My Blogger consists of a general news in which I upload articles from all types of news including science, technology, education, crime, how-to, business, health, lifestyle and fashion.

New User Gifts

ایک یاد گار دن… سارا دن خوار ہوئے ہم

فریحہ ارشد

یہ واقعہ سردی کی چھٹیوں کا ہے۔ چھٹیوں کے تیسرے دن امی نے ابو سے ہمارے پاسپورٹ بنوانے کا کہا کیونکہ امی ہم سب کو لے کر عمرے پر جانا چاہتی تھیں۔ طے یہ پایا کہ اگلے دن صبح آٹھ بجے پاسپورٹ آفس روانہ ہوجائیں گے۔ ہم چاروں بہنوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سب نے جلدی جلدی کپڑے استری کیے، جوتے چپلیں نکالیں۔ اور وہاں بھوک لگے گی اس لیے میں اور مجھ سے چھوٹی بہن کھانے پینے کی چیزیں خریدنے گئے۔ جب چیزیں لے گھر پہنچے تو ایک اودھم مچ گیا۔ اور کیوں نہ مچتا، بات ہی کچھ ایسی تھی… ہر بسکٹ چاکلیٹ والا، بے کار ٹاٹری والے پاپڑ… دونوں بڑی بہنیں غصے سے چلاّ اٹھیں۔ مریم بولی: ’’کیا اٹھا کر لے آئی ہو… دکان گئی تھیں یا کوڑے دان!‘‘ خوب ڈانٹ پڑی۔ چھوٹی بہن نے معصوم بن کر بول دیا کہ یہ تو فریحہ لائی ہے اور میری شامت آگئی۔ خیر اللہ اللہ کرکے رات گزر گئی۔
صبح سات بجے ہی امی کی دھماکے دار آواز آئی ’’کب تک منہ لپیٹے سوتی رہوگی، پاسپورٹ آفس نہیں جانا کیا؟‘‘ جیسے ہی پاسپورٹ آفس کا نام سنا اپنی تیاریاں یاد آئیں۔ فوراً اٹھ بیٹھے، جلدی جلدی تیار ہوئے، ناشتہ کیا… اور ناشتہ بھی کیا، ایک بغیر جیم یا بغیر مکھن کا سلائس چائے میں ڈبوکر کھا لیا۔ 
اس کے بعد ہم روانہ ہوگئے۔ راستے سے دادی جان کو لیا، کیونکہ ان کا پاسپورٹ بھی تو ایکسپائر ہوگیا تھا۔ صبح کے سہانے موسم سے سفر کو چار چاند لگ گئے۔ بڑا ہی سکون والا اور مزے دار سفر تھا۔ راستے میں قائداعظم کا مزار بھی آیا مگر ابو نے گاڑی روکنے سے انکار کردیا اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ خیر جلد ہی ٹھیک بھی ہوگئے۔
پاسپورٹ آفس پہنچتے ہی مشکلات شروع ہوگئیں۔ گاڑیوں کا اتنا ہجوم تھا کہ ہماری گاڑی ایک زنگ آلود ڈنڈے سے جا ٹکرائی اور اس پر ڈینٹ پڑگیا۔ اندر گئے تو لوگوں کا اتنا ہجوم تھا کہ ہمارے دلوں پر ڈینٹ پڑگئے۔ لائن اتنی لمبی تھی کہ سب ہی کے ماتھوں پر شکنیں پڑ گئیں۔ خیر ابو فارم لے کر آئے اور بیٹھ کر جلدی جلدی پُر کرنے لگے۔ ابو کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، ان کا تو باہر کے ملکوں میں کاروبار کے سلسلے میں آنا جانا لگا ہی رہتا تھا۔ فارم پُر کرکے ہم لائن میں لگ گئے۔ بہت لمبی لائن تھی۔ اللہ اللہ کرکے ہماری باری آئی اور ٹوکن لے کر ہم اگلے مرحلے پر آگئے۔ وہاں پہنچے تو سرہی چکرا گیا۔ وہاں بھی طویل قطار تھی۔ اور سر چکرانے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں پر ہم بچوں اور امی کی لائن الگ اور ابو کی لائن الگ تھی۔ پھر دادی سے کہا گیا کہ سینئر سٹیزن والی لائن میں جائیں، وہاں ہماری دادی سارا وقت کھڑی رہیں جس کی وجہ سے ان کی ٹانگوں میں شدید درد ہوگیا۔ ہم نے سوچا، تھوڑی ہی دیر کی بات ہے، نمبر آجائے گا۔ مگر کیا پتا تھا کہ گھنٹوں کھڑا رہنا پڑے گا۔ اچانک ذہن میں دادی کا خیال آیا۔ ہم بڑے پریشان ہوئے۔ بھوک کا احساس ہونے لگا تو چیزیں یاد آگئیں۔ ہم نے ساری چیزیں ختم کردیں۔ امی کو بھوک لگی، انہوں نے ہم سے چیزوں کے بارے میں پوچھا تو سامنے سے لٹکے ہوئے منہ پیش کردیئے گئے۔ امی سمجھ گئیں کہ ساری چیزیں کہاں گئیں۔
