اسلامی جمہوریہ پاکستان قومی زبان اردو
تحریر :علی رضا رانا ،حیدرآباد سندھ
از قلم: سماویہ وحید
کشمیر ،برما،شام ،عراق ،فلسطین اور تو اور بوسنیا اب بھی جل ریے ہیں اب تو کافروں کی بے رحمی کے خلاف لکھ لکھ کر قلم بھی ٹوٹ گئے ہیں, لیکن امت محمدیہ صل اللّٰہ علیہ وسلم اب بھی بیدار نہیں ھوئی..... کیا یہ اہل ایمان کی بد بختی ہے, یا یہ ایمان کی کمزوری ھے کہ وہ اب بھی غیر مسلموں کے خلاف نہیں اٹھتے.....
زرا پڑھتے چلیے! کشمیر میں کرفیو لگے کتنا عر صہ گزر چکا ہے؟؟ وہاں بھوک و افلاس سے ہی لوگ مرنے لگے ہیں, تو آپ ان درندوں سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ کرفیو ختم کر دیں گے ہرگز نہیں وہ تو انہیں مجبور کر رہیں کہ کرفیو جب ختم ہوگا کہ جب تم بھارت کو اپنا ملک تسلیم کر لو گے, جب کہ اس کے بر عکس اہلِ کشمیر, پاک وطن کی محبت میں دیوانے ہیں.....
اب زرا بتایئے! کیا پاکستان کے اندر اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ بھارت سے اپنے کشمیر کا دفاع کر سکے؟؟ کیا پاکستان ایٹمی قوت نہیں ہے؟؟؟ کیا پاکستان اسلام کے سائے میں جینے والا نہیں ہے؟؟ جب حقیقی معنوں میں آپ اسلام کو تھامنے والے ہیں تو کافر کے سامنے ڈگمگا نہیں سکتے.
دراصل بات مختصر ہے دلوں میں نور کی کمی ہے نفسانفسی ہے اسی عالم میں نہ ہم کسی کے ہیں اور نہ وہ ہمارے ہیں....
زرا پڑھتے چلیے! برما، شام کے حالات کس قدر سنگین ہیں, کس طرح تاریک میں ڈوبے ہوئے ہیں, ماؤوں کے سامنے بچوں کو انگاروں پر لیٹایا جا رہا ہے, معصوم پھولوں کی چیخوں سے عرش تک ہل رہا ہے.....کیا ماووں پر قیامت نہیں ٹوٹ رہی ہوگی؟؟؟ کیا مائیں اپنے بچوں کو مرتا دیکھ کر خوشی کا جشن منارہی ہونگی؟؟؟ کیا وہ جیتے جی مر نہیں رہی ہونگی؟؟؟
اب زرا بتائیں! کیا دنیا میں اسلام کے کہلوانے والے زمین میں دفن ہوگئے ہیں؟؟؟ کیا یہ انسانیت کا درد نہیں ہے؟؟؟ کیاجو معصوم سولی پر چڑھائے جا رہے ہیں اسلام کے بچے نہیں ہیں؟؟؟ زرا اپنے اوپر رکھ کر دیکھیں اگر تمہارے سامنے تمہاری ہی اولاد کو کوئی گالی دے دیں تو تم کیسے بھڑک اٹھتے ہو.... ادھر تو زندگی اور موت کا سوال ہے.....
اب بتائیے! کیا آپ امت محمدی صہ نہیں ہیں؟؟ کیا آپ مسلمان کہلوانے والے نہیں ہیں؟؟؟
اب زرا پڑھتے چلیے! فلسطین ،عراق بوسنیا میں اس قدر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں کہ زمین لرز رہی ہے, ہر طرف قیامت کا سما ہے, اہل ایمان کو جلتی ہوئی آگ پر بھنا جارہا ہے, ہر طرف خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں, کیا ہم اب بھی انسانیت کو جلتا دیکھ کر خاموش رہ سکتے ہیں؟؟
اب زرا بتائیں! کیا نبی صل اللّٰہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں؟؟؟ کیا نبی صہ کا مطلب یہ نہ تھا کہ مسلمان ایک دوسرے کا درد محسوس کرنے والے کا نام ہے؟؟ کیا اس دنیا میں اہل ایمان کی کمی ہوگئ ہے؟؟ کیا اتحاد و یکجحتی میں کوئی طاقت نہیں ہے؟؟ اگر طاقت ہے تو کیوں کلمہ گو یکجا ہو کر دنیا کے نقشے پر نمودار نہیں ہوتے؟؟ کیوں غفلت میں ڈوبے پڑے ہیں؟؟
کیوں کہ دراصل بات مختصر ہے بات صرف سمجھنے کی ہے، ہم میں ایمان کی کمی ہے ہم میں نور کی کرن باقی نہیں بچی ہمیں دین سے کوئی لگاؤ نہیں ہے, ہم نے صرف اسلام نام کا لبادہ اوڑھا ہے, اندر سے ہم بھی کافروں سے کم نہیں ہیں, جو کافر کرتے ہیں وہ ہم بھی کرتے ہیں. یہ ظاہری مسلمان کا چہرہ دیکھا کر ہم دھوکہ بازی کر رہے ہیں جب کہ رب تعالی تو خوب جانتا ہے....
میرے عزیزوں! کیا ہماری زبانیں گونگی ہیں؟؟ ہماری آنکھیں اندھی ہیں, ہم ہاتھ , پیر سے معذور ہیں کیا؟. ہم اب بھی کیوں خاموش ہیں یہ وقت خاموشی کا نہیں ہے بلکہ اٹھ کھڑے ہونے کا ہے , اعلان جنگ کرنے کا ہے اگر آج ہم اعلان جنگ کریں گے تو دنیا کی کوئ طاقت ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی کیوں کہ قرآن کو تھامنے والے کبھی نہیں ہارتے. اے مسلمانوں! اٹھو اور اینٹ سے اینٹ بجا دو تاکہ کافروں میں مزید ظلم و ستم کرنے کی ہمت نہ بچے اور آنے والی نسلیں ہماری کامیابی کے گیت گائے نہ کہ غلامی اور بربادی کے.....
