جھنگا پہلوان کا اغوا
از:۔ ایم مبین
ٹونی اور مونی دو بدمعاش تھے۔ پیسوں کے لئے وہ ہر الٹا سیدھا، غلط، جائز ناجائز کام کرنے کو تیار رہتے تھے۔ ہر کوئی اپنا غلط کام کرانے کے لئے ان کی خدمات حاصل کرتا تھا۔ پیسوں کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتے تھے۔ اس لئے سبھی کے الٹے سیدھے کام کر دیتے تھے۔ ان دنوں ان کے بہت برے دن گزر رہے تھے۔
بہت دنوں سے کوئی کام نہیں ملا تھا جس کی وجہ سے بہت کڑکی چل رہی تھی۔ وہ کام کی تلاش میں تھے۔ لیکن کام ان سے دور بھاگ رہا تھا۔ وہ اتنے بے بس اور لاچار ہو گئے تھے کہ کوئی بھی کام کرنے کو تیار تھے۔
اچانک ان کی قسمت جاگی۔
انہیں دوبئی کے ایک شیخ کا فون آیا۔
’’مجھے ایک پہلوان چاہئے، موٹا تازہ ، ہٹا کٹّا ہو ، جیسے ڈبلیو ڈبلیو ای کے پہلوان ہوتے ہیں۔ میں اس کو دوبئی میں ڈبلیو ڈبلیو ای طرز کے مقابلوں میں لڑوانا چاہتا ہوں۔ اگر مجھے میرا من پسند پہلوان مل جائے تو دس لاکھ روپیہ تک دینے کو تیار ہوں۔ مجھے پہلوان چاہئے وہ اپنی مرضی سے دوبئی آئے یا پھر اسے اغوا کر کے یہاں لانا پڑے۔ ‘‘
یہ سن کر دونوں کی بانچھیں کھل گئیں۔
کام مل گیا، کام آسان بھی تھا اور مشکل بھی۔ انہوں نے عرب شیخ سے وعدہ کیا کہ وہ پہلوان تلاش کرتے ہیں اس کے بعد اس سے رابطہ قائم کریں گے اور وہ پہلوان کی تلاش میں نکل پڑے۔
تین بتی پر آئے تو ان کی نظر جھنگا پہلوان پر پڑی۔ جھنگا پہلوان کو دیکھتے ہی وہ خوشی سے اچھل پڑے۔ انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے ان کی تلاش پوری ہو گئی ہو۔ ٹونی نے اپنے موبائل کے کیمرے سے جھنگا پہلوان کی چند تصویریں اور ویڈیو لیئے اور وہ تصویریں اور ویڈیو موبائل سے عرب شیخ کو روانہ کر کے پوچھا کہ’’ کیا یہ آدمی چلے گا؟‘‘
عرب شیخ نے جھنگا پہلوان کی تصویریں اور ویڈیو فلم دیکھی تو وہ اچھل پڑا۔ ’’ مجھے یہی پہلوان چاہئے۔ میں اسی طرح کے کسی پہلوان کی تلاش میں تھا۔ کسی بھی طرح دو چار دنوں کے اندر اسے دوبئی بھیج دو چاہے اس کا اغوا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اس کام کے میں تمہیں دس لاکھ روپیہ دوں گا۔ ‘‘
عرب شیخ نے دونوں سے کہا۔
دونوں بے حد خوش ہوئے۔ انہیں دس لاکھ روپیہ ملنے والے تھے۔ دس لاکھ روپئے کے بارے میں سوچ سوچ کر ہی وہ خوشی سے جھومتے تھے انہیں لگ رہا تھا کہ ان کی تقدیر بدلنے والی ہے۔
بشرطیکہ جھنگا پہلوان دوبئی جانے کے تیار ہو جائیں۔ جھنگا پہلوان کے بارے میں جو معلومات حاصل کیں اس کی بنیاد پر انہیں پتہ چلا وہ دوبئی تو دور کلیان جانے کے لئے بھی مشکل سے راضی ہوں گے۔ یہ سن کر ان کے ارادوں پر اوس پڑ گئی۔
لیکن وہ ہار ماننے والے نہیں تھے۔ دس لاکھ کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتے تھے۔ انہوں نے جھنگا پہلوان کا اغوا کر کے اسے دوبئی بھیجنے کا پلان بنایا۔
دونوں جا کر جھنگا پہلوان سے ملے۔
