My Blogger consists of a general news in which I upload articles from all types of news including science, technology, education, crime, how-to, business, health, lifestyle and fashion.

New User Gifts

تین مددگار

مائل خیر آبادی

ایک تھا بادشاہ۔ ہمارا تمہارا اللہ بادشاہ، آنکھوں کی دیکھی کہتے نہیں، کانوں کی سنی کہتے نہیں، مثال کے طور پر بیان کرتے ہیں کہ ایک بادشاہ تھا۔ بادشاہ چاہتا تھا کہ اس کے ملک میں سب لوگ آرام اور چین سے رہیں۔ نیکیاں پھیلیں اور برائیاں مٹیں، ملک میں چوری، ڈاکہ، لڑائی، دنگا اور لوٹ مار نہ ہو، کوئی کسی کو نہ ستائے کوئی ننگا بھوکا نہ رہے، نہ کوئی کسی کی کوئی چیز چھینے، نہ جھوٹ بولے اور نہ دھوکہ اور دھاندلی کر کے کسی کو ٹھگ لے۔
بادشاہ دن رات اسی فکر میں رہتا تھا مگر اس کے ملک میں برائیاں ختم نہ ہوئی تھیں۔ اس نے برائیوں کی روک تھام کے لیے بہت سی پولیس بھی رکھ لی تھی مگر پولیس کے سپاہی راتوں کو پہرہ تو دیتے مگر چوروں سے کہتے: ’’چوری کیے جائو۔‘‘
بادشاہ جب ساری تدبیرین کرکے ہار گیا تو اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ وہ دیر تک گڑ گڑاتا رہا۔ دعا سے فرصت پاکر بیٹھا ہی تھا کہ ایک سپاہی نے آکر کہا: ’’حضور! شیخ الہام صاحب تشریف لا رہے ہیں۔‘‘ بادشاہ نے اپنے استاد شیخ الہام صاحب کے آنے کی خبر سنی تو فوراً اٹھے اور ان کا استقبال کیا، بری عزت کے ساتھ لایا اور لونڈی غلاموں سمیت ان کی خاطر داری میں لگ گیا۔
شیخ الہام صاحب نے بادشاہ کو پریشان دیکھا تو وجہ پوچھی بادشاہ نے برائیوں کا رونا روتے ہوئے کہا:
’’سمجھ میں نہیں آتا کیسے نیکیاں پھیلیں اور برائی مٹیں؟‘‘
شیخ صاحب نے جواب دیا: ’’یہاں سے بہت دور ایک چھوٹا سا گائوں ہے ’’مومن پور‘‘ مومن پور میں ایک حکیم صاحب رہتے ہیں، ان کا نام حکیم ’’ایمان اللہ‘‘ ہے۔ ان کا ایک لڑکا ہے ’’عمل بیگ‘‘ اور ایک لڑکی ہے ’’عاقبت بیگم‘‘ اگر تم ان تینوں کو لا کر اپنے ملک میں بسائو تو تمہاری مراد پوری ہو جائے گی، ملک سے برائیاں مٹ جائیں گی اور نیکیاں پھیلیں گی۔‘‘ بادشاہ نے استاد شیخ الہام صاحب سے ایمان اللہ صاحب، عمل بیگ اور عاقبت بیگم کا اتا پتا پوچھا۔ اصطبل سے اپنا گھوڑا منگوایا، معمولی سا سامان لیا، گھوڑے پر سوار ہوا، استاد کو سلام کیا اور مومن پور کی طرف چل دیا۔
٭٭٭

اللہ کی راہ میں

ضیاء الرحمن غیور

جمیلہ اپنے نام کی طرح ہی خوبصورت تھی۔ اس کے سیاہ نرم و ملائم بال ذرا سے ہوا کے چھونکے سے چہرے پر بکھر کر اس کو اور حسین بنا دیتے تھے۔ اس کی ماں نے اس کے چہرے پر پھیلے ہوئے بالوں کو پیار سے سمیٹا۔ اس وقت وہ اس طرح اس کی گود میں لیٹی ہوئی تھی۔ جیسے وہ دنیا و مافیا سے بے خبر ہو۔ پھر کسی خیال سے چونکہ کر اس نے ایک جھر جھری لی اور مزید ماں کی گود میں دبک گئی۔ اس کے جھر جھری لینے پر ماں نے اسے اس طرح بھیچ لیا جیسے کہیں کوئی اس کی بچی کو اس سے چھین نہ لے۔ وہ سوچ رہی تھی اس کا باپ جہاد کے لیے پتہ نہیں کہاں گیا ہے پتہ نہیں زندہ بھی ہے یا شہید ہو گیا۔ اس کی یہ امانت جمیلہ اس کی گود میں لیٹی ہے اس کو بچانے کے لیے میں مسلسل سفر میں ہوں۔ مگر اس آگ و خون کے دریا میں میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اور نہ اس بچی کی زندگی کی کوئی ضمانت ہے۔ اچانک زور دار دھماکوں سے زمین لرزنے لگی۔ لڑکی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی اور زور سے چیخی۔ ابا آئو ان آوازوں سے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے جمیلہ کی ماں نے ارد گرد دیکھا۔ عورتیں بھی اپنے بچوں کو سینوں سے چمٹائے زمین پر خو فزدہ لیٹی تھیں۔ ماں نے بیٹھی کو پیار سے چمکارا۔ بیٹھی جمیلہ ہماری مدد تو صرف اللہ کر سکتا ہے اور کر رہا ہے۔ جمیلہ نے کہا ماں۔ ہماری مدد کو کوئی کیوں نہیں آتا؟ ماں نے کہا بیٹا تم اکیلی تو نہیں دنیا کے مجاہد تمہارے ساتھ ہیں۔ بمباری ذرا تھم جائے تو ہم سے محبت کرنے والوں کے تمہیں وہ معصوم چہرے دکھلائوں گی جو ہماری مدد کرنے آئے تھے اور اپنے ہی خون میں نہا کر ابدی نیند سو گئے۔ بمباری تھمی تو یہ قافلہ غار میں سے نکلا۔ خواتین اور بچوں کے ساتھ کچھ مرد بھی تھے جو راہنمائی کرتے تھے۔ جب یہ قافلہ چند بے گور و کفن لاشوں کے پاس سے گزرا تو جمیلہ کی ماں بے چینی سے آگے بڑھی مگر اسے جمیلہ کا باپ کہیں نظر نہیں آیا۔ اس نے جمیلہ کو اپنے قریب بلایا اور ایک لاش کی طرف اشارہ کرکے کہا بیٹی اس چمکتے چاند جیسے چہرے کو دیکھ رہی ہو۔ یہ عرب مجاہد ہے جو اپنی آسائشیں، سہولتیں دوست رشتے دار چھوڑ کر اس دکھ بھرے افغانستان کے پہاڑوں میں اللہ کی راہ میں آیا تھا اور شہادت پا گیا پھر ایک نوجوان کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔ یہ دیکھو، اس پاکستانی کو دیکھو۔ یہ میرا بچہ مر گیا ہے نا؟ مگر یہ مر نہیں سکتا، شہید کبھی نہیں مرتے۔ یہ ہمیشہ زندہ رہے گا جمیلہ نے بے بسی سے کہا، ماں ہمارا دشمن کون ہے؟ ماں نے کہا بیٹا اللہ کے دین کا دشمن ہمارا دشمن ہے ماں ہمارا دوست کون ہے؟ ہمارا آخری سہارا اللہ ہے اور ہمارے دوست مجاہد ہیں۔ یہ قافلہ بڑھتا رہا اور اپنی بقاء کے لیے چھپتا رہا۔ ایک دن یہ قافلہ سفر میں تھا۔ اچانک بمباری شروع ہو گئی۔ چھپنے کے لیے جگہ نہیں تھی ایک پہاڑ کے دامن میں پناہ لی لیکن ارد گرد اڑنے والے چھوٹے بڑے پتھروں اور گردو غبار نے ہر ایک کو ڈھک دیا۔ قافلے کے بچ جانے والوں نے اپنے ارد گرد نگاہ دالی تو بمباری میں زیادہ تر لوگ کام آگئے تھے جمیلہ کی ماں نے ہوش آنے کے بعد جب اٹھنے کی کوشش کی تو درد کے مارے اس کی چیخ نکل گئی۔ اس نے اپنے بدن کو ٹٹولہ تو اس کا بدن بہت زخمی تھا مگر بیٹی کا خیال آتے ہی وہ تمام تکلیفوں کو بھول گئی اس نے ارد گرد دیکھا۔ تھوڑے فاصلے پر جمیلہ سو رہی تھی وہ اپنے بدن کو گھسیٹتی ہوئی آگے بڑھی۔ آواز دی جمیلہ، مگر جمیلہ خاموش رہی۔ ماں نے قریب ہو کر اپنی بیٹی کے چہرے کو دیکھا تو اس کے چہرے پر وہی ابدی مسکراہٹ نظر آئی جو عرب پاکستانی اور دیگر شہیدوں کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی۔ ماں نے اپنے ہاتھ آگے بڑھا کر بچی کو اپنی آغوش میں سمیٹ لینا چاہا مگر اس کی ہمت نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ایک دفعہ وہ پھر بے ہوش ہو گئی۔ جب اسے دوبارہ ہوش آیا تو اسے قافلے والوں نے بتایا کہ ہم نے تمام شہیدوں کو دفن کر دیا ہے۔ جمیلہ کی ماں خاموشی سے اٹھی۔ بچی کی قبر پر گئی اور کافی دیر تک خاموشی سے آنسو بہاتی رہی۔ پھر اس نے قبر پر چہرے کی طرف اس طرح ہاتھ پھیرا جیسے وہ جمیلہ کے چہرے پر سے بال ہٹا رہی ہو۔ پھر اٹھی اور ایک طرف کو چل دی۔ قافلے کی عورتوں نے کہا جمیلہ کی ماں کہاں جارہی ہو؟ ہم سرحد کی طرف جا رہے ہیں جمیلہ کی ماں نے کہا۔ اپنی امانتوں کی حفاظت کرو۔ میں نے اپنا سب کچھ اپنے وطن پر نچھاور کر دیا۔ میں تم پر بوجھ نہیں بننا چاہتی۔ میری منزل کا کوئی پتہ نہیں میں اللہ کی راہ کی مسافر ہوں اور اللہ کی راہ میں یہ سفر جاری رہے گا۔ خدا حافظ
قافلہ دور تک ایک لٹی ہوئی افغان ماں کے پائوں سے اڑتے ہوئے غبار کو دیکھتا رہا جب اس گردو غبار نے اس ماں کو ڈھانپ لیا تو قافلے والوں نے اس گرد و غبار کی طرف ہاتھ اٹھا کر خدا حافظ کہا اور اپنی منزل کی طرف چل دیئے۔
٭٭٭

