My Blogger consists of a general news in which I upload articles from all types of news including science, technology, education, crime, how-to, business, health, lifestyle and fashion.

New User Gifts

Showing posts with label زاہد عباس. Show all posts
Showing posts with label زاہد عباس. Show all posts

سود وبا کی طرح پھیل رہا ہے


…زاہد عباس…

میری عادت ہے کہ افطار سے فارغ ہوکر تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی، اپنے دوستوں کے ساتھ ضرور بیٹھتا ہوں۔ اس طرح نہ صرف دن بھر کی مصروفیات پر بات چیت ہوجاتی ہے بلکہ کسی نہ کسی نئے موضوع پر سہل انگیز گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے۔ معمول کے مطابق آج جب میں گھر سے نکلا تو ہر دوسرا شخص مجھے نور بھائی کے گھر کی جانب جاتا دکھائی دیا۔ اس طرح لوگوں کو اُن کے گھر کی جانب جاتے دیکھ کر میرے دل میں عجیب قسم کے خیالات آنے لگے… خدا خیر کرے، آخر ماجرا کیا ہے! بس یہی سوچتا ہوا میں بھی نور بھائی کے گھر کے سامنے جاپہنچا، جہاں لوگوں کی خاصی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس سے پہلے کہ میں کسی سے کوئی سوال کرتا، میری نظر نور بھائی پر پڑ گئی۔ 
’’نور بھائی، خیریت تو ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں سب ٹھیک ہے۔‘‘
’’تو پھر یہ لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہوئے ہیں؟ کوئی مسئلہ، کوئی پریشانی وغیرہ تو نہیں؟ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بے فکر ہوکر بتائیں، جو بن پڑے گا ضرور کروں گا۔‘‘
’’ارے نہیں، میرا کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ جاوید اور محسن آپس میں جھگڑ رہے تھے، اس لیے دونوں کو یہاں لے آیا ہوں۔ لوگوں کا تو تمہیں پتا ہی ہے، تماش بین ہیں، ذرا سی تُو تُو مَیں مَیں ہوجائے تو مجمع لگا کر تفریح لینے لگتے ہیں۔‘‘
’’لیکن جاوید تو بڑے ٹھنڈے مزاج کا آدمی ہے، وہ تو گھر سے بھی بہت کم نکلتا ہے، نہ ہی اس کی سنگت خراب ہے۔ ایسے انسان کا لڑائی جھگڑے سے کیا واسطہ! اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ یہ دونوں دوست بھی ہیں، ان کے درمیان آخر ایسا کیا ہوا جو نوبت یہاں تک آن پہنچی؟‘‘ 
’’جب تک حقیقت کا علم نہیں تھا، میری بھی رائے یہی تھی۔‘‘
’’کون سی حقیقت؟‘‘
’’جاوید نے کچھ رقم ادھار لے رکھی ہے، پہلے پہل تو میں بھی اسے لین دین کا معاملہ ہی سمجھتا رہا، آج ان دونوں کے درمیان ہاتھا پائی ہونے سے اصل بات کھل کر سامنے آگئی۔ جاوید نے سود پر رقم لی ہوئی ہے اور سود کی قسط ادا نہیں کررہا، محسن چونکہ اس کا ضمانتی ہے اس لیے وہ لوگ جن سے سود پر پیسہ لیا گیا محسن پر دباؤ ڈال رہے ہیں، ایسی صورت میں جھگڑا ہی ہونا ہے۔ دونوں محلے کے بچے ہیں، بس اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں ان کے درمیان ہونے والے تنازعے کو ختم کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کررہا ہوں۔‘‘
’’جاوید اور سود…! نہیں نور بھائی کسی نے ایسے ہی اڑا دی ہوگی۔‘‘
’’ارے نہیں میاں، وہ سودخور جس سے جاوید نے رقم لے رکھی ہے، دھمکیاں دے کر ابھی یہاں سے گیا ہے۔ ایک لاکھ روپے کی رقم، تین ماہ کے سود کی قسطیں 30 ہزار مع جرمانہ وصول کرنے کی بات کررہا تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ جب تک ایک لاکھ روپے قرض کی رقم واپس نہیں کی جاتی، ہر ماہ 10 ہزار روپے قسط ادا کرنی ہوتی ہے، جبکہ اصل رقم جوں کی توں ہی رہتی ہے۔ میرے لاکھ سمجھانے کے باوجود وہ اپنی ڈیمانڈ سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔ میں جانتا ہوں کہ جاوید غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، اور میں اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہوں کہ اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنا اُس کے بس کی بات نہیں۔ اگر جانے انجانے، یا نادانی میں اُس سے یہ غلطی سرزد ہوگئی ہے تو اس سے پہلے کہ بات مزید خراب ہو، یا خدانخواستہ کوئی بڑا واقعہ ہوجائے، ہمارا فرض ہے کہ ایسے خطرناک لوگوں سے اس بے وقوف کی جان چھڑا دی جائے۔‘‘
نور بھائی کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی، وہ اس مسئلے کو حل کرانے کے لییانتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ ان کی باتیں سن کر مجھے بھی جاوید سے ہمدردی ہورہی تھی۔ اور کیوں نہ ہوتی؟ آخر کو وہ انتہائی شریف النفس انسان ہے، کسی کے لینے دینے میں نہیں، وہ اس گھنائونے کام میں کیسے پڑ گیا، خدا جانے۔ خیر نور بھائی کی باتیں سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اُن کے بقول محلے میں سود کے کاروبار سے وابستہ افراد کا ایک بڑا نیٹ ورک کام کررہا ہے جو اس مکروہ دھندے کو بڑھاوا دینے کے لیے بے روزگار نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملا رہا ہے، محسن بھی ان نوجوانوں میں سے ایک ہے جسے پرسنٹیج کا لالچ دے کر ساتھ ملایا گیا ہے۔ ظاہر ہے جس نوجوان کو ماہانہ سود وصولی پر اس کا حصہ ملے گا وہ کیوں کر گمراہ نہ ہوگا! نور بھائی کے بقول یہ سودی کاروبار نہ صرف ہمارے محلے، بلکہ سارے ہی شہر میں ہیضے کی وبا کی طرح پھیلتا جارہا ہے۔ خیر خاصی دیر سمجھانے کے باوجود اس سود خور سے جاوید کی جان نہیں چھڑائی جا سکی۔ وہ بضد تھا کہ مجھے اپنی پوری رقم مع جرمانہ چاہیے، بصورتِ دیگر جاوید کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اپنے ارادوں سے وہ انتہائی خطرناک دکھائی دے رہا تھا، اسے رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے کی بھی کوئی پروا نہ تھی، اُس کے نزدیک ہر ایک سوال کا جواب فقط پیسہ ہی تھا۔ ہاتھ میں تسبیح لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کی باتیں کرنے والا وہ شخص اندر سے کسی جانور سے کم نہ تھا۔
شاید سود کے کاروبار سے منسلک تمام لوگ ایک ہی مٹی سے بنائے گئے ہوتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک واقعہ ہمارے دوست ثانی سید نے سنایا کہ ایک زمانے میں ان کے والد کی ورکشاپ تربت میں ہوا کرتی تھی، وہاں ایک شخص گل خان آیا کرتا تھا، وہ اپنی سائیکل کو زنجیر ڈال کر ان کے ورکشاپ میں چھوڑ جاتا۔ جب بھی وہ تربت آتا، اپنی سائیکل لے کر پورے شہر سے سود کی رقم وصول کرتا۔ ایک مرتبہ ثانی سید نے اسے اس کاروبار سے روکتے ہوئے کہا ’’گل خان تم پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہو اور سود کا کاروبار بھی کرتے ہو، تمہیں خدا کا خوف نہیں؟‘‘ اس پر گل خان بولا ’’اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف کردے گا سوائے نماز کے، بس اسی لیے میں نماز بھی پڑھتا ہوں۔‘‘
دیکھی آپ نے اِس کاروبار سے وابستہ افراد کی ذہنیت! یعنی ان کے نزدیک نماز، روزہ اپنی جگہ، اور سود جیسا بدترین کاروبار اپنی جگہ… جبکہ سود کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک میں سود کا کاروبار عروج پر پہنچ چکا ہے۔ سود کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح حکم دیا ہے۔ سود کو قرآنِ کریم میں اتنا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے کہ شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے وہ لفظ استعمال نہیں کیے گئے جو سود کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے استعمال کیے ہیں۔ سورۃ البقرہ آیت 278۔279 میں فرمان خداوندی ہے: 
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ باقی سود رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو۔ اگر تم نے نہ چھوڑا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے، اور اگر توبہ کرلو تو اصل مال تمھارا تمہارے واسطے ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔‘‘
 یہ ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور بڑے گناہ مثلاً زنا کرنے اور شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ مشہور صحابیِِ رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے، اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑادے۔ (تفسیر ابن کثیر)
جبکہ سورہ البقرہ 275 میں فرمان ہے ’’جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ (سودی معاملات سے) باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے اور اس کی (باطنی کیفیت) کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیاتو ایسے لوگ دوزخی ہیں، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔‘‘
خدا کی جانب سے دئیے گئے واضح احکامات کے باوجود ہمارے معاشرے میں سود ایک کاروبار کی طرح پھیلتا ہی جارہا ہے، جس کے سبب معاشرے کا ہر تیسرا شخص اس گھنائونے کاروبار سے منسلک لوگوں کا ڈسا ہوا ہے۔ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ اسلام میں ممانعت ہونے کے باوجود یہ کاروبار ہر آنے والے دن کے ساتھ عروج پکڑ رہا ہے، اور سودی کاروبار کرنے والا مافیا مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا ہے، اس قدر طاقتور کہ ان کے خلاف کوئی بھی محکمہ یا اعلیٰ افسر کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مافیا، ضرورت مند افراد کو ورغلا کر معمولی رقم کے عوض اپنے جال میں پھانس لیتا ہے اور ان کے گھر بار، یہاں تک کہ ان کی عزتوں سے کھلواڑ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس مافیا کی جانب سے کی جانے والی ایسی حرکتوں کے باوجود ہمارا قانون ان کے خلاف واقعی اندھا قانون ہی ثابت ہوتا ہے۔ اگر اس مافیا کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج ہو بھی جائے تو وہ ردی کی ٹوکری کی نذر ہوجاتی ہے۔
اس ساری صورتِ حال میں حکومت کو چاہیے کہ شہر میں پھیلتے اس غیر قانونی اور شریعت کے مطابق حرام کاروبار میں ملوث سود خوروں کے خلاف جنگی بنیادوں پر کریک ڈائون کرے، اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لاکر کیفرکردار تک پہنچانے کا سامان کرے، تاکہ نہ صرف بے گناہ افراد کو ان کے چنگل سے آزادی مل سکے، بلکہ وہ موت کے منہ میں جانے سے بھی بچ جائیں۔

