My Blogger consists of a general news in which I upload articles from all types of news including science, technology, education, crime, how-to, business, health, lifestyle and fashion.

New User Gifts

Children Stories

نونہالوں کی نشونما اور تربیت
تحریر: شیبہ اعجاز ، کراچی

کائنات کتنی بڑی ہے اس کا اندازہ صرف رب کائنات کو ہے لیکن جب کوئی ماں ایک بچے کو جنم دیتی ہے تو وہ اس کے لیے کائنات سے بڑھ کر ہی ہوتا ہے اور وہ اپنی زندگی اپنی خوشی اپنا وقت سب کچھ اس پہ نچھاور کر دیتی ہے۔ 9 ماہ اپنے ساتھ لگے اس وجود کو اس دنیا میں لانے اور اس کے بعد اس کو دنیا میں رہنے کے گر سکھانے کے لیے کافی تگ ودو کرتی ہے۔ بہت کم مائیں ہیں جو بچے کی نشوونما اور اس تربیت کے حوالے سے مکمل معلومات رکھتی ہوں۔ زیادہ تر مائیں بزرگوں کے تجربات سے استفادہ کرتی ہیں اور آج کل کچھ مائیں انٹرنیٹ کی سہولت سے مستفید ہوتی ہیں ۔
بچے کی نشوونما ماں کے پیٹ سے ہی شروع ہوجاتی ہے اور اسی وقت سے ماں کی سوچ اور اس کی غذا بچے کی صحت اور اس کے کردار پہ اثرانداز ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ہر ماں کو اپنے بچے کی صحت کے ساتھ اس کی تربیت کا بھی خیال ہوتا ہے لیکن ہمارے معاشرے کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ یہاں ہر چیز کی تربیت ہوتی ہے ورکشاپ ہوتی ہیں لیکن واحد ماں کی تربیت ہے جس کا کوئی انتظام نہیں ہوتا بچے کی تربیت اور اچھی نشونما کے لیے یہ ضروری ہے کہ ماں خود صحت مند ہوں اور اس کو بچے کی تربیت کا پورا پورا موقع ملے، چند بنیادی باتیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے۔
بچے کی صحت کے حساب سے سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلائیں، تین سے چار ماہ کے بعد آہستہ آہستہ اس کو ہلکی پھلکی غذا دینا شروع کریں۔ باہر کی بنی ہوئی چیزوں کے بجائے گھر کی بنی ہوئی غذا استعمال کریں۔ پروسیس فوڈ یا فریز کی ہوئی چیزیں نہ ہی کھلائیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ جو بھی چیز گھر میں بن رہی ہوں وہی بچے کو کھلانے کی عادت ڈالیں تاکہ بچپن سے ہی اس کو ہر چیز کا ذائقہ محسوس ہو اور بڑے ہونے کے بعد وہ کسی بھی چیز کو کھانے سے منع نہ کر سکے۔ آج کل کی ماو ¿ں کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ وہ وہ بچوں سے کھانے کے متعلق پوچھتی ہیں اور خود جو پسند ہوتا ہے عموما وہی بچوں کو کھلاتی ہیں اور جو چیز خود پسند نہیں ہوتی یا کسی چیز کو بنانے میں انہیں مشکل پیش آتی ہے وہ بچے کو بھی نہیں کھلاتیں۔ ہوسکتا ہے کہ شروع میں مشکل ہو لیکن یہ تھوڑے دنوں کی مشکل مستقبل میں نہ صرف بچے کے لیے بلکہ خود ماو ¿ں کے لیے بھی آسانی اور فایدہ مند ہی ہوگی۔
جہاں تک بچے کی صحت کا تعلق ہے تو مائیں اور گھر کی دوسری خواتین اس پر بہت زیادہ توجہ دیتی ہیں لیکن حسن کردار یا تربیت کے متعلق ان کے ذہن میں یہی بات ہوتی ہے کہ جب بچہ تھوڑا بڑا ہوجائے گا تو اس کو طور طریقے سکھائیں گے اور یہی کسی بھی ماں کی سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے_ ماہر نفسیات کے مطابق بچے نہ صرف ماں کے پیٹ سے ہی ماں کے مزاج سے اثر انداز ہو تے بلکہ دنیا میں آنے کے بعد شروع کے تین سالوں کے ثمرات ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں
 ایک مقولہ ہے کہ ''childre are not listing, they are watching'' یعنی بچہ سنتا نہیں بلکہ دیکھتا ہے۔ لہٰذا اپنی اولاد کی اچھی تربیت کے لیے سب سے پہلے اسے خود اچھا بننا ہوگا۔ اپنے اچھے اخلاق اور اپنی متوازن شخصیت کے ساتھ ہی وہ اپنے بچے کی بہترین تربیت کر سکے گی۔ مائیں اپنی اولاد کی صحت سے متعلق بہت زیادہ خیال کرتی ہیں اور ان کو موسم کے سرد و گرم سے بچاتی ہیں اسی طرح ان کو زمانے کی اونچ نیچ کا فرق بھی شروع سے محسوس کروانا چاہیے۔
صحت کے ساتھ اس کی نفسیات کو سمجھنا بھی ایک ماں کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ ہر بچہ اپنا ایک خاص مزاج رکھتا ہے اور اسے اسی مزاج کے مطابق تربیت کی ضرورت ہوتی ہے کچھ بچے بہت زیادہ شرارتی یا ہیپر (hyper) ہوتے ہیں اور وہ سب کچھ کرنا چاہتا ہے تو اس کو زیادہ روک ٹوک نہ کریں اور اس کو ایسا ماحول فراہم کریں کہ وہ حدود میں رہتے ہوئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے زیادہ روک ٹوک سے وہ چڑچڑا ہوجائے گا اسی طرح اگر کوئی بچہ شرمیلا یا کم گو ہے تو صرف اپنی خواہش کے لیے اس کو زبردستی بولنے کے لیے یا بہت زیادہ کھیلنے کے لیے نہ کہیں، بہت زیادہ اصول ضوابط نہ بنائیں اور نہ ہی محبت سے مجبور ہو کر کھلی چھٹی دےدیں، اس دنیا کی سب سے قیمتی چیز وقت ہے اس لیے اپنی اولاد کو بہترین وقت دیں اس کو سنیں اس کو سمجھیں۔ صرف چند چیزوں کا خیال رکھ کر ماں اپنے بچے کی صحت اور اپنے بچے کی تربیت کو بہترین بنا سکتی ہے۔
_________________

