گلشن ناز
یہ اُس وقت کی بات ہے جب عرب میں اسلام کا سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ ہر طرف ظلم و زیادتی کا دور دورہ تھا۔ عرب کے لوگوں کا کوئی خاص مشغلہ نہ تھا۔ کاشت کاری نہ ہونے کی وجہ سے ان کی ساری گزربسر صرف اونٹوں کے گوشت، دودھ اور کھجوروں پر ہوتی تھی۔ ذریعہ معاش صرف تجارت تھا اور باقی وقت آبا و اجداد کے حسب و نسب اور ان کے کارناموں کے قصے پر فخر کرتے گزارتے، یا پھر موسیقی کی محفل اور شراب نوشی اور شعرو شاعری میں ان کا وقت گزتا تھا۔ ان میں حسنین نامی ایک شخص بہت بے وقوف تھا، بہت کوشش کے باوجود بھی سوائے نقصان کے کچھ ہاتھ نہ آتا تھا۔ لیکن اس کی ناکامیوں کی وجہ یہ تھی کہ وہ بہت شیخی بگھارتا تھا اور کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتا تھا۔
اس کی بیوی ایک سمجھدار عورت تھی، وہ اسے کسی نہ کسی طرح ترغیب دے کر کچھ نہ کچھ کام دلوادیتی، لیکن یہ ہمیشہ اپنی بے وقوفیوں سے ناکام ہو جاتا۔
ایک مرتبہ اس کی بیوی نے اسے ایک گوّیے کے پاس کام دلوادیا۔ اس کی بیوی چاہتی تھی کہ یہ ایسا کام کرے جس میں اس سے کوئی بے وقوفی سر زد نہ ہو… اور گوّیا بننا ہی اس کو سب سے بہتر کام لگا، کیونکہ اس میں صرف گانا اور کمانا ہوتا تھا۔ استاد، حسنین سے دن بھر کام کراتا اور رات کو اسے گانا سکھاتا۔ اب بے چارا حسنین دن بھر کام کرتا اور رات کو گلا پھاڑ پھاڑ کر گانا گاتا۔ ایک عرصہ تک وہ دلجمعی سے یہی کام کرتا رہا۔
ایک مرتبہ اس کے استاد کی طبیعت ناساز تھی اور اس کو ایک بزمِ طرب میں بھی جانا تھا، لیکن طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے وہ جانہ سکا۔ اس نے اپنے شاگرد حسنین کو وہاں گانے کے لیے بھیج دیا۔ حسنین وہاں پہنچا تو لوگوں نے اس کا استقبال بڑے پُرجوش انداز میں کیا۔ جب حسنین نے دیکھا کہ لوگ اس کو بہت عزت دے رہے ہیں تو اس کا سینہ فخر سے پھول گیا۔ اس نے دل میں سوچا کہ مجھے موسیقی کا سارا علم حاصل ہوگیا تب ہی مجھے استاد نے محفل میں بھیج دیا ہے۔
جب محفلِ موسیقی شروع ہوئی تو اس نے سوچاکہ میں استاد کے طریقے کے مطابق کیوں گائوں؟ میں کچھ الگ طریقے سے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کروں گا۔
یہ سوچ کر اس نے گانا، گانا شروع کیا۔ وہ بے ہنگم آواز میں گاتا رہا۔ پہلے تو لوگ ہنستے رہے، اور یہ سمجھے کہ شاید محفل میں مزاح و نشاط پیدا کرنے کے لیے ایسا گا رہا ہے۔ لیکن جب لوگوں کی برداشت سے باہر ہوگیا تو وہ سمجھے یہ گوّیا نہیں بلکہ ہمیں بے وقوف بنا کر ہم سے پیسے بٹورنا چاہتا ہے۔ یہ سوچ کر لوگوں نے اسے مارنا پیٹنا شروع کردیا۔ حسنین کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ لوگ اس کے ساتھ اس قدر ذلت آمیز سلوک کیوں کررہے ہیں۔ اس نے بھاگنے میں ہی عافیت جانی اور بچتا، بچاتا ہوا گھر لوٹ آیا۔ پھٹے ہوئے کپڑے، بکھرے ہوئے بال، چہرے اور ہاتھوں پر مار کے نشان دیکھ کر اس کی بیوی سمجھ گئی کہ یہ ضرور اس کی کسی بے وقوفی کی سزا ہے۔ جب حسنین نے اپنی ’’اس عزت افزائی‘‘ کی داستان سنائی تو اس کی بیوی نے غصے سے سر پیٹ لیا۔ جب علاقے کے لوگ اس کی بیوی سے پوچھتے کہ حسنین کیا کچھ لے کر لوٹا ہے؟ تو یہ اس کی عزت بچانے کے لیے یہی کہتی کہ سوائے دو موزوں کے کچھ ہاتھ نہ آیا، لہٰذا وہ صرف دو موزے ہی لے کر لوٹا ہے۔
پھر کچھ دنوں تک اس کی بیوی اس کی خدمت کرتی رہی۔ ایک دن اس کی بیوی نے سنا کہ ایک قافلہ یمن کی طرف تجارت کی غرض سے جا رہا ہے۔ اس نے سوچا کہ حسنین کی اتنی بے عزتی کے بعد کوئی اس کو یہاں کام نہیں دے گا۔ حسنین کو یمن بھیج دیا جائے۔ وہاں نیا ملک، نئے لوگ ہوں گے تو ہوسکتا ہے تھوڑے بہت پیسے کما لائے۔ یہ سوچ کر اس بے چاری نے گھر کی چند چیزیں رہن رکھوا کر ادھار لیا اور اس کو تجارت کا سامان دے کر یمن کی طرف روانہ کردیا۔ یمن جاکر حسنین تجارت کرتا رہا، لیکن جب تھوڑا منافع ہونے لگا تو وہ اپنی طبیعت کے موافق یہ سوچنے لگا کہ اب میرا شمار بڑے بڑے تاجروں میں ہونے لگا ہے، اب کچھ بھی کسی بھی دام بیچوں، لوگ مجھ سے ضرور خریدیں گے۔ یہ سوچ کر حسنین نے چیزوں کے نرخ بڑھا دیے۔
ایک دن ایک اعرابی اس کے پاس موزہ خریدنے گیا۔ بھائو تائو کے دوران دونوں میں تلخی ہوگئی۔ اعرابی نے موزے خریدے اور واپس چلا گیا۔ اگلے روز حسنین اپنا ساز و سامان باندھ کر واپس جانے کی تیاری کرنے لگا۔ اعرابی کو پتا چلا تو اس نے حسنین کو دھوکا دینے کی ٹھانی۔ وہ اعرابی حسنین کے راستے میں بیٹھ گیا۔ حسنین اپنا سازو سامان لادے قافلے والوں سے ملنے جا رہا تھا۔ ایک موزہ اُس اعرابی نے حسنین کے راستے میں ڈال دیا اور کچھ آگے کچھ فاصلے پر دوسرا موزہ ڈال دیا اور خود ایک طرف چھپ گیا۔
حسنین جب وہاں پہنچا اور اس کی نظر جب موزے پر پڑی تو کہہ اٹھا کہ یہ تو اعرابی کے موزوں کی طرح ہے۔ اس نے سمجھا کہ اعرابی غصے میں خرید کر یونہی پھینک کر چلا گیا ہوگا۔ موزہ نہیں اٹھایا، آگے گیا تو دوسرا موزہ دیکھا۔ اب اسے افسوس ہوا کہ اس نے پہلا موزہ کیوں نہ اٹھایا۔ اس لیے اونٹنی وہیں باندھ کر پہلے موزے کو اٹھانے چلا گیا۔ اعرابی نے دیکھا کہ اب حسنین اپنا سامان مع اونٹنی چھوڑ کر چلا گیا تو وہ اونٹنی اور اس پر لدا ہوا سامان لے اڑا۔
حسنین بے چارہ دو موزے اٹھائے گھر آیا۔ جب لوگ اور اس کی بیوی پوچھتی کہ کیا لائے ہو؟ تو کہتا کہ میں دو موزوں کو ساتھ لایا ہوں۔
لوگ آج تک حسنین کی مثال دیتے ہیں۔ جب کوئی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو اور ناکام و نامراد لوٹے تو لوگ اس وقت محاوراتی طور پر حسنین کے متعلق یہی کہتے ہیں کہ یہ دو موزے لے کر لوٹا ہے۔
٭٭٭