غار والوں کی کہانی



ہزاروں سال پہلے کا ذکر ہے کہ روم میں دقیانوس نامی بادشاہ حکومت کیا کرتا تھا وہ بہت ہی ظالم اور درندہ صفت آدمی تھا۔ اللہ پر یقین نہیں رکھتا تھا اور بتوں کی پوجا کرتا تھا، اس کی پوری قوم اللہ کی عبادت سے ناواقف تھی بلکہ سب کے سب بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ اسی بت پرست قوم میں کچھ سمجھدار لوگ بھی رہتے تھے۔ وہ آپس میں اکثر یہ تذکرہ کرتے تھے کہ یہ مٹی کے بت ہیں جنہیں قوم والے خدا سمجھتے ہیں۔ یہ پتھر کی مورتیاں تو اپنی ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی بھی نہیں ہٹاسکتیں۔ بھلا انسان کو کیا فائدہ یا نقصان دیں گی، کم عقل لوگ ہیں، اتنی سی بات نہیں سمجھتے پھر بادشاہ بھی عجیب آدمی ہے لوگوں کو سختی کے ساتھ ان کی پوجا کرنے پر زبردستی مجبور کرتا ہے۔ بچو! جو لوگ بتوں کی عبادت سے انکار کرتے تھے، بادشاہ ان کو آگ میں ڈال دیتا تھا، ان کے ناخن کھینچ لیتا تھا۔
اس قوم میں ہر سال عید کا میلہ لگتا تھا جس میں تمام لوگ شرکت کے لیے جاتے تھے، یہاں کْشتیاں ہوتی تھیں، دوڑ کے مقابلے ہوتے اور طرح طرح کے کھیل تماشے ہوتے تھے، سارے انعام تقسیم ہونے کے بعد بتوں کی پوجا ہوتی اور مٹھائی تقسیم کی جاتی تھی، ان تمام تمام فضول تماشوں سے تنگ آکر چند لوگ ایک درخت کے سائے میں آکر بیٹھ گئے، ان میں سے کوئی کسی کو نہیں جانتا تھا، آخر ایک نے دوسرے سے تعارف کرایا اور پوچھا بھائی تم سب یہاں کیوں بیٹھ گئے، پہلے نے کہا مجھے بت پرستی سے نفرت ہے، دوسرا بولا ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیوں کی عبادت کرنا کہاں کی عقلمندی ہے، تیسرے نے کہا، پوری قوم جاہل ہوچکی ہے، کوئی بھی خدا کو نہیں جانتا۔
بچو! سب نے مل کر عہد کیا کہ وہ ہرگز بتوں کی پوجا نہیں کریں گے بلکہ صرف اس خدا کی پرستش کریں گے جو سب کا مالک ہے۔
جس نے چاند، تارے، زمین، آسما، پانی اور انسان سب کو پیدا کیا ہے وہی سب کو کھلاتا ہے، پیدا کرتا ہے اور موت دیتا ہے، ان چند ساتھیوں نے مل کر مکان خریدلیا اور وہاں رہنے لگے اور اپنے میں خدا کی عبادت شروع کردی۔ اڑتے اڑتے یہ خبر ان کی قوم میں پھیل گئی کہ چند نوجوان بتوں سے باغی ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں، چند چغل خوروں نے یہ خبر بادشاہ کو بھی پہنچادی۔ بادشاہ نے یہ سنا تو غصے سے لال پیلا ہوگیا اور کہنے لگا میں اس ملک میں بتوں کے خلاف بولنے کی کسی کو اجازت نہیں دے سکتا، اس نے حکم دیا کہ نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جائے اور اس کے سامنے پیش شکیا جائے، جب یہ نوجوان گرفتار ہو کر محل میں گئے تو کیا دیکھا کہ بہت ہی خوب صورت محل ہے، اونچے اونچے کمرے،وسیع دالان، خوبصورت باغیچے، جگہ جگہ قیمتی قالین بچھے ہیں، دیواروں پر خوبصورت اور ریشمی پردے لٹک رہے ہیں، درجنوں نوجوان ہاتھوں میں تلواریں لیے محل کی حفاظت کررہے تھے لیکن اللہ پر ایمان رکھنے والا یہ ن وجوان کسی چیز سے متاثر نہیں ہوئے کیوں کہ وہ صرف اللہ کو بڑا طاقت والا مانتے تھے اور جو اللہ کو بڑا سمجھتے ہیں وہ کسی دوسرے سے قطعی نہیں ڈرتے اور نہ کسیس کے سامنے جھکتے ہیں۔ یہ نوجوان بھی بے خوف بادشاہ کے سامنے گئے بادشاہ نے ان سے کہا، میرے ہم وطنوں میں نے سنا ہے کہ تم قوم کے خدا?ں کو برا بھلا کہتے ہو اور ایک ایسے خدا کو مانتے ہو جسے کبھی آنکھ سے دیکھا بھی نہیں شاید تم جوان ہو اسی لیے اپنے مذہب سے بھٹک گئے ہو، دیکھو تم ان باتوں سے باز آجا? میں تمہیں اچھے اچھے عہدے اور انعام دوں گاا۔
بچو! بادشاہ نے جب اپنی بات ختم کی تو ایک قیدی نوجوان نے کہا بادشاہ سلامت ہم اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت ہرگز نہیں کرسکتے۔ ہمارا خدا بڑی طاقت والا ہے، پھر آپ کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ آپ بھی جھوٹے خدا?ں کو چھوڑ کر سب سے بڑے اور سچے خدا کی بندگی کریں جو مارتا بھی ہو اور زندہ بھی کرتا ہے، سب کو وہی رزق دیتا ہے، پانی برساتا ہے، فصل اگاتا ہے اور اولاد دیتا ہے۔
بچو! بادشاہ نے جب دیکھا کہ نوجوان خدا کی تعریفیں کیے جارہے ہیں تو زور سے چلایا کہ بکواس بند کرو اور غصے سے کانپنے لگا۔ اس نے نوجوانوں سے کہا کہ میں تمہارے باپ دادا کی عزت کرتا ہوں ورنہ تمہیں ابھی اور اسی جگہ قتل کردیتا، تمہیں سوچنے کا موقع دیتا ہوں اگر تم اپنے ارادوں سے باز نہیں آئے تو گردن اڑا دوں گا اور اگر بتوں کو مان لیا تو دربار میں جگہ دوں گا۔ یہ مسلمان نوجوان بادشاہ کے دربار سے نکل کر سیدھے اپنے عبادت خانے میں آئے یہ وہی مکان تھا جو انہوں نے خریدا تھا۔ سب نے مل کر مشورہ کیا کہ ہم شہر سے دور کسی پہاڑ کے غار میں چل کر رہتے ہیں۔ وہاں اللہ کی عبادت کریں گے اور جب تک اس ظالم بادشاہ کی حکومت ختم نہیں ہوجاتی ہم اسی جگہ رہیں گے۔
رات کو جب سب لوگ سوگئے اور ہر طرف اندھیر چھاگیا تو یہ نوجوان خاموشی کے ساتھ اٹھے اپنا سامان باندھ کر کندھے پر رکھا اور شہر سے پہاڑ کی طرف چل دیے۔ انہوں نے ایک کتا پال رکھا تھا وہ کتا بھی ان کے ساتھ چل دیا، چلتے چلتے دوسرے دن دوپہر کو یہ ایک پہاڑ کے پاس پہنچے وہاں ایک غار تھا ان نوجوانوں نے اپنے ہاتھوں سے اس غار کو صاف کیا اور غار میں بیٹھ کر سستانے لگے۔ طویل فاصلہ پیدا چلنے کی وجہ سے یہ بہت تھک چکے تھے کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹ گئے، ان کا کتا غار کے منہ پر بیٹھ کر پہرہ دینے لگا۔ تھکن اور رات بھر پیدل چلنے کی وجہسے انہیں نیند آنے لگی اور ایک ایک کرکے سب سوگئے، کتا ہوں ہی پہرہ دیتا رہا۔
بچو آپ کو حیرت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی نیند سلایا کہ وہ غار کے اندر تین سو سال تک سوتے رہے۔ نہ انہیں بھوک لگی اور نہ بیمار ہوئے، تین سو سال کے بعد سب ایک ایک کرکے اٹھ گئے، ایک دوسرے سے پوچھنے لگے بڑی گہری نیند تھی، ہم کتنی دیر تک سوتے رہے، دوسرے نے جواب دیا، آج ہم سارا دن سوئے، آج شاید دوسرا دن نکل آیا ہے، ایک ساتھی کہنے لگا دو دن ہوگئے ہمیں سوتے ہوئے اب بہت بھوک لگ رہی ہے، انہوں نے کہا ہم میں سے ایک آدمی جا کر بازار سے کھانا لے آئے، ان میں سے یملیخا نامی نوجوان کچھ پیسے لے کر کھانے کا سامان لینے شہر کی طرف جانے لگا سب نے اسے اچھی طرح سمجھادیا کہ کسی کو ہمارے بارے میں مت بتانا ورنہ ظالم بادشاہ گرفتار کرکے قتل کردے گا۔ جب سب نے یملیخا کو اچھی طرح سمجھادیا تو وہ شہر چلاگیا۔ اس نے دیکھا کہ شہر کا نقشہ ہی بدل گیا ہے اور اونچی اونچی عمارتیں، سڑکیں، گلیاں سب کچھ تبدیل ہوگیا یہاں تک کہ ملک میں چلنے والا سکہ بھی بدل گیا، جب یملیخا کھانے کی ایک دکان پر گیاا ور ظالم بادشاہ کے زمانے کا سکہ پیش کیا تو دکاندار حیران رہ گیا اور کہنے لگا یہ تو بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا سکہ ہے تمہیں کہاں سے ملا، چند اور لوگ بھی جمع ہوگئے اور کہنے لگے اس نوجوان کو قدیم خزانہ مل گیا ہے جس میں سے یہ سکہ نکال لایا ہے، نوجوان حیران و پریشان لوگوں کو سمجھانے لگا کہ میرے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے۔ یہ میرا اپنا سکہ ہے لیکن لوگوں نے اسے گرفتار کرکے بادشاہ کے سامنے پیش کردیا۔ اس نئے نادشاہ کا بیدوسس تھا، یہ بہت نیک دل اور ایماندار بادشاہ تھا، جب اسے یہ سکہ دکھایا گیا تو اس نے وزیر سے مشورہ کیا، وزیر نے بتایا کہ تین سو سال قبل جب دقیانوس بادشاہ حکمران تھا یہ سکہ جب چلتا تھا بادشاہ نے نوجوان سے نام پوچھا تو نوجوان نے سب کچھ سچ سچ بتادیا کہ وہ چند ساتھی اپنا ایمان بچانے کی غرض سے فرار ہوگئے تھے۔
بادشاہ ساری کہانی سن کر حیرت زدہ رہ گیا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان نوجوان کو تین صدیوں تک سلائے رکھا، اس عرصے میں کئی بادشاہ تبدیل ہوگئے تھے، یملیخا نے بادشاہ سلامت سے اجازت لی اور اپنے ساتھیوں سے ملنے گیا، ساتھیوں سے مل کر اس نے سارا حیرت انگیز واقعہ سنایا اور بتایا کہ بادشاہ بھی مسلمان ہے، ابھی وہ اپنے ساتھیوں کو یہ بتایں بتا ہی رہا تھا کہ بادشاہ خود اپنے حفاظتی عملے کے ساتھ غار تک پہنچ گیا۔ سب ساتھیوں نے بادشاہ کا استقبال کیا۔ کچھ دیر بادشاہ ساتھ رہ کر رخصت ہوگیا۔
یہ سب ساتھی غار کے اندر چلے گئے اور اللہ کے حکم سے سب کے سب انتقال کرگئے۔ سب لوگ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ تین سو سال تک بغیر کھائے پیئے انہیں سلا کر دوبارہ اٹھا سکتا ہے تو مرنے کے بعد بھی اپنے بندوں کو قیامت کے دن زندہ کردے گا اور اب تک جتنے بھی جاندار مرے ہیں سب کو اٹھا کر اللہ اپنے سامنے پیش کرے گا اور نیکی اور بدی کا فیصلہ کرے گا۔
٭٭٭

کیسی آواز؟

سارہ خالد

وہ جاڑے کی اندھیر اور خوفناک رات تھی۔ ایک رفتار سے برستی طوفانی بارش کا شور کمروں تک سنائی دے رہا تھا۔ زمینی بجلی دوپہر سے ہی غائب تھی جبکہ آسمانی بجلی وقفے وقفے سے کڑک کے بادلوں میں سے جھانکتی تو سارا صحن روسن ہو جاتا۔
ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔ لوگ گھرون میں دبکے بیٹھے تھے۔ دور کہیں سے آتی کتے بلی کی آوازیں ماحول کو عجیب سوگوار اور دہشت زدہ بنا رہی تھیں۔
کمرے میں جلتی واجد سفید موم بتی کا ننھا سا شعلہ اندھیرے سے لڑتا ہولے ہولے لرز رہا تھا۔ کمرے کے ایک طرف لکڑی کی پیٹی میں چھوٹی چھوٹی کترنوں کے نرم بستر پر ننھے سے گرم کمل میں لپٹا دو دھیا خرگوش منہ باہر نکال کر اپنی پیاری سی گول گول آنکھوں سے اپنی محسنہ کے موجود ہونے کا یقین کرکے پھر سے کمل میںمنہ چھپا لیتا۔
ضحی بستر کے ایک طرف بچھی جائے نماز پہ نماز پڑھ رہی تھی۔ دعا مانگ کے اس نے منہ پہ ہاتھ پھیرا اور بستر پہ آگئی۔
’’یہ لو بیٹا دودھ پی کے سونا۔‘‘ بوا دروازہ کھول کے اندر آئیں تو ٹھنڈی ہوا کا تیز جھونکا اندر آگیا انہوں نے دروازہ بند کرکے دودھ کا گلاس قریبی میز پہ رکھ کے زوہا کو ہدایت دی۔
’’بوا آپ یہیں سوئیں گی ناں؟‘‘ اس نے بستر جھاڑ کے دودھ کا گلاس اٹھاتے ہوئے بوا کو دیکھا۔
’’ہاں بیٹا۔ فکر نہ کرو بس باورچی خانہ سمیٹ کے آتی ہوں یہیں سوں گی۔‘‘ کمرے کی دوسری جانب لگے ضحی کی چھوٹی بہن ثمرہ کے خالی بستر کی طرف اشارہ کرکے وہ اچھی طرح دروازہ بند کرکے باہر نکل گئیں۔
وہ گلاس کالی کرکے کمبل میں دبک گئی۔ جلتی ہوئی موم بتی کا قد ہر لمحہ چھوٹا ہو رہا تھا۔
امی بابا ثمرہ کو لے کر بہاولپور گئے ہوئے تھے۔ نانا ابا کی طبیعت کئی روز سے ناساز تھی پرسوں فون پہ بات کرتے ہوئے وہ رو پڑے تو امی گھبرا گئیں۔ بابا بھی پریشان ہو کے اسی شام ٹرین کے ٹکٹ لے آئے یوں تو بہاولپور جانا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اکثر وہ سب چھٹیاں وہیں گزارتے تھے۔ ددھیال، ننھیال سب وہین تھا۔ مگر آج کل بارشیں زوروں پر تھیں۔ نانا ابا سے ملنے کی شدید خواہش کے باوجود امی موسم کے خیال سے تذبذب کا شکار تھیں۔
نانا ابا کے فون نے فیصلہ آسان کر دیا۔ آج دوپہر امی بابا چھوٹی ثمرہ کو لے کر روانہ ہو گئے علی اور ضحی کو گھر پر بوا کی نگرانی میں چھوڑ دیا۔ بوا سالوں سے اس گھر کی ملازمہ تھیں۔ گویا گھر کی فردہوں۔ وہ بالکل نانی دادی کی طرح بچوں کا خیال رکھتی تھیں۔
علی کھانا کھا کے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ ضحی اپنے اور ثمرہ کے مشترکہ کمرے میں آگئی۔ اس طوفانی رات میں اکیلے سونے کا خیال ہی سوہانِ روح تھا۔ وہ تو شکر ہے بوا نے اس کے ساتھ سونے کی ہامی بھر لی تھی۔
خیالات کے طوفان میں بہتے بہتے نجانے کب ضحی نیند کی وادی مین اتر گئی۔ 
چھن… چھن… چھن…
رات کے کسی پہر ضحی کی آنکھ عجیب سی آواز سے کھل گئی۔ اس نے کمبل سے تھوڑا سا منہ باہر نکال کے باہر جھانکا۔ موم بتی پگھل پگھل کے ختم ہونے کو تھی۔ اس کی مدھم روشنی میں کمرہ لرزتا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ بوا ثمرہ کے بستر پہ بے خبر سو رہی تھیں۔ ننھا سپیہ خرگوش بھی میٹھی نیند کے مزے لے رہا تھا۔
تواتر سے بارش برسنے کی ٹپ ٹپ، بادلوں کے گرجنے کی آواز… اور … اور ایک عجیب سی تھورے تھوڑے وقفے سے گونجتی آواز…
ضحی نے یک لخت منہ کمبل میں گھسا کے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ ’’پہ نہیں کس چیز کی آواز ہے…‘‘ اس نے ڈرتے ڈرتے سوچا۔
یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی گرم توے پہ ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مار رہا ہو… عجیب ہی سی کوئی آواز تھی… نہیں… شاید کسی عجیب الخلقت مخلوق کے پنجے رگڑنے کی آواز…
’’کہیں کوئی جن بھوت تو…‘‘ اس نے دل ہی دل میں سوچا اور مزید ڈر گئی۔
آواز تواتر سے آ رہی تھی… اسے جتنی سورتیں یاد تھیں وہ سب دہرا لیں… آیت الکرسی پڑھ کے تھوڑا سا منہ کمبل سے باہر نکال کے سارے کمرے میں پھونک دی… مگر آواز نہ رکی…
چھن… چھن… یا شاید … خر خر… خوف بڑھنے لگا… اس کی نیند اڑ گئی۔ ’’کیا کروں… بوا کو جگا دوں؟؟ نہیں نہیں… وہ بچاری تو سارے دن کی تھکی ہاری ہیں…‘‘
بہت دیر اسی حال میں گزر گئی… آخر اس نے دھیرے سے بوا کو آواز دی… ایک بار دو بار، تین… بوا ٹس سے مس نہ ہوئیں شاید گہری نیند میں تھیں…
آواز ہنوز آرہی تھی… وہ دل ہی دل میں لرزتی کانپتی رہی… آخر اس نے بوا کے بستر پہ ان کے ساتھ سونے کا فیصلہ کیا… اب اکیلے سونا ممکن نہیں رہا تھا۔ وہ کمبل لپیٹ کے اٹھ گئی۔
جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہی تھی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی۔ وہ جلدی سے بوا کے قریب پہنچ گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ بوا کو ہلاتی… اسے عجیب سا احساس ہوا۔
’’اوہ!‘‘ وہ عجیب و غریب آوازیں جنہوں نے اسے سوتے سے اٹھا دیا تھا دراصل بوا کے منہ سے آرہی تھیں۔ غالباً وہ اسی انداز میں خراٹے لیتی تھیں۔ بے ساختہ اس کی ہنسی نکل گئی۔ ڈر خوف سب بھاگ گئے… اتنی سی دیر میں اس کا آدھا خون خشک ہو گیا تھا…
وہ اسی طرح منہ پہ ہاتھ رکھے ہنستی ہوئی واپس بستر کی طرف چل دی۔
صبح بے حد روشن تھی۔ رات بھر برس کے بارش اب تھمی تھی۔ وہ تلاوت کے بعد باورچی خانے میں آگئی۔
’’بیٹا رات ٹھیک سے تو سوئیں ناں؟ مینہ خوب برسا ہے۔ ڈر تو نہیں لگا؟‘‘ بوا نے پراٹھا بیلتے ہوئے پوچھا۔
’’بہت اچھی رات گزری بوا۔‘‘ اس نے ہنسی چھپا کے انہیں اطمینان دلایا اور پھر زور سے ہنس دی۔
٭٭٭