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور کلمہ گو کو کافروں کے شر سے بچا..... آمین
__________________________________________________
نیا سال اور مسلم معاشرہ
_____________________________________________
''احساس کمتری''
احساس برتری احساس کمتری کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے اور ہم اکثر احساس برتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں جب ہم احساس برتری میں مبتلا ہوتے ہیں تو ہم میں میں کرنا شروع کردیتے ہیں ہر بات میں خود کو آگے کر دیتے ہیں دوسرے کی چیز جتنی مرضی اچھی ہو اپنی معمولی سی چیز کو اس کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیتے ہیں دوسرے کی چیز میں خوامخواہ کیڑے نکالتے ہیں دوسرے کی چیز کو حقیر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے مقابلے میں اپنی ادنیٰ سی چیز کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں احساس برتری غرور تکبر اور خودپسندی سے ذرا مختلف چیز ہے۔احساس برتری میں جب ہم مبتلا ہوتے ہیں تو دراصل پہلے ہم احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں ۔اور یہ احساس کمتری ہمارے اندر خلا پیدا کر دیتا ہے۔نا دانستہ طورپر ہم یہ سمجھنا شروع ہوجاتے ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔دوسرے ہم سے بہتر ہیں دوسروں کے پاس جو ہے وہ ہم سے بہتر ہے اور یہ کہ ہمارے پاس کچھ بھی اچھا نہیں ہے۔یہ احساس ہم میں بہت بڑا خلا پیدا کر دیتا ہے ہم چڑ جاتے ہیں غصہ کرتے ہیں ہمارا مزاج عجیب سا ہو جاتا ہے ہمیں لگتا ہے ہر کوئی ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ایسا اس لیے لگتا ہے کیونکہ ہم خود کو اپنی نظروں میں کم تر سمجھتے ہیں سو ہمیں لگتا ہے کہ دوسرے ہمیں کم تر سمجھتے ہیں اور ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں پھر ہم اپنی چیزوں کے بارے میں بہت حساس ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی ہماری چیز میں نقص نکال دے تو ہم چڑ جاتے ہیں فوراََ غصے میں آ جاتے ہیں ہمیں لگتا ہے دوسرے ہم پر طنز و تنقید کر رہے ہیں سو ہمارا رویہ کافی اکھڑ ہو جاتا ہے ہم اپنے اہل و عیال رشتہ داروں یہاں تک کہ دوستوں تک سے چڑنے لگتے ہیں اور ہمارا دل چاہتا ہے کوئی ہمارے بارے میں منفی تاثر نہ دے یہ تو سب کا ہی دل چاہتا ہے مگر جب ہم احساس برتری میں مبتلا ہوتے ہیں تو بالخصوص ہم خود کو لے کر بے حد حساس ہو جاتے ہیں اگر کوئی بہت مخلص محض ہماری بھلائی کی خاطر بھی ہماری کسی غلطی کی نشاندہی کرے تو ہمیں بے حد تکلیف ہوتی ہے یا تو ایسے میں ہم اس سے لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں یا پھر ہم خاموش ہو جاتے ہیں اور اکیلے بیٹھ کر رونا شروع کر دیتے ہیں۔مطلب ہمارا حوصلہ بہت کم ہو جاتا ہے خود پر ذرا سی تنقید یا اپنی چیز کی ذرا سی برائی ہم سے برداشت نہیں ہوتی اور ہم لڑنا شروع کر دیتے ہیں یا چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے لگتے ہیں۔اب ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اپنی ذات میں پورے نہیں ہوتے۔پورا تو کوئی بھی نہیں ہوتا اللّٰہ پاک نے ہر کسی کو کسی نہ کسی چیز سے محروم رکھا ہوتا ہے ایسا تو کوئی بھی نہیں ہوتا جس کے پاس سب کچھ ہو یا وہ جو چاہے اس کے پاس وہ موجود ہو مگر بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ہوئے پر راضی رہنا سیکھ جاتے ہیں انہیں اس بات کی سمجھ آ جاتی ہے کہ سب کے پاس سب۔کچھ نہیں ہو سکتا اگر بندے کو سب کچھ مل جائے تو بندہ تو خود کو بندہ ہی نہ سمجھے۔اگر بندہ ہر طرف سے پورا ہو جائے تو وہ تو بے نیاز ہو جائے پھر وہ رب کو کیسے یاد کرے۔گا۔بے نیاز تو صرف اللّٰہ پاک کی ذات ہے ہوئے کی قدر تب ہی ہوتی ہے جب محرومی کا مزہ چکھا ہو اور ہم سب کسی نہ کسی چیز سے محروم ہوتے ہیں سو جھکنے کے اور شکر گزاری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں بندے کو سب کچھ مل جائے تو وہ تو خود کو خدا ہی سمجھ لے۔جیسے فرعون اور نمرود نے کیا تھا۔یہ تو اللّٰہ پاک کا احسان ہے ہم پر کہ اس نے ہمیں ادھورا رکھا ہوا ہے اس طرح ہمیں اپنی اوقات یاد رہتی ہے کہ ہم بندے ہی ہیں اور ہمارے پاس جو بھی ہے وہ اللّٰہ پاک کی عطا ہے اگر اس میں ہمارا ہی کمال ہوتا تو پھر ہم اپنے لیے ہر وہ چیز نہ حاصل کر لیتے جس کی ہمیں چاہ ہے اور یہ کمی یہ محرومی ہی ہمیں اللّٰہ پاک کی عطاؤں پر سجدہ شکر بجا لانے کے قابل بناتی ہے اور یہی محرومیاں ہی ہمیں اللّٰہ پاک کے در کا سوالی بناتی ہیں۔تو یہ محرومیاں تو انسان کے حق میں بہتر ہیں کہ انہی کی وجہ سے انسان کو اس چیز کی قدر ہوتی ہے جو اس کے پاس ہے اور شکر گزار بنتا ہے۔اگر انسان نے کبھی محرومی کا مزہ چکھا ہی نہ ہو تو وہ ہوئے کی قدر کیسے کر پائے گا۔جو لوگ اپنی ذات میں پورے ہوتے ہیں دراصل انہیں ان چیزوں کا احساس ہوتا ہے جو ان کے پاس موجود ہوتی ہیں اور وہ ان کے قدر دان ہوتے ہیں ان پر شکر گزار ہوتے ہیں اور ان کی موجودگی کی اہمیت سے آگاہ ہوتے ہیں اور یہی احساس انہیں احساس کمتری میں مبتلا ہونیںسے بچاتا ہے۔جب ہم اپنے پاس موجود چیزوں پر راضی ہوتے ہیں تو ہمیں کسی کی ہیرے جیسی چیز بھی احساس کمتری میں مبتلا نہیں کرتی اور نہ ہی ہم اس کی چیز میں نقص نکالتے ہیں اور نہ۔ہی اس کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تب ہمارا رویہ غیر جانبدارانہ ہوتا ہے اچھی چیز کو اچھا کہتے ہیں بری کو برا کہتے ہیں دوسروں کی اچھائیوں کی تعریف کرتے ہیں اور برائیوں پر مثبت انداز سے تنقید کرتے ہیں جس سے اصلاح کا پہلو نکلتا ہو نہ کہ کسی کو نیچا دکھانا مقصد ہوتا ہے اور پھر دوسروں کی اچھی چیز دیکھ کر ہمیں خوشی ہوتی ہے ذیادہ سے ذیادہ ہم اس کو پانے کی چاہ کرتے ہیں مگر دوسرے کے پاس دیکھ کر ہمیں تکلیف نہیں ہوتی۔اور ہم اپنی ذات میں اس قدر مگن اور پر اعتماد ہوتے ہیں کہ ہم بڑے حوصلے سے تنقید سنتے ہیں اور اس کو مثبت انداز سے لیتے ہیں اور اگر ہمیں لگے کہ ہم بہتر ہیں توہم عموماً دوسروں کی رائے کو ذیادہ خاطر میں نہیں لاتے۔اور دوسروں کی تنقید اگر وہ ہمیں نیچا دکھانے کے مقصد سے بھی ہو تو ہمیں تکلیف نہیں ہوتی کیونکہ ہم اپنے آ پ پر پر اعتماد ہوتے ہیں سو ہم دوسروں کی رائے سنتے ہیں اس بات کو ان کا حق جانتے ہیں مگر ذیادہ خاطر میں نہیں لاتے اور اپنے آپ میں خوش رہتے ہیں۔مگر جب ہم اپنے اپ میں پر اعتماد نہیں ہوتے خود کو خود ہی کم تر سمجھتے ہیں اپنی چیزوں کو حقیر جانتے ہیں تو ہماری ذات میں خلا آجاتا ہے اور اس خلا کوپر کرنے کے لیے نادانستہ طور پر دوسروں کے سامنے خود کو اور اپنی چیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور دوسروں کی چیزوں کو حقیر اور کم تر ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں دراصل اس طرح ہم اپنی انا کی تسکین کرنیکی کوشش کر رہے ہوتے ہیں چونکہ اندر ہی اندر ہم دوسروں کو خود سے بہتر سمجھتے ہیں اور یہ احساس ہمیں اندر ہی اندر کھوکھلاکر رہا ہوتا ہے سو دوسروں کو کم تر گردان کر ان کی چیز کو حقیر ظاہرکر کے اور اپنی بڑائی بیان کر کے ہم اپنے اندر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش۔کر رہے ہوتے ہیں ہم دوسروں سے ذیادہ خود کو اپنی برتری کا احساس دلانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔مگر ایسے میں ہمارا اپنا نقصان ہوتا ہے کیونکہ ہم اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔اس قسم کے رویے عموماً ہم میں پائے جاتے ہیں سو بہت ضروری ہے کہ ہم خود سے ہر پل آگاہ رہیں اپنیرویوں پر غوروفکر کریں اور خود کی اصلاح کی کاوش کریں۔احساس برتری میں مبتلا ہونا دراصل احساس کم تری کی نشانی ہے جو ذہنی پستی کی طرف اشارہ کرتی ہے اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اللّٰہ پاک کی نعمتوں کا شمار کریں جو کہ ہم نہیں کر پائیں گے تب ہمیں احساس ہوگا کہ ہمارے پاس تو کتنا کچھ ہے پھر دل خود ہی شکر گزاری میں جھکنے لگے گا اور احساس کم تری اور احساس برتری میں مبتلا ہونے کا جواز ہی نہیں بچے گا۔اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کا بھی یقین ہو جائے گا کہ سب کے پاس سب کچھ نہیں ہوتا اور اگر ہم سب۔کچھ نہیں تو اس کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں۔ہر انسان کا اپنا مقام ہے ہرکوئی قابل تکریم ہے حقیر کوئی بھی نہیں فضیلت کا معیار اللّٰہ کے ہاں صرف تقویٰ ہے انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے اس میں اس کا کوئی کمال نہیں سب اللّٰہ کی عطا ہے اس نے جو عطا کیا وہ بہتر ہے اورجس سے محروم رکھا وہ بھی بہتر ہے سب کے پاس سب کچھ نہیں ہوتا مگر شکر کرنے اور خوش رہنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔
__________________________________________________
خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو
عروبہ امتیاز خان
خام ہے جب تک تو ہے مٹی
کا اک انبار تو
پختہ ہو جائے تو ہے
شمشیر بے زنہار تو!
