My Blogger consists of a general news in which I upload articles from all types of news including science, technology, education, crime, how-to, business, health, lifestyle and fashion.

New User Gifts

Showing posts with label ترجمہ:ڈاکٹر تحسین فراقی. Show all posts
Showing posts with label ترجمہ:ڈاکٹر تحسین فراقی. Show all posts

پڑھا لکھا گدھا

مؤلف مہدی آذریزدی
ترجمہ:ڈاکٹر تحسین فراقی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خسرو نوشیرواں کے عہد میں ایک فریق کے درمیان تُو تُو مَیں مَیں شروع ہوئی اور معاملہ زد و کوب تک جا پہنچا۔ جب انہیں پکڑ کر عدالت میں لایا گیا تو معلوم ہوا کہ دو لوگوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا اور ایک نے دوسرے کو لاٹھیوں سے پیٹا۔ اس وقت مضروب کے چند دوست اس کی مدد کو آئے۔ چند دوست دوسرے کی مدد کو پہنچے اور اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔
نوشیرواں کی موجودگی میں کسی نے لڑائی کا آغاز کرنے والے سے پوچھا: ’’تُو نے اس کو لاٹھیوں سے کیوں پیٹا؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’اس شخص نے مجھ پر ظلم کیا تھا، میری رقم ہضم کر گیا تھا، سو میں نے اس کی پٹائی کردی۔‘‘
لوگوں نے کہا: ’’اچھا اگر اس نے تجھ پر ظلم کیا تھا تو تُو اس کی شکایت کرتا اور اپنا حق حاصل کرلیتا۔ یہ کیا کہ تُو نے خود اس سے لڑائی شروع کردی۔ آخر یہ عدالتیں اور دربار کس مرض کی دوا ہیں؟‘‘
وہ بولا: ’’میں اپنی شکایت بیان کرنے کے لیے چند بار آیا لیکن چونکہ میرا حریف دربانوں کا دوست تھا اس لیے کسی نے میری بات نہ سنی اور مجھے دربار کے اندر جانے نہ دیا۔ میں بھی عاجز آگیا اور میں نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر انتقام لینے کا ارادہ کرلیا۔‘‘
اس روز تو کسی نہ کسی طرح اس قضیے کو نمٹا دیا گیا، لیکن نوشیرواں نے اپنے قریبی ساتھیوں سے کہا: ’’ہمارے پاس ان لوگوں کے لیے کوئی منطقی اور اطمینان بخش جواب نہیں ہے اور یہ ہمیں رسوا کررہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا میں کیا کروں؟‘‘
بعدازاں بھی چند بار جب ایسی ہی صورتِ حال پیدا ہوئی اور معلوم ہوا کہ کسی کو کسی سے غرض نہیں تو شیرواں نے مجبوراً اپنے زیرک اور ہوشیار وزیر بزرجمہر سے کہا: ’’میں نیک نامی چاہتا ہوں مگر اس صورتِ حال میں تو یہ ممکن نہیں۔ کیا تمہارے پاس اس کا کوئی علاج نہیں؟‘‘
بزرجمہر بولا: ’’صحیح علاج تو لوگوں کو ٹھیک ٹھیک انصاف مہیا کرنا ہے۔ لیکن موجودہ صورت میں یہ بھی کوئی ایسا برا نہیں اگر لوگوں اور ان کی منزل یعنی انصاف کے درمیان فاصلہ کم ہوجائے۔ مطلب یہ کہ آپ خود دیکھیں کہ لوگوں کا مسئلہ کیا ہے، نہ یہ کہ درمیان میں دربان اور چوب دار حائل ہوں۔ میرے ذہن میں ایک تدبیر آئی ہے۔ ایسا کریں کہ ریشم کی ایک مضبوط رسّی لے کر اس میں گھنٹیاں باندھی جائیں۔ پھر اس کا ایک سرا دربار کے ایوان کے اوپر اور دوسرا سرا شہر کے میدان میں ایک زنجیر کے ساتھ باندھ دیا جائے تاکہ جس کسی کو شکایت ہو وہ اس زنجیر کو کھینچے اور آپ خود اس سے باخبر ہوجائیں۔ آپ فریادی کو خود طلب کریں اور دیکھیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔ اس طرح کم از کم دربان، داد خواہوں کو اندر آنے سے نہیں روک سکیں گے۔‘‘
