگیدڑ بھبھکیاں دے رہاتھا لیکن خود اس کااپنایہ حال تھاکہ وہ باربار پسینہ صاف کرتااور پانی مانگتا رہا۔دنیاحیران تھی کہ پاکستان کودھمکیاں دینے والے کے اپنے پسینے کیوں چھوٹے ہوئے ہیں۔ اب پوری دنیاکوکیامعلوم کہ ہندوہمیشہ بزدل ہوتاہے۔ مودی کی یہ تووہ کیفیت ہے جودنیاکونظرآگئی وگرنہ کوئی غورکرتاتواس ہندوبزدل کی شلوار بھی دوسرے پسینے سے پوری طرح گیلی نظرآتی۔

اس وقت بھارتی فضائیہ کے ونگ کمانڈر پرافول بخشی سے این ڈی ٹی وی نے انٹرویوکے دوران جب سوال کیاکہ کیابھارت پاکستان پرسرجیکل سٹرائیک کرسکتاہے اوراگرکرتاہے توکتنی دیر تک سٹین کرسکتاہے تواس نے کہاکہ یہ تواب بہانے ڈھونڈنے والی بات ہے اوریہ بات سچ ہے جوپہلی بارکسی نے سچ بات کی ہے۔ وائس چیف آف ائیرسٹاف ائیرمارشل بھنوانے صاف صاف کہہ دیاہے کہ ہماری پوزیشن اتنی گھمبیرہے کہ ہم پاکستان کے خلاف فرنٹ وار کرہی نہیں سکتے(یعنی بزدلوں کی طرح صرف پیچھے سے ہی چھرا گھونپ سکتے ہیں)جوآکڑے بولے ہوگئے ہیں145 ہمارے سکوارڈن 44سے کم ہوکر 33رہ گئے ہیں اور مزیدکم ہونے والے ہیں۔ہم سب کچھ خریدرہے ہیں لیکن کیاکیاخرید یں گے جبکہ پاکستان چائنہ مل کرسب ہتھیار بنارہے ہیں۔دوسری طرف کومپڑولر اینڈآڈیٹر جنرل نے پارلیمنٹ میں مودی کی رہی سہی ہوا یہ کہہ کر نکال دی کہ بھارت کے پاس گولہ بارود کی اتنی کمی ہے کہ جنگ کی صورت میں وہ دس دن بھی نہیں لڑسکتا۔

قارئین کرام! مودی نے جب اس لحاظ سے اپناوارخالی جاتے دیکھا تو اس نے ایک اورشعبے سے اپنے ماہرچیلوں کوطلب کرکے پاکستان کے خلاف ایک اور آخری وار اور آخری پتہ کھیلنے کی ناکام کوشش کی۔اس کے شیطانی دماغ میں یہ شیطانی خیال اچانک بجلی کی طرح کونداکہ پاکستان کو بغیرجنگ کے بھی (معاذاللہ) تباہ وبربادکیاجاسکتاہے۔ اپنے اس شیطانی منصوبے کی تکمیل کے لیے اس نے ملک کے آبی شعبہ کو چنا اور ملک بھر سے اس شعبہ سے اپنے بڑے بڑے شیطانی چیلوں145گرؤوں اور شاگردوں کواکٹھاکیا۔ ان سے مشورہ مانگا کہ کیوں نہ پاکستان کاپانی بندکرکے اورسندھ طاس معاہدہ ختم کرکے اسے بغیرجنگ کے ہی تباہ کردیاجائے۔ اس پراس کے ماہرشیطانی چیلوں نے اسے بتایا کہ استاد!ایسا احمقانہ خیال بھی دل میں نہ لانا۔ پاکستان کاپانی بندکیاتوبھارتی پنجاب اورکشمیرمیں سیلاب آجائے گا۔یعنی یہ چاندپرتھوکنے والی بات ہوگی کہ تھوک توالٹاواپس اپنے ہی منہ پرآئے گی اور ہمارا ہی چہرہ لالو لال ہوجائے گا۔ پھرماہرین نے یہ بتاکرمودی کے ہاتھوں کے طوطے اڑادئیے کہ ہم نے اگرپاکستان کاپانی بند کیاتو سندھ طاس معاہدہ کی وجہ سے پاکستان ہمیں پوری دنیامیں بدنام کرے گا۔ دوسری طرف چین دریائے برہم پتراکاساراپانی بھی روک سکتاہے جس سے ہمیں 36فیصد پانی ملتاہے جبکہ ہم چین کے خلاف بین الاقوامی سطح پرکوئی آوازبھی بلند نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارا اس کے ساتھ ایساکوئی معاہدہ ہی نہیں۔چنانچہ بھارتی ماہرین نے مودی کو واضح طورپر بتایا کہ ایسی غلطی سے گریزکیاجائے اور پھرہرطرف سے مایوس ہوکر جنگ کی دھمکیاں دینے والے مودی نے اچانک پینترابدلااور اعلان کردیاکہ ہماری جنگ تو غربت کے خلاف ہے145 یعنی چالاک لومڑی کی طرح جب کچھ نہ بناتوکہہ دیا133146146انگورکھٹے ہیں145145

قارئین کرام! بھارتی بزدلیوں کے یہ کوئی ایک دوواقعات نہیں۔مشرف دور(2002ء )میں بھی بھارت10ماہ تک پوری فوج 145تمام تر لاؤلشکر 145مہلک ترین ایٹمی اوردوسرے ہتھیاروں اور جدید ترین سازوسامان کے ساتھ سرحدوں پرپڑاؤ ڈالے رہا لیکن اسے ایک انچ بھی آگے بڑھ کر پاکستان پر معمولی حملے کی بھی جرأت نہ ہوسکی۔پھر دوسال پہلے سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیاں دینے والابھارت اپنی قوم کو مطمئن کرنے کے لیے سٹوڈیومیں بنائی گئی ایک فلمی ٹائپ سٹرائیک کی فلم ہی دکھاسکاجس کی زمین پرکوئی حقیقت نہ تھی۔ نہ پاکستان کی کسی خاص جگہ کو نقصان پہنچاتے دکھا سکانہ کوئی جانی نقصان دکھاسکااور نہ ہی پارلیمنٹ میں اس کاکوئی ثبوت پیش کیاجاسکا۔ اب بپن راوت جو صرف مٹھی بھر کشمیری مجاہدوں اورعوام کے آگے ہاتھ کھڑے کر چکاہے اوراپنی بندوق کوناکام قرار دے چکاہے 145اب یکایک 3ماہ بعدوہ دنیاکی ساتویںبڑی ایٹمی طاقت کو گیدڑبھبھکیاں دینے لگاہے تواب اچانک اس کے ہاتھ کون سی ایسی گیدڑ سنگھی آگئی ہے کہ وہ پاکستان کو سرپرائز دے گااور دردبھی دے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ

خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

یہ بزدل اگرسرپرائزدے گاتوہم خود اسے منہ مانگاپرائز دیں گے اوراس نے ہمیں درد(Pain) کیادیناہے145 یہ خودبپن(Bipin) سے بائی پین (BiPain)ہوجائے گا یعنی دوہرے درد کا شکارہوجائے گااور اوئی اوئی کرتارہ جائے گا۔

ہماری وزیراعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ بھارت جوآئے روز اسی طرح کی گیدڑبھبھکیاں دیتارہتاہے تو یہ روز روز کی کِل کِل اب ختم کر ہی دیں ۔آپ نے بالکل صحیح ٹویٹ کیاکہ کئی بار مودی جیسے چھوٹے لوگ بڑے عہدوں پرفائز ہوجاتے ہیں۔ایسے چھوٹے شیطانوں کو سبق سکھاناضروری ہے۔ انہیںایک دفعہ دکھادیناضروری ہے کہ اب یہ 1971ء والاپاکستان نہیں۔ نصر145براق145شاہین145 غوری145حتف اورابابیل جیسے ایٹمی میزائلوں145ایٹمی آبدوزوں اورجدید ترین ڈرونوں سے لیس پاکستان ہے۔بھارت کی توواحدایٹمی آبدوزہی ناکارہ ہوچکی ہے جبکہ پاکستان نے آبدوزسے جوابی ایٹمی حملہ کرنے والے میزائل کابھی کامیاب تجربہ کیاہے۔پھر پاکستان کے میزائل راڈار پر نظرآئے بغیرحملہ کرسکتے ہیں اوربہت تھوڑے فاصلے سے لے کر بھارت کے اندر 2200کلومیٹر تک علاقے کونشانہ بناسکتے ہیں اور نصر ایسے میزائلوں کاتوکوئی توڑبھی اب تک بھارت کے پاس الحمدللہ نہیں جبکہ اہل پاکستان کے پاس سب سے بڑاجذبہ145 جذبۂ ایمانی بھی ہے جس کے ہوتے ہوئے بھارت سے کئی گنا بڑے دشمن بھی سامنے آجائیں تووہ پاکستان کا الحمدللہ کبھی بال بیکا نہیں کرسکتے۔ ہم نے 313کے مقابلے میں ہزاروں کو شکست دی ہے۔ یہ ہماری تاریخ ہے۔