تجھے بھی صورت آئینہ
حیران کرکے چھوڑوں گا
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ
کامل نہ بن جائے
یہ پروانہ جو سوزاں ہو
تو شمع انجمن بھی ہے
اور دکھلائیں گے مضمون
کی ہمیں باریکیاں
اپنے فکر نکتہ آرا کی
فلک پیمانیاں
تلخی دوراں کے نقشے
کھینچ کر رلوائیں گے
یا تخیل کی نئی دنیا
ہمیں دکھلائیں گے
اس چمن میں ہوں گے پیدا
بلبل شیراز بھی
سینکڑوں ساحر بھی ہوں گے، صاحب اعجاز بھی
وقت گزرتا گیااوراب غریب خود ایک اژدھا بن چکا ہے۔ جس سے امراء ڈرتے ہیں اور اسے ختم کرنے کے درپے ہیں۔غریب کو دیکھ کر ناک پہ کپڑا رکھناان کے لیے فیشن ہے۔پنجاب میں غربت کی شرح بہت خطرناک صورت حال کو پہنچ چکی ہے۔سندھ تھر پارکر کے پسماندہ ،مفلس ،جھونپڑی پناہ گزین اس ملک کے باسی سمجھے جاتے توریاست اپنا فرض پورا کرتی۔کیوں کہ ریاست خود کئی بیانیوں میں اٹکی رہتی ہے ،اس لیے سیاست کے عروج تک غریب کی آواز نہیں پہنچ سکتی۔آواز گلے سے تب نکلے گی جب بولنے لائق ہوں گے۔انہیں بھوکا رکھا جائے ۔معاشی ابتری پیدا کردی جائے ۔ان کے احساس کومردہ کردیا جائے۔نہ رہے گا سانپ نابجے بانسری۔میٹرو ،گرین لائن بس،اورنج ٹرینوں کے جھولے غریب کا پیٹ بھر سکتے ہیں۔تعلیم کے نام پہ دھوکہ ،دوائی میں ملاوٹ ،علاج معالجہ کے نام پہ فراڈ۔ غریب کے لیے آنے والی اربوں ڈالر ز کی رقم سے پنجاب کے دیہی علاقے میں پڑی مائی سرداراں کو کچھ ملے گا۔چار پائی اس نحیف کو دھیرے دھیرے موت کی طرف دھکیل رہی ہے ۔مائی سرداراں کو معلوم ہے کہ زندگی اور موت کی اس جنگ میں شکست زندگی کوہی ہونی ہے۔اس لیے کہ ہم نے صرف ترقی یافتہ ہونے کا ڈھونگ رچانا ہے۔ دکھاوا کرنا ہے۔
کل جب مائی سرداراں کے بیٹے سے معلوم پڑا کہ انہیں کینسر جیساموذی مرض لگ چکا ہے تودل دکھ سے بھر گیا۔غریب کا سفر ویسے بھی دشوار ہے ۔جب اس طرح کی آفت آن پڑے تو پھر کفن سستا لگتا ہے۔غریب ایک تو جیب کا غریب ہوتا ہے دوسرا یہ ڈرپوک بھی ہوتا ہے۔یہ ڈر بھی اس کے اندر پیدا کیا گیا ہے۔یہ ڈاکٹر سے ڈرتا ہے کہ محافظ شکاری بن چکاہے۔اس کا کہنا بجا تھا کہ ہم کس کو دکھائیں۔کس سے ٹیسٹ کرائیں ۔کس کے در پہ دھائی دیں۔ جہاں مائی سرداراں جیسے لوگ رہتے ہیں،ایسی پسماندہ غریب آبادیوں کے نام تک ان دعویداروں کو یاد نہیں ہوں گے۔ہمیں حیرت اس لیے نہیں ہوتی کیوں کہ ایسے واقعات روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔اگر پنجاب کی آبادی دیکھی جائے،ہریالی، خوبصورتی کے نظارے کیے جائیں تو دل اپنی آزاد فضاؤں میں اڑتا پنچھی بن جاتا ہے۔لیکن ملک میں مائی سرداراں جیسے3 کروڑ مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔غیر معیاری غذا ،گٹر کا پانی،نامناسب اقدامات ،ملاوٹ شدہ اشیاء سے ہر دوسرا شخص جان لیوا مرض میں مبتلا ہورہا ہے۔یہی ہولناکی غریب ترین علاقوں میں دندناتی پھررہی ہے۔تھر کی قحط سالی میں جن ماؤں کے پھول ریاست کی بے توجہی سے مسلے گئے ،ان ماؤں کی آہیں خدا کے حضور سربسجودہوکر حکمرانوں کے خلاف گواہی دیتی ہوں گیں۔
غریب کے لیے معاشی عذاب ہی ٹارچر سیل ہوتا ہے۔خدانخواستہ کوئی مہلک بیماری لاحق ہوجائے تو وہ ادھ مواہوجاتا ہے۔ٹی بی ،ہیپا ٹائٹس ،کینسر جیسے مرض اپنے نام سے ہی غریب کی جان نکال لیتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق 22 کروڑ کی آبادی میں سے ہر آٹھواں شخص ہیپا ٹائٹس کا شکار ہے۔لیکن حکومت شہریوں کو اس خطرناکی سے بچانے کے لیے کوائی اقدامات نہیں کررہی۔یادش بخیر حکومت نے 5 ارب کا فنڈ مختص کیا تھا،مگر کیا 5 ارب روپوں سے سینکڑوں کھرب انسانی جان کے دشمن جرثوموں کا مقابلہ ممکن ہے؟سرکاری اسپتالوں میں ہر تیسرا بیڈ ایسے مریض کا ہے جسے گھر واپسی کی امید ہی نہیں ۔ایسا اس لیے کہ وہ جانتا ہے میرے مرض کی دوا ناپید ہے۔دوردراز علاقوں سے آنے والے غریب مریضوں کو اسپتال کے ٹھنڈے فرش پر سوتے دیکھ کر کلیجہ برف کا پہاڑ بن جاتا ہے۔یہ اس امید سے رات کو اسپتال میں سو جاتے ہیں کہ شاید صبح کوئی مسیحا ڈاکٹر کے روپ میں آئے ،انہیں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منھ میں جانے سے بچالے۔جیسے مائی سرداراں کینسر سے لڑرہی ہے ۔
مائی سرداراں کی جنگ ایک جان لیوا مرض سے نہیں ، امید سے ہے۔وہ امیدجو اولاد کووالدین سے ،غلام کو آقا سے اور رعایا کو وقت کے بادشاہ سے ہوتی ہے۔غریب کے پاس وسائل نہیں کہ جن سے اس کے مسائل حل ہوسکیں۔حکومت کے پاس وسائل ہیں مگر بے جا ضائع کردیے جاتے ہیں۔وسائل کو درست جگہ استعمال کرنے کا نظم بنانے والے درددل رکھتے تو مسائل کا خاتمہ کوئی مشکل نہ تھا ۔انہیں مسائل کا ادراک ہوتا تو وسائل کا ضیاع نہ ہونے دیتے۔دارالحکومت میں 20 کروڑ سے جگر کی پیوند کاری کا اسپتال بنایا گیا ،عجب بات ہے کہ ایک جگر کی پیوند کاری بھی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔جناب عمران خان صاحب ترقی پذیر ممالک کی بہت مثالیں دیتے ہیں۔ان کے اب تک غیر ملکی دوروں میں ایسے ممالک شامل رہے جو معیشت میں مستحکم ،صحت کے مسائل کے حل میں سنجیدہ ہیں۔چین کا ہر ادارہ سرکاری تحویل میں ہے۔اسپتال بھی گورنمنٹ کے انڈر میں ہیں ۔عام آدمی اپنے مسائل سرکارکی نگرانی میں حل کراتا ہے۔چین کی عقابی نظریں ہیلتھ پر ہمیشہ مرکوز رہتی ہیں۔وہ لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کو تیار ہے مگر صحت کے مسائل پر کوئی سمجھوتا کرنے کو راضی نہیں۔چین کا ماننا ہے کہ اگر عوام صحت کے مسائل میں کھو گئی تو ترقی کا ہاتھ پکڑے رکھنا مشکل ہو جائے گا۔کیا عمران خان صاحب چین سے صحت کا کوئی فارمولہ لائے ہیں؟ جس سے مائی سرداراں جیسے لاکھوں مریضوں کادرد کم کیا جا سکے؟ کوئی ایسا نسخہ کیمیا جس سے وسائل سے ہی سہی ،مسائل کو حل کیا جاسکے؟
____________________________________
سموگ یافوگ کیوں اورکیسے ؟
راشدعلی