نانی استانی

تحریر: اسماءیعقوب، ملتان

بچے گرمیوں کی چھٹیوں کو شاندار طریقے سے منانے کے لیے نانی کے گھر گاو ں میں آئے ہوئے تھے۔ یہاں کی صاف ستھری فضا، پرسکون ماحول، سادے لوگ، کچے گھر، کچی سڑکیں، خالص غذائیں غرض سب کچھ ہی دل کو بھا لینے والا ہوتا تھا۔یہاں کا ماحول شہر کی طرح شور شرابا سے محفوظ تھا، فضا آلودگی سے پاک تھی جس میں سانس لے کر واقعات ایک خوشگوار سا احساس دل میں جگہ لیتا تھا۔ دیہاتیوں کے رویے بناوٹ طنز و تنقید سے بالکل پاک تھے شاید اسی لیے ردا، رانیہ اور رملہ کو اپنا یہ ننھیالی گاو ¿ں بے حد عزیز تھا۔
کھیتوں کھلیانوں، بنیرو اور پگڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے ڈھلتی شام کے خوبصورت اور فطرت سے قریب ترین منظر کو آنکھوں کے کیمرے کے ذریعے دماغ کے البم میں محفوظ کرنا، اپنی ہم جولیوں کے ساتھ مل کر چوری چھپے اچار، املی اور چورن کھانا، دوپہر میں گرمی کی حدت کم کرنے کے لیے ٹیوب ویل کے ٹھنڈے پانی میں نہانا، گھر کے آنگن میں لگے ٹاہلی کے جھولے پر جھولنا، کھیتوں میں دور تلک لہلہاتی فصلوں اور مویشیوں کے باڑے کی سیر کو جانا، صبح سویرے جب سورج مشرق سے کنی نکال رہا ہوتا تب شبنمی گھاس پر ننگے پیر چہل قدمی کرنا، رات کو سونے سے پہلے نانی( ثمینہ آپہ) سے انبیاءعلیہ السلام کے قصے سننا وغیرہ۔
ثمینہ آپا بچیوں کی نانی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی بہترین استانی بھی تھی۔ بچوں کی تربیت کا کوئی بھی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہ دیتی۔گاو ¿ں کے دیگر بچے بچیوں کو بھی کبھی پیاری پیاری سنتیں، کبھی ننھی منی دعائیں یاد کرواتی۔ صحابہ کرام کے واقعات، کبھی بہادری، شجاعت، خودداری، ایمانداری اور پرہیزگاری جیسی صفات کا سبق دیتی۔ ان کے مطابق بچے نازک تنے کی مانند ہوتے ہیں جو بڑے ہونے پر تناور شجر کی صورت اختیار کرلیتے ہیں انہیں بچپن میں ہی جس سانچے میں ڈھال دیا جائے سر پہ چاندی چمکنے تک اسی شکل میں رہتے ہیں۔ گاو ¿ں کے تمام بچوں میں وہ نانی استانی مشہور ہو چکی تھی۔
سورج مشرق سے سر اٹھا رہا تھا، کرنیں آسمان پر پھیلنے لگی تھی، گھر کے آنگن میں پیڑ کے سائے تلے دسترخوان پر ناشتہ چن لیا گیا تھا۔ ردا ،رانیہ، رملہ اور فاخرہ (بچوں کی امی) دسترخوان پر موجود تھے، اتنے میں ثمینہ آپا بھی اپنے وظائف و اذکار مکمل کر کے آگئی۔ دیسی گھی کے لچھے دار پراٹھے، مکھن کے پیڑے پر کٹا ہوا گڑھ، انڈے اور نمک والی چھاچھ۔ گاو ¿ں کے روایتی کھانوں کا تو مزا ہی کچھ اور ہے، خوب ڈٹ کر کھائیں گے۔ رانیہ بڑا سا نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے بولی۔ گھر میں تو مما ناشتے میں ٹوس کے ساتھ جیم (جیلی) یا آملیٹ ہی دیتی ہیں۔ رملہ نے مکھن کے بڑے سے پیڑے پر ڈھیر سارا کٹا ہوا گڑ ڈالتے ہوئے لاپروائی سے کہا۔ فاخرہ زیر لب مسکرا ئی۔
ثمینہ آپا بچوں کو یوں خلافت سنت کھاتے دیکھ کر تاسف بھری نگاہوں سے دیکھتی ہی رہ گئی۔ فاخرہ بیٹی! تم نے بچیوں کو کھانے کی سنتیں اور آداب نہیں سکھلائے؟ ان کے سوال پر پہلے تو فاخرہ چونکی پھر سرد مہری سے بولیں۔ امی! ابھی تو چھوٹی ہیں عمر کے ساتھ ساتھ سب سیکھ جائیں گی۔ فاخرہ کی اس غلط فہمی پر ثمینہ آپا پیچ و تاب کھا کر رہ گئی۔ نانی جان! آپ ہی ہمیں کھانے کی سنتیں بتلا دیں۔ ردا قدرے معصومیت سے بولی۔ ضرور کیوں نہیں؟ مسکراہٹ نے ان کے لبوں کا احاطہ کرلیا۔