’’ ہیلو جھنگا پہلوان جی۔ ہم آپ کے بہت بڑے فین ہیں اور ہم ایک دن آپ کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔ آپ کی دعوت کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘
’’میری دعوت! ‘‘ جھنگا تو حیرت سے انہیں دیکھا، ’’ میری دعوت کر رہے ہو! میرے خوراک کا آپ لوگوں کو علم ہے؟‘‘
’’ہاں ! آپ جو چاہے وہ آپ کو کھانے کے لئے دیں گے۔ دعوت دلی دربار، شالیمار جس ہوٹل میں چاہے اس ہوٹل میں ہم دینے کو تیار ہیں۔ ‘‘ دونوں بولے۔
دِلّی دربار اور شالیمار کا نام سن کر جھنگا پہلوان کے منہ میں پانی آگیا۔
’’مجھے دِلّی دربار کا بکرا مسلم بہت پسند ہے۔ ‘‘
’’اگر آپ ہماری دعوت قبول کریں تو ہم آپ کو دو بکرا مسلم کھلائیں گے۔ ‘‘ ٹونی بولا۔ ’’ ارے قبول نہ کرنے میں کونسا جواز ہے؟ میں آپ لوگوں کی دعوت قبول کرتا ہوں۔ ‘‘ جھنگا پہلوان جھٹ سے بولے۔ ’’آپ لوگ کب دعوت دے رہے ہیں ؟‘‘
’کل‘، مونی بولا۔ ’’ کل سویرے ہم اپنی کار لے کر آئیں گے۔ ہمارے ساتھ ممبئی چلئے اور دوپہر دِلّی دربار میں کھانا کھائیے ہم شام تک واپس آ جائیں گے۔ ‘‘
’ٹھیک ہے۔ ‘ میں کل نو بجے تیار رہوں گا۔ جھنگا پہلوان نے جواب دیا۔
ٹونی، مونی چلے گئے اور اپنی تیاریوں میں لگ گئے۔
پہلوان کا چمچہ للو دیر سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ بول اٹھا۔
’’ استاد۔۔۔ اجنبی لوگوں کی دعوت لے رہے ہو! سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھائیے ایسا نہ ہو کے لالچ میں پڑ کر مصیبت میں پھنس جاؤ۔ ‘‘
’’تو چپ رہے۔ ‘‘ پہلوان نے اسے ٹوکا،’’ تو تو ہمیشہ الٹا سیدھا سوچتا رہتا ہے۔ انہوں نے تجھے دعوت نہیں دی ہے نا اس لئے تو ایسی الٹی سیدھی باتیں بنا رہا ہے۔ ‘‘
’’ نہیں استاد، یہ بات نہیں ہے۔ ‘‘ للو نے استاد کو بہت سمجھایا وہ لالچ میں نہ پڑے بکرا مسلم کے لالچ میں کسی مصیبت میں پھنس سکتے ہیں لیکن انہوں نے للو کی ایک نہ مانی۔
ان کے سامنے تو دِلّی دربار کا بکرا مسلم ناچ رہا تھا۔
دوسرے دن ۹ بجے سج دھج کر جھنگا پہلوان ٹونی مونی کا انتظار کرنے لگے۔
وقت مقررّہ پر ٹونی مونی ساری تیاریاں کر کے کار لیکر جھنگا پہلوان کو لینے آ گئے۔
وہ کار میں بیٹھے اور ممبئی کی طرف چل دئیے۔ راستے بھر جھنگا پہلوان انہیں اپنی زندگی کے قصے کہانیاں سناتے رہے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے پوچھ لیا۔ ’’ استاد اگر آپ کو دوبئی میں ملازمت مل جائے تو کیا آپ دوبئی جائیں گے؟‘‘
’’ میں ملازمت کرنے کے لئے کلیان بھی نہیں جاؤں گا۔ مجھے ملازمت نہیں کرنی ہے۔ ‘‘ پہلوان نے صاف جواب دے دیا۔ اور دونوں کے ارادوں پر اوس گر گئی۔ انہوں نے سوچا اگر پہلوان خوشی خوشی دوبئی جانے کے لئے تیار ہو جائیں تو پھر اغوا کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔ انہیں پہلوان کا اغوا کرنا ہی پڑے گا۔
ممبئی پہنچ کر وہ سیدھے دِلّی دربار ہوٹل میں گئے اور جھنگا پہلوان کی خواہش کے مطابق انہیں نے ان کے لئے بکرا مسلم کا آرڈر دیا۔ اور اپنے لئے الگ الگ چیزوں کا آرڈر۔