دوسری طرف بھارتی فوج کی اب یہ حالت ہے کہ خودکشیوں میں یہ پوری دنیامیں اوّل نمبرپرہے۔ جو فوجی دن رات شکایتیں کرتے ہوں کہ انہیں دال روٹی کے سوا کچھ نہیں ملتا اور وہ بھی جی بھرکرنہیں ملتی تو یہ بھوکے کانگڑی پہلوان کن سے اور کیسے لڑیں گے۔ان کی حالت توبارڈرز پرہی دیکھی جاسکتی ہے جب پرچم اترائی کی پریڈ کے دوران ان کے یہ146146پہلوان145145 باربارگر ے پڑے ہوتے ہیں۔ہمارا مودی 146146پہلوان145145 کوبھی یہ مشورہ ہے کہ وہ حقائق سے مزیدآنکھیں نہ چرائے۔مودی سیدھے ہوجاؤ ورنہ تم بھی مودے ہوجاؤ گے۔کشمیریوں کو آزادی دینے کی بجائے بدمعاشی کرنے سے بازآجاؤ۔مذاکرات سے بارباربھاگ کرتم کشمیرکوبچانہیں سکتے۔دنیانے اب تمہارا سیاہ چہرہ دیکھ لیاہے۔اقوام متحدہ یہ چہرہ ساری دنیاکودکھارہی ہے۔ اب کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے کچھ نہ ہوگا145نہ دنیاکی آنکھوں میں مزیددھول جھونکی جاسکتی ہے۔ابھی بھی وقت ہے کہ شرافت سے کشمیرکوآزاد کردو۔ ظلم وستم کے پہاڑ گرانابند کردو۔ ایسانہ ہوکہ پھر لینے کے دینے پڑجائیں اوربھارت کشمیر145خالصتان145ناگالینڈ145میزورام145آسام145 جھاڑکھنڈ145حیدرآباد دکن145جوناگڑھ اورمناوادر سمیت کتنی ہی ریاستوں سے ہاتھ دھوبیٹھو۔

---------------------------------------------------------------------------------------------------
افسانہ : 
احساس


تحریر : خالدجان



جب بھی ہم اپنے اردگرد کسی کے منہ سے بھائی کالفظ سنتے ہیں تو ہمیں ایک مضبوط سا رشتہ یاد آجاتاہے اور وہ رشتہ ایک بھائی کا بہن سے اور ایک بھائی کا بھائی سے ہوتاہے۔ لیکن افسوس آج کل ہمارے معاشرے میں بہت ہی کم لوگ اس رشتہ سے جڑیں تمام فرائض سر انجام دیتے ہیں اور پھر ایک اچھے بھائی کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں۔ 
۔۔۔*۔۔۔
ہمیشہ کی طرح آج پھر اسلم کی کاپی نا مکمل تھی ساجد صاحب نے attendance لینے کے بعد جب ریاضی کی کاپیاں چیک کی تو اسلم کی کاپی نا مکمل تھی اس پر اسے ہمیشہ کی طرح کئی ڈنڈے بطور انعام ملے۔ ساجد صاحب نے اسلم سے غصے میں کہا ’’کیا مسئلہ ہے تمہارا ہمیں بھی بتاؤ۔۔۔ نہ تو تم کاپی مکمل کرتے ہو اور نہ کچھ یاد کرتے ہو۔۔۔ اور پھر نوابوں کی طرح کلاس میں سوکر نیند بھی پوری کرتے ہو۔۔۔ مت کرو نا پوری رات آوارا کردی تاکہ تمہیں کلاس میں نیند نہ آگئے‘‘۔۔۔ اسلم کو ایسی کئی باتیں سننی پڑتیں اور اس کمزور جسم پر کئی ڈنڈو کے درد بھی سہنے پڑتھے۔ ساجد صاحب کلاس انچارج تھے لہٰذا پہلا پیریڈ بھی اس ہی کا تھا۔ پہلے ہی پیریڈ سے اسلم کے مار کھانے کا سلسلہ شروع ہوتا اور چھٹے پیریڈ تک جاری رہتا اور کبھی کبھار کسی استاد کہ نہ آنے کی وجہ سے اسے بہت خوشی ہوتی اور کچھ دیر کے لیے سکون بھی مل جاتھا۔ اسلم ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھتا تھا جہاں لڑکے اور لڑکیاں ایک ہی کلاس میں بیٹھتے تھے۔ اسلم اس پرائیویٹ اسکول میں کبھی نہیں پڑھ پاتا اگر اس اسکول کا پرنسپل اس کے والد (جمشید) کے بچپن کا دوست نہ ہوتا۔ کیونکہ اس اسکول کی فیس بہت ہی زیادہ تھی۔ لیکن پرنسپل صاحب اسلم اور اس کی دو بہنوں سے بہت ہی کم فیس لیا کرتے تھے۔ اسلم پانچویں جماعت میں تھا جبکہ اس کی دونوں بہنیں دوسری جماعت میں تھیں۔ اسلم کی کلاس میں بہت سی لڑکیاں تھیں لیکن اسے صرف حسینہ ہی اچھی لگتی۔ حسینہ ہمیشہ اسلم کو نصیحت کرتی کہ وہ اپنی پڑھائی پر توجہ دے اور یہ سن کر اسلم اکثر اسے مثبت میں سر ہلاتا۔

سچ کہتے ہیں جس کے دل میں آگ لگتی ہے جلنے کا بھی اسے ہی پتا ہوتاہے۔ جس پر جو گزرتا ہے اس کا علم اسے ہی ہوتا ہے باقی تو صرف مشورے ہی دیا کرتے ہیں۔ 

اسلم اسکول سے چھٹی کے بعد سکندر استاد کے گیرج چلاجاتا اور رات دیر تک وہی پر کام کرتا رہتا تھا۔ جب وہ کام سے فارغ ہوجاتا تو اس کا استاد اسے اس کی مزدوری کے تین سو روپے دے دیا کرتے۔ اور وہ بازار سے والد کی دوائیاں یا کھانے پینے کی اشیاء خرید کر گھر چلاجاتا تھا۔ گھر کے تمام کام وہ خود ہی کیا کرتا تھا۔ اس کی ماں بہت عرصہ پہلے اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھی۔ اور والد کسی حادثے میں معذور ہو گئے تھے۔ پہلے محنت مزدوری کر پاتے تھے لیکن اب اس قابل نہیں تھے کہ کوئی کام کر سکیں۔ لہٰذا تمام تر ذمہ داریاں اسلم کے سپرد تھیں۔گیرج میں کام کرنے کی وجہ سے وہ اتنا تھکا ہوا ہوتا کہ اسکول کا کام نہیں کر پاتا تھا۔
۔۔۔*۔۔۔
ہر انسان کی زندگی میں کچھ خواہشات ہوتی ہیں اور ان خواہشات کے ساتھ کچھ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں اور یہی مجبوریاں انسان کو اس کی خواہشات سے الگ کردیتی ہیں۔

بلکل ایسا ہی اسلم کے ساتھ بھی ہوا اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اور اس کی حسرت تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بنے۔


لیکن غریب کی مجبوریاں اس کی خواہشات کی تکمیل کہاں ہونے دیتی ہیں۔ غریب تو ایک مجسمہ ہوتا ہے جو دوسروں کی محبت بھری نگاہوں کا مہتاج ہوتا ہے مگر افسوس اسے یہ بھی نصیب نہیں ہوتے۔ آخر کار آٹھویں تک پڑھنے کے بعد اسلم نے اسکول کو خیرباد کہہ دیا۔ اب اس کے دل میں ایک ہی خواہش تھی کہ اس کی دونوں بہنیں ڈاکٹر بنیں۔ 

