My Blogger consists of a general news in which I upload articles from all types of news including science, technology, education, crime, how-to, business, health, lifestyle and fashion.

New User Gifts

Showing posts with label خوفناک جھونپڑی بہت دنوں کی بات ہے، ایک عورت تھی جس کا نام این تھا۔. Show all posts
Showing posts with label خوفناک جھونپڑی بہت دنوں کی بات ہے، ایک عورت تھی جس کا نام این تھا۔. Show all posts

خوفناک جھونپڑی

سیف الدین حسام ایم اے
بہت دنوں کی بات ہے، ایک عورت تھی جس کا نام این تھا۔ وہ بیوہ تھی۔ اُس کی ایک نوجوان بیٹی تھی، جس کا نام آریا تھا۔ بیوہ ہونے کے بعد این کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ رہا تو اُس نے ایک شخص ریڈ سے شادی کر لی۔ ریڈ کی بیوی مر چکی تھی، لیکن اُس کی بھی ایک بیٹھی تھی جس کا نام ماریا تھا اور وہ بھی آریا ہی کی طرح نوجوان تھی۔
این اپنی بیٹی آریا کو بڑے لاڈ پیار سے پالتی۔ اسے اچھے سے اچھا کھانے کو دیتی۔ اچھے اچھے کپڑے پہناتی۔ اُس کے بالوں میں کنگھی کرتی اور آنکھوں میں سرمہ لگاتی۔ اُسے گھر کا کوئی کام نہ کرنے دیتی۔ وہ سارا دن کھیلتی کودتی رہتی۔ لیکن ماریا اُس کی سوتیلی بیٹی تھی، اس لیے اُس بے چاری کی ہر وقت کم بختی آئی رہتی۔
جو تھوڑا بہت کھانا بچ رہتا وہ ماریا کو کھانے کو ملتا۔ اُس کے کپڑے پھٹے رہتے۔ بال سنوارنے کا تو اُس بے چاری کو ہوش ہی نہ تھا۔ اُس کی سوتیلی ماں تمام دن اسے گھر کے کام میں لگائے رکھتی۔ اسے کبھی کھیلنے کا موقع نہ ملتا۔ اس کے باوجود اُسے اکثر مار پڑتی۔
سوتیلی ماں ہونے کے علاوہ این کو ماریا سے ایک اور دشمنی بھی تھی۔ وہ اتنے پھٹے پرانے کپڑوں میں اور نہائے دھوئے بغیر بھی اتنی خوب صورت اور پیاری لگتی کہ شادی کے لیے جو بھی پیغام آتا وہ اُسی کے لیے آتا۔ آریا کو کوئی پوچھتا بھی نہ تھا۔ این ہر وقت یہی سوچتی رہتی کہ ماریا سے کس طرح پیچھا چھڑایا جائے۔ اور اس کو کس طرح راستے سے ہٹایا جائے تاکہ لوگوں کی توجہ اس کی اپنی لڑکی آریا کی طرف ہو۔
یہ لوگ ایک گائوں میں رہتے تھے۔ گائوں کے باہر ایک ندی بہتی تھی۔ اس ندی کے کنارے ایک چھونپڑی تھی۔ ٹوٹی پھوٹی بوسیدہ سی۔ اس کے اندر مکڑیوں نے جالے تان رکھے تھے۔ اندر سے اتنی ڈرائونی تھی کہ اگر کبھی کوئی بھولا بھٹکا مسافر ادھر آنکلتا تو تھکا ہارا ہونے کے باوجود وہاں رات گزارنے کی جرأت نہ کرتا۔
اس جھونپڑی کے پاس سے جو راستہ گزرتا تھا وہ لوگوں نے مدت سے استعمال کرنا چھوڑ دیا تھا۔ کیوں کہ مشہور یہ تھا کہ اس جھونپڑی میں جن بھوت رہتے ہیں۔ آدھی رات کے بعد اس میں سے ناچنے گانے کی آواز آتی ہے۔ روشنی کبھی جلتی ہے، کبھی بجھتی ہے۔