دو موزے والا

گلشن ناز

یہ اُس وقت کی بات ہے جب عرب میں اسلام کا سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ ہر طرف ظلم و زیادتی کا دور دورہ تھا۔ عرب کے لوگوں کا کوئی خاص مشغلہ نہ تھا۔ کاشت کاری نہ ہونے کی وجہ سے ان کی ساری گزربسر صرف اونٹوں کے گوشت، دودھ اور کھجوروں پر ہوتی تھی۔ ذریعہ معاش صرف تجارت تھا اور باقی وقت آبا و اجداد کے حسب و نسب اور ان کے کارناموں کے قصے پر فخر کرتے گزارتے، یا پھر موسیقی کی محفل اور شراب نوشی اور شعرو شاعری میں ان کا وقت گزتا تھا۔ ان میں حسنین نامی ایک شخص بہت بے وقوف تھا، بہت کوشش کے باوجود بھی سوائے نقصان کے کچھ ہاتھ نہ آتا تھا۔ لیکن اس کی ناکامیوں کی وجہ یہ تھی کہ وہ بہت شیخی بگھارتا تھا اور کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتا تھا۔
اس کی بیوی ایک سمجھدار عورت تھی، وہ اسے کسی نہ کسی طرح ترغیب دے کر کچھ نہ کچھ کام دلوادیتی، لیکن یہ ہمیشہ اپنی بے وقوفیوں سے ناکام ہو جاتا۔
ایک مرتبہ اس کی بیوی نے اسے ایک گوّیے کے پاس کام دلوادیا۔ اس کی بیوی چاہتی تھی کہ یہ ایسا کام کرے جس میں اس سے کوئی بے وقوفی سر زد نہ ہو… اور گوّیا بننا ہی اس کو سب سے بہتر کام لگا، کیونکہ اس میں صرف گانا اور کمانا ہوتا تھا۔ استاد، حسنین سے دن بھر کام کراتا اور رات کو اسے گانا سکھاتا۔ اب بے چارا حسنین دن بھر کام کرتا اور رات کو گلا پھاڑ پھاڑ کر گانا گاتا۔ ایک عرصہ تک وہ دلجمعی سے یہی کام کرتا رہا۔
ایک مرتبہ اس کے استاد کی طبیعت ناساز تھی اور اس کو ایک بزمِ طرب میں بھی جانا تھا، لیکن طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے وہ جانہ سکا۔ اس نے اپنے شاگرد حسنین کو وہاں گانے کے لیے بھیج دیا۔  حسنین وہاں پہنچا تو لوگوں نے اس کا استقبال بڑے پُرجوش انداز میں کیا۔ جب حسنین نے دیکھا کہ لوگ اس کو بہت عزت دے رہے ہیں تو اس کا سینہ فخر سے پھول گیا۔ اس نے دل میں سوچا کہ مجھے موسیقی کا سارا علم حاصل ہوگیا تب ہی مجھے استاد نے محفل میں بھیج دیا ہے۔
جب محفلِ موسیقی شروع ہوئی تو اس نے سوچاکہ میں استاد کے طریقے کے مطابق کیوں گائوں؟ میں کچھ الگ طریقے سے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کروں گا۔
یہ سوچ کر اس نے گانا، گانا شروع کیا۔ وہ بے ہنگم آواز میں گاتا رہا۔ پہلے تو لوگ ہنستے رہے، اور یہ سمجھے کہ شاید محفل میں مزاح و نشاط پیدا کرنے کے لیے ایسا گا رہا ہے۔ لیکن جب لوگوں کی برداشت سے باہر ہوگیا تو وہ سمجھے یہ گوّیا نہیں بلکہ ہمیں بے وقوف بنا کر ہم سے پیسے بٹورنا چاہتا ہے۔ یہ سوچ کر لوگوں نے اسے مارنا پیٹنا شروع کردیا۔ حسنین کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ لوگ اس کے ساتھ اس قدر ذلت آمیز سلوک کیوں کررہے ہیں۔ اس نے بھاگنے میں ہی عافیت جانی اور بچتا، بچاتا ہوا گھر لوٹ آیا۔ پھٹے ہوئے کپڑے، بکھرے ہوئے بال، چہرے اور ہاتھوں پر مار کے نشان دیکھ کر اس کی بیوی سمجھ گئی کہ یہ ضرور اس کی کسی بے وقوفی کی سزا ہے۔ جب حسنین نے اپنی ’’اس عزت افزائی‘‘ کی داستان سنائی تو اس کی بیوی نے غصے سے سر پیٹ لیا۔ جب علاقے کے لوگ اس کی بیوی سے پوچھتے کہ حسنین کیا کچھ لے کر لوٹا ہے؟ تو یہ اس کی عزت بچانے کے لیے یہی کہتی کہ سوائے دو موزوں کے کچھ ہاتھ نہ آیا، لہٰذا وہ صرف دو موزے ہی لے کر لوٹا ہے۔
پھر کچھ دنوں تک اس کی بیوی اس کی خدمت کرتی رہی۔ ایک دن اس کی بیوی نے سنا کہ ایک قافلہ یمن کی طرف تجارت کی غرض سے جا رہا ہے۔ اس نے سوچا کہ حسنین کی اتنی بے عزتی کے بعد کوئی اس کو یہاں کام نہیں دے گا۔ حسنین کو یمن بھیج دیا جائے۔ وہاں نیا ملک، نئے لوگ ہوں گے تو ہوسکتا ہے تھوڑے بہت پیسے کما لائے۔ یہ سوچ کر اس بے چاری نے گھر کی چند چیزیں رہن رکھوا کر ادھار لیا اور اس کو تجارت کا سامان دے کر یمن کی طرف روانہ کردیا۔ یمن جاکر حسنین تجارت کرتا رہا، لیکن جب تھوڑا منافع ہونے لگا تو وہ اپنی طبیعت کے موافق یہ سوچنے لگا کہ اب میرا شمار بڑے بڑے تاجروں میں ہونے لگا ہے، اب کچھ بھی کسی بھی دام بیچوں، لوگ مجھ سے ضرور خریدیں گے۔ یہ سوچ کر حسنین نے چیزوں کے نرخ بڑھا دیے۔
ایک دن ایک اعرابی اس کے پاس موزہ خریدنے گیا۔ بھائو تائو کے دوران دونوں میں تلخی ہوگئی۔ اعرابی نے موزے خریدے اور واپس چلا گیا۔ اگلے روز حسنین اپنا ساز و سامان باندھ کر واپس جانے کی تیاری کرنے لگا۔ اعرابی کو پتا چلا تو اس نے حسنین کو دھوکا دینے کی ٹھانی۔ وہ اعرابی حسنین کے راستے میں بیٹھ گیا۔ حسنین اپنا سازو سامان لادے قافلے والوں سے ملنے جا رہا تھا۔ ایک موزہ اُس اعرابی نے حسنین کے راستے میں ڈال دیا اور کچھ آگے کچھ فاصلے پر دوسرا موزہ ڈال دیا اور خود ایک طرف چھپ گیا۔
حسنین جب وہاں پہنچا اور اس کی نظر جب موزے پر پڑی تو کہہ اٹھا کہ یہ تو اعرابی کے موزوں کی طرح ہے۔ اس نے سمجھا کہ اعرابی غصے میں خرید کر یونہی پھینک کر چلا گیا ہوگا۔ موزہ نہیں اٹھایا، آگے گیا تو دوسرا موزہ دیکھا۔ اب اسے افسوس ہوا کہ اس نے پہلا موزہ کیوں نہ اٹھایا۔ اس لیے اونٹنی وہیں باندھ کر پہلے موزے کو اٹھانے چلا گیا۔ اعرابی نے دیکھا کہ اب حسنین اپنا سامان مع اونٹنی چھوڑ کر چلا گیا تو وہ اونٹنی اور اس پر لدا ہوا سامان لے اڑا۔
حسنین بے چارہ دو موزے اٹھائے گھر آیا۔ جب لوگ اور اس کی بیوی پوچھتی کہ کیا لائے ہو؟ تو کہتا کہ میں دو موزوں کو ساتھ لایا ہوں۔
لوگ آج تک حسنین کی مثال دیتے ہیں۔ جب کوئی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو اور ناکام و نامراد لوٹے تو لوگ اس وقت محاوراتی طور پر حسنین کے متعلق یہی کہتے ہیں کہ یہ دو موزے لے کر لوٹا ہے۔ 
٭٭٭

جانچ

مائل خیر آبادی

بچو! آئیے آج میں آپ کو وہ کہانی سناتا ہوں جو پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے ساتھیوں صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو سنائی تھی۔ یہ کہانی دلچسپ بھی ہے اور آپ کو اس سے بڑی نصیحت بھی ملے گی۔ اچھا لیجیے سنیے کہانی:
بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے۔ ایک تھا کوڑھی، ایک تھا گنجا اور ایک اندھا… اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس گیا اور اس سے پوچھا: تجھے سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے جواب دیا: اچھی کھال، اچھا جسم اور اچھا رنگ۔ اس کے کہنے پر اسے اچھی جلد مل گئی۔ پھر فرشتے نے اس سے پوچھا کہ تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے جواب دیا: اونٹ۔ فرشتے نے ایک اونٹنی دے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں تیرے لیے برکت عطا فرمائے گا۔ اس کے بعد وہ فرشتہ گنجے کے پاس گیا اور اس سے بھی اسی طرح پوچھا کہ تجھے کیا چیز زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا کہ خوب صورت بال، میری یہ بیماری دور ہوجائے جس سے لوگ گھن کھاتے ہیں۔ فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہوگئی اور خوب صورت بال نکل آئے۔ پھر فرشتے نے پوچھا کہ تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: گائے۔ فرشتے نے اسے ایک گائے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت عطا فرمائے گا۔ پھر وہ فرشتہ اندھے کے پاس گیا اور پوچھا کہ تجھے کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے دکھائی دینے لگے۔ فرشتے نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا اور اسے دکھائی دینے لگا۔ پھر فرشتے نے پوچھا: تجھے کون سا مال پسند ہے؟ اس نے کہا کہ بکریاں۔ تو فرشتے نے اسے ایک بکری دی اور اسے بھی برکت کی دعا دی۔ اس کے بعد وہ فرشتہ چلا گیا۔ ادھر تینوں جانوروں کے بچے بڑھنا شروع ہوگئے۔ ایک کی اونٹوں، دوسرے کی گائیوں سے اور تیسرے کی بکریوں سے چراگاہیں بھرگئیں۔ اب دیکھیے وہ فرشتہ اپنی اسی صورت میں پھر آیا اور پہلے کوڑھی کے پاس گیا اور کہا کہ میں ایک مسافر آدمی ہوں اور میرا سامانِ سفر ختم ہوچکا ہے، اب میں اپنے گھر تک نہیں پہنچ سکتا، ہاں، اگر اللہ مدد کرے اور تُو مدد کرے۔ جس رب نے تجھے یہ خوب صورت جسم اور رنگ دیا ہے اور یہ مال عطا فرمایا ہے، اسی کے لیے تجھ سے ایک اونٹ مانگتا ہوں۔ اس شخص نے کہا: حق دار تو بہت ہیں کس کس کو اونٹ دوں؟ فرشتے نے کہا: ایسا لگتا ہے کہ میں تجھے پہلے سے جانتا ہوں۔ تُو وہی تو نہیں جو پہلے کوڑھی تھا، پھر اللہ نے تجھے اچھا کردیا اور یہ مال عطا فرمایا۔ اس نے کہا کہ نہیں، نہیں میں وہ نہیں ہوں اور یہ مال تو میں نے باپ دادا سے پایا ہے، تم کیا کہہ رہے ہو! فرشتے نے کہا: اگر تُو جھوٹ بول رہا ہے تو اللہ تجھے ویسا ہی بنادے جیسا تُو تھا۔
پھر فرشتہ گنجے کے پاس گیا اور اس سے وہی سوال کیا جو کوڑھی سے کیا تھا۔ گنجے نے بھی اسی طرح جواب دیا تو فرشتے نے کہا کہ اگر تُو جھوٹ بول رہا ہے تو جیسا پہلے تھا اللہ تجھے ویسا ہی بنا دے۔
اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس گیا اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں، جس رب نے تجھے یہ سب کچھ دیا ہے، اسی کے نام پر ایک بکری مانگتا ہوں۔ اس شخص نے کہا کہ میں اندھا تھا اللہ تعالیٰ نے رحم کرکے میری آنکھیں ٹھیک کردیں۔ جو لینا چاہے لے لے اور جو چھوڑنا چاہے چھوڑ دے، میرا سارا مال حاضر ہے۔ فرشتے نے کہا: اسے اپنے پاس ہی رکھو، یہ تو اللہ تعالیٰ نے تمہاری جانچ کی تھی، اللہ تم سے راضی ہوا اور ان دونوں سے ناراض ہوا۔ ان میں سے جو کوڑھی تھا وہ پھر کوڑھی ہوگیا اور اس کے سارے جانور مر گئے۔ اور جو گنجا تھا وہ پھر گنجا ہوگیا اور اس کے بھی سارے جانور مر گئے۔ اب وہ دونوں بڑے دکھ میں ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں اور بھی برکت عطا فرمائے گا اور آخرت میں بھی تمہارے درجے بلند کرے گا۔
پڑھ لی آپ نے یہ کہانی۔ سچ بتائیں ہے ناں دلچسپ اور نصیحت بھری۔ اچھا اب یہ بتائیے کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو مال دار بنا دے تو آپ ان تینوں میں سے کس کی پیروی کریں گے؟
٭٭٭

معافی

مائل خیر آبادی

ابھی دو تین دن کی بات ہے، عائشہ نے میری ڈرائنگ کاپی سے گلاب کے پھول کا صفحہ پھاڑ لیا تھا۔ شام کو جب میں گھر آیا تو وہ بڑی خوشی کے ساتھ اس پھول سے کھیل رہی تھی۔ بے وقوف سونگھتی تھی۔ بھلا کہاں تصویر اور کہاں اصل پھول! میں نے اپنی ڈرائنگ کاپی کا ایک صفحہ اُس کے ہاتھ میں دیکھا تو پکڑ کر مارنا شروع کردیا۔ چار برس کی ننھی جان تتلا تتلا کر ’’بھائی جان معاف… بھائی جان معاف‘‘ یعنی معاف کردیجیے کی التجا کررہی تھی، پھر میں نے کئی تھپڑ اور گھونسے رسید کردیے اور وہ گر گئی۔ امی جان نے یہ مار دھاڑ سنی تو دوڑی آئیں اور اسے میرے چنگل سے چھڑا کر لے گئیں۔ رات ہوتے ہوتے عائشہ کو بخار ہوگیا۔ وہ بخار میں ’’بھائی جان معاف… بھائی جان معاف‘‘ بک رہی تھی۔
ابو جان دکان سے عشاء کے بعد آتے ہیں۔ وہ عشاء کے بعد آئے اور سارا حال سنا تو بڑے افسوس کے ساتھ فرمانے لگے کہ ’’ایک زمانہ وہ تھا کہ مسلمان معافی کا لفظ سن کر دشمن کو معاف کردیتا تھا، آج اپنی سگی بہن، وہ بھی ننھی سی جان کو معاف نہیں کیا جاتا اور صاحبزادے ہیں کہ مسلمان کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر ابا جان عائشہ کو پیار کرنے لگے اور مجھے کچھ نہ کہا۔ میرا غصہ بھی اتر چکا تھا، اب مجھے بھی افسوس ہورہا تھا کہ عائشہ کو فضول مارا۔ اس کے بعد ابا جان کھانا کھا کر عائشہ کے پاس آبیٹھے۔ میں بھی جاکر بیٹھ گیا۔ امی جان کے آنے پر ابا جان نے معافی کا ایک ایسا واقعہ سنایا جیسے سن کر میں دنگ رہ گیا کہ کبھی ایسے مسلمان بھی ہوا کرتے تھے! یہ واقعہ ایک بدو سردار کا ہے، جو کچھ یوں ہے:
ایک بار ایسا ہوا کہ ایک یہودی نے ایک مسلمان بدو کو قتل کردیا اور بھاگ گیا۔ دوسرے بدوئوں نے سنا تو یہودی کے پیچھے دوڑے۔ یہودی بھاگ کر ایک نخلستان میں گھس گیا اور نخلستان کے مالک سے کہا: ’’اللہ کے واسطے مجھے بچا لو، میرے دشمن میری جان لینے آرہے ہیں۔‘‘ نخلستان کا مالک ایک بوڑھا شخص تھا۔ اس نے یہودی کو نخلستان میں چھپا دیا، پھر جب دوسرے بدو دوڑے ہوئے آئے تو انہوں نے بوڑھے کو بتایا کہ ایک یہودی نے آپ کے بیٹے کو قتل کردیا ہے اور وہ آپ کے نخلستان میں آیا ہے۔‘‘
یہ سننا تھا کہ شیخ دل پکڑ کر رہ گیا۔ اس نے بتایا کہ ہاں، ہاں وہ یہاں آیا ہے، میں نے اسے اپنے گھر میں پناہ دی ہے، اب تم اسے قتل نہیں کرسکتے۔ نوجوان بدوئوں نے بہت ضد کی لیکن بوڑھا بیٹے کے غم میں روتا تو جاتا تھا، پھر بھی یہی کہے جاتا کہ میں نے اسے اللہ کے واسطے پناہ دی ہے، میں نے اسے معاف کردیا ہے، تم اسے قتل نہیں کرسکتے۔
جب نوجوان بدو چلے گئے تو بوڑھے شیخ نے یہودی سے کہا: ’’لو تم یہ گھوڑا لو اور جس قدر تیزی سے بھاگ سکو یہاں سے نکل جائو۔ نخلستان سے باہر میں تمہاری جان کی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔‘‘ یہودی گھوڑے پر سوار ہوکر بھاگ گیا۔
یہ واقعہ سناکر ابا جان نے میری طرف دیکھا تو شرم کے مارے میرا سر جھک گیا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
٭٭٭

How to Earn Money from Facebook Free without Investment in Urdu

By Mohsin Waheed on January, 4th 2015 in Earn Money Online
If you are thinking about how to earn money from facebook without investment in urdu than you are very lucky to find this page. This urdu guide will teach you how you can generate income by playing games, fan pages, facebook ads page, group, pdf, page likes etc. You don’t need to have full knowledge about English, programing language or web deigning. First of all you need an account with as many friends as possible so that you can send them invites later on. After that create a page with your targeted niche(topic) and invite your friends to like that page. Now here comes the fun part in which you have to sell your own product or somebody else products like ClickBank, eBay, Commission Junction etc.


Earn money with Facebook free
Today I want to tell you about my friend Muhammad Yousaf bhai who is making millions from Facebook only. The good thing is that they also teach people via step by step guide but of-course you have to pay them. But today I bring you the free coupon code through which you can access all the videos for free. Their main website is Internet Business Training and all you have to do is to visit the site and create new account. While creating account you just have to enter the coupon code mention below and access videos for free.