اس وقت بھارتی فضائیہ کے ونگ کمانڈر پرافول بخشی سے این ڈی ٹی وی نے انٹرویوکے دوران جب سوال کیاکہ کیابھارت پاکستان پرسرجیکل سٹرائیک کرسکتاہے اوراگرکرتاہے توکتنی دیر تک سٹین کرسکتاہے تواس نے کہاکہ یہ تواب بہانے ڈھونڈنے والی بات ہے اوریہ بات سچ ہے جوپہلی بارکسی نے سچ بات کی ہے۔ وائس چیف آف ائیرسٹاف ائیرمارشل بھنوانے صاف صاف کہہ دیاہے کہ ہماری پوزیشن اتنی گھمبیرہے کہ ہم پاکستان کے خلاف فرنٹ وار کرہی نہیں سکتے(یعنی بزدلوں کی طرح صرف پیچھے سے ہی چھرا گھونپ سکتے ہیں)جوآکڑے بولے ہوگئے ہیں145 ہمارے سکوارڈن 44سے کم ہوکر 33رہ گئے ہیں اور مزیدکم ہونے والے ہیں۔ہم سب کچھ خریدرہے ہیں لیکن کیاکیاخرید یں گے جبکہ پاکستان چائنہ مل کرسب ہتھیار بنارہے ہیں۔دوسری طرف کومپڑولر اینڈآڈیٹر جنرل نے پارلیمنٹ میں مودی کی رہی سہی ہوا یہ کہہ کر نکال دی کہ بھارت کے پاس گولہ بارود کی اتنی کمی ہے کہ جنگ کی صورت میں وہ دس دن بھی نہیں لڑسکتا۔
قارئین کرام! مودی نے جب اس لحاظ سے اپناوارخالی جاتے دیکھا تو اس نے ایک اورشعبے سے اپنے ماہرچیلوں کوطلب کرکے پاکستان کے خلاف ایک اور آخری وار اور آخری پتہ کھیلنے کی ناکام کوشش کی۔اس کے شیطانی دماغ میں یہ شیطانی خیال اچانک بجلی کی طرح کونداکہ پاکستان کو بغیرجنگ کے بھی (معاذاللہ) تباہ وبربادکیاجاسکتاہے۔ اپنے اس شیطانی منصوبے کی تکمیل کے لیے اس نے ملک کے آبی شعبہ کو چنا اور ملک بھر سے اس شعبہ سے اپنے بڑے بڑے شیطانی چیلوں145گرؤوں اور شاگردوں کواکٹھاکیا۔ ان سے مشورہ مانگا کہ کیوں نہ پاکستان کاپانی بندکرکے اورسندھ طاس معاہدہ ختم کرکے اسے بغیرجنگ کے ہی تباہ کردیاجائے۔ اس پراس کے ماہرشیطانی چیلوں نے اسے بتایا کہ استاد!ایسا احمقانہ خیال بھی دل میں نہ لانا۔ پاکستان کاپانی بندکیاتوبھارتی پنجاب اورکشمیرمیں سیلاب آجائے گا۔یعنی یہ چاندپرتھوکنے والی بات ہوگی کہ تھوک توالٹاواپس اپنے ہی منہ پرآئے گی اور ہمارا ہی چہرہ لالو لال ہوجائے گا۔ پھرماہرین نے یہ بتاکرمودی کے ہاتھوں کے طوطے اڑادئیے کہ ہم نے اگرپاکستان کاپانی بند کیاتو سندھ طاس معاہدہ کی وجہ سے پاکستان ہمیں پوری دنیامیں بدنام کرے گا۔ دوسری طرف چین دریائے برہم پتراکاساراپانی بھی روک سکتاہے جس سے ہمیں 36فیصد پانی ملتاہے جبکہ ہم چین کے خلاف بین الاقوامی سطح پرکوئی آوازبھی بلند نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارا اس کے ساتھ ایساکوئی معاہدہ ہی نہیں۔چنانچہ بھارتی ماہرین نے مودی کو واضح طورپر بتایا کہ ایسی غلطی سے گریزکیاجائے اور پھرہرطرف سے مایوس ہوکر جنگ کی دھمکیاں دینے والے مودی نے اچانک پینترابدلااور اعلان کردیاکہ ہماری جنگ تو غربت کے خلاف ہے145 یعنی چالاک لومڑی کی طرح جب کچھ نہ بناتوکہہ دیا133146146انگورکھٹے ہیں145145
قارئین کرام! بھارتی بزدلیوں کے یہ کوئی ایک دوواقعات نہیں۔مشرف دور(2002ء )میں بھی بھارت10ماہ تک پوری فوج 145تمام تر لاؤلشکر 145مہلک ترین ایٹمی اوردوسرے ہتھیاروں اور جدید ترین سازوسامان کے ساتھ سرحدوں پرپڑاؤ ڈالے رہا لیکن اسے ایک انچ بھی آگے بڑھ کر پاکستان پر معمولی حملے کی بھی جرأت نہ ہوسکی۔پھر دوسال پہلے سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیاں دینے والابھارت اپنی قوم کو مطمئن کرنے کے لیے سٹوڈیومیں بنائی گئی ایک فلمی ٹائپ سٹرائیک کی فلم ہی دکھاسکاجس کی زمین پرکوئی حقیقت نہ تھی۔ نہ پاکستان کی کسی خاص جگہ کو نقصان پہنچاتے دکھا سکانہ کوئی جانی نقصان دکھاسکااور نہ ہی پارلیمنٹ میں اس کاکوئی ثبوت پیش کیاجاسکا۔ اب بپن راوت جو صرف مٹھی بھر کشمیری مجاہدوں اورعوام کے آگے ہاتھ کھڑے کر چکاہے اوراپنی بندوق کوناکام قرار دے چکاہے 145اب یکایک 3ماہ بعدوہ دنیاکی ساتویںبڑی ایٹمی طاقت کو گیدڑبھبھکیاں دینے لگاہے تواب اچانک اس کے ہاتھ کون سی ایسی گیدڑ سنگھی آگئی ہے کہ وہ پاکستان کو سرپرائز دے گااور دردبھی دے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ
خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
یہ بزدل اگرسرپرائزدے گاتوہم خود اسے منہ مانگاپرائز دیں گے اوراس نے ہمیں درد(Pain) کیادیناہے145 یہ خودبپن(Bipin) سے بائی پین (BiPain)ہوجائے گا یعنی دوہرے درد کا شکارہوجائے گااور اوئی اوئی کرتارہ جائے گا۔
ہماری وزیراعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ بھارت جوآئے روز اسی طرح کی گیدڑبھبھکیاں دیتارہتاہے تو یہ روز روز کی کِل کِل اب ختم کر ہی دیں ۔آپ نے بالکل صحیح ٹویٹ کیاکہ کئی بار مودی جیسے چھوٹے لوگ بڑے عہدوں پرفائز ہوجاتے ہیں۔ایسے چھوٹے شیطانوں کو سبق سکھاناضروری ہے۔ انہیںایک دفعہ دکھادیناضروری ہے کہ اب یہ 1971ء والاپاکستان نہیں۔ نصر145براق145شاہین145 غوری145حتف اورابابیل جیسے ایٹمی میزائلوں145ایٹمی آبدوزوں اورجدید ترین ڈرونوں سے لیس پاکستان ہے۔بھارت کی توواحدایٹمی آبدوزہی ناکارہ ہوچکی ہے جبکہ پاکستان نے آبدوزسے جوابی ایٹمی حملہ کرنے والے میزائل کابھی کامیاب تجربہ کیاہے۔پھر پاکستان کے میزائل راڈار پر نظرآئے بغیرحملہ کرسکتے ہیں اوربہت تھوڑے فاصلے سے لے کر بھارت کے اندر 2200کلومیٹر تک علاقے کونشانہ بناسکتے ہیں اور نصر ایسے میزائلوں کاتوکوئی توڑبھی اب تک بھارت کے پاس الحمدللہ نہیں جبکہ اہل پاکستان کے پاس سب سے بڑاجذبہ145 جذبۂ ایمانی بھی ہے جس کے ہوتے ہوئے بھارت سے کئی گنا بڑے دشمن بھی سامنے آجائیں تووہ پاکستان کا الحمدللہ کبھی بال بیکا نہیں کرسکتے۔ ہم نے 313کے مقابلے میں ہزاروں کو شکست دی ہے۔ یہ ہماری تاریخ ہے۔
دوسری طرف بھارتی فوج کی اب یہ حالت ہے کہ خودکشیوں میں یہ پوری دنیامیں اوّل نمبرپرہے۔ جو فوجی دن رات شکایتیں کرتے ہوں کہ انہیں دال روٹی کے سوا کچھ نہیں ملتا اور وہ بھی جی بھرکرنہیں ملتی تو یہ بھوکے کانگڑی پہلوان کن سے اور کیسے لڑیں گے۔ان کی حالت توبارڈرز پرہی دیکھی جاسکتی ہے جب پرچم اترائی کی پریڈ کے دوران ان کے یہ146146پہلوان145145 باربارگر ے پڑے ہوتے ہیں۔ہمارا مودی 146146پہلوان145145 کوبھی یہ مشورہ ہے کہ وہ حقائق سے مزیدآنکھیں نہ چرائے۔مودی سیدھے ہوجاؤ ورنہ تم بھی مودے ہوجاؤ گے۔کشمیریوں کو آزادی دینے کی بجائے بدمعاشی کرنے سے بازآجاؤ۔مذاکرات سے بارباربھاگ کرتم کشمیرکوبچانہیں سکتے۔دنیانے اب تمہارا سیاہ چہرہ دیکھ لیاہے۔اقوام متحدہ یہ چہرہ ساری دنیاکودکھارہی ہے۔ اب کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے کچھ نہ ہوگا145نہ دنیاکی آنکھوں میں مزیددھول جھونکی جاسکتی ہے۔ابھی بھی وقت ہے کہ شرافت سے کشمیرکوآزاد کردو۔ ظلم وستم کے پہاڑ گرانابند کردو۔ ایسانہ ہوکہ پھر لینے کے دینے پڑجائیں اوربھارت کشمیر145خالصتان145ناگالینڈ145میزورام145آسام145 جھاڑکھنڈ145حیدرآباد دکن145جوناگڑھ اورمناوادر سمیت کتنی ہی ریاستوں سے ہاتھ دھوبیٹھو۔
کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی "سکول" کسی ریاست کو شکست دے دے؟؟
بیکن ھاؤس کا نام سب سے پہلے سوشل میڈیا پر تب گردش میں آیا جب وہاں موجود طالبات نے دیواروں پر چسپاں کر کے اپنی " آزادی " کا مظاہرہ کیا۔
پھر وہاں طلباء و طالبات کی مخلوط ڈانس محفلوں کی تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بنیں۔
پھر وہاں کے پڑھائے جانے والے نصابی کتب کے سکرین شاٹس شیر ہوئیں جن میں پاکستان کے ایسے نقشے تھے جہاں مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے علاوہ گلگت بلتستان کو بھی انڈیا کا حصہ دکھایا گیا تھا اور ان کتابوں میں ان کو " انڈین سٹیٹس" لکھا گیا تھا۔
بیکن ھاؤس کے خلاف سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے والے بیکن ھاؤس کے سابق ملازم ارمغان حلیم صاحب کو اس قسم کے مواد کے خلاف آواز اٹھانے زدوکوب کیا گیا اور قتل تک کی دھمکیاں ملیں۔
بیکن ھاؤس اور اس کے ذیلی ادارے " دی ایجوکیٹر " میں انڈین سرمایہ کاری کا انکشاف ہوا۔ 1996ء میں ان سکولوں میں ورلڈ بینک کے ذیلی ادارے " انٹرنیشنل فائنیس گروپ " نے براہ راست کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کی۔
بیکن ھاؤس پاکستان کا سب سے مہنگا سکول ہے۔
ایک اندازے کے مطابق بیکن ھاؤس ماہانہ 5 تا 6 ارب اور سالانہ 60 تا 70 ارب روپیہ پاکستانیوں سے نچوڑتا ہے۔
یہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمد قصوری کی بیگم نسرین قصوری کی ملکیت ہے جن کو ان کا بیٹا قاسم قصوری چلاتا ہے۔ یہ خاندان اس تعلیمی ادارے کی بدولت کھرب پتی بن چکا ہے۔
خورشید محمد قصوری وہی صاحب ہیں جس نے پندرویں آئینی ترمیم ( شریعہ بل ) کے خلاف احتجاج استعفی دیا تھا۔ ( شائد اسلام سے نفرت اس پورے خاندان کے خون میں شامل ہے )
لبرل ازم کا علمبرادار " بیکن ھاؤس ہر سال پاکستانی سوسائیٹی میں اپنے تربیت یافتہ کم از کم 4 لاکھ طلبہ گھسیڑ رہا ہے۔ یہ طلبہ پاکستان کے اعلی ترین طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سرکاری اداروں کے بڑے بڑے بیوروکریٹ، صحافی، سیاستدان، بزنسمین اور وڈیرے شامل ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں سرائیت کرنے والے ان طلباء کی اکثریت تقریباً لادین ہے۔ وہ ان تمام نظریات اور افکار کا تمسخر اڑاتے نظر آتے ہیں جن پر نہ صرف ہمارا معاشرہ کھڑا ہے بلکہ جن کی بنیاد پر پاکستان بنایا گیا تھا۔ حد یہ ہے کہ ان طلباء کی اکثریت کو اردو سے بھی تقریباً نابلد رکھا جاتا ہے۔ (جو اسلام کے بعد پاکستان کو جوڑے رکھنے والا دوسرا اہم ترین جز ہے۔ :) )
پاکستان کے اعلی ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے ان طلباء کی اکثریت بڑی تیزی سے پاکستان میں اہم ترین پوزیشنیں سنبھال رہی ہے۔ اسی طبقے کا ایک بڑا حصہ فوج میں بھی جارہا ہے جو ظاہر ہے وہاں سپاہی بھرتی ہونے کے لیے نہیں جاتا۔
اگر بیکن ھاؤس اسی رفتار سے کام کرتا رہا تو آنے والے پانچ سے دس سالوں میں پاکستان ایک لبرل ریاست بن چکا ہوگا جس کے بعد اس کے وجود کو پارہ پارہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
مشہور زمانہ گرفتار شدہ ملعون آیاز نظامی کے الفاظ شائد آپ کو یاد ہوں کہ ۔۔
۔۔ " ہم نے تمھارے کالجز اور یونیوسٹیز میں اپنے سلیپرز سیلز ( پروفیسرز اور لیکچررز ) گھسا دئیے ہیں۔ جو تمھاری نئی نسل کے ان تمام نظریات کو تباہ و برباد کر دینگے جن پر تم لوگوں کا وجود کھڑا ہے۔ انہیں پاکستان کی نسبت پاکستان کے دشمن زیادہ سچے لگیں گے۔ وہ جرات اظہار اور روشن خیالی کے زعم میں تمھاری پوری تاریخ رد کردینگے۔ انہیں انڈیا فاتح اور تم مفتوح لگو گے۔ انہیں تمھارے دشمن ہیرو اور خود تم ولن نظر آؤگے۔ انہیں نظریہ پاکستان خرافات لگے گا۔ اسلامی نظام ایک دقیانوی نعرہ لگے گا اور وہ تمھارے بزرگوں کو احمق جانیں گے۔ وہ تمھارے رسول پر بھی بدگمان ہوجائینگے حتی کہ تمھارے خدا پر بھی شک کرنے لگیں گے"
بیکن ھاؤس نے " تعلیم " کے عنوان سے پاکستان کے خلاف جو جنگ چھیڑ رکھی ہے اس کو روکنے میں میڈیا اور سپریم کورٹ دونوں ناکام نظر آرہے ہیں۔
اس " عفریت " کو اب عوام ہی زنجیر ڈال سکتے ہیں۔ یہ کام ہم سب نے ملکر کرنا ہے۔
بیکن ھاؤس کے حوالے سے جلد ہی دوبارہ نہ صرف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائیگا بلکہ محب وطن میڈیا چینلز اور حکومت وقت سے بھی اس حوالے سے کاروائی کا مطالبہ کیا جائیگا۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بنان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے جوشخص قرآن میں اس قدرمشغول ہوجائے کہ وہ میری یاد کے لیے الگ سے وقت نہ نکال سکے اور مجھ سے اپنی حاجت نہ طلب کرسکے تو میں مانگنے والوں کو جتنادیتا ہوں اس سے زیادہ اس کودوں گا ۔ نیزاللہ کے کلام کادرجہ دنیا کے تمام کلام موں کے مقابلے میں ایسے ہی بلند ہے جیسے کہ خود اللہ کا درجہ اس کی مخلوق کے مقابلے میں ( ترمذی) دین کی حقیقت اللہ کی یاد اور اس کے بندے کی طلب کانام ہے ۔ قرآن ان دو چیزوں کی طرف رہنمائی ہے اصل میں سورتہ فاتحہ بندہ مئومن کی دعا ہے۔ دنیاوآخرت کی کوئی طلب الیسی نہیں ہے جوایک بندہ مئومن اللہ سے طلب کرسکتا ہے اور قرآن میں اس کاذکر نہ ہو ، بلکہ وہ انسان کے جذبات و احساسات کی پوری تسکین پاتا ہے اور اس کا وجود سراپادعابن جاتاہے ۔ ایساآدمی خواہ اپنی کوئی ضرورت الگ سے طلب کرے یا نہ کرے ۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بنان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی سے اس کے فضل کے ذریعہ مانگوکیونکہ اللہ اس بات کوپسند کرتا ہے کہ اس سے مانگاجائے اور بہیرین عبادت کشاد گی کا انتظارکرناہے ۔ (تحف الاحوذی)
