ضیاء الرحمن
یہ تھوڑے پرانے زمانے کی بات ہے۔ ایک نو کیز لڑکے کو پتہ نہیں کیا خواہش تھی؟ یا جستجو سمجھ لیں! اب تو اجازت لے کر روڈ کے یا چوک کے ایک طرف سیمنٹ کی ٹنکی بنا دیتے ہیں اس میں ہلکی زنجیر سے سلور یا پلاسٹک کا کوئی گلاس باندھ دیتے ہیں تاکہ پیاسے لوگ بلامعاوضہ پانی پی سکیں۔ پہلے جو لوگ عام لوگوں کی بلا معاوضہ پانی پلانا چاہتے تھے وہ خود یا کسی آدمی کو معاوضہ پر رکھ لیتے تھے۔ وہ آدمی مشک ’’یہ مشک جو مجھے معلوم ہے کسی بری بکری کو جب ذبح کیا جاتا تھا تو اس کی کھال انتہائی ہنر مند سے بغیر کاٹے ثابت اتارلی جاتی تھی۔ اسے سکھا کر اس کے منہ والے حصہ کو کھلا چھوڑ دیا جاتا تھا یہ بھری مشک میں سے پانی نکلنے کا راستہ ہوتا تھا۔ ٹانگوں کے کونوں کو باندھ کر اس کے بند بنائے جاتے تھے جیسے اسکول کے بچے اپنی کتابوں کے بستہ کو کندھے کے ایک طرف لٹکا کر جاتے ہیں۔ اسی طرح مشک بھی کندھے کے ایک طرف لٹکائی جاتی تھی۔ پچھلا دھڑ مکمل سی کر بند کر دیا جاتا تھا۔ ’’مشک تیار‘‘۔ اب آپ اسے اتنا بھریں۔ بکری کی گردن کہہ لیں یا مشک کا منہ کہیں، پکڑنے میں آسانی ہو۔ پانی پلانا ہے تو تھوڑا سا منہ کھولا گلاس بھر دیا ہاتھ سے اس کا منہ بند کر دیا یااس میں اسی کام کے لیے ایک چمڑے کا فیتہ لگادیا جاتا تھا۔ اس سے اس کا منہ باندھ دیا، اب منہ پکڑنے کی بھی ضرورت نہیں۔ چھوٹی مشک کو مشکیزہ کہا جاتا ہے۔ تاریخی واقعہ میں کمسن مجاہدہ فاطمہ بنت عبداللہ میدان جنگ میں زخمی مسلمان سپاہیوں کو مشکیزہ سے پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی۔ فوجیوں کے پاس بھی مشکیزہ ہوتا ہے۔ پیاسے کو پانی پلانا جنت میں جانے والا عمل ہے۔ یہ بڑا نیک کام ہے۔ اسی لیے مسلمان اس نیک کام کو ضرور کرتے ہیں۔ وہ نوخیز لڑکا رافع جہاں رہتا تھا وہاں ایک بڑے چوک میں ایک آدمی اپنی مشک سے پانی پلاتا رہتا تھا صبح دھوپ نکلنے سے عصر کی نماز کے وقت تک پھر وہ گھر چلا جاتا تھا۔ یہ نیکی کا جذبہ ہی تھا رافع چاہتا تھا اس آدمی کی جگہ میں کھڑا ہو جائوں یا کم از کم اس کی مدد ہی کرتا رہوں۔ کافی دن حسرت سے دیکھنے کے بعد کیوں وہ پانی پلانے والا اکھڑ مزاج آدمی تھا۔ کسی سے کم ہی گفتگو کرتا تھا۔ اس نے اپنے والد سے مدد لینے کا ارادہ کر لیا۔ اس کے والد پڑھے لکھے عقلمند آدمی تھے۔ وہ اپنے بیٹے کی اس خواہش کو سن کر خوش ہوئے، اور اس سے کہا کہ تم اس آدمی کی جگہ کھڑا ہونا چاہتے ہو رافع نے کہا جی ہاں اس کے والد چاہتے تو حکم سنا دیتے کہ تم ایسا سے ایسا کر لو۔ مگر انہوں نے اسے مشاورتی انداز میں سمجھایا۔ رافع بڑا خوس ہوا کہ میرے والد مجھے بھی عقلمند سمجھتے ہیں۔ بات یہ طے ہوئی کہ پہلے مرحلہ میں اس جگہ کی صفائی کی جائے جہاں لوگ کھڑے ہو کر پانی پیتے ہیں۔ رافع بھی محنتی اور دھن کا پکا تھا۔ اس نے مشک والے کے انے سے پہلے پہلے اس پوری جگہ کو اچھی طرح جھاڑ وو دے ڈالی جہاں لوگ کھڑے ہوتے تھے۔ پندرہ دن تک وہ اسی طرح کرتا رہا۔ مشک والے سے لے کر پانی پینے والوں تک سب حیرت میں تھے یہ صفائی کون کرتا ہے؟ ایک تجسس تھا ارد گرد جو دوکانیں تھیں وہ سب رافع اور اس کے والد کو جانتے تھے۔ کیوں وہ یہیں کا رہنے والا بچہ تھا۔ مگر مشک اوالا دوسرے علاقے میںرہتا تھا اس لیے وہ رافع کو نہیں جانتا تھا۔ پندرہ دن کے بعد اس کے والد کے مشورے کے مطابق وہ روزانہ سے ذرا دیر سے جھاڑو دینے گیا تا کہ واپسی میں اسے مشک والا دیکھ لے۔ ایسا ہی ہوا! جب وہ واپس ہوا تو اسے محسوس ہوا کہ کوئی بھاری قدموں سے اس کے پیچھے آرہا ہے۔ پھر اسے ایک بھاری سا ہاتھ اسے اپنے کندھے پر محسوس ہوا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا مشک والا اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اس نے اسے سلام کیا! جواب دینے کے بعد اس نے کہا بیٹا جب تمہیں نیک کام کرنے کا شوق ہے تو مکمل کرو۔ اس نے شوق سے کہا فرمائیے مین اور کیا کر سکتا ہوں؟ اس نے کہا۔ بیٹا صبح سے لے کر دوپہر لوگ بری تعداد میں آتے ہیں اور سب افراتفری میں پانی پیتے ہیں جس سے مجھے بھی بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ تم جھاڑو دے کر گھر جانے کے بجائے یہیں رک جایا کرو اور لوگوں کو ایک لائن میں کھڑا کیا کرو۔ تاکہ وہ آسانی سے اپنی باری پر پانی پیا کریں مجھے بھی آسانی رہے گی اور وہ بھی خوش رہیں گے۔ رافع کے اس طرح کام کرنے سے مشک والا بھی خوش تھا اور پانی پینے والے بھی۔ کیوں اب ان کی باری جلدی آجاتی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد اس نے کہا! بیٹا اب تم ذرا یہ گلاس سنبھال لیا کرو۔ میں پانی بھر بھر کر دیا کروں گا تم لائن میں لگے لوگوں کو ترتیب سے پانی پلاتے جانا لوگوں کو اور آسانی ہو گی۔ کافی دن کے بعد مشک والے نے رافع سے کہا۔ بیٹا میں ایک ضروری کام سے جا رہا ہوں۔ تم ایک گھنٹے میری جگہ مشک لے کر کھڑے ہو جائو۔ یہ وہ وقت تھا جب رافع نے ایک طویل جدوجہد کے بعد اپنا مقصد حاصل کر لیا تھا۔ اس کامیابی پر وہ سجدہ شکر بجا لایا۔ اس کے بعد مشک والا آتا تھا مگر جلدی چلا جاتا تھا۔ آخر ایک دن اس نے رافع سے اس کے والد سے ملنے کی خواہش ظاہر کردی شام وہ کام ختم کرکے اسے اپنے والد سے ملانے لے گیا۔ اس کے والد اس شخص کو پہچان گئے وہ اس علاقے کی ایک بڑی کاروباری شخصیت تھے۔ انہوں نے لمبی چوڑی تمحید باندھے بغیر کہا۔ آپ مجھے پہچانتے ہوں گے؟ ارے بھائی آپ تو اس علاقے کی معروف شخصیت ہیں آپ کو کون نہیں جانتا؟ اب رافع کی حیرت کی باری تھی وہ تو انہیں ایک معمولی مشک والا سمجھتا تھا۔ انہوں نے انتہائی انکساری سے کہا! آج میں جو کچھ ہوں یہ سب اس پانی پلانے والی نیکی کی بدولت ہوں۔ میں نے آپ کے بیٹے میں بڑی خوبیاں دیکھیں ہیںمیں چاہتا ہوں یہ دن دوگنی چوگنی ترقی کرے۔ آج کے بعد میں ادھر نہیں آئوں گا یہ چوک اور مشک میں اس کے حوالے کرتا ہوں۔ اب میں کسی اور چوک پر کھڑا ہو کر پانی پلائوں گا۔ تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کی خدمت کر سکیں۔ آپ کو تو کوئی اعتراض نہیں ہے انہوں نے رافع کے والد سے سوال کیا؟ ارے جناب! یہ تو ہماری خوش نصیبی ہے اور میرے بیٹے کا سنہری خواب۔ طویل عرصہ کے بعد رافع ایک بڑا آدمی ہو چکا تھا۔ مالی طور بھی اور اس کے سر کے بال بھی کھچڑی جیسے سفید ہو چکے تھے۔ مگر وہ چوک پانی پلانے کی نیکی سے ہمیشہ کی طرح آباد تھا۔ آپ بھی دنیا کے ہر شعبے میں پیش قدمی کر سکتے ہیں۔ مگر علم کی سیڑھی اور مستقل مزاجی کے ساتھ۔
٭٭٭