ایک شام سوتیلی ماں نے ماریا سے کہا کہ وہ چرخا اور روئی اٹھا کر اُس جھونپڑی میں چلی جائے اور ساری رات وہیں بیٹھ کر چرخا کاتے۔ صبح تک ساری روئی کا دھاگا بن جانا چاہیے، ورنہ اُسے گھر سے نکال دیا جائے گا۔
اصل میں این کو پتا تھا کہ بہادر سے بہادر آدمی بھی اُس جھونپڑی میں داخل ہونے کا حوصلہ نہیں کرسکتا۔ اُس نے سوچا کہ جب ماریا وہاں جائے گی تو جن بھوت اُسے مار دیں گے اور یوں اس مصیبت سے نجات مل جائے گی۔ ماریا بہت روئی چلاتی۔ اس نے سوتیلی ماں کی بہت منت سماجت کی لیکن اُس پتھر دل عورت پر کچھ بھی اثر نہ ہوا۔ ماریا رو دھو کر چھپ ہو گئی۔ اس نے ایک کندھے پر چرخا رکھا، دوسرے پر روئی کر گھٹڑی اور آہستہ آہستہ ندی کی طرف چل دی۔
جب وہ جھونپڑی کے پاس پہنچی تو خوف سے کانپنے لگی۔ تیز آندھی چل رہی تھی اور ہوا سائیں سائیں کر رہی تھی۔ اُس نے حوصلہ کرکے جھونپڑی کا دروازہ کھولا تو چرچراہٹ کی آواز آئی اور وہ کانپ اُٹھی۔ اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی روشنی ہو گئی۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ روشنی کہاں سے آرہی ہے! وہ خاموشی سے زمین پر بیٹھ گئی اور تیزی سے چرخا کاتنا شروع کر دیا تاکہ صبح ہونے سے پہلے پہلے سارے روئی کا دھاگا بنا لے اور اسے گھر سے نہ نکالا جائے۔
وہ چپ چاپ چرخا کاتتی رہی۔ آدھی رات تک کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔ آدھی رات کے قریب زور کی آندھی چلنا شروع ہوگئی اور باہر ایسی آواز آئی جیسے کوئی گاڑی آکر رکی ہو۔ وہ بہت گھبرائی اور چرخا چھوڑ کے ایک کونے میں دبک گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے! بیٹھی رہے تب بھی مشکل اور اگر بھاگ نکلے تو وہ لوگ اسے دیکھ لیں گے جن کی گاڑی کی آواز آئی تھی۔ وہ سوچنے لگی یا اللہ! میں کیا کروں؟ کوئی مجھے اٹھا کر نہ لے جائے۔ ویسے تو وہ اپنے گھر میں بہت تنگ تھی اور وہاں نہیں رہنا چاہتی تھی، لیکن یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ کوئی جن بھوت اُسے اُٹھا کر لے جائے اور چیر پھاڑ کر کھا جائے۔
وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ دو نوجوان لڑکے اندر داخل ہوئے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہوئی کہ دروازہ تو بند ہے، یہ لوگ اندر کیسے داخل ہو گئے؟ ان نوجوانوں نے بالکل ایک جیسے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ تنگ کوٹ، تنگ ہی پتلونیں۔ پیروں میں سیاہ بوٹ۔ سر پر ٹیڑھی ٹوپیاں۔ اُن کی آنکھیں ایسی سرخ تھیں جیسے انگارے دبک رہے ہوں۔ جوں ہی وہ اندر داخل ہوئے، جھونپڑی میں سازوں کی دل کش آوازیں گونجنے لگیں۔ اُنہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اور موسیقی کی دھن پر ناچتے ہوئے گانے لگے:
ناچیں گے نچائیں گے
لڑکی کو لے جائیں گے