بچو! پہلے تو آپ یہ بات جان لیں کیا کھانا ہمیشہ اکٹھے مل کر کھانا چاہیے، اس سے کھانے میں برکت ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک بار صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ”ہم کھانا کھاتے ہیں اور پیٹ نہیں بھرتا“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”شاید تم لوگ الگ کھاتے ہو گے“۔ انہوں نے عرض کیا جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” تم لوگ اکٹھے بیٹھ کر اللہ کا نام لے کر کھایا کرو اس سے برکت ہوگی“۔ ( ابو داود،2\172)
 کھانے سے پہلے ہاتھ دھو لینے چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کھانے کی برکت کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونے میں ہے۔ (ترمذی2\3)
زمین پر دستر خوان بچھا کر کھانا چاہیے یہ سنت طریقہ ہے۔ دستر خوان کی فضیلت یہ بھی ہے کہ جب تک دسترخوان بچھا رہتا ہے۔ فرشتے رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ جوتے پہن کر اور ٹیک لگا کر نہیں کھانا چاہیے۔ اگر نوالہ گر جائے تو اسے اٹھا کر صاف کر کے کھا لیا جائے۔ گرم کھانے کو پھونک مار کر ٹھنڈا نہیں کرنا چاہیے۔ کھانا ہمیشہ اپنی ضرورت کے مطابق نکالیں، لالچ میں بھر کر نکالنا بہت بری بات ہے، جیسا کہ عموما دعوتوں میں ہوتا ہے، اس سے بہت سا کھانا ضائع ہو جاتا ہے۔ رملہ نے شرمندگی اور خجالت سے اپنے پیٹ کی طرف دیکھا ضرورت سے کچھ زیادہ ہی بھری ہوئی تھی۔ کھانے میں کوئی عیب نہیں نکالنا چاہیے اگر پسند نہ آئے تو خاموشی سے چھوڑ دیں۔ کھانا کھاتے ہوئے دوسروں کے لقموں کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔
پیاری بچیوں! نوالہ ہمیشہ درمیانہ اور خوب چبا کر کھانا چاہیے، منہ بند کر کے لقمہ بچایا جائے، اس سے نہ آواز نکلتی ہے نہ منہ سے کوئی کھانے کا ذرہ یا تھوک کی چھینٹ اڑتی ہے۔ روٹی سے ہاتھ صاف بالکل نہیں کرنے چاہیے۔ کھانے کے بعد برتن کو بھی صاف کرلینا چاہیے۔ اگر روٹی کے کچھ ٹکڑے دسترخوان پر گر جائیں تو چن کر کھا لینا چاہیے۔ کھانے کے دوران ایسی حرکت سے بچنا چاہیے جس سے دوسروں کو کراہت محسوس ہو۔ ڈٹ کر کھانے کے بجائے ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانا چاہیے۔ مثلا اگر ایک روٹی کی بھوک لگی ہے تو آدھی کھا لیں۔
پیٹ بھر کر کھانے سے عبادت کی لذت ختم ہوجاتی ہے اور غور و فکر کی صلاحیت بھی جاتی رہتی ہے۔ اور بچوں آخری بات یہ کہ کھانا کھاتے وقت کی دعا کا اہتمام لازمی کرنا چاہیے تاکہ شیطان ہمارے ساتھ کھانے میں شریک نہ ہو سکے۔ ثمینہ آباد نہایت شائستگی سے بولیں۔ ان شاءاللہ نانی جان ہم ان سنتوں پر خود بھی عمل کریں گے اور اپنے دوستوں کو بھی بتائیں گے۔ تینوں یک آواز بولیں تو ثمینہ آپا کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ چھا گئی۔ دالان میں لگی کیاریوں میں گلاب، سورج مکھی، گیندا، چمبیلی اور موتیا کی بھینی بھینی خوشبو کی فضا کو معطر اور ناشتے کے لطف کو دو آتشہ کردیا تھا۔

