My Blogger consists of a general news in which I upload articles from all types of news including science, technology, education, crime, how-to, business, health, lifestyle and fashion.

New User Gifts

بھلائی کا راستہ


ریاض جانے کے لیےایک گھنٹہ پہلے گھر سے نکلا۔ لیکن راستے میں رش اور چیکنگ کی وجہ سے میں ائیرپورٹ لیٹ پہنچا۔جلدی سے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی، اور دوڑتے ہوئے کاﺅنٹرپر جا پہنچا۔ کاﺅنٹر پرموجودملازم سے میں نے کہا۔ مجھے ریاض جانا ہے، اس نے کہا ریاض والی فلائٹ تو بند ہو چکی ہے، میں نے کہا پلیز مجھے ضرور آج شام ریاض پہنچنا ہے۔ اُس نے کہا زیادہ باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت آپکو کوئی بھی جانے نہیں دے گا۔میں نے کہا اللہ تمھارا حساب کردے۔اس نے کہا اس میں میراکیاقصور ہے؟
بہرحال میں ائیرپورٹ سے باہر نکلا۔حیران تھا کیا کروں۔ ریاض جانے کا پروگرام کینسل کر دوں؟یا اپنی گاڑی اسٹارٹ کر کے روانہ ہو جاﺅں۔یا ٹیکسی میں چلا جاءوں۔بہرحال ٹیکسی میں جانے والی بات پر اتفاق کیا۔ائیرپورٹ کے باہر ایک پرائیوٹ گاڑی کھڑی تھی۔میں نے پوچھا ریاض کے لیے کتنا لو گے۔اُس نے کہا 500ریال ، بہرحال 450ریال میں بڑی مشکل سے راضی کیا۔اور اس کے ساتھ بیٹھ کر ریاض کے لیے روانہ ہو گیا۔بیٹھتے ہی میں نے اُس سے کہا کہ گاڑی تیز چلانی ہے،اُسنے کہا فکر مت کرو۔واقعی اس نے خطرناک حدتک گاڑی دوڑانا شروع کر دی۔راستے میں اس سے کچھ باتیں ہوئیں۔اُسنے میری جاب اور خاندان کے متعلق کچھ سوالات کیے۔اور کچھ سوال میں نے بھی پوچھ لیے۔



اچانک مجھے اپنی والدہ کا خیال آیا۔ کہ اُن سے بات کرلوں۔ میں نے موبائل نکالا۔ اور والدہ کو فون کیا۔ اُنہوں نے پوچھا۔ بیٹے کہاں ہو۔ میں نے جہاز کے نکل جانے اور ٹیکسی میں سفر کرنے والی بات بتادی۔ ماں نے دُعا دی۔ بیٹے اللہ تمہیں ہر قسم کے شرسے بچادے۔ میں نے کہا۔ ان شاءاللہ جب میں ریاض پہنچ جاﺅ ں گا۔ تو آپکو اطلاع دے دونگا۔
قدرتی طورپر میرے دل پر ایک پریشانی چھا گئی۔ اور مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی مصیبت میرا انتظار کر رہی ہو۔ اُس کے بعد میں نےاپنی بیوی کو فون کیا۔ میں نے اُسے بھی ساری بات بتا دی ، اور اُسے ہدایت کی، کہ بچوں کا خیال رکھے، بالخصوص چھوٹی بچی کا اُ س نے کہا جب سے تم گئے ہو مسلسل آپکے بارے میں پوچھ رہی ہے۔ میں نے کہامیری بات کرواﺅ۔
بچی نے کہا بابا آپ کب آئیں گے؟ میں نے کہا۔ ابھی تھوڑی دیر میں آجاﺅں گا۔ کوئی چیز چاہیے؟ وہ بولی ہاں میرے لیے چاکلیٹ لے آﺅ۔ میں ہنسا۔ اور کہا ٹھیک ہے۔
اس کے بعد میں اپنی سوچوں میں گم ہو گیا۔ کہ اچانک ڈرائیور کے سوال نے مجھے چونکا دیا۔ پوچھا کیا میں سگریٹ پی سکتا ہوں۔ میں نے کہا۔ بھائی تم مجھے ایک نیک اور سمجھدار انسان لگ رہے ہو۔ تم کیوں خود کو اور اپنے مال کونقصان پہنچارہے ہو۔ اُس نے کہا۔ میں نے پچھلے رمضان میں بہت کوشش کی کہ سگریٹ چھوڑ دوں ، لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بڑی قوت کی ہے۔ تم سگریٹ چھوڑنے کا معمولی سا کام نہیں کر سکتے ۔ بہرحال اُسنے کہا آج کے بعد میں سگریٹ نہیں پیوں گا۔ میں نے کہا اللہ تعالیٰ آپ کو ثابت قدمی عطافرمائے (آمین)
مجھے یاد پڑتا ہے کہ اُ س کے بعد میں نے گاڑی کے دروازے کے ساتھ سر لگایا کہ اچانک گاڑی سے زوردار دھماکہ کی آواز آئی ۔ اور پتا لگا کہ گاڑی کا ایک ٹائر پھٹ گیا ہے۔ میں گھبرایا اور ڈرائیور سے کہا۔ سپیڈ کم کردو۔ اور گاڑی کو قابو کرو۔ اُس نے گھبراہٹ میں کوئی جواب نہیں دیا۔گاڑی ایک طرف نکل گئی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی ایک جگہ رُک گئی ۔ مجھے اُس وقت اللہ نے توفیق دی کہ میں نے زورزور سے کلمہ شہادت پڑھا۔



مجھے سر میں چوٹ لگی تھی۔ اور درد کی شدت سے ایسا محسوس ہورہا تھا۔ کہ سر پھٹاجارہا ہے۔ میں جسم کے کسی حصے کو حرکت نہیں دے سکتا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا درد کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں بات کرنا چاہ رہا تھا۔ لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ جب کہ میری آنکھیں کھلی تھیں۔ لیکن مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ اتنے میں لوگوں کے قدموں کی آوازیں سُنیں، جو ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ اسے ہلاﺅ نہیں سر سے خون نکل رہا ہے۔ اور ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں میری تکلیف میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ اور سانس لینے میں شدیددشواری محسوس کررہا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا۔ کہ شائد میری موت آگئی ہے۔ اُس وقت مجھے گزری زندگی پر جو ندامت ہوئی ، میں اُسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے پتہ چلا کہ اب مجھے موت سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
اس کہانی کے آخر میں بتاﺅں گا کہ اس کی کیا حقیقت ہے۔یہاں پر ہر بھائی بہن تصور کرے کہ جو کچھ ہو رہا ہے میرے ساتھ ہو رہا ہے۔ کیونکہ عنقریب ہم سب کو اس ملتے جلتے حالات سے سابقہ پیش آنا ہے۔
اس کے بعد لوگوں کی آوازیں آنا بند ہو گئیں۔ میری آنکھوں کے سامنے مکمل تاریخی چھاگئی۔ اور میں ایسا محسوس کررہا تھا۔ جیسے میرے جسم کوچھریوں سے کا ٹاجارہا ہو۔ اتنے میں مجھے ایک سفید ریش آدمی نظر آیا۔ اُس نے مجھے کہا بیٹے یہ تمھاری زندگی کی آخری گھڑی ہے۔ میں تمہیں نصیحت کرنا چاہتاہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمھارے پاس بھیجا ہے۔ میں نے پوچھا کیا ہے نصیحت؟
اُ س نے کہا۔ عیسائیت کی ترغیب "قل لبحیا الصلیب" خدا کی قسم اس میں تمھاری نجات ہے۔ اگر تم اس پر ایمان لائے ۔ تو تمہیں اپنے گھروالوں کو لوٹا دوں گا۔ اور تمھاری روح واپس لے آﺅں گا۔ جلدی سے بولو۔ ٹائم ختم ہوا جارہا ہے۔ مجھے اندازہ ہوا یہ شیطان ہے۔ مجھے اُس وقت جتنی بھی تکلیف تھی۔ اور جتنا بھی اذیت سے دوچارتھا۔ لیکن اُس کے باوجود اللہ اور اُس کے رسول پر پکا ایمان تھا۔ میں نے اُسے کہا جاﺅ اللہ کے دشمن۔ میں نے اسلام کی حالت میں زندگی گزاری ہے۔ اور مسلمان ہو کر مرﺅں گا۔ اُس کا رنگ زرد پڑگیا۔ بولا تمہاری نجات اسی میں ہے کہ تم یہودی یا نصرانی مر جاﺅ۔ ورنہ میں تمھاری تکلیف بڑھا دوں گا۔ اور تمہاری رُوح قبض کر دوں گا۔ میں نے کہا۔ موت تمھارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ جوبھی ہو۔ میں اسلام کی حالت ہی میں مرﺅں گا۔
اتنے میں اُس نے اوپردیکھا۔ اور دیکھتے ہی بھاگ نکلا۔ مجھے لگا جیسے کسی نے اُسے ڈرایا ہو۔ اچانک میں عجیب قسم کے چہروں والے اور بڑے بڑے جسموں والے لوگ دیکھے۔ وہ آسمان کی طرف سے آئے اور کہا ۔ السلام علیکم میں نے کہا وعلیکم السلام۔ اُس کے بعد وہ خاموش ہوگئے۔ اور ایک لفظ بھی نہیں بولے۔ اُن کے پاس کفن تھے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میری زندگی ختم ہوگئی ۔ اُن میں سے ایک بہت بڑا فرشتہ میری طرف آیا۔ اور کہا ایتھا النفس المطمئنة اُخرجی الی مغفرۃ من اللہ ورضوان (اے نیک رُوح اللہ کی مغفرت اور اُس کی خوشنودی کی طرف نکل آ)
یہ بات سُن کر میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ میں نے کہا اللہ کے فرشتے میں حاضر ہوں۔



اُس نے میری روح کھینچ لی۔ مجھے اب ایسا محسوس ہورہا تھا۔ جیسے میں نیند اور حقیقت کے مابین ہوں۔ ایسا لگا کہ مجھے جسم سے آسمان کی طرف اُٹھایا جارہا ہے۔ میں نے نیچے دیکھا۔ تو پتہ چلا۔ کہ لوگ میرے جسم کے اردگرد کھڑے ہیں اور انہوں نے میرے جسم کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا ۔ اُن میں سے کسی نے کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
میں نے دوفرشتوں کو دیکھا۔ کہ وہ مجھے وصول کر رہے ہیں۔ اور مجھے کفن میں ڈال کر اوپر کی طرف لے جارہے ہیں۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا۔ تو مجھے افق کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔ مجھے بلندی سے بلندی کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔ ہم بادلوں کو چیرتے چلے گئے۔ جیسے کہ میں ایک جہاز میں بیٹھا ہوں۔ یہاں تک کہ پوری زمین مجھے ایک گیند کی طرح نظرآرہی تھی۔ میں نے اُن دو فرشتوں سے پوچھا کیا اللہ مجھے جنت میں داخل کرے گا؟ انہوں نے کہا اس کا علم اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔ ہمیں صرف تمہاری رُوح لینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اور ہم صرف مسلمانوں پر مامُور ہیں۔ ہمارے قریب سے کچھ اور فرشتے گزرگئے جن کے پاس ایک رُوح تھی۔ اور اُس سے ایسی خوشبو آرہی تھی۔ کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی زبردست خوشبو کبھی نہیں سونگی تھی۔ میں نے حیرانگی کے عالم میں فرشتوں سے پوچھا۔ کہ کون ہے۔ اگر مجھے معلوم نہ ہوتا۔ کہ اللہ کے رسُول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا سے رحلت کر گئے ہیں۔ تو میں کہتا کہ یہ اُن کی رُوح ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک فلسطینی کی رُوح ہے۔ جسے یہودیوں نے تھوڑی دیر پہلے قتل کیا۔ جبکہ وہ اپنے دین اور وطن کی مدافعت کررہا تھا۔ اس کا نام ابو لعبد ہے۔میں نے کہا۔ کاش میں شہید ہو کر مرتا۔
اُس کے بعد کچھ اور فرشتے ہمارے قریب سے گزرے اور اُن کے پاس ایک رُوح تھی۔ جس سے سخت بدبو آرہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ کون ہے؟ اُنہوں نے کہا یہ بتوں اور گائے کو پوجنے والا ایک ہندو ہے۔ جسے تھوڑی دیر پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب سے ہلاک کردیا۔ میں نے شکر کیا۔ کہ شکر ہے۔ میں کم ازکم مسلمان مرا ہوں۔ میں نے کہا۔ میں نے آخرت کے سفر کے حوالے سے بہت پڑھا ہے۔ لیکن یہ جو کچھ ہورہا ہے۔ میں نے کبھی اس کا تصور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا۔ شکر کرو مسلمان مرے ہو۔ لیکن ابھی تمہارے سامنے سفر بہت لمبا ہے۔ اور بے شمار مراحل ہیں۔
اُس کے بعد ہم فرشتوں کے ایک بہت بڑے گروہ کے پاس سے گزرگئے ۔ اور ہم نے انہیں سلام کیا۔ اُنہوں نے پوچھا یہ کون ہے؟
میرے ساتھ والے دوفرشتوں نے جواب دیا، کہ یہ ایک مسلمان ہے۔ جو تھوڑی دیر پہلے حادثے کا شکارہو گیا۔ اور اللہ نے ہمیں اس کی رُوح قبض کرنے کا حکم دیا۔ اُنہوں نے کہا۔ مسلمانوں کے لیے بشارت ہے۔ کیونکہ یہ اچھے لوگ ہیں۔ میں نے فرشتوں سے پوچھا۔ یہ کون لوگ ہیں اُنہوں نے کہا۔ یہ وہ فرشتے ہیں۔ جو آسمان کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور یہاں سے شیطانوں پر شہاب پھینکتے رہتے ہیں ۔ میں نے کہا یہ تو اللہ تعالیٰ کی بہت عظیم مخلوق ہے۔ اُنہوں نے کہا ان سے بھی زیادہ عظیم فرشتے ہیں۔ میں نے پوچھا کون ہیں؟ وہ بولے جبرائیل ؑ اور عرش کو اٹھانے والے فرشتے۔ اور یہ سب مخلوق ایسی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی سرتابی نہیں کیا کرتے۔
لا یعصون اللہ ما امرھم و یفعلون ما یؤمرون۔ التحریم(وہ اللہ کے دیے ہوئے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں)۔
اُ سکے بعد ہم مزید اوپر چڑھتے گئے یہاں تک کہ آسمان دُنیا پر پہنچ گئے ۔ میں اُس وقت ایک خوف اور کرب کے عالم میں تھا کہ نہ معلوم آگے کیا ہوگا۔میں نے آسمان کو بہت بڑا پایا اور اس کے اندر دروازے تھے ۔ جوبند تھے اور اُن دروازوں پر فرشتے تھے۔ جن کے جسم بہت بڑے تھے۔ ۲ فرشتوں نے کہا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ اور اُن کے ساتھ میں نے بھی یہی الفاظ دہرائے ۔ دوسرے فرشتوں نے جواباَکہا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اور انہوں نے کہا۔ رحمت کے فرشتوں اھلا وسھلا ضرور یہ مسلمان ہی ہو گا۔ میرے ساتھ والے فرشتے نے کہا ۔ ہاں یہ مسلمان ہے۔ اُنہوں نے کہا تم اندر آسکتے ہو۔ کیونکہ آسمان کے دروازے صرف مسلمانوں کے لیے کھلتے ہیں۔ کافروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ (لا تفتح لھم ابواب السماء) کافروں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلیں گے۔



