خود کو اور اپنے بچوں کو اس زہر سے بچائیں شکریہ۔
Heart meetJune 02, 2017Pesticide Percentage (%) in cold drinks released from PMA (Pakistan Medical Association) recently.
No comments
خود کو اور اپنے بچوں کو اس زہر سے بچائیں شکریہ۔
Pesticide Percentage (%) in cold drinks released from PMA (Pakistan Medical Association) recently.
1 Nestle juice 7.2%
2 Coke 9.4%
3 7 up 12.5%
4 Mirinda 20.7%
5 Pepsi 10.9%
6 Fanta 29.1%
7. Sprite. 5.3%
8. Frooti. 24.5%
9 Maza. 19.3%
It's very dangerous to the Human Liver.....
Results in Cancer !
Please confirm from PMA website
Lazmi send karain barish k liay Astaghfirullah, Astaghfirullah, Astaghfirullah,
PLZ....
send to all contacts
Soraj zmeen k qreeb aajaye ga Ye 1 nishani hy qiyamt ki
Aap s.a.w.w ne frmaya k jb meri ummt se Astaghfar krna kam ho ga,
To un par barish ka nazool kam ho ga.
Abhi
"ASTGHFIRULLAH" parhen aur aik b sms free hai to Send Krdo,
KUCH DEIR mein Arbon Astaghfar
ALLAH k Azab Ko Kam Kr Dein ge.
Don't stop it. Astaghfirullah.
Pesticide Percentage (%) in cold drinks released from PMA (Pakistan Medical Association) recently.
1 Nestle juice 7.2%
2 Coke 9.4%
3 7 up 12.5%
4 Mirinda 20.7%
5 Pepsi 10.9%
6 Fanta 29.1%
7. Sprite. 5.3%
8. Frooti. 24.5%
9 Maza. 19.3%
It's very dangerous to the Human Liver.....
Results in Cancer !
Please confirm from PMA website
Lazmi send karain barish k liay Astaghfirullah, Astaghfirullah, Astaghfirullah,
PLZ....
send to all contacts
Soraj zmeen k qreeb aajaye ga Ye 1 nishani hy qiyamt ki
Aap s.a.w.w ne frmaya k jb meri ummt se Astaghfar krna kam ho ga,
To un par barish ka nazool kam ho ga.
Abhi
"ASTGHFIRULLAH" parhen aur aik b sms free hai to Send Krdo,
KUCH DEIR mein Arbon Astaghfar
ALLAH k Azab Ko Kam Kr Dein ge.
Don't stop it. Astaghfirullah.
چڑیا کے بچے
Heart meetDecember 14, 2016گھنے جنگل کے پار افق پر سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور سورج کی شعاعیں درختوں کی
No comments
نام نہیں ہے
گھنے جنگل کے پار افق پر سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور سورج کی شعاعیں درختوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے جنگل کی ناہموار زمین پر بمشکل پہنچ رہی تھیں۔ گویا جنگل کی زندگی میں ہر سو اجالا پھیل چکا تھا اور اس کے ساتھ ہی تمام چرند پرند بھی اپنی اپنی نگاہوں میں میٹھی اور معصوم سی انگڑائی لے کر بیدار ہوچکے تھے، وہ سب اپنی سریلی اور خوب صورت آواز میں خدائے واحد کی حمد و ثناء میں مصروف تھے۔
