سارہ خالد
وہ جاڑے کی اندھیر اور خوفناک رات تھی۔ ایک رفتار سے برستی طوفانی بارش کا شور کمروں تک سنائی دے رہا تھا۔ زمینی بجلی دوپہر سے ہی غائب تھی جبکہ آسمانی بجلی وقفے وقفے سے کڑک کے بادلوں میں سے جھانکتی تو سارا صحن روسن ہو جاتا۔
ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔ لوگ گھرون میں دبکے بیٹھے تھے۔ دور کہیں سے آتی کتے بلی کی آوازیں ماحول کو عجیب سوگوار اور دہشت زدہ بنا رہی تھیں۔
کمرے میں جلتی واجد سفید موم بتی کا ننھا سا شعلہ اندھیرے سے لڑتا ہولے ہولے لرز رہا تھا۔ کمرے کے ایک طرف لکڑی کی پیٹی میں چھوٹی چھوٹی کترنوں کے نرم بستر پر ننھے سے گرم کمل میں لپٹا دو دھیا خرگوش منہ باہر نکال کر اپنی پیاری سی گول گول آنکھوں سے اپنی محسنہ کے موجود ہونے کا یقین کرکے پھر سے کمل میںمنہ چھپا لیتا۔
ضحی بستر کے ایک طرف بچھی جائے نماز پہ نماز پڑھ رہی تھی۔ دعا مانگ کے اس نے منہ پہ ہاتھ پھیرا اور بستر پہ آگئی۔
’’یہ لو بیٹا دودھ پی کے سونا۔‘‘ بوا دروازہ کھول کے اندر آئیں تو ٹھنڈی ہوا کا تیز جھونکا اندر آگیا انہوں نے دروازہ بند کرکے دودھ کا گلاس قریبی میز پہ رکھ کے زوہا کو ہدایت دی۔
’’بوا آپ یہیں سوئیں گی ناں؟‘‘ اس نے بستر جھاڑ کے دودھ کا گلاس اٹھاتے ہوئے بوا کو دیکھا۔
’’ہاں بیٹا۔ فکر نہ کرو بس باورچی خانہ سمیٹ کے آتی ہوں یہیں سوں گی۔‘‘ کمرے کی دوسری جانب لگے ضحی کی چھوٹی بہن ثمرہ کے خالی بستر کی طرف اشارہ کرکے وہ اچھی طرح دروازہ بند کرکے باہر نکل گئیں۔
وہ گلاس کالی کرکے کمبل میں دبک گئی۔ جلتی ہوئی موم بتی کا قد ہر لمحہ چھوٹا ہو رہا تھا۔
امی بابا ثمرہ کو لے کر بہاولپور گئے ہوئے تھے۔ نانا ابا کی طبیعت کئی روز سے ناساز تھی پرسوں فون پہ بات کرتے ہوئے وہ رو پڑے تو امی گھبرا گئیں۔ بابا بھی پریشان ہو کے اسی شام ٹرین کے ٹکٹ لے آئے یوں تو بہاولپور جانا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اکثر وہ سب چھٹیاں وہیں گزارتے تھے۔ ددھیال، ننھیال سب وہین تھا۔ مگر آج کل بارشیں زوروں پر تھیں۔ نانا ابا سے ملنے کی شدید خواہش کے باوجود امی موسم کے خیال سے تذبذب کا شکار تھیں۔
نانا ابا کے فون نے فیصلہ آسان کر دیا۔ آج دوپہر امی بابا چھوٹی ثمرہ کو لے کر روانہ ہو گئے علی اور ضحی کو گھر پر بوا کی نگرانی میں چھوڑ دیا۔ بوا سالوں سے اس گھر کی ملازمہ تھیں۔ گویا گھر کی فردہوں۔ وہ بالکل نانی دادی کی طرح بچوں کا خیال رکھتی تھیں۔
علی کھانا کھا کے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ ضحی اپنے اور ثمرہ کے مشترکہ کمرے میں آگئی۔ اس طوفانی رات میں اکیلے سونے کا خیال ہی سوہانِ روح تھا۔ وہ تو شکر ہے بوا نے اس کے ساتھ سونے کی ہامی بھر لی تھی۔
خیالات کے طوفان میں بہتے بہتے نجانے کب ضحی نیند کی وادی مین اتر گئی۔
