حرا ملک عزیز
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں ایک بڑھیا رہتی تھی۔ اس کے گھر میں ایک دبلی سوکھی بلی تھی، جس نے کبھی بھی خواب میں گوشت کا نام تک نہیں سنا تھا وہ کبھی بڑھیا کہ آنگن میں آنے والی چڑیا پائوں میں سے کوئی چڑیا اس کے ہاتھ لگ جاتی۔ وہ چڑیا کھا کر اپنا پیٹ بھر لیتی۔ ایک دن وہ چھت پر گئی تو ایک بلی خراماں خراماں ٹہل رہی تھی۔ بڑھیا کی بلی نے جب اپنی ہم جنس کو ایسا موٹا تازہ پایا تو حیران رہ گئی۔ اور بے اختیار بول اٹھی کہ بہن تم کہاں سے آئی ہں کیا کھاتی ہو۔ ہمسائی بلی نے جواب دیا تم جانتی نہیں میں بادشاہ کے دسترخوان کی نمک خور ہوں۔ روز صبح جب محل میں کھانا پیش ہوتا میں وہاں پہنچ جاتی ہوں پھر بڑھیا کی بلی نے پوچھا کہ یہ گوشت کیا ہوتا ہے میں نے تو بڑھیا کے گھر میں دال دلیے کے علاوہ کچھ نہیں کھایا۔ ہمسائی کی بلی نے ہنس کر کہا۔ جبھی تو تمہاری شکل بالکل لکڑی کی طرح نظر آرہی ہے۔ تمہیں تو بلی کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ ہاں اگر تو بادشاہ کے محل کے لذیز کھانے کی خوشبو سونکھ لو تو شاید تمہاری کایا پلٹ جائے، یہ خوشخبری سننے کے بعد بڑھیا کی بلی چھت سے اتر آئی اور بڑھیا سے تمام ماجرا بیان کیا بڑھیا نے نصیحت کرنے لگی کہ دیکھو لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آیا کرو۔ جو کچھ روکھی سوکھی ملتی ہے۔ اس پر قناعت کرو، مگر بلی کے دماغ میں بادشاہ کے دستر خوان کا سود ایسا سمایا تھا۔ کہ اس نے اس نصیحت کی پروا نہ کی، دوسرے دن ہمسائی بلی کے ساتھ محل جا پہنچی وہاں پہلے سے بلیاں شاہی دسترخوان کے گرد جمع ہو گئی تھی۔ بادشاہ نے یہ دیکھ کر فوراً حکم دیا کہ تیر کا نشانہ لگیں۔ بیچاری بڑھیا کی بلی کو اس حکم کی یہ خبر تھی جو نہی کھانے کی خوشبو ناک تک پہنچی تو تیر ٹانگ پر لگا گیا۔ ٹانگ سے خون ٹپکنے لگا، بلی لنگڑاتے ہوئے اپنی پوری قوت سے بھاگ گئی۔ اور کہتی گئی میں بڑھیا کی باتوں پر نصحیت کرتی تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا، اور اس نے سبق سکھ لیا کہ کسی دوسروں کی باتوں میں نہیں آئو گی۔ جو قناعت جو کچھ ملے گا۔ کھا لو گئی،
٭٭٭