فرحی نعیم
یاسر دائیں ہاتھ کی مٹھی بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر مسلسل مار رہا تھا افسوس اور غصہ اس کے چہرے سے مترشح تھا۔ کبھی وہ پلنگ پر بیٹھتا اور کبھی کھڑے ہو کر ٹہلنے لگتا۔
’’کیا کروں؟‘‘ وہ اپنے آپ سے بولا ’’اسد کا بچہ بس ایک دفعہ مجھے مل جائے پھر میں اُس کی ساری باتوں کا جواب دے دوں گا۔‘‘ و کتنی ہی دیر اسی طرح ٹہلتا رہا پھر آخر کار تھک کر بیٹھ گیا۔
’’یاسر‘‘ باجی اُسے باہر سے آوازیں دیتی وہیں آرہی تھیں ’’یاسر‘‘ میں نے چائے بنا لی ہے باہر آکر چائے… ارے تمہیں کیا ہوا؟‘‘ باجی جو اُسے چائے کا کہنے آئیں تھیں اس کے چہرے کے عجیب و غریب تاثرات دیکھ کر حیرانی سے پوچھنے لگیں تھیں۔
’’کچھ نہیں باجی۔‘‘ یاسر نے انہیں ٹالا۔
’’نہیں کوئی بات ہے جو تم اتنے الجھے ہوئے لگ رہے ہو۔‘‘
’’نہیں باجی میں تو ٹھیک ہوں آپ کو شاید وہم ہوا ہے۔‘‘ یاسر نے ذبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا تم کہتے ہو تو مان لیتی ہوں، چلو باہر آکر چائے پی لو، امی، شہزاد سب انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
’’جی ابھی آیا۔ آپ چلیں میں بس پانچ منٹ میں۔‘‘ یاسر جلدی سے بولا اور باجی واپس پلٹ گئیں۔
’…ارے یار! تم کیسے بے وقوف ہو، آخر تم خاموش کیوں رہے۔‘‘ حسن، یاسر سے کہہ رہا تھا۔
’’کمال کر دیا، یوں تو تم اتنی باتیں کرتے ہو اور اس کے معاملے میں تم کو گویا سانپ ہی سونگھ گیا۔‘‘ عبید بھی یاسر کو ٹہوکا دیتے ہوئے بولا۔ اور یاسر خاموشی سے ہونٹوں کو بھینجتا رہا۔ اُس کو اب پرسوں والے واقعہ پر نئے سرے سے غصہ آنے لگا تھا۔
’’حد کر دی تم نے تو میں تو تم کو…‘‘ حسن گردن جھٹک کر بولا۔
’’واقعی یار تم تو بڑے کم ہمت نکلے۔‘‘ عبید نے بھی افسوس کیا لیکن یاسر تو کم ہمت کا لفظ سنتے ہی یک دم کھڑا ہو گیا ایسا لگا جیسے اُسے کسی نے تیلی رکھا دی ہو۔ میں کم ہمت نہیں ہوں۔‘‘ وہ بپھر کر بولا تھا۔
’’کم ہمت نہیں تھے تو اسد کی اتنی باتوں کے جواب میں خاموش کیوں رہے‘‘ عبید طنزاً بولا۔
’’وہ تو اس وقت میں…‘‘ یاسر گڑبڑا گیا۔
’’ہاں کیا اُس وقت؟ مجھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ تم گونگے کا گڑ کھائے ہوئے ہو۔‘‘ حسن نے بھی عبید کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
’’ایسی بات نہیں تھی، وہ تو بس میں نے مصلحت، میں تو اس لیے خاموش رہا کہ مزید بات نہ بڑھ جائے۔‘‘ یاسر نے بات بناتے ہوئے کہا!