اب وہ صبح سے لے کر رات دیر تک کام کرتا رہتا اور جس کی وجہ سے اسے اب کچھ زیادہ پیسے ملنے لگے تھے۔ جس سے گھر کا گزر اوقات با آسانی ہو جاتا تھا۔ اسلم کو اکثر حسینہ کی یادیں ستایا کرتی تھیں۔ شاید وہ حسینہ کو اپنا دل دے بیٹھا تھا۔ جب اسلم اسکول چھوڑ رہا تھا تو حسینہ نے اس کی بہت منّت سماجت کی کہ اسکول مت چھوڑو۔ لیکن اسلم نے نہیں مانا شاید وہ تنگ آچکا تھا اس روز روز کی بے عزتی اور مار کھانے سے۔ وہ ملاقات ان دونوں کی آخری ملاقات تھی اس کے بعد وہ دونو کبھی نہیں ملیں۔ اسلم محنت کرتا رہا۔ 

دن مہینے اور مہینے سالوں میں گزرتے گئے۔ سکندر اسلم کے کام سے بہت خوش تھا۔ ایک دن وہ اسلم سے کہنے لگا "اسلم بیٹے کتنا خوش نصیب ہوگا وہ باپ جسے تم جیسا بیٹا ملا۔۔۔ اسلم تم نے بیٹے اور بھائی ہونے کا فرض ادا کر دیا ہے بہت ہی کم ایسے بھائی ہوتے ہیں جو اپنی خواہشات کو قربان کر دیتے ہیں صرف اور صرف اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کے لیے‘‘۔۔۔ ’’یہ سن کر اسلم کہنے لگا۔‘‘ نہیں استاد کوئی بھی فرض میں نے ابھی تک ادا نہیں کیا۔۔۔ جتنا میرے بابا نے میرے لیے کیا ہے ان کا فرض میں زندگی بھر ادا نہیں کر پاؤں گا۔۔۔ اور پھر بھائیوں اور بہنوں کے درمیان ایک ایسا رشتہ ہے جس میں شہد جیسی مٹھاس ہوتی ہے۔۔۔ استاد وہ انسان نہ تو بھائی کہلاتا ہے اور نہ ہی بیٹا جب تک وہ ان دونوں رشتوں کا فرض ادا نہ کرے۔۔۔ استاد کہنے لگا۔ ’’بلکل ٹھیک کہا تم نے بیٹے‘‘۔ دونوں کے چہروں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ بکھیرگئی۔ اسلم کو جس دن کا انتظار تھا آخر وہ دن آہی گیا اس کی دونوں بہنیں (ایمن اورماہین) ڈاکٹر بن گئیں۔ جب اس بات کا اسلم کو پتا چلا تو وہ اتنا خوش ہوا گویا کہ دنیا کی تمام خوشیاں اسے ملی ہوں۔ وہ جلدی سے مٹھائیاں لے کر سب کا منہ میٹھا کروایا۔ آج اسلم کے بابا بھی بہت خوش تھے۔ اسلم جلدی سے گیرج پہنچا اور زور زور سے صدا بلند کرنے لگا ’’استاد۔۔۔ ’’استاد۔۔۔‘‘ کیا ہوا اسلم بیٹے خیریت توہے۔۔۔ 


’’استاد آج میری خواہش کی تکمیل ہوئی ہے۔۔۔ وہ خواب جو میں روز دیکھا کرتا تھا آج وہ خواب تعبیر میں بدل گیا ہے۔۔۔ ’’استاد حیرت سے پوچھنے لگا‘‘ کون سا خواب پورا ہوا ہے کچھ بتاؤ تو سہی۔۔۔ ’’استاد! میری دونوں بہنیں ڈاکٹر بن گئیں ہیں۔۔۔‘‘ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئے۔ اور اسلم نے کہا ’’استاد یہ لو منہ میٹھا کرو۔۔۔‘‘ استاد نے اسلم کو بیٹھنے کا کہا اور خود بھی اس کے پاس بیٹھ کر اس سے کہنے لگا۔ ’’اسلم بیٹے مجھے بھی اسی دن کا انتظار تھا کہ کب تمہاری خواہش پوری ہو اور میں تم سے اپنی خواہش کا اظہار کروں۔۔۔ اور آج وہ دن آگیا ہے۔ اسلم حیرت سے پوچہنے لگا ’’استاد ! کیسی خواہش‘‘ استاد درد بھرے لہجے میں کہنے لگا ’’بیٹے تم تو جانتے ہو میری صرف ایک ہی بیٹی ہے بیٹا بیوی تو کب کی چل بسی۔۔۔ ڈرتا ہو کہ میرے مرنے کہ بعد میری رقیہ کا کیا ہوگا۔ اسلم بے ساختہ کہنے لگا ’’استاد اللہ نہ کرے کہ آپ کو کچھ ہو۔۔۔ یہ آج آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔‘‘ استاد کہنے لگا ’’بیٹے میری رقیہ کو اپنے نکاح میں قبول کرلو‘‘ یہ سن کر اسلم حیرت سے کہنے لگا ’’استاد بابا سے پوچھتا ہوں‘‘ استاد اسلم کی بات کاٹتے ہوہے کہنے لگا۔۔۔ ’’بیٹے تم صرف ہاں کردو آگے تمہارے بابا سے بات کرنا میرا کام ہے۔‘‘ اسلم نے مسکراتے ہوہے مثبت جواب میں سر ہلایا اور دونوں مسکرانے لگے۔ استاد اسلم سے کہنے لگا ’’لاؤ یار ایک اور مٹھائی کھلاؤ اس شوگر کی تو ایسی کی تیسی۔۔۔ ’’کچھ عرصہ بعد اسلم اور رقیہ کی شادی ہوگئی۔ شادی کے چند ماہ بعد سکندر استاد اس دارِفانی سے کوچ کرگئی۔۔ جس کا انہیں بہت دکھ ہوا۔ اسلم کو اس کی بہنیں کام کرنے سے منع کرتے لیکن وہ ان کی بات ٹال دیتا اور ہمیشہ کی طرح گیرج میں کام کرنے جایا کرتا تھا۔ اگر اسلم معاشرے میں ایک جاہل فرد کی حیثیت رکھتا بھی ہو لیکن اس نے وہ کر دکھایا جو بہت کم لوگ کر پاتے ہیں۔۔۔ 

درد بھرے الفاظ کے ساتھ یہ کہنا چاہوں گا کہ ایسے مزدوروں کے ساتھ تعاون کریں جو اپنی تمام خواہشات کی قربانی دے کر اپنی تعلیم بھی چھوڑ کر اپنے گھر والوں کے لیے ذریعہ معاش بن جاتے ہیں اور اسی عمر میں کئی بچے اپنی زندگی موج مستیوں میں گزار دیتے ہیں۔ دل تو سب کے پاس ہوتا ہے لیکن اصل دل تو وہ ہوتا ہے جس میں کسی کے لیے احساس ہو۔۔۔

کیسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معزرت چاہتا ہو۔۔۔


ختم شد


---------------------------------------------------------------------------------------------------
بیکن ہاؤس .... " عفریت " ؟؟

کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی "سکول" کسی ریاست کو شکست دے دے؟؟

بیکن ھاؤس کا نام سب سے پہلے سوشل میڈیا پر تب گردش میں آیا جب وہاں موجود طالبات نے  دیواروں پر چسپاں کر کے اپنی " آزادی " کا مظاہرہ کیا۔ 

پھر وہاں طلباء و طالبات کی مخلوط ڈانس محفلوں کی تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بنیں۔ 

پھر وہاں کے پڑھائے جانے والے نصابی کتب کے سکرین شاٹس شیر ہوئیں جن میں پاکستان کے ایسے نقشے تھے جہاں مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے علاوہ گلگت بلتستان کو بھی انڈیا کا حصہ دکھایا گیا تھا اور ان کتابوں میں ان کو " انڈین سٹیٹس" لکھا گیا تھا۔
اور یہ معاملہ کسی ایک کتاب تک محدود نہیں تھا بلکہ تقریباً تمام کلاسسز کی تمام کتابوں میں تھے جن کے خلاف سوشل میڈیا، میڈیا حتی کہ سپریم کورٹ کے احکامات بھی بے اثر ثابت ہوئے۔ 

