My Blogger consists of a general news in which I upload articles from all types of news including science, technology, education, crime, how-to, business, health, lifestyle and fashion.

New User Gifts

Showing posts with label ایک تھی بلی جو کسی امیر آدمی کے گھر میں پلی بڑھی تھی۔ وہ اس گھر سے اتنی مانوس ہو چکی تھی. Show all posts
Showing posts with label ایک تھی بلی جو کسی امیر آدمی کے گھر میں پلی بڑھی تھی۔ وہ اس گھر سے اتنی مانوس ہو چکی تھی. Show all posts

بلی اور چوہا

مؤلف مہدی آذریزدی
ترجمہ:ڈاکٹر تحسین فراقی

ایک تھی بلی جو کسی امیر آدمی کے گھر میں پلی بڑھی تھی۔ وہ اس گھر سے اتنی مانوس ہو چکی تھی کہ کسی وقت بھی وہاں سے باہر قدم نہ رکھتی تھی۔ ایک سال کیا ہوا کہ صاحب خانہ نے اپنے تنگدست اور مفلس ہمسایے کو اپنے گھر میں جگہ دی اور خود ایک لمبے سفر پر روانہ ہو گیا۔
بلی گھر میں رہ گئی۔ درویش کبھی کبھی اس کو کھانے پینے کو کچھ دے دیتا۔ آہستہ آہستہ بلی غذا کی کمی کے باعث لاغر ہو گئی اور بیمار رہنے لگی۔ وہ اس قدر کمزور ہو گئی تھی کہ ایک دن اس نے ایک چوہے کا شکار کرنا چاہا مگر نہ کام رہی۔ چوہے کو بھی بلی کی اس کمزوری کا علم ہو گیا تھا۔
بلی کو یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ چوہا کہیں اس کی کمزوری اور ناتوانی کا مذاق نہ اڑائے چنانچہ اس دن کے بعد وہ دوبارہ کبھی چوہے کی گھات میں نہ بیٹھی اور ظاہر یہ کیا گویا اسے چوہے سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ اسی اثناء میں وہ اس قدر بیمار ہو گئی کہ اس کے لیے راہ چلنا بھی دشوار ہو گیا۔
رہا چوہا، تو وہ بھی سالہا سال سے اسی گھر کا مکین تھا اور اس نے گھر کے اندر ایک بڑا تہہ در تہہ سوراخ بنا رکھا تھا۔ وہاں اس نے زندگی کے سارے لوازمات مہیا کر رکھے تھے۔ اس نے خوراک کی ایک بڑی مقدار اس سوراخ میں ذخیرہ کر لی تھی اور جب اسے اپنے اس ذخیرے کا خیال آتا، وہ خوشی سے نہال ہو جاتا۔ وہ اپنی زندگی سے بڑا مطمئن تھا۔ صرف بلی کا وجود اس کے لیے بے آرامی کا باعث تھا اور بلی بھی وہ جو اب اسے پکڑنے کی طاقت نہ رکھتی تھی!
ایک روز چوہا اپنے دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ بلی وہی بلی ہے جس کے خوف سے وہ تین تین دن سوراخ سے باہر نہیں نکلتا تھا اور جس طرح کی طاقت ہمیشہ کے لیے نہ تھی، اس کی کمزوری بھی عارضی ہے۔ دنیا میں اس طرح کی بلندی وپستی بہت ہے۔ چوہا طویل فکر میں گم اپنے آپ سے کہہ رہا تھا ’’اگر کل کلاں کو ایسا اتفاق ہو کہ بلی کو اچھی خوراک ملنے لگے اور اسے اپنی کھوئی ہوئی توانائی حاصل ہو جائے تو دوبارہ ایک خطرناک صورت حال پیدا ہو سکتی ہے، سو اب جبکہ بلی اس قدر لاغر اور کمزور ہو چکی ہے اور میرا گھر خوراک سے پر ہے تو کیا برا ہے کہ میں کوئی لذیذ کھانا اس کے لیے لے جائوں اور اس سے دوستی کی بنیاد ڈالوں۔ چونکہ اب اسے میری ضرورت ہے اس لیے ممکن ہے وہ مجھ سے دوستی کر لے اور بعدازاں جب اس کی توانائی لوٹ آئے، وہ میری جان لینے کا قصد نہ کرے اور ایک پرانی ضرب المثل ہے: ’’دوستی کتنی ہی مہنگی کیوں نہ ملے پھر بھی سستی ہے۔‘‘