__________________________

آخری وصیت

تحریر: مہوش کرن ، اسلام آباد

وہ اٹھے اور پوچھا ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی۔؟“ جواب ملا ”نہیں، سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔“وہ کھڑے ہوئے لیکن بخار کی شدت سے بیہوش ہو گئے۔ کچھ دیر بعد ہوش آیا تو پھر پوچھا ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی۔؟“ جواب ملا ”نہیں، سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔“ وہ پھر سے کھڑے ہوئے مگر پھر سے بیہوش ہو گئے۔جب ہوش آیا تو پھر اپنا سوال دہرایا ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟“جواب دیا گیا”نہیں سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔“ اور بخار کی تیزی سے وہ پھر بیہوش ہوچکے تھے۔ بخار بھی اتنا شدت والا کہ اس کی حدت اتنی جتنا کہ جلتا کوئلہ۔
اب کہ جب ہوش آیا تو دو ساتھیوں کو بلایا اور ان کے کندھوں پر خود کو گرا کر، گھسٹتے ہوئے نماز کے لیے گئے۔ اسی لیے جاتے جاتے آخری الفاظ تھے ”نماز اور عورتیں“۔ یہ سوال تھا میرے پاک نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ و علیہ وسلم) کا اور جواب دینے والی میری پیاری اماں عائشہ(رضی اللٰہ و تعالیٰ عنہ) تھیں۔ کندھے پر سہارا دینے والے دو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ واللہ ہم حق ادا نہیں کر سکے۔ کسی ایک چیز کا بھی، نمازیں ہم میں سے کسی کی بھی درست نہیں، سوائے اس کے کہ الا ماشاءاللہ اور عورتوں کو ہم نے کیا دیا اور ان سے کیا لیا یہ بتانا شرمندگی کے سوا کچھ نہیں۔ اس معاشرے اور مردوں نے عورتوں کے ساتھ جو کیا سو کیا لیکن عورتوں نے خود اپنے ساتھ کیا کیا؟
کس افراتفری میں نماز کی ادائیگی ہوتی ہے، دنیا جہان کی ہر بات کی فکر دورانِ نماز لاحق ہوتی ہے۔ ہم آج تک اپنی نماز کو درست نہیں کر سکے حالانکہ اس کا تعلق براہِ راست ہماری اپنی ذات سے ہے۔ دیگر اوقات میں اگر ارادہ کریں بھی مگر جائے نماز پر کھڑے ہوتے ہی سارے ارادے دھواں بن کر ا ±ڑ جاتے ہیں اور ہم روتے ہیں مردوں کے رویے کو؟ یہاں تک کہ عورتیں کھڑی ہو جاتی شوہروں کی تربیت کرنے کے لیے حالانکہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ باپ اور بھائی کو تو کسی حد تک سمجھایا جا سکتا ہے لیکن شوہر کے ساتھ تو بہت غیر محسوس طریقے سے بلا واسطہ سکھانے کا رویہ رکھنا پڑتا ہے۔ وہ بھی ضروری نہیں کہ نتیجہ خیز ثابت ہو۔ شوہر کے ساتھ اصل معاملہ دعا کا ہوتا ہے بس یہی ایک واحد ہتھیار ہے جس سے گھروں میں سکون رہتا ہے ورنہ عورتیں اپنے شوہروں کے خلاف کمر کَس لیتی ہیں اور گھر میدانِ جنگ بن جاتے ہیں۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جو مشکل ایک دفعہ آ جائے اس سے کوئی فرار ممکن نہیں، جب تک کہ اللہ سبحان و تعالیٰ نہ چاہیں، شوہر کے لیے دعا کریں لیکن وہیں پر بیٹے کی صحیح تربیت کریں۔ ایک گھر میں سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بنیادوں پر اگر اولاد کی تربیت ہوگی تو ان شاءاللہ رحمت و برکت پورے گھر پر نازل ہوگی، نہیں تو آپ کے کنبے پر نازل ہوگی، اور کچھ نہیں تو کم از کم اللٰہ تعالیٰ آپ کی محنت اور سچی لگن تو ضرور دیکھیں گے۔ تو کبھی نا کبھی اور کسی نہ کسی صورت میں اجر ضرور ملے گا۔
آج ہم روتے ہیں کافروں کے بنائے ہوئے گستاخانہ خاکوں کو، دشمنوں نے ایسی سازش رچی کہ ہر کس و ناقص کو ہمارے عظیم دین اور عظیم رسول کے بارے میں اپنی بولیاں بولنے کا موقع مل گیا۔ مانا اس حرکت کی سنگینی اپنی جگہ اور ناموس رسالت کی پاسداری اپنی جگہ۔رسول خاتم النبین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر میری جان، مال، اولاد، ماں باپ سب قربان لیکن کیا بس یہی ایک غلط کام اور گستاخی جو کسی اور نے کی ا ±ن کی ذات کی شان کے خلاف ہے؟ اور وہ تمام گستاخیاں جو ہم بذات خود صبح و شام کرتے ہیں ا ±س کا کیا جواز ہے؟ ٹی۔وی یا سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنا، جب اکھٹے ہوں تو بے مقصد باتیں کرنا، کھانوں میں غیبت اور چغلی کا تڑکا لگانا، اٹھتے بیٹھتے ایک دوسرے پر طنز کرنا، ہنستے ملتے جلتے مگر دل میں بدگمانی پالنا، پردے، حجاب، داڑھی کو کھیل سمجھنا، حقوق اللہ و حقوق العباد سے غیر سنجیدگی برتنا، پانچ وقت کی نماز کی پابندی تو دل و جان سے کرنا لیکن کوئی نئی فلم، ڈرامہ یا سیزن بھی ضرور دیکھنا، بات بات پر بڑوں، بزرگوں اور والدین سے الجھنا، اپنی پریشانیوں کا غبار چھوٹوں پر نکالنا۔ اور بھی بہت کچھ ہے صفحے ختم ہو جائیں لیکن ہماری کوتاہیاں نہیں۔
و اللہ ہم ابھی بھی رک سکتے ہیں، پلٹ سکتے ہیں کیونکہ توبہ کا دروازہ ابھی بند نہیں ہوا۔ آخری سانس تک یہ در کھلا ہے۔ جلدی کریں ابھی اس جسم میں جان ہے کہیں دیر نہ ہو جائے۔ کون روزِ قیامت اس عظیم شفاعت سے محروم ہونا چاہے گا؟ایسا گستاخ ہے کوئی؟ جو تمام عمر اس درجے کی گستاخی کرتا رہے اور امید رکھے کہ روزمحشر آپ (صلی اللہ و علیہ وسلم) کے مبارک ہاتھوں سے جامِ کوثر نوش کرے۔ ارے بڑے بڑے لوگ ہوں گے اس دن جو بازی لے جائیں گے اور ہم دیکھتے رہ جائیں گے۔
یاد رکھیں عورت اگر دین سے فیضیاب ہوگی تو وہ اپنی نسلیں سنوار سکتی ہے۔ مانا بہت مشکل ہے، لیکن نا ممکن تو نہیں ہے نا۔ گھریلو حالات بدلیں گے کوشش تو کریں، صدقِ دل سے دعا تو کریں اور کچھ نہیں تو یَوم ± الدِین حجت تو تمام کر سکیں گے کہ ہم نے اپنی سی کوشش کی تھی۔ جیسے وہ فاختہ جس نے اپنی چونچ میں پانی بھر کر حضرت ابراہیم کے لیے جلائے گئے الاو ¿ کو بجھانے کی کوشش کی تھی اگر یہ سوچ کر بیٹھ جاتی کہ اتنے سے پانی سے کیا ہوگا اور آتشِ نمرود کو بجھانے کی کوشش نہ کرتی تو روزِقیامت اسے کیا فائدہ ہوتا؟ بات تو نیت اور کوشش کے درجے کی ہے، مقدار کی نہیں۔
خدارا میری اس سوچ کو یہ نہ سمجھا جائے کہ ہمیں فرانس اور ایسے ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے۔ کرنا چاہیے بالکل کرنا چاہیے بلکہ اور بھی بہت کچھ کرنا چاہیے۔ میں تو اپنی کمسن و ناقص رائے میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ انفرادی طور پر اور بحیثیت امت بھی ہمارا تو روز و شب رسول پاک ( صلی اللٰہ علیہ وسلم) کی حرمت کی پاسداری کے لیے سرکردہ عمل ہونا چاہیے۔