پڑھا لکھا گدھا

مؤلف مہدی آذریزدی
ترجمہ:ڈاکٹر تحسین فراقی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خسرو نوشیرواں کے عہد میں ایک فریق کے درمیان تُو تُو مَیں مَیں شروع ہوئی اور معاملہ زد و کوب تک جا پہنچا۔ جب انہیں پکڑ کر عدالت میں لایا گیا تو معلوم ہوا کہ دو لوگوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا اور ایک نے دوسرے کو لاٹھیوں سے پیٹا۔ اس وقت مضروب کے چند دوست اس کی مدد کو آئے۔ چند دوست دوسرے کی مدد کو پہنچے اور اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔
نوشیرواں کی موجودگی میں کسی نے لڑائی کا آغاز کرنے والے سے پوچھا: ’’تُو نے اس کو لاٹھیوں سے کیوں پیٹا؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’اس شخص نے مجھ پر ظلم کیا تھا، میری رقم ہضم کر گیا تھا، سو میں نے اس کی پٹائی کردی۔‘‘
لوگوں نے کہا: ’’اچھا اگر اس نے تجھ پر ظلم کیا تھا تو تُو اس کی شکایت کرتا اور اپنا حق حاصل کرلیتا۔ یہ کیا کہ تُو نے خود اس سے لڑائی شروع کردی۔ آخر یہ عدالتیں اور دربار کس مرض کی دوا ہیں؟‘‘
وہ بولا: ’’میں اپنی شکایت بیان کرنے کے لیے چند بار آیا لیکن چونکہ میرا حریف دربانوں کا دوست تھا اس لیے کسی نے میری بات نہ سنی اور مجھے دربار کے اندر جانے نہ دیا۔ میں بھی عاجز آگیا اور میں نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر انتقام لینے کا ارادہ کرلیا۔‘‘
اس روز تو کسی نہ کسی طرح اس قضیے کو نمٹا دیا گیا، لیکن نوشیرواں نے اپنے قریبی ساتھیوں سے کہا: ’’ہمارے پاس ان لوگوں کے لیے کوئی منطقی اور اطمینان بخش جواب نہیں ہے اور یہ ہمیں رسوا کررہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا میں کیا کروں؟‘‘
بعدازاں بھی چند بار جب ایسی ہی صورتِ حال پیدا ہوئی اور معلوم ہوا کہ کسی کو کسی سے غرض نہیں تو شیرواں نے مجبوراً اپنے زیرک اور ہوشیار وزیر بزرجمہر سے کہا: ’’میں نیک نامی چاہتا ہوں مگر اس صورتِ حال میں تو یہ ممکن نہیں۔ کیا تمہارے پاس اس کا کوئی علاج نہیں؟‘‘
بزرجمہر بولا: ’’صحیح علاج تو لوگوں کو ٹھیک ٹھیک انصاف مہیا کرنا ہے۔ لیکن موجودہ صورت میں یہ بھی کوئی ایسا برا نہیں اگر لوگوں اور ان کی منزل یعنی انصاف کے درمیان فاصلہ کم ہوجائے۔ مطلب یہ کہ آپ خود دیکھیں کہ لوگوں کا مسئلہ کیا ہے، نہ یہ کہ درمیان میں دربان اور چوب دار حائل ہوں۔ میرے ذہن میں ایک تدبیر آئی ہے۔ ایسا کریں کہ ریشم کی ایک مضبوط رسّی لے کر اس میں گھنٹیاں باندھی جائیں۔ پھر اس کا ایک سرا دربار کے ایوان کے اوپر اور دوسرا سرا شہر کے میدان میں ایک زنجیر کے ساتھ باندھ دیا جائے تاکہ جس کسی کو شکایت ہو وہ اس زنجیر کو کھینچے اور آپ خود اس سے باخبر ہوجائیں۔ آپ فریادی کو خود طلب کریں اور دیکھیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔ اس طرح کم از کم دربان، داد خواہوں کو اندر آنے سے نہیں روک سکیں گے۔‘‘
نوشیرواں خوش ہوا اور بولا: ’’واہ وا، سبحان اللہ۔ آج کے بعد تمہارا نام بزرجمہر حکمت والا ہے۔ لو اس کام کو تکیمل تک پہنچائو۔‘‘
زنجیر نصب کردی گئی اور یہ مشہور کردیا گیا کہ یہ عدل کی زنجیر ہے۔ ڈھنڈورچیوں نے شہر میں ڈونڈی پیٹ دی کہ جس کسی پر ظلم ہو یا کسی کو کسی سے شکایت ہو، میدان میں آکر زنجیر ہلا دیا کرے تاکہ نوشیرواں اس کو انصاف مہیا کرے۔
البتہ تاریخ یا روایتوں میں ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی جس سے اندازہ ہوسکے کہ اس زنجیر سے کسی کو فائدہ پہنچا ہو، کیونکہ اس کی حیثیت محض ایک دکھاوے کی تھی اور لوگ نوشیرواں کے ظلم اور زیادتیاں دیکھ چکے تھے اور ان نمائشی چیزوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ بعد میں تو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ خود بزرجمہر اسی نوشیرواں کے حکم سے قتل ہوا۔
بہرحال مدت گزر گئی، حتیٰ کہ ایک روز صبح ریشمی رسّی میں حرکت پیدا ہوئی اور اس سے لگی ہوئی گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئیں۔ نوشیرواں نے حکم دیا: ’’جائو اور فریادی کو حاضر کرو۔‘‘ٰ
ملازم دوڑے دوڑے گئے اور یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ وہاں سوائے ایک بیمار اور بے پالان گدھے کے اور کوئی نہ تھا جو زنجیر کے پاس کھڑا اپنی زخمی گردن کو زنجیر پر گھس رہا تھا اور اپنے جسم پر کھجلی کررہا تھا۔ وہ بولے: ’’کیسا احمق گدھا ہے کہ زنجیر سے کھِلاڑ کرنے کو یہاں چلا آیا ہے۔‘‘ پھر انہوں نے گدھے کو زنجیر سے کچھ فاصلے پر ہنکا دیا اور واپس جاکر بادشاہ سے کہا: ’’میدان میں کوئی بھی نہیں۔‘‘
بادشاہ بولا: ’’اور یہ گھنٹیاں کاہے کو بج رہی تھیں؟ تم کہتے ہو وہاں کوئی بھی نہیں!‘‘ ملازم بولے: ’’نہیں کوئی بھی نہ تھا سوائے ایک گدھے کے، جس کی پشت پر زخم تھا اور وہ اپنے جسم کو رسّی پر کھجلا رہا تھا۔‘‘ بادشاہ نے پوچھا: ’’کس کا تھا وہ گدھا؟‘‘ وہ بولے ’’ایک آوارہ گدھا تھا۔ کوئی اس کے ہمراہ نہ تھا۔‘‘
وہاں حکیم بزرجمہر بھی موجود تھا، اس نے کہا: ’’بات یہ ہے کہ اگر اس گدھے کا کوئی مالک ہوتا، اس کی پشت پر پالان ہوتا، اس کا طویلہ ہوتا، وہ باقاعدہ خوراک کھاتا اور کوئی اس کے ساتھ ہوتا تو اسے زنجیر سے کیا لینا تھا؟ میرا خیال ہے اسے کوئی شکایت یہاں لے آئی ہے۔ ٹھیک ہے، اسے یہاں لائو تاکہ معلوم ہوسکے کہ اس کا مالک کیوں نہیں ہے؟‘‘
ملازم ہنستے ہوئے گئے، گدھے کی گردن میں رسّی ڈالی اور اسے کھینچتے ہوئے دربار میں لے آئے۔ بادشاہ نے ایک نگاہ گدھے پر ڈالی اور وزیر سے کہا: ’’اچھا، عزیز بزر جمہر! یہ ہے صورت، سو بتائو کہ کیا چاہتا ہے یہ؟‘‘
٭٭٭

دوستی یا …؟

فرحی نعیم

یاسر دائیں ہاتھ کی مٹھی بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر مسلسل مار رہا تھا افسوس اور غصہ اس کے چہرے سے مترشح تھا۔ کبھی وہ پلنگ پر بیٹھتا اور کبھی کھڑے ہو کر ٹہلنے لگتا۔
’’کیا کروں؟‘‘ وہ اپنے آپ سے بولا ’’اسد کا بچہ بس ایک دفعہ مجھے مل جائے پھر میں اُس کی ساری باتوں کا جواب دے دوں گا۔‘‘ و کتنی ہی دیر اسی طرح ٹہلتا رہا پھر آخر کار تھک کر بیٹھ گیا۔
’’یاسر‘‘ باجی اُسے باہر سے آوازیں دیتی وہیں آرہی تھیں ’’یاسر‘‘ میں نے چائے بنا لی ہے باہر آکر چائے… ارے تمہیں کیا ہوا؟‘‘ باجی جو اُسے چائے کا کہنے آئیں تھیں اس کے چہرے کے عجیب و غریب تاثرات دیکھ کر حیرانی سے پوچھنے لگیں تھیں۔
’’کچھ نہیں باجی۔‘‘ یاسر نے انہیں ٹالا۔
’’نہیں کوئی بات ہے جو تم اتنے الجھے ہوئے لگ رہے ہو۔‘‘
’’نہیں باجی میں تو ٹھیک ہوں آپ کو شاید وہم ہوا ہے۔‘‘ یاسر نے ذبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا تم کہتے ہو تو مان لیتی ہوں، چلو باہر آکر چائے پی لو، امی، شہزاد سب انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
’’جی ابھی آیا۔ آپ چلیں میں بس پانچ منٹ میں۔‘‘ یاسر جلدی سے بولا اور باجی واپس پلٹ گئیں۔
’…ارے یار! تم کیسے بے وقوف ہو، آخر تم خاموش کیوں رہے۔‘‘ حسن، یاسر سے کہہ رہا تھا۔
’’کمال کر دیا، یوں تو تم اتنی باتیں کرتے ہو اور اس کے معاملے میں تم کو گویا سانپ ہی سونگھ گیا۔‘‘ عبید بھی یاسر کو ٹہوکا دیتے ہوئے بولا۔ اور یاسر خاموشی سے ہونٹوں کو بھینجتا رہا۔ اُس کو اب پرسوں والے واقعہ پر نئے سرے سے غصہ آنے لگا تھا۔
’’حد کر دی تم نے تو میں تو تم کو…‘‘ حسن گردن جھٹک کر بولا۔
’’واقعی یار تم تو بڑے کم ہمت نکلے۔‘‘ عبید نے بھی افسوس کیا لیکن یاسر تو کم ہمت کا لفظ سنتے ہی یک دم کھڑا ہو گیا ایسا لگا جیسے اُسے کسی نے تیلی رکھا دی ہو۔ میں کم ہمت نہیں ہوں۔‘‘ وہ بپھر کر بولا تھا۔
’’کم ہمت نہیں تھے تو اسد کی اتنی باتوں کے جواب میں خاموش کیوں رہے‘‘ عبید طنزاً بولا۔
’’وہ تو اس وقت میں…‘‘ یاسر گڑبڑا گیا۔
’’ہاں کیا اُس وقت؟ مجھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ تم گونگے کا گڑ کھائے ہوئے ہو۔‘‘ حسن نے بھی عبید کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
’’ایسی بات نہیں تھی، وہ تو بس میں نے مصلحت، میں تو اس لیے خاموش رہا کہ مزید بات نہ بڑھ جائے۔‘‘ یاسر نے بات بناتے ہوئے کہا!
’’ورنہ تم لوگ تو جانتے ہو میں کسی کا ادھار نہیں رکھتا۔‘‘
’’ہاں ہم بھی تو یہی چاہتے ہیں، کہ ہمارا یار تو بہت بہادر ہے نہ کسی سے دبتا ہے نہ کسی سے ڈرتا ہے۔‘‘ عبید نے جلدی سے اُس کی تعریف کی۔
’’بالکل وہ تو اتنا بہادر ہے کہ اینٹ کا جواب اب پتھر سے دیتا ہے۔‘‘ حسن نے بھی اُس کے شانے کو دباتے ہوئے کہا پھر توقف کرکے بولا۔ ’’تو پھر انتظار کس بات کا ہے ہو جائے پھر اس سے دو دو ہاتھ۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ یاسر نے چونکتے ہوئے حسن کی طرف دیکھا۔
’’یار سیدھا سا مطلب ہے، اسد جو بڑا اتراتا پھر رہا ہے اس کو، اس کی دیدہ دلیری کا جواب تو ملنا چاہیے۔‘‘
’’صرف جواب نہیں بلکہ زور دار جواب‘‘ عبید نے بھی ٹکڑا لگایا۔
’’کیا تم دونوں یہ چاہتے ہو کہ میں اب وہاں جا کر…‘‘ لیکن یار…‘‘ 
’’ارے کیا لیکن ویکن یہ بات زیادہ عرصہ کی تو نہیں، پرسوں ہی کی تو ہے۔ سچ فیل صرف ایک کل کا دن ہی تو گزرا ہے۔ تم تو ایسے ڈر رہے ہو کہ جیسے وہ تمہیں کھا جائے گا۔‘‘ حسن نفی میں گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
’’میں ڈرتا ور تا نہیں، اور اسد ہے کیا چیز میں ابھی دیکھ لیتا ہوں۔‘‘ وہ فوراً ہی اٹھتے ہوئے بولا اور تیزی سے اس طرف چل پڑا جہاں اسد کا گھر تھا۔ جو یاسر کے محلے سے اگلا محلہ تھا۔ یاسر تو تیزی سے اکیلے ہی آگے بڑھ گیا تھا اُس نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ اکیلا وہاں جارہا ہے جبکہ وہاں تو اسد کا بھائی اور اس کے محلے گلی کے دوست بھی ہوں گے۔ غصہ نے اُس کی عقل گم کر دی تھی۔ اور دوسری طرف اس کے گلی سے مڑتے ہی حسن اور عبید نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر دونوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔ وہ دونوں جو چاہتے تھے اس میں وہ کامیاب ہو گئے تھے۔
’’چلو بھئی اب کل ملیں گے۔‘‘ حسن مسکراتے ہوئے بولا۔
’’اور دیکھیں گے کہ یاسر کی کیا گت بنتی ہے۔‘‘ عبید نے بھی دانت نکالتے ہوئے کہا اور دونوں نے اپنے اپنے گھر کی راہ لی وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے تو یاسر گھر آیا تو اس کا برا حال تھا وہ لنگڑاتا ہوا بڑے کمرے میں آیا اور صوفہ پر ڈھیر ہو گیا۔ گھر والوں نے جو اس کا یہ حال دیکھا تو سب ہی گھبرا کر دوڑے ہوئے اُس کے پاس گئے۔
’’یاسر، میرے بیٹے کیا ہوا‘‘ امی رونی آواز میں پوچھ رہی تھیں۔
’’کیا تمہاری کسی سے لڑائی ہوئی ہے۔‘‘ ابو اس کو بغور دیکھتے ہوئے بولا۔
’’نہیں ابو وہ میں، سیڑھیوں سے گر گیا تھا۔‘‘ یاسر نے لڑھکڑاتی ہوئی آواز میں ابو کو جواب دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ باجی اس کے لیے دودھ لے آئی تھیں اور زبردستی پلا رہی تھیں اُس نے بمشکل چند گھونٹ لیے اور پھر لیٹ گیا۔ اس کا سارا جسم دکھ رہا تھا۔
’’چلو اٹھو ڈاکٹر کے ہاں چلیں تمہارا منہ بھی سوج رہا ہے اور ہاتھ پیروں پر بھی نیل پڑے ہیں۔‘‘ ابو بولے اور اسے سہارا دے کر گاڑی میں بٹھایا۔ امی بھی ساتھ بیٹھ گئیں تھیں۔
ڈاکٹر نے دوا دی اور جہاں زیادہ چوٹ تھی وہاں پٹی کر دی تھی۔ یاسر کا تو جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔ وہ ڈاکٹر کے ہاں سے آکر دوا کھا کر سو گیا تھا۔ سب کے کئی دفعہ پوچھنے کے باوجود اُس نے حقیقت ظاہر نہ کی تھی بس یہی کہتا رہا کہ میں اپنے دوست کے گھر سے آرہا تھا کہ سیڑھی پر میرا پائوں رپٹ گیا اور میں کئی سیڑھیاں لڑھکتا ہوا گر گیا۔ اسی لیے مجھے اتنی چوٹیں آئیں ہیں۔ اگلے دن شام کو دروازے کی گھنٹی بجی، یاسر کا چھوٹا بھائی شہزاد نے جا کر دروازہ کھولا اور آنے والوں کو یاسر کے کمرے میں چھوڑ کر واپس بڑے کمرے میں آگیا اور باجی کے پاس بیٹھ گیا۔
’’کون آیا ہے شہزاد‘‘ باجی پوچھ رہی تھیں۔
’’باجی، یاسر بھائی کے دوست آئے ہیں۔‘‘
’’کون سے دوست‘‘
یہ پیچھے والی گلی میں رہتے ہیں۔ حسن اور عبید۔‘‘ شہزاد نے بتایا۔
٭٭٭