چھن… چھن… چھن…
رات کے کسی پہر ضحی کی آنکھ عجیب سی آواز سے کھل گئی۔ اس نے کمبل سے تھوڑا سا منہ باہر نکال کے باہر جھانکا۔ موم بتی پگھل پگھل کے ختم ہونے کو تھی۔ اس کی مدھم روشنی میں کمرہ لرزتا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ بوا ثمرہ کے بستر پہ بے خبر سو رہی تھیں۔ ننھا سپیہ خرگوش بھی میٹھی نیند کے مزے لے رہا تھا۔
تواتر سے بارش برسنے کی ٹپ ٹپ، بادلوں کے گرجنے کی آواز… اور … اور ایک عجیب سی تھورے تھوڑے وقفے سے گونجتی آواز…
ضحی نے یک لخت منہ کمبل میں گھسا کے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ ’’پہ نہیں کس چیز کی آواز ہے…‘‘ اس نے ڈرتے ڈرتے سوچا۔
یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی گرم توے پہ ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مار رہا ہو… عجیب ہی سی کوئی آواز تھی… نہیں… شاید کسی عجیب الخلقت مخلوق کے پنجے رگڑنے کی آواز…
’’کہیں کوئی جن بھوت تو…‘‘ اس نے دل ہی دل میں سوچا اور مزید ڈر گئی۔
آواز تواتر سے آ رہی تھی… اسے جتنی سورتیں یاد تھیں وہ سب دہرا لیں… آیت الکرسی پڑھ کے تھوڑا سا منہ کمبل سے باہر نکال کے سارے کمرے میں پھونک دی… مگر آواز نہ رکی…
چھن… چھن… یا شاید … خر خر… خوف بڑھنے لگا… اس کی نیند اڑ گئی۔ ’’کیا کروں… بوا کو جگا دوں؟؟ نہیں نہیں… وہ بچاری تو سارے دن کی تھکی ہاری ہیں…‘‘
بہت دیر اسی حال میں گزر گئی… آخر اس نے دھیرے سے بوا کو آواز دی… ایک بار دو بار، تین… بوا ٹس سے مس نہ ہوئیں شاید گہری نیند میں تھیں…
آواز ہنوز آرہی تھی… وہ دل ہی دل میں لرزتی کانپتی رہی… آخر اس نے بوا کے بستر پہ ان کے ساتھ سونے کا فیصلہ کیا… اب اکیلے سونا ممکن نہیں رہا تھا۔ وہ کمبل لپیٹ کے اٹھ گئی۔
جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہی تھی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی۔ وہ جلدی سے بوا کے قریب پہنچ گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ بوا کو ہلاتی… اسے عجیب سا احساس ہوا۔
’’اوہ!‘‘ وہ عجیب و غریب آوازیں جنہوں نے اسے سوتے سے اٹھا دیا تھا دراصل بوا کے منہ سے آرہی تھیں۔ غالباً وہ اسی انداز میں خراٹے لیتی تھیں۔ بے ساختہ اس کی ہنسی نکل گئی۔ ڈر خوف سب بھاگ گئے… اتنی سی دیر میں اس کا آدھا خون خشک ہو گیا تھا…
وہ اسی طرح منہ پہ ہاتھ رکھے ہنستی ہوئی واپس بستر کی طرف چل دی۔
صبح بے حد روشن تھی۔ رات بھر برس کے بارش اب تھمی تھی۔ وہ تلاوت کے بعد باورچی خانے میں آگئی۔
’’بیٹا رات ٹھیک سے تو سوئیں ناں؟ مینہ خوب برسا ہے۔ ڈر تو نہیں لگا؟‘‘ بوا نے پراٹھا بیلتے ہوئے پوچھا۔
’’بہت اچھی رات گزری بوا۔‘‘ اس نے ہنسی چھپا کے انہیں اطمینان دلایا اور پھر زور سے ہنس دی۔
٭٭٭
0 comments:
Post a Comment