 

____________________________________

لکڑ ہارے کی ایمانداری
تحریر: عشاء مقبول، لاہور

ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی گاؤں میں ایک لکڑہارا اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔  وہ بہت غریب آدمی تھا۔  وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرتا تھا جس دن اسے خشک لکڑیاں مل جاتیں تو وہ انھیں بیچتا اور کچھ خورد و نوش خرید لیتا لیکن بڑی مشکلوں سے اسکے اخراجات پورے ہوتے۔ لکڑہارے کی بیوی اپنی غربت سے بہت تنگ آ چکی تھی اور آئے دن ان کا آ پس میں لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا۔ جس دن لکڑہارے کو جنگل سے خشک لکڑیاں نا ملتیں تو اسے بیوی بچوں سمیت بھوکے پیٹ ہی سونا پڑتا تھا۔
ایک دن جنگل کی طرف جاتے ہوئے اُسے ایک گھر نظر آیا۔ وہ دبے پاؤں اُس گھر میں چلا گیا۔ وہ گھر بہت خوبصورت تھا ہر چیز نمایاں اور صاف و شفاف دکھ رہی تھی۔  اتنا صاف ستھرا گھر اس نے کبھی دیکھا تک نہیں تھا۔ جب اس نے گھر میں نظر دوڑائی تو اسے گھر میں کوئی انسان نظر نہ آیا۔ لکڑہارا سوچھنے لگا کہ اگر گھر میں کوئی رہتا نہیں ہے تو یہ گھر اتنا صاف ستھرا کیسے ہے۔ خیر وہ ایک لمبی سانس بھر کے میز پر جاکر بیٹھ گیا اور اپنی بیوی کی باتوں کو سوچ کر پریشان ہونے لگا کہ اگر آج بھی گھر جاتے ہوئے کچھ لے کر نہ گیا تو بہت جھگڑا ہوگا۔اسی دوران کسی نے اس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھا لیکن وہ اپنی پریشانیوں میں گم سم سامنے کی دیوار کو بے خیالی میں گھور رہا تھا اور اندر ہی اندر اپنی حالت زار پر رو رہا تھا۔ اچانک اسے اپنے عقب سے آواز آئی اور اسے تب محسوس ہوا کہ کسی نے اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ وہ فوراً خوف زدہ ہوگیا اور اس کے جسم سے پسینہ چھوٹنے لگا اور کپکپی تاری ہونے لگی۔ لکڑہارے نے اپنی نشست سے اٹھتے ہوئے جب پیچھے مڑ کے دیکھا تو ایک پر اسرار شکل دیکھی اور دیکھتے ہی چلا اٹھا۔
ایسی عجیب وغریب شکل جس کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ وہ نا تو انسان لگتا تھا نا گدھا ، اس کا اوپر والا دھڑ گدھے کی طرح تھا اور نیچے والا دھڑ آدمی جیسا لیکن وہ انسانی آواز میں بولا گھبراؤں نہیں میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا تم سے پہلے بھی یہاں لوگ آتے رہے اور مجھے دیکھتے ہی بھاگتے رہے لیکن تمہیں تو میرے آنے کا پتا ہی نہیں چلا ورنہ دوسروں کی طرح بھاگ کھڑے ہوتے۔ اب اس نے لکڑ ہارے سے دریافت کیا کہ وہ کس پریشانی میں ہے اور اتنا گم سم بے سدھ کیوں بیٹھا ہوا تھا۔  لکڑہارے نے روہانسی آواز میں اپنی غریبی کا پردہ چاک کرتے ہوئے اپنے جملہ حالات کے بارے میں بتایا۔ وہ پر اسرار مجسم سب کچھ سننے کے بعد بولا کہ میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں اور تمہاری غربت کے خاتمے کو یقینی بما سکتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کے تم راز کو راز رکھ گئے تب! لکڑہارا سنتے ہی چوکنا ہو گیا اور یکایک بعل اٹھا میں تمہاری ہر بات ماننے کو تیار ہوں، یہ سن کر اس پر اسرار مجسم نے کہا کہ میں تمہیں ایک درخت کے بارے میں بتاتا ہوں جس کے پتوں میں انسانوں کے لیے علاج و شفا ہے، تم اس کے پتوں سے لوگوں کا علاج معالجہ کرنا اور جائز منافع کماتے رہنا، لوگوں کو شفا ملتی رہے گی اور تمہاری غربت کا خاتمہ بھی ہو جائے گا لیکن تمہیں مجھ سے یہ عہد کرنا ہوگا کہ تم علاج کا بہت کم معاوضہ لیا کرو گے اور غریبوں اور بے سہارا لوگوں کا تو مفت علاج کرو گے۔لکڑہارے نے اس بات کا بھی عہد کر لیا۔
لکڑہارے کے عہد و پیماں کے بعد اس پر اسرار مجسم نے اس درخت کی شناخت کروائی اور فوراً غائب ہوگیا۔لکڑہارا کچھ غیر یقینی اور تذبذب کی کیفیات میں اس درخت کے پتے اکٹھے کرنے لگا اور اس کے ساتھ بتائی ہوئی دیگر جڑی بوٹیاں بھی جمع کر کے گھر کی طرف پلٹا۔ جب وہ گھر پہنچا تو آج پھر اسکے پاس کھانے پینے کی اشیاءنہیں تھیں جسے دیکھتے ہی اسکی کھڑوس بیوی اس پر برسنا شروع ہو گئی اور حسب معمول کوسنے دینے لگی۔ لکڑہارے نے جڑی بوٹیاں ایک طرف رکھتے ہوئے بان کی بنی چارپائی پرایک لمحے کے لیئے بیٹھ گیا۔