لوٹ کے پھر نہیں آئیں گے
ماریا انہیں حیرت سے دیکھتی رہی اور وہ تالیاں بجابجا کر ناچتے گاتے رہے۔ جب تھک گئے تو لڑکی کی طرف آئے اور ایک لڑکا ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا ’’آئو‘‘ ہمارے ساتھ ناچو…‘
ماریا اب اتنی خوف زدہ نہ تھی۔ پہلے اُسے یہ ڈر تھا کہ خوف ناک قسم کے بھوت جھونپڑی میں آئیں گے اور اُسے کھا جائیں گے یا اٹھا کر لے جائیں گے۔ لیکن یہ لڑکے تو بڑے خوب صورت تھے اور انہوں نے اُسے بالکل تکلیف نہ دی تھی۔ وہ بولی ’’آپ لوگوں کے ساتھ ناچنے میں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن ذرا میری حالت تو دیکھیے۔ ننگے پائوں اور پھٹے کپڑوں میں گھر سے نکلی ہوں۔ ایسی حالت میں آپ کے ساتھ ناچتی اچھی نہ لگوں گی۔‘‘
’’تو کیا چاہیے تمہیں؟‘‘ اُنہوں نے پوچھا ماریا بولی ’’سرخ رنگ کے جوتوں کی جوڑی، جس کا تلا مضبوط لیکن ایڑی ہلکی ہو۔‘‘
دونوں لڑکے باہر نکلے اور ماریا کی پسند کا جوتا لے کر فوراً ہی واپس آگئے۔ پھر اُس نے اُنہیں ریشمی جرابوں، ریشمی ٹوپی، سنہری ہار اور سرخ ربن لانے کے لیے بھیجا۔ اس کے بعد دستانے، پنکھا اور رومال لانے کے لیے کہا۔ جب وہ یہ سب کچھ لے کر آگئے تو ماریا بولی ’’کیا آپ مجھے کچھ پیسے نہیںدیں گے؟‘‘
دونوں لڑکے پھر بھاگے گئے اور روپوں سے بھری ہوئی تھیلی لا کر ماریا کے قدموں میں ڈال دی۔ وہ جب بھی باہر جاتے، ماریا ان کے واپس آنے تک کوئی فرمائش سوچ رکھتی۔ اُسے پتا تھا کہ صبح کی روشنی کے ساتھ ہی یہ لڑکے غائب ہو جائیں گے۔ اب اُس کی سمجھ میں کوئی اور بات نہ آرہی تھی۔ اسے خاموش دیکھ کر لڑکے بولے ’’اب تو ہم سب کچھ لا چکے۔ اب کوئی کسر باقی نہیں رہی۔ چلو، آئو۔ اب ہمارے ساتھ ناچو…‘‘
اچانک ماریا کے دماغ میں ایک اور بات آگئی اور وہ بولی ’’ہاں اب سب کچھ آچکا ہے۔ لیکن منھ ہاتھ دھونے کے لیے پانی بھی تو چاہیے‘‘ یہ کہہ کر اُس نے اُنہیں ایک چھلنی دی کہ اس میں پانی بھر کر لائیں۔
وہ بھاگے بھاگے ندی میں گئے۔ لیکن جب چھلنی کو بھر کر اوپر اُٹھاتے تو اس میں سے پانی نکل جاتا اور وہ پھر پانی بھرنے لگتے۔ تمام رات گزر گئی، لیکن چھلنی میں پانی نہیں بھرا۔ آخر کار جب مرغے کی بانگ سنائی دی تو وہ غصے کے عالم میں جھونپڑی میں واپس آئے اور چھلنی کو زمین پر پٹختے ہوئے بولے ’’چالاک لڑکی، اب تو ہم جا رہے ہیں۔ کل ذرا ادھر آنا۔ پھر دیکھنا تمہارا کیا حال کرتے ہیں۔ ساری چالاکی دھری کی دھری رہ جائے گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گئے اور کمرے میں خاموشی چھا گئی۔
ماریا تھک چکی تھی۔ آدھی رات تک وہ چرخا کاتتی رہی تھی۔ پھر ان لڑکوں سے پالا پڑ گیا۔ اُس کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور جلد ہی وہ گہری نیند سو گئی۔