درختوں پر بسیرا کیے پرندے بھی اپنے اپنے بچوں کو بیدار کرکے گزشتہ رات کے جمع کیے دانوں سے ان کو ناشتہ کرارہے تھے، ننھے ننھے پرندوں کے بابا جان آج کے دن کے لیے راشن تلاش کرنے نکل پڑے تھے۔ جب کہ ماما جان اپنے اپنے گھونسلوں کی صفائی ستھرائی کررہی تھیں، انہی درختوں میں سے ایک درخت پر چڑیا بی اپنے دو ننھے ننھے بچوں کے ساتھ رہ رہی تھیں، بچوں کے ابا یعنی چڑے میاں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ دانہ کی تلاش میں نکل پڑے تھے، معمول کے مطابق چڑیا بی نے اپنے بچوں کو نہلایا دھلایا اور دیگر کام کاج سے فارغ ہو کر اب وہ پڑوس کے درخت پر بی فاختہ کے بچوں کی طبیعت دریافت کرنے گئی ہوئی تھیں۔ بی فاختہ کے بچے کئی روز سے سرد موسم کے باعث بیمار ہوگئے تھے۔
جاتے جاتے چڑیا بی اپنے بچوں کو کہہ کر گئی تھیں کہ دیکھو شرارتیں نہ کرنا ورنہ شیطان کے چیلے کوے آکر تمہیں کچا کھا جائیں گے، ادھر چڑیا بی کے جاتے ہی بچوں پر کووں کا خوف طاری تھا مگر یہ ڈر ان کی شرارتی اور بے چین طبیعت پر زیادہ دیر حاوی نہ رہ سکا اور دونوں بچوں نے کھیل کود شروع کردیا۔ کھیل یہ تھا کہ دونوں بچے بیک وقت اپنے گھونسلے سے اڑان بھرتے اور زمین پر آکر ایک تنکا اٹھا کر واپس گھونسلے میں لے جاتے۔ جو پہلے واپس آتا وہ جیت جاتا
دو دفعہ تنکے اٹھا کر لانے کے بعد تیسری دفعہ آخری بار مقابلہ کے لیے دونوں نے اپنے پر تولے اور زمین پر آنے لگے، ابھی وہ زمین سے کچھ فاصلے پر ہی تھے کہ یکایک کسی چیز نے انہیں آگھیرا اور وہ دونوں ایک مضبوط شکنجے میں پھنس گئے، ننھے ننھے بچوں کے جب حواس بحال ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ دونوں کسی انسانی قافللے کے ہاتھوں جکڑ لیے گئے ہیں، جب انہوں نے سوچا کہ یہ شکاری ہمیں پکڑ کر لے جائیں گے، بس یہ جاننا تھا کہ دونوں اپنے بچا? کے لیے چیخ و پکار شروع کردی۔
ادھر چڑیا بی کو جب کسی کی چیخ و پکار سنائی دی تو وہ پریشان ہوگئیں کہ اللہ خیر کرے کہیں یہ میرے بچے تو نہیں رو رہے، جب چڑیا بی نے اپنے درخت کے قریب آکر یہ منظر دیکھا کہ ان کے دونوں ننھے ننھے معصوم سے روئی کے گالے بچے انسانی شکار بننے جارہے ہیں تو ان سے رہا نہ گیا، حلیہ سے یہ انسان تو بہت اچھے معلوم ہوتے تھے مگر چڑیا بی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر انہوں نے ان کے بچوں کو کیوں پکڑ لیا ہے، اپنی جان خطرے میں ڈال کر وہ ان چند آدمیوں کے گرد اپنے پر پھیلا کر ان کے سروں پر منڈلانے لگیں اور ساتھ ساستھ اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ میرے بچوں کو ان نیک بختوں سے نجات دلادے، یہ تو بے قصور ہیں، ابھی چڑیا بی اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ ہی رہی تھیں کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک اور شخص اس انسانی قافلہ کے ساتھ آملے۔ یہ شخص ان سب میں بہت بااخلاق، شریف اور بھلے معلوم ہوتے تھے اور اس پورے گروہ کے سردار بھی شاید یہی تھے۔ جیسے ہی انہوں نے دیکھا کہ چڑیا بی کے دو ننھے ننھے معصوم بچے ان کے ساتھیوں کے قبضے میں ہیں اور ان بچوں کی ماں پریشان ان کے گرد منڈلارہی ہے تو وہ فکر مند ہوگئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کس نے ان معصوم بچوں کو پکڑ کر بے زبان چڑیا کو تکلیف پہنچائی ہے، قافلہ کے لوگوں نے اپنے سردار کو سارا ماجرا کہہ سنایا کہ جب آپ اپنی ضرورت کے لیے گئے تو ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا، جب سے یہ چڑیا اپنے بچوں کے پیچھے ہمارے سروں پر منڈلارہی ہے۔
اس قافلہ کے سردار نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ فوراً ان معصوم بچوں کو چھوڑ دیا جائے، چنانچہ ساتھیوں نے فوراً حکم کی تعلیم کی اور یوں چڑیا بی نے ان کے سردار کو تشکر آمیر نظروں سے دیکھا اور خوشی خوش اپنے بچوں کو لے کر اپنے گھونسلے کی جانب اڑ گئیں۔
پیارے بچو! کیا آپ جانتے ہیں یہ نیک لوگ کون تھے، یہ نیک لوگ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے ساتھی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تھے اور اس قافلہ کے سردار خود ہمارے پیارے نبی حضرت محمد
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو کہ تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر اس دنیا میں تشریف لائے۔
٭٭٭
محنت کی برکت
Heart meetDecember 14, 2016شاہنواز سندھ کے ایک چھوٹے سے گائوں میں رہتا تھا۔ اس کا باپ ایک زمیندار تھا۔
No comments
عائشہ ملک نذیر احمد
شاہنواز سندھ کے ایک چھوٹے سے گائوں میں رہتا تھا۔ اس کا باپ ایک زمیندار تھا۔ گھر میں اس سے محبت کرنے والی ماں باپ کے علاوہ کئی نوکر چاکر تھے۔ جو اس کا ہر وقت خیال رکھتے تھے گائوں میں کوئی اسکول نہ تھا کہ شاہنواز تعلیم پاتا۔ اس سے بہت محبت کرتا تھا۔ ہمیشہ اسے اچھی اچھی کہانیاں اور بزرگوں کے واقعات سناتا، اسے اچھی بری باتوں میں تمیز کرنا سکھاتا، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے محبت کی تلقین کرتا، اس کے ساتھ رہ کر شاہنواز بہت سی اچھی اچھی باتیں سیکھ گیا تھا۔ وہ اللہ ڈنو کا نام لینے کے بجائے اسے ہمیشہ چاچا کہہ کر پکارتا تھا۔ ایک بار گائوں میں زبردست سیلاب آیا، شاہنواز کے والدین اس وقت کسی دوسرے گائوں سے بیل گاڑی پر واپس آ رہے تھے کہ سیلاب نے آلیا اور ساتھ بہالے گیا۔ ان حالات میں شاہنواز اکثر اداس رہتا اور پریشان ہو کر رونے لگتا۔ اسے وقت میں بھی اللہ ڈنو نے شاہنواز کا ساتھ نہ چھوڑا وہ اس کی ہمت بڑھاتا رہتا اور اسے کچھ نہ کچھ کام کرنے کی تاقیات دیتا رہتا، شاہنواز کام کرنے میں شرم آتی تھی۔ ایک روز اللہ ڈنو نے اسے سمجھایا۔ بیٹا ہم مسلمان ہیں ہمیں محنت سے روزی کمانے میں شرمانا نہیں چاہیے ہمارے پیارے نبیؐ دنیا کہ عظیم ترین انسان تھے۔ وہ بھی اپنا کام خود کرتے تھے۔ تم بھی اٹھو محنت کرو محنت میں عظمت ہے اور اسی میں برکت ہے۔ مگر چاچا مجھے بتائو میں کیا کروں، کرنا کیا ہے۔ زمینیں موجود ہیں ہم اس پر محنت کریں گے تو اللہ برکت دے گا۔ اب حالات ایک بار پھر وسے ہی ہو گئے۔ جسے اس کے باپ کی زندگی میں تھے اب پھر اس کے گھر میں نوکر چاکر تھے۔ اور زمینوں پر ہاری لیکن وہ اب بھی ان کے ساتھ مل کر ہل جوتا، بیج بوتا، فصلوں کو سینچتا اور اپنی محنت کے پھل سے لطف اندوز ہوتا ہر انسان دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے خوب محنت کرتا ہے اور محنت کا پھل پاتا ہے۔
٭٭٭
قناعت
Heart meetDecember 14, 2016ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں ایک بڑھیا رہتی تھی۔ اس کے گھر میں ایک دبلی سوکھی بلی تھی،
No comments
حرا ملک عزیز
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں ایک بڑھیا رہتی تھی۔ اس کے گھر میں ایک دبلی سوکھی بلی تھی، جس نے کبھی بھی خواب میں گوشت کا نام تک نہیں سنا تھا وہ کبھی بڑھیا کہ آنگن میں آنے والی چڑیا پائوں میں سے کوئی چڑیا اس کے ہاتھ لگ جاتی۔ وہ چڑیا کھا کر اپنا پیٹ بھر لیتی۔ ایک دن وہ چھت پر گئی تو ایک بلی خراماں خراماں ٹہل رہی تھی۔ بڑھیا کی بلی نے جب اپنی ہم جنس کو ایسا موٹا تازہ پایا تو حیران رہ گئی۔ اور بے اختیار بول اٹھی کہ بہن تم کہاں سے آئی ہں کیا کھاتی ہو۔ ہمسائی بلی نے جواب دیا تم جانتی نہیں میں بادشاہ کے دسترخوان کی نمک خور ہوں۔ روز صبح جب محل میں کھانا پیش ہوتا میں وہاں پہنچ جاتی ہوں پھر بڑھیا کی بلی نے پوچھا کہ یہ گوشت کیا ہوتا ہے میں نے تو بڑھیا کے گھر میں دال دلیے کے علاوہ کچھ نہیں کھایا۔ ہمسائی کی بلی نے ہنس کر کہا۔ جبھی تو تمہاری شکل بالکل لکڑی کی طرح نظر آرہی ہے۔ تمہیں تو بلی کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ ہاں اگر تو بادشاہ کے محل کے لذیز کھانے کی خوشبو سونکھ لو تو شاید تمہاری کایا پلٹ جائے، یہ خوشخبری سننے کے بعد بڑھیا کی بلی چھت سے اتر آئی اور بڑھیا سے تمام ماجرا بیان کیا بڑھیا نے نصیحت کرنے لگی کہ دیکھو لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آیا کرو۔ جو کچھ روکھی سوکھی ملتی ہے۔ اس پر قناعت کرو، مگر بلی کے دماغ میں بادشاہ کے دستر خوان کا سود ایسا سمایا تھا۔ کہ اس نے اس نصیحت کی پروا نہ کی، دوسرے دن ہمسائی بلی کے ساتھ محل جا پہنچی وہاں پہلے سے بلیاں شاہی دسترخوان کے گرد جمع ہو گئی تھی۔ بادشاہ نے یہ دیکھ کر فوراً حکم دیا کہ تیر کا نشانہ لگیں۔ بیچاری بڑھیا کی بلی کو اس حکم کی یہ خبر تھی جو نہی کھانے کی خوشبو ناک تک پہنچی تو تیر ٹانگ پر لگا گیا۔ ٹانگ سے خون ٹپکنے لگا، بلی لنگڑاتے ہوئے اپنی پوری قوت سے بھاگ گئی۔ اور کہتی گئی میں بڑھیا کی باتوں پر نصحیت کرتی تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا، اور اس نے سبق سکھ لیا کہ کسی دوسروں کی باتوں میں نہیں آئو گی۔ جو قناعت جو کچھ ملے گا۔ کھا لو گئی،
٭٭٭