’’ورنہ تم لوگ تو جانتے ہو میں کسی کا ادھار نہیں رکھتا۔‘‘
’’ہاں ہم بھی تو یہی چاہتے ہیں، کہ ہمارا یار تو بہت بہادر ہے نہ کسی سے دبتا ہے نہ کسی سے ڈرتا ہے۔‘‘ عبید نے جلدی سے اُس کی تعریف کی۔
’’بالکل وہ تو اتنا بہادر ہے کہ اینٹ کا جواب اب پتھر سے دیتا ہے۔‘‘ حسن نے بھی اُس کے شانے کو دباتے ہوئے کہا پھر توقف کرکے بولا۔ ’’تو پھر انتظار کس بات کا ہے ہو جائے پھر اس سے دو دو ہاتھ۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ یاسر نے چونکتے ہوئے حسن کی طرف دیکھا۔
’’یار سیدھا سا مطلب ہے، اسد جو بڑا اتراتا پھر رہا ہے اس کو، اس کی دیدہ دلیری کا جواب تو ملنا چاہیے۔‘‘
’’صرف جواب نہیں بلکہ زور دار جواب‘‘ عبید نے بھی ٹکڑا لگایا۔
’’کیا تم دونوں یہ چاہتے ہو کہ میں اب وہاں جا کر…‘‘ لیکن یار…‘‘
’’ارے کیا لیکن ویکن یہ بات زیادہ عرصہ کی تو نہیں، پرسوں ہی کی تو ہے۔ سچ فیل صرف ایک کل کا دن ہی تو گزرا ہے۔ تم تو ایسے ڈر رہے ہو کہ جیسے وہ تمہیں کھا جائے گا۔‘‘ حسن نفی میں گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
’’میں ڈرتا ور تا نہیں، اور اسد ہے کیا چیز میں ابھی دیکھ لیتا ہوں۔‘‘ وہ فوراً ہی اٹھتے ہوئے بولا اور تیزی سے اس طرف چل پڑا جہاں اسد کا گھر تھا۔ جو یاسر کے محلے سے اگلا محلہ تھا۔ یاسر تو تیزی سے اکیلے ہی آگے بڑھ گیا تھا اُس نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ اکیلا وہاں جارہا ہے جبکہ وہاں تو اسد کا بھائی اور اس کے محلے گلی کے دوست بھی ہوں گے۔ غصہ نے اُس کی عقل گم کر دی تھی۔ اور دوسری طرف اس کے گلی سے مڑتے ہی حسن اور عبید نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر دونوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔ وہ دونوں جو چاہتے تھے اس میں وہ کامیاب ہو گئے تھے۔
’’چلو بھئی اب کل ملیں گے۔‘‘ حسن مسکراتے ہوئے بولا۔
’’اور دیکھیں گے کہ یاسر کی کیا گت بنتی ہے۔‘‘ عبید نے بھی دانت نکالتے ہوئے کہا اور دونوں نے اپنے اپنے گھر کی راہ لی وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے تو یاسر گھر آیا تو اس کا برا حال تھا وہ لنگڑاتا ہوا بڑے کمرے میں آیا اور صوفہ پر ڈھیر ہو گیا۔ گھر والوں نے جو اس کا یہ حال دیکھا تو سب ہی گھبرا کر دوڑے ہوئے اُس کے پاس گئے۔
’’یاسر، میرے بیٹے کیا ہوا‘‘ امی رونی آواز میں پوچھ رہی تھیں۔
’’کیا تمہاری کسی سے لڑائی ہوئی ہے۔‘‘ ابو اس کو بغور دیکھتے ہوئے بولا۔
’’نہیں ابو وہ میں، سیڑھیوں سے گر گیا تھا۔‘‘ یاسر نے لڑھکڑاتی ہوئی آواز میں ابو کو جواب دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ باجی اس کے لیے دودھ لے آئی تھیں اور زبردستی پلا رہی تھیں اُس نے بمشکل چند گھونٹ لیے اور پھر لیٹ گیا۔ اس کا سارا جسم دکھ رہا تھا۔
’’چلو اٹھو ڈاکٹر کے ہاں چلیں تمہارا منہ بھی سوج رہا ہے اور ہاتھ پیروں پر بھی نیل پڑے ہیں۔‘‘ ابو بولے اور اسے سہارا دے کر گاڑی میں بٹھایا۔ امی بھی ساتھ بیٹھ گئیں تھیں۔
ڈاکٹر نے دوا دی اور جہاں زیادہ چوٹ تھی وہاں پٹی کر دی تھی۔ یاسر کا تو جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔ وہ ڈاکٹر کے ہاں سے آکر دوا کھا کر سو گیا تھا۔ سب کے کئی دفعہ پوچھنے کے باوجود اُس نے حقیقت ظاہر نہ کی تھی بس یہی کہتا رہا کہ میں اپنے دوست کے گھر سے آرہا تھا کہ سیڑھی پر میرا پائوں رپٹ گیا اور میں کئی سیڑھیاں لڑھکتا ہوا گر گیا۔ اسی لیے مجھے اتنی چوٹیں آئیں ہیں۔ اگلے دن شام کو دروازے کی گھنٹی بجی، یاسر کا چھوٹا بھائی شہزاد نے جا کر دروازہ کھولا اور آنے والوں کو یاسر کے کمرے میں چھوڑ کر واپس بڑے کمرے میں آگیا اور باجی کے پاس بیٹھ گیا۔
’’کون آیا ہے شہزاد‘‘ باجی پوچھ رہی تھیں۔
’’باجی، یاسر بھائی کے دوست آئے ہیں۔‘‘
’’کون سے دوست‘‘
یہ پیچھے والی گلی میں رہتے ہیں۔ حسن اور عبید۔‘‘ شہزاد نے بتایا۔
٭٭٭
0 comments:
Post a Comment