My Blogger consists of a general news in which I upload articles from all types of news including science, technology, education, crime, how-to, business, health, lifestyle and fashion.

New User Gifts

تبدیلی تو آئی ہے!


زاہد عباس

’’اب تو مان لو کہ کراچی میں واقعی نوازشریف نے ہی امن قائم کروایا تھا۔ دیکھو، میں ایک عرصے سے کہتا چلا آرہا ہوں کہ یہ نوازشریف ہی ہے جس کی وجہ سے آج کراچی میں روشنیاں لوٹ رہی ہیں، مگر تم ماننے کو تیار نہیں۔ ہمیشہ اس کا کریڈٹ انتظامیہ کو دیتے ہو۔ دیکھو، میری بات سچ ثابت بات ہوئی۔‘‘

’’اس میں بات سچ ہونے کی کون سی دلیل ہے بھائی! امن و امان کے قیام کی ذمہ داری ہمیشہ سے ہی پولیس اور انتظامیہ کی ہوتی ہے، بلکہ ساری دنیا کے ممالک میں امن وامان بحال کرنا سیکورٹی اداروں کا ہی کام ہوتا ہے، اسی لیے میں کہتا رہا ہوں کہ آج بھی میرے نزدیک شہر کراچی کے حالات کی درستی انتظامیہ اور پولیس کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے، یہ بات تم مانو یا نہ مانو۔ تمہارا کام تو بس اپنے لیڈر کی تعریف کرنا ہی رہ گیا ہے، تمہارے قائد نوازشریف میں اگر اتنی صلاحیت ہوتی تو یوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہ ہوتا۔‘‘

’’زمانہ جانتا ہے کہ یہ سیاسی ڈراما ہے۔ جج خود مانتے ہیں کہ میرے قائد پر کسی قسم کی بھی کوئی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ یہ تو سیاست سے کنارہ کروانے یعنی مائنس نوازشریف کے ایجنڈے پر کام کیا جارہا ہے، یا کچھ ایسے کام پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے جن کی راہ میں نوازشریف سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘

’’رہنے دے، رہنے دے میرے بھائی۔۔۔ یہ کرپشن کا معاملہ ہے، قومی خزانے سے اربوں روپے کی ڈکیتی کی گئی ہے، اس کا حساب دینا پڑے گا۔ اب کسی کو سیاسی شہید بننے کی اجازت نہیں دی جائے گی، لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لی جائے گی۔ ماضی میں جب بھی احتساب کی بات کی گئی، جمہوریت خطرے میں پڑ گئی۔ اب اس بلیک میلنگ میں نہیں آیا جائے گا۔ زرداری اور نوازشریف کا سیاسی کیریئر ختم ہوچکا ہے۔ بہت ہوگیا، اب تو پیسے واپس کرنا ہی پڑیں گے۔‘‘

’’یہی تو ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہمارے عوام میں سیاسی شعور نہیں۔۔۔ جس دن بھی عوام میں سیاسی شعور آگیا، سمجھ لینا اُس دن سے ہی جمہوریت کی گاڑی منزل کی طرف گامزن ہوجائے گی۔ 70 برسوں سے یہی کچھ ہوتا چلا آرہا ہے۔ بھائی! جو دِکھتا ہے وہ ہوتا نہیں۔ تمہیں کیا لگتا ہے یہ جو کچھ ہورہا ہے وہ مالی بدعنوانیوں یا کرپشن کا نتیجہ ہے؟ بے شک ہمارے ملک میں کرپشن ہوئی، حکمرانوں نے قومی خزانے کو بڑی بے دردی سے لوٹا۔ رشوت عام ہوئی اور اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا۔ لوگوں پر ظلم کیا گیا، اور جمہوریت کے نام پر اقربا پروری کا نظام نافذ کیا گیا، جس کی وجہ سے غریب غریب تر اور امیر مزید امیر ہوتا چلا گیا۔ جاگیردارانہ نظام مضبوط ہوا۔ پیسے کے بل بوتے پر عوام کے ووٹ خریدے گئے۔ طبقاتی تفریق پیدا کی گئی۔۔۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ، لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ موجودہ حکومت کسی ایجنڈے پر کام کرنے کے لیے لائی گئی ہے۔ اس ساری صورت حال میں کہیں بھی کسی کا بھی لوٹی گئی دولت اورکرپشن سے بنائی جانے والی جائدادوں کو بازیاب کرانے سے تعلق نہیں۔‘‘

’’تم بھی نئے نئے فلسفے پیش کرتے ہو یار۔ بات سیدھی سی ہے، قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کرپشن ہوئی، بدعنوانی کی گئی۔ تم نئی منطق پیش کررہے ہو۔ چھوڑو، اس بحث میں پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ تم یہ بتاؤ کہ کراچی میں کس طرح نوازشریف نے امن کروایا؟‘‘

’’چلو پہلے کراچی کے امن سے متعلق بات کرلیتے ہیں، پھر ملکی سیاست پر بات کرلیں گے۔ تمہارا کہنا ہے کہ یہ امن و امان پولیس اور انتظامیہ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس سے میرے قائد کا کوئی تعلق نہیں۔۔۔ جب کہ شہر کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کراچی میں امن و امان نوازشریف کی وجہ سے بحال ہوا۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے میرے پاس کئی شواہد موجود ہیں، مثلاً نوازشریف نے 1990ء کی دہائی میں بھی کراچی آپریشن کروایا، اسی طرح 2013ء میں اقتدار ملتے ہی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نہ صرف اختیارات دیے بلکہ اس اہم مسئلے پر ذاتی طور پر توجہ دی، جس کی وجہ سے یہاں امن قائم ہوا۔ اگر تمہاری یہ بات مان بھی لی جائے کہ امن وامان بحال کرنا انتظامیہ کا کام ہے تو گزشتہ ماہ سے کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں بتارہی ہیں کہ میرا مؤقف حقیقت پر مبنی ہے۔۔۔ کراچی میں بڑھتی دہشت گردی میری جانب سے کی جانے والی باتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میرا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ کام نہ تو حکومت کا، نہ ہی انتظامیہ کا ہوتا ہے۔۔۔ بلکہ ہمت کا ہوتا ہے، مضبوط اعصاب کا ہوتا ہے اور نیت کا ہوتا ہے۔ دیکھو ماضی میں بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی ہی حکومت تھی، اور اب بھی وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ہی ہیں، جبکہ کراچی پولیس بھی وہی ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی وہی۔۔۔ اگر کہیں تبدیلی آئی ہے تو وہ وفاق ہے جہاں وزیراعظم نوازشریف کی جگہ عمران خان موجود ہیں۔ اس ساری صورتِ حال میں جب تمام محکمے اپنی جگہ موجود ہیں اور وزیراعلیٰ سندھ بھی وہی ہے، کراچی انتظامیہ بھی ویسے ہی متحرک ہے، صرف ایک آدمی کے جانے سے یہاں کے حالات پر پڑنے والا اثر صاف بتا رہا ہے کہ یہاں دہشت گردی کا خاتمہ اور امن و امان کا بحال ہونا میرے قائد کی جانب سے کی جانے کوششوں کی بدولت ہی تھا۔ یہی وہ سچ ہے جس کو ساری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ اگر تم نہ مانو تو تمہاری عقل پر ماتم کرنے کے سوا اور کیا کیا جائے!‘‘

’’تمہاری باتیں سن کر میرا یقین اس حقیقت پر مزید پختہ ہوگیا کہ ہر شخص ہمیشہ اپنے لیڈر اور اپنی ہی جماعت کی ہی تعریف کرتا ہے سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد کا یہی مسئلہ ہے کہ انہیں کسی دوسرے کی جانب سے کی جانے والی کاوشیں نظر نہیں آتی روایتی سیاسی جماعتوں سے منسلک لوگ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں تمہاری حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے اپنے قائد کی محبت میں تم اس قدراندھے ہوچکے ہو کہ تمہیں کسی دوسرے کی جانب سے کیے جانے والے تعمیری کام تک دکھائی نہیں دیتے تمہاری کیفیت ذہنی مریض کی سی ہو چکی ہے تبھی تو تم ایسی باتیں کررہے ہو۔‘‘