اچھی دوست

ناجیہ امجد

مما: ’’ناز تم کوچنگ سے آج کتنے بجے تک آئو گی؟‘‘ 
ناز: ’’چھ بجے تک‘‘۔
مما: ’’کل تمہاری نانی امی آرہی ہیں۔‘‘
’’کیا… سچ مچ مما!‘‘ ناز خوشی سے کھل اٹھی۔
’’ہاں، اور پورے ایک ماہ رکیں گی۔‘‘
’’کوئی نہیں‘‘ ناز نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔ ’’ہر سال نانی امی ایک دو مہینے کا کہہ کے آتی ہیں لیکن 15 دن میں ہی کامران ماما انہیں بلا لیتے ہیں۔ ماما کا اسلام آباد میں نانی کے بغیر دل ہی نہیں لگتا، اور پھر جب وہ بے چین ہوتے ہیں تو نانی آٹومیٹک بے چین ہونے لگتی ہیں جانے کے لیے۔‘‘
مما: ’’اب کے ایسا نہیں ہوگا، میں نے کامران کو بول دیا ہے کہ بھائی تم کچھ بھی بہانہ بنائو، امی ایک مہینے سے پہلے نہیں آئیں گی، بھلے سے تم کتنی ہی کوشش کرلو اب کے میں ڈھیلی نہیں پڑوں گی تمہاری باتوں کے آگے۔‘‘
’’یہ ہوئی ناں بات‘‘ ناز نے امی کو سراہا۔ ’’کب کی فلائٹ ہے نانی کی؟‘‘
’’کل دوپہر دو بجے تک پہنچ جائیں گی۔ میں اور تمہارے پاپا انہیں ائیر پورٹ لینے جائیں گے۔ کل صبح سے مجھے بہت کام ہوگا۔ تم آج شام کوچنگ سے آکے میرے ساتھ اپنا کمرہ سیٹ کرالو۔ تمہارے کمرے میں ہی میں نانی کے لیے بیڈ سیٹ کردوں گی۔‘‘
’’اور احسان کہاں سوئے گا؟‘‘ ناز نے بھائی کے بارے میں پوچھا۔ 
 اُسے بھی وہیں ایڈجسٹ کرلیں گے۔‘‘ مما نے جواب دیا۔
’’ہاں ٹھیک ہے، پھر ہم رات دیر تک نانی سے خوب کہانیاں اور قصے سنیں گے، بڑا مزا آئے گا‘‘۔ ناز خوشی میں مما سے لپٹ گئی۔ ’’آپ نے احسان کو بتایا؟‘‘
’’ہاں وہ بھی بہت خوش ہے، ائیر پورٹ ساتھ جانے کی ضد کررہا ہے، لیکن تمہارے پاپا نے کہہ دیا ہے کہ ہم دو کے علاوہ کوئی نہیں جائے گا۔‘‘
……٭……
صبح سے گھر میں گہما گہمی تھی۔ صفائی ستھرائی ہورہی تھی اور مزے مزے کے نانی امی کی پسند کے پکوان تیار کیے جارہے تھے۔ مما نے دوپہر کے کھانے پہ بینا آنٹی کو بھی بلایا تھا۔ ان کے تینوں بچوں سے گھر میں اور بھی رونق ہوگئی تھی۔ ٹھیک 3 بجے مما پاپا نانی امی کو ائیر پورٹ سے لے آئے۔ گھر میں دعوت کا سماں تھا۔ سب بہت خوش تھے۔ ناز سب سے بڑی نواسی ہونے کی وجہ سے نانی کی کچھ زیادہ ہی چہیتی تھی، بس ان کا ہاتھ پکڑ کر ان سے چپک کر بیٹھ گئی۔ دوپہر کا کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو عصر ہوگئی۔ نانی امی نماز کے لیے اٹھیں تو مما اور آنٹی بھی نماز کے لیے چلی گئیں۔ ناز اور وجیہہ باتیں کرنے لگیں۔ نماز کے بعد ناز نے نوٹ کیا کہ نانی کچھ چپ چپ ہیں، اس کی کسی بھی بات کا صحیح سے جواب نہیں دے رہیں۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد مغرب بھی ہوگئی۔ نانی دوبارہ نماز کے لیے اٹھ گئیں اور ناز اپنی کزن وجیہہ کے ساتھ کمپیوٹر میں مگن ہوگئی۔ نانی امی کے نماز سے فارغ ہوتے ہی ناز نے انہیں چائے پیش کی تو نانی نے اسے ہنس کے پیار سے دیکھا اور کہا ’’یہاں میرے پاس بیٹھو۔‘‘ ناز خوشی خوشی بیٹھ گئی۔ ’’تمہیں یاد ہے جب میں پچھلی مرتبہ آئی تھی تو تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا‘‘۔ 
’’کیا؟‘‘ ناز ایک دم گھبرا گئی۔ ’’یااللہ خیر مجھ سے کیا غلطی ہوگئی، مجھے تو کچھ بھی یاد نہیں‘‘۔ وہ روہانسی ہوگئی۔ 
’’وجیہہ کو بھی بلائو، تم دونوں نے ایک تحفہ دینے کا وعدہ کیا تھا مجھے، اور اب بھول گئیں۔ میں تم دونوں سے ناراض ہوں، تم لوگوں نے مجھے میرا تحفہ نہیں دیا۔‘‘
ناز نے وجیہہ کو بھی آواز دی۔ دونوں پریشانی کے عالم میں نانی کو دیکھ رہی تھیں۔ ساتھ بیٹھی بینا آنٹی نے کچھ کہنا چاہا تو نانی نے انہیں فوراً خاموش کرادیا اور کہا ’’جائو تم کچن میں جاکے حنا کا ہاتھ بٹائو۔‘‘ وہ اٹھ کے چلی گئیں۔ کمرے میں صرف نانی، ناز اور وجیہہ باقی بچیں۔ باقی بچے باہر صحن میں کھیل رہے تھے۔ ’’ہاں کچھ یاد آیا کیا وعدہ کیا تھا؟‘‘ نانی نے تھوڑا سختی سے پوچھا۔
ناز اور وجیہہ کی ہوائیاں اُڑ گئیں، نانی پورے ایک سال بعد کراچی آئی تھیں۔ ناز کو تو کچھ بھی یاد نہیں آرہا تھا، یہی حال وجیہہ کا تھا۔ ناز کی عمر 15 سال اور وجیہہ کی 14 سال تھی۔ وہ اتنی بڑی تو  نہیں تھیں کہ کچھ خرید کر دیتیں۔ 
’’تم دونوں نے پابندی سے نماز پڑھنے کا وعدہ کیا تھا، اب یاد آیا!‘‘ نانی نے دونوں کے کان کھینچے، اور دونوں شرمندہ شرمندہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔
کیوں نہیں پڑھتیں نماز دونوں؟ تمہاری اماں نہیں کہتیں تم سے نماز کا؟‘‘ 
’’مما تو بہت کہتی ہیں نانی امی لیکن…‘‘
’’لیکن کیا؟ بیٹا نماز سے زیادہ ہماری زندگی میں کچھ ضروری نہیں۔ نماز ہم پر فرض ہے۔ فرض کا مطلب سمجھتی ہو؟ فرض کا مطلب ہے ’لازمی‘۔ کسی صورت بھی معافی نہیں۔ اللہ تعالیٰ جو کہ تمام جہانوں کا پالنے والا ہمارا پروردگار ہے اس نے نماز کو ہم پر فرض کیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بیٹا۔‘‘ 
نانی تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئیں پھر بولیں ’’اچھا تم ایسے سوچو کہ تمہاری بہت ساری دوست ہوں، تقریباً 12,10 اور سب ہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں، لیکن ان میں سے صرف ایک تمہاری ایسی اچھی دوست ہو کہ کبھی تمہارا ساتھ نہ چھوڑے، جب کبھی تم دکھی ہو تو وہ تمہیں سکون دے، برائیوں سے بچائے اور نیکی کرنے کی طاقت دے، اور اُس وقت جب سب تمہیں چھوڑ کر چلے جائیں گے یہاں تک کہ تمہارے اپنے ماں باپ بھی تمہیں ایک بند اندھیری کوٹھری میں چھوڑ جائیں گے اُس وقت بھی صرف وہی ایک دوست تمہارا ساتھ دے اور اس اندھیری کوٹھری میں تمہارے لیے اجالا کردے، تو کیا تم اسی اچھی دوست سے دوستی نہیں کرنا چاہو گی؟ سمجھ رہی ہو ناں میری بات۔‘‘
نانی امی کی باتیں سن کر تو جیسے ایک بجلی سی جسم میں دوڑ گئی۔ دونوں نے بیک وقت کہا ’’ہاں نانی ہم ضرور اسی اچھی دوست سے دوستی کریں گے جو دنیا میں بھلائی کے ساتھ ساتھ مرنے کے بعد بھی ہمارا ساتھ دے گی۔ جب کوئی ہمارا اپنا لاکھ کوشش کے باوجود بھی ہمارے ساتھ نہ ہوگا، تب صرف وہی تو ہمارے ساتھ ہوگی۔ اللہ میاں ہمیں معاف کرے۔ آج سے بلکہ ابھی سے ہم اِن شا اللہ نماز پابندی سے پڑھیں گے‘‘۔ 
تھوڑی ہی دیر میں عشاء کی اذانیں فضائوں میں بلند تھیں اور دونوں کو ایسا محسوس ہوا جیسے فوراً ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی اچھی دوست سے دوستی کرنے کی دعوت دی ہو کہ آئو نماز کی طرف آئو۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ 
٭٭٭

دنیا کو عقل کیسے ملی؟

دنیا کو عقل کیسے ملی؟
  گوہر تاج 

جب دنیا بالکل نئی نئی بنی تھی تو دنیا کی ساری عقل مکڑے کو کہیں پڑی ہوئی مل گئی۔ اب ظاہر ہے کہ مکڑا تو اس ساری عقل کو اپنے پاس ہی رکھنا چاہتا تھا، لہٰذا اس نے اس کو ایک بہت بڑے سے مٹی سے برتن میں رکھ کر مضبوطی سے بند کردیا۔
"آہا، میں کتنا خوش نصیب ہوں، جس کے پاس اتنی ساری عقل ہے"۔ مکڑے نے سوچا ہ ایک دن مین دنیا کا بادشاہ بن جائوں گا، کیوں کہ میں دنیا میں اکیلا عقل مند ہوں۔ میں اس کو بہت احتیاط سے چھپادوں گا، جہاں کوئی اور اس کو نہ دیکھ سکے۔ مکڑا جنگل میں اپنی آٹھ ٹانگوں کیساتھ جتنا تیز بھاگ سکتا تھا بھاا، تاکہ اس عقل سے بھرے برتن کو کہیں چھپاسکے۔
کچھوے نے اس سے پوچھا: "کہاں جارہے ہو تم"۔
خرگوش نے اس سے سوال کیا: "کہاں جارہے ہو اور اتنی جلدی میں کیوں ہو"۔
مگر مکڑے نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ بھاگتا رہا۔ ایک ایسی جگہ کی تلاش میں جہاں وہ عقل کو چھپاسے۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور اسے دیکھے اور اس میں سے کچھ عقل لے لے۔ مکڑے نے سوچا: "مجھے پتا ہے کہ میں کیا کروں گا، میں اپنی عقل کو دنیا کے سب سے اونچے درخت کے اوپر چھپائوں گا۔
آکر اس کو ایک درخت ملا۔ یہ ریشمی سوت کا درخت تھا کہ جس کے نچلے حصے میں اس کی شاخیں زمین سے اتنی اوپر آگئی تھیں کہ وہ ایک ہاتھی کو بھی چھپاسکیں۔ اس کا چکنا تنا اتنا موٹا تھا کہ اس میں مکڑے کا پورا گھر سماجائے۔ درخت کے اوپر کے حصے کی شاخیں بالکل چھتری کی طرح پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ شاخیں نرم چمکیلی پتیوں اور بہت اچھی روئی جیسی ایک چادر کی طرح دھنکی ہوئی تھیں۔
مکڑا چلایا: "یہ تو کچھ چھپانے کی زبردست جگہ ہے۔ اس پر تو کوئی بھی نہ چڑھ سکے گا، کیوں کہ اس کی شاخیں زمین کیقریب نہیں ہیں"۔
یہ دیکھ کر مکڑا دوبارہ اس جگہ گیا کہ جہاں اس نے اپنا عقل کا برتن رکھا ہوا تھا۔ پھر اس کو وہ اس گھنے درخت کے نیچے لایا۔ اب ریشمی سوت کے درخت پر چڑھنا بہت مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ وہ اوپری سطح تو بہت چکنی ہوتی ہے، مگر مکڑے کو یقین تھا کہ وہ اس پر چڑھ جائے گا، اس کی وجہ یہ تھی کہ دوسروں کے مقابلے میں اس کی ٹانگیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ انسانوں کے پاس دو اور جانوروں کے پاس چار، لیکن مکڑے کے پاس آٹھ ہوتی ہیں۔
مکڑے نے عقل سے بھرے ہوئے برتین کو ایک مضبوط رسی کی مدد سے باندھ کر اپنے گلے میں لٹکا لیا تاکہ وہ اس کی نظروں کے سامنے ہی رہے۔ وہ درخت پر چڑھنے کے لے تیار ہوگیا۔ اس نے اپنی آگے کی دو ٹانگوں کو درخت کے تنے کے گرد جتنا دور تک جاسکتی تھیں، رکھا پھر اس نے اس کے بعد کی دو اگلی ٹانگوں کو برتن کے منھ کی طرف لپیٹ لیا۔ دو ٹانگوں کو برتن کے درمیانی حصے پر جمایا، آخری دو ٹانگوں کو برترین کے بالکہ نیچے رکھا، لیکن برتن تو بہت بھاری تھا۔ آخر اس نے دنیا بھر کی عقل جو بھری ہوئی تھی۔
آہستہ آہستہ وہ اوپر کی جانب جانے لگا۔ عین اس وقت کہ جب وہ انتہائی خوشی محسوس کررہا تھا، اچانک پھسل گیا۔ وہ گرا تو واپس زمین پر پہنچ گیا۔
مکڑے نے سوچا کہ میری آٹھ ٹانگیں ہیں، میں یقیناً اس درخت پر دوبارہ چڑھ سکتا ہوں، لہٰذا اس نے دوبارہ چڑھنا شروع کردیا۔ وہ درخت کو جتنی مضبوطی کے ساتھ خود سے چمٹاسکتا تھا چمٹایا اور اپنی طاقت سے چڑھنا شروع کردیا۔
برتن بھت بھای تھا اور اس کی نچلی ٹانگیں اس کے وزن کو نہ سہار سکیں۔ اس بار بھی اس کی قمست پہلے کی طرح اچھی نہیں نکلی۔ وہ ایک بار پھر زمین پر آگرا۔ مکڑا اب بہت فکر مند ہورہا تھا۔ شاید اس کو غصہ بھی بہت آرہا تھا۔ اس نے ایک دفعہ اور کوشش کرنے کا سوچا اور پہلے سیزادہ محنت سے اوپر کی طرف چڑھنے کی کوشش کی، لیکن پھر وہی ہوا اس کی ٹانگیں پھسلیں اور تھوڑی دیر میں وہ زمین پر آگرا۔ مکڑا برتن اور عقل کے ساتھ چاروں شانے چت زمین آگرا تھا۔ اس دوران مکڑے کا سب سے بڑا لڑکا "کما" یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔
 اس نے کہا: "ابو! مجھے ایک خیال آیا ہے، کیوں نہ آپ اپنے آگے کے بجائے عقل کے برترین کو پیچھے لٹکالیں۔ اس طرح آپ آسانی سے درخت پر چڑھ سکیں گے۔ جب مکڑے نے یہ سنا تو اسے معلوم ہوا کہ کما کے پاس بھی کچھ عقل ہے اور دنیا کی ساری دانائی صرف اسی کے پاس نہیں ہے۔ یہ سوچ کر اس کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے عقل سے بھرے برتن کو زمین پر پٹخ دیا، جس سے وہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بکھر گیا اور عقل بھی نکل کر چاروں طرف پھیل گئی۔
اس سیا تنا شور ہوا کہ اس کو دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آنے لگے۔ گھروں سے بوڑھی عورتیں آگئیں، کھیتوں سے مرد نکل کر آگئے۔ چھوٹے لڑکے کھیل چھوڑ کر ادھر آگئے اور چھوٹیبچیاں بھی گڑیاں چھوڑ کر آگئیں۔ جب سب نے دیکھا عقل برین سے نکل کر چاوں طرف بہ رہی ہے تو انہوں نے تھوڑی تھوری اپنے لیے لے لی، یہاں تک کہ جانروں نے بھی کچھ عقل لے لی۔ یہ سارے لوگ دنیا میں پھیل گئے۔ انڈیا، اسپین اور پناما۔ وہاں بھی جہاں ہمیشہ ٹھنڈ پڑتی ہے اور وہاں بھی جہاں ہمیشہ گرمی رہتی ہے۔ ہر ایک کے پاس کچھ عقل آگئی، کیوں کہ وہ اتنی ساری تھی کہ ہر ایک کو آسانی سے مل سکتی تھی۔
٭٭٭