ہم اندر آگئے تو بہت ساری عجیب چیزیں دیکھیں۔ پھر ہم آگے بڑھے اور اورپر چڑھنا شروع کیا۔ یہاں 6تک کہ دوسرا تیسرا چوتھا پانچواں چھٹا اوربالآخر ساتوں آسمان پر جا پہنچے ۔ یہ آسمان باقی تمام آسمانوں سے بڑا نظر آیا جیسے ایک بہت بڑا سمندر۔ فرشتے کہہ رہے تھے: اللھم انت السلام و منک السلام تبارکت یا ذوالجلال والاکرام
مجھ پرایک بہت بڑی ہیبت طاری ہوئی ۔ سر نیچے کیا اور آنسو جاری ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں حکم صادرفرمایا۔ کہ میرے اس بندے کا عمل نام علیین میں لکھدو۔ اور اُسے زمین کی طرف واپس لے جاﺅ۔ کیونکہ میں نے انہیں زمین سے پیدا کیا۔ اسی میں ان کی واپسی ہو گی۔ اور ایک بارپھر اسی زمین سے انہیں اٹھاﺅنگا۔ شدیدرُعب۔ ہیبت اور خوشی کے ملے جلے جذبات میں ، میں نے کہا ۔ پروردگار تو پاک ہے۔ لیکن ہم نے تیری وہ بندگی نہیں کی۔ جو ہونی چاہیے تھی۔ سبحانک ما عبدناک حق عبادتک
فرشتوں مجھے لے کر واپس زمین کی طرف روانہ ہوئے۔ اور جہاں جہاں سے گزرتے گئے دوسرے فرشتوں کوسلام کرتے گئے ۔ میں نے راستے میں اُن سے پوچھا۔ کیا میں اپنے جسم اور گھروالوں کے متعلق جان سکتا ہوں؟
اُنہوں نے کہا۔ اپنے جسم کو عنقریب تم دیکھ لوگے۔ لیکن جہاں تک تمہارے گھر والوں کا تعلق ہے۔ اُن کی نیکیاں آپ کو پہنچتی رہیں گی۔ لیکن تم اُنہیں دیکھ نہیں سکتے۔
اُس کے بعد وہ مجھے زمین پر لے آئے۔ اور کہا اب تم اپنے جسم کے ساتھ رہو۔ ہمارا کام ختم ہو گیا۔
اب قبر میں تمہارے پاس دوسرے فرشتے آئیں گے، میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ آپکو جزائےخیر دے۔ کیا میں پھر کبھی آپکو دیکھ سکوں گا؟ اُنہوں نے کہا۔ قیامت کے دن ۔ اور اس کے ساتھ اُن پر ہیبت طاری ہوئی ۔ پھر اُنہوں نے کہا۔ اگر تم اہل جنت میں سے نکلے۔ تو ہم ساتھ ساتھ ہوں گے۔ ان شاء اللہ
میں نے پوچھا جو کچھ میں نے دیکھا۔ اور سُنا۔ کیا اس کے بعد بھی میرے جنت جانے میں کوئی شک رہ گیا ہے؟ اُنہوں نے کہا۔ تمہارے جنت جانے کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔تمہیں جو عزت و اکرام ملا۔ وہ اسلئے کہ تم مسلمان مرےہو۔ لیکن تمہیں اعمال کی پیشی اور میزان سے ضرور سابقہ پیش آنا ہے۔



مجھے اپنے گناہ یاد آئے اورکہا کہ زور زور سے روﺅں۔
انہوں نے کہا۔ اپنے رب سے نیک گمان کرو۔ کیونکہ وہ کسی پر ظلم ہر گز نہیں کرتا۔ اس کے بعد انہوں نے سلام کیا۔ اور بڑی تیزی سے اوپر کی طرف اُٹھ گئے۔
میں نے اپنے جسم پر نظر دوڑائی میری آنکھیں بند تھیں۔ اور میرے اردگرد میرے بھائی اور والد صاحب رو رہے تھے۔ اُس کے بعد میرے جسم پر پانی ڈالا گیا۔ تو مجھے پتہ چلا کہ مجھے غسل دیا جا رہا ہے۔ اُن کے رونے سے مجھے تکلیف ملتی تھی۔ اور جب میرے والددُعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے۔ تو اُن کی یہ بات مجھے راحت پہنچاتی تھی۔اُس کے بعد میرے جسم کو سفید کفن پہنچایا گیا۔
میں نے اپنے دل میں کہا۔ افسوس میں اپنے جسم کو اللہ کی راہ میں ختم کرتا۔ کاش میں شہید مرتا۔ افسوس میں ایک گھڑی بھی اللہ کے ذکر یا نماز یا عباد ت کے بغیر نہ گزارتا، کاش میں شب و روز اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا۔ افسوس ھائے افسوس۔ اتنے میں لوگوں نے میرا جسم اٹھایا۔ میں اپنے جسم کو دیکھ رہا ہوں لیکن نہ تو اس کے اندر جا سکتا ہوں اور نہ دور ہو سکتا ہوں۔ ایک عجیب سی صورتحال سے دوچار تھا۔مجھے جب اُٹھایا گیا۔ تو جو چیز میرے لئے اُس وقت تکلیف دہ تھی ۔ وہ میرے گھر والوں کا رونا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا۔ میں اپنے ابا سے کہدوں ابا جان پلیز رونا بند کردیں بلکہ میرے لئے دُعا کریں۔ کیونکہ آپ کا رونا مجھے تکلیف دے رہا ہے۔ میرے رشتے داروں میں اُس وقت جو کوئی میرےلئے دُعا کرتا تو اُس سے مجھے راحت مل جاتی تھی۔
مجھے مسجد پہنچایا گیا۔ اور وہاں اُتارا گیا اور میں نے سُنا کہ لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں مجھے شدید خواہش ہوئی کہ میں بھی اُن کے ساتھ نماز میں شریک ہو جاﺅں ۔ میں نے سوچا کتنے خوش قسمت ہیں یہ لوگ کہ نیکیاں کمارہے ہیں۔ جبکہ میرا عمل نامہ بند ہوگیا ہے۔
نماز ختم ہوئی تو موٗذن نے اعلان کیا (الصلوٰۃ علی الرجل یرحمکم اللہ ) امام میرے قریب آیا۔ اور نماز جنازہ شروع کی۔ میں حیران ہوا۔ کہ وہاں بہت سارے فرشتے آگئے ۔ جو ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے کہ نماز پڑھنے والے کتنے لوگ ہیں؟ اور ان میں کتنے موحد ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے؟
چوتھی تکبیر میں ، میں نے دیکھا کہ فرشتے کچھ لکھ رہے ہیں مجھے اندازہ کہ وہ لوگوں کی دُعائیں لکھ رہے ہوں گے۔اُس وقت میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ امام اس رکعت کو مزید لمبی کردے ۔ کیونکہ لوگوں کی دُعاﺅں سےمجھے عجیب سی راحت اور سرور مل رہا تھا۔ نماز ختم ہوئی اور مجھے اُٹھا کر کر قبرستان کی طرف لے گئے راستہ میں کچھ لوگ دُعائیں مانگ رہے تھے اور کچھ رو رہے تھے۔اور میں حیران و پریشان تھا کہ نہ معلوم میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ مجھے اپنے تمام گناہ اور غلطیا ں اور ظُلم اور جو غفلت کی گھڑیاں میں نے دُنیا میں گزاری تھیں۔ ایک ایک چیز سامنے آرہی تھی۔ ایک شدید ہیبت کا عالم تھا جس میں گذررہا تھا۔
الغرض قبرستان پہنچا کر مجھے اُتارا گیا۔ اُس وقت مختلف قسم کی آوازیں سننے میں آئیں کوئی کہہ رہا ہے ۔ جنازے کو راستہ دیدو۔ کوئی کہہ رہا ہےاس طرف سے لے جاﺅ ۔ کوئی کہتا ہے قبر کے قریب لکھدو۔ یا اللہ میں نے کبھی اپنے بارے ایسی باتیں نہیں سوچی تھیں۔ مجھے قبر میں رُوح اور جسم کے ساتھ اُتارا گیا۔ لیکن اُنہیں صرف میرا جسم نظر آرہا تھا۔ رُوح نہیں نظر آرہی تھی۔
اُسکے بعد لحد کو بند کرنا شروع کر دیا۔ میرا دل چاہا کہ چیخ چیخ کے کہدوں، کہ مجھے یہاں نہ چھوڑیں پتہ نہیں میرے ساتھ کیا ہو گا۔ لیکن میں بول نہیں سکتا تھا۔الغرض مٹی ڈالنی شروع ہوئی اور قبر میں گھپ اندھیرا چھا گیا۔ لوگوں کی آوازیں بند ہوتی چلی گئیں۔لیکن میں اُ ن کے قدموں کی آوازیں سُن رہا تھا۔ اُ ن میں سے جو کوئی میرے لئے دُعا کرتا تو اُس سے مجھے سکون مل جاتا تھا۔اچانک قبر مجھ پر تنگ ہوگئی اور ایسا لگا کہ میرے پورے جسم کو کچل دے گی۔ اور قریب تھا کہ میں ایک چیخ نکال دوں لیکن پھر دوبارہ اصلی حالت پر آگئی ۔
اُس کے بعد میں نے ایک طرف دیکھنے کی کوشش کی کہ اچانک دو ہیبت ناک قسم کے فرشتے نمودار ہوئے جن کے بڑے بڑے جسم، کالے رنگ، اور نیلی آنکھیں تھیں۔ اُن کی آنکھوں میں بجلی جیسی چمک تھی۔ اور اُ ن میں سے ایک کے ہاتھ میں گرز تھا اگر اُس سے پہاڑ کو مارے تو اُسے ریزہ ریزہ کر دے۔
اُ ن میں سے ایک نے مجھے کہا بیٹھ جاﺅ۔ تومیں فوراَ بیٹھ گیا۔ پھر اُس نے کہا (من ربک ) تمھار رب کون ہے۔ جس کےہاتھ میں گز تھا۔ وہ مجھے بغور دیکھ رہا تھا۔ میں نے جلدی سے کہا۔ (ربی اللہ ) میرا رب اللہ ہے۔ جواب دیتے وقت مجھ پر کپکپی طاری تھی۔ اس لئے نہیں کہ مجھے جواب میں کوئی شک تھا۔ بلکہ اُ ن کے رُعب کی وجہ سے۔ پھر اُس نے مزید دو سوال کئے کہہ تمھارا نبی کون ہے اور تمھارا دین کونسا ہے اور الحمدللہ میں نے ٹھیک جوابات دیدئیے ۔
اُنہوں نے کہا۔ اب تم قبر کے عذاب سے بچ گئے میں نے پوچھا کیا تم منکر و نکیر ہو؟
اُنہوں نے جواباَ کہا ہاں۔ اور بولے کہ اگر تم صحیح جوابات نہ دیتے تو ہم تمہیں اس گز سے مارتے اور تم اتنی چیخیں نکالتے کہ اُ سے زمین کی ساری مخلوق سُن لیتی۔ سوائے انسانوں اور جنوں کے۔ اور اگر جن و انس اُسے سن لیں تو بے ہوش ہوجائیں۔ میں نے کہا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے اس مصیبت سے بچا لیا۔ اُسکے بعد وہ چلےگئے اور اُن کے جانے سے مجھے قدرے اطمینان حاصل ہوا۔
اُ ن کے چلے جانے کے ساتھ ہی مجھے سخت گرمحسوس ہوئی اور مجھے لگا کہ میرا جسم جلنے والا ہے جیسے کہ جہنم سے کوئی کھڑکی کھولی گئی ہو۔ اتنے میں دواور فرشتے نمودار ہوئے اور کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے جواب دیا۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ اُنہوں نے کہا ہم فرشتے ہیں۔ ہم قبر میں تمہارے اعمال تمہیں پیش کرنے آئے ہیں۔ تاکہ قبر میں قیامت تک تمہیں اپنی نیکیوں کا جو بدلہ ملنا چاہیے وہ بدلہ مل جائے ۔ میں نے کہا اللہ کی قسم جس سختی اور اذیت سے میں دوچار ہوں۔ میں نے کبھی اس کے متعلق سوچا نہیں تھا۔



پھر میں نے پوچھا۔ کیا میں ایک سوال کر سکتا ہوں؟ اُنہوں نے کہا ۔ کرلو میں نے پوچھا کیا میں اہل جنت میں سے ہوں۔ اور کیا اتنی ساری تکلیفیں جھیلنے کے بعد بھی میرے لئے جہنم جانے کا خطرہ ہے؟
اُنہوں نے کہا تم ایک مسلمان ہو ۔ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے ہو۔ لیکن جنت جانے کا علم ایک اللہ کے علاوہ کسی کونہیں ہے۔ بہرحال اگر تم جہنم چلے بھی گئے تو وہاں ہمیشہ نہی رہوگے۔ کیونکہ تم موحد ہو۔
یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور میں نے کہا اگر اللہ نے مجھے دوزخ بھیج دیا تو پتہ نہیں میں وہاں کتنا عرصہ رہوں گا؟
اُنہوں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھو۔ کیونکہ وہ بہت کریم ہے۔ اور اب ہم تمہارے اعمال پیش کر رہے ہیں۔ تمہارے بلوغت سے وقت سے تمہارے ایکسیڈنٹ کے وقت تک۔
اُنہوں نے کہا۔ سب سے پہلے ہم نماز سے شروع کرتے ہیں کیونکہ کافر اور مسلمان کے مابین فرق کرنے والی چیز نماز ہے۔ لیکن فی الحال تمہارے سارے اعمال مُعلق ہیں۔
میں نے حیرانگی سے پوچھا۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت سارے نیک اعمال کئے ہیں۔ آخر میرے اعمال مُعلق کیوں ہیں؟ اور اس وقت جو میں اپنے جسم میں دُنیا جہاں کی گرمی محسوس کررہا ہوں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
اُنہوں نے کہا۔ اس کی وجہ یہ ہے۔ کہ تمہارے اُوپر قرضہ ہے جو تم نے مرنے سے پہلے ادا نہیں کیاہے۔
میں روپڑا ۔ اور میں نے کہا۔ کیسے ؟ اور یہ جو میرے اعمال مُعلق ہیں کیا اس کی وجہ بھی یہی ہے؟
میرا سوال ابھی پورا نہیں ہوا تھا۔ کہ میری قبرمیں اچانک روشنی آگئی۔ اور ایک ایسی خوشبو پھیل گئی۔ کہ ایسی خوشبو نہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی سونگھی اور نہ مرنے کے بعد۔
اُس روشنی سے آواز آئی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے کہا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے پوچھا تم کون ہو؟
اُس نے کہا میں سورۃ المُلک ہوں۔میں اس لئے آئی ہوں کہ اللہ سے تیرے لئے مدد طلب کردوں۔ کیونکہ تم نے میری حفاظت کی تھی۔ اور تمہارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں بتا دیا تھا۔
کہ جو کوئی سورۃ المُلک پڑھے گا۔ قبر میں وہ اُس کے لئے نجات کا ذریعہ ہوگی۔
میں بہت خوش ہوا۔ میں نے کہا میں نے بچپن میں تمہیں حفظ کرلیا تھا۔ اور میں ہمیشہ نماز میں اور گھر میں تیری تلاوت کیا کرتا تھا۔ مجھے اِس وقت تمہاری اشد ضرورت ہے۔اُ س نے کہا اس لئے تو میں آئی ہوں۔ کہ اللہ تعالیٰ سے دُعا کر لوں کہ وہ تمہاری تکلیف کو آسانی میں تبدیل کر دے۔ لیکن تم سے ایک غلطی ہوئی ہے۔ کہ تم نے لوگوں کے قرضے ادا نہیں کئے ہیں۔
میں نے کہا نجات کا کوئی طریقہ ہے؟
اُس نے کہا۔ تین باتوں میں سے کوئی ایک تمہارا مسئلہ حل کر سکتا ہے۔
میں نے جلدی سے کہا۔ وہ کونسے کام ہیں؟
اُس نے کہا ۔ پہلے یہ بتادو۔کہ تم نے کوئی کاغذ لکھ کر چھوڑا ہے ۔جسے دیکھ کر تمہارے ورثہ وہ قرضہ ادا کر دیں؟
ورثہ کا نام سُن کر میرے آنسو نکل آئے ۔مجھے تمام گھروالے امی ، ابو، بیوی، بہن، بھائی اور بچے یاد آئے۔ پتہ نہیں میرے بعد اُن کا کیا حال ہوگا؟ میری چھوٹی بچی جس کے ساتھ میں نے چاکلیٹ کا وعدہ کیا تھا۔ اب کون اسکے لئے چاکلیٹ لے کر دے گا؟
میری بیوی کو لوگ بیوہ کہیں گے۔ کون ان کا خیال رکھے گا؟
سورۃ المُلک نے پوچھا۔ لگ رہا ہے۔ تم کوئی چیز یاد کر رہے ہو؟
میں نے کہا مجھے اپنے اہل و عیال اور بچے یاد آئے۔ کہ میرے بعد اُن کا کیا حال ہوگا۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ جس نے اُنہیں پیدا کیا ہے۔ وہی روزی بھی دے گا۔ اور وہی نگہبان بھی ہے۔
سورۃ المُلک کی اس بات سے مجھے کافی تسلی حاصل ہوئی۔
اُ سکے بعد میں نے پوچھا۔ کیا میں جان سکتا ہوں کہ میرے اوپر ٹوٹل کتناقرضہ ہے؟
سورۃ المُلک نے کہا۔ کہ میں نے فرشتے سے پوچھا تواُ س نے بتایا کہ ایک ہزار سات سو ریال ۔ 1000 آپ کے دوست کے ہیں جس کا نام ابوحسن ہے۔ اور باقی مختلف لوگوں کے ہیں۔
میں نے کہا مختلف لوگ کون ہیں؟
اُ س نے کہا۔ دراصل بلوغت سے لیکر آخری دن تک تم سے کئی بار اس بارے میں کوتاہی ہوئی ہے۔ اس طرح قرضہ بڑھ گیا ہے۔ مثلاَپانچ ریال اُس دکاندار کے ہیں جس سے آپ نے کوئی چیز خریدی تھی۔ جبکہ آپکی عمر 15 سال تھی۔ آپ نے اُس سے کہا پیسے کل دیدوں گا۔ اور پھر آپ نے نہیں دئیے۔ اس طرح لانڈری والے سے آپ نے کپڑے دُھلوائے۔ اور اُس کو ادائیگی کرنا بھول گئے ، کرتے کرتے اُس نے سارے لوگوں کے نام بتا دئیے اور سارے مجھے یاد آئے۔