اسی درمیان ٹونی جا کر بکرا مسلم بنانے والے خانساماں سے مل آیا۔ اسے بکرے میں بے ہوشی کی دوا ملانے کے لئے کہا اور اس کام کی قیمت بھی دے دی۔ پہلوان نے بکرا مسلم کے لالچ میں سویرے سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ اس لئے پیٹ میں چوہے کود رہے تھے۔
بکرا مسلم کی خوشبو سے ان پر ہیجانی کیفیت طاری ہو رہی تھی۔
خدا خدا کر کے جھنگا استاد کا مینو ٹیبل پر آیا اور پہلوان اس پر ٹوٹ پڑے۔ ٹونی اور مونی اطمینان سے اپنا کھانا کھانے لگے۔
دیکھتے ہی دیکھتے بھوکے جھنگا پہلوان نے پورا بکرا صاف کر دیا۔
بکرے کے پیٹ میں جاتے ہی بے ہوشی کی دوا نے بھی اترنا شروع کیا۔
’’ اب مجھے نیند سی آ رہی ہے۔ ‘‘
’’فکر مت کیجئے استاد‘‘، ٹونی بولا: ’’ گاڑی میں بیٹھ کر ایک آدھ گھنٹہ سو لیجئے، نیند سے جاگنے کے بعد پھر ممبئی کی سیر کریں گے۔ اور اگر آپ کے دل میں آیا تو رات میں پھر آپ کو بکرا مسلم کھلائیں گے۔ ‘‘
اور وہ پہلوان کو سہارا دیکر گاڑی کی طرف لے گیا۔
مونی ہوٹل کا بل ادا کرنے لگا۔
ٹونی نے کار کا پچھلا دروازہ کھولا۔ جھنگا پہلوان اس میں داخل ہو گئے۔ اور سیٹ پر گرتے ہی بے ہوش ہو گئے یا سو گئے۔
دونوں نے خوشی سے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائے۔
اور اب دوسرے کام میں لگ گئے۔ انہوں نے جھنگا پہلوان کا اغوا تو کر لیا تھا اب اسے دوبئی پہونچانا تھا اس کے لئے انہیں ۰۱ لاکھ روپیہ ملنے والے تھے۔
وہ ہوائی جہاز سے جھنگا کو دوبئی تو نہیں لے جا سکتے تھے۔ ہوائی جہاز میں بیٹھتے ہی پہلوان کو ہوش آگیا تو ہنگامہ کھڑا کر دیگا۔
عرب شیخ نے جھنگا پہلوان کو پانی کے جہاز کے ذریعے دوبئی لانے کے انتظامات کئے تھے۔
ممبئی سے دور سمندر میں ۰۰۱ کلو میٹر کی دوری پر عرب کا ایک جہاز لنگر انداز تھا۔ اس نے ٹونی مونی سے کہا تھا کہ پہلوان کو کسی طرح اس جہاز تک پہنچا دیں۔
اس کے بعد پہلوان کو دوبئی لے جانے کا کام اس کا۔ اس جہاز پر پہلوان کو پہونچانے کے بعد انہیں ان کی قیمت دس لاکھ روپیہ بھی مل جائے گی۔
سمندر میں کھڑے اس جہاز تک پہونچنے کے لئے ٹونی مونی نے ایک خاص چھوٹا سا اسٹیمر کرائے پر لیا تھا۔
بے ہوش جھنگا پہلوان کو وہ سب کے سامنے اس بوٹ میں نہیں بٹھا سکتے تھے۔ کسی کو شک ہو گیا تو سارے کئے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ اس لیے انہوں نے اس اسٹیمر میں پہلوان کو سوار کرنے کے لئے ورسوا کا ایک سنسان علاقہ چنا تھا۔
وہاں اسٹیمر والا ا ن کا انتظار کر رہا تھا۔
بے ہوش جھنگا کو لیکر وہ ورسوا کی طرف چل دیئے۔
بے ہوشی کی دوا کے اثر سے جھنگا پہلوان چار پانچ گھنٹہ بے ہوش رہیں گے۔
تب تک وہ انہیں جہاز پر پہنچا کر اپنا پیسہ لیکر واپس آ جائیں گے۔
انہیں پتہ تھا ہوش میں آنے کے بعد جھنگا پہلوان سخت آفت مچائیں گے۔ لیکن اس وقت تو وہ جہاز میں ہوں گے۔ جہاز والے جھنگا پہلوان سے نپٹیں گے۔