یہ سوچ کر چوہے نے بلی کے لیے اس کی پسندیدہ خوراک تیار کی اور اس کے پاس لے گیا۔ اسے سلام کیا اور حال احوال پوچھنے کے بعد بولا ’’اے عزیز ہمسائی، میں اور تم دونوں ایک ہی گھر کے مکین ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے، اگرچہ ہم ایک جنس سے نہیں اور عقلمندوں کا کہنا ہے کہ ناجنس سے دوستی نہیں کرنی چاہیے لیکن چونکہ تم ایک شریف اور بے آزار بلی ہو اور تم نے مجھ سے کوئی برائی نہیں کی، میں نے یہ واجب سمجھا کہ تمہاری عیادت اور قدرشناسی کو آئوں اور تمہارا حال چال پوچھوں‘‘
بلی بولی: ’’شکریہ‘‘ میں بھی جانتی ہوں کہ تم ایک سمجھ دار چوہے ہو۔‘‘
چوہا بولا: ’’تم خود اچھی ہو۔ اب چونکہ مجھے علم ہے کہ تمہاری بیماری اور کمزوری کا سبب خوراک کی کمی ہے دوسری کوئی وجہ نہیں، میں یہ ہدیۂ ناچیز، جو اچھی بلیوں کی مرغوب غذا ہے، تمہارے دوپہر کے کھانے کے لیے لایا ہوں تو یہ کسی قابل نہیں لیکن مجھے امید ہے کہ اسے قبول کر کے تم مجھے مسرور کرو گی۔ کل بھی تمہاری زیارت کے لیے حاضر ہوں گا۔‘‘
چوہے نے غذا کا دسترخوان بلی کے آگے رکھا اور اس کے شکریے کے الفاظ سن کر اسے خدا حافظ کہا اور اپنے بل میں چلا گیا۔ اب تک بلی نے کسی چوہے کو ایسا مہربان اور اتنا دلیر نہ دیکھا تھا۔ وہ بہت خوش ہوئی اور غذا کے تحفے کو، جسے وہ قبول کر چکی تھی، کھانے لگی۔ غذا بڑی مزے کی تھی۔ وہ خود سے کہنے لگی ’’کتنا آداب شناس چوہا ہے۔ ایسے چوہے کو حقیقتا تکلیف نہیں دینی چاہیے۔‘‘
وہ دن گزر گیا۔ اگلے دن پھر چوہے نے بڑے مزے کا کھانا مہیا کیا اور دوبارہ اس کا حال احوال پوچھا اور بولا ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہاری بیماری کا سبب توانائی اور غذا کی کمی ہے اور میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ہر روز، جہاں تک ممکن ہو، تمہارے لیے قوت بخش غذا لائوں تاکہ تمہاری صحب اور سلامتی پھر سے بحال ہو جائے۔‘‘
بلی نے گزشتہ دن خوراک کا خوب مزا لیا تھا۔ سو اس نے اپنی خوشی کا ظہار کرتے ہوئے کہا ’’تمہارا اس طرح کا طرزِ عمل تمہاری اعلیٰ خوبیوں اور خیر خواہی کو ظاہر کرتا ہے۔ نۂں معلوم تم نے اس سے پہلے مجھ سے کیوں دوری اختیار کی اور ہم نے ایک دوسرے سے دوستی کیوں نہ کی؟‘‘