سورۃ المُلک نے کہا۔ کہ لوگوں کے حقوق کو معمولی سمجھنے اور اُ ن سے تساہل برتنے کی وجہ سے بہت سارے لوگوں پر قبر میں عذاب ہوتا ہے۔
کیا تمہیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر نہیں دی تھی۔ کہ شہید کے اعمال بھی روک لئے جائیں گے۔ جب تک اُ س کا قرضہ ادا نہیں ہوا ہو۔
میں نے کہا نجات کا کوئی طریقہ ہو سکتا ہے؟
اُ س نے کہا پہلا حل تو یہ ہے۔ جس کا قرضہ ہے وہ اپنا قرضہ معاف کر دے۔
میں نے کہا۔ اُن میں سے اکثر تو ان قرضوں کو بھول گئے ہیں ۔جس طرح میں بھول گیا تھا۔ اور اُن کو میرے مرنے کی خبر بھی نہیں ہو گی۔
اُس نے کہا۔ پھر دوسرا حل یہ ہے۔ کہ تمہارے ورثہ تمہاری طرف سے ادائیگی کر دیں۔ میں نے کہا۔ اُ ن کو میرے قرضوں کی اور میری تکلیف کی کہاں خبر ہے؟ جب کہ میں نے کوئی وصیت نام بھی نہیں چھوڑا۔ کیونکہ مجھے موت اچانک آگئی۔ اور مجھے ان ساری مشکلات کا علم نہیں تھا۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ کہ ایک اور حل ہو سکتا۔ ہے۔ لیکن میں تھوڑی دیر بعد تمہیں بتا دوں گی۔ اور اب میں جاتی ہوں۔ میں نے کہا خدارا مت جائیے۔ کیونکہ تمہارے جانے سے تاریکی ہو جائے گی۔ جو میری موجودہ تکلیف میں اضافے کا باعث ہوبنے گی۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ میں زیادہ دیر کے لئے نہیں جارہی بلکہ تمہارے لئے کوئی حل نکالنے کے لئے جارہی ہوں۔ اُ س کے بعد سورۃ المُلک چلی گئی اور میں گھپ اندھیرے میں اکیلا رہ گیا۔ ہیبت اور تکلیف کے باوجود میں نے کہا۔ یا ارحم الراحمین۔ اے اجنبیوں کے مولیٰ اور اے ہر اکیلے کے ساتھی۔ اس قبر کی تاریکی میں میری مدد کر۔ لیکن فوراَ مجھے خیال آیا کہ میں تو دارالحساب میں ہوں۔ اب دُعاﺅں کا کیا فائدہ۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی۔ کہ میں نے ایک مانوس آواز سُن لی۔ میں نے آواز پہچان لی۔ یہ میرے والدبزرگوار کی آوازتھی۔ جو کہہ رہے تھے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں نے کہا۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔لیکن میرا جواب انہیں کون پہنچائے۔ پھر اُنہوں نے کہا۔ (اللھم اغفرلہ اللہم ارحمہ اللھم وسع مُدخلہ اللھم آنس وحشتہ) پھر انہوں نے روتے ہوئے کہا۔ اے اللہ میں اس بیٹے سے راضی ہوں۔ تو بھی اس سے راضی ہوجا۔
میرے والد صاحب جب دُعامانگ رہے تھے۔ تو دُعا کے دوران ایک زبردست روشنی میری قبرمیں آئی۔ یہ دراصل رحمت کا فرشتہ تھا۔ جومیرے والد کی دُعا کو نوٹ کر رہا تھا۔ اور جب تک میرے والد نہیں گئے تھے۔ میرے ساتھ رہا۔
میرے والد صاحب جب واپس ہوئے تو فرشتے نے کہا کہ تیرے والد کی دُعا آسمانوں تک جائے گی۔ اور
ان شاء اللہ ، اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرے گا۔ کیونکہ والد کی دُعا اپنے بیٹے کے لیے مستجاب ہوتی ہے۔
میں نے تمنا کی کہ کاش میرے والد میری قبر پر زیادہ دیر کے لئے ٹھہرتے اور دُعا مزید لمبی کرتے ۔ کیونکہ اُن کی دعا کی وجہ سے مجھے کافی آرام ملا۔ میں نے فرشتے سے پوچھا۔ کیا میں ایک سوال کر سکتاہوں۔
کیا پوچھو۔
میں نے کہاجب سے میں مراہوں اب تک کتنا عرصہ گزرگیا؟
اُ س نے کہا۔ جب سے تمہاری وفات ہوئی ۔ آج تیسرا دن ہے۔ اور اس وقت ظہر کا وقت ہے۔
میں نے حیرانگی سے کہا۔ تین دن اور اتنے سارےمعاملات اور واقعات؟ اور یہ قبر کی تاریکی جبکہ باہر دُنیا روشن ہے؟
فرشتے نے کہا۔ تمہارے سامنے بہت لمبا سفر ہے۔ اللہ اسے تمہارے لئے آسان کر دے۔
میں اپنے آپ کو قابو نہ کر سکا اور رونے لگا۔ اور ایسا رویا۔ کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں کبھی زندگی میں اتنا رویا ہوں۔ میں نے دل میں سوچا کہ اتنا خطرناک سفر اور دُنیا میں میری اِس قدر اس سفر کے لیےغفلت!
فرشتے نے جاتے وقت بتا دیا ۔ کہ قبر میں موجودہ روشنی تیرے والد کی دُعا کی وجہ سے ہے۔ اور یہ اسی طرح رہے گی۔ جب تک اللہ چاہے۔ مجھے پتہ چلا کہ والد کا آنا میرے لئے باعث رحمت ہے۔
میں نے تمنا کی کہ کاش میرے ابو میری آواز سُن لیں۔ اور میں اُنہیں بتادوں۔ ابو میرے قرضوں کی ادائیگی کر دیں۔ اور میری طرف سے صدقے کر دیں۔ اللہ کے واسطے! میرے لئے دُعا کریں۔ لیکن کون ہے۔ جو اُنہیں بتا دے۔
میں نے محسوس کیا کہ بعض اوقات میرے جسم کی گرمی کم ہو جاتی تھی لیکن اچانک پھر سے بڑھ جاتی تھی۔ میں نے اندازہ لگایا۔ کہ اس کا تعلق میرے حق میں لوگوں کی دُعائیں ہیں۔
اچانک میری قبر میں پھر وہی روشنی آئی ۔ جو اس سے پہلے میں دیکھ چکا تھا۔ یعنی سورۃ المُلک کی۔
سورۃ المُلک نے کہا تمہارے لئے دو خوشخبریاں ہیں۔
میں نے اشتیاق کے ساتھ فوراَ کہا ، کیا ہیں؟
تمہارے دوست نے اللہ کی خاطر تمہارا قرضہ معاف کر دیاہے۔ میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ اور مجھے پتہ تھا۔ کہ میری گرمی کم ہوجانے کی وجہ شائد یہی تھی۔
میں نے کہا دوسری بشارت کیا ہے؟
اُس نے کہا میں نے اللہ سے بہت درخواستیں کیں۔ لیکن انسانوں کے حقوق وہ معاف نہیں کرتا۔
البتہ اللہ نے ایک فرشتہ بھیج دیا جو تیرے رشتداروں میں سے کسی کو خواب میں آئے گا۔ تاکہ وہ تمہارے قرضوں کے متعلق سمجھ جائیں۔
پھر اس نے پوچھا: تمہارے خیال میں کون بہترہے۔ جس کو خواب میں فرشتہ کسی شکل میں آئے۔ اور پھر وہ اُس کو سچا سمجھ کر قرضہ کی ادائیگی کرے۔
میں نے اپنی امی کے بارے میں سوچا۔ لیکن پھرسوچا، کہ اگر اُس نے مجھے خواب میں دیکھا۔ تو رونا شروع کر دے گی۔ اور خواب کی تعبیر نہیں سمجھ سکے گی۔ پھر میں نے تمام رشتداروں کے متعلق سوچا۔ اور جو بندہ مجھے بہتر لگا۔ وہ میری بیوی تھی۔ کیونکہ وہ ہمیشہ خوابوں کو اہتمام دیا کرتی تھی۔ میں نے کہا۔ میری بیوی اگر مجھے خواب میں دیکھ لے۔ تو ہو سکتا ہے۔ وہ اُس کی تعبیر سمجھ جائے۔



سورۃ المُلک نے کہا۔ میں متعلقہ فرشتے کو اطلاع دیتی ہوں اور اللہ سے دُعا کرتی ہوں کہ وہ آپ کی مشکل کو آسان کر دے۔
اس کے بعد سورۃ المُلک چلی گئی اور میری قبر میں بدستور وہ روشنی باقی تھی۔ جو میرے والد کی دُعا کی برکت سے آئی تھی۔ اور میں انتظار کرتا رہا۔ جیسے کہ جیل کے اندر ہوں۔ مجھے ٹائم کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ کیونکہ یہاں گھڑی نہیں تھی۔ نہ نماز، نہ کھاناپینا، نہ اور کوئی مصروفیات۔ دُعائیں مانگنا اور ذکرو اذکار بھی بے کار۔ بعض اوقات لوگوں کے قدموں کی آوازیں سُن لیتا۔ تو اندازہ کر لیتا کہ شائد کسی کا جنازہ ہے۔ بعض اوقات لوگوں کے ہنسنے کی آوازیں آجاتی تھیں ۔ تو مجھے تعجب ہوتا تھا۔ کہ ان کو اندازہ نہیں ہے کہ ہم کس صورت حال سے دوچار ہیں۔
کافی وقت گزرنے کے بعد اچانک میرے جسم کی گرمی بڑھنی شروع ہوئی۔ اور میں چیخنے لگا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا۔ جیسے میں ایک تندور کے اندرہوں۔ میرے خوف میں اضافہ ہوتا چلاجارہا تھا۔ لیکن پھر اچانک گرمی کم ہونی شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ بالکل غائب ہو گئی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ کہ ایسا کیوں ہو جاتا ہے۔
اُ س کے بعد ایک بار پھر سورۃ المُلک کی روشنی آگئی ۔ اور مجھے کہا تمہیں مبارک ہو۔ میں نے کہا وہ کیسے؟
اُس نے کہا خوابوں کا فرشتہ تمہاری بیوی کو خواب میں گیا۔ اور تمہاری بیوی نے خواب میں تمہیں ایک سیڑھی پر چڑھتے دیکھا۔ اور دیکھا کہ سات سیڑھیاں باقی ہیں۔ اور تم پریشان کھڑے ہو۔ کیونکہ آگے نہیں چڑھ سکتے۔ پھر وہ فجر کی نماز سے پہلے اُٹھی۔ تمہاری یاد میں روئی ۔ اور صبح ہوتے ہی ایک عورت سے رابطہ کیا۔ جو خوابوں کی تفسیر کرتی ہے۔ اور اُسے اپنا خواب سنایا۔ اُس عورت نے کہا ، اے بیٹی تمہاری شوہرقبر میں تکلیف میں مبتلا ہے۔ کیونکہ اُس پر کسی کا 1700ریال قرض ہے۔
تیری بیوی نے پوچھا۔ کس کا قرض ہے ۔ اور ہم کیسے ادا کریں؟
اُ س نے کہا مجھے نہیں معلوم اس بارے میں علماء سے معلوم کرو۔
پھر تیری بیوی نے ایک شیخ کی اہلیہ سے رابطہ کیا۔ اور اُسے ساری بات بتا دی۔ تاکہ وہ شیخ سے جواب پوچھ لے۔ الغرض شیخ نے کہا۔ کہ میت کی طرف سے صدقہ کر دے۔ ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُ سے قبول کر کے میت کا عذاب ہٹا دے۔ تیری بیوی کے پاس سونا تھا۔ جس کی قیمت 4000 ریال تھی۔ اُس نے وہ سونا تیرے والد کو دیا۔ اور تیرے والد نے اُ کے ساتھ کچھ رقم مزید لگا کر صدقہ کر دیا۔ اور یوں تیر ا مسئلہ حل ہو گیا۔
میں نے کہا الحمدللہ مجھے اس وقت کوئی تکلیف نہیں ہے۔ اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور تیرے تعاون سے ہوا۔
سورۃ المُلک نے کہا اب اعمال والے فرشتے تمہارے پاس آجائیں گے۔
میں نے پوچھا کیا اس کے بعد بھی میرے لئے کوئی خطرہ ہے؟
اُس نے کہا سفر بہت لمبا ہے۔ ہو سکتا ہے۔ اس میں کئی سال لگ جائیں۔ لہذا ُس کے لئے تیاررہو۔
کئی سال والے جواب نے میری پریشانی میں اضافہ کر دیا۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ بہت سارے لوگ صرف اس وجہ سے قبروں میں عذاب جھیل رہے ہیں۔ کہ وہ بعض باتوں کو معمولی سمجھتے تھے۔ جبکہ اللہ کے نزدیک وہ معمولی نہیں ہیں۔