جھنگا پہلوان کا اغوا

جھنگا پہلوان کا اغوا
از:۔ ایم مبین

ٹونی اور مونی دو بدمعاش تھے۔ پیسوں کے لئے وہ ہر الٹا سیدھا، غلط، جائز ناجائز کام کرنے کو تیار رہتے تھے۔ ہر کوئی اپنا غلط کام کرانے کے لئے ان کی خدمات حاصل کرتا تھا۔ پیسوں کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتے تھے۔ اس لئے سبھی کے الٹے سیدھے کام کر دیتے تھے۔ ان دنوں ان کے بہت برے دن گزر رہے تھے۔
بہت دنوں سے کوئی کام نہیں ملا تھا جس کی وجہ سے بہت کڑکی چل رہی تھی۔ وہ کام کی تلاش میں تھے۔ لیکن کام ان سے دور بھاگ رہا تھا۔ وہ اتنے بے بس اور لاچار ہو گئے تھے کہ کوئی بھی کام کرنے کو تیار تھے۔
اچانک ان کی قسمت جاگی۔
انہیں دوبئی کے ایک شیخ کا فون آیا۔
’’مجھے ایک پہلوان چاہئے، موٹا تازہ ، ہٹا کٹّا ہو ، جیسے ڈبلیو ڈبلیو ای کے پہلوان ہوتے ہیں۔ میں اس کو دوبئی میں ڈبلیو ڈبلیو ای طرز کے مقابلوں میں لڑوانا چاہتا ہوں۔ اگر مجھے میرا من پسند پہلوان مل جائے تو دس لاکھ روپیہ تک دینے کو تیار ہوں۔ مجھے پہلوان چاہئے وہ اپنی مرضی سے دوبئی آئے یا پھر اسے اغوا کر کے یہاں لانا پڑے۔ ‘‘
یہ سن کر دونوں کی بانچھیں کھل گئیں۔
کام مل گیا، کام آسان بھی تھا اور مشکل بھی۔ انہوں نے عرب شیخ سے وعدہ کیا کہ وہ پہلوان تلاش کرتے ہیں اس کے بعد اس سے رابطہ قائم کریں گے اور وہ پہلوان کی تلاش میں نکل پڑے۔
تین بتی پر آئے تو ان کی نظر جھنگا پہلوان پر پڑی۔ جھنگا پہلوان کو دیکھتے ہی وہ خوشی سے اچھل پڑے۔ انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے ان کی تلاش پوری ہو گئی ہو۔ ٹونی نے اپنے موبائل کے کیمرے سے جھنگا پہلوان کی چند تصویریں اور ویڈیو لیئے اور وہ تصویریں اور ویڈیو موبائل سے عرب شیخ کو روانہ کر کے پوچھا کہ’’ کیا یہ آدمی چلے گا؟‘‘
عرب شیخ نے جھنگا پہلوان کی تصویریں اور ویڈیو فلم دیکھی تو وہ اچھل پڑا۔ ’’ مجھے یہی پہلوان چاہئے۔ میں اسی طرح کے کسی پہلوان کی تلاش میں تھا۔ کسی بھی طرح دو چار دنوں کے اندر اسے دوبئی بھیج دو چاہے اس کا اغوا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اس کام کے میں تمہیں دس لاکھ روپیہ دوں گا۔ ‘‘
عرب شیخ نے دونوں سے کہا۔
دونوں بے حد خوش ہوئے۔ انہیں دس لاکھ روپیہ ملنے والے تھے۔ دس لاکھ روپئے کے بارے میں سوچ سوچ کر ہی وہ خوشی سے جھومتے تھے انہیں لگ رہا تھا کہ ان کی تقدیر بدلنے والی ہے۔
بشرطیکہ جھنگا پہلوان دوبئی جانے کے تیار ہو جائیں۔ جھنگا پہلوان کے بارے میں جو معلومات حاصل کیں اس کی بنیاد پر انہیں پتہ چلا وہ دوبئی تو دور کلیان جانے کے لئے بھی مشکل سے راضی ہوں گے۔ یہ سن کر ان کے ارادوں پر اوس پڑ گئی۔
لیکن وہ ہار ماننے والے نہیں تھے۔ دس لاکھ کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتے تھے۔ انہوں نے جھنگا پہلوان کا اغوا کر کے اسے دوبئی بھیجنے کا پلان بنایا۔
دونوں جا کر جھنگا پہلوان سے ملے۔
’’ ہیلو جھنگا پہلوان جی۔ ہم آپ کے بہت بڑے فین ہیں اور ہم ایک دن آپ کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔ آپ کی دعوت کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘
’’میری دعوت! ‘‘ جھنگا تو حیرت سے انہیں دیکھا، ’’ میری دعوت کر رہے ہو! میرے خوراک کا آپ لوگوں کو علم ہے؟‘‘
’’ہاں ! آپ جو چاہے وہ آپ کو کھانے کے لئے دیں گے۔ دعوت دلی دربار، شالیمار جس ہوٹل میں چاہے اس ہوٹل میں ہم دینے کو تیار ہیں۔ ‘‘ دونوں بولے۔
دِلّی دربار اور شالیمار کا نام سن کر جھنگا پہلوان کے منہ میں پانی آگیا۔
’’مجھے دِلّی دربار کا بکرا مسلم بہت پسند ہے۔ ‘‘
’’اگر آپ ہماری دعوت قبول کریں تو ہم آپ کو دو بکرا مسلم کھلائیں گے۔ ‘‘ ٹونی بولا۔ ’’ ارے قبول نہ کرنے میں کونسا جواز ہے؟ میں آپ لوگوں کی دعوت قبول کرتا ہوں۔ ‘‘ جھنگا پہلوان جھٹ سے بولے۔ ’’آپ لوگ کب دعوت دے رہے ہیں ؟‘‘
’کل‘، مونی بولا۔ ’’ کل سویرے ہم اپنی کار لے کر آئیں گے۔ ہمارے ساتھ ممبئی چلئے اور دوپہر دِلّی دربار میں کھانا کھائیے ہم شام تک واپس آ جائیں گے۔ ‘‘
’ٹھیک ہے۔ ‘ میں کل نو بجے تیار رہوں گا۔ جھنگا پہلوان نے جواب دیا۔
ٹونی، مونی چلے گئے اور اپنی تیاریوں میں لگ گئے۔
پہلوان کا چمچہ للو دیر سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ بول اٹھا۔
’’ استاد۔۔۔ اجنبی لوگوں کی دعوت لے رہے ہو! سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھائیے ایسا نہ ہو کے لالچ میں پڑ کر مصیبت میں پھنس جاؤ۔ ‘‘
’’تو چپ رہے۔ ‘‘ پہلوان نے اسے ٹوکا،’’ تو تو ہمیشہ الٹا سیدھا سوچتا رہتا ہے۔ انہوں نے تجھے دعوت نہیں دی ہے نا اس لئے تو ایسی الٹی سیدھی باتیں بنا رہا ہے۔ ‘‘
’’ نہیں استاد، یہ بات نہیں ہے۔ ‘‘ للو نے استاد کو بہت سمجھایا وہ لالچ میں نہ پڑے بکرا مسلم کے لالچ میں کسی مصیبت میں پھنس سکتے ہیں لیکن انہوں نے للو کی ایک نہ مانی۔
ان کے سامنے تو دِلّی دربار کا بکرا مسلم ناچ رہا تھا۔
دوسرے دن ۹ بجے سج دھج کر جھنگا پہلوان ٹونی مونی کا انتظار کرنے لگے۔
وقت مقررّہ پر ٹونی مونی ساری تیاریاں کر کے کار لیکر جھنگا پہلوان کو لینے آ گئے۔
وہ کار میں بیٹھے اور ممبئی کی طرف چل دئیے۔ راستے بھر جھنگا پہلوان انہیں اپنی زندگی کے قصے کہانیاں سناتے رہے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے پوچھ لیا۔ ’’ استاد اگر آپ کو دوبئی میں ملازمت مل جائے تو کیا آپ دوبئی جائیں گے؟‘‘
’’ میں ملازمت کرنے کے لئے کلیان بھی نہیں جاؤں گا۔ مجھے ملازمت نہیں کرنی ہے۔ ‘‘ پہلوان نے صاف جواب دے دیا۔ اور دونوں کے ارادوں پر اوس گر گئی۔ انہوں نے سوچا اگر پہلوان خوشی خوشی دوبئی جانے کے لئے تیار ہو جائیں تو پھر اغوا کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔ انہیں پہلوان کا اغوا کرنا ہی پڑے گا۔
ممبئی پہنچ کر وہ سیدھے دِلّی دربار ہوٹل میں گئے اور جھنگا پہلوان کی خواہش کے مطابق انہیں نے ان کے لئے بکرا مسلم کا آرڈر دیا۔ اور اپنے لئے الگ الگ چیزوں کا آرڈر۔
اسی درمیان ٹونی جا کر بکرا مسلم بنانے والے خانساماں سے مل آیا۔ اسے بکرے میں بے ہوشی کی دوا ملانے کے لئے کہا اور اس کام کی قیمت بھی دے دی۔ پہلوان نے بکرا مسلم کے لالچ میں سویرے سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ اس لئے پیٹ میں چوہے کود رہے تھے۔
بکرا مسلم کی خوشبو سے ان پر ہیجانی کیفیت طاری ہو رہی تھی۔
خدا خدا کر کے جھنگا استاد کا مینو ٹیبل پر آیا اور پہلوان اس پر ٹوٹ پڑے۔ ٹونی اور مونی اطمینان سے اپنا کھانا کھانے لگے۔
دیکھتے ہی دیکھتے بھوکے جھنگا پہلوان نے پورا بکرا صاف کر دیا۔
بکرے کے پیٹ میں جاتے ہی بے ہوشی کی دوا نے بھی اترنا شروع کیا۔
’’ اب مجھے نیند سی آ رہی ہے۔ ‘‘
’’فکر مت کیجئے استاد‘‘، ٹونی بولا: ’’ گاڑی میں بیٹھ کر ایک آدھ گھنٹہ سو لیجئے، نیند سے جاگنے کے بعد پھر ممبئی کی سیر کریں گے۔ اور اگر آپ کے دل میں آیا تو رات میں پھر آپ کو بکرا مسلم کھلائیں گے۔ ‘‘
اور وہ پہلوان کو سہارا دیکر گاڑی کی طرف لے گیا۔
مونی ہوٹل کا بل ادا کرنے لگا۔
ٹونی نے کار کا پچھلا دروازہ کھولا۔ جھنگا پہلوان اس میں داخل ہو گئے۔ اور سیٹ پر گرتے ہی بے ہوش ہو گئے یا سو گئے۔
دونوں نے خوشی سے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائے۔
اور اب دوسرے کام میں لگ گئے۔ انہوں نے جھنگا پہلوان کا اغوا تو کر لیا تھا اب اسے دوبئی پہونچانا تھا اس کے لئے انہیں ۰۱ لاکھ روپیہ ملنے والے تھے۔
وہ ہوائی جہاز سے جھنگا کو دوبئی تو نہیں لے جا سکتے تھے۔ ہوائی جہاز میں بیٹھتے ہی پہلوان کو ہوش آگیا تو ہنگامہ کھڑا کر دیگا۔
عرب شیخ نے جھنگا پہلوان کو پانی کے جہاز کے ذریعے دوبئی لانے کے انتظامات کئے تھے۔
ممبئی سے دور سمندر میں ۰۰۱ کلو میٹر کی دوری پر عرب کا ایک جہاز لنگر انداز تھا۔ اس نے ٹونی مونی سے کہا تھا کہ پہلوان کو کسی طرح اس جہاز تک پہنچا دیں۔
اس کے بعد پہلوان کو دوبئی لے جانے کا کام اس کا۔ اس جہاز پر پہلوان کو پہونچانے کے بعد انہیں ان کی قیمت دس لاکھ روپیہ بھی مل جائے گی۔
سمندر میں کھڑے اس جہاز تک پہونچنے کے لئے ٹونی مونی نے ایک خاص چھوٹا سا اسٹیمر کرائے پر لیا تھا۔
بے ہوش جھنگا پہلوان کو وہ سب کے سامنے اس بوٹ میں نہیں بٹھا سکتے تھے۔ کسی کو شک ہو گیا تو سارے کئے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ اس لیے انہوں نے اس اسٹیمر میں پہلوان کو سوار کرنے کے لئے ورسوا کا ایک سنسان علاقہ چنا تھا۔
وہاں اسٹیمر والا ا ن کا انتظار کر رہا تھا۔
بے ہوش جھنگا کو لیکر وہ ورسوا کی طرف چل دیئے۔
بے ہوشی کی دوا کے اثر سے جھنگا پہلوان چار پانچ گھنٹہ بے ہوش رہیں گے۔
تب تک وہ انہیں جہاز پر پہنچا کر اپنا پیسہ لیکر واپس آ جائیں گے۔
انہیں پتہ تھا ہوش میں آنے کے بعد جھنگا پہلوان سخت آفت مچائیں گے۔ لیکن اس وقت تو وہ جہاز میں ہوں گے۔ جہاز والے جھنگا پہلوان سے نپٹیں گے۔
ٹریفک بھری سڑکوں سے گزر ایک ڈیڑھ گھنٹے کا سفر کرتے ان کی کار ورسوا کے اسی سنسان علاقے میں پہونچی جہاں پر اسٹیمر والا ان کے لئے اسٹیمر لیے تیار کھڑا تھا۔ انہوں نے وہاں کار کھڑی کی اور کار سے بے ہوش جھنگا پہلوان کو اتارنے لگے۔ بھاری بھرکم جھنگا پہلوان کو گاڑی سے اتار کر اسٹیمر میں سوار کرنے میں ان کی چولیں ڈھیلے ہو گئیں۔
کسی طرح انہوں نے جھنگا پہلوان کو اسٹیمر میں ڈالا اور اسٹیمر والے سے چلنے کو کہا۔
اسٹیمر والے نے اسٹیمر اسٹارٹ کر دیا۔
’’ جہاز تک پہونچنے میں کتنا وقت لگے گا۔ ‘‘ انہوں نے اسٹیمر والے سے پوچھا۔
’’ دو سے ڈھائی گھنٹے لگیں گے۔ ‘‘ اس نے جواب دیا۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر جہاز پر پہنچنے سے پہلے جھنگا پہلوان ہوش میں آ گئے تو آفت آ جائے گی۔
ہوش میں آنے کے بعد وہ کسی بھی صورت میں انہیں جہاز تک نہیں پہنچا پائیں گے۔ ایسا جھنگا پہلوان کے بے ہوش رہنے پر ہی ممکن ہے۔
ڈاکٹر نے کہا تھا س دوا کو کھانے کے بعد ایک آدمی تین چار گھنٹے آرام سے بے ہوش رہ سکتا ہے۔
انہوں نے اندازہ لگایا تھا کہ اس عرصے میں وہ آسانی سے اپنا کام کر سکتے ہیں۔
اسٹیمر منزل کی طرف بڑھا جا رہا تھا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ ان کے سفر کو شاید ایک گھنٹہ ہو گیا تھا۔ ایک گھنٹہ باقی تھی۔
اس درمیان جھنگا پہلوان بے ہوش رہے ، ان کے جسم میں کوئی لغزش نہیں ہوئی۔ لیکن اچانک تینوں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ انہوں نے دیکھا کہ جھنگا پہلوان کے جسم میں حرکت ہوئی اور منہ سے طرح طرح کی آوازیں نکلنے لگیں۔
’’ جھنگا پہلوان تو ہوش میں آ رہا ہے‘‘ ، انہوں نے اندازہ لگایا اور ان کے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بج اٹھی۔
اگر پہلوان کو ہوش آگیا تو آفت آ جائے گی، وہ من ہی من میں خدا سے دعا کرنے لگے کہ وہ جھنگا پہلوان کو اور دو چار گھنٹے بے ہوش رکھے تا کہ وہ آسانی سے اپنا کام کر جاتے۔
لیکن ڈاکٹر نے جو دوا دی تھی وہ ایک عام آدمی کے لئے دی تھی، اس دوا کو لینے کے بعد ایک عام آدمی تین سے چار گھنٹے بے ہوش رہ سکتا تھا، لیکن جھنگا پہلوان جیسا مضبوط آدمی نہیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ دو ڈھائی گھنٹہ میں ہی جھنگا پہلوان ہوش میں آ گئے۔
’’ مجھے کیا ہوا تھا یہ تم لوگ مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ ‘‘ ہوش میں آتے ہی انہوں نے پوچھا، اور اپنے چاروں طرف سمندر دیکھا توا ن کے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی۔
’’ استاد ہم آپ کو دوبئی لے جا رہے ہیں ‘‘ ، بے خیالی میں مونی کے منہ سے نکل گیا۔ ’’ میں دوبئی جانا نہیں چاہتا،‘‘ جھنگا پہلوان دہاڑے۔
’’ استاد وہاں آپ کو بہت پیسے ملیں گے‘‘، مونی نے لالچ دیا۔
’’ مجھے پیسے نہیں چاہیئے، مجھے واپس لے چلو، اگر مجھے واپس گھر نہیں لے جایا گیا تو ایک ایک کو دیکھ لوں گا۔ ‘‘ پہلوان دہاڑے۔
’’ اب کوئی فائدہ نہیں استاد، اب تم گھر واپس نہیں جا سکتے۔ ‘‘ مونی پہلوان کو ڈرانے کے لئے بولا ’’ تمہارا سودا طے ہو گیا ہے۔ ہم تمہیں دوبئی کے ایک شیخ کے پاس بھیج رہے ہیں شیخ ہمیں اس کام کے دس لاکھ روپیہ دے گا۔ سمندر میں ایک جہاز کھڑا ہے ہمارا کام تمہیں اس جہاز پر پہونچا دینا ہے وہ تمہیں دوبئی لیکر چلا جائے گا۔ اور ہم اس وقت تمہیں اس جہاز کی طرف لے جا رہے ہیں۔ گڑ بڑ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں یہاں تمہاری مدد کو کوئی نہیں آنے والا۔ چپ چپ دوبئی چلے جاؤ، شاید تمہاری زندگی سدھر جائے۔ ‘‘
ٹونی اور مونی نے بدمعاشوں کے انداز میں پہلوان کو دھمکی دی۔
کون مجھے دوبئی لے جاتا ہے اور بھیجتا ہے میں بھی دیکھتا ہوں ، کہنے پر پہلوان کو تاؤ آگیا اور اس نے مونی کا گلا پکڑا پھر اسے ہاتھوں پر اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔
اسٹیمر رفتار سے آگے بڑھ گیا مونی پتہ نہیں کہاں رہ گیا۔ یہ دیکھ کر اسٹیمر والا اور ٹونی ڈر گئے۔
’’ تم مجھے دوبئی پہنچانا چاہتے ہو نا ٹھہرو میں تمہیں جہنم پہونچاتا ہوں ‘‘، کہہ کر پہلوان ٹونی کی طرف بڑھے اور اسے بھی اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔ اس کے بعد اسٹیمر والے سے یہ کہنے کے لئے اس طرف بڑھے۔
’’ تم مجھے واپس لے چلو ورنہ میں تمہیں بھی سمندر میں پھینک دوں گا۔ ‘‘
لیکن ٹونی اور مونی کے سمندر میں پھینکے جانے سے اسٹیمر چلانے والا اتنا گھبرا گیا تھا کہ خود کو مار سے بچانے کے لئے اس نے خود ہی سمندر میں چھلانگ لگا دی۔
’’ ارے ، ارے‘‘، جھنگا پہلوان اسے آواز دیتے رہ گئے، لیکن وہ پیچھے رہ گیا۔ اسٹیمر پوری رفتار سے آگے بڑھ گیا۔
اب جھنگا پہلوان پر جو مصیبت آئی اس کا سوچ کر انہوں نے اپنا سر پکڑ لیا۔ اور انہیں محسوس ہوا انہوں نے ٹونی اور مونی کو سمندر میں پھینک کر بہت بڑی غلطی کی۔ ان کا انجام تو کچھ بھی ہو لیکن اب ان کی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ اسٹیمر چلانے والا کوئی نہیں تھا۔ اسٹیمر سمندر میں انجان منزل کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔
نہ تو وہ اسٹیمر چلانا جانتے تھے اور نہ اسے روکنا۔
اسٹیمر ناک کی سیدھ میں پتہ نہیں کہاں جا رہا تھا۔
سمندر خاموش تھا۔ اس وقت اس کی لہروں میں کوئی تلاطم نہیں تھا۔ جھنگا پہلوان کو تو سوچ سوچ کر رونا آنے لگا کہ وہ کس مصیبت میں پھنس گئے ہیں اس مصیبت سے نکل پائیں گے یا نہیں۔۔۔۔ ؟
یہ اسٹیمر کہیں رکے گا یا نہیں۔۔۔۔۔ ؟
انہیں کس جگہ لے جا کر چھوڑے گا۔۔۔۔۔ ؟
اس سمندر میں کوئی ان کی مدد کو آئے گا بھی یا نہیں۔۔۔۔ ؟
یا وہ زندگی بھر سمندر کی لہروں میں بھٹکتے ہوئے سمندری جانوروں کا خوراک بن جائیں گے۔
یہ سوچ کر وہ دہاڑیں مار مار کر رونے لگے۔
لیکن وہاں تو نہ ان کا کوئی آنسو پونچھنے والا تھا اور نہ سمجھانے والا۔ سورج دھیرے دھیرے افق کی طرف بڑھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں رات ہو جائے گی۔ رات ہونے کے بعد۔۔۔۔ ؟
اس تصور سے ہی وہ کانپ اٹھے۔
اسٹیمر کا سفر جاری تھا۔ اسے روکنے کی کوئی تدبیر ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ اور روک کر کوئی فائدہ بھی نہیں تھا۔ اس جگہ کوئی ان کی مدد کو آنے سے تو رہا۔ اس لئے انہوں نے خود کو اسٹیمر کے حوالے کر دیا تھا۔ وہ انہیں جہاں لے جائے۔
اچانک انہیں دور سے ایک جہاز آتا ہوا دکھائی دیا۔ اسے دیکھ کر ان کی ہمت بندھی۔ اس جہاز سے کوئی مدد مل سکتی ہے۔ وہ تیار ہو گئے۔
جہاز لمحہ لمحہ قریب آ رہا تھا۔ اور اسٹیمر لمحہ لمحہ اس کے قریب جا رہا تھا۔ دھیرے دھیرے جہاز کے عرشے پر لوگ دکھائی دینے لگے۔
پہلوان نے انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے زور زور سے ہاتھ ہلانے لگے اور چیخنے لگے۔
’’ بچاؤ۔۔۔۔ بچاؤ۔۔۔۔۔ ‘‘
وہ شاید غیر ملکی تھے، بچاؤ کا مطلب نہیں سمجھے۔
وہ بچاؤ کو ’ہائے ‘ سمجھے، وہ بھی ہاتھ ہلا ہلا کر جھنگا پہلوان کو ہائے کہنے لگے۔
اور ان کی ایک امید وہ جہاز بھی ان سے دور چلا گیا۔ اب پھر ان کا سفر جاری تھا۔ طرح طرح کے خیالات ان کے ذہن میں آ رہے تھے۔ کہیں یہ اسٹیمر انہیں کسی غیر آباد جزیرے پر لے جا کر تو نہ چھوڑ دے جہاں انہیں رابنسن کروسو کی سی زندگی گزارنی پڑے۔
اچانک پتہ نہیں کیا کرشمہ ہوا۔
اسٹیمر رک گیا۔ پٹرول ڈیزل ختم ہو گیا یا کوئی خرابی پیدا ہو گئی، لیکن ان کے لئے اور بڑی مصیبت تھی۔
اب ان کا اسٹیمر لہروں کے حوالے تھا۔ لہریں آتیں اور جہاں چاہے اسے لے جاتی۔ اگر کسی بڑی لہر نے اسٹیمر پلٹ دیا تو وہ بھی سمندر میں ہوں گے۔ وہ تیرنا جانتے تھے لیکن کب تک تیر پائیں گے، آخر تیرتے تیرتے تھک جائیں گے اور سمندری جانوروں ، مچھلیوں کی غذا بن جائیں گے۔
رات ہو گئی اور چاروں طرف اندھیر پھیل گیا۔
کچھ بھی دکھائی نہیں دینے لگا۔ صرف لہروں کا ہلکا ہلکا شور سنائی دیتا ، وہ بوٹ میں لئے آسمان میں جگمگاتے ستاروں کو تاک رہے تھے۔ ان کا کیا ہو گا۔۔ ؟ سوچ سوچ کر کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔ اس وقت انہیں للو کی بات یاد آئی۔ للو سچ کہہ رہا تھا۔ اگر وہ لالچ میں نہ پڑتے اور اجنبیوں کے ساتھ یہاں نہیں آتے تو اس مصیبت میں نہیں پڑتے۔
رات سوتے جاگتے میں گزر گئی۔
سویرا ہوا تھا امید کی ایک کرن بھی دکھائی دی۔
ایک جہاز اس طرف آ رہا تھا۔
جیسے جیسے جہاز ان کے قریب آنے لگا ان کا دل دھڑکنے لگا اور وہ دل ہی دل میں خدا سے دعا مانگنے لگے کہ اس جہاز میں ان کے لئے کوئی مدد بھیج دے۔ جہاز جیسے ہی قریب آیا وہ زور زور سے چلانے لگے۔
’’بچاؤ۔۔۔ بچاؤ۔۔۔۔ بچاؤ۔۔۔۔ ‘‘
وہ کوئی ہندوستانی جہاز تھا۔ ان کا مطلب سمجھ گیا۔ جہاز کے کپتان نے جہاز روکا اور ایک رسی پھینکی تب ان کا اسٹیمر جہاز کے قریب جا لگا۔ وہ رسی پکڑ کر جہاز میں چڑھے۔
اور جہاز کے عملے کو اپنی ساری رام کہانی سنائی۔
جہاز نے انہیں ممبئی چھوڑا اور وہاں سے وہ خیر سے بدھو گھر کو آئے کی طرف واپس گھر آئے۔