اس وقت حالت یہ ہے کہ پاکستان کاسولہ ارب ڈالرکا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہے، ستائیس سو ارب روپے کا بجٹ خسارہ ہے، بارہ سو ارب روپیہ گردشی قرضہ ہے، سوئی گیس کا خسارہ 157ارب روپے ، اسٹیل مل کا خسارہ 187ارب روپے ، ریلوے کا خسارہ 37ارب روپے ، پی آئی اے کا خسارہ 360ارب روپے ، یوٹیلٹی اسٹورز چودہ ارب روپے کے خسارے میں ہیں ۔ہمارے ریزروخوفناک حدکم ہوچکے ہیں۔اگرچہ اس وقت سعودی عرب نے ماضی کی روایات کے مطابق ایک بارپھرپاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائرکوسہاردینے کے لئے 3ارب ڈالربغیرسودکے امداددی ہے جبکہ 3ارب ڈالرادھارتیل دینے کاوعدہ کیاہے جوکہ ایک خوش آئندبات ہے۔اگرچہ سعودی عرب ہمارادوست ہے جوہرمشکل وقت میں ہمارے کام آتاہے لیکن بہرحال قرضوں پرانحصارقابل فخربات نہیں۔
جہاں تک پاکستانی عوام کاتعلق ہے وہ مجوعی طور دیانتدار،محنتی،ایثارپیشہ ،ملک کے وفاداراورہمدردہیں۔انہیں اپنے ملک سے محبت ہے۔وہ دکھ درداورمصیبت میں اپنے بھائیوں کے کام آتے ہیں،وہ اپنے ملک کومضبوط اورمستحکم بناناچاہتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستا ن میں فی کس آمدن کے حساب سے لوگ بہت زیادہ خیرات کرتے، غریبوں ،مستحقین کے کام آتے اورسالانہ ساڑھے 4 سو ارب روپیہ چیریٹی ڈونیشنز دیتے ہیں۔اس کامطلب ہے ہمارے ملک کی بدحالی اورقرضوں کاسبب عوام الناس نہیں بلکہ حکمران اورسیاستدان ہیں جونہ ملک کی حالت سدھرنے دیتے ہیں اورنہ عوام کی۔
پاکستانی قوم کی صلاحیت،ذہانت،قابلیت اورہنرمندی کودنیاتسلیم کرتی ہے۔مسئلہ صرف قیادت کاہے۔یہ بات طے ہے کہ جب قیادت مخلص ہوملک ترقی کرتے اورقومیں عروج پاتی ہیں چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جو کسی وقت سخت قسم کی معاشی بدحالی کاشکارتھا پاکستان کے قیام کے ایک سال بعدآزادہواتھاآج چین دنیاکی معاشی سپرطاقت بن چکاہے۔یہی حال ترکی کاتھا۔ جب طیب اردوان برسرقتدارآئے اس وقت ترکی اتناہی مقروض تھاجتنے اس وقت ہم مقروض ہیں۔ ایک ڈالر حاصل کرنے کے لئے کئی لاکھ ترک لیرے دینا پڑتے تھے، مقروض ترکی کے پاس صرف پانچ ارب ڈالرز کے ریزروتھے،سرمایہ کار ترکی سے بھاگ رہے تھے، مہنگائی بہت تھی، آلو، پیاز کی قیمت ان کے وزن سے بھی زیادہ تھی مگر پھرطیب اردوان کی درست معاشی پالیسیوں کے باعث ترکی سنبھل گیا، 2011میں ترکی نے آئی ایم ایف کی آخری قسط واپس کی، 2012میں ترکی کے پاس 26ارب ڈالر کے ریزرو تھے، ا ٓج ترکی کے پاس182ارب ڈالر کے ریزرو ہیں، اب ترکی کا شمار امیر ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ تبدیلی قرضوں سے نہیں محب وطن قیادت کی بدولت ہی ممکن ہوتی ہے۔
امرواقعی یہ ہے کہ آئی ایم ایف ،ورلڈبینک اورایشین ڈویلپمینٹ بینک سے لئے گئے قرضے ملک کی معیشت کوتباہ کررہے اوردیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ان اداروں کاقرض ظاہرمیں تجارت حقیقت میں جواہے۔ ان اداروں کاسودلاکھوں انسانوں کے لئے مرگ ِ مفاجات ہے۔اس لئے کہ آئی ایم ایف ،ورلڈبینک اوردیگرعالمی مالیاتی اداروں کے کرتادھرتابظاہرعلم،حکمت اورتدبرکی باتیں کرتے مگرزندہ انسانوں کالہوپیتے اورلہوپی کرمساوات کی تعلیم دیتے ہیں۔یہ بات معلوم ہے کہ ان اداروں نے جس ملک میں بھی پنجے گاڑے وہاں تباہی وبربادی پھیلائی ہے۔جب افرادیااقوام قرض لینے کے عادی ہوجائیں توآہستہ آہستہ ان کے اندرسے محنت مشقت اوراپنے ہاتھ سے کمانے کاشوق کم ہوتاچلاجاتاہے۔پھر قرض لینے کامرض لاحق ہوجاتاہے جیساکہ اس وقت پاکستان کی صورت حال ہے۔
چند ماہ بعد پاکستان کو صرف سود کی مد میں 11000 ملین ڈالر ادا کرنے ہیں۔ کون کرے گا، کیسے کرے گا۔ ظاہر ہے عوام کا مزید خون نچوڑا جائے گا۔ پاکستان نے ترقی تو بہت کی ، بڑے بڑے شاپنگ مال بن گئے،موٹرویز بن گئیں، بڑے بڑے گھر بن گئے لیکن جب قرضوں کی ادائیگی کا وقت آئے توخزانہ خالی ہوتاہے اور مزید قرضے لینے پڑ تے ہیںجس سے پاکستانی روپیہ کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہوتی جارہی ہے اورروپے کی قدرکم ہونے کی وجہ سے قرضوں کابوجھ مزیدبڑھ رہاہے۔گویاایک گھن چکرہے جس میں پاکستان پھنستاجارہاہے ۔نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہر پاکستانی قرضے کی دلدل میں ڈوب گیاہے۔ قرضے اب پاکستان کی معیشت کا 60 فی صد سے بھی زیادہ ہیں جو ملکی کی معاشی ترقی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ قرضوں کی بنیاد پر معیشت کی دیواریں کھڑی کرنا ریت کے دیوار کی مانند ہے۔
آئی ایم ایف اورورلڈبینک جوہمیں امداددیتے ہیں یہ قرض۔۔۔۔۔نہیں مرض ہے ۔ہمیں پہلی فرصت میںان اداروں سے جان چھڑانی ہوگی۔جب تک ہم ان سے جان نہیں چھڑائیں گے ہماراملک ترقی نہیں کرسکے گا۔موجودہ حکومت کاآئی ایم ایف سے جان چھڑانے کاعزم قابل ستائش ہے لیکن بات صرف عزم سے نہیں عمل سے بنے گی۔اس کے لئے ضروری ہے کہ فی الفورقرضوں کابوجھ کم کرنے اورقرض اتارنے کی پالیسی بنائی جائے،قرضے بڑھنے کی وجوہات کا پتہ چلاتے ہوئے اس کی روک تھام کے لیے جامع حکمت عملی اپنائی جائے۔افراطِ زر پر قابو پانے کے لیے انتظامی اورحکومتی اخراجات کم اور وی آئی پی کلچر ختم کیاجائے۔انتظامات ،حکومتی معاملات چلانے میں بالکل سادگی اختیارکی جائے،وزراکی تعدادکم رکھی جائے۔
مہنگی بجلی ملک کی تعمیروترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔مہنگی بجلی کی وجہ سے نہ ہماری زرعی پیداواربڑھ رہی ہے اورنہ صنعتی پیداوارمیں خاطرخواہ اضافہ ہورہاہے۔ ضروری ہے کہ فرنس آئل کی بجائے ہائیڈروپراجیکٹس لگائے جائیں ۔یہ بات طے ہے کہ زرعی شعبے کو ترقی دئیے بغیر ملک خوشحال نہیں ہوسکتا۔اس مقصد کی خاطرچھوٹے کا شتکاروں کو آسان شرائط پراوربغیرسودکے قرضے دیے جائیں۔ انہیں بہتر تعلیم او رسہولیات دی جائیں تاکہ وہ پیداوار میں فعال کردار ادا کرسکیں۔تعلیم و صحت کو اولین ترجیح دیتے ہوئے ایسی معاشی پالیسیاں اپنانی جائیں جس سے زیادہ سے زیادہ ملکی وسائل پر انحصار کیا جائے۔اسکولوں، کالجوں ،یونیورسٹیو ں میں ایسا نصاب پڑھایاجائے جس کے نتیجے میں ایسی تخلیقی صلاحیتوںکے حامل طالب علم تیارہو ںجو اپنی قابلیت سے پاکستان کوٹیکنالوجی کے میدان میں آگے لے جاسکیں۔