میں نے کہا۔ مثلاَ کون سے اعمال؟
اُس نے کہا۔ بہت سارے لوگوں پر قبرو ںمیں اسلئے عذاب ہے۔ کہ وہ پیشاب سے نہیں بچتے تھے۔ اور گندگی کی حالت میں اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے تھے۔ اس طرح چغلی، چوری، سوداور مال یتیم کی وجہ سے بہت سارے لوگوں پر عذاب ہورہا ہے۔
پھر اُس نے کہا کہ کچھ لوگوں پر عذاب قبر اس لئے ہے۔ تاکہ قیامت آنے سے پہلے اُن کا کھاتہ صاف ہو جائے۔ اور کچھ لوگوں پر قیامت تک عذاب رہے گا۔ اور پھر جہنم میں داخل کئے جائیں گے۔
میں نے کہا ۔ اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچنے کی کوئی سبیل ہے؟
سورۃ المُلک نے کہا۔ کہ عمل تو تمہارا منقطع ہوچکا ہے۔ البتہ تین کام ایسے ہیں ۔ جو تمہیں اب بھی فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔
میں نے پوچھا وہ کیاہیں؟
اُ س نے کہا۔ اہل وعیال کی دُعا اور نیک عمل ۔ اس کے علاوہ کوئی کام اگر تم نے دُنیا میں کیا ہے۔ جو انسانوں کے لئے نفع بخش ہو۔ مثلاَ مسجد کی تعمیر ۔ تو اُس سے تم مرنے کے بعد بھی مستفید ہو گا۔ اس طرح اگر علم کی نشرو اشاعت میں تم نے حصہ لیا ہو۔ تو وہ اب بھی تمہارے لئے نفع بخش ہے۔
میں نے کہا میں کتنا بدبخت ہوں کہ دنیا میں کتنے عمل کے مواقع تھے۔ جس سے میں نے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ اور آج بے یارومددگار قبر میں پڑاہوں۔میرا دل چاہا۔ میں چیخ چیخ کر لوگوں کو پکارُوں کہ اے لوگوقبر کے لئے تیاری کر لو۔ خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے وہ کچھ دیکھا۔جو میں نے دیکھا۔ تو مسجدوں سے باہر نہیں نکلو گے،اور اللہ کی راہ میں سارا مال لگا دو گے۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ مردہ لوگوں کی نیکیاں عام طور پر شروع کے دنوں میں بہت ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے بعد رفتہ رفتہ وہ کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔
میں نے پوچھا۔ کیا یہ ممکن ہے۔ کہ میرے گھر والے اور میرے رشتےدار مجھے بھول جائیں گے۔ مجھے یقین نہیں آرہا ہے۔ کہ وہ اتنی جلدی مجھے بھول جائیں گے۔
اُ س نے کہا۔ نہیں ضرور ایسا ہوگا۔ بلکہ تم دیکھوگے کہ شروع میں تمہاری قبر پر تمہارے اہل و عیال زیادہ آئیں گے۔ لیکن جب دن ہفتوں میں ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوں گے۔ تو تمہاری قبر پر آنے والا ایک بندہ بھی نہیں ہوگا۔
مجھے یاد آیا کہ جب ہمارے دادا کا انتقال ہوا تھا۔ تو ہم ہر ہفتے اُس کی قبر پر جایا کرتے تھے۔ پھر ہر مہینے میں ایک بار اور پھر ہم اُنہیں بھول گئے۔
جب میں زندہ تھا۔ تو مردوں کو بھول جاتا تھا۔ لیکن آج میں خود اُس حالت کو پہنچ چکا ہوں۔ دن ہفتے اور مہینے گزرتے گئے اور میری مدد کے لئے کوئی نہ تھا۔ سوائے چند اعمال کے جو مجھے پہنچتے تھے۔ یا میرے والد، بھائیوں اور دوسرے رشتےداروں کا میری قبر پر آنا جو رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا۔ زیادہ تر مجھے اپنی والدہ کی دُعا پہنچتی رہی۔ جو وہ تہجد میں میرے لئے کرتی رہی۔ بخدا وہ دُعا میرے لئے طمانیت کا باعث ہوتی تھی۔
نیک اعمال کا آنا کم ہوتاچلا گیا۔ نہ معلوم کیا وجہ تھی۔ کہ سورۃ المُلک کا آنا بھی بندہو گیا۔ میری قبر میں پھر اندھیرا چھا گیا۔ مجھے بعض گناہ یاد آئے۔ جو میں نے کئے تھے۔ ایک ایک دن اور ایک ایک گھڑی یاد آرہی تھی۔ مجھے اپنے گناہ پہاڑ کے برابر لگ رہے تھے۔ اپنے آپ کو ملامت کررہا تھا۔ کتنے گناہ ہیں۔ جو میں نے بڑی دلیری سے کئے تھے۔ کتنی نمازیں ہیں جو میری فوت ہو گئی ہیں۔ کتنی فجر کی نمازیں ہیں جو میں نے غفلت کی وجہ سے نہیں پڑھی ہیں۔
یہ سارے گناہ یاد کر کے میں اتنا رویا کہ مجھے ٹائم کا چونکہ اندازہ نہیں تھا۔ اس لئے اگر میں کہدوں، کہ مہینوں رویا ہوگا تو مبالغہ نہیں ہو گا۔
ایک دن اچانک ایسی روشنی آئی۔ جیسے سورج نکل چکا ہو۔ اور میں نے فرشتوں کی آوازیں سنیں۔ کہ وہ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو چکا ہے۔ کہ میرے پاس سورۃ المُلک آئی اور خوشخبری سُنا دی۔
سورۃ المُلک نے بتایا۔ کہ رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو گیا۔ اور یہ رحمت اور معافی کا مہینہ ہے۔ اور اس بہت سارے مُردے مسلمانوں کی دُعاﺅں کی برکت سے نجات پالیتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوا۔ اللہ تعالیٰ انسانوں پر کتنا مہربان ہے۔ لیکن انسان ہے کہ گمراہی پر تُلاہوا ہے۔
سورۃالمُلک نے بتایا۔ کہ اللہ تعالیٰ کسی کو آگ میں نہیں ڈالنا چاہتا لیکن یہ انسانوں کی اپنی حماقت ہوتی ہے۔ کہ وہ ایسے گنا ہ کر جاتے ہیں۔ جو اُ کی سزا کا موجب ہوتے ہیں۔پھر اُس نے کہا۔ کہ اب تھوڑی دیر بعد مسلمان نماز پڑھیں گے۔ اور تم اُن کی آوازیں سنوگے۔
سورۃ المُلک چلی گئی اور میری قبر میں بدستور روشنی تھی۔ اور میں نے پہلی بار مسجد سے آنے والی آواز سُن لی۔ اپنی زندگی کو یاد کیا اور تراویح کو یاد کیا تو بہت رویا۔ میں نے سُنا کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ اور پھر مٰن نے امام کی دُعا سن لی۔ کہ وہ پڑھ رہا تھا۔
اللهم لا تدع لنا في مقامنا هذا ذنبا الا غفرته ولاهما الا فرجته ولا كربا الا نفستهولا مريضا الا شفيته ولا مبتليً الا عافيته ولا ميتا الا رحمته برحمتك يا ارحم الراحمين۔
اس دُعا سے مجھے بہت سکون ملا۔ اور میں نے تمنا کی۔ کہ امام دُعا کو طول دیدے۔اور میں نے محسوس کیا ، کہ وہ دعا سیدھی قبول ہورہی ہے۔ کیونکہ مجھے اُس سے کافی خوشی اور راحت مل رہی تھی۔ میں روتا جا رہا تھا۔ اور ساتھ ساتھ آمین پڑھتا جارہا تھا۔اس طرح رمضان کا سارا مہینہ بہت سکون اور راحت سے گزرا۔
اور پھر ایک دن میری قبرمیں انسان کی شکل میں ایک آدمی آیا۔ جس سے بہت تیز خوشبو آرہی تھی۔ میں حیران ہوا کیونکہ مرنے کے بعد یہ پہلا انسان تھا۔ جو میں دیکھ رہا تھا۔ اُس نے مجھے سلام کیا اور جواب میں وعلیکم السلام کہا۔ اُس نے کہا۔ میں تمہیں بشارت دیتا ہوں۔ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے گناہ معاف کئے ہیں۔
میں نے کہا اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔ آپ کون ہیں؟ میں پہلی دفعہ قبر میں انسان کی شکل دیکھ رہا ہوں۔ اُس نے کہا میں انسان نہیں ہوں۔ میں نے پوچھا تو کیا آپ فرشتے ہیں بولا نہیں میں دراصل تمہارا نیک عمل ہوں۔ تمہاری نمازیں، تمہارے روزے، حج۔ انفاق فی سبیل اللہ اور صلہ رحمی وغیرہ وغیرہ کو اللہ تعالیٰ نے اس شکل میں تمہارے پاس بھیجا ہے۔
میں بہت خوش ہوا۔ اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ میں نے پوچھا تم اتنے لیٹ کیوں آئے؟
اُسنے کہا تمہارے گناہ اور تمہارے قرضے میری راہ میں رکاوٹ تھے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے معافی کا اعلان کردیا۔ تو میرے لئے راستہ کھل گیا۔
میں نے پوچھا ۔ تو کیا اس معافی کے بدلے میں اللہ تعالیٰ مجھے جنت دے گا؟
اُس نے کہا یہ بات اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔ پھر اُس نے کہا قیامت کے دن میزان سے تمہاری جنت اور دوزخ جانے کا پتہ چلے گا۔
اُس کے بعد عمل صالح نے کہا۔ کہ تمہارے کچھ نیک اعمال بالکل زندگی کی آخری گھڑیوں میں کام آگئے۔ میں نے پوچھا وہ کیا ہیں؟
اُس نے کہا اگر تمہیں یاد ہو۔ تو مرتے وقت اللہ تعالیٰ نے تمہیں توفیق دی اور تم نے کلمہ تشہد پڑھا۔تمہیں اندازہ نہیں ہے۔ کہ فرشتوں کو کتنی خوشی ہوئی کہ تمہاری زندگی کا خاتمہ توحید پر ہوا۔ جبکہ شیطان تمہیں نصرانیت اور یہودیت کی تلقین کررہا تھا۔اُس وقت تمہارے اردگرد دوقسم کے فرشتے موجود تھے۔ ایک وہ جو مسلمانوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور کچھ وہ جو کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں۔جب تم نے کلمہ پڑھا۔ تو وہ فرشتے چلے گئے جو کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں۔ اور پھر اُنہوں نے تمہاری رُوح قبض کر لی۔
میں نے پوچھا ۔ اس کے علاوہ بھی کوئی نیکی ہے؟
اُ س نے کہا۔ ہاں جب تم نے ڈرائیور کو سگریٹ چھوڑنے کی نصیحت کی۔ تو آج جو خوشبو تم سونگھ رہے ہو۔ اُس نصیحت کی بدولت ہے۔ اس کے علاوہ اپنی والدہ کو تمہاری کال اور اُس کے ساتھ جو بھی تم نے باتیں کیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بات کے بدلے تمہارے لئے نیکیاں لکھ دیں۔مجھے یاد آیا جو باتیں میں نے والدہ سے کی تھیں۔ مجھے پتا ہوتا تو میں اُن باتوں میں گھنٹہ لگا دیتا۔
پھرعمل صالح نے بتایا کہ زندگی کے آخری وقت میں ایک گناہ بھی تمہارے کھاتے میں لکھا گیا۔ میں حیران ہوا۔ اور پوچھا وہ کیسے؟
عمل صالح بولا۔ تم نےبچی سے کہا۔ میں تھوڑی دیر میں آجاﺅنگا۔ اس طرح تم نے اُسے جھوٹ بول دیا۔ کاش مرنے سے پہلے تم توبہ کر لیتے۔ میں رویا میں نے کہا اللہ کی قسم میراارادہ جھوٹ کا نہیں تھا۔ بلکہ میرا خیال یہ تھا کہ اس طرح وہ میرے آنے تک صبر کرلیگی۔
اُس نے کہا۔ جو بھی ہو۔ آدمی کو سچ بولنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سچے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ اور جھوٹ بولنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔ لیکن لوگ اس میں بہت تساہل اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
پھر اُس نے کہا۔ تمہاری وہ بات بھی گناہ کے کھاتے میں لکھدی گئی ہے۔ جو تم نے ائیرپورٹ میں کاﺅنٹر پر بیٹھے ہوئے شخص سے کہدی ۔ کہ اللہ تمہاراحساب کردے۔ اس طرح تم نے ایک مسلمان کا دل دُکھادیا۔ میں حیران ہو گیا۔ کہ اتنی اتنی معمولی باتیں بھی ثواب اور گناہ کا باعث بنی ہیں۔
عمل صالح نے مزیدبتایا: کہ یہ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے۔ کہ جب وہ ایک نیکی کریں۔ تو اللہ تعالیٰ اُسے 10گناہ بلکہ 700 گناہ بڑھا دیتا ہے۔اور بہترین اعمال وہ ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہیں۔
میں نے کہا۔ پنج وقتہ نمازکے بارے میں کیا خیال ہے؟
عمل صالح نے کہا۔ کہ نماز، زکوۃ، صیام، حج وغیرہ تو فرائض ہیں ۔ میں ان کے علاوہ بھی تمہیں ایسے اعمال بتادوں گا۔ جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں۔
میں نے کہا ۔ وہ کیا ہیں؟
بولا تمہاری عمر جب 20سال تھی۔ تم عمرے کے لئے رمضان کے مہینے میں گئے تھے۔تم نے وہاں 100 ریال کی افطاری خرید کر لوگوں میں بانٹ دی۔ اس کا بہت اجر تم نے کمایا ہے۔
اس طرح ایک بار بوڑھی عورت کو کھانا کھلایا تھا۔ وہ بوڑھی ایک نیک عورت تھی۔ اُس نے تمہیں جو دُعائیں دی ۔ اُس کے بدلے اللہ تعالیٰ نے تمہیں بہت نیکیاں اور اجردیا ہے۔
میں تمہیں ایک اور بات بتادوں۔ ایک بار تم مدینہ جارہے تھے۔ کہ راستے میں تمہیں ایک آدمی کھڑا ملا۔ جس کی گاڑی خراب ہوئی تھی۔ تم نے اُس کی جو مدد کی ، اللہ تعالیٰ کو تمہاری وہ نیکی بہت پسند آئی اور تمہیں اُس کا بہت بڑا اجرملا ہے۔
اُس کے بعد میری قبر کھل گئی ۔اوراُس میں بہت زیادہ روشنی آگئی۔ اور فرشتوں کے گروہ درگروہ آتے ہوئے نظرآئے۔عمل صالح بھی. ذرا سوچئے!
یہ کہانی عبرت کے لئے لکھی گئی ہے ۔ لیکن احادیث مبارکہ کے بیان کےمطابق ہے۔
-کیا اس کہانی کے سننے کے بعد بھی ہم آخرت کے لئے فکرمند نہیں ہوں گے؟
- کیا اس کہانی کے بعد بھی ہم گناہ کریں گے؟
[ سب سے پہلے سینڈ کر دو
کیونکہ جب تک کوئی یہ پیغامات پڑھتا رہے گا
جنت میں آپ کے نام کا درخت لگتا رہے گا
Dont
حدیث میں ہے کہ جو دوسروں کا بھلا کرتا ہے.
اللہ اس کا بھلا کرتا ہے.
                       ..
چھوٹی سی دعا

"اے اللہ"
جب تو اپنی رحمتوں کے دروازے کھولے اور پکارے ...
"ہے کوئی رحمت مانگنے والا؟
ہے کوئی خوشیاں مانگنے والا؟
ہے کوئی شفا مانگنے والا؟
ہے کوئی میرے "محبوب"
(صلی اللہ علیہ وسلم) "
کی چاہت مانگنے والا؟

تو میری دعا ہے،
"یا اللہ"
ساری خوشی
ساری رحمت
ساری كاميابياں
ساری بركتیں
ساری نعمتیں
"نبی اے پاک"
(صلی اللہ علیہ وسلم) "
کی چاہت اس شخص کو دےدے جو یہ میسیج پڑھ کے دوسرے کو بھی اس خوبصورت دعا میں شامل کرے ...!