مانگنے کا فن


زاہد عباس

خالہ رضیہ اپنے گھرکمیٹی ڈالتی ہیں، اسی لیے پہلی بی سی خود رکھ لیتی ہیں، پھر ہر ماہ قرعہ اندازی کے ذریعے کمیٹی کھولی جاتی ہے، اس طرح جس ممبر کا بھی نام نکلے اُسے بی سی دے دی جاتی ہے۔ یہی ان کا ہمیشہ سے اصول رہا ہے۔ خیر، ہر مرتبہ کی طرح اِس بار خالہ رضیہ نے پہلی بی سی کیا رکھی کہ قرض مانگنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ پہلے جاوید چلا آیا کہ ’’خالہ میں انتہائی پریشان ہوں، مجھے پچاس ہزار روپے کی سخت ضرورت ہے، مہربانی کریں آپ مجھے اپنی بی سی دے دیں۔‘‘
’’بیٹا ایسی کون سی ضرورت آن پڑی ہے جو تُو میرے گھر چلاآیا؟ جہاں تک پیسوں کا تعلق ہے تو جب بی سی جمع ہوگی تبھی میرے ہاتھ میں آئیں گے، اور ویسے بھی مجھے اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہے، لہٰذا میں یہ پیسے تجھے کسی صورت نہیں دے سکتی۔‘‘
یوں خالہ رضیہ نے جاوید کو تو ٹال دیا لیکن ریحان کو وہ بھلا کس طرح ٹال سکتی تھیں! چونکہ ریحان نے خود بھی خالہ رضیہ کے پاس کمیٹی ڈال رکھی تھی اس بنیاد پر وہ بھی ادھار مانگنے پہنچ گیا۔
’’خالہ رضیہ بڑی خوش نظر آرہی ہو، لگتا ہے کوئی بڑی خوش خبری ہے جس کی وجہ سے خالہ کا چہرہ کھلا کھلا سا لگ رہا ہے۔‘‘
’’بیٹا ایسی تو کوئی بات نہیں، ابھی بچوں کو اسکول سے لائی ہوں، گرمی میں برا حال ہوگیا ہے، اور تُو کہتا ہے کہ میں فریش لگ رہی ہوں، اچھا چھوڑ، بتا کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’وہ کچھ نہیں بس ایسے ہی چلا آیا، اور خالہ سے ملنے کے لیے کون سا ویزا لینا پڑتا ہے! سوچا مل آؤں۔‘‘
’’ہائے میرا بچہ کتنی محبت کرتا ہے۔ اور کام وغیرہ کا سنا۔‘‘
’’سب کچھ اچھا ہے، بس تھوڑی پریشانی آئی ہوئی ہے۔‘‘
’’کیسی پریشانی؟ تیری خالہ کے ہوتے ہوئے تجھے کون پریشان کررہا ہے؟‘‘
’’نہیں نہیں کوئی خاص نہیں، بس کاروبار ٹھنڈا چل رہا ہے اس لیے ہاتھ ذرا تنگ ہے، اگر کچھ پیسے مل جائیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
’’ہاں بیٹا کاروبار تو واقعی ٹھنڈے ہیں، ایک تو منہگائی، اوپر سے جیب خالی… ایسے میں کون بازاروں میں آتا ہے! اب تیرا مسئلہ بھی ایسا ہے جسے حل کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے، میرے پاس رقم ہوتی تو ضرور دے دیتی۔‘‘
’’خالہ، وہ بی سی؟‘‘
’’ارے نہیں بیٹا، وہ تو گڑیا کی شادی کے لیے رکھی ہے۔‘‘
’’شادی تو ابھی دور ہے، اتنے عرصے میں ہوسکتا ہے کہ میری بی سی بھی کھل جائے۔ یہ رقم مجھے دے دو، جب میری بی سی کھلے تو آپ رکھ لینا۔‘‘
’’بات ٹھیک ہے، شادی میں تو ابھی چند ماہ باقی ہیں، چل تُو اپنا کام نکال لے، جب تیری بی سی کھلے گی تو میں رکھ لوں گی۔‘‘
یوں ریحان خالہ رضیہ سے بی سی کے پچاس ہزار روپے لینے کے بعد بازار میں لگائے جانے والے اپنے اسٹال کو بند کرکے ایسا گیا کہ پھر نہ لوٹا۔ اُس دن سے خالہ نہ صرف اپنی، بلکہ ریحان کی بھی بی سی بھرنے پر مجبور ہیں۔ اب وہ جب بھی ملے تب کی تب دیکھی جائے گی۔ اس ساری بات میں یہ تو طے ہے کہ کسی سے قرض لینا آسان کام نہیں، اس کے لیے خاصی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، اگر آپ میں وہ گُر نہیں ہیں تو رقم دینے والا شخص آپ کو بآسانی ٹال دے گا۔
یہی کچھ ہمارے ملک کے سابقہ وزیرخزانہ جناب اسد عمر کے ساتھ بھی ہوا، جن کی قابلیت کی تعریفیں کرتے وزیراعظم عمران خان نہیں تھکتے تھے، اُن کی ساری قابلیت اُس وقت کھل کر سامنے آگئی جب انہیں قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے پڑے، جس پر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور وزارت چھوڑ کر انہیں گھر جانا پڑا۔ جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس کام کے لیے مہارت اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لینا اُن کے بس کی بات نہیں تھی۔ ایسے پیکیجز لینے کے لیے کسی پرانے کھلاڑی ہی کی ضرورت ہے، ایسے کھلاڑی کی جس کا کام ہی ڈالروں سے کھیلنا ہو، جس کا سکہ پرانے پاکستان میں تو کیا نئے پاکستان میں بھی چلتا ہو۔ میرا اشارہ خان صاحب کے نئے پاکستان کے پرانے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی جانب ہے جنہوں نے نیا پاکستان بنانے والوں کے کاروان میں شمولیت اختیار کرتے ہی وہ جوہر دکھائے جس کے گرویدہ خان صاحب بھی ہوگئے۔ اپنے ہنر کے مطابق مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے آئی ایم ایف سے جو کامیاب مذاکرات کیے اُن کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج کا پروگرام فائنل ہوگیا ہے، جس کے مطابق آئی ایم ایف 3 سال کے دوران پاکستان کو 6 ارب ڈالر قرض دے گا، جبکہ بیل آؤٹ پیکیج ملنے کے بعد ورلڈ بینک سمیت دیگر مالیاتی ادارے مزید 3 ارب ڈالر کا قرضہ دیں گے۔
پیپلز پارٹی دور کے بعد پھر سے نئے کپڑے پہن کر آنے والے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف بین الاقوامی ادارہ ہے جس کا بنیادی کام معاشی بحران کے شکار ممالک کی مالی مدد کرنا ہے۔ اِس وقت پاکستان کی معاشی صورت حال اچھی نہیں ہے۔ اب تک پاکستان 25 ہزار ارب روپے کا قرضہ لے چکا تھا۔ تاہم اب آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کے بعد معیشت میں بہتری آئے گی۔ پاکستان میں ہر دور میں برآمدات نہیں بڑھ سکیں، جبکہ بہت سے معاملات پاکستان میں درست طریقے سے نمٹائے ہی نہیں گئے۔ ہمیں امیر طبقے کے لیے سبسڈی ختم کرنا ہوگی اور کچھ شعبوں میں قیمتیں بڑھانی ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت کو کچھ اشیا کی قیمتیں بھی بڑھانا ہوں گی۔ بجلی کی قیمتیں بڑھیں گی۔ 
دوسری جانب آئی ایم ایف نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ پاکستان کو 6 ارب ڈالر 39 ماہ میں قسطوں میں جاری ہوں گے۔ پاکستان کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار کم ہورہی ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح بڑھ رہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سابقہ حکومتوں کی جانب سے آئی ایم ایف سے لیے گئے قرض کی مخالفت کرنے والے خان صاحب انہی کی حکومت کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو اپنی کابینہ میں شامل کرکے آئی ایم ایف کی جانب سے دیئے جانے والے بیل آؤٹ پیکیج پر کیوں خوشیاں منارہے ہیں؟ عوام پوچھتے ہیں اگر آپ کو بھی اسی ٹیم کو ساتھ ملا کر روایتی حکمرانی کرنی تھی تو عوام کو نئے پاکستان کا خواب دکھانے کی کیا ضرورت تھی؟
 آج ایک عام شہری جس نے آپ کو نیا پاکستان بنانے کے لیے ووٹ دیا، پوچھتا ہے کہ آپ نے350 ڈیم بنانے کا وعدہ کیا تھا، وہ کہاں بنائے گئے ہیں؟
کے پی کے میں 70 یونیورسٹیاں بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا، اس کے بارے میں لوگ پوچھ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت بتادے کہ اس کے پانچ سالہ دور میں اب تک کتنی یونیورسٹیاں بنائی گئیں؟ کے پی کے میں کتنے کالج بنائے گئے؟ 
نمل یونیورسٹی اور شوکت خانم اسپتال کی تشہیر کرنے والے کے پی کے میں قائم کسی ایک ایسے اسپتال کا نام اور جگہ تو بتائیں جو خان صاحب کی جانب سے وہاں کے غریب عوام کے لیے ایک مثالی تحفہ ہو؟ یا اتنا ہی بتادیں کہ کے پی کے میں گزشتہ 5 برسوں کے دوران 16 گرلز کالج کس بنیاد پر بند کیے گئے؟ خزانے پر بوجھ قرار دے کر 355 پرائمری اور مڈل اسکولوں کو کس نے بند کیا؟