سابقہ حکمرانوں کی غلطیوں کی بدولت معیشت ابترصورت حال سے دوچار ہے جس سے عوام کو دھوکہ دیا جا تارہاہے ۔اقتدارمیںآنے والی ہر حکومت دعوے توبہت کرتی رہی لیکن کسی شعبے میں بھی ہم خودکفالت حاصل نہ کرسکے۔ پی آئی اے جو دنیا کی بہترین ائر لائن تھی آج کہاں کھڑی ہے۔۔۔ ؟پاکستان سٹیل مل جس کا زرمبادلہ میں ایک قابل ذکر حصہ تھا آج شدید بحران کا شکار ہے۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں بہت سی فیکٹریاں بند اورلاکھوں مزدور بیروزگار ہیں۔ کہنے کی حدتک پاکستان ایک زرعی ملک ہے جبکہ زرعی پیداوار میں بھی ہم دن بہ دن پیچھے جارہے ہیں۔ ہرحکومت معیشت کومضبوط کرنے کی بجائے سہانے خواب دکھاتی رہی مگرعملاََ’’ملک لوٹو ۔۔۔۔خود کو سنوارو ‘‘کی پالیسی پرعمل پیرارہی ہے۔
موجودہ حکومت ماضی کی حکومتوں سے کئی اعتبارسے منفرداورمختلف ہے ایک یہ کہ عمران خان پاکستان کوریاست مدینہ جیسی ریاست بنانے کاعزم رکھتے ہیں۔بلاشبہ ہمار ے تمام مسائل کابنیادی حل یہی ہے کہ ملک کامقدراسلام سے وابستہ کردیاجائے۔حکومت خودانحصاری اوراخراجات میں کمی بھی کررہی ہے۔اگرموجودہ حکومت ملک کومعاشی بحران سے نکالنااورخودکفالت کے راستے پرچلناچاہتی تھی تو اس کیلئے سب سے پہلی اور بنیادی ضرورت ٹیم ورک کی ہے۔ایسی ٹیم جس کاایک ایک فرد عملاً اور نیتاً مخلص ہو ملک کے لئے خیرخواہ ہو۔پھران شاء اللہ ملک ترقی بھی کرے گااورمستحکم بھی ہوگا۔
تاریخی جغرافیائی قومی اور تقسیم ہند کے طے شدہ اصولوں کے مطابق ریاست کا پاکستان سے الحاق ہونا تھا۔ مگر گہری سازش کے نتیجے میں بھارت نے اپنی افواج کشمیر میں داخل کر دیں یہ سب اچانک نہیں ہوا کشمیریوں کی خواہش کے برعکس کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے پاکستان سے الحاق کے اعلان کو مئوخر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو کشمیری عوام نے اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا تھا، اس دوران انہیں بھارتی بیورو کریٹ وی پی مینن کے راجہ کے گھر میں موجودگی اور کشمیر کے بھارت سے الحاق کے لئے بھارت اور راجہ کے مابین ہونے والی سودے بازی کی اطلاع ملی تو اس کے خلاف احتجاج کے لئے ہزاروں کشمیری راجہ کے محل کے باہر اکٹھے ہو گئے، ہری سنگھ کی ظالم ڈوگرہ فوج نے کشمیریوں پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں ہزاروں کشمیری رخمی ہو گئے، صورت حال کو بے قابو ہوتا دیکھ کر وی پیمینن نے مہاراجہ ہری سنگھ کو فوری طور پر جموں منتقل کرنے کا حکم دیا۔ اس حکم کے نتیجے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مہاراجہ عملاً بھارت کا قیدی بن چکا ہے اور ڈوگرہ فوج بھارت کی وفاداری کر رہی ہے۔وی پی مینن کے حکم پر مہاراجہ ہری سنگھ کی جموں منتقلی نے کشمیریوں کے اشتعال میں مزید اضافہ کر دیا، کیونکہ وہ بھانپ چکے تھے کہ بھارت کشمیر پر تسلط جمانے کی کوشش کر رہا ہے، جس کے خلاف احتجاج نے پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔مہاراجہ نے 26اکتوبر 1947ء کو لارڈ مائونٹ بیٹن کو ایک خط لکھا جس میں مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کا اعلان کرتے ہوئے بھارت کے سر براہ کے طور پر مائونٹ بیٹن سے مدد کی درخواست کی تھی۔ مذکورہ خط وی پی مینن نے لارڈ مائونٹ بیٹن تک پہنچایا تھا۔ مہاراجہ کے خط کو لارڈ مائونٹ بیٹن نے جس انداز سے شرف قبولیت بخشا اس کا جواب نہیں جسے پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے الحاق کے اعلان میں تاخیر اور اس سے بھی قبل بائونڈری کمیشن کی طرف سے مغربی پنجاب میں مسلمان اکثریتی آبادیوں والی چند اہم تحصیلوں کو پاکستان سے کاٹ کر بھارت میں شامل کرنے کے اعلان کو مائونٹ بیٹن کی مکمل تائید و حمایت حاصل تھی ورنہ بھارت کا کشمیر سے زمینی راستہ منقطع ہو جاتا۔
ریاست کو ہاتھوں سے نکلتا دیکھ کر مہاراجہ نے جو ظالمانہ اقدامات کئے اس کی مثال نہیں ملتی مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا جبکہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اسلحہ سرکار کو جمع کروا دیں چاہے وہ لائسنس یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔ بعد ازاں مہاراجہ کی ایماء پر آر ایس ایس نے ہندو راج سبھا و دیگر ہندو فرقہ پرست تنظیموں کے پچاس ہزار کارکن کشمیر میں پہچائے گئے جنہوں نے جموں کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا کر پوری ریاست میں خفیہ شاخیں قائم کر لیں مہاراجہ کی فوج کے افسروں نے ان بلوائیوں کو ہتھیار بنانے، چلانے، مسلمانوں کے قتل خواتین کی آبرو ریزی کی تربیت دی۔ ان ہندو بلوائیوں نے ہزاروں مسلمانوں کوشہید کیا ،آبادیاں ویران کر دیں ،مسجدیں جلا دیں، گھر لوٹ لئے، درجنوں دیہات ایسے تھے جہاں کے تمام مردو زن اور بچوں کو گولیوں سے اڑا دیا گیا تھا، ایک صرف ریاست کے اندر مسلمانوں کی نسل کشی اور دوسری جانب بھارتی فوج نے ریاست پر چڑھائی کرتے ہوئے کشمیر پر اپنے پنجے گاڑ ھ لئے۔ 71سالوں سے بھارتی قابض افواج نے کشمیریوں کا محاصرہ کر رکھا ہے مقبوضہ کشمیر دنیا کا سب سے بڑا ایسا خطہ ہے جس میں دس لاکھ بھارتی فوج تعینات ہے اور نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔جو قرار داد بھارت سلامتی کونسل میںیکم جنوری1948ء کو لے کر گیا تھا اس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو سکا جو کہ اقوام عالم کی بے حسی اور ہندوستان کی عکاسی کو ظاہر کرتا ہے۔قرار داد خود ہی پیش کی اور آج تک اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہے، اس قرار داد کے اہم نقاط یہ تھے۔
1۔ فوری طور پر جنگ بندی ہو
2۔ریاست جموں و کشمیر سے دونوں ممالک کی افواج اور دیگر متحارب عناصر نکل جائیں۔
3۔ ریاست میں ایک مخلوط حکومت قائم ہو جس میں مختلف جماعتوں کو نمائندگی دی جائے۔
