'یہ کیا جاہلانہ تقرب کل اسٹوڈنٹ ڈے کے موقع پر لاہور میں منعقد کی گئی، جس کی نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا سارا دن تشہیر کرتا رہا!
'یہ (سرخے) ہیں کیا اور انکی تاریخ کیا ہے سب سے پہلے یہ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے!
خون آشام (سرخے)
کمیونسٹ بنیادی طور پر خود کو عوام دوست اور غریب پرور گروہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
وہ لوگوں کے معاشی مسائل حل کرنے کے دعویدار ہیں۔
اکثر چیزوں میں سرخ رنگ کو بطور علامت استعمال کرتے ہیں اور "سرخے" کہلاتے ہیں۔
یہ ایک انتہائی مذہب بیراز طبقہ ہے اور انکی اکثریت ملحد ہوتی ہے۔
اپنی امن پسندی کے تمام تر دعوؤوں کے برعکس یہ تحریک خونریز انقلابات پر یقین رکھتی ہے اور فکری طور پر سخت انتشار پسند ہونے کے ساتھ ساتھ جہاں جہاں ان کو کچھ کرنے کا موقع ملا انہوں نے انسانیت کا خون بہایا، اسکی ایک مثال افغانستان ہے۔
70ء کی دہائی میں انہوں نے افغان فوج میں اپنے افکار پھیلانے شروع کیے اور 78ء میں جب انکو مطلوبہ طاقت حاصل ہوگئی تو انہوں نے افغانستان کے صدر سردار داوؤد کو اس کے پورے خاندان سمیت قتل کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
یہ بغاوت اتنی خونریز تھی کہ کابل کے صدارتی محل پر جنگی طیاروں کے ذریعے بمباری کی گئی جس میں خواتین اور بچے بھی مارے گئے، اس کو یہ "ثور انقلاب" کہتے ہیں۔
بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ طاقت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے سردار داوؤد کے حامیوں اور اپنے نظریاتی مخالفین کو چن چن کر قتل کرنا شروع کیا۔
صرف ایک سال 78ء سے 79ء کے درمیانی عرصہ میں انہوں نے 27000 مخالفین کو قتل کیا اور اس سے زیادہ تعداد کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔
اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان (سرخوں) کے بلند بانگ دعوے اور اعلی اخلاقیات دھری کی دھری رہ گئیں۔
جب صرف چند ماہ بعد ہی ان میں اقتدار کے لیے آپس میں ہی رسہ کشی شروع ہوگئی اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کے منصوبے بے نقاب ہونے لگے۔
اس کے نتیجے میں کئی وزراء کو جیلوں میں ڈال دیا گیا حتی کہ انقلاب کے اہم ترین کمانڈر جنرل عبدالقادر بھی قید کر دئیے گئے۔
'جو معاشی خوشخبریاں انہوں نے عوام کو سنائی تھیں ان کی حالت یہ تھی کہ انقلاب کے ایک سال بعد ہی افغانستان کو اپنی 100 سالہ تاریخ کے پہلے قحط کا سامنا کرنا پڑا۔
لوگ اپنی جانوں اور کھانوں سے تو محروم ہو ہی گئے ساتھ ہی اپنا ایمان بھی کھونے لگے، جب انہوں نے ریاستی طاقت کے ذریعے زبردستی اپنے محلدانہ نظریات لوگوں پر مسلط کرنے شروع کیے۔
حتیٰ کہ جھنڈے کا سبز اسلامی رنگ تبدیل کرکے اس کو بھی روس کی پیروی میں سرخ کر دیا۔
(اس تحریک کے سارے لیڈران محلد ہوگئے تھے بشمول حفیظ اللہ امین، ترکئی، ببرک کارمل اور نجیب اللہ وغیرہ) ان سارے عوامل نے ملکر سردار داؤود کے سیکولر نظریات کے خلاف پہلے سے موجود تحریک کو مزید طاقت دی۔
جب اس ظالمانہ حکومت کے خلاف ملک میں جگہ جگہ عوامی بغاوتیں زور پکڑ گئیں تو ان (سرخوں) نے اپنی ہی عوام کے خلاف روس سے مدد طلب کی اور اسکو افغانستان پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی۔
روس جو اسی انتظار میں تھا اپنی 5 لاکھ فوج لے کر افغانستان پر چڑھ دوڑا اوراسکی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
دوسری بار لاکھوں افغانی اس سرخ انقلاب کی بھینٹ چڑھ گئے۔
60 لاکھ افغانیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے اور ان میں سے 30 لاکھ کو اسلامی جمہوریہ پاکستان نے پناہ دی۔
سرخ انقلاب کی بدولت افغانیوں کو جان ، مال اور ایمان کے بعد گھروں سے بھی محروم ہونا پڑا۔
اسی دور میں مشہور کمیونسٹ سیکولر لیڈر ڈاکٹر نجیب کو روس نے (کے جی بی) کے نیچے کام کرنے والی افغان خفیہ ایجنسی "خاد" کا سربراہ بنا دیا۔
ڈاکٹر نجیب کو اسکی بے حسی کی وجہ سے ساتھیوں نے "غوا یا گائے" کا لقب دیا ہوا تھا۔
"خاد" نے ڈاکٹر نجیب کے زیرنگرانی افغانیوں کا قتل عام شروع کردیا۔ افغانیوں کا اتنا قتل عام افغانستان کی تاریخ میں پہلےکبھی نہیں ہوا تھا۔
ڈاکٹر نجیب اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گرفتار ہونے والے افغان لیڈروں
یا سیاسی مخالفین کو خود ٹارچر کرنا پسند کرتا تھا۔