جب تصویر بنوانے کا مرحلہ آیا تو ہمارے چہرے گرمی، پسینے اور تھکن سے اتنے خراب ہوچکے تھے کہ اپنی تصویر دیکھ کر ہڑبڑانے لگے۔ پھر جب نمبر پتا چلا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں… 130 نمبر چل رہا تھا اور ہمارے نمبر 280سے شروع ہورہے تھے۔ یعنی ڈیڑھ سو نمبروں کا فرق تھا۔ ہم پریشان حال دادی کے پاس گئے، ان کا نمبر بھی کافی دور تھا۔ سخت گرمی میں کرسی بھی نہیں مل رہی تھی۔ ٹانگوں میں اتنا درد تھا کہ ہمارا تو بینڈ بج گیا۔  بھوک اور گرمی کی شدت الگ… ہمارا برا حشر ہوگیا۔ آخرکار ہمیں ایک آدھ سیٹ مل گئی اور وہ بھی ایسے  کہ دو انکلوں کو رحم آگیا اور انہوں نے اپنی سیٹ دے دی۔ ہماری حالت دیکھ کر ابو پریشان ہوگئے اور ہمارے لیے بروسٹ، برگر اور کولڈ ڈرنک لے آئے۔ وہ کھا کر ہماری حالت سنبھلی۔ پھر بھی نمبر نہ آیا، گھنٹوں ایسے ہی بیٹھے رہے۔  شدید پیاس لگنے لگی لیکن پانی ہمارے پاس نہ تھا۔ ہم سب کے دلوں میں بس ایک بات تھی ’’پانی ی ی ی…‘‘ ہماری ساری خوشیاں اور تیاریاں مٹی میں مل گئیں اور یاد کرنے لگے کہ ہم کتنے پُرجوش تھے یہاں آنے کے لیے، کتنا لڑے تھے چیزوں کے لیے… اور کیا ہوگیا۔
شام کو نمبر آیا۔ اس دوران ہمارے ماموں بھی آگئے، انہوں  نے ہمیں پانی پلایا۔ پتا چلا کہ وہاں بھی فلٹر تھا۔ اس کے پاس گئے اور اپنی شکل جو فلٹر میں دیکھی تو ہکا بکا رہ گئے۔ بال خراب ہورہے تھے، جو منہ پر لگایا ہوا تھا سب اتر گیا تھا۔ جب سب کچھ ہوگیا اور آخری مرحلہ آیا اور صرف فام جمع کرواکر گھر جانا تھا تو پتا چلا کہ دادی کا شناختی کارڈ ایکسپائر ہے۔ ہمیں اتنا غصہ آیا کہ پہلے جن لوگوں نے فارم بنایا انہوں نے ہمیں دیکھا۔ اب جب فارم جمع کروانے کا وقت آیا تو ان کی نظر پڑگئی۔ ہم نے سوچا کہ چلو ہمارا تو جمع ہوجائے گا۔ مگر انہوں نے کہا کہ محلے کے ناظم کی اسٹیمپ لگنی ضروری ہے۔ ہم بوکھلا گئے۔ صرف امی اور ابو کا فارم جمع ہوسکا اور ہم لٹکے لٹکے منہ سے جاکر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ بہت زیادہ ٹریفک جام تھا۔ پھر ابو نے دادی کا شناختی کارڈ بنوانے کے لیے گاڑی روکی۔ شناختی کارڈ آفس تو بند تھا مگر اس کے برابر میں ہی مارکیٹ تھی۔ ہم سب نے خوب شاپنگ کی اور دل کھول کر سامان خریدا۔ آخر اتنا خوار ہونے کا بدلہ بھی تو نکالنا تھا۔ پھر ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔ واپسی پر اتنا ٹریفک تھا کہ آدھے گھنٹے کا سفر دو گھنٹے میں طے ہوا۔ گھر پہنچتے ہی ہم ۔بستر پر جا لیٹے۔ سر اتنا چکرا رہا تھا کہ اسی وقت سوگئے۔
یہ میرا سب سے یادگار دن رہا جب ہم اتنا خوار ہوئے۔ پھر ابو نے محلے کے ناظم سے اسٹیمپ لگوائی اور فارم جمع کروا آئے۔ 
٭٭٭

submit to reddit

0 comments:

Post a Comment

alibaba

as

ad

web

amazon

Followers

Website Search

Tweet Corornavirus

Please Subscribe My Chennal

Sub Ki News

 
‎Sub Ki News سب کی نیوز‎
Public group · 1 member
Join Group
 
Nasrullah Nasir . Powered by Blogger.

live track

Popular Posts

Total Pageviews

Blog Archive

Chapter 8. ILLUSTRATOR Shape Builder & Pathfinder-1

Chapter 10. Illustrator Drawing & Refining Paths-1

Labels

Blog Archive