ٹریفک بھری سڑکوں سے گزر ایک ڈیڑھ گھنٹے کا سفر کرتے ان کی کار ورسوا کے اسی سنسان علاقے میں پہونچی جہاں پر اسٹیمر والا ان کے لئے اسٹیمر لیے تیار کھڑا تھا۔ انہوں نے وہاں کار کھڑی کی اور کار سے بے ہوش جھنگا پہلوان کو اتارنے لگے۔ بھاری بھرکم جھنگا پہلوان کو گاڑی سے اتار کر اسٹیمر میں سوار کرنے میں ان کی چولیں ڈھیلے ہو گئیں۔
کسی طرح انہوں نے جھنگا پہلوان کو اسٹیمر میں ڈالا اور اسٹیمر والے سے چلنے کو کہا۔
اسٹیمر والے نے اسٹیمر اسٹارٹ کر دیا۔
’’ جہاز تک پہونچنے میں کتنا وقت لگے گا۔ ‘‘ انہوں نے اسٹیمر والے سے پوچھا۔
’’ دو سے ڈھائی گھنٹے لگیں گے۔ ‘‘ اس نے جواب دیا۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر جہاز پر پہنچنے سے پہلے جھنگا پہلوان ہوش میں آ گئے تو آفت آ جائے گی۔
ہوش میں آنے کے بعد وہ کسی بھی صورت میں انہیں جہاز تک نہیں پہنچا پائیں گے۔ ایسا جھنگا پہلوان کے بے ہوش رہنے پر ہی ممکن ہے۔
ڈاکٹر نے کہا تھا س دوا کو کھانے کے بعد ایک آدمی تین چار گھنٹے آرام سے بے ہوش رہ سکتا ہے۔
انہوں نے اندازہ لگایا تھا کہ اس عرصے میں وہ آسانی سے اپنا کام کر سکتے ہیں۔
اسٹیمر منزل کی طرف بڑھا جا رہا تھا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ ان کے سفر کو شاید ایک گھنٹہ ہو گیا تھا۔ ایک گھنٹہ باقی تھی۔
اس درمیان جھنگا پہلوان بے ہوش رہے ، ان کے جسم میں کوئی لغزش نہیں ہوئی۔ لیکن اچانک تینوں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ انہوں نے دیکھا کہ جھنگا پہلوان کے جسم میں حرکت ہوئی اور منہ سے طرح طرح کی آوازیں نکلنے لگیں۔
’’ جھنگا پہلوان تو ہوش میں آ رہا ہے‘‘ ، انہوں نے اندازہ لگایا اور ان کے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بج اٹھی۔
اگر پہلوان کو ہوش آگیا تو آفت آ جائے گی، وہ من ہی من میں خدا سے دعا کرنے لگے کہ وہ جھنگا پہلوان کو اور دو چار گھنٹے بے ہوش رکھے تا کہ وہ آسانی سے اپنا کام کر جاتے۔
لیکن ڈاکٹر نے جو دوا دی تھی وہ ایک عام آدمی کے لئے دی تھی، اس دوا کو لینے کے بعد ایک عام آدمی تین سے چار گھنٹے بے ہوش رہ سکتا تھا، لیکن جھنگا پہلوان جیسا مضبوط آدمی نہیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ دو ڈھائی گھنٹہ میں ہی جھنگا پہلوان ہوش میں آ گئے۔
’’ مجھے کیا ہوا تھا یہ تم لوگ مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ ‘‘ ہوش میں آتے ہی انہوں نے پوچھا، اور اپنے چاروں طرف سمندر دیکھا توا ن کے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی۔
’’ استاد ہم آپ کو دوبئی لے جا رہے ہیں ‘‘ ، بے خیالی میں مونی کے منہ سے نکل گیا۔ ’’ میں دوبئی جانا نہیں چاہتا،‘‘ جھنگا پہلوان دہاڑے۔
’’ استاد وہاں آپ کو بہت پیسے ملیں گے‘‘، مونی نے لالچ دیا۔
’’ مجھے پیسے نہیں چاہیئے، مجھے واپس لے چلو، اگر مجھے واپس گھر نہیں لے جایا گیا تو ایک ایک کو دیکھ لوں گا۔ ‘‘ پہلوان دہاڑے۔