اس نے "خاد" کے ملازمین کی تعداد 30 ہزار تک پہنچا دی اور اسکو روس کا افغانستان میں سب سے مضبوط بازو بنا دیا۔
اسی کارکردگی کی بنیاد پر روسی صدر میخایل گورباچوف کی ذاتی فرمائش پر کارمل کو ہٹا کو نجیب اللہ کو افغانستان کا صدر بنا دیا گیا۔
نجیب اللہ کے صدر بن جانے کے بعد افغانستان میں کرپشن اور رشوت خوری اپنے عروج پر پہنچ گئی۔
روس کی افغانستان میں 5 لاکھ فوج کے ساتھ موجودگی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے خطرے کے گھنٹی تھی، جسکی وجہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان روس کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی مدد کرتا رہا، اس پر سب سے زیادہ تکلیف ڈاکٹر نجیب کو تھی جو اکثر اسلامی جمہوریہ پاکستان سے اس کا بدلہ لینے کی دھمکیاں دیتا رہتا تھا۔
روس کے جانے کے بعد افغانستان کے (سرخے) یتیم ہوگئے۔
عوامی حمایت سے وہ پہلے ہی محروم ہوچکے تھے۔
افغانستان میں جب طالبان کی حکومت آئی تو انہوں نے ڈاکٹر نجیب اللہ کو گرفتار کر کے ٹرک کے پیچھے باندھا اور کابل کی سڑکوں پر گھسیٹا بعد میں اسکو پھانسی پر چڑھا دیا۔
یہ (سرخے) خود کو کامریڈ کہلانا پسند کرتے ہیں۔
بنیادی طور پر اپنی ذات کے اثیر ہوتے ہیں اور نظم و ضبط کی تمام ترصورتوں کو درہم برہم کرکے نئے سرے سے اپنی اپنی خیالی دنیا بسانے کے شوقین، انکی یہ خیالی دنیا ہمیشہ ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے جن کے حقوق کے دعویدار ہوتے ہیں!
کارل مارکس کی نظریات کی نت نئی تشریحات کر کے خوش ہوتے ہیں اور اس پر داد بھی طلب کرتے ہیں (حسب منشاء داد نہ ملے تو ان کے دل بھی ٹوٹ جاتے ہیں)
'اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ حیران کن طور پر بیک وقت تمام قوم پرستانہ تحریکوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔
انہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو تقسیم کرنے والی تمام تحریکوں بشمول جاگ پنجابی جاگ، آزاد بلوچستان، پشتنونستان، سندھ دھرتی ماں، آزاد کشمیر اور مہاجروں سے بیک وقت ہمدردی ہے اور ہر ایک کو الگ الگ قوم پرستی کی پٹیاں پڑھاتے ہیں۔
یہ افغانستان کے "ثور انقلاب" نامی بغاوت کو آج بھی یاد کرتے ہیں (جسکا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے) اسکو مناتے ہیں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ جمہوریت کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔
افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اللہ کے پیروکار اسلامی جمہوریہ پاکستان میں (ٹی ٹی پی) (بی ایل اے) اور دیگر کئی دہشت گرد گروہوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے لیے سپورٹ کر رہے ہیں اور جب کسی تخریب کاری میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو فخریہ اعلان کرتے ہیں کہ 'دیکھا نجیب اللہ نے کہا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جلائی ہوئی آگ ایک دن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اندر جائیگی۔
"میری ذاتی رائے میں یہ جو نظریاتی دنیا بسانا چاہتے ہیں اس کے لیے ان کا تیار کیا گیا فارمولہ تمام انسانوں پر اپلائی ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ انسانوں کی فطرت میں فساد اور خود غرضی پائی جاتی ہے جسکا مظاہرہ خود ان کے اپنے راہنما تک کرتے رہے۔"
'وسائل ہمیشہ انسانوں کی طلب کے مقابلے میں کم ہی رہینگے۔
'ان دونوں مسئلوں کا علاج صرف اور صرف مذہب کے پاس ہے جسکا یہ سب سے پہلے انکار کرتے ہیں۔
"اللہ رب العالمین کی ذات اور آخرت پر غیر متزلزل یقین نہ صرف اخلاقیات اختیار کرنے پر انسان کو مجبور کرتا ہے بلکہ اسکو جو کچھ میسر ہے اس پر قناعت کرنا بھی سکھاتا ہے، اس کے نیتجے میں ہی ایک مطمئن اور پرسکون انسانی معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔"
منظور پشتین کی شکل میں اس وقت تمام (سرخے) دوبارہ کسی خونریز سرخ انقلاب کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
'تاہم اس بار ان کا قبلہ روس نہیں بلکہ امریکہ ہےاور نشانہ افغانستان نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان معلوم ہوتا ہے۔
پر ان شاءاللہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف اٹھنے والی، پلنے والی، پنپنے والی تمام کوششیں اور سازشیں ناکام ہوئی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔
رپورٹ: ہیلپ لائن (786)