’’اندھی تقلید کرنا،شخصت پرستی میں مبتلا ہوجانا یا روایتی سیاست دانوں کے حصار میں پھنس کر حقیقت سے نظریں چرانا جیسے القابات میرے لیے نئے نہیں بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے سے کبوتر بلی کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا مجھ پر تمہاری جانب سے لگائے جانے والے الزامات کوئی حیثیت نہیں، ارے ہمیں کبھی ملک دشمن بتایا گیا تو کبھی گستاخ رسول کہاگیا اپنے سیاسی اور ذاتی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہمیشہ ہی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں اس لیے تمہاری جانب سے دیے جانے والے القابات کی میرے نزدیک کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی ان سے میری صحت پر کوئی اثر پڑے گا،میں یہ جانتا ہوں کہ جو کچھ بھی میں کہہ رہا ہوں وہی حقیقت ہے اوروہی سچ ہے آج نہیں تو کل تم بھی میری باتوں کی تائید کروگے خدا ہمارے شہر کے حالات درست رکھے لیکن دہشت گردی کی حالیہ لہر بتا رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں ضرور کوئی نہ کوئی ایسی کمزوری یا سستی کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے شہر ایک مرتبہ پھر ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں جاتا دکھائی دے رہا ہے،کھیل جیتنے اور ٹیم کی بہترین کارکردگی میں ٹیم کی لیڈد شپ کا بڑا اہم کردار ہوا کرتا ہے اگر کپتان میں صلاحیت موجود ہوں تو ہی کامیابی ملا کرتی ہے بصورت دیگر ہار مقدر ہو تی ہے کسی بھی میدان میں لڑنے کے لیے ٹیم کے کپتان کا اعصابی طور پر مضبوط ہونا ہی کامیابی کی دلیل ہے کراچی شہر میں بڑھتی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ میرے قائد کی دی ہوئی پالیسی کے مطابق ہی آپریشن جاری رکھا جائے تاکہ کراچی کو ایک مرتبہ پھر پر امن اور روشنیوں کا شہر بنایا جاسکے‘‘۔

’’تمہاری منطق بھی خوب ہے نیا فلسفہ بیان کر رہے ہو کسی بھی ذی شعور انسان سے پوچھو وہ جانتا ہوگا کہ پالیسی بنانا فرد واحد کا کام نہیں ہوتا، اس میں کئی ادارے شامل ہوا کرتے ہیں ایسا نہیں کہ کسی بھی ایک شخص کے کہنے پر یا اس کی ذاتی رائے کی بنیاد پر قوانین بنا کر انہیں ملک میں نافذ کردیا جائے اس مسئلے پر باقاعدہ طور پر تھنک ٹینک ہوتے ہیں ذہین لوگوں کا بورڈ تشکیل دیا جاتا ہے، سیاسی مکالمہ ہوتا ہے پارلیمنٹ سے لے کر متعلقہ اداروں کے سربراہان سمیت ہر شخص اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے اورمختلف تجاویز دیتا ہے تب جاکر ہی کوئی بھی پالیسی مرتب کی جاتی ہے اور اس کے بعد اسے ملک میں نافذ کیا جاتا ہے یہ بچوں کے کھیل نہیں کہ تمہارے کہنے سے مان لیا جائے۔‘‘

’’تم مانو یا نا مانو مجھے اس سے کیا! مگر اتنا ضرور بتا دو کہ 2014ء سے لے کر 2018ء تک شہر میں کتنے قتل ہوئے؟ کتنی گاڑیاں چھینی گئیں؟ کتنے اسٹریٹ کرائم ہوئے اور کتنے لوگوں کو بوری بند لاشوں کے تحفے بھجوائے گئے یا کتنے کاروباری لوگوں کو بھتوں کی پرچیاں موصول ہوئیں؟اس کا جواب تمہارا دل بھی نفی میں ہی دے گا یعنی اس دوران جرائم کی شرح انتہائی نچلی سطح تک آپہنچی تھی جو اس بات کی دلیل ہے کہ فرد واحد ہی بہترین ایڈمنسٹریٹر ہوا کرتا ہے۔‘‘

’’اچھا خدا حافظ میں چلتا ہوں تمہارے پاس بے کار اور فضول گفتگو کرنے کے سوا کچھ نہیں تیرے پاس تو بیٹھنا بے کار ہے تجھے اپنے قائد کے علاوہ کوئی دکھائی نہیں دیتا میں تو تیری طبیعت معلوم کرنے آیا تھا یہاں آکر اندازہ ہو کہ تیرے اندر تو زہر بھرا ہوا ہے اور تو اسے نکالنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے تو یہاں بیٹھ کر اپنا جھوٹا فلسفہ بھگارتا رہ میں تو چلا۔‘‘

نسیم صاحب بھی خوب ہیں


زاہد عباس

حنیف بھائی کا بیٹا بہت تیز موٹرسائیکل چلاتا ہے، کل صدر جاتے ہوئے شارع فیصل پر دیکھا تو بڑی حیرت ہوئی، خاصی تیز موٹر بائیک چلاتا جا رہا تھا، گاڑیوں کے درمیان سے ایسے کٹنگ مارتا جیسے موت کے کنویں میں گاڑی چلا رہا ہو، اسے موٹر سائیکل چلاتے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ یہ بہترین کٹنگ ماسٹر ہے۔ ویسے تو لفظ ’کٹنگ‘ کئی جگہ استعمال ہوتا ہے، مجھے یاد ہے کہ امی، باجی سے کہا کرتی تھیں ’’کپڑوں کی کٹنگ سیکھ لو، شادی کے بعد کام آتی ہے، کہاں لوگوں سے اپنے سوٹ سلواتی پھرو گی!‘‘ یعنی یہاں بھی کٹنگ کی ہی بات کی گئی۔ ناصر کی دکان پر جاکر بیٹھو تو ہر دوسرا شخص بالوں کی کٹنگ پر بات کرتا دکھائی دیتا ہے۔ پچھلے دنوں نسیم کا بیٹا کسی انگریز گلوکار کی تصویر ساتھ لایا، بولا ’’ناصر بھائی میرے بالوں کی بھی بالکل ایسی ہی کٹنگ کرنی ہے‘‘۔ کٹنگ یہاں تک ہی محدود نہیں، بلکہ آج کل کے نوجوان تو بازار سے نئی پینٹ لاکر اس پرکٹنگ کرکے مختلف ڈیزائن بنایا کرتے ہیں۔ بات یہیں تک محدود نہیں، بلکہ پودوں سے لے کر آنکھوں تک لفظ کٹنگ اپنی اہمیت ثابت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ بات کٹنگ کی مختلف اقسام پر ہو رہی ہو اور چائنا کٹنگ کی خصوصیات کا ذکر نہ آئے، یہ انتہائی زیادتی ہوگی۔ لہٰذا آنے والی نسلوں کی معلومات میں اضافے اور اپنے ماضی کی یادوں کو تازہ کرنے کی غرض سے اس طریقۂ واردات پر بھی لب کشائی کرلیتے ہیں۔

کراچی کے پرانے علاقوں میں جہاں میدان، اسکول اور پارک کی جگہ تھی، وہاں اب بلند و بالا عمارتوں نے لے لی ہے، جس کے بعد شہرِ قائد کے باسیوں کے لیے تفریحی مقامات نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ حکومت کی نااہلی اور آنکھیں بند کرنے یا پشت پناہی کے باعث سیاسی جماعتوں، اداروں کے افسران، اور کرپٹ مافیا نے شہر کے رفاہی و فلاحی پلاٹ، ریلوے کی اراضی، نالے، فٹ پاتھ بھی فروخت کردیے۔ اس کرپٹ مافیا کا جہاں بس چلا، اپنا ’’کارنامہ‘‘ دکھا دیا۔ فٹ پاتھ سے لے کر کئی ایکڑ زمینیں کوڑیوں کے مول بیچ دیں۔ ان اداروں کی اگر بات کریں تو ماضی میں جب کبھی انہیں کارکردگی ظاہر کرنا پڑی ہے تو ہاتھ صرف اور صرف غریب پر ہی پڑا ہے۔ کھیل کے میدانوں پر قائم کیے گئے شادی ہالز اور عمارتوں کے سامنے قائم پنکچر کی دکانیں یا پان کے کھوکھوں کو اکھاڑ کر یا ان کا سامان ضبط کرکے اخبار میں تصویر چھپوا لی، مگر ان کے عقب میں بیٹھے بڑے مگرمچھوں پر کبھی بھی ہاتھ نہ ڈالا گیا۔ ہاں اگر بات زیادہ بڑھ جائے تو شہر کے سنسان علاقے میں جاکر چار دیواری کو گرا دیا جاتا ہے، اور دو چار دن بعد یہ چار دیواری دوبارہ قانون کا منہ چڑاتے ہوئے عالیشان انداز میں کھڑی نظر آتی ہے۔ یہی تو چائنا کٹنگ کی وہ خصوصیات ہیں جن کی بنیاد پر اس پروجیکٹ نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی۔ تیزی سے ترقی کرتے اس پروجیکٹ کی یہ بھی خاصیت ہے کہ کوئی محکمہ آپ سے کسی بھی قسم کا پنگا لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے جب متعلقہ محکموں کے افسران محکمے سے زیادہ اپنا گھر چلانے کو ترجیح دیں گے تو اسی قسم کے نتائج برآمد ہوں گے۔ 