اب تو خود پی ٹی آئی کے لوگ بھی کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ ہوائی باتیں کرکے اور سہانے خواب دکھا کر صرف عوام کو بے وقوف بنایا گیا۔ ٹرانسپورٹ کے نظام کو ہی دیکھیں تو پشاور میٹرو بس سروس کو فقط 8 ارب میں بننا تھا، پھر یہ 97 ارب تک پہنچ گئی۔ خان صاحب اور ان کی باصلاحیت ٹیم کو اس بات کا اندازہ 6 اسٹیشن مکمل ہونے کے بعد ہی ہوا کہ بس اسٹیشن کے اندر جاہی نہیں سکتی۔ 
جبکہ پنجاب میں بنائی جانے والی میٹرو بس سروس پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے، کہا گیا کہ کرپشن کی وجہ سے ملتان میٹرو 64 ارب میں بنی۔ اب خود کی حکومت نے ہی اس کی شفافیت کی رپورٹ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملتان میٹرو میں کرپشن نہیں ہوئی، یہ 27 ارب کی بنی تھی۔ اب کس بات کو مانا جائے! جبکہ دوسری طرف نذر گوندل پر سرکاری خزانے سے 82 ارب کی کرپشن کا الزام، نندی پور پاور پروجیکٹ میں 284 ارب کی کرپشن پر بابر اعوان آزاد، علیمہ باجی کے پاس 140 ارب روپے، مالم جبہ کیس میں وزیراعلیٰ کے پی کے پر 34 ارب کی کرپشن کا الزام، اور ان کے بھائی کی کرپشن کی لمبی داستان ِغم سکہ رائج الوقت 46 ارب، اسپیکر اسد قیصر پر اسلام آباد میں 35 کروڑ کے بنگلے کا کیس…
اور تو اور سابقہ حکومتوں میں قرضہ بھیک، مگر اب پیکیج… یہ اور ان جیسے درجنوں سوالات ذہنوں میں لیے عوام کا اعتماد ہر آنے والے دن کے ساتھ موجودہ حکومت سے اٹھتا جارہا ہے۔



معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے لیے جانے والے قرض  کے نتیجے میں ڈسکاؤنٹ ریٹ بڑھے گا، غربت اور بے روزگاری بڑھے گی، تمام طرح کی سبسڈیز ختم ہوں گی، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھیں گی،  اس قرض سے پاکستان میں کسی طرح کا بھی معاشی استحکام نہیں آئے گا، یہ شرح نمو کو مزید گرا دے گا۔
آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد کے دو سے تین برس تک ہمیں اپنے جی ڈی پی کی شرح نمو دو سے ڈھائی فیصد رکھنا ہوگی۔ جس ملک میں 15 لاکھ نوجوان ہر برس روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، اس ملک میں شرح نمو کم از کم سات سے آٹھ فیصد ہونا ضروری ہے۔ دوسری جانب روپے کی قدر میں کمی اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی وجہ سے بالواسطہ عوام متاثر ہوں گے جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھے گی اور تمام درآمدی اشیا کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔
اس قرضے کے شدید معاشی اثرات ہوں گے۔ مزید ٹیکس لگانے پڑیں گے۔ روپے کی قدر کو مزید گرانا پڑے گا۔
یعنی معاشی میدان میں  مشکلات اور مہنگائی میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کے ساتھ ہی شروع ہو جائے گا، جو پاکستانی عوام کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوگا۔