بیکن ھاؤس کے خلاف سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے والے بیکن ھاؤس کے سابق ملازم ارمغان حلیم صاحب کو اس قسم کے مواد کے خلاف آواز اٹھانے زدوکوب کیا گیا اور  قتل تک کی دھمکیاں ملیں۔ 

بیکن ھاؤس اور اس کے ذیلی ادارے " دی ایجوکیٹر " میں انڈین سرمایہ کاری کا انکشاف ہوا۔ 1996ء میں ان سکولوں میں ورلڈ بینک کے ذیلی ادارے " انٹرنیشنل فائنیس گروپ " نے براہ راست کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کی۔ 

بیکن ھاؤس پاکستان کا سب سے مہنگا سکول ہے۔ 

ایک اندازے کے مطابق بیکن ھاؤس ماہانہ 5 تا 6 ارب اور سالانہ 60 تا 70 ارب روپیہ پاکستانیوں سے نچوڑتا ہے۔ 

یہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمد قصوری کی بیگم نسرین قصوری کی ملکیت ہے جن کو ان کا بیٹا قاسم قصوری چلاتا ہے۔ یہ خاندان اس تعلیمی ادارے کی بدولت کھرب پتی بن چکا ہے۔ 

خورشید محمد قصوری وہی صاحب ہیں جس نے پندرویں آئینی ترمیم ( شریعہ بل ) کے خلاف احتجاج استعفی دیا تھا۔ ( شائد اسلام سے نفرت اس پورے خاندان کے خون میں شامل ہے )

لبرل ازم کا علمبرادار " بیکن ھاؤس ہر سال پاکستانی سوسائیٹی میں اپنے تربیت یافتہ کم از کم 4 لاکھ طلبہ گھسیڑ رہا ہے۔ یہ طلبہ پاکستان کے اعلی ترین طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سرکاری اداروں کے بڑے بڑے بیوروکریٹ، صحافی، سیاستدان، بزنسمین اور وڈیرے شامل ہیں۔ 

پاکستانی معاشرے میں سرائیت کرنے والے ان طلباء کی اکثریت تقریباً لادین ہے۔ وہ ان تمام نظریات اور افکار کا تمسخر اڑاتے نظر آتے ہیں جن پر نہ صرف ہمارا معاشرہ کھڑا ہے بلکہ جن کی بنیاد پر پاکستان بنایا گیا تھا۔ حد یہ ہے کہ ان طلباء کی اکثریت کو اردو سے بھی تقریباً نابلد رکھا جاتا ہے۔ (جو اسلام کے بعد پاکستان کو جوڑے رکھنے والا دوسرا اہم ترین جز ہے۔   :)  )

پاکستان کے اعلی ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے ان طلباء کی اکثریت بڑی تیزی سے پاکستان میں اہم ترین پوزیشنیں سنبھال رہی ہے۔ اسی طبقے کا ایک بڑا حصہ فوج میں بھی جارہا ہے جو ظاہر ہے وہاں سپاہی بھرتی ہونے کے لیے نہیں جاتا۔  

اگر بیکن ھاؤس اسی رفتار سے کام کرتا رہا تو آنے والے پانچ سے دس سالوں میں پاکستان ایک لبرل ریاست بن چکا ہوگا جس کے بعد اس کے وجود کو پارہ پارہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ 

مشہور زمانہ گرفتار شدہ ملعون آیاز نظامی کے الفاظ شائد آپ کو یاد ہوں کہ ۔۔ 

  ۔۔ " ہم نے تمھارے کالجز اور یونیوسٹیز میں اپنے سلیپرز سیلز ( پروفیسرز اور لیکچررز ) گھسا دئیے ہیں۔ جو تمھاری نئی نسل کے ان تمام نظریات کو تباہ و برباد کر دینگے جن پر تم لوگوں کا وجود کھڑا ہے۔ انہیں پاکستان کی نسبت پاکستان کے دشمن زیادہ سچے لگیں گے۔ وہ جرات اظہار اور روشن خیالی کے زعم میں تمھاری پوری تاریخ رد کردینگے۔ انہیں انڈیا فاتح اور تم مفتوح لگو گے۔ انہیں تمھارے دشمن ہیرو اور خود تم ولن نظر آؤگے۔ انہیں نظریہ پاکستان خرافات لگے گا۔ اسلامی نظام ایک دقیانوی نعرہ لگے گا اور وہ تمھارے بزرگوں کو احمق جانیں گے۔ وہ تمھارے رسول پر بھی بدگمان ہوجائینگے حتی کہ تمھارے خدا پر بھی شک کرنے لگیں گے"

بیکن ھاؤس نے " تعلیم " کے عنوان سے پاکستان کے خلاف جو جنگ چھیڑ رکھی ہے اس کو روکنے میں میڈیا اور سپریم کورٹ دونوں ناکام نظر آرہے ہیں۔ 

اس " عفریت " کو اب عوام ہی زنجیر ڈال سکتے ہیں۔ یہ کام ہم سب نے ملکر کرنا ہے۔ 

بیکن ھاؤس کے حوالے سے جلد ہی دوبارہ نہ صرف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائیگا بلکہ محب وطن میڈیا چینلز اور حکومت وقت سے بھی اس حوالے سے کاروائی کا مطالبہ کیا جائیگا۔ 

اس جنگ میں ہمارا ساتھ دیں اور اس مضمون کو کاپی کر کے اپنے اپنے پیجز اور ٹائم لائنز پر شیر کریں۔
________________________________________________________________


 دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں ؟؟ 
سید سلیم شاہ

اسلام میں دعا کی بہت بڑی فضیلت واہمیت آئی ہے لیکن عام طور پر لوگ دعا کی حقیقت سے بے خبر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری مساجد میں جہر کے ساتھ اجتمای طور پر لمبی لمبی دعائیں ضرور پڑھی جاتی ہیں اور بڑے بڑے اجتماعوں اور جلسوں میں بھی کثرت دعاکی گونج سنائی دیتی ہے مگر قبولیت نام کی کوئی چیز نظرنہیں آتی ۔دعاکے آداب کیا ہیں اور اس کی قبولیت کی شرائط کیا ہیں ؟ ان باتوں کو جاننے سے لوگوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہیں ۔ بلکہ وہ صرف الفاظ کی رٹ لگانے کودعاسمجھتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اس طرح کی تمام دعائیں اللہ کے نزدیک شرف قبولیت حاصل نہیں کرپاتی ہیں ۔ اور بے اثرروبے نتیجہ ثابت ہوتی ہیں ۔قرآن وحدیث کے گہر ے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی انہی لوگوں کی دعائوں کوقبول کرتاہے اور بن مانگے بھی دیتا ہے جواس کے احکام پرپابندی سے عمل کرتے ہیں اور اس کی آخری کتاب قرآن کو پڑھتے ہیں اور اس کی آیت پر غور و فکرکرتے ہیں ۔ اگرایسے لوگوں کو دعامانگنے کا موقع نہ بھی مل جائے تب بھی اللہ تعالی ان کو دعامانگنے والوں سے بھی زیادہ دیتاہے۔ اس سلسلہ میں انتہائی غورطلب حدیث اس طرح آئی ہے ۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بنان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے جوشخص قرآن میں اس قدرمشغول ہوجائے کہ وہ میری یاد کے لیے الگ سے وقت نہ نکال سکے اور مجھ سے اپنی حاجت نہ طلب کرسکے تو میں مانگنے والوں کو جتنادیتا ہوں اس سے زیادہ اس کودوں گا ۔ نیزاللہ کے کلام کادرجہ دنیا کے تمام کلام موں کے مقابلے میں ایسے ہی بلند ہے جیسے کہ خود اللہ کا درجہ اس کی مخلوق کے مقابلے میں ( ترمذی) دین کی حقیقت اللہ کی یاد اور اس کے بندے کی طلب کانام ہے ۔ قرآن ان دو چیزوں کی طرف رہنمائی ہے اصل میں سورتہ فاتحہ بندہ مئومن کی دعا ہے۔ دنیاوآخرت کی کوئی طلب الیسی نہیں ہے جوایک بندہ مئومن اللہ سے طلب کرسکتا ہے اور قرآن میں اس کاذکر نہ ہو ، بلکہ وہ انسان کے جذبات و احساسات کی پوری تسکین پاتا ہے اور اس کا وجود سراپادعابن جاتاہے ۔ ایساآدمی خواہ اپنی کوئی ضرورت الگ سے طلب کرے یا نہ کرے ۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بنان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی سے اس کے فضل کے ذریعہ مانگوکیونکہ اللہ اس بات کوپسند کرتا ہے کہ اس سے مانگاجائے اور بہیرین عبادت کشاد گی کا انتظارکرناہے ۔ (تحف الاحوذی)   
 میری مشکل اس دنیا میں نہ آساں کرسکا کوئی 
مصیبت میں جو کام آیا مر ا پروردگار آیا
لیکن قبولیت دعاکے لیئے ضروری ہے آدمی کا کھانا پنا اور اس لباس حلال کمائی کاہو ، ورنہ اللہ تعالی کے ہاں ایسی دعا کی قبولیت کاکوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ اس سلسلہ میں مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس کے آخری حصہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم دعا کے حوالے سے یہ قابل غور ارشاد فرماتے ہیں : آپ نے ایسے شخص کا ذکر فرمایا ، جولمباسفر کرتا ہے جس کے بال غبارآلود ہیں ، وہ آسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کو اٹھاکرکہتاہے اے میرے رب ، اے میرے رب ، حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے ،اس کا پینا حرام ہے، اس لباس حرام ہے، اور اس کی غذاحرام ہے ، تو اس صورت میں اس کی دعا کیونکہ قبول ہوگی ۔ (شرح مسلم ) آج کل مسلمان ہر جگہ انفرادی و اجتماعی دعائیں کرتے ہوئے نظرآتے ہیں ۔ لیکن ساتھ ہی یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں ۔ اور ہماری مشکلیں دور نہیں ہورہی ہیں ۔اس حدیث میں اسی الجھن کا پورا جواب موجود ہے ۔ اصل یہ کہ دعائیں کیسے قبول ہوں اور مشکلیں کیسے دور ہوں جبکہ لوگ جوکھارہے ہیں جو پی رہے ہیں وہ سب حرام کی کمائی کاہے ۔ وہ نہ خود حرام کاموں سے باز آتے ہیں اور ن دوسروں کو ان سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالی کی نافرنی اور گناہوں کی کژت سے جب مصیبتیں آتی ہیں اور مشکلیں دامن گیر ہوجاتی ہیں تو اس وقت اللہ تعالی کے نیک بندوں کی بھی دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں ۔ سود ، رشوت ، بدعنوانی ، لوٹ کھسوٹ اور ملاوٹی چیزوں کی خریدوفروخت کا بازار گرم ہے ۔ اس صورت حال میں مشکلوں اور مصیبتوں سے چھٹکارہ پانے کے لیے اپنی اصلاح کے بجائے اللہ تعالی کے حضوردعاکے لیے محض ہاتھ اٹھانا ایک مذاق کے سواکچھ نہیں ۔دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیںاپنی اصلاح کرنے کی توفیق دے اورزیادہ سے زیادہ سے اللہ پاک سے دعائیں کرنے والابنائے آمین!