نسیم صاحب بھی خوب ہیں، بولے: ’’میاں تمہیں کیا تکلیف ہے جو چائنا کٹنگ کے بارے میں مستقل لکھ رہے ہو؟ ارے میاں غریبوں کی بات کرو۔۔۔ جوڑنے کی بات کرو، توڑنے کی نہیں۔ تمہیں یہ گھر کیوں برے لگ رہے ہیں؟ لوگوں کے سروں سے چھت چھیننا اچھی بات نہیں۔ ویسے بھی کون سی حکومت گزری ہے جس نے غریبوں کا خیال کیا ہو۔ اگر کسی نے سستے مکانات دے ہی دیے ہیں تو تمہیں کیا بے چینی ہورہی ہے، کیوں بے کار اور فضول باتیں کرتے ہو؟ عقل استعمال کرو اور ایسی باتیں کرنا چھوڑ دو۔ کسی غریب کی بددعا لگ گئی تو بہت نقصان ہوجائے گا اور مفت میں دشمنی بھی مول لو گے۔ لہٰذا اپنے کام سے کام رکھو۔ اور ویسے بھی تم کون ہو اور تم میں ایسے کون سے لعل جڑے ہیں جن کی بنیاد پر تمہاری باتیں مانی جائیں! جن کا کام ہے انہوں نے یعنی عدالتِ عظمیٰ نے بھی تجاوزات کے خلاف کارروائی کو عارضی طور پر روکنے کے احکامات جاری کیے ہیں، اس معاملے میں سیاسی جماعتوں کا کردار بھی قابلِ تحسین ہے، جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا اس بارے میں واضح مؤقف ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کے حقوق کا نہ صرف تحفظ کرے گی بلکہ اس آپریشن کے خلاف عدالت میں پٹیشن بھی داخل کرے گی۔ جب کسی کو کوئی اعتراض نہیں تو تمہیں مخالفت کرنے کی کیا پڑی ہے!‘‘ 

اب نسیم صاحب کی باتوں پر سوائے ہنسنے کے کیا کیا جاسکتا ہے! انہیں اتنی خبر بھی نہیں کہ بات کس پیرائے میں کی گئی ہے۔ جو منہ میں آیا بغیر سوچے سمجھے بول دیا۔ نسیم صاحب باتوں سے دکان دار کم، چائناکٹنگ کے بروکر زیادہ دکھائی دے رہے تھے، جو چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے دیئے گئے فیصلے کو اپنے ذہن کے مطابق معنی پہنا کر مسلسل بولے جارہے تھے۔ اُن کی جانب سے یہی اصول حافظ نعیم الرحمن کے بیان سے متعلق بھی تھا۔ خیر، خاصی دیر اُن کی باتیں سننے سے میرے پیٹ کا مروڑ بڑھنے لگا، اس سے پہلے کہ وہ اپنی اس فضول گفتگو کو مزید طول دیتے، میں نے انہیں روکتے ہوئے کہا:

’’جناب آپ جو کچھ بھی فرما رہے ہیں وہ حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ کراچی میں کی جانے والی چائنا کٹنگ کی مخالفت اور مختلف قبضہ مافیا کی جانب سے کیے جانے والے غیر قانونی اقدامات پر میری جانب سے لکھے جانے والے مضامین کے خلاف بات کرنے سے پہلے یہ ضروری تھا کہ آپ ان حقائق کو دیکھ لیتے جن کی بنیاد پر میں مسلسل کراچی کے اس مسئلے پر لکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ میں کراچی کا بیٹا ہوں، اس لیے میرا فرض ہے کہ یہاں کی ایک ایک انچ زمین کا محافظ بنوں، کسی کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ میری زمین پر ناجائز قبضہ کرسکے، یہ میری ذمہ داری ہے کہ اپنے اطراف ہونے والے ہر اُس غیر قانونی عمل کی مزاحمت کروں بلکہ شدید مخالفت کروں جو میرے شہر کی خوبصورتی پر بدنما داغ بن رہا ہو۔ میں ہمیشہ اس قبضہ مافیا کے خلاف لکھنے کی بھرپور کوشش کرتا رہوں گا۔ جہاں تک چیف جسٹس آف پاکستان کے اس فیصلے کا تعلق ہے جس کی مثال نسیم صاحب نے دی، یا ان کی جانب سے کی جانے والی بات کو اپنے معنی پہنانے کی کوشش کی اُس مکالمے کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے کہا ’’ہم نے کراچی میں غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کارروائی کا حکم دیا، یہاں امن وامان کی صورت حال خراب ہوگئی، کیا اس طرح غیر قانونی قابضین کو چھوڑ دیں؟ لوگ احتجاج شروع کردیں تو کیا حکومت کی رٹ ختم کردیں؟ قبضہ مافیا کے سامنے سر جھکا دیں؟ کراچی کو اسی طرح رہنے دیں؟ ہم کراچی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں مگر آپ لوگوں کو مسئلہ ہے، مصلحت آڑے آرہی ہے۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ میئر کراچی نے اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے!‘‘

چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’جو فیصلے ہم نے دیئے تھے ان پر عمل درآمد ہورہا ہے اور آپ کو اور وفاقی حکومت کو پریشانی لگی ہے۔ ہمیں قانون کی بالادستی چاہیے‘‘۔ میئر کا کہنا تھا کہ ہم عمل درآمد کررہے ہیں لیکن درخواست ہے کہ رہائش گاہوں کو نہ توڑا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے گھروں کو توڑنے کا حکم نہیں دیا۔ ہم نے حکم دیا ہے جس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ غیر قانونی طور پر بنائی جانے والی عمارتوں کے خلاف کارروائی جاری رکھی جائے، غیر قانونی تجاوزات کے خلاف آپریشن کا تسلسل نہیں ٹوٹنا چاہیے، مافیا کے سامنے سر نہیں جھکایا جائے، لوگوں کی بحالی اور متبادل جگہیں دینا حکومت کا کام ہے، یہ تمام تر ذمہ داری صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

اسی طرح جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن کی مخالفت نہیں کررہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی کا یہ بھی کہنا تھا کہ جماعت قبضہ مافیا کے ساتھ کبھی کھڑی نہیں ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ناجائز تعمیرات کی آڑ میں جائز طور پر قائم عمارتوں کے خلاف کارروائی پر جماعت اسلامی آواز بلند کرتی رہے گی اور کسی بھی ایسے عمل کا حصہ نہیں بنے گی جس سے غریبوں کو بے گھر کیا جائے۔

بات بالکل صاف ہوگئی۔ کراچی میں قبضہ مافیا کی جانب سے کی جانے والی چائنا کٹنگ، فٹ پاتھوں پر قبضہ، پارکوں اور رفاہی پلاٹوں پر قائم عمارتوں کے خلاف کیے جانے والے اقدامات یہاں کے رہنے والوں کے دل کی آواز ہیں۔ لہٰذا نسیم صاحب جیسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل سے اس مافیا کا ساتھ دینے کے بجائے کراچی کے وارث بنیں، تاکہ کراچی پھر سے روشنیوں کا شہر بن سکے۔

کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے



زاہد عباس

’’یہ کیا ڈرامے بازی ہے، گندے پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے پورے علاقے کا ہی پانی بند کردیا ہے! ہم بے وقوف نہیں جو تمہاری چالاکیوں میں آجائیں۔ ہر دوسری سڑک کھود کر کیا بتانا چاہتے ہو! پچھلے مہینے سے یہی رونا دھونا لگا ہوا ہے۔۔۔ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔۔۔ انسانیت نام کی کوئی چیز ہے تم میں! کہاں ہے تمہارا صاحب جس نے یہ قیامت ڈھا رکھی ہے؟‘‘

’’آپ پریشان نہ ہوں، آپ کے مسئلے پر ہی کام کررہے ہیں، تھوڑا سا وقت دیں سب ٹھیک ہوجائے گا، یوں لڑنے جھگڑنے سے کیا حاصل ہوگا!‘‘
’’آواز بند کرو اپنی۔۔۔ ایک تو یہ وقت مانگنے کا عجیب دور آگیا ہے، ہمارے حکمران ہوں یا کوئی ادارہ، ہر کوئی بس یہی کہتا دکھائی دیتا ہے کہ تھوڑا سا وقت دے دو۔ علاقے میں پانی کی سپلائی منقطع ہوئے ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے، بجائے مسئلہ حل کرنے کے، باتیں بنا رہے ہو! اور کتنا وقت درکار ہے تم کو؟ خدا کا خوف کرو۔ گھروں میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے ٹینکر مافیا کے متھے لگنا پڑ رہا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں ہزاروں روپے دے کر ٹینکر ڈلوانے پڑرہے ہیں، اور تم کہتے ہو کہ تھوڑا سا وقت دے دو۔۔۔!‘‘

’’آپ تو خوامخواہ غصہ کر رہے ہیں دیکھیے یہاں پر بحث کرنے سے کوئی فائدہ نہیں یقین جانیے آپ کا ہی کام ہو رہا ہے پانی کی سپلائی پیچھے سے ہی نہیں ہے ہماری مجبوری ہے ہم کیا کریں ہر دوسرا آدمی آکرہم سے لڑنے کھڑا ہو جاتا ہے خدارا ہمیں کام کرنے دیں۔‘‘