4۔صورتحال معمول پر آ جائے تو ریاست میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کی جانے سے اگست1949ء تک بھارت نے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی اپنے نمائندے مشترکہ کمیٹی کیلئے پیش کئے۔ اقوام متحدہ نے آسٹریلیا کے ایک جج سراوون ڈکسن کو جولائی 1950ء میں اپنا نامزد نمائندہ بھیجا۔ اسکے مطابق طے کیا گیا کہ پاکستان کی افواج کشمیر سے نکل جائیں اور کچھ روز بھارتی افواج بھی چلی جائیں، بھارتی مقبوضہ کشمیر کی افواج اور ملیشا کو توڑ دیا جائے، رائے شماری کیلئے پورے کشمیر میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹوں کے تحت ایک تنظیم عمل میں لائی جائے اور ہر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ساتھ اقوام متحدہ کا ایک مبصر ہو تا کہ رائے شماری میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہو۔افسوس اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا اورآج تک کشمیریوں کو حق رائے شماری نہیں مل سکا۔ اقوام متحدہ کے نامزد نمائندے سراوون ڈکسن نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ’’ بھارت کی افواج زیادہ آبادی والے حصے میں موجود ہیں ایسے میں اگر ریاستی ملیشا اور ریاستی پولیس کو اپنا اثر قائم کرنے کا موقع دیا گیا تو کشمیری عوام اپنی رائے کا آزادانہ اظہار نہیں کر سکیں گے۔ ڈ کسن کی ناکامی کے بعد ڈاکٹر گراہم اقوام متحدہ کے نمائندے بن کر کشمیر آئیں۔ سلامتی کونسل نے 30مارچ 1951ء کو ایک اور قرار داد منظور کی اور بتایا کہ وادی سے تمام بھارتی فوج نکل جائے۔ ڈاکٹر گراہم نے تین ماہ تک دونوں ممالک نمائندوں اور کشمیریوں کے مختلف گروپوں سے ملاقات کی، تا ہم ڈاکٹر گراہم نے اپنی رپورٹ میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت فوج واپس بلانے پر آمادہ نہیں۔ڈاکٹر گراہم نے مزید لکھا کہ پاکستان نے مکمل تعاون فراہم کیا لیکن بھارت کا رویہ منفی رہا۔ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ تسلط کا مقصد پاکستان کے لئے مشکل ترین حالات پیدا کرنا ہیں جیسا کہ پاکستان کو صحرا میں بدلنے کے لئے کشمیر سے بہنے والے دریائوں بالخصوص دریائے سندھ اور دریائے نیلم ،جہلم، کے پانی پر نا جائز قبضہ کرنا ہے، جبکہ دفاعی لحاظ سے بھی کشمیر پاکستان کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور یوں کشمیر پر قبضے کی سازش در اصل پاکستان کے وجود اور سالمیت کیخلاف بھارت کے جارحانہ عزائم کی علامت بھی ہے، ساری دنیا بخوبی جانتی ہے کہ کشمیر پاکستان کا لازمی جزو ہے اور اس کے بغیر پاکستان ابھی تک نا مکمل ہے۔
بھارتی لشکر کشی کے حوالے سے حریت لیڈر سید علی گیلانی نے کہا کہ 27اکتوبر 1947ء وہ منحوس دن ہے جب کشمیری عوام کی آزادی کو زبردستی ان سے چھین لیا گیا اور بھارت نے ان کی مرضی اور منشاء کے خلاف یہاں اپنی فوج کو اتارا انہوں نے کہا کہ جب سے یہ فوج کشمیری آواز کو دبانے کے لئے ان پر بے پناہ مظالم ڈھا رہی ہے، آج تک ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے، ہزاروں بے گناہ کشمیری ماورائے عدالت حراست میں قتل اور دس ہزار سے زیادہ کو لا پتہ کر دیا گیا ہے، ہزار وں بے نام قبریں بھارتی بربریت اور درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ساڑھے سات ہزار خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ سید علی گیلانی کے مطابق ریاست میں افسپا، ڈسٹربڈ ائریا ایکٹ اورپی ایس اے جیسے کالے قوانین نافذ ہیں اور ان کی وجہ سے پولیس اور فوج کو ستم ڈھانے کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ مودی سرکار نہتے کشمیریوں کی نسل کشی کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ڈھونگ الیکشن کے نام پر بھارت نے کشمیر میں اپنی فوج میں مزید اضافہ کیا اور اب روزانہ نام نہاد سرچ آپریشن کے بہانے کشمیریوں کا خون بہایاجارہاہے۔گزشتہ چند دنوں میں ڈاکٹر عبدالمنان وانی اور معراج الدین بنگرو سمیت درجنوں کشمیریو ں کو شہید کیا گیا ہے۔ اسی طرح کولگام میں نام نہاد سرچ آپریشن کے بہانے دس کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا جس کے بعد سے پوری کشمیری قوم سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے اور سری نگر سمیت پورے کشمیر میں احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں کی جارہی ہیں تاہم بین الاقوامی اداروں اور ملکوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف بھرپور آواز بلند کرے اور بین الاقوامی سطح پر بھارتی ریاستی دہشت گردی کو بے نقاب کیا جائے۔ کشمیر میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارتی فوج کشمیریوں کے گھروں میں گھس کر نوجوانوں پر گولیاں برسارہی اور ان کی املاک برباد کی جارہی ہیں۔آئے دن کرفیو جیسی پابندیاں عائد کر کے مساجد سیل کر دی جاتی ہیں اور کشمیریوں کو نماز جمعہ تک کی ادائیگی کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ شہداء کے جنازوں کی ادائیگی پر بھی پابندیاں لگائی جارہی ہیں اور نماز جنازہ پڑھنے والے کشمیریوں پر بغاوت کے مقدمات درج کئے جارہے ہیں۔بزرگ کشمیری قائد سید علی گیلانی سمیت پوری کشمیری قیادت کو نظربند کر دیا گیا ہے اور تحریک آزادی میں حصہ لینے والے سرگرم کشمیری نوجوانوں کو کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔ بھارت کشمیر میں جس قدر زیادہ قتل و غارت گری کر رہا ہے اسی قدر نوجوانوں میں جذبہ حریت بیدار ہو رہا ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تحریک آزادی میں شامل ہو رہے ہیں۔مظلوم کشمیریوں کی لازوال قربانیوں نے آزادی کشمیر کی منزل کو قریب کر دیا ہے پوری پاکستانی قوم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے ساتھ ہے۔ کشمیریوں کا لہو بہہ رہا ہو اور پاکستانی قوم خاموش رہے ایسا ممکن نہیں ہے۔ کشمیریوں کی نسل کشی پر انسانی حقوق کے عالمی اداروں اورملکوں کی خاموشی افسوسناک ہے۔ پاکستانی قوم تحریک آزادی میں کشمیریوں کے ساتھ قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔کشمیری قوم جس طرح لازوال قربانیاں پیش کر رہی ہے وہ وقت قریب ہے کہ جب جنت ارضی کشمیر پر سے غاصب بھارت کا قبضہ ختم ہو گا اور مظلوم کشمیری مسلمان ان شاء اللہ آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے۔
0 comments:
Post a Comment