آوارہ کتوں کی تعداد میں دن بہ دن شہر کراچی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے شہری شدید پریشان ہے،اسکول کے بچوں کوچھوڑنے کے لئے خواتین کا باہر جانا بڑا دشوار ہوگیا ہے، شام ڈھلتے ہی بچے بھی اپنے گھروں میں محصورہوکررہ جاتے ہیں۔ کراچی میں آوارہ کتوں کی تعداد میں سرجانی ٹاﺅن سرفہرست ہے جبکہ دیگر علاقوں میں پاک کالونی، لیاقت آبادسی ون ایریا قبرستان،ڈیفنس،ملیر،بھینس کالونی، گلستان جوہر بلاک 15،اورنگی ٹاﺅن، کورنگی، لانڈھی ،فیڈرل بی ایریا،نارتھ کراچی،نارتھ ناظم آبادودیگر علاقے شامل ہیں۔
حکومت کے پاس کورونا ویکسین کی سست فراہمی تو چلو اس وجہ سے سمجھ آتی ہے کہ آج دنیا بھر میں اس کی مانگ ہے لیکن یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ایک صدی پہلے دریافت شدہ سگ گزیدگی (کتے کے کاٹنے) کے بعد لگنے والی ویکسین بھی تیار نہیں کرپائی ہے۔
تو پھر آوراہ کتوں کی آبادی پر کنٹرول اور ریبیز ویکسین کی دستیابی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ عام طور پر یہ خدمات مقامی حکومتیں انجام دیتی ہیں۔
ان مسائل کی چکی میں پھر شہری ہی پستے ہیں اور آوارہ کتوں کی صورتحال اکثر اوقات اس قدر بے قابو ہوجاتی ہے کہ آئے روز کتے کے حملوں سے مرنے والوں لوگوں اور بالخصوص بچوں سے متعلق خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جو افراد ان خوفناک حملوں میں زندہ بچ جاتے ہیں انہیں 'خوش قسمت' بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث انہیں دردناک موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حکومت کی ہر سطح پر مجرمانہ غفلت کے باعث ہونے والے ان ہیبت ناک واقعات کو میڈیا رپورٹ کرتا ہے۔ پھر عدالتیں عام طور پر کسی شہری کی دائر کردہ پٹیشن پر واقعات کا نوٹس لے کر عوامی نمائندگان اور ضلعی انتظامیہ کو طلب کرتی ہیں، ان کی سرزنش کی جاتی ہے، پھر دوسری طرف سے دائرہ کار اور اختیارات کی کمی کا دعویٰ کیا جاتا ہے، معاملہ گول گول پھرتا رہتا ہے، جج صاحبان عدالتی حکم نامہ نہ ماننے پر سنگین نتائج سے خبردار کرتے ہیں جبکہ قانون ساز انہیں ہوا میں اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
سول سوسائٹی کے افراد بھی عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں اور آوارہ کتوں کے ساتھ پ±رتشدد سلوک کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سول سوسائٹی کے لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت پہلے کتوں کو پکڑے، پھر انہیں جانوروں کے ہسپتالوں تک پہنچائے، جہاں انہیں ویکسین لگانے اور ان کی نس بندی کرنے کے بعد واپس ان کے اصل ٹھکانوں پر چھوڑ آئے۔
حال ہی میں صوبائی حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کو بتایا کہ ویکسین کی فراہمی کے لیے ٹینڈرز طلب کرلیے گئے ہیں اور بولی کا عمل پورا ہونے کے بعد ویکسین فراہم کردی جائے گی۔ آوارہ کتوں کو ایک سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے 60 گاڑیاں بھی خریدی جا رہی ہیں۔
شہریوں کو سہولت کے لئے کتوں سے متعلق اطلاع دینے کے لئے سرکاری نمبر109فعال کردیا گیا ہے شہریوں کا کہناہے کہ صرف نمبر دینا کافی نہیں ہے کتوں کے خاتمے کے حوالے سے سرکاری سطح پر موثراقدامات کی بھی ضرورت ہے۔