اُدھر اس کی سوتیلی ماں صبح ہی صبح یہ سوچ کر گھر سے نکلی کہ لڑکی ضرور مر چکی ہو گی۔ وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھی کہ ہمیشہ کے لیے اس مصیبت سے چھٹکارا مل گیا۔ لیکن جھونپڑی میں جا کر کیا دیکھتی ہے کہ مرنا تو رہا ایک طرف، ماریا کا تو بال بھی بیکا نہ ہوا تھا۔ نہ صرف یہ، بلکہ وہ تو بہترین کپڑے پہنے، قیمتی ہار، ٹوپی اور ایسی ہی بہت سی قیمتی چیزوں سے لدی پھندی آرام سے سو رہی تھی۔
اُس نے ماریا کو جھنجوڑ کر جگایا۔ وہ آنکھیں ملتی ہوئی اُٹھی تو سوتیلی ماں نے اس پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اور جب ماریا نے ساری کہانی اُسے سنائی تو وہ بہت ہی حیران ہوئی۔
اب تو اُسے ماریا پر اور بھی غصہ آیا۔ وہ اس بات پر جل گئی تھی کہ ماریا کے پاس آریا سے بھی اچھے کپڑے اور عمدہ عمدہ چیزیں ہیں۔ فوراً گھر پہنچی اور آریا سے بولی بیٹی آج رات تم اس جھونپڑی میں جائو اور ان لڑکوں سے اس سے بھی زیادہ قیمتی چیزیں مانگو۔ دیکھ لینا، وہ تم کو سر سے پائوں تک سونے میں لاد دیں گے۔‘‘
آریا نے اپنی ماں کی ہدایت پر عمل کیا۔ شام کو چرخا اور روئی لے کر جھونپڑی میں پہنچی اور چرخا کاتنے لگی۔
سب کچھ اسی طرح ہوا جیسے پچھلی رات کو ہوا تھا۔ آدھی رات کے قریب ایک گاڑی کی آواز آئی اور پھر وہی دونوں لڑکے، اسی طرح، بغیر دروازہ کھولے، کمرے میں داخل ہوئے۔ 
ان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی ساز بجنا شروع ہو گئے اور وہ تالیاں بجا بجا کر گانے لگے:
ناچیں گے نچائیں گے
لڑکی کو لے جائیں گے
رات کا بدلہ چکائیں گے
لیکن آریا اتنی عقل مند یا چالاک نہ تھی جتنی ماریا۔ جب لڑکوں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا ’’آئو، ہمارے ساتھ ناچو‘‘ تو اس نے ساری چیزیں ایک ہی وقت میں مانگ لیں۔ اس نے کہا ناچنے کے لیے اچھے سے جوتے لا دو۔ ریشمی جرابیں، ریشمی ٹوپی، سنہری ہار اور سرخ ربن لا دو۔ اس کے ساتھ ہی اس نے پیسوں کی بھی فرمائش کر دی۔
لڑکے جب سب کچھ لے آئے تو پھر اُس نے انہیں پانی لانے کو کہا تاکہ ہاتھ دھولے۔ لیکن اُس کی ماں نے اس کو چھلنی نہ دی تھی۔ اُس نے سوچا کہ چھلنی کے متعلق تو ان لڑکوں کو پتا چل چکا ہے کہ اس میں پانی نہیں لایا جاسکتا۔ اُس نے آریا کو ایک ایسی بالٹی دے دی تھی جس کے تلے میں سوراخ تھے۔
لڑکوں نے بالٹی ندی کے کنارے کیچڑ میں رکھ دی۔ پھر ایک لڑکے نے دوسرے سے کہا ’’کل رات ہم پانی نہ لے جا سکے تھے۔ آج ایسا کرتے ہیں کہ بالٹی میں پہلے کچھ ریت بھر لیتے ہیں تاکہ سوراخ بند ہو جائیں۔‘‘
بالٹی کے سوراخوں میں کیچڑ بھر گئی تھی۔ لڑکوں نے اس کے اندر ریت کی موٹی سی تہ بھی بچھا دی۔ پھر بالٹی میں پانی بھرا اور اسے لے کر جھونپڑی میں پہنچے۔
