کوثر عبدالقیوم
رمشاء کہنے کو ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوئی لیکن مسلمان کہلانے کے باوجود عمل سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسلام کے بنیادی عقائد و فرائض سے بھی بے پرواہ یہ گھرانہ دنیا کی فضولیات میں اپنا وقت اور پیسہ خرچ کررہا تھا جس کی وجہ سے پاس پڑوس والے بھی نالاں رہتے کیونکہ جب بے ہنگم گانوں کی آوازیں گونجتیں تو وہ بہت بے سکون ہوتے لیکن ہمت نہ کرتے کہ محلے میں ان کا ایک قسم کا رعب تھا کیونکہ رمشاء کے والد کا چلتا ہوا بڑا بزنس تھا اور اس کی ماما ایک بیوٹی پارلر چلاتی تھیں۔ رمشا ایک بڑے اسکول میں زیر تعلیم تھی اور اس کو اللہ نے اپنے دین سے رغبت دی تھی جب اسمبلی میں تلاوت ہوتی اور حمد و نعت پڑھی جاتی تو اسے ذہنی سکون محسوس ہوتا خاص کر جب کوئی بچی تلاوتِ قرآن کرتی تو اس کی حسرت ہوتی کہ کاش مجھے بھی قرآن کی تلاوت آتی اور میں بھی اس جگہ کھڑی ہوتی۔ مگر والدین تو دنیا کی طرف راغب اور اس ہی میں مگن جب وہ اسکول سے گھر واپس آتی تو گھر میں وہی گانے بجانے کا ماحول ہوتا کسی کو بھی شائر اسلام حد ہے آذان کی آواز کی بھی پرواہ نہ ہوتی رمشا کو یہ سب کچھ بہت برا محسوس ہوتا لیکن وہ کہتی تو کوئی نہ سنتا۔
ایک دن اسکول میں اسلامیات کا پیریڈ تھا مس روبینہ نے اس سبق سنانے کو کہا جو قرآن کی ایک سورۃ تھی۔ رمشا نے اپنا سر شرمندگی سے جھکا لیا۔ اور مس کو بتایا کہ اس نے قرآن نہیں پڑھا مس روبینہ نے کہا کوئی بات نہیں تم ہاف ٹائم میں میرے پاس اسٹاف روم میں آنا۔
جب بریک ہوئی تو رمشہ سیدھی اسٹاف روم میں مس روبینہ کے پاس پہنچ گئی۔ مس نے رمشا سے پوچھا بیٹا آپ نماز پڑھتی ہیں؟ رمشا نے انکار میں سر ہلا کر شرمندگی سے بتایا کہ مجھے تو کسی نے نماز پڑھنا سیکھائی ہی نہیں۔ ہمارے گھر میں کوئی بھی نماز نہیں پڑھتا اسی لیے مجھے بھی نماز پڑھنا نہیں آتی۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں نماز پڑھوں سیکھوں مگر یہ سب مجھے مشکل لگتا ہے کہ لوگ میرا مذاق اڑائیں گے۔ مس روبینہ نے کہا اس میں مذاق اڑانے کی کوئی بات نہیں ضرورت صرف سچھی لگن اور جذبے کی ہے اگر ہمارا ایمان پختہ ہو اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح کی طلب ہو تو پھر کچھ بھی مشکل نہیں رہتا۔ انسان اللہ کی راہ میں قدم بڑھانا ہے تو اللہ خود اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تم روزانہ ہاف ٹائم میں میرے پاس آجایا کرو میں تمہیں قرآن پڑھنا سیکھا دونگی ہم آخر اور علوم بھی تو سیکھاتے ہیں جس مضمون میں بچہ کمزور ہوتا ہے اس پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور زیادہ محنت کرتے ہیں تو پھر اس کو کیوں نظر انداز کریں مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ تم ساتویں کلاس میں بغیر سیکھے کیسے آگئیں؟ اگر تم حساب وغیرہ میں کمزور ہوتیں تو فیل کی جاتیں اور خصوصی توجہ دی جاتی۔ ہم آخر کیسے مسلمان ہیں کہ قرآن اور قرآنی کی تعلیم کے معاملے میں اتنی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ رمشا کے ساتھ دوسری ٹیچرز بھی مس روبینہ کے خیالات سے اتفاق کررہی تھیں انہوں نے کہا رمشا اس میں آپ کا قصور نہیں ہے بلکہ ہم سب کا قصور ہے انشااللہ آئندہ ہم سب اپنے اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہوئے اپنے طلباء کو دوسرے سبجیکش کی طرح اسلامیات کے مضمون پر بھی محنت کرائیں گے۔ تاکہ وہ اچھے مسلمان اور اچھے شہری بن سکیں۔
٭٭٭
0 comments:
Post a Comment