رابعہ ظفر
کسی شہر میں ایک خاندان والدین اور اپنے چار بیٹوں کے ساتھ رہتا تھاچاروں بیٹے چاوید، اسلم، آصف، یاسر اوپر تلے کے تھے اچھا خاصا خوشحال گھرانہ تھا ماں باپ کے دل میں اپنے بچوں کو پڑھنا لکھا کر قابل بنانے کی فکر تھی اس لیے وہ ان کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دیتے تھے لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک دن جب بچوں کے والدین کچھ سامان لینے شہر کی مارکیٹ جانے کے لیے بس میں سوار ہوئے تو تھوڑی ہی دور جا کر بس میں ایک زور دار دھماکہ ہوا سارے مسافروں کے ساتھ ان بچوں کے والدین بھی جاں بحق ہو گئے چاروں بچوں پر تو قیامت ٹوٹ گئی رشتہ داروں اور محلے والوں نے کچھ دن تو خیال رکھا کیکن کب تک؟ ایسے میں بڑے بھائی جاوید نے ہمت کری اور اپنے والدین کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہمت باندھی اس نے اپنی تعلیم ادھوری جھوڑی اور ایک کار خانے میں سروس کر لی تاکہ اپنے بھائیوں کی ضرویات کو پورا کر سکے اس مقصد کے لیے وہ اکثر ڈبل ڈیوٹی کرتا آخر اس کی رات دن کی محنت رنگ لائی اور اسلم پولس آفیسر بن گیا کچھ ہی عرصے بعد آصف ایک مشہور وکیل تھا اور یاسر ایک انجینئر لیکن تیزی سے گزرتے وقت اور محنت نے جاوید کو بہت کمزور کر دیا تھا اس نے گھر کو سنبھالا دینے کے لیے دو بھائیوں کی شادی کر دی لیکن بھابیاں گھر تو کیا سنبھالتیں اسلم اور آصف کو لیکر علیحدہ گھروں میں شفٹ ہو گئیں۔ جاوید کو بہت دکھ ہوا اور پھر یہ دکھ اس کی جان کا روگ بن گیا۔ اس کے بائی اسے سہارا دے سکتے تھے لیکن وہ تو اپنے اپنے گھروں میں مگن ہو چکے تھے ایسے میں جاوید کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی ڈاکٹروں نے ٹیسٹ کراے تو پتہ چلا کہ جاوید کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے اس نے بھائیوں سے اپنی بیماری چھپا کر اپنے علاج کے لیے ان سے کچھ رقم مانگی تو تینوں نے ٹال مٹول سے کام لیا آخر جاوید دلبرداشتہ ہو کر گھر کا ہو رہا۔ اس کو بھائیوں کے رویے پر افسوس تو بہت ہوتا تھا لیکن وہ سوچتا میں نے تو اپنا فرض نبھایا ہے اپنے والدین کی خواہش کا احترام کیا ہے کسی پر احسان تو نہیں کیا جو میں انہیں بد دعائیں دوں یہ سوچ کر وہ ذہنی طور پر مطمئن ہو جاتا۔ وہ روز بروز موت کے قریب ہو رہا تھا اور چھوٹے بھائی اپنی دنیا میں مگن کہ ایک دن جاوید زندگی کی بازی ہار گیا۔ جب بھائیوں نے اس کی موت کے بعد اس کے ٹیسٹ دیکھے تو انہیں اپنے روئیوں پر بہت ندامت ہوئی اور پھر ساری زندگی وہ اپنے آپ کو بھائی کی موت کا قصور وار سمجھ کر ذہنی خلفشار کا شکار رہے سچ ہے اپنا فرض ادا کرکے آدمی مطمئن اور فرض سے کوتاہی اسے بے چین رکھتی ہے۔ پیارے بچو! ابھی ہمارے پاس وقت ہے جم اپنے حصے کے فرائض ادا کرتے رہیں تو ہمیں اطمنان نصیب ہو گا!
٭٭٭
0 comments:
Post a Comment