ایک انسان تھا جسے
دنیا ضرار بن ازورؓ کے نام سے جانتی تھی۔
یہ ایک ایسے انسان
تھے کہ اس دور میں دشمن ان کے نام سے کانپ اٹھتے تھے اور ان کی راہ میں آنے سے کتراتے
تھے۔
جنگ ہوتی تھی تو
سارےدشمن اور فوجیں زرہ اور جنگی لباس پہن کر جنگ لڑتے تھے۔
لیکن آفریں حضرت
ضرارؓ زرہ تو درکنار اپنا کرتا بھی اتار دیتے تھے۔
لمبے بال لہراتے
چمکتے بدن کے ساتھ جب میدان میں اترتے تھے تو ان کے پیچھے دھول نظر آتی تھی اور ان
کے آگے لاشیں۔ اتنی پھرتی، تیزی اور بہادری سے لڑتے تھے کہ دشمن کے صفیں چیر کر نکل
جاتے تھے۔ ان کی بہادری پر بےشمار مرتبہ حضرت خالد بن ولیدؓ کو تعریف کرنے اور انعام
و کرام دینے پر مجبور کیا۔
دشمنوں میں وہ ننگے
بدن والا کے نام سے مشہور تھے۔
رومیوں کے لاکھوں
کی تعداد پر مشتمل لشکر سے جنگِ اجنادین جاری تھی۔ حضرت ضرارؓ حسب معمول میدان میں
اترے اور صف آراء دشمن فوج پر طوفان کی طرح ٹوٹ پڑے اتنی تیزی اور بہادری سے لڑے کہ
لڑتے لڑتےدشمن فوج کی صفیں چیرتے ہوئے مسلمانوں کے لشکر سے بچھڑ کر دشمن فوج کے درمیان
تک پہنچ گئے۔ دشمن نے انہیں اپنے درمیاں دیکھا تو ان کو نرغے میں لے کر بڑی مشکل سے
قید کر لیا۔
مسلمانوں تک بھی
خبر پہنچ گئی کہ حضرت ضرارؓ کو قید کر لیا گیا ہے۔
حضرت خالد بن ولیدؓ
نے اپنی فوج کے بہادر نوجوانوں کا دستہ تیار کیا اور حضرت ضرارؓ کو آزاد کروانے کے
لیے ہدایات وغیرہ دینے لگے۔
اتنے میں انہوں نے
ایک نقاب پوش سوار کو دیکھا جو گرد اڑاتا دشمن کی فوج پر حملہ آور ہونے جا رہا ہے۔
اس سوار نے اتنی تند خوہی اور غضب ناکی سے حملہ کیا کہ اس کے سامنے سے دشمن پیچھے ہٹنے
پر مجبور ہو گیا۔ حضرت خالدؓ اس کے وار دیکھ کر اور شجاعت دیکھ کر عش عش کر اٹھے اور
ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ سوار کون ہے؟ لیکن سب نے لاعلمی ظاہر کی کہ وہ نہیں جانتے۔
حضرت خالدؓ نے جوانوں کو اس سوار کی مدد کرنے کو کہا اور خود بھی مدد کرنے اس سوار
کی جانب لپکے۔
گھمسان کی جنگ جاری
تھی کبھی حضرت خالد بن ولیدؓ اس سوار کو نرغے سے نکلنے میں مدد کرتے اور کبھی وہ سوار
حضرت خالدؓ کی مدد کرتا۔
حضرت خالدؓ اس سوار
کی بہادری سے متاثر ہو کر اس کے پاس گئے اور پوچھا کون ہو تم؟ اس سوار نے بجائے جواب
دینے کے اپنا رخ موڑا اور دشمنوں پر جارحانہ حملے اور وار کرنے لگا موقع ملنے پر دوسری
بار پھر حضرت خالدؓ نے پوچھا اے سوار تو کون ہے؟ اس سوار نے پھر جواب دینے کی بجائے
رخ بدل کر دشمن پر حملہ آور ہوا تیسری بار حضرت خالدؓ نے اس سوار سے اللہ کا واسطہ
دے کر پوچھا کہ اے بہادر تو کون ہے؟ تو نقاب کے پیچھے سے نسوانی آواز آئی کہ میں ضرارؓ
کی بہن خولہ بنت ازورؓ ہوں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گی جب تک اپنے بھائی کو
آزاد نہیں کروا لیتی۔ حضرت خالدؓ نے کہا کہ پہلے کیوں نہیں بتایا تو کہنے لگی آپ نے
منع کر دینا تھا۔ حضرت خالدؓ نے کہا آپ کو آنے کی کیا ضرورت تھی ہم تھے آزاد کروانے
کے لیے تو حضرت خولہؓ نے جواب دیا کہ جب بھائیوں پر مصیبت آتی ہے تو بہنیں ہی آگے آیا
کرتیں ہیں۔
پھر مسلمانوں اور
حضرت خولہؓ نے مل کر حضرت ضرارؓ کو آزاد کروا کر دم لیا۔۔۔
گزارش۔ اسلام خون
اور قربانیوں کے دریا میں تیر کر پہنچا ہے اس کی قدر کریں جذبہ جہاد کو زندہ رکھیں
کہ جب تک جہاد تھا مسلمان ہمیشہ غالب رہے جب جہاد چھوٹا تو مسلمانوں پر زوال آیا۔ کم
از کم اپنے بچوں کے نام ان اسلام کے ہیروز کے نام پر رکھیں تاکہ انہیں پتہ چلے