لنک ڈائون


زاہد عباس

اقبال بھائی کا مزاج بھی خوب ہے، وہ ہر بات سنانے سے پہلے نہ صرف لمبی تمہید باندھتے ہیں بلکہ دوسرے کو اپنی پوری بات الف سے لے کر ’ے‘ تک سنا کر ہی دم لیتے ہیں۔ بات نہ سننے والے سے ناراض ہوجانا اُن کی طبیعت میں شامل ہے۔ بزرگ ہونے کی وجہ سے لوگ مجبوراً اُن کی جانب سے کی جانے والی باتیں سننے، یا یوں کہیے برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ اسی لیے مجھے بھی اُن کی ہر بات بڑے تحمل سے سننی پڑتی ہے۔ پچھلے دنوں ایسے ہی امتحان کی زد میں اُس وقت آگیا جب رقم کے حصول کے لیے مجھے اپنے گھر کے قریب قائم اے ٹی ایم پر جانا پڑا۔ اے ٹی ایم کا لنک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے جہاں پہلے سے لوگوں کی خاصی بڑی تعداد موجود تھی، اسے برائی کہیں یا میری قسمت کہ وہاں سے گزرتے ہوئے اقبال بھائی کی مجھ پر نظر پڑ گئی۔ بس پھر کیا تھا، پلک جھپکنے سے پہلے ہی وہ میرے قریب آن پہنچے، اور یوں گویا ہوئے ’’یہاں کیا کررہے ہو، کیوں دھوپ میں کھڑے ہو! میاں شدید گرمی ہے، جاؤ گھر جاکر آرام کرو‘‘ جیسے سوالات داغتے اقبال بھائی کو اب بھلا کون روک سکتا تھا! اس سے پہلے کہ میں انہیں یہاں اپنی موجودگی کے بارے میں کچھ بتاتا، اگلی ہی سانس میں کہنے لگے: ’’لگتا ہے تم یہاں رقم نکلوانے کے لیے کھڑے ہو، اسی لیے تو کہہ رہا ہوں جاؤ میاں گھر جاکر آرام کرو، یہ اے ٹی ایم مشینیں برائے نام ہوا کرتی ہیں، ان سے پیسے نکلوانا جی کا جنجال ہے، یہ سب فراڈ ہے فراڈ۔‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں اقبال بھائی ایسا نہیں، نیٹ ورک کا مسئلہ ہے ابھی ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ 
لیکن وہ کہاں ماننے والے تھے، اپنی عادت کے مطابق بولے: ’’مجھے سمجھا رہے ہو! میں تم سے پہلے دنیا میں آیا ہوں، اس لیے تم سے زیادہ تجربہ رکھتا ہوں، میں نے تو اُس وقت ایک بینک ملازم کو کھری کھری سنائی تھیں جب مجھے بھی اے ٹی ایم بنوانے کے لیے راگ پارٹ دے کر تمہاری طرح ان مشینوں کے باہر کھڑا کردیا گیا تھا، اے ٹی ایم سروس استعمال کرنے کے لیے یہ لوگ بہت لالچ دیتے ہیں، مجھ سے کہا گیا تھا کہ آپ رقم نکلوانے کے لیے بینک نہ آیا کریں، بینک کی جانب سے آپ کو ایک کارڈ بناکر دیا جائے گا جس سے آپ کو اجازت ہوگی کہ آپ خودکار ٹیلر مشین یا اے ٹی ایم مشین کے استعمال کے ذریعے اپنے اکاؤنٹ سے رقم حاصل کرلیا کریں۔ اے ٹی ایم کارڈ سے آپ اپنے اکاؤنٹ سے رقم نکالنے کے علاوہ اپنے اکاؤنٹ میں موجود رقم کی معلومات بھی حاصل کرسکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ میں کہتا رہا کہ ہم سیدھے سادے لوگ ہیں، جب بھی ہمیں رقم کی ضرورت ہوتی ہے بینک سے نکلوا لیتے ہیں، ہمیں ان چکروں سے دور ہی رہنے دو۔ لیکن نہیں مانے۔ مجھے مزید لالچ دیا جانے لگا کہ یہ اے ٹی ایم کارڈ ایک ڈیبٹ کارڈ بھی ہوتا ہے، ڈیبٹ کارڈ سے مختلف اشیائے ضروریہ کی خریداری بھی کی جاسکتی ہے، اس کے علاوہ اس سہولت سے آپ ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ رقم اپنے اکاؤنٹ میں بھی جمع کرسکتے ہیں۔ اے ٹی ایم سہولت سے بجلی و گیس کے بلوں کی ادائیگی، ڈاک کے ٹکٹ یا موبائل فونز کے لیے ائر ٹائم کارڈز بھی فروخت کیے جاسکتے ہیں۔ اُس وقت بینک ملازم کی جانب سے کی جانے والی باتوں پر میں مستقل ناں ناں ہی کرتا رہا، لیکن وہ بھی بہت ڈھیٹ تھا، پھر یوں گھیرنے لگا کہ آپ بینک سے بھی تو پیسے نکلواتے ہیں، یہ اے ٹی ایم کارڈ بھی بینک کا ہی ہوتا ہے، ہر بینک خود اپنا اے ٹی ایم کا نیٹ ورک رکھتا ہے جسے لنک ون اور لنک ٹو کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔ اس طرح آپ اپنے بینک کارڈ کو لنک کے مطابق قائم کہیں سے بھی اور کسی بھی اے ٹی ایم مشین سے رقم نکلوانے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں خواہ اے ٹی ایم کا تعلق آپ کے بینک سے ہو یا نہ ہو۔ اُس نے اے ٹی ایم کارڈ کی خصوصیات اور استعمال سے متعلق بات کرتے ہوئے مجھے بتایا تھا کہ اے ٹی ایم یا ڈیبٹ کارڈ کے استعمال کے لیے آپ کو ایک کوڈ دیا جاتا ہے، اس پن نمبر کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ یہ اُس وقت منتخب کیا جاتا ہے جب آپ اپنا اے ٹی ایم یا ڈیبٹ کارڈ وصول کرتے ہیں۔ عام طور سے پن نمبر چار سے چھ ہندسوں پر مشتمل ہوتے ہیں جو آپ آپنی سہولت کے لیے خود بھی منتخب کرسکتے ہیں۔ اسے خفیہ رکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ ہر بار اپنے اے ٹی ایم کارڈ کے استعمال کے لیے آپ اسی پن کوڈ کو استعمال کریں گے۔ پن ایک اضافی تحفظ ہوتا ہے، اگر کوئی آپ کی جیب تراش لے، پرس چرا لے، اے ٹی ایم کارڈ چھین لے، یا اے ٹی ایم کارڈ گم ہوجائے تو صرف وہی شخص آپ کا اے ٹی ایم کارڈ استعمال کرسکتا ہے جو آپ کے کارڈ کا خفیہ پن نمبر جانتا ہو۔ لہٰذا اس صورت میں آپ کو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوگی، کیونکہ اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے کوئی غیر متعلقہ فرد، چور یا ڈکیت آپ کی رقم نہیں نکلوا سکتا۔
آخر کو میں انسان ہی ہوں، اس لیے بینک ملازم کی باتوں سے متاثر ہوگیا اور میں نے بھی اے ٹی ایم یا ڈیبٹ کارڈ بنوانے کا فیصلہ کرلیا۔ چند ہی روز بعد مجھے بینک کی جانب سے دی جانے والی یہ سہولت فراہم کردی گئی۔ کارڈ وصول کرنے کے بعد ایک روز جب میں نے بینک ملازم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق رقم نکلوانے کے لیے اپنا اے ٹی ایم کارڈ مشین میں داخل کیا اور لکھی عبارت کے مطابق پوچھے جانے پر رقم کو منتخب کیا تو اسکرین پر کئی رقوم ظاہر ہوگئیں، میں نے ہندسوں کے بٹن دباکر اپنی مطلوبہ رقم لکھ دی۔ ’’اپنی رقم وصول کریں‘‘ کی تحریر پڑھنے کے بعد میں رقم کی وصولی کا انتظار کرنے لگا، جس پر خاصی دیرکے بعد مجھے وصول کی گئی رقم کی فقط رسید ہی موصول ہوئی۔ رقم نہ ملنے پر میں انتہائی پریشان ہوگیا، میں رقم کے انتظار میں اے ٹی ایم مشین کے پاس ہی کھڑا رہا، اس سے پہلے کہ میں پیسے آنے کا مزید انتظار کرتا، باہر کھڑے ہوئے شخص نے دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کہا: جلدی سے باہر آجائیں اور لوگوں کو بھی پیسے نکلوانے ہیں۔ اُس وقت مجھ پر جو گزری تھی، میں نے اُس کے سامنے رکھ دی، اس پر اُس نے بتایا کہ ’’لنک میں خرابی آجانے کی وجہ سے آپ کی رقم وصول نہیں ہوئی، اب یہ رقم چوبیس سے اڑتالیس گھنٹے بعد ہی آپ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوگی۔‘‘