’’ اب کوئی فائدہ نہیں استاد، اب تم گھر واپس نہیں جا سکتے۔ ‘‘ مونی پہلوان کو ڈرانے کے لئے بولا ’’ تمہارا سودا طے ہو گیا ہے۔ ہم تمہیں دوبئی کے ایک شیخ کے پاس بھیج رہے ہیں شیخ ہمیں اس کام کے دس لاکھ روپیہ دے گا۔ سمندر میں ایک جہاز کھڑا ہے ہمارا کام تمہیں اس جہاز پر پہونچا دینا ہے وہ تمہیں دوبئی لیکر چلا جائے گا۔ اور ہم اس وقت تمہیں اس جہاز کی طرف لے جا رہے ہیں۔ گڑ بڑ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں یہاں تمہاری مدد کو کوئی نہیں آنے والا۔ چپ چپ دوبئی چلے جاؤ، شاید تمہاری زندگی سدھر جائے۔ ‘‘
ٹونی اور مونی نے بدمعاشوں کے انداز میں پہلوان کو دھمکی دی۔
کون مجھے دوبئی لے جاتا ہے اور بھیجتا ہے میں بھی دیکھتا ہوں ، کہنے پر پہلوان کو تاؤ آگیا اور اس نے مونی کا گلا پکڑا پھر اسے ہاتھوں پر اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔
اسٹیمر رفتار سے آگے بڑھ گیا مونی پتہ نہیں کہاں رہ گیا۔ یہ دیکھ کر اسٹیمر والا اور ٹونی ڈر گئے۔
’’ تم مجھے دوبئی پہنچانا چاہتے ہو نا ٹھہرو میں تمہیں جہنم پہونچاتا ہوں ‘‘، کہہ کر پہلوان ٹونی کی طرف بڑھے اور اسے بھی اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔ اس کے بعد اسٹیمر والے سے یہ کہنے کے لئے اس طرف بڑھے۔
’’ تم مجھے واپس لے چلو ورنہ میں تمہیں بھی سمندر میں پھینک دوں گا۔ ‘‘
لیکن ٹونی اور مونی کے سمندر میں پھینکے جانے سے اسٹیمر چلانے والا اتنا گھبرا گیا تھا کہ خود کو مار سے بچانے کے لئے اس نے خود ہی سمندر میں چھلانگ لگا دی۔
’’ ارے ، ارے‘‘، جھنگا پہلوان اسے آواز دیتے رہ گئے، لیکن وہ پیچھے رہ گیا۔ اسٹیمر پوری رفتار سے آگے بڑھ گیا۔
اب جھنگا پہلوان پر جو مصیبت آئی اس کا سوچ کر انہوں نے اپنا سر پکڑ لیا۔ اور انہیں محسوس ہوا انہوں نے ٹونی اور مونی کو سمندر میں پھینک کر بہت بڑی غلطی کی۔ ان کا انجام تو کچھ بھی ہو لیکن اب ان کی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ اسٹیمر چلانے والا کوئی نہیں تھا۔ اسٹیمر سمندر میں انجان منزل کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔
نہ تو وہ اسٹیمر چلانا جانتے تھے اور نہ اسے روکنا۔
اسٹیمر ناک کی سیدھ میں پتہ نہیں کہاں جا رہا تھا۔
سمندر خاموش تھا۔ اس وقت اس کی لہروں میں کوئی تلاطم نہیں تھا۔ جھنگا پہلوان کو تو سوچ سوچ کر رونا آنے لگا کہ وہ کس مصیبت میں پھنس گئے ہیں اس مصیبت سے نکل پائیں گے یا نہیں۔۔۔۔ ؟
یہ اسٹیمر کہیں رکے گا یا نہیں۔۔۔۔۔ ؟
انہیں کس جگہ لے جا کر چھوڑے گا۔۔۔۔۔ ؟
اس سمندر میں کوئی ان کی مدد کو آئے گا بھی یا نہیں۔۔۔۔ ؟
یا وہ زندگی بھر سمندر کی لہروں میں بھٹکتے ہوئے سمندری جانوروں کا خوراک بن جائیں گے۔
یہ سوچ کر وہ دہاڑیں مار مار کر رونے لگے۔
لیکن وہاں تو نہ ان کا کوئی آنسو پونچھنے والا تھا اور نہ سمجھانے والا۔ سورج دھیرے دھیرے افق کی طرف بڑھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں رات ہو جائے گی۔ رات ہونے کے بعد۔۔۔۔ ؟