________________________________________________________


عالمی مالیاتی اداروںکاقرض ۔۔۔۔مرض ہے
پروفیسرسیف اللہ خالد
صدرملی مسلم لیگ



پاکستان بائیس کروڑ افراد کا ملک اور قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔اللہ نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے۔ یہ جفاکش،خوددار اورہنرمند قوم کاملک ہے۔یہاں چاروں موسم پائے جاتے ہیں،ہرطرح کی فصلیں پیداہوتیں اورزمینیں سونااگلتی ہیں۔دنیاکابہترین نہری نظام پاکستان میں ہے۔یہ اسلامی دنیاکی پہلی ایٹمی طاقت ہے سب سے بڑھ کریہ کہ اس کی بنیادکلمہ طیبہ لاالاالہ اللہ محمدالرسول اللہ پرہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کچھ عرصہ سے بے پناہ مسائل کاشکارہے۔ مسائل اس قدرزیادہ ہیں کہ شمارممکن نہیں۔درپیش مسائل میں سے اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ، لوگوں کے مسائل بڑھ رہے اوروسائل کم ہورہے ہیں۔غریب آدمی کے لئے اپنے خاندان کوپالنا،جسم اورروح کارشتہ برقراررکھنامشکل ہورہاہے،ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتاچلاجارہاہے ،ہر شہری بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ستم یہ ہے کہ قرضوں کابوجھ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہاہے۔حالات اس قدرسنگین ہیں کہ پہلے سے موجودقرضے اداکرنے کے لئے مزیدقرضے لینے پڑرہے ہیں۔اس وقت غیر ملکی قرضوں کا حجم تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکاہے جوکہ91 ارب 76 کروڑ ڈالر ہوگیا ہے۔روزانہ 500ارب روپے قرض کی مدمیں ہم اداکررہے ہیں۔ اقتصادی سروے کے مطابق مارچ 2013 میں ملک کے مجموعی قرضے 13626 ارب روپے تھے، جو جون 2013 میں پہلا بجٹ پیش کیے جانے تک 14318 ارب ہوگئے، پانچ سال میں ملک پر واجب الادا قرضے تقریباََ دگنے ہو گئے۔2013ء میں ہرپاکستانی تقریباَ82َار روپے کا مقروض تھا اب 2018 میں یہ قرضہ ایک لاکھ تیس ہزار روپے فی کس تک جا پہنچاہے ۔گو یاپاکستان میں پیداہونے والاہربچہ جس نے ابھی کچھ کھایانہیں،پیانہیں،پہنانہیں،بجلی،گیس استعمال نہیں کی۔۔۔ ایک لاکھ تیس ہزارروپے کامقروض بن کرپاکستان کاشہری بنتاہے۔جب پاکستان قائم ہوااس وقت کسی بھی ملک کاپاکستان پرایک پائی کابھی قرضہ نہ تھاایک عرصہ تک یہی ْصورت حال رہی ملک بغیربیرونی قرضوں کے چلتارہا۔ایوب خان کے دورتک تقریباََہربجٹ متوازی ہوتاتھااورخسارہ کم تھا ملک خوشحال تھااورعام آدمی کامعیارزندگی بھی بہتر تھا۔اس کے بعدہمارے حکمرانوں نے ملک کی تعمیروترقی اورقوم کی فلاح وبہبودکے نام پر قرضے لینے شروع کئے۔پھرہوایہ کہ جیسے جیسے قرضوں کاحجم بڑھتاچلاگیاعوام بدحال اورملک کنگال ہوتاچلاگیا ۔ اس لئے کہ لئے گئے قرضوں کازیادہ ترحصہ ہمارے حکمران ،سیاستدان اپنے اللوں تللوں ،عیاشیوں ،آسائشوںاوراپنے محلات کی تعمیر پرخرچ ہوتارہا۔بالادست طبقہ امیرسے امیرترہوتاچلاگیا جبکہ عام آدمی مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہاہے اورنان جیوں کامحتاج ہوچکاہے۔

اس وقت حالت یہ ہے کہ پاکستان کاسولہ ارب ڈالرکا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہے، ستائیس سو ارب روپے کا بجٹ خسارہ ہے، بارہ سو ارب روپیہ گردشی قرضہ ہے، سوئی گیس کا خسارہ 157ارب روپے ، اسٹیل مل کا خسارہ 187ارب روپے ، ریلوے کا خسارہ 37ارب روپے ، پی آئی اے کا خسارہ 360ارب روپے ، یوٹیلٹی اسٹورز چودہ ارب روپے کے خسارے میں ہیں ۔ہمارے ریزروخوفناک حدکم ہوچکے ہیں۔اگرچہ اس وقت سعودی عرب نے ماضی کی روایات کے مطابق ایک بارپھرپاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائرکوسہاردینے کے لئے 3ارب ڈالربغیرسودکے امداددی ہے جبکہ 3ارب ڈالرادھارتیل دینے کاوعدہ کیاہے جوکہ ایک خوش آئندبات ہے۔اگرچہ سعودی عرب ہمارادوست ہے  جوہرمشکل وقت میں ہمارے کام آتاہے لیکن بہرحال قرضوں پرانحصارقابل فخربات نہیں۔