* آمین *
پہلے سنڈ کر دو، کیونکہ جب تک کوئی یہ میسج پڑتا رہے گا.
جنت میں آپ کے نام کے پیڑ لگتے رہیں گے.

make money with google adsense without a website


Earning money online is one of the most searched keywords ever, and rightly so. Everyone wants to make some – in some cases, huge amounts of – extra cash, don’t we?
While the internet is full of options, Google AdSense is one of the very best and by far the most reliable. All you have to do is the proper research, produce quality content and make an AdSense account.
Information over the internet can be misleading, and most often not all available in one place, therefore ProPakistani team has compiled a list of the most important FAQs regarding Google AdSense that everyone needs to go through if he or she is looking to earn money online. From signing up to receiving payments, we have covered every possible topic related to Google AdSense for your ease.



What is Google AdSense?

Google AdSense is free of cost way to monetize your website traffic by displaying pertinent ads on your website alongside the regular content. When ads are seen or clicked, you’ll automatically earn money.
AdSense is the choice of 2 million people. In 2015, Google paid out nearly $10B to their publishers showcasing the power of AdSense that is because millions of advertisers compete for ad space.
Some Alluring features of AdSense are its flexibility and reliant consonance alongside the options of
Choosing where ads appear, block ones you don’t want and change the features of text ads to go with the outlook of your site.
Google AdSense is Mobile friendly which means the ad units have the capability to adapt to various screen sizes, so it won’t matter if your site is being viewed on mobile, tablet or laptop.
The major advantage is that you have a role in adding to your earning by promoting the kind of ads that go along the site context. There are a lot of options to choose the right ad types and formats. Performance metrics are there to view stats and help you with any adjustments.

What are different types of AdSense accounts?

The two types of accounts offered are business and individual.
There’s no difference in service or payment structure, however, payments are made out to the company if you have a business account or to your name if you have an individual account.
You can’t change your account type once your account is activated. In case you do want to change the account type you must start again with a new account.

What are Google’s policies to enable AdSense on websites?

To reap the due benefits while avoiding any mishap is by keeping up with all the related Google policies as they tend to change it from time to time.
This isn’t a full list but following policies are most common and essential to abide by to keep a bona fide account.



Clicks and Impressions
Don’t click on your own ads

To know more about the advertisement, you must follow the standard procedure of typing the URL of the ad into your browser.

Don’t ask anyone else to click either

The policy states that site must not be used for money raising purposes for any cause or for your own through means of encouragement of users in any direct or indirect way, on third-party sites or via email. The only reason they should click is out of their own interest.

Choosing Ads Location



Publishers should make sure that ads are placed according to given standards i.e. not under the misleading heading, away from interactive elements and not blending with site’s content to misdirect the user. In other words, publishers should not try deceptive tricks to get users to click the ads. Publishers can still receive a violation notification even for the accidental clicks.
If you own a website with games the ads should be placed away from the controls so the user may not unintentionally click on them. It is recommended to keep a minimum distance of 150 pixels between flash player and the ad.
Content ads are not to be placed on game interfaces, interstitial pages or sites exclusive to streaming videos but if you want to earn by these means i.e. video streaming, game interface by overlaying ads, in stream or interstitial ads there are further guidelines like AdSense for video, AdSense for games, or the YouTube Partner Program.

Keep tabs on the ads

You must exercise caution while buying and setting up ad campaigns with third parties. They should not display your site in pop-ups or through any software application.

Google Analytics

Google Analytics provides you with a set of analytic tools with which you can even analyze where the most clicks were and this knowledge could lead you to a better comprehension of your site traffic and give you better discretion about improvements.

Content guidelines

Publishers are responsible for their content on any page even if the content was created by someone else.
Content restrictions

If the content being displayed by websites is in violation of program policies then Google ads won’t be displayed next to them. Restricted content could be adult/mature, copyrighted or violent etc.



Your own content

Users are expected to be familiar with Google’s Webmaster Guidelines and utilize some useful methods to improve their sites standing. It should contain substantial information with related keywords that would be used accordingly to the crux of your content.
Avoid hidden links and texts and focus on the relative content.
Google will weed out the pages if they don’t add values to users experience so avoid making them in order to rank up your site. It will also take appropriate action against auto-generated content, doorway pages, scraped content and Thin affiliate sites.

Ad Implementation
Ad Policy

Ad placement policies state specific regulations on placement of ads as they should not
be on pop-ups, behind a login button, in software applications or on sites that mimic Google.
Tampering with any part of the code is prohibited i.e. change the layout, behavior, targeting, or delivery of ads unless Google has authorized it.
Pop-ups and automatic software installation is no-go
Impersonating google pages is wrongful. Publishers are prohibited from using Google features i.e. trademarks, logos or web pages etc. without Google’s permission.
Publishers shouldn’t change the home pages via pop-ups and not tempt the user to install any software on their systems.

Disabled ads or account

Google can disable ads to your site or account. To re-enable them, you must be responsive and thoroughly read the notification email.
You must be up-to-date on your AdSense account’s associated email in case of your ads being disabled. The publishers must also attentively read the emails and respond accordingly to any requests. You are to diligently refurbish your entire network of sites to comply with AdSense policies in case of notifications about problems

What is the eligibility criteria to participate in AdSense?

Firstly, you must own the website and in clear technical terms, you must have the ability to access its HTML code. In case of submitting a website, you don’t own (ww.youtube.com) your application for AdSense won’t get approved.
Secondly, the following policies set by Google must be followed to utilize AdSense services. In case of failure to comply with them, Google has right to disable ad serving to your site or/and disable your account. If your account does get disabled you are then ineligible to participate in AdSense program any further.
It is required in some locations that your site has to be active for at least six months before consideration. This step is a quality check for their advertisement network and to protect the interests of our advertisers and existing publishers
Only applications from applicants who are over 18 as stated in Terms and Conditions are eligible.
The websites Blogger and YouTube have different criteria as they enable you to create host partner accounts where for eligibility of these accounts you have to meet certain other criteria for your blog to be eligible for monetization. You can link your products in a non-host partner website even though you have initially signed up as a host partner, all you have to do it submit a one-time application form.

What are the Most Common AdWords Display Ad Sizes?

Advertisers can use image Ads on their Google Display network. This can greatly help draw attention to your product or service from Google’s 2 million websites and apps.
The requirements for Google display images are the following;
GIF, JPG, PNG, SWF and ZIP formats are supported only.
The file should have a maximum size of 150 KB.
You can choose from 20 different ad sizes which are categorized in four size types.

Square and rectangle
200×200 – Small Square
240×400 – Vertical Rectangle
250×250 – Square
250×360 – Triple Widescreen
300×250 – Inline Rectangle
336×280 – Large Rectangle
580×400 – Netboard

Skyscraper
120×600 – Skyscraper
160×600 – Wide Skyscraper
300×600 – Half-Page Ad
300×1050 – Portrait

Leaderboard
468×60 – Banner
728×90 – Leaderboard
930×180 – Top Banner
970×90 – Large Leaderboard
970×250 – Billboard
980×120 – Panorama



Mobile
300×50 – Mobile Banner
320×50 – Mobile Banner
320×100 – Large Mobile Banner
There is no specific answer to which are the most common sizes, different sizes can be used for different purposes.
However, here is a list of some sizes that are being used commonly in different categories
250 x 250 – Square
200 x 200 – Small Square
468 x 60 – Banner
728 x 90 – Leaderboard
300 x 250 – Inline Rectangle
336 x 280 – Large Rectangle
120 x 600 – Skyscraper
160 x 600 – Wide Skyscraper
300 x 600 – Half-Page Ad
970 x 90 – Large Leaderboard



HOW TO MEASURE AD PERFORMANCE

Generating money from Google Adsense depends on three important factors: the CPC, CTR, and RPM.
CPC, also known as cost per click, refers to the amount of money you will receive if your visitors click on your ad.
As publishers, you have no control over how much you will receive for each click on your ad. It ultimately depends on the competition in your domain's niche that dictates the pricing, which could also change over time. Nonetheless, you can attract the best possible ads for your site using tactics that will be discussed in a different section below.
On the other hand, CTR or click-through rate refers to the percentage of visitors clicking on your ads while on your site.
CTR is important if you want to earn from Google Adsense truly. While CPC determines how much you will earn, you have very little control over the variables that determine the costs of the ads that will appear on your site. Your CTR is highly dependent on controlled variables or tactics that you can use to increase your ad performance which will also be discussed later.
Both metrics help you make sense of your RPM or revenue per 1,000 impressions. Impression describes the activity that takes place on the site and server every time an ad is fetched.
To compute the RPM, you need to divide your estimated earnings by the number of impressions (how many times an ad was seen on your website) and multiply the quotient by 1,000.
Measuring your potential earnings through RPM reveals to you the bigger picture that CPC and CTR can't show. Essentially, RPM is showing how much money you make per visitor.  Ultimately, it doesn't matter if your site is showing low-paying ads. The important thing is that you optimize your ads for increased performance and higher revenue.

DIFFERENT AD OPTIONS

Since you need to get people to click on your ads to make money, Google Adsense offers different ad options that you can show on your pages.

Text – Also known as “sponsored links,” the ads will appear as one or two lines of text format which may include the title of the ad and the physical address (for local businesses).
Display ads – The ads will appear in graphic format. You can choose from different sizes for your display ads, which will depend on where you wish to place it on your page.
Rich media – The ads will appear in HTML, Flash, and video format.
Animated image – The ads will appear as dynamic images. To show this on your site, you need to enable image ads.
Link units – They will show a list of topics related to your content. Once your visitors click on them, they will be directed to a page of Google ads related to the topic. You can only make money from this ad type if visitors click on the ads after clicking on the list of topics.
Among the different ad options to choose from, Google confirmed that the best performing units  are the following:



336×280 large rectangle
300×250 medium rectangle
728×90 leaderboard
300×600 half page
320×100 large mobile banner (on mobile)



بدین، طلبا جان ہتھیلی پر رکھ کے اسکول جانے پر مجبور

 بدین (ایچ ایم نیوز) بد ین  کے گائوں چندو کولہی میں تقریبا تین سو معصوم طلبہ و طالبات حصول علم کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کے اسکول جانے پر مجبور ہو گئے ،تفصیلات کے مطا بق  معصوم طلبہ و طالبات کے لیے علم کا حصول جان کا خطرہ بنا ہوا ہے ان کے اسکول کے راستے میں امام واہ نہر ہے جس پہ پل نہ ہونے کے سبب یہ معصوم طلبا اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر بوسیدہ لکڑی اور کمزور تختوں کے انتہائی خطرناک پل سے گزر کر روزانہ اسکول جاتے ہیں،اس اسکول میں تقریبا دو سو نوے بچے زیر تعلیم ہیں اور گائوں کے ہرگھر سے اسکول جاتے وقت ان کے والدین بچے کی با خیریت واپسی کی دعائیں کرتے ہیں،ان معصوم طلبہ و طالبات کے لیے حصول علم کا یہ راستہ جان جوکھوں کا کام ہے مگر ان کی ہمت اور عزم کے سامنے یہ جان لیوا مشکل بھی آسان ہوگئی ہے۔

پنجاب میں ڈینگی کے مزید 348 کیسز، تعداد 2 ہزار سے تجاوز کرگئی

لاہور (ایچ ایم نیوز)پنجاب میں صرف 24 گھنٹوں کے دوران ڈینگی کے مزید 348 کیسز سامنے آگئے،ڈینگی کنٹرول پروگرام کے مطابق ملک بھر میں 3 ہزار 674 افراد ڈینگی سے متاثر ہیں اور صرف پنجاب میں تعداد 2 ہزار 158 ہوگئی ہے،پنجاب میں 24 گھنٹوں کے دوران ڈینگی کے 348 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے راولپنڈی میں 127، اسلام آباد 198 جب کہ لاہور سمیت 4 دیگر شہروں سے 19 کیسز سامنے آئے،ڈینگی کنٹرول پروگرام کیمطابق لاہور میں لاہور میں ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 53 ہوگئی ہے۔

چونیاں، بچوں کے اغوا کی وارداتیں جاری

چونیاں  (ایچ ایم نیوز)چونیاں میں بچوں کے مبینہ اغوا کی ایک اور واردات سامنے آئی ہے جبکہ عینی شاہدین نے دعوی کیا ہے کہ اغوا کار ایک بچے کو ساتھ لے گئے۔عینی شاہدین نے دعوی کیا ہے کہ محلہ ہاشم چوک سے نامعلوم مبینہ اغواکاروں نے 2 بچوں کو اٹھایا تھا، بچوں کے شور مچانے پر مقامی لوگوں نے اغوا کاروں کا پیچھا کیا جس پر مبینہ اغوا کار ایک بچے کو ساتھ لے گئے جبکہ دوسرے بچے کو بے ہوشی کی حالت میں چھوڑ کرفرار ہو گئے۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اغوا کاروں سے بچنے والے بچے عمر دراز کو تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال چونیاں منتقل کر دیا گیا ہے۔واقعہ کے خلاف شہریوں نے شدید احتجاج کیا اور ٹائر جلا کر سڑک بلاک کر دی جبکہ بعض مشتعل افراد نے تھانہ سٹی پر بھی پتھراوکیا،پولیس کے مطابق اسپتال میں زیر علاج بچہ عمردراز بیان بدل رہا ہے، معاملہ مشکوک لگتا ہے تاہم تحقیقات کر رہے ہیں،پولیس کا کہنا ہے کہ جس بچے کے مبینہ اغوا کا لوگوں نے دعوی کیا ہے اس حوالے سے کسی بھی شخص نے ابھی تک پولیس سے رابطہ نہیں کیا ہے۔

کشمیر میں تشدد سے متعلق وزیر اعظم عمران خان کا واضح اور اہم بیان قابل تعریف ہے، امریکی محکمہ خارجہ

واشنگٹن (ایچ ایم نیوز)امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ کشمیر میں تشدد سے متعلق وزیر اعظم عمران خان کا واضح اور اہم بیان قابل تعریف ہے، جمعہ کے روز امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا بیورو ایلس ویلز نے ایک بیان میں کہا کہ عمران خان کا یہ بیان اہم ہے کہ پاکستان سے شدت پسند کشمیر میں انتشار پھیلا سکتے ہیں، یہ شدت پسند کشمیریوں اور پاکستان دونوں کے دشمن ہیں،ایلس ویلز نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کا تمام دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے کا عزم علاقائی استحکام کے لیے اہم ہے۔

