نغمہ جاوید
’’ماما، ماما! کل ہماری مس نے ہمیں کلاس میں بتایا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے محبت کریں۔ کسی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی جان لے۔ مس نے ہمیں ایک بہت ہی اچھی کہانی بھی سنائی تھی جو ہم سب نے بڑی توجہ سے سنی۔ اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ اللہ کی زمین ہے۔ اس پر اللہ کے حکم کے مطابق چلو۔ کسی قسم کا فساد نہ کرو۔ ایک دوسرے کی مدد کرو۔‘‘
ماما بڑے پیار سے اپنی پھول جیسی پیاری بیٹی کو دیکھ رہی تھیں جو اسکول کے یونیفارم کو استری کرنے کے ساتھ ساتھ کلاس میں ہونے والی باتیں بھی سنا رہی تھی۔ ماما اسکول والوں سے بھی خوش ہورہی تھیں اور خدا کا شکر ادا کررہی تھی کہ اسکول کا ماحول اچھا ہے، اور ٹیچرز بچوں کو فضول سرگرمیوں میں الجھانے کے بجائے اس طرح کی قرآنی اور اخلاقی کہانیاں سناتی رہتی تھیں جس سے ان کی ذہنی سوچ اچھی ہورہی تھی۔ گڑیا سے کھانے کا بول کر ماما کچن میں گئیں اور گڑیا کے لیے کھانا نکالنے لگیں۔ ساتھ ساتھ کام کی منصوبہ بندی بھی کرتی جارہی تھیں۔ آج گڑیا کے پاپا کو شام کو کام پر سے جلدی آنا تھا کیونکہ گڑیا کی پھوپھی نے رات کے کھانے پر انہیں بلایا ہوا تھا۔ اسی لیے بیٹی کو کھانا دے کر وہ جلدی جلدی باقی کام ختم کرکے شام کو پہننے کے لیے اپنے کپڑے استری کرنے لگیں۔ شام کو گڑیا کے پاپا آگئے۔ ماں بیٹی تیار ہی تھیں۔ پاپا بولے تم لوگ رکو میں موبائل کا کارڈ لے آئوں۔ ابھی انہیں باہر گئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک زور کا دھماکا ہوا، اور پھر ہر طرف چیخ و پکار شروع ہوگئی۔ ہر کوئی مدد کے لیے چیخ رہا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ ہر طرف آگ کے شعلے اور سیاہ دھواں تھا۔ گڑیا نے باہر دیکھا، ہر طرف ملبے کے ڈھیر۔ وہ بے چین ہوکر پاپا کو ڈھونڈنے لپکی۔ وہ کہیں نظر نہ آئے۔ آخر ایک جگہ چند لاشوں میں اس کو وہ کپڑے نظر آئے جو پاپا نے پہنے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں کارڈ تو تھا لیکن جلا ہوا۔ گڑیا اپنے پاپا کو اس حالت میں دیکھ کر رو رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کل کلاس میں مس نے جو کہانی سنائی تھی کیا وہ غلط تھی؟ کیا میرے ابو مسلمان نہیں تھے؟ یہ سب جو ہلاک ہوئے ہیں کیا مسلمان نہیں تھے؟ ہمارا مذہب تو غیروں کے لیے بھی سلامتی کا مذہب ہے، وہ کہانی ان دھماکا کرنے والوں نے کیوں نہیں سنی؟ اور پھر یہ کوئی عام کہانی بھی نہیں۔ یہ تو اللہ کی آیات ہیں جو ہر مسلمان کو پڑھنی اور ان پر عمل کرنا تھا۔ ان آیات پر عمل کرنے سے ہی تو ملک میں امن قائم ہونا ہے، جس کے بعد اس طرح کے واقعات ختم ہوں گے۔ یہ کب ہوگا، کیسے ہوگا؟ یہ تو اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب میرے وطن میں صالح قیادت آئے۔ وہ لوگ آئیں جو ان آیات کو سمجھتے ہیں اور ان پر عمل کروانا جانتے ہیں۔ جن سے وہ قوتیں خوفزدہ ہیں جو یہ سب کچھ اپنی چالوں سے کررہی ہیں۔ ان کو شاید یہ یاد نہیں کہ اللہ کی چالیں ان کی چالوں سے زیادہ ہیں، کیونکہ وہ تو علیم بھی ہے، حفیظ بھی ہے، جبار بھی ہے اور قدیر بھی۔
٭٭٭
0 comments:
Post a Comment