جہاں تک پاکستانی عوام کاتعلق ہے وہ مجوعی طور دیانتدار،محنتی،ایثارپیشہ ،ملک کے وفاداراورہمدردہیں۔انہیں اپنے ملک سے محبت ہے۔وہ دکھ درداورمصیبت میں اپنے بھائیوں کے کام آتے ہیں،وہ اپنے ملک کومضبوط اورمستحکم بناناچاہتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستا ن میں فی کس آمدن کے حساب سے لوگ بہت زیادہ خیرات کرتے، غریبوں ،مستحقین کے کام آتے اورسالانہ ساڑھے 4 سو ارب روپیہ چیریٹی ڈونیشنز دیتے ہیں۔اس کامطلب ہے ہمارے ملک کی بدحالی اورقرضوں کاسبب عوام الناس نہیں بلکہ حکمران اورسیاستدان ہیں جونہ ملک کی حالت سدھرنے دیتے ہیں اورنہ عوام کی۔

پاکستانی قوم کی صلاحیت،ذہانت،قابلیت اورہنرمندی کودنیاتسلیم کرتی ہے۔مسئلہ صرف قیادت کاہے۔یہ بات طے ہے کہ جب قیادت مخلص ہوملک ترقی کرتے اورقومیں عروج پاتی ہیں چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جو کسی وقت سخت قسم کی معاشی بدحالی کاشکارتھا پاکستان کے قیام کے ایک سال بعدآزادہواتھاآج چین دنیاکی معاشی سپرطاقت بن چکاہے۔یہی حال ترکی کاتھا۔ جب طیب اردوان برسرقتدارآئے اس وقت ترکی اتناہی مقروض تھاجتنے اس وقت ہم مقروض ہیں۔ ایک ڈالر حاصل کرنے کے لئے کئی لاکھ ترک لیرے دینا پڑتے تھے، مقروض ترکی کے پاس صرف پانچ ارب ڈالرز کے ریزروتھے،سرمایہ کار ترکی سے بھاگ رہے تھے، مہنگائی بہت تھی، آلو، پیاز کی قیمت ان کے وزن سے بھی زیادہ تھی مگر پھرطیب اردوان کی درست معاشی پالیسیوں کے باعث ترکی سنبھل گیا، 2011میں ترکی نے آئی ایم ایف کی آخری قسط واپس کی، 2012میں ترکی کے پاس 26ارب ڈالر کے ریزرو تھے، ا ٓج ترکی کے پاس182ارب ڈالر کے ریزرو ہیں، اب ترکی کا شمار امیر ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ تبدیلی قرضوں سے نہیں محب وطن قیادت کی بدولت ہی ممکن ہوتی ہے۔

امرواقعی یہ ہے کہ آئی ایم ایف ،ورلڈبینک اورایشین ڈویلپمینٹ بینک سے لئے گئے قرضے ملک کی معیشت کوتباہ کررہے اوردیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ان اداروں کاقرض ظاہرمیں تجارت حقیقت میں جواہے۔ ان اداروں کاسودلاکھوں انسانوں کے لئے مرگ ِ مفاجات ہے۔اس لئے کہ آئی ایم ایف ،ورلڈبینک اوردیگرعالمی مالیاتی اداروں کے کرتادھرتابظاہرعلم،حکمت اورتدبرکی باتیں کرتے مگرزندہ انسانوں کالہوپیتے اورلہوپی کرمساوات کی تعلیم دیتے ہیں۔یہ بات معلوم ہے کہ ان اداروں نے جس ملک میں بھی پنجے گاڑے وہاں تباہی وبربادی پھیلائی ہے۔جب افرادیااقوام قرض لینے کے عادی ہوجائیں توآہستہ آہستہ ان کے اندرسے محنت مشقت اوراپنے ہاتھ سے کمانے کاشوق کم ہوتاچلاجاتاہے۔پھر قرض لینے کامرض لاحق ہوجاتاہے جیساکہ اس وقت پاکستان کی صورت حال ہے۔

چند ماہ بعد پاکستان کو صرف سود کی مد میں 11000 ملین ڈالر ادا کرنے ہیں۔ کون کرے گا، کیسے کرے گا۔ ظاہر ہے عوام کا مزید خون نچوڑا جائے گا۔ پاکستان نے ترقی تو بہت کی ، بڑے بڑے شاپنگ مال بن گئے،موٹرویز بن گئیں، بڑے بڑے گھر بن گئے لیکن جب قرضوں کی ادائیگی کا وقت آئے توخزانہ خالی ہوتاہے اور مزید قرضے لینے پڑ تے ہیںجس سے پاکستانی روپیہ کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہوتی جارہی ہے اورروپے کی قدرکم ہونے کی وجہ سے قرضوں کابوجھ مزیدبڑھ رہاہے۔گویاایک گھن چکرہے جس میں پاکستان پھنستاجارہاہے ۔نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہر پاکستانی قرضے کی دلدل میں ڈوب گیاہے۔ قرضے اب پاکستان کی معیشت کا 60 فی صد سے بھی زیادہ ہیں جو ملکی کی معاشی ترقی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ قرضوں کی بنیاد پر معیشت کی دیواریں کھڑی کرنا ریت کے دیوار کی مانند ہے۔

آئی ایم ایف اورورلڈبینک جوہمیں امداددیتے ہیں یہ قرض۔۔۔۔۔نہیں مرض ہے ۔ہمیں پہلی فرصت میںان اداروں سے جان چھڑانی ہوگی۔جب تک ہم ان سے جان نہیں چھڑائیں گے ہماراملک ترقی نہیں کرسکے گا۔موجودہ حکومت کاآئی ایم ایف سے جان چھڑانے کاعزم قابل ستائش ہے لیکن بات صرف عزم سے نہیں عمل سے بنے گی۔اس کے لئے ضروری ہے کہ فی الفورقرضوں کابوجھ کم کرنے اورقرض اتارنے کی پالیسی بنائی جائے،قرضے بڑھنے کی وجوہات کا پتہ چلاتے ہوئے اس کی روک تھام کے لیے جامع حکمت عملی اپنائی جائے۔افراطِ زر پر قابو پانے کے لیے انتظامی اورحکومتی اخراجات کم اور وی آئی پی کلچر ختم کیاجائے۔انتظامات ،حکومتی معاملات چلانے میں بالکل سادگی اختیارکی جائے،وزراکی تعدادکم رکھی جائے۔

مہنگی بجلی ملک کی تعمیروترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔مہنگی بجلی کی وجہ سے نہ ہماری زرعی پیداواربڑھ رہی ہے اورنہ صنعتی پیداوارمیں خاطرخواہ اضافہ ہورہاہے۔ ضروری ہے کہ فرنس آئل کی بجائے ہائیڈروپراجیکٹس لگائے جائیں ۔یہ بات طے ہے کہ زرعی شعبے کو ترقی دئیے بغیر ملک خوشحال نہیں ہوسکتا۔اس مقصد کی خاطرچھوٹے کا شتکاروں کو آسان شرائط پراوربغیرسودکے قرضے دیے جائیں۔ انہیں بہتر تعلیم او رسہولیات دی جائیں تاکہ وہ پیداوار میں فعال کردار ادا کرسکیں۔تعلیم و صحت کو اولین ترجیح دیتے ہوئے ایسی معاشی پالیسیاں اپنانی جائیں جس سے زیادہ سے زیادہ ملکی وسائل پر انحصار کیا جائے۔اسکولوں، کالجوں ،یونیورسٹیو ں میں ایسا نصاب پڑھایاجائے جس کے نتیجے میں ایسی تخلیقی صلاحیتوںکے حامل طالب علم تیارہو ںجو اپنی قابلیت سے پاکستان کوٹیکنالوجی کے میدان میں آگے لے جاسکیں۔ 

سابقہ حکمرانوں کی غلطیوں کی بدولت معیشت ابترصورت حال سے دوچار ہے جس سے عوام کو دھوکہ دیا جا تارہاہے ۔اقتدارمیںآنے والی ہر حکومت دعوے توبہت کرتی رہی لیکن کسی شعبے میں بھی ہم خودکفالت حاصل نہ کرسکے۔ پی آئی اے جو دنیا کی بہترین ائر لائن تھی آج کہاں کھڑی ہے۔۔۔ ؟پاکستان سٹیل مل جس کا زرمبادلہ میں ایک قابل ذکر حصہ تھا آج شدید بحران کا شکار ہے۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں بہت سی فیکٹریاں بند اورلاکھوں مزدور بیروزگار ہیں۔ کہنے کی حدتک پاکستان ایک زرعی ملک ہے جبکہ زرعی پیداوار میں بھی ہم دن بہ دن پیچھے جارہے ہیں۔ ہرحکومت معیشت کومضبوط کرنے کی بجائے سہانے خواب دکھاتی رہی مگرعملاََ’’ملک لوٹو ۔۔۔۔خود کو سنوارو ‘‘کی پالیسی پرعمل پیرارہی ہے۔ 