پا کستان کا اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے مقبوضہ کشمیرپرنتیجہ خیز اقدامات اٹھا نے کا مطا لبہ

 مقبوضہ جموں و کشمیرمیں انسانی حقوق کی صورتحال اقوام متحدہ کی توجہ کا مرکزبن چکی ہے، پاکستان نے جموں و کشمیرکی صورتحال پرمستقل توجہ مرکوزرکھی ہے اور اس کے لئے متعدد اقدامات بھی اٹھائے ہیں، تر جمان دفتر خا رجہ

 اسلام آباد (ایچ ایم نیوز) پا کستان نے مطا لبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل مقبوضہ کشمیرپرنتیجہ خیز اقدامات اٹھائے، جمعہ کے روز ترجمان دفترخارجہ ڈاکٹرمحمد فیصل نے ایک بیان میں  کہا  کہ مقبوضہ جموں و کشمیرمیں انسانی حقوق کی صورتحال اقوام متحدہ کی توجہ کا مرکزبن چکی ہے، پاکستان نے جموں و کشمیرکی صورتحال پرمستقل توجہ مرکوزرکھی ہے اور اس کے لئے متعدد اقدامات بھی اٹھائے ہیں، اب انسانی حقوق کونسل کی ذمہ داری ہے کہ مقبوضہ کشمیرکی صورتحال میں بہتری کیلئے نتیجہ خیز اقدامات اٹھائے۔انہوں نے مز ید کہا کہ پاکستان وہ تمام ممکنہ کوششیں کرے گا جس سے انسانی حقوق کونسل کے اقدامات کے ٹھوس اثرات بھارت کے زیر قبضہ جموں کشمیر کی موجودہ مخدوش صورتحال پر مرتب ہوں تاکہ ایک کروڑ تیس لاکھ کشمیریوں کی مشکلات کا خاتمہ یقینی بنایا جاسکے۔

جرمن بچے سال بھر کی چینی 7 ماہ میں کھا گئے، ماہرین پریشان

برلن  (ایچ ایم نیوز)جرمن بچے اتنا میٹھا کھاتے ہیں کہ وہ سال رواں کے دوران اوسط فی کس استعمال کے لیے تجویز کردہ چینی سات ماہ میں ہی کھا گئے۔ ماہرین کے مطابق اس کی وجہ کاروباری کمپنیوں کی طرف سے شکر سے بھرپور اشیائے خوراک کی مارکیٹنگ ہے۔برلن میں قائم صارفین کی کھانے پینے کی عادات سے متعلق غیر سرکاری تنظیم فوڈ واچ کے مطابق جرمن بچوں نے اس سال اتنی چینی پہلے سات ماہ میں ہی استعمال کر لی، جتنی عالمی ادارہ صحت کی رہنما تجاویز کے مطابق انہیں بارہ ماہ میں استعمال کرنا تھی۔ اس تنظیم کی طرف سے غذائی امور کی جرمن فیڈریشن اور جرمن ذیابیطس سوسائٹی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جرمنی میں، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، تین سے لے کر 18 سال تک کی عمر کے نابالغ شہری اپنے لیے صحت مند حد سے 63 فیصد زیادہ چینی استعمال کر رہے ہیں۔فوڈ واچ کے مطابق جرمن معاشرے میں روایتی طور پر میٹھا کھانے کا رجحان اتنا زیادہ ہے کہ صرف بچے ہی نہیں بلکہ بالغ خواتین و حضرات بھی ہر سال اپنے لیے صحت مند حد سے کہیں زیادہ مقدار میں شکر استعمال کرتے ہیں۔ فوڈ واچ کے مطابق خواتین یہی حد آٹھ اکتوبر کو عبور کر جائیں گی۔ماہرین کے مطابق زیادہ شکر کا استعمال ان بچوں کے موٹاپے کی شکل میں نکلتا ہے اور موٹاپا خود کوئی بیماری نہ ہونے کے باوجود کئی طرح کی بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔

سمندری طوفان فاکسائی سے زراعت کو بھاری نقصان پہنچا ہے، جاپان

ٹوکیو (ایچ ایم نیوز)جاپان کے حکام کا کہنا ہے کہ سمندری طوفان فاکسائی سے مشرقی علاقوں میں زراعت، جنگلات اور ماہی پروری کے شعبوں کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگایا گیا ہے جو 29 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہے۔ جاپانی نشریاتی ادارے کے مطابق وزارت زراعت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سمندری طوفان سے متاثرہ علاقوں میں چیبا، اِباراکی سمیت 6 دیگر علاقے بھی شامل ہیں۔ طوفان سیچاول، ناشپاتی اور گاجر جیسی زرعی مصنوعات کے نقصان کا اندازہ 8 کروڑ 70 لاکھ ڈالر جبکہ گرین ہاسز کو پہنچنے والے نقصانات کی مالیت تقریبا 17 کروڑ 70 لاکھ ڈالر ہے۔ عہدیداروں نے کہا ہے کہ سمندری طوفان سے چیبا، اِباراکی اور 3 دیگر علاقوں میں ماہی گیری کی کل 324 کشتیاں تباہ ہوئیں ہیں جس کے نقصان کی مالیت تقریبا 15 لاکھ ڈالر لگائی گئی ہے۔

سعودی عرب نے عالمی توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی رکنیت حاصل کرلی

ویانا  (ایچ ایم نیوز)سعودی عرب نے عالمی سطح پر ایک اور سنگ میل طے کرتے ہوئے عالمی توانائی جوہری ایجنسی (آئی اے ای اے)کی گورننگ باڈی کی رکنیت کے حصول میں کامیابی حاصل کی ہے۔ عا لمی  میڈ یا کے مطابق آسٹریا کے شہر ویانا میں منعقدہ جوہری توانائی ایجنسی کے اجلاس کے موقع پرتنظیم کی گورننگ باڈی کا اجلاس ہوا جس میں سعودی عرب نے بھی شرکت کی۔ آئی اے ای اے کے 63 ویں اجلاس کے موقع پر سعودی عرب کو2019 تا 2021 تک رکنیت دی گئی۔شاہ عبداللہ سٹی برائے جوہری اور قابل تجدید توانائی کے صدر ڈاکٹر خالد بن صالح السلطان کی قیادت میں سعودی عرب وفد نے اجلاس میں شرکت کی۔ڈاکٹر السلطان نے کہا کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز میں مملکت کی شمولیت فتح ہے۔سعودی عرب کو ایجنسی میں یہ مقام ملنا مملکت پراعتماد اور عالمی فورمز پر اس کے کردار کا اعتراف ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ بورڈ آف گورنرز میں سعودی عرب کی نمائندگی ایک اہم اقدام ہے جو مملکت میں بین الاقوامی اعتماد کی عکاسی کرتا ہے اور مملکت کے قومی جوہری توانائی پروجیکٹ کو اہمیت دینے کے مترادف ہے۔

چین کے 5نئے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹس خلا میں روانہ

 5 مصنوعی سیاروں کو سہ پہر 2 بج کر42 منٹ پر لانگ مارچ 11 کیریئر راکٹ کے ذریعے لانچ کیا گیا

بیجنگ (ایچ ایم نیوز)چین کے 5نئے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹس خلا میں روانہ، 5 مصنوعی سیاروں کو سہ پہر 2 بج کر42 منٹ پر لانگ مارچ 11 کیریئر راکٹ کے ذریعے لانچ کیا گیا۔چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کے مطابق شمال مغربی چین کے صحرا میں واقع جیوجھوان سیٹلائٹ لانچ سنٹر سے پانچ نئے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹس کو مقررہ مدار میں بھیج دیا گیاہے،  ان 5 مصنوعی سیاروں کو سہ پہر 2 بج کر42 منٹ پر لانگ مارچ 11 کیریئر راکٹ کے ذریعے لانچ کیا گیا۔یہ مصنوعی سیارے ایک تجارتی ریموٹ سینسنگ مصنوعی سیٹلائیٹ منصوبے زو ہائی- 1 سے تعلق رکھتے ہیں، جس میں 34 مائیکرو نینو سیٹلائٹس شامل ہوں گے، جن میں ویڈیو، ہائپر سپیکٹرل اور اعلی ریزولوشن آپٹیکل سیٹلائٹس، نیز ریڈار اور انفراریڈ مصنوعی سیارے شامل ہوں گے۔جمعرات کو لانگ مارچ سیریز کے کیریئر راکٹ کا 311 واں مشن تھا۔ ان مصنوعی سیاروں سے حاصل شدہ اعداد و شمار کا استعمال قدرتی وسائل اور حیاتیاتی ماحول کے تحفظ اور زراعت کے شعبے میں کیا جائے گا اور وہ سمارٹ شہروں کی تعمیر کے لئے خدمات فراہم کریں گے۔

چیف ایگز یکٹو ہا نگ کا نگ کیری لام کمیونٹی سطح پر منعقد ہونے والے مکالمے میں شرکت کریں گی،مقامی حکومت کا بیان

بیجنگ (ایچ ایم نیوز)چین کے ہانگ کانگ خصوصی انتظامی علاقے کی چیف ایگزیکٹوکیری لام  26ستمبر کو کمیونٹی سطح پر منعقد ہونے والے پہلے مکالمے میں شرکت کریں گی۔چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کے مطابق مقامی حکومت کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہچین کے ہانگ کانگ خصوصی انتظامی علاقے کی چیف ایگزیکٹوکیری لام 26ستمبر کو کمیونٹی سطح پر منعقد ہونے والے پہلے مکالمے میں شرکت کریں گی۔ کمیونٹی کے 150افراد مذکورہ مکالمے میں شریک ہوں گے۔  مکالمے کے انعقاد کا مقصد عوام کو ایک ایسا پلیٹ فارم کرنا ہے جس کے ذریعے زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد اپنے خیالات حکومت تک پہنچا سکیں، تاکہ معاشرے میں پائی جانے والی عدم اطمینان کی فضا کو ختم کیا جا سکے۔

دی بیلٹ اینڈ روڈ چین آسیان اقتصادی و تجارتی تعاون کے فروغ میں مدد دے گا، سی آر آئی تبصرہ

بیجنگ (ایچ ایم نیوز) سی آر آئی  کے   تبصرہ  میں کہا گیا ہے کہ دی بیلٹ اینڈ روڈ چین آسیان اقتصادی و تجارتی تعاون کے فروغ میں مدد دے گا۔چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کے مطابق  (آج) ہفتہ کو چین کے صوبہ گوانگ شی کے شہر نان نینگ میں16ویں چین آسیان ایکسپو کا افتتاح ہو گا۔ موجودہ ایکسپو کا موضوع ہے دی بیلٹ اینڈ روڈ کی تعمیر میں شراکت، تعاون کے روشن مستقبل کے لیے مشترکہ کوشش۔ ایکسپو میں مختلف شعبوں میں تعاون کے معاہدے طے پانے کی توقع ہے۔ اس سے چین اور آسیان کے درمیان اسٹریٹجک روابط کے ذریعے باہمی مفادات اور جیت،جیت پر مبنی ترقی کے عمدہ رجحان کا اظہار کیا گیا ہے۔تجارت، چین،آسیان تعاون اور مشترکہ ترقی کی بنیاد ہے۔ یاد رہے کہ چین گزشتہ دس برسوں میں آسیان کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی رہا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ موجودہ ایکسپو میں آسیان میں صنعتی و تجارتی زونز کے قیام کے لیے چینی صنعتی و کاروباری اداروں کی سرمایہ کاری کے لیے پہلا بلو پیپر جاری کیا جائے گا۔ آسیان کے رکن ممالک میں چینی اداروں کی سرمایہ کاری کے ڈھانچے اور معیار کی بہتری سے دو طرفہ اقتصادی و تجارتی تعلقات کو نئی قوت ملے گی۔ بنیادی تنصیبات چین-آسیان تعاون کا اہم ذریعہ ہیں جبکہ ڈیجیٹل معاشی تعاون چین-آسیان تعاون کے مستقبل کا رجحان ہے۔ چین اور آسیان نے، دو ہزار بیس کو ڈیجیٹل معیشت کے تعاون کا سال قرار دیا ہے۔ فریقین ای کامرس، سائنسی و تیکنیکی تخلیق، فائیو جی نیٹ ورک اور اسمارٹ سٹی سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کو توسیع دیں گے۔16 سال کے بعد چین،آسیان ایکسپو فریقین کے درمیان تعاون اور تبادلے کا ایک اہم پلیٹ فارم بن گئی ہے۔ یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ موجودہ ایکسپو کے ذریعے دی بیلٹ اینڈ روڈ کے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، چین،آسیان اقتصادی اور تجارتی تعاون سمیت خوشحالی و ترقی کو بڑھایا جائے گا اور ایشیا و بحرالکاہل کے علاقے میں خوشحالی اور ترقی میں نئی قوت پیدا کی جائے گی۔

عوامی جمہوریہ چین کے قیام کی 70ویں سالگرہ منانے کیلئے نیوز سنٹر کی ویب سائٹ کھول دی گی

(آج)ہفتہ کو چینی اور غیر ملکی صحافیوں کیلئے انٹرویوز کے ٹائم ٹیبل کا اعلان کیا جائے گا

بیجنگ (ایچ ایم نیوز)عوامی جمہوریہ چین کے قیام کی 70ویں سالگرہ منانے کیلئے نیوز سنٹر کی ویب سائٹ کھول دی گی،(آج) ہفتہ کو 21 ستمبر سے چینی اور غیر ملکی صحافیوں کیلئے انٹرویوز کے ٹائم ٹیبل کا اعلان کیا جائے گا۔ چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کے مطابق  گزشتہ روز عوامی جمہوریہ چین کے قیام کی 70ویں سالگرہ منانے کیلئے نیوز سنٹر کی ویب سائٹ کھول دی گی۔عوامی جمہوریہ چین کے قیام کی سترویں سالگرہ منانے کے لئے پریس سینٹر  ستمبر سے کام شروع کرے گا۔ نیوز سینٹر کی ویب سائٹ ہے http://www.70prc.cnاور 21 ستمبر سے چینی اور غیر ملکی صحافیوں کیلئے انٹرویوز کے ٹائم ٹیبل کا اعلان کیا جائے گا۔

کیریباتی کے تائیوان انتظامیہ سے تعلقات ختم، چین کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال

چین، خود مختار آزاد ملک کے طور پر کیریباتی حکومت کے اس اہم فیصلے کی تعریف اور حمایت کرتا ہے
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گنگ شوانگ کی رسمی پریس کانفرنس 

بیجنگ (ایچ ایم نیوز)کو کیریباتی حکومت نے ایک چین کے اصول کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے تائیوان کے ساتھ نام نہاد سفارتی تعلقات کو توڑتے ہوئے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے کا اعلان کردیا ،چین کی  وزارت خارجہ کے ترجمان گنگ شوانگ نے کہا کہ چین، خود مختار آزاد ملک کے طور پر کیریباتی حکومت کے اس اہم فیصلے کی تعریف اور حمایت کرتا ہے۔ چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کے مطابق جمعہ کو کیریباتی حکومت نے ایک چین کے اصول کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے تائیوان کے ساتھ نام نہاد سفارتی تعلقات کو توڑتے ہوئے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے کا اعلان کیا۔اس حوالے سے چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گنگ شوانگ نے کہا کہ چین، خود مختار آزاد ملک کے طور پر کیریباتی حکومت کے اس اہم فیصلے کی تعریف اور حمایت کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں صرف ایک چین ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کی حکومت چین کی نمائندگی کرنے والی واحد قانونی حکومت ہے۔ تائیوان چین کا ناگزیر حصہ ہے۔ یہ ناصرف اقوام متحدہ کی قرار داد وں سے مطابقت رکھتا ہے، بلکہ عالمی برادری کا عمومی اتفاق رائے بھی ہے۔ ایک چین کے اصول کی بنیاد پر، چین نے دنیا بھر کے ایک سو اڑسٹھ ممالک کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔

درود شریف ڈپریشن کی دوا کیسے ہے؟


درود شریف کا ترجمعہ اگر دیکھیں تو کچھ اس طرح بنتا ہے۔

"اے اللہ درود بھیج حضرت محمد پر اور (ان کی اولاد پر)"

اس کلام یعنی درود میں ہم دو ہستیوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ ایک اللہ پاک اور دوسرے حضرت محمد (صل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

جب ہم مسلسل اور بار بار ان دو ہستیوں کا ذکر اپنی زبان سے کرتے ہیں زہن میں توجہ کے ساتھ، یعنی جب درود پڑھتے ہیں، تو ہمیں ان دونوں ہستیوں کی توجہ حاصل ہوتی ہے، دونوں کے Aura کا نور اور شفاء والی انرجی (Healing Energy) ملتی ہے، انوارات ملتے ہیں جو ہمارے ڈپریشن کو Heal کر کے  ختم کر دینے کے لیے کافی ہیں۔

زیادہ فائدہ تب ہو گا جب ہم توجہ اور دیہان سے درود شریف پڑھیں گے۔ اگر درود تنہای میں توجہ اور اس تصور کے ساتھ پڑھنا شروع کر دیں کہ

آپ کی اللہ کی اور حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک تکون ہے، اور آپ تینوں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہیں۔۔

تو یقین جانیں ڈپریشن فوری ختم ہوتا چلے جاے گا۔ بلکہ درود پڑھنے کا  اصل لطف اور روحانی سرور بھی تب ہی نصیب ہو گا۔

درود شریف زیادہ کیوں نہیں پڑھا جاتا ؟

استغفار کرنے سے گناہ مٹتے ہیں، کوی اور کلام پڑھنے سے نیکیاں ملتی ہیں۔ کسی دوسرے کلام سے براہ راست درجات بلند نہیں ہوتے، بلکہ گناہ مٹنے اور نیکیوں کی تعداد زیادہ ہونے سے آہستہ آہستہ درجات بلند ہوتے ہیں۔

جبکہ درود پاک وہ واحد عبادت ہے جس سے براہ راست درجات بلند ہوتے ہیں۔

"درودپڑھنے سے گناہ مٹتے ہیں، نیکیاں ملتی ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں (احادیث)

چونکہ درود پڑھنے سے ہمارے نفس کے براہ راست روحانی درجات بلند ہوتے ہیں اس لیے درود زیادہ نہیں پڑھا جاتا۔ اتنا ہی پڑھا جاتا ہے جتنا ہم براہ راست بلندی درجات کا زور اٹھا سکیں۔

مسلسل درود پاک پڑھنے کی وجہ سے ہماری ذات، نفس اور DNA میں بلندی درجات کے حصول کے لیے کچھ تغیر اور Upgradation ہوتی ہے، Updates انسٹال ہوتی ہیں۔ آپ لوگوں نے نوٹ کیا ہو گا کہ جب کمپیوٹر پر Heavy updates انسٹال ہو رہی ہوں تو کمپیوٹر کی سپیڈ کم ہو جاتی ہے، رک رک کر چلنے لگتا ہے۔ اسی طرح جب درود پڑھنے سے ہماری ذات کی upgradation ہوتی ہے اور Superior DNA کی Updates انسٹال ہوتی ہیں تو ہم سے ایک خاص مقدار سے زیادہ درود پاک نہیں پڑھا جاتا، زبان ساتھ نہیں دیتی، سینہ بھاری ہونے لگتا ہے اور طبیعت بوجھل ہونے لگتی ہے۔

لیکن جیسے جیسے انسان مسلسل درود پاک پڑھتا جاے تو آہستہ آہستہ زیادہ ہونے لگتا ہے، روح اور نفس طاقتور ہوتے جاتے ہیں، جسم درود شریف کے انوارات کو برداشت کرنے لگتا ہے۔ در حقیقت درجات بلند ہوتے جاتے ہیں اور اللہ کی اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربت حاصل ہوتی جاتی ہے۔

عجب   فیض   ہے  آقا  تیری  محبت کا
درود تجھ پر پڑھوں اور خود سنور جاوں

اللہ پاک ہمیں زیادہ سے زیادہ درود پاک پڑھنے اور اس کے فیوض و انوارات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرماے۔ آمین

انتہائی اہم معلومات

بعض اوقات ھم سنتے ھیں کہ ایوب خان نے پاکستان کے
 دریا ہندوستان کو بیچ دئیے۔ سرائیکی وسیب کا پانی بیچ دیا گیا مگر ذیل کا مضمون تو کوئی اور ھی کہانی سنا رہا ہے۔ مضمون پڑھئے اور اپنی رائے سے آگاہ فرمایۓ

ڈیوڈ ای لیلین تھال (David E. Lilienthal) ایک عجیب کردار تھا‘ وہ ہارورڈ یونیورسٹی کا لاء گریجویٹ تھا‘ وکیل تھا لیکن وہ دنیا میں کوئی تاریخی کام کرنا چاہتا تھا۔

امریکا 1940ء کی دہائی میں  خوفناک مالیاتی بحران کا شکار تھا‘ صدر روزویلٹ نے معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے پورے ملک میں میگا پراجیکٹس شروع کر دیے‘ لیلین تھال صدر کا دوست تھا‘ صدر نے اسے امریکا میں ڈیمز بنانے کی ذمے داری دے دی‘ لیلین تھال نے دو شرائط پیش کیں اور منصوبہ شروع کر دیا‘ پہلی شرط فیصلوں کی آزادی تھی اور دوسری وہ صرف اور صرف صدر کے سامنے جواب دہ تھا‘ ڈیمز پراجیکٹ کے لیے ٹینیسی ویلی (Tennessee Vellay) کا انتخاب کیا گیا‘ یہ وادی امریکا کی سولہویں بڑی ریاست ٹینیسی میں واقع ہے اور یہ ہمارے علاقے کالاباغ سے ملتی جلتی ہے۔

لیلین تھال ٹینیسی ویلی اتھارٹی کا چیئرمین بن گیا‘ لیلین تھال نے دریائے ٹینیسی پر درجنوں ڈیمز بنائے‘ ڈیموں کی تعمیر کے دوران اسے محسوس ہوا جوہری توانائی بجلی حاصل کرنے کا سستا اور محفوظ ترین طریقہ ہے‘ یہ جوہری توانائی کا منصوبہ لے کر صدر کے پاس گیا اور صدر ٹرومین نے اٹامک انرجی کمیشن بنا کر اسے اس کا سربراہ بنا دیا ‘ لیلین تھال نے امریکا میں جوہری توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنا شروع کر دی یوں وہ اٹامک انرجی اور جدید ڈیمز کا بانی کہلانے لگا۔
پاکستان اس دور میں ایک نیا اور جدید ملک بن کر ابھر رہا تھا‘بھارت نے پاکستان کا پانی بند کردیا تھا اور ملک شروع ہی میں مسائل کا شکار ہو گیا تھا‘ امریکا پاکستان کو کامیاب‘ ترقی یافتہ اور مضبوط دیکھنا چاہتا تھا‘ لیلین تھال 1950ء کی دہائی میں سرکاری افسروں کو لیکچر دینے پاکستان آیا اور پاکستانی قوم کے جذبے‘ ایمانداری اور جغرافیائی خوبصورتیوں کا فین ہو گیا ‘ اس نے پاکستان کو پانی اور بجلی دونوں میں خود مختار بنانے کا فیصلہ کر لیا۔

وہ امریکی اشرافیہ میں بہت پاپولر تھا‘ ورلڈ بینک کا صدریوجین رابرٹ بلیک اس کا ذاتی دوست تھا‘ وہ یوجین کو پاکستان لے آیا‘ ملک میں اس زمانے میں ملک فیروز خان نون وزیراعظم تھے‘ وزیراعظم نے لیلین تھال کے مشورے پر ٹینیسی ویلی اتھارٹی کی طرز پر پاکستان میں واپڈا (واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی)بنا دیا‘ واپڈا آگے چل کر دنیا کی مشہور ترین اتھارٹی بنی اور دنیا کے بیسیوں ملکوں نے اس کو کاپی کیا‘ امریکا اور یورپ 1971ء تک اس کی مثالیں دیتا تھا۔

پاکستان میں 1958ء میں مارشل لاء لگا اور جنرل ایوب خان صدر بن گئے‘ بھارت بار بار پاکستان کا پانی روک لیتا تھا‘ حکومت بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کا معاہدہ کرنا چاہتی تھی‘ ہم چاہتے تھے آدھا پانی بھارت استعمال کرے اور آدھا ہم استعمال کرتے رہیں لیکن ورلڈ بینک کے صدر یوجین رابرٹ بلیک اور لیلین تھال کی رائے مختلف تھی‘ ان کا کہنا تھا بھارت اپنے وعدے کی پاس داری نہیں کرے گا‘ یہ پاکستان کو پانی پر روز بلیک میل کرے گا چنانچہ پاکستان مسئلے کا مستقل حل تلاش کرے۔

ڈیم بنائے‘ دریائے سندھ کے پانی کو پورے ملک میں تقسیم کرے اور آزاد اور خود مختار زندگی گزارے‘ صدر ایوب یہ دلیل نہیں مان رہے تھے‘ ورلڈ بینک کے صدر نے آخر میں کہا ’’آپ پھر بھارت کے ساتھ طویل جنگ کی منصوبہ بندی کر لیں کیونکہ پانی کا مسئلہ جنگ کے بغیر حل نہیں ہو سکے گا‘‘ صدر ایوب نے سوچا اور انھیں یوجین رابرٹ کی بات میں وزن محسوس ہوا اور یوں عالمی بینک نے 1960ء میں بھارت کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر سندھ طاس معاہدہ کروادیا۔

بھارت آج بھی سندھ طاس کو نہرو کی سیاسی غلطی قرار دیتا ہے اور یہ اسے 58سال سے تبدیل کرانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے‘ سندھ طاس معاہدے کے بعد پاکستان نے تین کام کرنا تھے‘ دھڑا دھڑ ڈیم بنانے تھے‘ بجلی پیدا کرنی تھی اور بھارت کے حصے آنے والے تین دریاؤں بیاس‘ راوی اور ستلج کے زیر کاشت علاقوں تک نہروں کے ذریعے دریائے سندھ کا پانی پہنچانا تھا‘ پاکستان اس وقت ٹیکنالوجی میں پسماندہ ترین ملک تھا‘ ہمارے پاس گدھے‘ بیل گاڑیاں اور ہتھ ریڑھیاں سب سے بڑی ٹیکنالوجی تھیں۔

ہم ان سے ڈیم تو دور نہر تک نہیں بنا سکتے تھے‘ ملک میں اس وقت غلام اسحاق خان اور غلام فاروق دو بڑے بیورو کریٹس تھے‘ صدر ایوب نے یہ کام ان دونوں کو سونپ دیا‘ یہ دونوں کمال انسان تھے‘ آپ آج واہ فیکٹری سے لے کر پی آئی اے اور واپڈا سے لے کر ایٹمی پروگرام تک ملک کا کوئی بڑا منصوبہ نکال کر دیکھ لیجیے آپ کو اس میں ان دونوں کا ہاتھ ملے گا‘ اللہ تعالیٰ نے1958ء سے 1971ء تک اس ملک پر نوازشات کے دروازے کھول رکھے تھے۔

ملک کو جتنے ایماندار اور وژنری بیورو کریٹس‘ سیاستدان اور تاجراس دور میں ملے وہ دوبارہ نصیب نہیں ہوئے ‘ اس دور کے بیوروکریٹس ریاست کے لیے ہر فیصلہ اللہ کا حکم سمجھ کرکرتے تھے‘ آپ اس دور کی ایمبیسیوں کی فہرست نکال کر دیکھ لیں‘ نیویارک کا روز ویلٹ ہوٹل ہو یا پھر امریکا ‘ لندن‘ فرانس اور روم کے سفارت خانے ہوں آپ عمارتیں دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں‘ آپ پاکستان کے اداروں کی تاریخ بھی نکال کر دیکھ لیجیے‘ ہر ادارہ وژنری تھا اور ہر وژنری ادارے کے پیچھے کوئی نہ کوئی غلام اسحاق خان یا غلام فاروق جیسا بیورو کریٹ تھا۔

صدر ایوب خان نے غلام فاروق اور غلام اسحاق خان کو ڈیمز بنانے کا حکم دیا اور یہ دونوں جت گئے‘ ملک کے تمام اداروں سے انجینئرز واپڈا میں اکٹھے کیے گئے اور کام شروع ہو گیا لیکن یہ حقیقت ہے ایسے منصوبے پاکستان جیسے ملکوں کے بس کی بات نہیں ہوتے چنانچہ غلام فاروق امریکا گئے‘ ورلڈ بینک کے صدریوجین رابرٹ سے ڈیم ڈیزائن کرنے والی دس بڑی کمپنیوں کی فہرست لی اور پھر صدر سے پوچھا ان میں سے کون سی کمپنی کا سی ای او امریکی صدرآئزن ہاورکے قریب ہے۔

ورلڈ بینک کے صدر نے قہقہہ لگا کر تیسری فرم پر انگلی رکھ دی‘ وہ فرم Harzaانجینئرنگ تھی‘ فرم کا سی ای او صدر آئزن ہاورکے ساتھ گالف کھیلتا تھا‘ غلام فاروق نے سی ای او کے ساتھ ملاقات کی اور پہلی میٹنگ میںفرم کو منگلا ڈیم کی ڈیزائننگ کا کام دے دیا‘ آپ ملاحظہ کیجیے یہ فیصلہ ایک شخص نے امریکا میں بیٹھ کر ایک میٹنگ میں کیا اور ملک کے کسی ادارے‘ کسی اتھارٹی نے اس سے یہ نہیں پوچھا تم نے پہلی دو کمپنیاں چھوڑ کر یہ کام تیسری کمپنی کو کیوں دیا اور کیا اس کے لیے پیپرا رولز فالو کیے گئے؟ جی نہیں‘ یہ علتیں اس وقت موجود نہیں تھیں‘کیوں؟ کیونکہ اس دور میں یہ ممکن ہی نہیں تھا کوئی بے ایمان اور نالائق افسر کسی اعلیٰ عہدے تک پہنچ جائے۔

ہمارے اس پاکستان میں فیصلہ ساز کرسیوں پر صرف اور صرف ایماندار اور باصلاحیت لوگ ہوتے تھے چنانچہ پوری ریاست کا خیال تھا غلام فاروق نے جو بھی فیصلہ کیا وہ درست ہو گا اور اس میں بے ایمانی کا شائبہ تک نہیں ہو گا‘ میں آج دل سے سمجھتا ہوں اگر اس زمانے میں نیب‘ ایف آئی اے‘ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور پلاننگ کمیشن جیسے ادارے ہوتے تو پاکستان میں آج منگلا ڈیم ہوتا اور نہ ہی تربیلا اور نہ ہی ہم ایٹمی طاقت ہوتے اور آپ اگر آج بھی ان جیسے بڑے منصوبے بنانا اور مکمل کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو ملک کے تمام ترقیاتی منصوبوں کو احتساب اور روک ٹوک سے بالاتر کرنا ہوگا‘ آپ کو اٹامک انرجی کمیشن کی طرح اداروں کو خودمختاری دینا ہوگی ورنہ ہم اگلے پچاس سال تک ملک میں کوئی بڑا منصوبہ نہیں بنا سکیں گے۔