بیوی کوستے ہوئے پوچھنے لگی کہ یہ کیسی جڑی بوٹیاں اٹھا کر لے آئے ہو اور ان کا کیا کرو گے۔ لکڑہارا بیوی کی سنی ان سنی کرتے ہوئے جڑی بوٹیوں کو کھرل میں ڈال کر کوٹنا شروع ہو گیا۔  دوسرے دن صبح سویرے وہ دوائیں لے کر بازار کی طرف چلا گیا اور آوازیں لگانے لگا کہ ہر قسم کے مرض کی دوا موجود ہے، ہر نئے پرانے مرض کا شرطیہ علاج ہے، اپنا مرض بتائیں مجھ سے دوا لیں اور شفایاب ہوجائیں۔ لوگ اس کی آوازیں سن کر ہنسنے لگے اور اسکا مزاق اڑانے لگے لیکن لکڑہارا بدستور اپنی آوازیں نکالتا رہا جسے سن کر ایک عورت روتی ہوئی اپنی بیٹی سمیت اس کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اس کی بیٹی پیٹ درد کی وجہ سے مرے جا رہی ہے اور اس کا درد کسی دوا سے ٹھیک نہیں ہوا۔
لکڑہارے نے اس بوڑھی خاتون سے کہا کہ میری دوا اپنی بیٹی کو کھلاؤ وہ صحتیاب ہو جائے گی۔ بوڑھی عورت نے کہا اس کا علاج تو بڑے بڑے حکماءبھی کرنے سے قاصر رہے تمہاری دوا کیا خاک کام کرے گا لیکن لکڑہارے نے بڑے پر اعتماد طریقے سے اس بچی کو پانی کے ساتھ دوا کھلا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے بچی کا درد غائب ہوگیا۔ یہ دیکھ کر وہ  بڑھیا بہت خوش ہوئی اور بہت حیران بھی۔  یہ سارا ماجرا دیکھنے کچھ لوگ بھی اکٹھے ہوگئے تھے جس سب حیران ہوئے۔ بڑھیا نے لکڑہارے سے دوا کی قیمت پوچھی تو لکڑہارے نے کہا صرف تین روپے۔
بڑھیا کو اور باقی تمام لوگوں کو اس دوا کی اتنی کم قیمت سن کر بہت تعجب ہوا اور بڑھیا نے شکریہ کے ساتھ تین روپے ادا کردیئے۔ لوگوں میں اس کا چرچا عام ہو گیا، جوک در جوک مریض آتے اور سستا علاج کرواتے اور باقی لوگوں میں چرچا عام ہوتا چلا گیا۔جوں جوں لکڑہارے کی دوا مشہور ہوتی گئی لوگ زیادہ آنے لگے۔ لکڑ ہارا روزانہ وقت نکال کر جنگل جاتا اور حسب ضرورت اسی درخت کے پتے اور دیگر جڑی بوٹیاں لاتا اور گھر میں پیس کر دوا تیار کرنے کے بعد مریضوں کا علاج کرتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لکڑ ہارا امیر ہونے لگا اور اب تو غریب لوگوں کی مالی امداد بھی کرنے لگا۔
ایک روز ایک خوبرو جوان لکڑہارے کے پاس دوا لینے آیا، لکڑ ہارے نے حسب معمول بہت کم قیمت پر اسے دوا دی تو وہ آدمی بہت خوش ہوا اور پوچھنے لگا کہ کیا تم نے مجھے پہچانا؟ لکڑہارا اسے تجسس سے دیکھنے لگا لیکن اسے پہچان نہیں پایا اور کہنے لگا نہیں میں نہیں جانتا اپ کون ہو۔ اس آدمی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں وہی آدمی ہوں جس نے تمہیں اس درخت سے متعارف کروایا تھا جس کی تم آج دوا بنا کر بیچتے ہو۔ وہ مزید بولا کہ میں بہت خوش ہوں کہ تم نے ایمانداری سے اس کام کو شروع کیا ہے اور لوگوں سے پیسے بھی بہت کم لیتے ہو۔ لکڑہارا حیران تھا کہ اس کی تو عجیب و غریب ڈراؤنی اور پراسرار شکل تھی اور آج عام انسان جیسا خوبصورت جوان ہے۔ لکڑہارے نے دریافت کیا کہ پہلی ملاقات میں آپ کی شکل ڈراؤنی کیوں تھی؟ وہ آدمی ہنسنے لگا اور بتانے لگا کہ وہ دراصل ہیون نگر کا شہزادہ ہے۔ اس نے آگے بتایا کہ وہ اور اس کا بھائی گیند کھیل رہے تھے کہ ان کی گیند جھاڑیوں میں گر گئی اور جب وہ اسے لینے گیا تو وہاں ایک بزرگ بیٹھے نظر آئے جو اپنی عبادت میں مصرف تھے۔   دراصل ہماری بال غلطی سے ان کو جا لگی تھی جس سے ان کی عبادت میں خلل آیا تھا۔ میں تو بچہ تھا اور بہت شرارتی بھی تھا گیند لینے گیا تو ان بزگوں کی ناگواری پہ میں بد تمیزی سے پیش آیا اور ساتھ ہی انھیں ٹھوکر بھی مار دی جس کی وجہ سے بزرگوں نے مجھے بد دعا دی اور میری شکل بگڑ گئی۔
شکل بگڑنے کے بعد میں انتہائی پریشانی کے عالم میں ان سے معافی طلب کرنے لگا لیکن بزرگ انسان نے ایک شرط رکھی کہ اس کا حل تب ہی ممکن ہے کہ تم اچھائی بانٹتے رہو اور مخلوق تم سے خائف نا ہو اور کوئی ایسا اچھا کام کرو جس سے مخلوق مستفید ہو۔ مجھے اس درخت کے بارے اپنے اجداد کی تحیقی مواد سے معلوم ہوا تھا کہ اس میں ہر بیماری کے لیئے شفا ہے۔ کوئی انسان میرے قریب ہی نہیں ٹھہرتا تھا کہ۔میں یہ اچھا کام کر کے اپنی سزا کا مداوا کر سکوں۔ جو بھی مجھے دیکھتا ڈر کے بھاگ کھڑا ہوتا۔ میں نے اس سزا کی قید میں برسوں گزار دیئے تب جا کر تم سے میری ملاقات ہوئی اور یوں تمہاری ایمانداری کی وجہ سے اس بد دعا کا اثر ختم ہوا اور دوبارہ میری انسانی شکل بحال ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی وہ تسلسل میں بولا کہ اب مجھے اجازت دو وہ یہ کہہ کر رخصت ہوگیا۔ لکڑہارا اپنی ایمانداری کی وجہ سے امیر سے امیر تر ہوتا گیا اور لوگوں کا بہت قلیل سے پیسوں میں علاج کرتا رہا اور عیش و عشرت اس کے پاؤں چومنے لگی۔ تب سے لکڑہارے کی بیوی بھی لکڑہارے کے ساتھ خوش رہنے لگی اور اس کو عزت سے پکارنے لگی۔
______________________
Hedgehogs