’’کیا کام کر رہے ہو جب سے میں دیکھ رہا ہوں یہاں بیٹھے باتیں ہی کیے جا رہے لوگ گھروں میں پیاسے مر رہے ہیں اور تم ہو کہ بات تک سننے کو تیار نہیں! تم سب لوگ کرپشن کرتے ہو، پورا محکمہ ہی کرپٹ ہو چکا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں، اگر میرے ہاتھ میں ہو تو میں تمہاری نوکریاں ختم کر دوں گا۔‘‘

’’انکل جاؤ یہاں سے، ہماری جان چھوڑو نہ جانے کہاں سے دماغ خراب کرنے آجاتے ہیں، ایسے لوگوں کی شکل دیکھ لو تو سارا دن ہی خراب گزرتا ہے، لگتا ہے آج بھی یہی ہو گا۔‘‘

’’اوئے ہوش کر ہوش، تمیز سے بات کر تو، مجھے جانتا نہیں تیرے جیسے سینکڑوں لوگ میں اپنی جیب میں لیے گھومتا ہوں، تیری اوقات ہی کیا ہے، لائن مین ہے تو لائن مین بن کر ہی رہ، زیادہ افسری نہ جھاڑ ورنہ اچھا نہیں ہو گا، دو دو ٹکے کے لوگ ہیں زبانے دیکھو ان کی، گز گز بھر کی بڑھا رکھی ہیں، اگر میں اپنی پر آگیا تو گدی سے زبان کھنچ کر تیرے ہا تھ میں دے دوں گا۔‘‘

’’انکل چھوڑیے جانے دیں غریب آدمی بے چارہ، اس کا کیا قصور ہے، یہ سارا بیگاڑ تو اس محکمے کے افسران کا پھیلایا ہوا ہے، اس سے بحث کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔‘‘


’’ارے بیٹا تم ان کو نہیں جانتے، یہ بھی ملوث ہیں سبھی چور ہیں صنعتی علاقوں میں پانی کی سپلائی دے کر بھتہ یہی لوگ تو وصول کرتے ہیں تم ان کو معصوم نہ سمجھوں یزیدی ہیں بے ایمان کہیں کے!‘‘

’’ یار ان کو یہاں سے لے جا! ورنہ جھگڑا ہو جائے گا، دیکھ اب یہ ذاتیات پر اتر رہے ہیں، یہ اچھی بات نہیں میں نے بھی چوڑیاں نہیں پہنی ہوئی، جو ان کی باتیں سنتا رہوں، ہر شخص کی عزت ہوتی ہے، ان کے منہ میں جو آرہا ہے بولے چلے جا رہے ہیں، بہت برداشت کر لیا اب کچھ اور نہیں سنو گا۔‘‘
’’چھوڑ بھائی جانے دے عمر میں بڑے ہیں ایسی بات نہ کرجس سے تیری ہی بدنامی ہو تو ان کی طرف توجہ نہ دے اپنا کام کر۔‘‘

’’کیا خاک کام کروں صبح سے ہی متھا پینے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، میں عزت سے بات کیے جا رہا ہوں اور یہ اپنے آپ کونہ جانے کیا سمجھ رہیں ہیں۔‘‘

’’تو کیا کرے گا، تیرے جیسوں سے تو میں اکیلا ہی نمٹ لوں گا، تجھ میں ہمت ہے تو آ دیکھ تیرا کیا حال کرتا ہوں۔‘‘ 

’’انکل جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔‘‘

’’ابے نہیں جاتا کیا کر لے گا تو؟‘‘

’’بتاؤ کیا کر سکتا ہوں۔‘‘

’’اوے اوے شرم کر بزرگ ہیں۔‘‘

’’جائیں انکل آپ جائیں میں دیکھ لیتا ہوں، میرا یقین کرو میں اس مسئلے کو ٹھیک کرواتا ہوں آپ گھر جائیں۔‘‘

’’اچھا بیٹا تو کہہ رہا ہے تو چلا جاتا ہوں ورنہ آج میں اسے نہیں چھوڑتا۔‘‘

وحید بھائی نے بیچ میں مداخلت کرکے لانڈھی 36 بی کی سڑک پر کمال صاحب کا لائن مین سے ہوتا جھگڑا تو ختم کروا دیا لیکن پانی کا مسئلہ حل نہ ہو سکا، ہوتا بھی کیسے! بقول کمال بھائی، اس محکمے کے سارے ہی لوگ کرپشن میں ملوث ہیں، بات تو ٹھیک ہی ہے وگرنہ کراچی کے مکینوں کو ہر آنے والے دن کے ساتھ پانی کی کمی کا یوں سامنا نہ کرنا پڑتا، ویسے تو یہ مسئلہ سارے ہی ملک کا ہے جس کی طرف کسی حکومت نے کبھی بھی سنجیدگی سے کوئی توجہ نہ دی، مسئلے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اخبارات میں آتی رپورٹس کے مطابق پاکستان پانی کی شدید قلت سے دوچار ہوتا جارہا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے ناتے پاکستان کے لیے بوند بوند پانی کی اہمیت ہے۔ لیکن بڑھتی ہوئی آبادی، شہروں کی طرف نقل مکانی، موسمیاتی تبدیلیوں اور حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں نے پاکستان کو پانی کی شدید قلت کے شکار ممالک کی فہرست میں لاکھڑا کیا ہے۔ پاکستان کے تین بڑے آبی ذخائر منگلا، تربیلا اور چشمہ ڈیم میں صرف 60 سے 90 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت باقی رہ گئی ہے، حالانکہ عالمی معیار کے مطابق کم از کم ایک سو بیس دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ دوسری جانب ترقی یافتہ ممالک ایک سے دو سال کے لیے بآسانی پانی ذخیرہ کررہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے پاس دو سو بیس دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے، جبکہ جنوبی افریقہ پانچ سو دن تک پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش رکھتا ہے۔ آسٹریلیا چھ سو دن جبکہ امریکہ نو سو دن کا پانی ذخیرہ کررہا ہے۔ مصر ایک ہزار دن کا پانی صرف ایک دریائے نیل سے ذخیرہ کررہا ہے، مگر پاکستان میں دریاؤں کا بہ مشکل 10فیصد پانی ہی ذخیرہ ہوپاتا ہے۔ ملکی دریاؤں میں آنے والے پانی کا 28 ملین ہیکڑ فٹ سے زائد ضائع ہوکر سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ہمارے دریاؤں میں 144ملین ہیکڑ فٹ پانی آتا ہے جس میں سے صرف 13.8 ملین ہیکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہوتا ہے، اور اگر کبھی بارشیں زیادہ ہوجائیں تو اضافی پانی ہمارے لیے سیلاب کی صورت حال پیدا کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں آنے والے سیلابوں سے 38 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔



مارچ 2012ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ورلڈ واٹر ڈے رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ ممالک میں پاکستان نویں نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ بھارت اور افغانستان کے ڈیم بنانے کے جاری منصوبے بھی پاکستان کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ دنیا کی آبادی 1927ء میں صرف دو ارب تھی جو کہ 2011ء میں بڑھ کر سات ارب ہوکر ہوچکی ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050ء میں یہ آبادی 9.3 ارب تک پہنچ جائے گی، جس کے لیے صاف پانی کے مزید ذخائر کی ضرورت ہوگی۔ عالمی ادارۂ خوراک کے مطابق 2050ء تک آبادی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے خوراک کی پیداوار میں 70فیصد اضافہ ناگزیر ہوگا، جبکہ عالمی واٹر ریسورسز گروپ کے اندازوں کے مطابق تازہ اور صاف پانی کے ذخائر میں اضافہ ازحد ضروری ہے۔ اندیشہ ہے کہ 2025ء تک 3 ارب لوگ پانی جیسی نعمت کی کمی کا شکار ہوں گے جن میں ایشیائی اور افریقی ممالک کے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی۔ ماہرین کے مطابق پاکستان 2030ء تک پانی کی شدید قلت کے شکار تیس ممالک کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے۔ اس وقت پاکستان اس حوالے سے 36 ویں نمبر پر ہے۔ امریکی ادارے ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق پاکستان میں 60 سال پہلے فی فرد سالانہ 50 لاکھ لیٹر پانی دستیاب تھا، جو کہ اب 5گنا کمی کے بعد فی فرد10 لاکھ لیٹر رہ گیا ہے۔ اس کے باوجود افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں پانی ضائع کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اس کا سیدھا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم نے اپنی یہ روش برقرار رکھی تو 2025ء تک ہم اس فہرست میں پہلے نمبر پر آجائیں گے۔ اب یہ مسئلہ کون حل کرے؟ اگر ہم کو زندگی معمول کے مطابق رواں دواں رکھنی ہے تو پینے کے صاف پانی کو بچانا ہوگا جس کے لیے پانی کے گھریلو،,زرعی اور صنعتی استعمال میں سائنسی اندازِ فکر اپنانا ہوگا۔ پانی کے دستیاب وسائل کی حفاظت کے ساتھ ساتھ بے ہنگم طور پر زیر زمین پانی کی نکاسی پر پابندی عائد کرنا ہوگی، کیونکہ ہمارے ہاں زیر زمین پانی نکالنے کا کوئی باضابطہ اصول موجود نہیں، جس کا جب جی چاہے زمین سے پانی نکال سکتا ہے۔ میٹھے پانی کے غیر انسانی استعمال سے متعلق بھی طریقہ کار طے کرنا ہوگا۔ گاڑیوں اور گھروں کی غیر ضروری دھلائی پر مکمل پابندی عائد کرنا ہوگی۔ صنعتی، زرعی اور گھروں کے سیوریج کے پانی کو میٹھے پانی میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے سپلائی لائنوں کو ٹھیک حالت میں رکھنا ہوگا۔ گٹر لائن سے ملنے اور رِسنے سے بچانا ہوگا۔ زیادہ پانی استعمال کرنے والی فصلوں اور سیلابی پانی سے متعلق سخت قوانین بنانے ہوں گے اور ایسی فصلوں کی کاشت کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی جن میں پانی کم سے کم درکار ہوتا ہے۔ فوری طور پر ایسے امور پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی جن کی وجہ سے بارش کے پانی سے کاشت کاری کی جاسکے۔ ہمارے ملک میں زرعی مقاصد کے لیے 70 فیصد سے 94 فیصد تک میٹھا پانی استعمال ہوتا ہے۔ جدید طرز اپنانے سے یہ شرح پچاس فیصد تک آسکتی ہے۔ سب سے زیادہ توجہ آلودگی کے خاتمے، موسمی تغیرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر دینا ہوگی تاکہ حد سے زیادہ بلند ہوتی سمندری سطح پر جلد از جلد قابو پایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں پانی کے استعمال سے متعلق عوام کے رویوں میں بھی مثبت تبدیلی لانے کے لیے ہر سطح پر مؤثر اور بھرپور آگہی مہم چلانے کی بھی ضرورت ہے۔ خاص طور پر چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی جانب سے چلائی جانے والی دیامر بھاشا ڈیم مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا، تاکہ جلد سے جلد اس بڑے منصوبے کی تکمیل ہوسکے۔ ایسے اقدامات کو عملی جامہ پہنا کر ہی ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے قدرت کی اس نعمت اور بنیادی ضرورت پانی کو بچا سکتے ہیں۔