’’پیسوں کی ضرورت آج ہے، اور اپنے ہی پیسوں کے لیے مجھے مزید 24 سے 48 گھنٹے انتظار کرنا پڑے گا، یہ کیا چکر ہے؟‘‘ میری حیرت پر وہ بولا ’’انکل ایسا ہی ہوتا ہے، اب کیوں ہوتا ہے یہ بینک ہی بتائے گا، آپ مہربانی کریں تاکہ دوسرے لوگ اپنی رقم نکلوا سکیں۔‘‘
چونکہ میرا اے ٹی ایم کارڈ نیا نیا بنا تھا اس لیے میں اس کے استعمال کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا، اور سب سے بڑھ کر تو یہ کہ پہلی مرتبہ کارڈ استعمال کرتے ہی میرے ساتھ یہ معاملہ ہوگیا تھا، اس لیے میں کیوں کسی اجنبی شخص کی باتوں پر اعتبار کرتا! میرے ذہن میں تو بس یہی چل رہا تھا کہ کہیں کوئی دوسرا شخص میری نکالی گئی رقم نہ لے اُڑے۔ بس اسی لیے میں اے ٹی ایم مشین پر قبضہ جمائے کھڑا رہا اور اپنی رقم وصول ہونے کی امید پر لوگوں سے مستقل بحث کرتا رہا، یوں ہمارے درمیان ہونے والی بحث کو ختم کرانے کے لیے اے ٹی ایم کے ساتھ قائم بینک کے ایک اہلکار کو مداخلت کرنی پڑی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن… اس کارڈ پر لعنت بھیج کر اے ٹی ایم مشین سے رقم نکلوانے والوں سے اسی طرح بحث کرتا چلا آرہا ہوں۔‘‘
اقبال بھائی تو اے ٹی ایم کارڈ کے خلاف اپنا لمبا چوڑا بھاشن دے کر چلے گئے، لیکن میں اے ٹی ایم لنک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے وہیں کھڑا رہا۔ اقبال بھائی کی باتوں سے اختلاف اپنی جگہ، لیکن بینکوں کی جانب سے نصب کی گئی ان مشینوں کی کارکردگی پر اُن کی جانب سے کی جانے والی تنقید معنی خیز ہے۔ سارے شہر میں گھوم کر دیکھ لیں، شاید ہی آپ کو کوئی اے ٹی ایم ایسی نظر آئے جہاں لوگ اس قسم کی شکایت کرتے دکھائی نہ دیتے ہوں۔ کوئی بھی تہوار ہو یا مہینے کی ابتدا، ہمارے ملک کے بینکوں کی جانب سے عوام کی سہولت کے لیے لگائے جانے والے اے ٹی ایم سسٹم کی ناقص کارکردگی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ اس صورت حال میں عوام جائیں تو جائیں کہاں؟ کتنے افسوس کی بات ہے کہ دنیا بھر میں جو سہولت گزشتہ 50 برسوں سے بھی زائد عرصے سے دی جارہی ہے، ہم آج کے اس سائنسی دور میں بھی اس میں ناکام ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ مغربی دنیا میں اے ٹی ایم بینکنگ سسٹم 52 برس پہلے آچکا تھا۔ یعنی 27 جون 1967ء کو دنیا کی پہلی ’’آٹومیٹڈ ٹیلر مشین (اے ٹی ایم) لندن کے علاقے این فیلڈ میں بارکلیز بینک کی ایک شاخ میں لگائی گئی تھی۔ اس سے رقم نکالنے والے پہلے شخص ٹی وی فنکار ریگ وارنی تھے۔ اُن دنوں پلاسٹک کے کارڈ نہیں ہوتے تھے، اس لیے مشین سے پیسے نکالنے کے لیے چیک ہی استعمال ہوتے تھے، جن پر ہلکا سا کاربن 14 لگایا جاتا تھا۔ مشین چیک اور Pin نمبر کا موازنہ کرکے رقم ادا کرتی تھی۔ اے ٹی ایم کی گولڈن جوبلی کے موقع پر بینک نے اس پہلی مشین کو سونے کی مشین میں تبدیل کردیا تھا۔ آج مغرب کہاں سے کہاں پہنچ گیا، اور ہم ہیں کہ وہی لنک ڈاؤن یا اے ٹی ایم مشین خراب ہونے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔
ہمارے یہاں اسٹیٹ بینک آف پاکستان تمام نجی بینکوں کو اضافی کیش اور سسٹم درست رکھنے کی ہدایات تو جاری کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود کمرشل بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں کے لنک ڈاؤن اور کیش نہ ہونے کی وجہ سے عوام سخت پریشان ہوتے رہتے ہیں۔ اگر قسمت سے کہیں اے ٹی ایم مشینیں فعال بھی ہوں تو ان پر صارفین کی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ اس ساری صورت حال میں بینک انتظامیہ کی جانب سے عوام کو وہی پرانا بھاشن یعنی رمضان المبارک یا کسی بھی تہوار پر رقم کا لین دین بہت زیادہ ہوجاتا ہے، اس لیے آن لائن نظام کو فعال رکھنے میں مشکلات پیش آرہی ہوتی ہیں۔ چونکہ سارے ہی شہر کی اے ٹی ایم مشینوں پر عوام کا رش ہوتا ہے اس لیے لنک ڈاؤن یا فنی خرابی کی شکایات میں اضافہ ہوجاتا ہے جس کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں۔ یہ آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کا کام ہے، وغیرہ وغیرہ ہی سننے کو ملتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف عوام کا کہنا ہے کہ تہواروں کی آمد پر تجارتی مراکز اور اہم شاہراہوں پرقائم کمرشل بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں کا خراب یا بند ہونا عام سی بات ہے۔ رمضان المبارک ہو یا عید کی خوشیاں، سب رقم کی دستیابی سے منسلک ہوتی ہیں، لیکن ہمیشہ ہی بینکوں سے ٹرانزیکشن کے عمل میں رکاوٹیں ہماری خوشیاں پھیکی کردیتی ہیں۔ اور تو اور، بینکوں کی جانب سے عمر رسیدہ پنشنروں یعنی ریٹائرڈ سرکاری و نجی ملازمین کو ماہانہ پنشن کی وصولی کے لیے بھی اے ٹی ایم مشینوں پر لگی لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے پر مجبور کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب بھی عوام کو رقم نکالنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے تو اے ٹی ایم سسٹم میں ہونے والی فنی خرابیوں کے ساتھ ساتھ بینکوں کا اپنا آن لائن سسٹم بھی کام نہیں کرتا، جس کی وجہ سے شہری اپنی ہی رقم کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے رہتے ہیں۔