اس تصور سے ہی وہ کانپ اٹھے۔
اسٹیمر کا سفر جاری تھا۔ اسے روکنے کی کوئی تدبیر ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ اور روک کر کوئی فائدہ بھی نہیں تھا۔ اس جگہ کوئی ان کی مدد کو آنے سے تو رہا۔ اس لئے انہوں نے خود کو اسٹیمر کے حوالے کر دیا تھا۔ وہ انہیں جہاں لے جائے۔
اچانک انہیں دور سے ایک جہاز آتا ہوا دکھائی دیا۔ اسے دیکھ کر ان کی ہمت بندھی۔ اس جہاز سے کوئی مدد مل سکتی ہے۔ وہ تیار ہو گئے۔
جہاز لمحہ لمحہ قریب آ رہا تھا۔ اور اسٹیمر لمحہ لمحہ اس کے قریب جا رہا تھا۔ دھیرے دھیرے جہاز کے عرشے پر لوگ دکھائی دینے لگے۔
پہلوان نے انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے زور زور سے ہاتھ ہلانے لگے اور چیخنے لگے۔
’’ بچاؤ۔۔۔۔ بچاؤ۔۔۔۔۔ ‘‘
وہ شاید غیر ملکی تھے، بچاؤ کا مطلب نہیں سمجھے۔
وہ بچاؤ کو ’ہائے ‘ سمجھے، وہ بھی ہاتھ ہلا ہلا کر جھنگا پہلوان کو ہائے کہنے لگے۔
اور ان کی ایک امید وہ جہاز بھی ان سے دور چلا گیا۔ اب پھر ان کا سفر جاری تھا۔ طرح طرح کے خیالات ان کے ذہن میں آ رہے تھے۔ کہیں یہ اسٹیمر انہیں کسی غیر آباد جزیرے پر لے جا کر تو نہ چھوڑ دے جہاں انہیں رابنسن کروسو کی سی زندگی گزارنی پڑے۔
اچانک پتہ نہیں کیا کرشمہ ہوا۔
اسٹیمر رک گیا۔ پٹرول ڈیزل ختم ہو گیا یا کوئی خرابی پیدا ہو گئی، لیکن ان کے لئے اور بڑی مصیبت تھی۔
اب ان کا اسٹیمر لہروں کے حوالے تھا۔ لہریں آتیں اور جہاں چاہے اسے لے جاتی۔ اگر کسی بڑی لہر نے اسٹیمر پلٹ دیا تو وہ بھی سمندر میں ہوں گے۔ وہ تیرنا جانتے تھے لیکن کب تک تیر پائیں گے، آخر تیرتے تیرتے تھک جائیں گے اور سمندری جانوروں ، مچھلیوں کی غذا بن جائیں گے۔
رات ہو گئی اور چاروں طرف اندھیر پھیل گیا۔
کچھ بھی دکھائی نہیں دینے لگا۔ صرف لہروں کا ہلکا ہلکا شور سنائی دیتا ، وہ بوٹ میں لئے آسمان میں جگمگاتے ستاروں کو تاک رہے تھے۔ ان کا کیا ہو گا۔۔ ؟ سوچ سوچ کر کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔ اس وقت انہیں للو کی بات یاد آئی۔ للو سچ کہہ رہا تھا۔ اگر وہ لالچ میں نہ پڑتے اور اجنبیوں کے ساتھ یہاں نہیں آتے تو اس مصیبت میں نہیں پڑتے۔
رات سوتے جاگتے میں گزر گئی۔
سویرا ہوا تھا امید کی ایک کرن بھی دکھائی دی۔
ایک جہاز اس طرف آ رہا تھا۔
جیسے جیسے جہاز ان کے قریب آنے لگا ان کا دل دھڑکنے لگا اور وہ دل ہی دل میں خدا سے دعا مانگنے لگے کہ اس جہاز میں ان کے لئے کوئی مدد بھیج دے۔ جہاز جیسے ہی قریب آیا وہ زور زور سے چلانے لگے۔
’’بچاؤ۔۔۔ بچاؤ۔۔۔۔ بچاؤ۔۔۔۔ ‘‘
وہ کوئی ہندوستانی جہاز تھا۔ ان کا مطلب سمجھ گیا۔ جہاز کے کپتان نے جہاز روکا اور ایک رسی پھینکی تب ان کا اسٹیمر جہاز کے قریب جا لگا۔ وہ رسی پکڑ کر جہاز میں چڑھے۔
اور جہاز کے عملے کو اپنی ساری رام کہانی سنائی۔
جہاز نے انہیں ممبئی چھوڑا اور وہاں سے وہ خیر سے بدھو گھر کو آئے کی طرف واپس گھر آئے۔