Have you ever heard how people talk  The hedgehogs themselves? Probably not.
But I heard.
I'll tell you in order. In the winter and in the summer we lived in Karacha-rove on the river bank, in a small house, on all sides surrounded by forest. We went to the forest to observe and listen, how birds live and sing, how forest flowers blossom, fly and creep insects.

I remember that at Karachar's house we raised broods grouse and black grouse, and once the red-browed Kosach-Tete- the roar flew almost to the very porch. In the winter after we saw a host of hare and fox tracks, and sometimes moose came to the house. Not far away, in a pine borough, there once lived badgers.

Going out at night on the porch to admire the star sky, listen to night sounds and voices, I often heard how someone runs through the tall grass under the lilac. I'm alive gal an electric flashlight and saw a runaway big hedgehog.

We often saw hedgehogs in the evenings, when the sunset- moose is the sun. In search of food, they walked fearlessly around our house; they picked up crumbs and pieces of food, which we left for them.

Often hedgehogs came to a large cup of food, from which we swarmed our dogs - the good-natured black Beetle and cunning Squirrel. Usually Belka started offhandedly and violently bark, and her phlegmatic son Zhuk departed to the side and ter- He was silent silently. The hedgehogs were taken by the front paws in co-a cup of tea and quietly puffing, calmly ate. Several Once I caught the hedgehogs and brought it into the house. They were not at all afraid people, quietly ran around the rooms and did not try to curtail- into the glomerulus. I let them go, and they continued to feed near our house, irritating the dogs.
One day in a dark summer night, I was sitting in my room at the desk. The night was still, sometimes only from the river came the distant, distant sounds. In the full nighttime tee-beneath the floor suddenly very quiet strangers were heard and pleasant voices. These voices were similar either to a quiet one conversation, or to the whispers of nestlings awakened in the nest.
But what kind of chicks could be underground? And on the mouse squeak, the angry shrieks of the rats were not like these affectionate slow voices. For a long time I could not understand who was talking. Under my floor.

After a while I again heard in the underground already familiar affectionate conversation. There as it were talked between two mysterious, unfamiliar creatures.
"What are our children asleep?" - said one affectionate vote.
"Thank you, our children are sleeping peacefully," answered another affectionate voice.  And mysterious voices fell silent.
I thought for a long time who is so affectionately talking under my a desk in the underground? "Probably live there hedgehog! - I thought. - The old hedgehog comes to his hedgehog and asks her about the little hedgehogs. “Every night I heard in the underground ezhinye voices and smiled: so amicably talking hedgehog and hedgehog ...
One evening, a grandson called me into the open window.
"Grandfather, grandfather," he shouted, "come out soon!"
I went out on the porch. The grandson showed me a whole family-The hedgehogs, who quietly strolled along the trampled track. In front was an old big hedgehog, followed by hedgehogs-ha, and the tiny hedgehogs rolled in small lumps.
Apparently, the parents for the first time brought them out of the nest on walk. Since then, every night, old hedgehogs and hedgehogs have went for a walk on the path. We left them in saucer milk.