رمضان بنا کاروبار


زاہد عباس

’’لیاقت! گودام میں جاکر مال کو مسالہ لگادے۔‘‘
’’شبراتی بھائی! کل مسالہ لگادیا تھا، مال تو اب تیار ہے۔‘‘
’’کتنی پیٹی تیار ہوئی؟‘‘
’’200 پیٹی مال تیار ہے۔‘‘
’’بے وقوف، 200 پیٹی سے کیا ہوتا ہے! آگے سیزن آرہا ہے، کم سے کم 500 پیٹی ہوگی تب ہی مزا آئے گا۔‘‘
’’جی اچھا۔ ہاں یاد آیا، وہ غفور کو مال دینا ہے کہ نہیں؟‘‘ 
’’نہیں نہیں اِس مرتبہ غفورے کو مال نہیں دینا، ابھی تک اُس نے پچھلے مال کے پیسے بھی پورے نہیں دیے۔‘‘
’’شبراتی بھائی! وہ تو روز چکر لگا رہا ہے۔‘‘
’’لگانے دے اُسے چکر! پچھلا حساب کلیئر کرے گا تو ہی نیا مال ملے گا۔‘‘
’’اب آئے تو منع کردوں؟‘‘
’’بالکل صاف منع کردے، حرام کا مال نہیں ہے ہمارے پاس۔ سارا سال پوچھتے نہیں، جب رمضان کا سیزن آئے تو پیسہ کمانے کے چکر میں دوڑے چلے آتے ہیں۔ مال اسی کو دینا جو ہمارے ساتھ سارا سال کام کرتا ہے۔ تُو اس بات کو چھوڑ، اور گودام میں جاکر مال کی طرف دھیان کر۔ اور ہاں، رات ساکرو والی گاڑی بھی آئے گی، اسے بھی ٹھکانے لگادیجیو۔‘‘
’’ٹھیک ہے شبراتی بھائی۔‘‘
’’اچھا سن، اِس مرتبہ ٹماٹر،آلو اور پیاز اُڑ کے بکے گا، رستم کو کہہ دے اور ریڑھیوں کا بندوبست کرلے، ٹھیک ہے!‘‘
’’ٹھیک ہے شبراتی بھائی۔‘‘
رمضان المبارک کا انتظار شاید ہی شبراتی بھائی سے زیادہ کسی کو ہو۔ ہر سال کی طرح اِس سال بھی اُن کی کاروباری مصروفیت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ انہیں سوائے رمضان المبارک کے کسی سے بھی کوئی غرض نہیں۔ موت، میت، شادی بیاہ، یہاں تک کہ اپنے گھر والوں کی فکر تک نہیں۔ یعنی دنیا و مافیہا سے بے خبر شبراتی بھائی کے سر پر تو بس رمضان میں سیزن کمانے کی دھن ہی سوار ہے۔ اور کیوں نہ ہو! ظاہر ہے رمضان المبارک کا مہینہ ایک طرف اگر روزے داروں کے لیے برکتوں اور گناہوں سے بخشش کا مہینہ ہے، تو دوسری طرف ہمارے ملک میں بسنے والے کئی بے روزدار شبراتی اسے اپنا سیزن بنا لیتے ہیں۔ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہوتا ہے جس کی بنیاد ہی لاالٰہ الااللہ پر ہے۔
دنیا بھر میں رمضان المبارک اور دیگر تہواروں کے موقع پر عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے اشیا سستی کردی جاتی ہیں، یہاں تک کہ غیر مسلم ممالک کی حکومتیں اپنے تہوار کرسمس پر اپنے ملک کے عوام کو نہ صرف مختلف سہولیات فراہم کرتی ہیں بلکہ اسلامی فرائض کی انجام دہی اور رمضان المبارک جیسے افضل مہینے کی آمد پر مسلمانوں کے لیے بھی خصوصی پیکیج کے اعلانات کرتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان بالخصوص کراچی میں اس کے برعکس ہوتا ہے، جہاں رمضان المبارک شروع ہونے سے قبل ہی اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوجاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے ماہِ صیام میں قیمتیں کنٹرول رکھنے کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے، لیکن اس مہینے میں گراں فروشی عام ہوتی ہے۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل یہاں کیا صورتِ حال ہوجاتی ہے، اس کا اندازہ بازاروں میں فروخت ہوتی کھانے پینے کی اشیاء کی بڑھتی قیمتوں کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ 
شہر میں 40 روپے کلو بکنے والی پیاز 80 روپے کلو، ٹماٹر50 سے بڑھ کر 90 تا 120 روپے کلو، ادرک50 روپے پائو سے بڑھ کر 90 روپے پائو، لیموں 45 روپے پائو سے بڑھ کر 70 روپے پائو، جبکہ لہسن 110 روپے کلو سے بڑھ کر 160 روپے کلو ہوگیا۔ مرغی کے گوشت کی قیمت بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے، جس کی قیمت 200 روپے کلو سے بڑھ کر340 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہر سال مارکیٹ مافیا کی جانب سے اسی طرح بڑھائی جانے والی قیمتوں پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، اس بڑھتی مہنگائی پر کسی کی کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اِس سال بھی رمضان المبارک سے قبل مہنگائی نے شہریوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ابھی یہ صورتِ حال ہے، جب رمضان آئے گا تو کیا ہوگا؟ رمضان المبارک کے دوران مشروبات لوگوں کی افطاری کا لازمی حصہ ہوتے ہیں، لیکن ماہِ مقدس سے قبل ہی چینی کی قیمت میں اضافے نے مہنگائی سے پسے عوام کی کمر ہی توڑ دی ہے۔ مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت 15روپے تک بڑھا دی گئی ہے۔ اس اضافے کے ساتھ چینی 70 سے75روپے فی کلو فروخت کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ رمضان میں کثرت سے استعمال ہونے والے سفید چنے کی قیمت میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔
مہنگائی کے اس طوفان نے چنے کی دال کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اور اس کی قیمت میں بھی اچانک اضافہ کردیا گیا ہے اور 100 کلو گرام دال کی بوری پر ایک ہزار روپے بڑھا دیئے گئے ہیں۔
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر اگر انتظامیہ سے بات کی جائے تو اُن کی منطق ہی نرالی ہوتی ہے۔ ان کے بقول رمضان المبارک میں پھل وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں، کسی چیز کی کمی نہیں ہوتی، اگر اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اس کی وجہ عوام کا رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ خریداری کرنا ہے جس سے تاجر فائدہ اٹھاتے ہیں، مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شہری بلاضرورت خریداری نہ کریں، جب خریداری کم ہوگی تو بازاروں میں اشیائے خورونوش وافر مقدار میں موجود ہوں گی، جب مال فروخت ہی نہیں ہوگا تو ایسے افراد جو مارکیٹ مافیا کہلاتے ہیں، کی عقل ٹھکانے آجائے گی، ایسا کرنے سے ہی اس بڑھتی ہوئی مہنگائی سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ملاحظہ فرمایا آپ نے، گراں فروشی کے خلاف کام کرنے والے ادارے کے ایک اہلکار کی جانب سے دیا جانے والا مہنگائی کم کرنے کا فارمولا۔ بات تو ٹھیک ہے، ہماری ہی عقل پر پتھر پڑے ہوئے تھے جو ہم اپنی شکایت لے کر اُن صاحب کے پاس جا پہنچے۔ جس شخص کو ہر شام گھر جاتے ہوئے درجہ اوّل مرغی کا گوشت، موسمی پھلوں اورتازہ سبزیوں سے بھرے تھیلے ملتے ہوں وہ بھلا ہماری بات کیسے سنتا! یہ ہماری ہی غلطی تھی جو ہم ایک ایسے شخص کے پاس اپنی فریاد لے کر جا پہنچے جسے ریٹ لسٹ تو دور کی بات، بازار میں انتہائی مہنگے فروخت ہوتے آلو اورپیاز کی قیمتوں کا بھی اندازہ نہ تھا۔ ظاہر ہے جس کے گھر ہر روز تحفے کے نام پر اشیائے خور ونوش پہنچ جائیں اسے گرانیٔ بازار کی کیا خبر! وہ تو اپنی زندگی میں مست ہوا کرتا ہے، اسے کسی غریب کے حالات کا کیا اندازہ، جس کا اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بھی انتہائی مشکل ہوتا جارہا ہے۔