جن کا تحفہ

محمد طارق سمرا – خانیوال

شاہانہ اپنے بڑے بھائی عارف کا ہاتھ پکڑے ساحل سمندر کی ریت پر چہل قدمی کر رہی تھی۔ اچانک اس کے پاؤں سے کسی چیز کو ٹھوکر لگی۔ اس نے جھک کر دیکھا، وہ ایک گہرے سیاہ رنگ کے شیشے کی بوتل تھی جس کا منہ لکڑی کے ڈھکن کے ساتھ مضبوطی سے بند تھا۔ شاہانہ نے پورا زور لگا کر ڈھکن بوتل کے منہ سے علیحدہ کر دیا۔ ڈھکن الگ ہوتے ہی بوتل کے منہ سے دھواں نکلنے لگا۔ شاہانہ نے گھبرا کر بوتل دور پھینک دی۔ بوتل میں سے دھواں مسلسل نکل رہا تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بوتل نے ایک پہلوان نما مخلوق کی شکل اختیار کر لی۔ کالا سیاہ رنگ، بڑے بڑے نوکیلے دانت، چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں اور تربوز جیسے بڑے سے سر پر چھوٹے چھوٹے کان، جن میں بڑی بڑی بالیاں پہنی ہوئی تھیں۔ جسم کا اوپری دھڑ تو دیو ہیکل تھا جب کہ نچلا دھڑ نا ہونے کے برابر تھا۔
شاہانہ ڈر کر سہم گئی اور اپنے بھائی کا ہاتھ اور مضبوطی سے تھام لیا۔ اس کا بھائی بھی قدرے سہما ہوا تھا، مگر اس وقت دونوں کا ڈر دور ہو گیا جب اس عجیب و غریب مخلوق نے دونوں ہاتھ باندھ کر گونج دار آواز میں پوچھا:
‘‘کیا حکم ہے میرے آقا؟‘‘
‘‘اوہ۔۔۔۔ تو تم جن ہو۔۔۔ وہی الہ دین کا چراغ والے جن۔۔۔‘‘ شاہانہ کی جان میں جان آئی تو وہ قدرے اطمینان سے بولی۔
‘‘نہیں میرے آقا۔۔۔ میں اس جن کے ماموں کے ماموں کا چچا ہوں۔۔۔ ‘‘بوتل سے نکلنے والے جن نے مودبانہ انداز میں وضاحت کی۔‘‘
تو کیا تمہارا سارا خاندان ٹین ڈبوں اور بوتلوں میں رہتا ہے۔۔۔ تم لوگ رہنے کے لیے کوئی ڈھنگ کی جگہ کیوں نہیں لے لیتے۔۔۔ تم تو جن لوگ ہو، تمہیں کیا مشکل ہے۔ چاہو تو اسلام آباد کے بلیو ایریا میں بنگلہ بھی لے سکتے ہو اور چاہو تو پرائم منسٹر ہاؤس اور پریذیڈینسی جیسی کوئی عمارت بھی لے سکتے ہو۔۔۔ ‘‘شاہانہ جن کے مودبانہ انداز سے خوب چہکنے لگی‘‘۔
میرے آقا میں جن ہوں کوئی وزیر شزیر نہیں ہوں جو اسلام آباد کے پلاٹ ہتھیا لوں، اور رہی بات پریذیڈنٹ ہاؤس جیسے محلات کی تو وہاں تو پہلے ہی مجھ سے بھی بڑے جن رہتے ہیں، جو اربوں کے قرضے یوں ہڑپ کر جاتے ہیں کہ دنیا بھر کے احتساب بیورو بھی ان کا سراغ نہیں لگا سکتے۔ ‘‘جن بھی کسی تھیٹر کا کامیڈین لگتا تھا‘‘۔
‘‘تو پھر بوتل میں کیوں گھسے پڑے تھے؟‘‘ عارف بھائی نے پوچھا۔
‘‘میرے آقا! بات دراصل یہ ہے کہ چند سال پہلے میں نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا اور بھوک بھی بہت زور کی لگی ہوئی تھی، لیکن جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی کہ بازار سے کچھ کے کر کھا لیتا۔ دوسرے جنات کی طرح چوری کی مجھے عادت نہیں۔ چلتے چلتے یہاں ساحل پر پہنچا تو یہ بوتل مجھے نظر آئی۔ اس میں تھوڑا سا جوس بچا ہوا تھا اور جوس بھی آم کا۔ اسے دیکھ کر میرے منہ میں پانی آ گیا اور میری رال ٹپکنے لگی۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور فوراً دھواں بن کر اس بوتل میں گھس گیا اور لگا غٹا غٹ جوس پینے اور پھر مجھے پتا ہی نہیں چلا۔ کب کس نا ہنجار نے بوتل کا ڈھکنا بند کر دیا اور یوں میں اس میں قید ہو کر رہ گیا۔ ‘‘بوتل کے جن نے مزے لے لے کر اپنی داستان اسیری سنائی اور آخری جملے پر باقاعدہ پھوٹ پھوٹ کر رونے بھی لگا‘‘۔
‘‘تم نے بسم اللہ نہیں پڑھی ہو گی نا! جوس پینے سے پہلے، اسی لیے قید ہو گئے۔‘‘ عارف بھائی ناصحانہ انداز میں مداخلت کرتے ہوئے کہا تو جن نے ندامت سے سر جھکا لیا۔ گویا اپنی غلطی کا اعتراف کر رہا ہو۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد بولا۔
‘‘میرے آقا! آپ نے مجھے قید سے رہائی دلائی ہے اور سابقہ جنات کے دستور کے مطابق میں آپ کا غلام ہوں، مجھے حکم دیں کہ میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟‘‘
‘‘جاؤ! جا کر کوئی ڈھنگ کے کپڑے پہنو۔ بوتل سے تو نکل نہیں سکے۔ ہماری کیا خاک خدمت کرو گے؟‘‘ شاہانہ نے منہ بنایا۔
‘‘کھی۔۔۔ کھی۔۔۔ کھی۔۔۔؟‘‘ بوتل کے جن سے کوئی جواب نا بن سکا تو دانت نکال کر ڈھٹائی سے ہنسنے لگا۔
‘‘تمہارے سینگ کہاں گئے؟‘‘ شاہانہ نے اچانک پوچھ لیا۔
‘‘وہ میں نے کٹوا دیے ہیں‘‘ جن نے دنیا جہان کی سنجیدگی چہرے پر لاتے ہوئے کہا۔
‘‘کیوں۔۔۔ ں ں ں۔۔۔؟‘‘ مارے حیرت کے شاہانہ کا کیوں کافی لمبا ہو گیا۔
‘‘ٹوپی نہیں پہنی جاتی تھی نا اس لیے۔۔۔۔ ‘‘جن نے معصومیت سے جواب دیا‘‘ تو دونوں بہن بھائی کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
ہنسی رکی تو عارف بھائی بولے، دیکھو جن ہمیں تمہاری خدمت کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم اپنا کام خود کرنے کے عادی ہیں۔ ہمیں دولت وغیرہ بھی نہیں چاہیے کہ جو دولت بغیر محنت کے حاصل ہوتی ہے، اس میں برکت نہیں ہوتی۔ یہی ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات ہیں۔ اس لیے ہم تمہیں آزاد کرتے ہیں۔ جاؤ اور جا کر اپنے والدین کی خدمت کرو۔ عارف بھائی نے جن کو آزادی خوشخبری سنائی تو شاہانہ کو کچھ بے چینی ہوئی جسے عارف بھائی نے بھی محسوس کیا اور دوبارہ گویا ہوئے: ‘‘غلاموں کو آزاد کرنا اور کروانا صحابہ کرام کی محبوب سنت تھی اور پھر آج سے چودہ سو سال پہلے خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اعلان فرما دیا تھا کہ ہر ماں نے اپنے بچے کو آزاد جنا ہے، اس لیے آج کے بعد کوئی کسی کا غلام نہیں۔ خواہ وہ جن ہو یا انسان اور شاہانہ ہمیں اپنے اسلاف کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے۔ اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ ‘‘عارف بھائی نے شاہانہ کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا تو بات شاہانہ کی سمجھ میں آ گئی‘‘۔
‘‘ٹھیک ہے جن میاں۔۔۔ اب تم آزاد ہو۔۔۔ جاؤ اور مزے کرو، لیکن اپنے خرچ پر۔۔۔ اور ہاں آزادی کی قدر کرنا۔۔۔ تمہیں تو مفت میں مل گئی، لیکن اکثر یہ بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ ‘‘شاہانہ نے کہا اور بھائی کا ہاتھ پکڑ کے کھینچتے ہوئے بولی‘‘: چلو بھائی ہم چلیں۔۔۔ اچھا بھئی جن میاں۔۔۔ اللہ حافظ۔۔۔ عارف بھائی بھی منہ موڑ کر چل پڑے۔
‘‘بھائی اور کچھ نہیں تو ایک روبوٹ ہی منگوا لینا تھا۔۔۔ سنا ہے جاپانی سائنس دانوں نے ایک بڑا زبردست روبوٹ تیار کیا ہے جو بالکل انسانوں کی طرح کام کرتا ہے۔۔۔‘‘
‘‘نہیں منا! جو مزہ ہاتھ سے کام کرنے میں ہے، وہ روبوٹ سے کرانے میں نہیں۔ ہاں! آؤ بس اب چلیں‘‘۔
دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے قدم اٹھانے لگے۔
٭٭٭