The hedgehog quietly drank milk along with a kitten that we lived and grew up.
This lasted for several days. Then the hedgehogs left into the forest, and we rarely saw them. At night, they are still went to our house, drank milk and ate from the dog cups, but more I have not heard in the underground of the hedgehogs tender of the votes.
Hedgehogs are very gentle and meek animals. They are not they do not harm anyone; they soon get used to people and become tame.
Hedgehogs destroy harmful insects, fight with rats and mice, and bite poisonous snakes.
For the winter they arrange for themselves under the roots of trees small comfortable lairs. On their sharp thorns they drag soft moss and dry leaves into the dens. For the whole winter hedgehogs fall asleep. Their little lairs are hidden deep beneath snow drifts, and hedgehogs sleep peacefully all winter. Pro- they are poured in the early spring and when snow falls in the forest, go out hunting.


Written by
Ivan Sokolov-Mikov
Translated by Heartmeet
______________________________________________________________

Wagtail


Above my window, under cornice, nest nimble wagtails. Floating on his light wings, they sweated sweatingly in the Long Horse Hair Sinks, dry moss, annoy from the grooves of the log- instant wall soft pack- lug, dry grass.
I've always been nice these nimble and cheerful birds. This summer they again returned to your favorite place. God knows in what far away they wintered like found the way to our Karacharovsky small house, where above my window was their last year's nest?
From the window we are again on they watched as with a merry, cheerfully chirping pores. Hail near nest mini- long-tailed bird’s kid, as they were derived and sub- chicks withered, and parent- whether arrived to feed them.
What a joyous non- patient squeak sub- Himalaya in the nest, when with a fly or a live worm an adult bird flew up to the nest in its beak! Yellow, wide-to the open beaks stretched to the mother, and in one of them she omitted the brought prey.
In the nest, we counted five chicks awaiting feed.
The beginning of this summer was cold and rainy. All through the first half of June, a northern, tar, the cloudy sky was rarely clarified. In fine clear the days were especially cheerful in their nest growing up chicks, and we often admired them.
On a cold, rainy morning, misfortune occurred. We heard a squeak, an alarmed tweet. On the porch someone shouted: - Nestlings! Look at the chicks!
Coming out on the porch, we saw two unfortunate paten- stove. Shattered by the rain, trembling, they sat in a high wet swarm grass and did not have the strength to fly. Above them with a cry of trepidation the wigs fluttered, pausing and hanging in the air, the adult’s birds.
We caught wet chicks and, putting the ladder, put in a nest. The weakened chicks clung to the loud squeaking to their sisters and brothers.
Parents continued to feed the chicks, and we were shown moose, that everything ended well. At noon from the nest another nestling flew off and sat down on the step of the wooden porch. It was impossible to catch him: when approaching Him took off and sat down on the swaying lilac branch.
By lunchtime three more chicks flew out of the nest. Undoubtedly, for them it was time for departure, and they kept their unwritten law, despite the bad weather.
We were very afraid that badly flying chicks would catch our black cat, Gregory, and locked the cat in the closet. Adults the birds for a long time and uneasily circled above the departed nestlings, as if trying to teach them to fly.
Then I had to leave for two weeks to go genus. Of course, in the city bustle I forgot about wagtails. When I returned, my grandson told me: - Look, grandfather: in the nest of the wagtail are still lives and does not fly out the last adult chick. Mother, still feeds him.
I went to the window. In the nest sat a fledgling large a nestling, no different from an adult wagtail. A flying wagtail-mother put it in his open beak of a fat caterpillar. The nest waved his wings, but remained in the nest.
For a long time we could not understand why it did not fly out of the nest a grown-up chick, and considered him a coward. Mother zealously fed the chick. Holding in the beak of a large worm or taste-she crouched down to the very edge roof, trying to lure out of the nest plaintively squeaking, fluttering chick. It happened, the wet nurse was a long time did not arrive, and then the hungry chick squeaked piteously.
Suspected of something wrong, I once told my grandson that he brought a ladder and looked at what was happening in the nest of the quagmire, and why the nestling does not fly out of the nest. When the grandson climbed the stairs, above his head, the old wagtail was rushing about. Under her alarming squeak the grandson took off the nest from the plank, went down to the ground. Unexplained- May the mystery revealed it: it turned out that the grown-up chick started up pawed in a loop of horsehair; he was lined with the inside of the socket. Two toes on the foot were
Manumit. We liberated the chick, he with a joyful cry He climbed into the air and, accompanied by his mother, disappeared from our eye.
The most touching in this story is the attachment of the ma- Teri-wagtail to his chick, caught in a negative trap. Wagtail-mother did not leave her unhappy nestling, continued to feed him.

Written by
Ivan Sokolov-Mikov
Translated by Heartmeet





0 comments:

Post a Comment

alibaba

as

ad

web

amazon

Followers

Website Search

Tweet Corornavirus

Please Subscribe My Chennal

Sub Ki News

 
‎Sub Ki News سب کی نیوز‎
Public group · 1 member
Join Group
 
Nasrullah Nasir . Powered by Blogger.

live track

Popular Posts

Total Pageviews

Chapter 8. ILLUSTRATOR Shape Builder & Pathfinder-1

Chapter 10. Illustrator Drawing & Refining Paths-1

Labels