آریا نے بہت سوچا لیکن اور کوئی بہانہ اس کی سمجھ میں نہ آیا۔ لڑکے چلائے، چالاک لڑکی، جلدی کر ہاتھ منہ دھو، کپڑے بدل اور ہمارے ساتھ ناچ۔‘‘
آریا نے منہ دھویا، کپڑے بدلے اور پھر شیشہ دیکھنے لگی۔ لیکن لڑکوں نے اسے پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹ لیا اور ناچنے لگے۔ وہ ایک دائرے میں اتنی تیزی سے چکر لگا رہے تھے کہ آریا کے قدم لڑکھڑا گئے۔ لیکن وہ نہ رکے اور اُسے اسی طرح نچاتے رہے۔ یہاں تک کہ اسے یوں لگا جیسے اُس کے بازو اور ٹانگیں جسم سے الگ ہو جائیں گی وہ چلائی۔
’’خدا کے لیے ذرا رکو۔ مجھے سانس لینے دو چکر آرہے ہیں۔ تھوڑی دیر بیٹھنے دو…‘‘
لیکن وہ بھلا رکنے والے کب تھے۔ وہ اور بھی تیزی سے ناچنے لگے، یہاں تک کہ مرغے نے اذان دے دی۔ جب وہ رکے تو آریا بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ انہوں نے اُ س کا سر کاٹا اور پھر پیشانی میں کیل ٹھونک کر اُسے جھونپڑی کے باہر دروازے پر لٹکا دیا۔ پھر لاش اٹھا کر ندی میں پھینک دی اور غائب ہو گئے۔ یہ لڑکے اصل میں بھوت تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی آدمی اس جھونپڑی میں آئے۔ اگر پہلی رات ماریا بھی اُن کے ساتھ ناچنے لگتی تو وہ اس کا بھی یہی حال کرتے۔ لیکن اُس نے اُنہیں اس بات کا موقع ہی نہ دیا۔
آریا کی ماں صبح کو خوشی خوشی اُٹھی اور اس خیال سے جھونپڑی کی طرف چل دی کہ آریا نے اُن لڑکوں سے بہت قیمتی تحفے لیے ہوں گے۔
جب وہ اس موڑ پر پہنچی جہاں سے جھونپڑی کا دروازہ نظر آرہا تھا تو اُسے یوں لگا جیسے آریا دروازے میں سے جھانک رہی ہو۔ اُس نے زور سے کہا:
’’آتی ہوں بیٹی، آتی ہوں۔ ذرا صبر کرو۔‘‘
وہ جھونپڑی کے دروازے پر پہنچی تو یہ سمجھی کہ دیوار میں سوراخ ہے اور آریا نے سر باہر نکال رکھا ہے۔ وہ بولی ’’تم تو یوں مسکرا رہی ہو بیٹی، جیسے دنیا جہاں کی ساری دولت تمہیں مل گئی ہو۔ ذرا دکھائو تو سہی، کیا کیا چیز ملی ہے تمہیں۔‘‘
اس کے جواب میں آریا تو کیا بولتی، پاس کے درخت پر ایک پرندہ آکر بیٹھا اور این کی طرف منہ کرکے بولا:
بے وقوف اور ظالم عورت۔ دیوار میں توتیری بیٹی کا صرف سر ہی ہے۔ اس کا دھڑ تو ندی میں بہہ گیا ہے۔‘‘
اب تو این نے اپنا سر پیٹ لیا۔ یہ تباہی اُس کی اپنی ہی لائی ہوئی تھی۔ اس نے سوتیلی بیٹی کے لیے جو کنواں کھودا تھا، اُس کی اپنی بیٹی اس میں گر گئی تھی۔

alibaba

as

ad

web

amazon

Followers

Website Search

Tweet Corornavirus

Please Subscribe My Chennal

Sub Ki News

 
‎Sub Ki News سب کی نیوز‎
Public group · 1 member
Join Group
 
Nasrullah Nasir . Powered by Blogger.

live track

Popular Posts

Total Pageviews

Chapter 8. ILLUSTRATOR Shape Builder & Pathfinder-1

Chapter 10. Illustrator Drawing & Refining Paths-1

Labels