نیکی کا سفر

‘‘ناصر برگر جلدی سے ختم کرو، سر معین کلاس کی طرف جا رہے ہیں۔‘‘ عدیل کی آواز پر ناصر جلدی جلدی برگر منہ میں ٹھونسنے لگا۔‘‘ یہ سر معین بھی نا! ‘‘قریب کھڑا حمزہ دہی بھلوں کے دو تین چمچ اکٹھے منہ میں ٹھونستے ہوئے بولا۔‘‘
‘‘پتا نہیں رات کو سکول آنے کی خوشی میں سوتے بھی ہیں یا نہیں۔‘‘ ناصر نے پانی کا گلاس پی کر عدیل کے ساتھ کلاس کی طرف دوڑ لگائی۔ پیچھے پیچھے حمزہ اور سرمد بھی ہانپتے کانپتے آنے لگے۔ ‘‘میں تو سر کے پاس شام کو پڑھنے بھی جاتا ہوں‘‘ سرمد دوڑتے ہوئے بولا: ‘‘یقین مانو! اپنی طرف سے جتنی جلدی چلا جاؤں، سر ہمیشہ پہلے سے بیٹھے ہوتے ہیں، تیار۔ پتا نہیں گھر کا کوئی کام کرتے ہی نہیں ہیں۔‘‘ وہ جلدی سے کلاس میں داخل ہوئے، سر معین ہمیشہ کی طرح پورے وقت پر کلاس میں موجود تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ دسویں جماعت کے استاد صاحب پچھلی قطار میں اونگھتے حامد کو زور و شور سے ہلا کر کہتے، ‘‘معین صاحب کلاس کی طرف جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے۔ پیریڈ کا وقت ہو گیا ہے۔ جاؤ جا کر گھنٹی بجاؤ‘‘ اکثر پہلے سے موجود استاد صاحب جماعت میں ہوتے اور سر معین اپنے وقت پر کلاس تک پہنچ جاتے۔ باہر کھڑے ہو کر انتظار کرتے مگر وقت سے ادھر ادھر نہ ہوتے۔
وہ کلاس کے لڑکوں کو ہمیشہ سمجھاتے، بچو جب تک تم اپنے کام کو اہمیت نہ دو گے۔ وہ تمہیں نفع نہیں پہنچا سکے گا۔ بہت سے ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ملیں گے، یا دنیا میں بہت کام کرنے والی لوگ، مگر ان کے علم ان کے ہنر نے ان گا گھر روشن کیا۔ دل روشن نہیں کیا۔ بچے ان کی بات کان لگا کر سنتے، کوئی اس اہمیت دیتا کوئی اسے بے فکری سے اڑا دیتا۔
سکول کی خوش قسمتی کہ وہ اس سکول کے پرنسپل بنا دیئے گئے۔ ان کا زمانہ سکول کا سنہری دور تھا۔ ہر کسی میں کام کرنے کا ایک شوق، ایک جذبہ نظر آتا۔ اس وقت استاد نت نئے کپڑے پہن کر صاف کھانے پینے، وقت گزارنے یا حاضری لگانے سکول نہیں آتے تھے۔ ایک تڑپ تھی، مسلم امہ کے بچوں کی تربیت کی تڑپ جو پرنسپل صاحب سے لے کر تمام اساتذہ، طلباء￿  اور ملازمین تک میں سرایت کر گئی تھی۔ کچھ بہتر کرنے کا جذبہ۔ جسے صرف نکمے اور سست قسم کے لوگ ہی نا پسند کرتے ہیں۔
آج پچیس سال بعد اسی سکول کے سٹاف روم میں اساتذہ بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ ‘‘سب ٹھیک چل رہا ہے، پر وہ بات نہیں ہے جو معین صاحب کے دور میں تھی۔ تب ہر شخص میں کچھ اچھا کرنے کا جنون تھا۔‘‘ سر عبدالباسط جن کے بال سفید ہو چکے تھے۔ چائے کی چسکی لیتے ہوئے بولے۔ ‘‘صحیح کہتے ہیں آپ، یہ کسی کا خلوص ہوتا ہے جو ہمیشہ محسوس ہوتا ہے۔ جس کا لوگ ذکر کرتے ہیں جو اس قابل ہوتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔‘‘ پچیس سال پہلے کے طالب علم ناصر صاحب کرسی سے اٹھ کر جاتے ہوئے بولے:
قریب ایک گاؤں میں درختوں سے گھرے، چار کمروں کے سکول میں پانچویں کلاس کا طالب علم اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا:
‘‘جلدی کھان ختم کرو، سر عدیل کلاس کی طرف جا رہے ہیں۔ کیوں کہ وہ کہتے ہیں۔ ‘‘جس علم سے تم اپنی دنیا روشن کرو، اگر وہ تمہاری آخرت روشن نہ کرے تو تمہاری بدقسمتی ہے۔‘‘ یہ وہ تڑپ تھی جو سر معین سے سفر کرتی ہوئی عدیل تک آئی اور اسی طرح سفر کرتی رہے گی۔ وہ تڑپ جو کوہ صفا پر کھڑے اس عظیم الشان انسان (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پکار میں تھی۔ جو بلال کی اذان میں تھی۔ جو اول العزم مجاہدین کے سینوں میں تھی۔ نیکی کا سفر جاری رہے گا۔ اس دنیا میں بھی اور دوسری دنیا میں بھی۔ دنیا اچھے انسانوں سے کبھی خالی نہیں ہوئی۔
‘‘اور در حقیقت باقی رہنے والی نیکیاں بہتر ہیں تیرے رب کے ہاں۔ ثواب کے اعتبار سے اور بہتر ہیں جن سے امید وابستہ کی جاتی ہے۔‘‘
٭٭٭

انوکھی تبدیلی

محمود الحسن
میں بال بنوانے جا رہا تھا۔ راستے میں ہمایوں مل گیا۔ ہمایوں میرا کلاس فیلو تھا، لیکن گھریلو مجبوریوں نے اْسے پرائمری سے آگے پڑھنے نہیں دیا تھا اور آج کل وہ بکریاں چرا رہا تھا۔
میں نے مصافحے کے لئے ہاتھ آگے بڑھائے تو یوں لگا جیسے ہمایوں انتظار میں ہی تھا۔ آؤ دوست کیسے ہیں احوال۔ بڑی دیر سے دکھائی دیے ہو اور سنا ہے آج کل سیکنڈ ائیر کی تیاری ہو رہی ہے۔ ہمایوں تو گلے لگتے ہی جیسے چھوٹ پڑا ہو۔ ادھر میرا حال کچھ غیر ہو رہا تھا۔ ہمایوں کے ساتھ لگتے اور اس خیال سے تو جیسے میرے پسینے ہی چھوٹ پڑے تھے کہ اگر کالج کے کسی دوست نے یوں کسی چرواہے کے ساتھ کھلم کھلا باتیں کرتے دیکھ لیا تو، تو میرے خیال میں میں دوستوں کی نظروں میں گر سا جاتا، کیونکہ میرے سارے دوست تقریباً ‘روشن خیال’ گھرانوں کے چشم و چراغ تھے ناں۔ بہر حال میں ہمایوں کی ہر بات کا جواب ہاں، ہوں، نہیں اور سر ہلا کر دینے میں عافیت سمجھ رہا تھا، نائی کی دکان تو نظر آ گئی مگر ہمایوں کی باتیں ختم نہیں ہوئی تھیں۔
میں بال بنواتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ یہ ہمایوں بھی کتنا بے وقوف ہے۔ میں تو صرف بیس روپے ہی لے کر نکلا ہوں گھر سے۔۔۔۔ اور اب یہ بھی میرے ہی پیسوں سے بال بنوانے کے چکر میں ہے شاید۔۔۔۔ جاہل کہیں کا۔۔۔۔۔ جائے بکریاں چرائے۔۔۔۔ میں دل ہی دل میں خوب کوس رہا تھا ہمایوں کو کہ اچانک نائی کی آواز نے اپنی طرف متوجہ کیا۔
‘‘ایک تجربے کی بات ہے‘‘، ‘‘کیسی بات‘‘ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ‘‘یہ کراچی کے حالات، دِن دہاڑے قتل و غارت، لوڈ شیڈنگ کا عذاب، اوپر سے روز روز کے زلزلے اور سیلاب، لوگ بھوکوں مر رہے ہیں، نہ پہننے کو کپڑا ہے اور نہ سر چھپانے کو سر میسر ہے، عوام زندگی سے بیزار‘‘۔
‘‘لیکن اس میں تجربے والی کون سی بات ہے؟‘‘ میں نائی کی بات کاٹتے ہوئے پوچھ بیٹھا۔
‘‘ان حالات سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا موجود نہیں‘‘
‘‘کیا‘‘ ہمایوں نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا
‘‘ہاں دیکھو، اگر خدا موجود ہوتا تو اپنے بندوں کا بے جا خون ہوتے نہ دیکھتا، نہ بھکاری ہوتے نہ ہی لوگ بھوکے مرتے‘‘
‘‘چھوڑوں ان فضول باتوں کو‘‘، میں نائی کو پیسے پکڑاتے ہوئے بولا، کیونکہ بال تو کب کے بن چکے تھے
‘‘لیکن رقم تو تیرا بھائی دے چکا ہے‘‘، نائی نے ہمایوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، میں نے ہمایوں کی طرف دیکھا تو وہ اثبات میں سر ہلا رہا تھا۔ اب مجھے نہایت شرمندگی ہو رہے تھی۔ ہمایوں کے بارے میں بد گمانی سے۔
‘‘تمہیں بال نہیں کٹوانے کیا‘‘۔ دکان سے باہر نکلتے ہوئے میں نے پوچھا، نہیں وہ تو ویسے ہی میں تمہارے ساتھ آ گیا تھا۔
‘‘ادھر آؤ ذرا‘‘۔ وہ حلیے سے کوئی نشئی لگ رہا تھا جسے ہمایوں نے آواز دی تھی۔ بکھرے ہوئے بال، لمبی لمبی مونچھیں،
وہ شخص جیسے ہی قریب آیا تو ہمایوں اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے دوبارہ نائی کی دکان میں داخل ہو گیا۔
‘‘ایک تجربے کی بات ہے‘‘ ہمایوں نے نائی کو مخاطب کیا۔ ‘‘وہ کیا‘‘ نائی حیرت سے آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولا۔
‘‘میں نہیں سمجھتا کہ اس علاقے میں نائی موجود ہے‘‘۔ ہمایوں نے سنجیدہ لہجے میں بات کی۔ ‘‘وہ کیوں‘‘ نائی بولا
‘‘اگر اس علاقے میں نائی ہوتا تو یہ اتنی گندی حالت، بکھرے بالوں اور بد نما مونچھوں کے ساتھ آوارہ نا گھومتا‘‘۔ ہمایوں نے نشئی کے بالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
‘‘نہیں بیٹا یہ ہمارے پاس آیا ہی نہیں، ورنہ یہ تمہیں اچھے خاصے حلیے میں نظر آتا‘‘۔ نائی کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔
‘‘تو جی! یہ بھوکے بھی اللہ کے پاس گئے ہی نہیں۔۔۔۔ بھکاریوں نے بھی کبھی اللہ کے سامنے جھولی پھیلائی ہی نہیں۔۔۔۔ عوام بھی تو مسجد کی راہ بھول چکے ہیں۔۔۔۔ ہاں! آج بھی ملک امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔۔۔۔ اگر۔۔۔۔ اگر در در دستک دینے اور بندوں کے سامنے جھکنے کے بجائے صرف اللہ کے سامنے ہی جھکا جائے۔۔۔۔ ہاں جی صرف اللہ کے سامنے۔۔۔۔‘‘
ہمایوں مسلسل بولے جا رہا تھا۔۔۔ اور میں حیرت کا بت بنا پھٹی نگاہوں سے ہمایوں کے اظہارِ خیال پر تعجب کرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ایک چرواہا بھی اس طرح بول سکتا ہے کیا؟
واپس جاتے ہوئے مجھے اپنے اندر ایک حیرت انگیز تبدیلی کا احساس ہوا وہ اس طرح کے راستے میں مجھے اپنے چند کالج کے دوست ملے۔ ان سے ملتے وقت مجھے ذرا برابر بھی شرمندگی محسوس نہیں ہوئی، حالانکہ اس وقت بھی ہمایوں کا ہاتھ بدستور میرے کاندھے پر تھا، البتہ ہمایوں کی وجہ سے میں اپنے دوستوں سے ضرور کنی کترا رہا تھا۔
٭٭٭

How to install My own Android app on mobile

Download started...

Troubleshooting

Step 1



If installation is blocked, go to your settings

Step 2



Enable 'Allow installation of apps from sources other than the Play Store'


alibaba

as

ad

web

amazon

Followers

Website Search

Tweet Corornavirus

Please Subscribe My Chennal

Sub Ki News

 
‎Sub Ki News سب کی نیوز‎
Public group · 1 member
Join Group
 
Nasrullah Nasir . Powered by Blogger.

live track

Popular Posts

Total Pageviews

Chapter 8. ILLUSTRATOR Shape Builder & Pathfinder-1

Chapter 10. Illustrator Drawing & Refining Paths-1

Labels