چوہا بولا ’’دراصل میں نے سن رکھا تھا کہ بلیاں چوہوں کو پکڑ کر ہڑپ کر لیتی ہیں۔ مجھ سے میرے بزرگوں نے کہا تھا کہ چوہے کو بلی سے دوستی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ بلی زیادہ طاقت ور ہوتی ہے اور چوہے کو محض کھانے کی خاطر چاہتی ہے نہ دوستی کی خاطر۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ جب بلی بھوکی ہو تو اس کو انصاف کا احساس نہیں رہتا لیکن اب جب میں دیکھتا ہوں کہ تم بھوک کے باعث لاغر ہو گئی ہو اور چوہوں کو تکلیف پہنچانے کی فکر میں بھی نہیں ہو تو مجھے احساس ہوا کہ ہمارے بزرگوں سے بڑی غلطی ہوئی اور انہوں نے ہمیں خواہ مخواہ ڈرایا۔ بلی خوبصورت خط و خال والی مہربان حیوان ہے اور اسے کسی سے کچھ لینا دینا نہیں۔‘‘
بلی بولی: ’’ہاں ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔ میں کبھی اپنی تعریف نہیں کرتی لیکن وہ باتیں جو تمہارے بزرگوں نے تمہیں بتائیں، ہر گز صحیح نہیں۔ تم نے خود دیکھا کہ تم دوبار یہاں آئے گئے، میں نے تمہیں نہ پکڑا نہ کھایا نہ جان سے مارا۔ تیسری بار بھی ایسا ہی ہو گا اور ہمیشہ ایسا ہی۔ ہمیں باہم دوستی کر لینی چاہیے۔ میں نے بھی تم جیسے دوست کے نہ ہونے کی وجہ سے بڑی تکلیف اٹھائی ہے اور میں تم سے سوائے دوستی کے کچھ نہیں چاہتی۔‘‘
چوہا بولا ’’تاہم بعض بلیاں ہیں کہ چوہوں کو اذیت دیتی ہیں۔
بلی بولی: ہاں ہاں۔ وہ بری بلیاں ہیں۔ اگر کسی ایک نے برا کام کیا تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سب برے ہیں۔ البتہ ہو سکتا ہے کہ بعض خود مجھے بھی برا جانتے ہوں لیکن دراصل انہیں میری پہچان نہیں۔ یہ بڈھے کھوسٹ اور نادان چوہے ہیں کہ دوستی کے معنی سے ناواقف ہیں اور ہر چیز سے ڈرتے ہیں۔ میں اصولاً چوہوں کی آمد و رفت اور ان کے ساتھ دوستی اور آشنائی سے خوش ہوتی ہوں اور مجھے کسی وقت بھی چوہے کو کھانے کا خیال نہیں آتا۔ آخر چوہے کھانے سے فائدہ کیا ہے؟ چوہا ہے کیا: گوشت اور خون کی ایک مشت۔ اس کے مقابلے میں دوستی اور اخلاص خوشی اور مسرت کا سرمایہ ہے۔ میں جب یہ دیکھتی ہوں کہ ایک چوہا میرا دوست ہے اور مجھ سے ڈر کر نہیں بھاگتا تو یوں لگتا ہے گویا مجھے بہشت بریں کی نعمت مل گئی ہو۔ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ ہم باہم مل کر بیٹھیں اور باتیں کریں اور ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہوں۔ میرے خیال میں جو بلیاں چوہوں کو کھانے کی خواہش رکھتی ہیں، دراصل کسی اصول کی پابند نہیں اور دوستی کے معنی سے واقف نہیں۔ تم چونکہ بڑے ذہین چوہے ہو، خوب سمجھ سکتے ہو کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔‘‘
٭٭٭

alibaba

as

ad

web

amazon

Followers

Website Search

Tweet Corornavirus

Please Subscribe My Chennal

Sub Ki News

 
‎Sub Ki News سب کی نیوز‎
Public group · 1 member
Join Group
 
Nasrullah Nasir . Powered by Blogger.

live track

Popular Posts

Total Pageviews

Chapter 8. ILLUSTRATOR Shape Builder & Pathfinder-1

Chapter 10. Illustrator Drawing & Refining Paths-1

Labels