موجودہ حکومت ماضی کی حکومتوں سے کئی اعتبارسے منفرداورمختلف ہے ایک یہ کہ عمران خان پاکستان کوریاست مدینہ جیسی ریاست بنانے کاعزم رکھتے ہیں۔بلاشبہ ہمار ے تمام مسائل کابنیادی حل یہی ہے کہ ملک کامقدراسلام سے وابستہ کردیاجائے۔حکومت خودانحصاری اوراخراجات میں کمی بھی کررہی ہے۔اگرموجودہ حکومت ملک کومعاشی بحران سے نکالنااورخودکفالت کے راستے پرچلناچاہتی تھی تو اس کیلئے سب سے پہلی اور بنیادی ضرورت ٹیم ورک کی ہے۔ایسی ٹیم جس کاایک ایک فرد عملاً اور نیتاً مخلص ہو ملک کے لئے خیرخواہ ہو۔پھران شاء اللہ ملک ترقی بھی کرے گااورمستحکم بھی ہوگا۔

___________________________________________________________



مقبوضہ کشمیر پر بھارتی لشکر کشی کے 71سال
محمد شاہد محمود

71برس قبل 27اکتوبر1947ء کو ایک گہری سازش کے تحت بھارت نے کشمیر پر لشکر کشی کرتے ہوئے اس پر اپنا نا جائز تسلط جما لیا تھا۔ جس کے بعد آج تک وہاں فوجی راج قائم ہے اور بھارت جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے کشمیری عوام کو ان کے حق خود ارادیت سے محروم رکھنے کے لئے تمام حربے آزما رہا ہے۔ اسی روز27اکتوبر کو بھارتی غاصب افواج کی کشمیر پر قبضے کے خلاف کشمیری پوری وادی میں یوم سیاہ مناتے ہیں، اس برس بھی وادی میں مکمل ہڑتال رہی۔ کٹھ پتلی حکومت نے اس موقع پر حریت کانفرنس کی تمام قیادت کو گھروں میں قید رکھا۔ جبکہ شہروں اور دیہاتوں میں کرفیو کی کیفیت تھی، اس کے باوجود کشمیر یوں نے احتجاجی مظاہرے کئے ۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو 27اکتوبر 1947ء کو بھارت نے جو حملہ کیا وہ ریاست جموں و کشمیر پر نہیں بلکہ براہ راست پاکستان پر تھا، یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر اہل کشمیر نے اپنا تعلق و ناطہ پاکستان سے نہ جوڑا ہوتا تو بھارت کبھی کشمیر پر حملہ نہ کرتا اس کا مطلب یہ کہ اہل کشمیر کو صرف پاکستان سے محبت کی سزا ملی ہے، سزا و جفا کا سلسلہ 71سالوں سے جاری ہے اس کے باوجود اہل کشمیر کی پاکستان کے ساتھ محبت میں کمی واقع نہیں ہوئی، اس لئے کہ اس محبت کی بنیاد دینوی اعراض و مفادات پر نہیں بلکہ دین اسلام پر ہے۔ کشمیری بزرگ قائد سید علی گیلانی ، سید بشیر احمد شاہ، میر واعظ عمر فاروق، مسرت عالم بٹ، یٰسین ملک، محتر مہ سیدہ آسیہ اندرابی، حریت کانفرنس کے دیگر قائدین و کارکنان کشمیری عوام بھارتی عزائم کی راہ میں چٹان بنے کھڑے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں ،پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں ،سینے پر گولیاں کھا رہے ہیں اور عہد وفا نبھا رہے ہیں۔  

تاریخی جغرافیائی قومی اور تقسیم ہند کے طے شدہ اصولوں کے مطابق ریاست کا پاکستان سے الحاق ہونا تھا۔ مگر گہری سازش کے نتیجے میں بھارت نے اپنی افواج کشمیر میں داخل کر دیں یہ سب اچانک نہیں ہوا کشمیریوں کی خواہش کے برعکس کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے پاکستان سے الحاق کے اعلان کو مئوخر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو کشمیری عوام نے اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا تھا، اس دوران انہیں بھارتی بیورو کریٹ وی پی مینن کے راجہ کے گھر میں موجودگی اور کشمیر  کے بھارت سے الحاق کے لئے بھارت اور راجہ کے مابین ہونے والی سودے بازی کی اطلاع ملی تو اس کے خلاف احتجاج کے لئے ہزاروں کشمیری راجہ کے محل کے باہر اکٹھے ہو گئے، ہری سنگھ کی ظالم ڈوگرہ فوج نے کشمیریوں پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں ہزاروں کشمیری رخمی ہو گئے، صورت حال کو بے قابو ہوتا دیکھ کر وی پیمینن نے مہاراجہ ہری سنگھ کو فوری طور پر جموں منتقل کرنے کا حکم دیا۔ اس حکم کے نتیجے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مہاراجہ عملاً بھارت کا قیدی بن چکا ہے اور ڈوگرہ فوج بھارت کی وفاداری کر رہی ہے۔وی پی مینن کے حکم پر مہاراجہ ہری سنگھ کی جموں منتقلی نے کشمیریوں کے اشتعال میں مزید اضافہ کر دیا، کیونکہ وہ بھانپ چکے تھے کہ بھارت کشمیر پر تسلط جمانے کی کوشش کر رہا ہے، جس کے خلاف احتجاج نے پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔مہاراجہ نے 26اکتوبر 1947ء کو لارڈ مائونٹ بیٹن کو ایک خط لکھا جس میں مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کا اعلان کرتے ہوئے بھارت کے سر براہ کے طور پر مائونٹ بیٹن سے مدد کی درخواست کی تھی۔ مذکورہ خط وی پی مینن نے لارڈ مائونٹ بیٹن تک پہنچایا تھا۔ مہاراجہ کے خط کو لارڈ مائونٹ بیٹن نے جس انداز سے شرف قبولیت بخشا اس کا جواب نہیں جسے پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے الحاق کے اعلان میں تاخیر اور اس سے بھی قبل بائونڈری کمیشن کی طرف سے مغربی پنجاب میں مسلمان اکثریتی آبادیوں والی چند اہم تحصیلوں کو پاکستان سے کاٹ کر بھارت میں شامل کرنے کے اعلان کو مائونٹ بیٹن کی مکمل تائید و حمایت حاصل تھی ورنہ بھارت کا کشمیر سے زمینی راستہ منقطع ہو جاتا۔

ریاست کو ہاتھوں سے نکلتا دیکھ کر مہاراجہ نے جو ظالمانہ اقدامات کئے اس کی مثال نہیں ملتی مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا جبکہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اسلحہ سرکار کو جمع کروا دیں چاہے وہ لائسنس یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔ بعد ازاں مہاراجہ کی ایماء پر آر ایس ایس نے ہندو  راج سبھا و دیگر ہندو فرقہ پرست تنظیموں کے پچاس ہزار کارکن کشمیر میں پہچائے گئے جنہوں نے جموں کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا کر پوری ریاست میں خفیہ شاخیں قائم کر لیں مہاراجہ کی فوج کے افسروں نے ان بلوائیوں کو ہتھیار بنانے، چلانے، مسلمانوں کے قتل خواتین کی آبرو ریزی کی تربیت دی۔ ان ہندو بلوائیوں نے ہزاروں مسلمانوں کوشہید کیا ،آبادیاں ویران کر دیں ،مسجدیں جلا دیں، گھر لوٹ لئے، درجنوں دیہات ایسے تھے جہاں کے تمام مردو زن اور بچوں کو گولیوں سے اڑا دیا گیا تھا، ایک صرف ریاست کے اندر مسلمانوں کی نسل کشی اور دوسری جانب بھارتی فوج نے ریاست پر چڑھائی کرتے ہوئے کشمیر پر اپنے پنجے گاڑ ھ لئے۔ 71سالوں سے بھارتی قابض افواج نے کشمیریوں کا محاصرہ کر رکھا ہے مقبوضہ کشمیر دنیا کا سب سے بڑا ایسا خطہ ہے جس میں دس لاکھ بھارتی فوج تعینات ہے اور نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔جو قرار داد بھارت سلامتی کونسل میںیکم  جنوری1948ء کو لے کر گیا تھا اس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو سکا جو کہ اقوام عالم کی بے حسی اور ہندوستان کی عکاسی کو ظاہر کرتا ہے۔قرار داد خود ہی پیش کی اور آج تک اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہے، اس قرار داد کے اہم نقاط یہ تھے۔