نوشیرواں خوش ہوا اور بولا: ’’واہ وا، سبحان اللہ۔ آج کے بعد تمہارا نام بزرجمہر حکمت والا ہے۔ لو اس کام کو تکیمل تک پہنچائو۔‘‘
زنجیر نصب کردی گئی اور یہ مشہور کردیا گیا کہ یہ عدل کی زنجیر ہے۔ ڈھنڈورچیوں نے شہر میں ڈونڈی پیٹ دی کہ جس کسی پر ظلم ہو یا کسی کو کسی سے شکایت ہو، میدان میں آکر زنجیر ہلا دیا کرے تاکہ نوشیرواں اس کو انصاف مہیا کرے۔
البتہ تاریخ یا روایتوں میں ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی جس سے اندازہ ہوسکے کہ اس زنجیر سے کسی کو فائدہ پہنچا ہو، کیونکہ اس کی حیثیت محض ایک دکھاوے کی تھی اور لوگ نوشیرواں کے ظلم اور زیادتیاں دیکھ چکے تھے اور ان نمائشی چیزوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ بعد میں تو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ خود بزرجمہر اسی نوشیرواں کے حکم سے قتل ہوا۔
بہرحال مدت گزر گئی، حتیٰ کہ ایک روز صبح ریشمی رسّی میں حرکت پیدا ہوئی اور اس سے لگی ہوئی گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئیں۔ نوشیرواں نے حکم دیا: ’’جائو اور فریادی کو حاضر کرو۔‘‘ٰ
ملازم دوڑے دوڑے گئے اور یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ وہاں سوائے ایک بیمار اور بے پالان گدھے کے اور کوئی نہ تھا جو زنجیر کے پاس کھڑا اپنی زخمی گردن کو زنجیر پر گھس رہا تھا اور اپنے جسم پر کھجلی کررہا تھا۔ وہ بولے: ’’کیسا احمق گدھا ہے کہ زنجیر سے کھِلاڑ کرنے کو یہاں چلا آیا ہے۔‘‘ پھر انہوں نے گدھے کو زنجیر سے کچھ فاصلے پر ہنکا دیا اور واپس جاکر بادشاہ سے کہا: ’’میدان میں کوئی بھی نہیں۔‘‘
بادشاہ بولا: ’’اور یہ گھنٹیاں کاہے کو بج رہی تھیں؟ تم کہتے ہو وہاں کوئی بھی نہیں!‘‘ ملازم بولے: ’’نہیں کوئی بھی نہ تھا سوائے ایک گدھے کے، جس کی پشت پر زخم تھا اور وہ اپنے جسم کو رسّی پر کھجلا رہا تھا۔‘‘ بادشاہ نے پوچھا: ’’کس کا تھا وہ گدھا؟‘‘ وہ بولے ’’ایک آوارہ گدھا تھا۔ کوئی اس کے ہمراہ نہ تھا۔‘‘
وہاں حکیم بزرجمہر بھی موجود تھا، اس نے کہا: ’’بات یہ ہے کہ اگر اس گدھے کا کوئی مالک ہوتا، اس کی پشت پر پالان ہوتا، اس کا طویلہ ہوتا، وہ باقاعدہ خوراک کھاتا اور کوئی اس کے ساتھ ہوتا تو اسے زنجیر سے کیا لینا تھا؟ میرا خیال ہے اسے کوئی شکایت یہاں لے آئی ہے۔ ٹھیک ہے، اسے یہاں لائو تاکہ معلوم ہوسکے کہ اس کا مالک کیوں نہیں ہے؟‘‘
ملازم ہنستے ہوئے گئے، گدھے کی گردن میں رسّی ڈالی اور اسے کھینچتے ہوئے دربار میں لے آئے۔ بادشاہ نے ایک نگاہ گدھے پر ڈالی اور وزیر سے کہا: ’’اچھا، عزیز بزر جمہر! یہ ہے صورت، سو بتائو کہ کیا چاہتا ہے یہ؟‘‘
٭٭٭

alibaba

web

amazon

Followers

Website Search

Tweet Corornavirus

Please Subscribe My Chennal

Sub Ki News

 
‎Sub Ki News سب کی نیوز‎
Public group · 1 member
Join Group
 
Nasrullah Nasir . Powered by Blogger.

live track

Brave Girl

Popular Posts

Total Pageviews

Chapter 8. ILLUSTRATOR Shape Builder & Pathfinder-1

Chapter 10. Illustrator Drawing & Refining Paths-1

Labels