بازاروں کا سروے کرکے دیکھیے، مہنگائی کی وجہ سے غریب کی زندگی کس قدر اجیرن ہوتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ کراچی کے مضافاتی علاقے کے سبزی بازار میں ایک ٹھیلے سے گلے سڑے ٹماٹر خریدنے والے ساجد کا شمار بھی ایسے افراد میں ہوتا ہے جو انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مارکیٹ سروے کے دوران اُس نے مجھے بتایا کہ مہنگائی ہونے کی وجہ سے وہ کم قیمت پر گلے سڑے ٹماٹر خریدنے پر مجبور ہے۔ اُس کا کہنا تھا کہ ہر چیز پر پیسے بڑھا دیے گئے ہیں، گوشت اور سبزیوں کو تو چھوڑیئے، ہرا مسالہ تک دسترس میں نہیں رہا، ہانڈی تو روز پکانی ہوتی ہے، اس صورت حال میں غریب آدمی کیا کرے! سارا دن مزدوری کرکے جو پیسے ملتے ہیں اس سے دو وقت کی روٹی بھی پوری نہیں ہوتی، اس پر بیماری اور دیگر اخراجات پورے کرنا ناممکن ہوگیا ہے، غریب روز مرتا ہے روز جیتا ہے، بس اچھے حالات کی امید پر ہی وہ جی رہا ہوتا ہے، ہمارے لیے حکمرانوں کے پاس کوئی پالیسی نہیں ہوتی، ہر آنے والا حاکم اپنے ہی لوگوں کو نوازتا ہے، جو امیر ہیں وہ مزید امیر ہوتے جارہے ہیں جبکہ غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے، یہی سب کچھ دیکھتے ہوئے اس عمر کو پہنچ گیا ہوں، لگتا ہے باقی کی زندگی بھی اسی طرح پریشانیوں میں کٹے گی، مجھے یاد ہے کہ ہمارے والد رمضان المبارک آنے سے قبل گھر میں رنگ روغن کرایا کرتے تھے، افطار کے وقت دسترخوان پر مختلف اقسام کے پھل، پکوڑے اور ایک سے زیادہ چٹپٹی ڈشیں ہوا کرتی تھیں، سحری میں دہی کا استعمال کثرت سے کیا جاتا تھا۔ آج سب کچھ ختم ہوگیا۔ اب دسترخوان پر سوائے کھجور کے اور کچھ نہیں ہوتا، بعض اوقات تو پانی کا گھونٹ پی کر ہی روزہ افطار کرنا پڑتا ہے۔
ساجد کی جانب سے کی جانے والی باتیں حقیقت پر مبنی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ماضی میں رمضان المبارک کی آمد سے قبل گھر کے بزرگ ایسی ہی تیاریاں کیا کرتے تھے، اور سحر وافطار میں انواع و اقسام کے کھانے پکائے جاتے تھے۔ مہنگائی نے وہ سب کچھ ختم کرکے رکھ دیا۔ ایک طرف اگر ذخیرہ اندوزوں نے رمضان المبارک کو ’’سیزن‘‘ بنا ڈالا ہے، تو دوسری طرف یہ مہینہ رمضان بازار کے نام پر لگائے جانے والے عارضی بازاروں کی انتظامیہ کے لیے بھی منافع بخش سیزن ہوتا ہے، جہاں لگائے جانے والے عارضی اسٹالوں کو روز کی بنیاد پر کرائے پر دیا جاتا ہے۔ ہر بازار میں سینکڑوں اسٹال لگائے جاتے ہیں، ہر اسٹال کا اپنا ریٹ ہوتا ہے، یعنی فی اسٹال کرائے کی مد میں 500 سے 800 روپے تک وصولی کی جاتی ہے۔ اس طرح مرکزی بازاروں کے درمیان عوامی سہولت کے لیے مختص کیے گئے مقامات اور سڑکوں کے ساتھ بنائے جانے والے فٹ پاتھوں پر لگائے جانے والے ان عارضی بازاروں سے مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر لاکھوں روپے کی دہاڑیاں لگائی جاتی ہیں۔ یہ سارا مال کمانے کا چکر ہوتا ہے۔ زر کی چمک نے اربابِ اختیار کی آنکھوں کو اس قدر خیرہ کردیا ہے کہ انہیں زر کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ بجائے ایسے عناصر کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے، انتظامیہ خود اس مافیا کے ساتھ مل کر سیزن لگانے میں مصروف ہوتی ہے۔
خیر ہمیں اس سے کیا! ہمارے تو چاروں طبق رمضان المبارک سے قبل ملک میں ہونے والی مہنگائی نے پہلے ہی روشن کر رکھے ہیں۔ ہم پر تو ہر آنے والے مہینے کے ساتھ ہی پیٹرول بم گرا دیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ریلوے کے کرایوں میں 19فیصد اور ہوائی جہاز کے کرایوں میں 13.41 فیصد اضافہ ہوا۔ یوں رواں سال مارچ تک مہنگائی کی شرح 6.79 فیصد رہی۔ اس دوران گیس 56 فیصد، ٹماٹر47 فیصد، مٹی کا تیل25 فیصد، پیٹرول 22 فیصد اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں15فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ تعمیراتی سامان و تعلیم11فیصد اور گاڑیاں 12فیصد مہنگی ہوئیں۔ بجلی کی قیمت میں 2.83 فیصد اضافہ ہوا۔
آخر میں بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ حکومت کو ملک میں مہنگائی کی بڑھتی ہوئی ریکارڈ شرح کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ عوام کی فلاح و بہبود اور مفاد کے لیے اس بڑھتی مہنگائی کو سابق حکومت کے کھاتے میں ڈالنے کے بجائے اپنی کارکردگی پر دھیان دیتے ہوئے اسے کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اشیائے ضروریہ مثلاً دالیں، گھی، چینی، گوشت، سبزی اور پھلوں کی قیمتوں میں فوری کمی کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ طلب و رسد کے توازن کو قائم کرنے اور بہتر بنانے کے لیے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی۔ تیل، گیس اور بجلی کی اضافہ شدہ قیمتوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ عوامی نمائندوں کو ساتھ ملا کر محلہ کمیٹیوں کی طرز پر پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی تشکیلِ نو کرنی ہوگی جس میں بلدیاتی اداروں اور سول سوسائٹی کی بھی مناسب نمائندگی ہو۔ اس طرح کے اقدامات کرنے سے ہی بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ حکومت کو یہ بھی یاد رہے کہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، اس سے پہلے ہی ہر صورت میں مہنگائی، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے، بصورتِ دیگر کیے گئے اقدامات بے سود ثابت ہوں گے۔


alibaba

as

ad

web

amazon

Followers

Website Search

Tweet Corornavirus

Please Subscribe My Chennal

Sub Ki News

 
‎Sub Ki News سب کی نیوز‎
Public group · 1 member
Join Group
 
Nasrullah Nasir . Powered by Blogger.

live track

Popular Posts

Total Pageviews

Chapter 8. ILLUSTRATOR Shape Builder & Pathfinder-1

Chapter 10. Illustrator Drawing & Refining Paths-1

Labels