1۔ فوری طور پر جنگ بندی ہو

2۔ریاست جموں و کشمیر سے دونوں ممالک کی افواج اور دیگر متحارب عناصر نکل جائیں۔

3۔ ریاست میں ایک مخلوط حکومت قائم ہو جس میں مختلف جماعتوں کو نمائندگی دی جائے۔

4۔صورتحال معمول پر آ جائے تو ریاست میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کی جانے سے اگست1949ء تک بھارت نے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی اپنے نمائندے مشترکہ کمیٹی کیلئے پیش کئے۔ اقوام متحدہ نے آسٹریلیا کے ایک جج سراوون ڈکسن کو جولائی 1950ء میں اپنا نامزد نمائندہ بھیجا۔ اسکے مطابق طے کیا گیا کہ پاکستان کی افواج کشمیر سے نکل جائیں اور کچھ روز بھارتی افواج بھی چلی جائیں، بھارتی مقبوضہ کشمیر کی افواج اور ملیشا کو توڑ دیا جائے، رائے شماری کیلئے پورے کشمیر میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹوں کے تحت ایک تنظیم عمل میں لائی جائے اور ہر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ساتھ اقوام متحدہ کا ایک مبصر ہو تا کہ رائے شماری میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہو۔افسوس اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا اورآج تک کشمیریوں کو حق رائے شماری نہیں مل سکا۔ اقوام متحدہ کے نامزد نمائندے سراوون ڈکسن نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ’’ بھارت کی افواج  زیادہ آبادی والے حصے میں موجود ہیں ایسے میں اگر ریاستی ملیشا اور ریاستی پولیس کو اپنا اثر قائم کرنے کا موقع دیا گیا تو کشمیری عوام اپنی رائے کا آزادانہ اظہار نہیں کر سکیں گے۔ ڈ کسن کی ناکامی کے بعد ڈاکٹر گراہم اقوام متحدہ کے نمائندے بن کر کشمیر آئیں۔ سلامتی کونسل نے 30مارچ 1951ء کو ایک اور قرار داد منظور کی اور بتایا کہ وادی سے تمام بھارتی فوج نکل جائے۔ ڈاکٹر گراہم نے تین ماہ تک دونوں ممالک نمائندوں اور کشمیریوں کے مختلف گروپوں سے ملاقات کی، تا ہم ڈاکٹر گراہم نے اپنی رپورٹ میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت فوج واپس بلانے پر آمادہ نہیں۔ڈاکٹر گراہم نے مزید لکھا کہ پاکستان نے مکمل تعاون فراہم کیا لیکن بھارت کا رویہ منفی رہا۔ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ تسلط کا مقصد پاکستان کے لئے مشکل ترین حالات پیدا کرنا ہیں جیسا کہ پاکستان کو صحرا میں بدلنے کے لئے کشمیر سے بہنے والے دریائوں بالخصوص دریائے سندھ اور دریائے نیلم ،جہلم، کے پانی پر نا جائز قبضہ کرنا ہے، جبکہ دفاعی لحاظ سے بھی کشمیر پاکستان کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور یوں کشمیر پر قبضے کی سازش در اصل پاکستان کے وجود اور سالمیت کیخلاف بھارت کے جارحانہ عزائم کی علامت بھی ہے، ساری دنیا بخوبی جانتی ہے کہ کشمیر پاکستان کا لازمی جزو ہے اور اس کے بغیر پاکستان ابھی تک نا مکمل ہے۔

 بھارتی لشکر کشی کے حوالے سے حریت لیڈر سید علی گیلانی نے کہا کہ 27اکتوبر 1947ء وہ منحوس دن ہے جب کشمیری عوام کی آزادی کو زبردستی ان سے چھین لیا گیا اور بھارت نے ان کی مرضی اور منشاء کے خلاف یہاں اپنی فوج کو اتارا انہوں نے کہا کہ جب سے یہ فوج کشمیری آواز کو دبانے کے لئے ان پر بے پناہ مظالم ڈھا رہی ہے، آج تک ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا  ہے، ہزاروں بے گناہ کشمیری ماورائے عدالت حراست میں قتل اور دس ہزار  سے زیادہ کو لا پتہ کر دیا گیا ہے، ہزار وں بے نام قبریں بھارتی بربریت اور درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ساڑھے سات ہزار خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ سید علی گیلانی کے مطابق ریاست میں افسپا، ڈسٹربڈ ائریا ایکٹ اورپی ایس اے جیسے کالے قوانین نافذ ہیں اور ان کی وجہ سے پولیس اور فوج کو ستم ڈھانے کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ مودی سرکار نہتے کشمیریوں کی نسل کشی کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ڈھونگ الیکشن کے نام پر بھارت نے کشمیر میں اپنی فوج میں مزید اضافہ کیا اور اب روزانہ نام نہاد سرچ آپریشن کے بہانے کشمیریوں کا خون بہایاجارہاہے۔گزشتہ چند دنوں میں ڈاکٹر عبدالمنان وانی اور معراج الدین بنگرو سمیت درجنوں کشمیریو ں کو شہید کیا گیا ہے۔ اسی طرح کولگام میں نام نہاد سرچ آپریشن کے بہانے دس کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا جس کے بعد سے پوری کشمیری قوم سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے اور سری نگر سمیت پورے کشمیر میں احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں کی جارہی ہیں تاہم بین الاقوامی اداروں اور ملکوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف بھرپور آواز بلند کرے اور بین الاقوامی سطح پر بھارتی ریاستی دہشت گردی کو بے نقاب کیا جائے۔ کشمیر میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارتی فوج کشمیریوں کے گھروں میں گھس کر نوجوانوں پر گولیاں برسارہی اور ان کی املاک برباد کی جارہی ہیں۔آئے دن کرفیو جیسی پابندیاں عائد کر کے مساجد سیل کر دی جاتی ہیں اور کشمیریوں کو نماز جمعہ تک کی ادائیگی کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ شہداء کے جنازوں کی ادائیگی پر بھی پابندیاں لگائی جارہی ہیں اور نماز جنازہ پڑھنے والے کشمیریوں پر بغاوت کے مقدمات درج کئے جارہے ہیں۔بزرگ کشمیری قائد سید علی گیلانی سمیت پوری کشمیری قیادت کو نظربند کر دیا گیا ہے اور تحریک آزادی میں حصہ لینے والے سرگرم کشمیری نوجوانوں کو کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔ بھارت کشمیر میں جس قدر زیادہ قتل و غارت گری کر رہا ہے اسی قدر نوجوانوں میں جذبہ حریت بیدار ہو رہا ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تحریک آزادی میں شامل ہو رہے ہیں۔مظلوم کشمیریوں کی لازوال قربانیوں نے آزادی کشمیر کی منزل کو قریب کر دیا ہے پوری پاکستانی قوم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے ساتھ ہے۔ کشمیریوں کا لہو بہہ رہا ہو اور پاکستانی قوم خاموش رہے ایسا ممکن نہیں ہے۔ کشمیریوں کی نسل کشی پر انسانی حقوق کے عالمی اداروں اورملکوں کی خاموشی افسوسناک ہے۔ پاکستانی قوم تحریک آزادی میں کشمیریوں کے ساتھ قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔کشمیری قوم جس طرح لازوال قربانیاں پیش کر رہی ہے وہ وقت قریب ہے کہ جب جنت ارضی کشمیر پر سے غاصب بھارت کا قبضہ ختم ہو گا اور مظلوم کشمیری مسلمان ان شاء اللہ آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے۔ 














0 comments:

Post a Comment

alibaba

web

amazon

Followers

Website Search

Tweet Corornavirus

Please Subscribe My Chennal

Sub Ki News

 
‎Sub Ki News سب کی نیوز‎
Public group · 1 member
Join Group
 
Nasrullah Nasir . Powered by Blogger.

live track

Brave Girl

Popular Posts

Total Pageviews

Chapter 8. ILLUSTRATOR Shape Builder & Pathfinder-1

Chapter 10. Illustrator Drawing & Refining Paths-1

Labels