زرینہ کا بیٹا مال کما رہا ہے


زاہد عباس


’’زرینہ کے تو دن ہی پھر گئے ہیں، اس کے بیٹے کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے۔‘‘
’’مثال تو ٹھیک طرح سے دو۔ یہ ’سر کڑھائی میں ہے‘ کا کیا مطلب؟‘‘
’’میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ زرینہ کا بیٹا آج کل خوب مال کما رہا ہے۔‘‘
’’کون سا بیٹا؟‘‘
’’ارے وہی مشتاق… تیسرے نمبر والا۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو؟ وہ تو بہت کام چور اور فاقہ مست ہے، ہمیشہ بے روزگاری کا ہی رونا روتا رہتا ہے، اس میں ایسی کون سی خوبی آگئی ہے جس کی وجہ سے وہ مال کما رہا ہے!‘‘
’’ارے نہیں بھئی، اب تو وہ روز تھیلے بھر بھر کے گھر میں لاتا ہے۔ جس دن سے اُس کا کام چلا ہے زرینہ کے تو مزاج ہی وکھرے ہوگئے ہیں، روز مارکیٹ جارہی ہے اور ایک سے ایک سوٹ خرید کر لا رہی ہے۔ کل تو ’’کھادی‘‘ کا تھری پیس سوٹ لائی ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ جس نے کبھی ڈھنگ کی لان نہیں پہنی تھی اب وہ اعلیٰ برانڈ کے کپڑے سلوا رہی ہے۔‘‘
’’تم عورتوں کا بھی عجیب حال ہے، پوچھو کچھ اور جواب کچھ دیتی ہو۔ میں نے اس لڑکے کے کام کے بارے میں پوچھا تھا اور تم کھادی اور لان کے جوڑوں کی کہانی لے بیٹھی ہو۔‘‘ 
’’اوہو! کیا ہوگیا ہے میرے دماغ کو… بتانا تو اُس کے کام سے متعلق ہی چاہتی تھی، نہ جانے یہ کپڑوں کا ذکر درمیان میں کہاں سے آگیا۔ ارے وہ کون سا افسر لگا ہے! ویلڈنگ کا کام کرتا ہے۔ پہلے تو کبھی کام ہوتا تھا اور کبھی نہیں۔ اب نہ جانے کہاں سے اتنا کام آگیا کہ ساری ساری رات گھر نہیں آتا، اوورٹائم لگا کر ہزاروں روپے کما رہا ہے۔‘‘
’’اچھا اچھا تو یہ بات ہے، میں ساری بات سمجھ گیا ہوں، اگر وہ ویلڈر ہے تو واقعی اس کے پاس ٹائم نہیں ہوگا۔ کراچی میں جب سے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن شروع ہوا ہے اور دکانداروں کو چھپرے ہٹانے کے نوٹس جاری ہوئے ہیں، اسی دن سے ویلڈروں کی چاندی ہوگئی ہے، یہ تو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’ارے ناجائز تجاوزات کے خلاف کارروائی کے تحت لوگوں کی دکانوں پر لگے بل بورڈز اور چھپروں کو ہٹایا جارہا ہے۔ ظاہر ہے جب سارے شہر میں لگے لوہے سے تیار کردہ لاتعداد سائن بورڈز غیر قانونی تعمیرات یا تجاوزات کے زمرے میں آجائیں گے تو انہیں ہٹانے کے لیے کاریگروں کی ہی ضرورت پڑے گی، اور یہ کام ویلڈر سے بہتر بھلا کون کر سکتا ہے! بس اسی لیے زرینہ کے بیٹے کی خوب دیہاڑیاں لگ رہی ہیں۔‘‘
’’اچھا تو یہ بات ہے… اب سمجھ میں آیا کہ زرینہ کیوں ہواؤں میں اڑتی پھر رہی ہے!‘‘
’’لیکن حکومت کی جانب سے غیرقانونی تجاوزات کے خلاف کی جانے والی کارروائی تو اچھا اقدام ہے۔‘‘
’’برساتی نالوں، پارکوں، کھیلوں کے میدانوں اور رفاہی پلاٹوں پر ناجائز طور پر کی گئی تعمیرات غیر قانونی ہیں، سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق ایسے تمام قبضہ مافیا کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیے، لیکن اس آپریشن کے نتیجے میں ہزاروں لوگوں کا بے روزگار ہوجانا بھی انتہائی تشویش ناک ہے۔‘‘
’’پہلے آپ کہا کرتے تھے کہ شہر میں بہت زیادہ غیر قانونی تعمیرات ہورہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں، فٹ پاتھ پر کاروبار ہورہے ہیں چلنے کی جگہ نہیں، نالوں پر دکانیں بنا لی گئی ہیں، اگر برسات ہوگی تو سارا علاقہ ڈوب جائے گا… اب اگر حکومت عملی طور پر کچھ کررہی ہے تو اس پر بھی طرح طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ واقعی کسی نے صحیح کہا ہے کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔‘‘
’’میں نے یہ کب کہا کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے! میں تو خود کہہ رہا ہوں کہ حکومت کی جانب سے اٹھایا جانے والا یہ قدم قابلِ تعریف ہے۔ میری تو صرف اتنی سی گزارش ہے کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن کے نام پر لوگوں کی جائز تعمیرات کو مسمار نہ کیا جائے۔‘‘
’’ کس کی دکان جائز طور پر تعمیر شدہ ہے اور کس کی غیر قانونی تعمیرات کے زمرے میں آتی ہے، اس کے بارے میں زیادہ بہتر متعلقہ محکمے ہی جانتے ہیں۔ ان کے پاس باقاعدہ سارے شہر کے نقشے موجود ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کس علاقے، کون سے بازار اور کہاں کے گلی محلّوں میں قبضہ مافیا کی جانب سے کب اور کیسے غیر قانونی تعمیرات کی گئیں، لہٰذا جو جس کا کام ہے اسی کو کرنے دو، اپنے مشورے اپنے پاس ہی رکھو۔‘‘
’’تم خوامخواہ بات کو لمبا کیے جا رہی ہو، مجھے معلوم ہے یہ کام متعلقہ محکموں کا ہی ہے، اور میں کون سا اُن کو مشورہ دے رہا ہوں! لیکن غلط کو غلط کہنا کوئی جرم نہیں۔ تم نتھو کی ہی مثال لے لو، وہ گزشتہ 60 سال سے اپنا کاروبار کررہا تھا، یکدم ایک نوٹس کے ذریعے اس کا برسوں سے قائم کاروبار ختم کردیا گیا۔ کے ایم سی کی جانب سے جاری کردہ دستاویزات رکھنے کے باوجود اس کی ایک نہ سنی گئی، وہ کبھی اِس دفتر تو کبھی اُس دفتر کے چکر کاٹنے پر مجبور ہے لیکن کوئی بھی اس کی فریاد سننے والا نہیں۔ میں نے خود اس کے پاس وہ دستاویزات دیکھی ہیں۔ اینٹی انکروچمنٹ سیل ناخدا بنا بیٹھا ہے، کسی کی سننے کو تیار نہیں۔ بھاری مشینوں کے ذریعے لوگوں کی املاک کو تباہ کیا جارہا ہے، سارے شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا ہے، جہاں جاؤ تعمیراتی ملبے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ اگر یہ تبدیلی ہے تو خدا ایسی تبدیلی سے محفوظ رکھے۔‘‘
’’کون سی بات لے کر بیٹھ گئے، ہمیں اس سے کیا، جس نے کھائیں گاجریں، پیٹ میں درد بھی اسی کے ہوگا۔ کسی کی وکالت کرکے تم اپنا خون کیوں جلا رہے ہو؟‘‘
’’میں کسی کی طرف داری نہیں کررہا، میں تو اصولی بات کررہا ہوں۔ غیر قانونی تعمیرات کے نام پر مخصوص جگہوں کو نشانہ بنانے سے انتہائی خطرناک صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ پہلے ہی خدا خدا کرکے امن بحال ہوا ہے، اس قسم کی کارروائیوں سے لوگوں میں احساسِ محرومی بڑھے گا… اور کون نہیں جانتا کہ دشمن اسی انتظار میں بیٹھا ہے۔ کوئی بھی اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ ایسی صورت میں تنگ آمد بہ جنگ آمد کے کلیے کو ہی تقویت ملے گی۔چونکہ میں کراچی کے رہنے والوں کی نفسیات سے اچھی طرح واقف ہوں اس لیے یہ بات کہہ رہا ہوں۔ نفسیات کو جاننے سے میری مراد یہ ہے کہ یہاں کے رہنے والوں نے گزشتہ تیس برس اذیت ناک زندگی بسر کی ہے، ان پر بہت ظلم ہوئے ہیں، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کسی ادارے نے بھی عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بجلی، گیس، پینے کا صاف پانی، صحت و تعلیم سمیت ہر ادارہ اپنے فرائض سے غفلت برتتا رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں لوگوں کو اُن کے روزگار سے بے دخل کرنا آتش فشاں سے کم نہیں۔ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، کراچی کو نقشے کے مطابق پرانی حیثیت میں لانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے بھی مجھے کوئی اختلاف نہیں، لیکن یہ بات بھی تو سچ ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے جہاں دہشت گردی، بھتہ خوری اور قتل وغارت گری کا راج رہا ہو، جہاں ردالفساد آپریشن کے تحت بحالیِ امن کے لیے کیے جانے والے آپریشن میں قانون نافذ کرنے والے ادارے عظیم کامیابیاں حاصل کررہے ہوں ایسے علاقے حالتِ جنگ میں ہوا کرتے ہیں… اور جو علاقے حالتِ جنگ میں ہوں وہاں غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں سمیت تمام اقدامات وہاں بسنے والوں کے مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنے سے ہی اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں، بصورتِ دیگر اچھے نتائج کا حصول ناممکن ہوتا ہے۔‘‘
’’مجھے یہ لیکچر کیوں دے رہے ہو؟ نہ میں نے کہیں قبضہ کیا ہے، نہ ہی خریدوفروخت… اور میرے پاس ایسا کوئی اختیار بھی نہیں جس کے تحت قابضین سے جگہیں واگزار کروا سکوں۔‘‘
’’یہی حیثیت میری بھی ہے، میں بھی تیس مار خان نہیں ہوں، لیکن ملکی سیاست اور خاص طور پر اپنے شہر کے حالات پر بات کرنا کوئی جرم نہیں، اس سے معلومات میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ یہ ہمارا ملک ہے، یہاں کی صورتِ حال پر بات کرنا ہمارا حق ہے۔ اگر ہم کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم ہمیں ہمیشہ اچھے کی دعا تو کرنی چاہیے۔‘‘
………
غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ہونے والے آپریشن کے باعث کراچی کے شہریوں میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے، ہر آنے والے دن کے ساتھ افواہوں کا بازار گرم ہورہا ہے۔ لوگ بے یقینی کی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہیں۔کوئی محفل ایسی نہیں جہاں تجاوزات کے خلاف کیا جانے والا آپریشن موضوعِ بحث نہ ہو۔ کراچی کے مرکزی بازاروں اور محلوں کے چھوٹے دکان داروں سمیت کاروبار سے منسلک ہر دوسرا شخص خوف زدہ دکھائی دیتا ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کارروائی کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ بے شک شہر سے غیرقانونی املاک کا ہٹایا جانا اچھا قدم ہے۔ کسی بھی علاقے کی خوبصورتی بحال رکھنے، شاہراہوں اور فٹ پاتھوں کو قبضہ مافیا سے آزاد کرانے کے لیے اس قسم کے اقدامات خوش آئند ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ضروری ہے کہ حکومت آپریشن سے پیدا ہونے والی بے یقینی کی کیفیت اور تیزی سے پھیلنے والی افواہوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال پر بھی توجہ دے تاکہ کراچی کو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث افراد کی شرارت سے محفوظ رکھا جا سکے، ساتھ ساتھ چائنا کٹنگ میں ملوث افراد کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے جنہوں نے نہ صرف شہر کی مرکزی شاہراہوں بلکہ کھیل کے میدانوں کو مالِ غنیمت سمجھ کر فروخت کر ڈالا ۔یہی وہ قومی مجرم ہیں جن کی وجہ سے آج ہماری نوجوان نسل خوبصورت پارکوں سے محروم ہے۔ بے شک غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن قانونی طور قائم املاک کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔ آپریشن کے متاثرین کے لیے خصوصی پیکیج کے اعلان سمیت کاروبار کے لیے متبادل جگہوں کا بندوست کرنا بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے فوری طور پر اس اہم مسئلے کی جانب توجہ مرکوز کرنے سے ہی بہتر نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔

تیرے علاقے میں تو پانی آتا ہے


زاہد عباس

’’جس دن سے یہ نیا ایکسین آیا ہے اس نے سارے علاقے کو کوفے میں تبدیل کردیا ہے۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’وہی پانی کا رونا۔‘‘
’’لیکن تیرے علاقے میں تو اچھا خاصا پانی آرہا ہے، میں نے خود لوگوں کو گھروں سے باہر چھڑکاؤ کرتے دیکھا ہے۔ جس گلی میں جاؤ، موٹریں چل رہی ہوتی ہیں۔ اگر کوفہ بنایا ہے تو پھر یہ پانی کہاں سے آرہا ہے؟‘‘
’’او بھائی! تجھے یہ موٹریں چلتی نظر آرہی ہیں، کسی کے گھر سے ایک گلاس پانی پی کر دیکھ، پتا چل جائے گا کہ اس نے کون سی سائنس اپنائی ہے۔ یہ بہت چالاک آدمی ہے، کسی سیاست دان سے کم نہیں۔‘‘
’’کیا فضول باتیں کیے جارہا ہے کہ چالاک ہے، کسی سیاست دان سے کم نہیں۔۔۔ بھائی! اگر پانی نہیں آتا ہے تو لوگ خوامخواہ اپنے گھروں میں موٹریں کیوں چلاتے رہتے ہیں؟ کیا انہیں میوزک سننے کا شوق ہے یا بجلی فری ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے ان کا یہ مشغلہ بن گیا ہے؟‘‘
’’بزرگوں نے صحیح کہا ہے ’’خاصاں دیاں گلاں عاماں چے نئی کیتیاں جاندیاں‘‘، یعنی ہر بات ہر ایک کے سامنے نہیں کرنی چاہیے۔ اب میں تجھے اس کی کیا کیا ہوشیاریاں بتاؤں، ایک نمبر کا ڈھیٹ انسان ہے۔ جو چاہے کہتے رہو، کسی کی بھی بات سننے کو تیار نہیں۔ باتیں بگھارنے کے سوا اسے آتا ہی کیا ہے! بھرپور پروٹوکول ساتھ لے کر چلتا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے ہمارے علاقے میں آیا ہوا تھا، بڑے لمبے چوڑے بھاشن دے کر گیا ہے۔‘‘
’’نہ جانے کیا بولے جارہا ہے، میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ پانی کی سپلائی پر بات کرتے کرتے ایکسین کے پروٹوکول کی سنانے لگا ہے۔ بھائی، اگر ایسا ہے تو میں کیا کروں؟ تُو پانی کی بندش سے متعلق گفتگو کرتے کرتے کسی کی ذاتی زندگی کو کیوں کرید رہا ہے؟‘‘
’’میں کب کسی کی ذاتی زندگی سے متعلق بات کررہا ہوں! یہ تو تُو نے میرا ذہن اس طرف لگا دیا، ورنہ مجھے اس قسم کی فضول باتیں کرنے کی کیا پڑی ہے! تُو ہی تو کہہ رہا تھا کہ ہمارے علاقے میں خاصا پانی آتا ہے اسی لیے میرا دماغ خراب ہوگیا اور میں واٹر بورڈ کے ایکسین کی کارکردگی پر دل کی بھڑاس نکالنے لگا۔‘‘
’’اچھا اب اصل بات کی طرف بھی آئے گا، یا یوں ہی کسوٹی کھیلتا رہے گا! چل جلدی بتا اصل معاملہ کیا ہے؟‘‘
’’ہاں یہ ہوئی ناں بات۔ اب تُو نے سوال کیا ہے تو جواب بھی سن لے۔ ہمارے علاقے سیکٹر 36-B لانڈھی کے لوگ بڑی تیزی کے ساتھ متاثرینِ آب میں شامل ہوتے جا رہے ہیں، یا یوں سمجھ کہ واٹر بورڈ کی جانب سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمارے علاقے میں پانی کی سپلائی انتہائی کم کی جارہی ہے۔ ماضی میں یہاں 12گھنٹے کے لیے پانی کی سپلائی دی جاتی تھی جسے گھٹا کر چھ گھنٹے کیا گیا، پھر چار گھنٹے، اور اب اس سے بھی کم کردی گئی ہے، اس پر مزید عذاب یہ کہ ’والو مین‘ جب چاہتا ہے چار دن کے لیے اس سیکٹر کو آنے والی لائن کا ’والو‘ بند کردیتا ہے، جبکہ کورنگی انڈسٹریل ایریا میں قائم فیکٹریوں کو ماہانہ رشوت لے کر اضافی پانی کی سپلائی دی جاتی ہے۔ میں ایسے کئی والومینوں کو جانتا ہوں کہ جنہوں نے اسی طرح پانی فروخت کرکے ٹیکسیاں اور رکشے خرید کر کرائے پر دے رکھے ہیں، یعنی یہ لوگ باقاعدہ طور پر ٹرانسپورٹر بھی ہیں۔ واٹر بورڈ کا تقریباً سارا ہی عملہ کرپشن میں ملوث ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس محکمے کی جانب سے کی جانے والی کرپشن پر کوئی بولنے والا نہیں، عوام کس سے فریاد کریں؟ علاقہ مکینوں کو مین لائن سے کنکشن لگانے کے نام پر لوٹا جاتا ہے، اسی کلیے پر عمل کرتے ہوئے غریبوں سے فی کنکشن بیس سے پچیس ہزار روپے طلب کیے جاتے ہیں۔‘‘
’’یہ تو پرانی باتیں ہیں، اس میں ایسا نیا کیا ہے جسے سن کر پریشان ہوا جائے! کراچی میں پانی کی فروخت عام سی بات ہے، اور اس سلسلے میں والومینوں کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ہم گزشتہ دس برسوں سے پانی خرید کر پی رہے ہیں۔ گھریلو استعمال کے لیے بورنگ کا نمکین پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ اور جہاں تک واٹربورڈ کے عملے کی بات ہے، تو یہاں کون سا ایسا محکمہ ہے جو قابلِ تعریف ہو! میں تو سمجھا تھا نہ جانے ایسے کون سے اہم راز ہیں جن سے تُو پردہ اٹھائے گا۔‘‘
’’ایک تو تیری عادت بہت خراب ہے، بڑا پروفیسر بنا پھرتا ہے۔ اپنی قابلیت دکھانے کے لیے دوسرے کی پوری بات سنے بغیر ہی فلاسفی جھاڑنے لگتا ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں سے واٹر بورڈ کی جانب سے جو کارروائیاں کی جارہی ہیں وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ جہاں تک ہمارے علاقے میں موٹریں چلنے اور گھروں سے باہر پانی کا چھڑکاؤ کرنے کی بات ہے تو وہ ایسے ہی نہیں ہورہا، بلکہ مجبوری ہے۔ جب گھروں میں انتہائی گندا اور بدبودار پانی آئے گا تو اسے اسی طرح ضائع کیا جائے گا۔ یہی تو اس ایکسین کی وہ ہوشیاری ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا۔ پانی کی بندش کے خلاف کیے جانے والے احتجاج کے نتیجے میں علاقے کو گندے اور بدبودار پانی کی سپلائی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ محکمہ جان بوجھ کر پینے کے صاف پانی کے بجائے انڈسٹریل ایریا میں قائم کیمیکل بنانے والی فیکٹریوں سے خارج ہونے والا کیمیکل زدہ انتہائی مضر صحت پانی سپلائی کررہا ہے، جو نہ صرف انسانی جانوں کے لیے خطرناک ہے بلکہ کسی جانور کے بھی پینے کے لائق نہیں۔ کبھی پانی کی بندش کے خلاف، تو کبھی گندے پانی کی فراہمی پر احتجاج۔۔۔ بس یہی کچھ کرنا پڑرہا ہے۔ ان ساری شکایتوں کا بس ایک ہی جواب ہے کہ ’’لائن میں شامل ہونے والے کیمیکل زدہ پانی کے مسئلے کو بڑی سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں، جہاں سے یہ گندا پانی شامل ہورہا ہے اُس پوائٹ کو تلاش کررہے ہیں‘‘۔ تقریباً بیس دن سے اسی قسم کے لارے لپے دے کر بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ اس تیزاب کو پینے سے کہیں کوئی بڑا حادثہ نہ ہوجائے۔ اگر خدانخواستہ ایسا کوئی واقعہ رونما ہوگیا تو اس کی تمام تر ذمے داری ایکسین واٹربورڈ لانڈھی کے سر ہوگی۔‘‘ 

واٹر بورڈ کے ذمے دار ملازمین کی غفلت، لاپروائی اور بے حسی کے باعث لوگ نہ صرف انتہائی مضرصحت پانی پینے پر مجبور ہیں بلکہ یہ پانی پینے کے باعث بیماریوں میں مبتلا ہوکر سرکاری اور نجی اسپتالوں میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ محکمے کے نااہل اور راشی افسران کی وجہ سے واٹر بورڈ کا پورا نظام تباہ ہوچکا ہے، زیر زمین پائپ لائنیں بوسیدہ ہوچکی ہیں، محکمے کی جانب سے نئی پائپ لائنیں بچھانے کا کوئی کام نہیں ہوا۔ اکثر علاقوں میں سیوریج اور پینے کے پانی کی لائنیں ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے مین لائنوں کی حالت بوسیدہ ہوچکی ہے

کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے۔ بدقسمتی سے یہاں کے باسی پانی جیسی بنیادی نعمت سے محروم ہیں۔ حکومت کی جانب سے بجائے محرومیوں کے ازالے کے، پانی جیسی بنیادی سہولت پر اُن سے سیاست کی جاتی ہے۔ سمندر کے کنارے آباد اس شہر کے عوام کا بوند بوند پانی کو ترسنا لمحۂ فکریہ ہے۔ یہاں نلکوں میں پانی کے بجائے ہوا آتی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت شہریوں کو پانی جیسی نعمت فراہم کرنا ہی نہیں چاہتی، یہی وجہ ہے کہ شہر کے اکثر علاقوں میں کئی کئی ماہ سے پانی کی سپلائی بند ہے۔
اگر کسی علاقے میں پانی آتا بھی ہے تو وہ انتہائی گندا اور بدبودار ہونے کی وجہ سے ناقابلِ استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واٹر بورڈ کے ذمے دار ملازمین کی غفلت، لاپروائی اور بے حسی کے باعث لوگ نہ صرف انتہائی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں بلکہ یہ پانی پینے کے باعث بیماریوں میں مبتلا ہوکر سرکاری اور نجی اسپتالوں میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ محکمے کے نااہل اور راشی افسران کی وجہ سے واٹر بورڈ کا پورا نظام تباہ ہوچکا ہے، زیر زمین پائپ لائنیں بوسیدہ ہوچکی ہیں، محکمے کی جانب سے نئی پائپ لائنیں بچھانے کا کوئی کام نہیں ہوا۔ اکثر علاقوں میں سیوریج اور پینے کے پانی کی لائنیں ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے مین لائنوں کی حالت بوسیدہ ہوچکی ہے، جس کی وجہ سے گندا پانی، پینے کے پانی کی لائنوں میں جا ملتا ہے۔ چونکہ ان لائنوں کی مرمت اور دیکھ بھال کا کام باقاعدگی سے نہیں ہوتا اس لیے یہاں گندے اور بدبودار پانی کی سپلائی کی شکایات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کراچی کے شہریوں کو سرکاری طور پر روزانہ 650 ملین گیلن پانی مہیا کیا جاتا ہے۔ کے ڈی اے حکام کا دعویٰ ہے کہ450 ملین گیلن پانی کی فلٹریشن ہوتی ہے، لیکن بقیہ200 ملین گیلن آلودہ پانی صاف کرنے کا کوئی بندوبست نہیں، اور یہی گندا پانی فلٹر شدہ 450 ملین گیلن پانی کو دوبارہ آلودہ کرتا رہتا ہے۔ یہاں سرکاری اور نجی طور پر بمشکل 20 سے 30 فیصد فلٹر پلانٹس لگائے جاتے ہیں، جبکہ پہلے سے نصب کیے گئے پلانٹس کی دیکھ بھال نہ ہونے سے شہریوں کو صاف پانی نہیں ملتا۔ یہی حال دیگر شہروں کا بھی ہے۔ بعض شہروں میں سیوریج سے آلودہ پانی کے علاوہ زیر زمین سیم زدہ اور کھارا پانی ملتا ہے۔ اسی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے تقریباً اٹھارہ بیس سال سے منرل واٹر کے نام پر مہنگے داموں پانی مہیا کرنے کا سلسلہ جاری ہے، لیکن یہاں بھی صورتِ انتہائی افسوسناک ہے۔ حال ہی میں اِن کمپنیوں کے پانی کی ٹیسٹنگ رپورٹ منظرعام پر آئی ہے، جس میں 47کمپنیوں کے سیمپلز میں سے 27 سیمپلز کو مضر صحت قرار دیا گیا۔ گندا پانی پینے کے باعث بیشتر شہری ہیپاٹائٹس کے امراض میں مبتلا ہورہے ہیں، چونکہ اس مرض کا علاج انتہائی مہنگا ہوتا ہے، اس لیے بہت سے لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ سندھ حکومت سمیت تمام صوبوں کی حکومتیں ہیپاٹائٹس کے علاج کی کچھ سہولتیں مہیا کررہی ہے، لیکن انہیں مہنگے ٹیسٹ اور قیمتی ادویہ کی فراہمی پر بھی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عدم توجہی سے پرانے مریضوں کو بہت کم فائدہ ہوتا ہے، جبکہ نئے مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عالمی تنظیموں کے تعاون سے جامع پیکیج تیار کرکے یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں، اور خاص طور پر حکومت کراچی واٹر بورڈ میں موجود پانی مافیا کے خلاف اقدامات کرے، تاکہ شہریوں کو پانی جیسی بنیادی سہولت دی جا سکے۔







نشہ آور بیریاں کھا کر پرندے بھی شرابی ہونے لگے



منی سوٹاامریکی ریاست مِنی سوٹا کے گلبرٹ سٹی میں آج کل چھوٹے پرندے گھروں کی کھڑکیوں سے اندر آرہے ہیں، ٹریفک کے درمیان خلل ڈال رہے ہیں اور ان کی پرواز بھی عجیب وغریب ہورہی ہے۔
اس کے بعد پولیس نے ماہرین کی مدد سے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اطراف میں موجود ایسی بیریوں کے درخت عام ہیں جن کے پھلوں کا رس خمیر سے بھرپور ہے اور پرندوں کو خمار میں مبتلا کررہا ہے۔ اس طرح پرندوں کی اکثریت نشے کی وجہ سے اپنے حواس کھو رہی ہے۔
گلبرٹ کے درختوں میں جنگلی بیریوں کے درخت عام ہیں اور اس بار وقت سے قبل ان میں خمیر جمع ہوگیا ہے۔ بڑی تعداد میں پرندے ان بیریوں کو کھاتے یا ان کا رس پیتے ہیں۔ جس طرح عمررسیدہ افراد کے مقابلے میں کم عمر افراد پی کر زیادہ بہک جاتے ہیں اسی طرح بالغ اور عمررسیدہ پرندوں کے مقابلے میں کم عمر پرندے زیادہ بہکتے ہیں۔
بیریوں کے رس میں ایتھانول بڑی مقدار میں دیکھا گیا ہےجو پرندوں کے جسم میں جاکر انہیں خمار آلود کررہا ہے۔ یہ پرندے نقل مکانی کرتے ہیں اور بہت زیادہ کھاتے ہیں تاکہ اس کی چربی گھر واپسی کی طویل پرواز کے کام آسکے تاہم ہوش کھونے والے یہ پرندے کاروں سے بھی ٹکرا رہے ہیں۔

ماہرین نے کہا ہے کہ پرندوں کے اس فعل پر بار بار پولیس بلانے کی ضرورت نہیں کیونکہ کچھ دیر میں وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔ مقامی آبادی نے انہیں ’اینگری برڈز‘ کہنا شروع کردیا ہے۔ اس کے بعد پولیس نے ایک نوٹی فکیشن بھی جاری کیا ہے جس میں پرندوں کی اس کیفیت کی وجہ بیان کی گئی ہے۔
ایک مقامی فرد نے بتایا کہ ہفتے میں سات پرندے اس کی کار سے ٹکرا چکے ہیں۔ دوسری جانب ایسا ہی مسئلہ کینیڈا میں بھی ہرسال پیش آتا ہے جہاں اوریگون میں ایک تنظیم ان شرابی پرندوں کو قید کرکے اس وقت تک دیکھ بھال کرتی ہے جب تک وہ مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوجاتے۔








وزیراعظم کا 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کیلیے ’’نیاپاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی‘‘ قائم کرنے کا اعلان




 اسلام آباد: 
وزیراعظم عمران خان نے پانچ سالوں  میں  50 لاکھ گھروں کی تعمیر کیلیے ’’نیاپاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی‘‘ قائم کرنے کا اعلان کردیا۔
اسلام آباد میں نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ منصوبے پر عملدرآمد کرانے کے لیے ’ نیا پاکستان ہاوسنگ ‘اتھارٹی قائم کی جائے گی جہاں ’ون ونڈو‘ سسٹم کے تحت تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی اور اس اتھارٹی کی نگرانی بذات خود کروں گا، یہ اتھارٹی 90 دن میں قائم کی جائے گی تاہم جب تک اتھارٹی قائم نہیں ہوتی اس دوران ٹاسک فورس ہاؤسنگ اسکیم پر کام کرے گی۔
وزیراعظم نے  کہا کہ گھروں کی تعمیر پرائیویٹ ادارے کریں گے جب کہ رکاوٹیں ختم کرنا اور تعاون کرنا حکومت کا کام ہوگا، کنسٹرکشن انڈسٹری کی راہ میں قانونی رکاوٹوں کوبھی دور کریں گے،ہم عام لوگوں کو گھربنا کردیں گے،نوجوان کنسٹرکشن کمپنی خود شروع کریں اور انڈسٹری میں شامل ہوں ہماری کوشش ہے کہ بیروزگار نوجوان ہاؤسنگ اسکیم سے روزگار لیں۔
عمران خان نے کہا  کہ پاکستان کے 7 شہروں میں پائلٹ پراجیکٹ شروع کررہے ہیں، گھروں کے لیے60 دنوں میں رجسٹریشن مکمل کرنی ہے جب کہ اسٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر نیشنل فنانشل ریگولٹری باڈی تشکیل دیں گے یہ ریگولٹری باڈی کا قیام 60 دنوں میں ہوجائےگا۔
وزیراعظم نے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اسکیم شروع کرنے کا بھی اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کل سے ایک ہاؤسنگ اسکیم سرکاری ملازمین کیلیے شروع کررہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا  کہ  موجودہ بحران سے نکلنے اور قرضے کی قسطیں ادا کرنے کے لیے ہمیں مزید قرضے چاہیئں ،ماضی کی حکومتوں نے بےدردی سے قرضہ لیا اور اس وقت ملکی قرضہ 30ہزار ارب ہے یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ ہے  جب کہ ہر سال 10 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے اگر منی لانڈرنگ روک دی جاتی تو آج ہمیں ڈالر کی کمی سامنا نہ ہوتا۔
 بشکریہ ایکسپریس نیوز





qurbani kay manazir

Download my first own made HM Downloader. Please can use and share to your friends.

Troubleshooting

Step 1

If installation is blocked, go to your settings

Step 2

Enable 'Allow installation of apps from sources other than the Play Store'

Step 3


https://drive.google.com/file/d/1qFDmEK9-5NXMSnQBBvfSCmKIW_A2M_br/view?usp=sharing

alibaba

web

amazon

Followers

Website Search

Tweet Corornavirus

Please Subscribe My Chennal

Sub Ki News

 
‎Sub Ki News سب کی نیوز‎
Public group · 1 member
Join Group
 
Nasrullah Nasir . Powered by Blogger.

live track

Brave Girl

Popular Posts

Total Pageviews

Blog Archive

Chapter 8. ILLUSTRATOR Shape Builder & Pathfinder-1

Chapter 10. Illustrator Drawing & Refining Paths-1

Labels

Blog Archive