ہم ڈیم کی طرف واپس آتے ہیں‘ غلام فاروق مرحوم نے ہارزاکا انتخاب اس کے سی ای او کے صدرآئزن ہاورکے ساتھ تعلقات کی وجہ سے کیا ‘ امریکا منگلا ڈیم میں پاکستان کا معاون تھا اور یہ منصوبہ امریکی صدر کے تعاون کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا تھاچنانچہ ڈیزائن میں جہاں مشکل آتی تھی‘ کمپنی امریکی صدر کے ساتھ بات کرکے وہ مشکل دور کرا لیتی تھی‘ غلام فاروق اور اسحاق خان نے ہارزا کے ساتھ یہ معاہدہ بھی کیا تھا کمپنی 270 امریکی انجینئرز کو پاکستان لائے گی۔

امریکا کا ہر انجینئر ڈیم پر کام کے دوران دو پاکستانی انجینئرز کو ٹرینڈ کرے گا‘ یہ معاہدہ بھی ہو گیایوں ہارزا نے پاکستان کے پانچ سو انجینئرز ٹرینڈ کیے‘ پاکستان نے1962ء میں منگلا کا انٹرنیشنل کانٹریکٹ جاری کیا‘ یہ اس دور میں دنیا کا سب سے بڑا سول انجینئرنگ کانٹریکٹ تھا‘ پوری دنیا حیران تھی پاکستان کہاں ہے اور یہ اتنا بڑا پراجیکٹ کیسے شروع کر رہا ہے؟ پاکستان کے پاس منصوبے کی کل لاگت کا صرف 15 فیصد تھا‘ ہمیں 17 ملکوں نے 80 فیصد رقم کے برابر گرانٹ دی۔

پانچ فیصد ورلڈ بینک نے ڈالا اور منگلا ڈیم شروع ہو گیا‘ امریکا نے ڈیم کے لیے منگلا میں ائیرپورٹ بنایا‘ امریکا سے انجینئرز کا پورا پورا جہاز منگلا آتا تھا‘ واپڈا نے منصوبے کی پڑتال کے لیے اپنا ہوائی جہاز خرید لیا ‘ دو سال بعد تربیلا ڈیم پر بھی کام شروع ہو گیا‘ یہ منگلا سے دو گنا بڑا تھا‘ یہ منصوبہ اتنا بڑا تھا کہ تین ملکوں کی کمپنیوں نے مل کر یہ ٹھیکہ لیا اور امریکا دنیا کی سب سے بڑی انجینئرنگ یونیورسٹی ایم آئی ٹی کے طالب علموں کو جہازوں میں بھر کر تربیلا لاتا تھا اور وہ طالب علم پندرہ پندرہ دن سائٹ پر رہتے تھے‘ تربیلا ڈیم اس دور کا اہرام مصر تھا‘ پوری دنیا میں اس کے بارے میں مضامین بھی چھپے اور دنیا کی بڑی انجینئرنگ یونیورسٹیوں نے اس پر تھیسس بھی کیے‘ منگلا اور تربیلا دونوں ڈیم اپنی مدت سے کم میں مکمل ہوئے اور دنیا پاکستان کے جذبے‘ شفافیت اور قوت فیصلہ کی معترف ہو گئی۔

ورلڈ بینک نے پاکستان کو منگلا‘ کالاباغ اور تربیلا تین ڈیم بنا کر دینے تھے‘ کالاباغ نسبتاً آسان تھا چنانچہ واپڈا نے فیصلہ کیا ہم امریکی انجینئرز سے منگلا اور تربیلا بنوالیتے ہیں‘ ہمارے انجینئرز اس دوران ٹرینڈ ہو جائیں گے اور ہم کالاباغ خود بنا لیں گے اور یوں یہ ہمیں سستا بھی پڑے گا اور ہمارے انجینئرز بھی ٹرینڈ ہو جائیں گے اور یہ ہماری وہ غلطی تھی جس کا تاوان قوم آج تک ادا کر رہی ہے‘ ہم آج تک اپنی نالائقی کے زخم چاٹ رہے ہیں‘ پاکستان کیا تھا اور یہ کیا ہو گیا‘ ہم کس بلندی سے کس پستی تک آ گئے؟ آپ سوچیں گے تو شرمندہ ہو جائیں گے
———————— 

آپ سےدرخواست اس کو آگے شئیر کریں تاکہ آج کے جمہوریت  چمپین کو کوئی شرم آجائے

بابرکت محفل

حضرت  محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھ کر کبھی کبھار باتیں  اور  مزاح فرمایا کرتے تھے۔ یوں بھی ہوتا کہ وہ مجلس مستقل ایک واقعہ اور قصہ  بن جایا کرتی۔
 ایک مرتبہ نبی کریمؐ اپنے رفقاء سیدنا ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمانؓ کی معیت میں علیؓ کے گھر تشریف لے گئے۔
 سیدنا علیؓ کی اہلیہ سیدہ فاطمہؓ نے شہد کا ایک پیالہ ان حضرات کی مہمان  داری کی خاطر پیش کیا۔ شہد اور خوبصورت چمکدار پیالہ۔۔۔ اتفاق سے اس پیالے  میں اک بال گرگیا۔
 آپؐ نے وہ پیالہ خلفائے راشدین کے سامنے رکھا اور فرمایا: آپ میں سے ہر ایک اس پیالے کے متعلق اپنی رائے پیش کرے۔
 ابوبکر صدیقؓ فرمانے لگے کہ میرے نزدیک مومن کا دل اس پیالے کی طرح چمکدار  ہے، اور اس کے دل میں ایمان شہد سے زیادہ شیریں ہے، لیکن اس ایمان کو موت  تک باحفاظت لے جانا بال سے زیادہ باریک ہے۔
 عمرؓ فرمانے لگے کہ حکومت  اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے اور حکمرانی شہد سے زیادہ شیریں ہے لیکن حکومت  میں عدل وانصاف کرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
 عثمانؓ فرمانے لگے کہ  میرے نزدیک علم دین، اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے، اور علم دین سیکھنا شہد  سے زیادہ میٹھا ہے لیکن اس پر عمل کرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
 علیؓ نے  فرمایا: میرے نزدیک مہمان اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے اور اس کی مہمان  نوازی شہد سے زیادہ شیریں ہے اور ان کو خوش کرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
 سیدہ فاطمہؓ فرمانے لگیں کہ یارسول اللہ، اگر اجازت ہو تو میں بھی کچھ عرض  کروں؟ آپؐ کے اجازت دینے پر فرمانے لگیں کہ عورت کے حق میں حیا اس پیالے  سے زیادہ چمکدار ہے۔ اور اس کے چہرے پر پردہ شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور غیر  مرد کی اس پر نگاہ نہ پڑے یہ بال سے بھی زیادہ باریک ہے ۔
 کیا خوب ہی محفل تھی، جب خلفائے راشدین اپنی رائے کا اظہار کرچکے تو آپؐ کی طرف متوجہ ہوئے۔
 ادھر سرکار دو عالمؐ کے لب مبارک ہے تو زبان نبوت سے یہ الفاظ مبارک نکلے  کہ معرفت اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے اور معرفت الٰہی کا حاصل ہونا اس شہد  سے زیادہ میٹھا ہے، اور معرفت الٰہی کے بعد اس پر عمل کرنا، بال سے زیادہ  باریک ہے۔
 ادھر زمین پر یہ مبارک محفل سجی تھی ادھر رب ذوالجلال سے  جبریلؑ بھی اجازت لے کر آپہنچے اور فرمانے لگے کہ ’’میرے نزدیک راہ خدا  چمکدار سے زیادہ روشن ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور اپنا مال و اپنی  جان قربان کرنا شہد سے زیادہ شیریں اور اس پر استقامت بال سے زیادہ باریک  ہے۔‘‘
 جب زمین پر سجی اس محفل میں سب اپنی رائے کا اظہار کرچکے تو  جبریل امین فرمانے لگے کہ یارسول! اللہ تعالیٰ بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں،  فرمایا کہ جنت اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے اور جنت کی نعمتیں اس شہد سے  زیادہ شیریں ہیں، لیکن جنت تک پہنچنے کے لیے پل صراط سے گزرنا بال سے زیادہ  باریک ہے۔
 بلاشبہ یہ مجلس بھی مبارک اور ہر ایک کی گفتگو بھی مبارک،  اس مجلس میں جہاں آقا نامدارؐ تھے وہیں صحابہ بھی تھے، آپ کی یہ مجلس اور  اس میں ہونے والی گفتگو ہم سب کیلیے مشعل راہ ہے۔ 
 (بکھرے موتی ص 938)

Nadia Jamil urges South Asian countries to eliminate child abuse


Nadia Jamil, child abuse
Veteran actress and activist Nadia Jamil is deeply concerned about what’s happening with children around the world. She wants South Asian countries to focus on eliminating child abuse and sex trafficking. 
Following the murder of three minor boys in Punjab’s Kasur district on Tuesday who were sexually assaulted, Jamil said this scourge needs serious planning to eliminate.



Taking to Twitter, she requested Prime Minister Imran Khan to take action. “I’ve worked in Kasur and all over Punjab with children who have been sexually abused for over 20 years. I have buried babies less than 6 months old sodomized to death,” she wrote highlighting how vulnerable children are in the country.

The activist known for raising voice for different issues said that laws are just not enough but we need to “Put strategies in place that have every child in our nation on our database; watched by a trusted system, with checks and balances.”
Jamil shared a child rape case from India and said the region must take necessary steps to protect its children. “It’s NOT just Pakistan. Sadly it is a regional issue. We need to take care of our kids. All of them matter.”

On the work front, her upcoming drama Damsa for ARY Digital will shed light on child protection.


پاکستان میں پہلی بار بیٹری پر چلنے والی گاڑیاں تیار کرنے کا فیصلہ، وہیکل پالیسی کا مسودہ تیار


وفاقی حکومت نے پاکستان کی پہلی الیکٹرک وہیکل پالیسی تیار کرلی، جو پالیسی وزارت موسمیاتی تبدیلی نے تیار کی ہے، پالیسی کا مسودہ کابینہ ڈویژن کو ارسال کردیا گیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے بعد منظوری کیلئے کابینہ میں پیش کیا جائے گی، اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں بیٹری پر چلنے والی گاڑیاں تیار کرنے کے پیداواری یونٹس لگائے جائیں گے، یونٹس میں پٹرول گاڑیاں بیٹری پر منتقل اور نئی الیکٹرک گاڑیاں تیار ہوسکیں گی۔
پہلے مرحلے میں اسلام آباد اور سیالکوٹ میں وہیکل پالیسی سے لوگ مستفید ہوں گے، سب سے پہلے موٹرسائیکل اور رکشے الیکٹرک وہیکل میں منتقل کیے جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق الیکٹرک وہیکل پالیسی کے تحت کامیاب تجربے کے بعد کاریں، ویگنزاور ٹرک بھی تیار کیے جائیں گے، ملک بھرمیں تین ہزار سی این جی اسٹیشنز کو کار بیٹری چارجنگ اسٹیشن بنایا جائے گا، اس کے علاوہ موٹر ویز اور ہائی ویز پر بھی بیٹری چارجنگ اسٹیشنز قائم کیے جائیں گے۔
بجلی کی بیٹری پرمنتقلی سے ماحولیاتی آلودگی پر قابو کے ساتھ 60 فیصد اخراجات کم ہوں گے، دنیا بھرمیں سموگ اور گرد سمیت چالیس فیصد آلودگی کی وجہ پیٹرول کاریں ہیں۔
الیکٹرک وہیکل پالیسی کے نفاذ سے کاروں کی آلودگی60 فیصد تک کم ہوجائے گی، پالیسی کے تحت حکومت الیکٹرک کار مینو فیکچررز کو سہولتیں اور مراعات دے گی۔
مشیر موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ صارفین کو نئی بیٹری کے برابر اخراجات آئیں گے، الیکٹرک کار پالیسی بھی بلین ٹری منصوبے کی طرح قوم کیلئے بڑا تحفہ ہوگا۔

دنیا میں موبائل انٹرنیٹ ڈاؤن لوڈ اسپیڈ میں پاکستان کا 116واں نمبر

موبائل انٹرنیٹ ڈاؤن لوڈ اسپیڈ میں پاکستان 116ویں نمبر پر آگیا ، پاکستان اس معاملے میں الجزائر، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور بھارت سے آگے ہے بلکہ بھارت اس فہرست میں 130 ویں نمبر پر ہے۔
تفصیلات کے مطابق غیرملکی خبررساں ادارے نے کہا دنیا بھر میں انٹرنیٹ اسپیڈ کی میپنگ کرنے والے ادارے اوکلا نے دنیا میں موبائل اور براڈ بینڈ انٹرنیٹ اسپیڈ کی فہرست جاری کی ہے۔
موبائل انٹرنیٹ کی فہرست میں جنوبی کوریا 97.44 ایم بی پی ایس کی اوسط ڈاؤن لوڈ اسپیڈ کے ساتھ سرفہرست ہے، دوسرے نمبر پر آسٹریلیا ہے جہاں کی اوسط رفتار 63.34 ایم بی پی ایس ہے۔اس کے بعد قطر 61.72 ایم بی پی ایس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
فہرست میں متحدہ عرب امارات 61.24 ایم بی پی ایس کے ساتھ چوتھے اور ناروے 60.90 ایم بی پی ایس کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہا۔
پاکستان 144 ممالک کی اس فہرست میں 116 ویں نمبر پر ہے، جہاں موبائل انٹرنیٹ ڈاؤن لوڈنگ کی اوسط رفتار 13.55 ایم بی پی ایس ہے، پاکستان اس معاملے میں الجزائر، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور بھارت سے آگے ہے بلکہ بھارت اس فہرست میں 130 ویں نمبر پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2 برس میں دنیا بھر میں موبائل انٹرنیٹ اسپیڈ 21.4 فیصد سے بڑھ کر 22.81 سے 27.69 ایم بی پی ایس تک بڑھ گئی تاہم جہاں تک براڈ بینڈ انٹرنی ٹاسپیڈ کی بات ہے تو اس معاملے میں سنگاپور 191.93 ایم بی پی ایس کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ جنوبی کوریا 156.18 ایم بی پی ایس کے ساتھ دوسرے نمبر پر موجود ہے۔
177 ممالک کی اس فہرست میں پاکستان 156 ویں نمبر پر موجود ہے، جہاں یہ رفتار 9.02 ایم بی پی ایس ہے جبکہ بھارت 30/74 ایم بی پی ایس کے ساتھ 70 ویں نمبر پر ہے۔

Amnesty chief vows to defy India bid to 'crush' criticism

WASHINGTON: Amnesty International’s chief vowed on Monday that the rights group would not be silenced on raising concerns about Kashmir despite what he called intimidation by Indian Prime Minister Narendra Modi’s government.
Indian Premier Narendra Modi. PHOTO: REUTERS
Amnesty International urges Modi to end IOK communications blackout
India’s financial crime investigators recently accused Amnesty’s local branch of violating foreign exchange regulations through taking money from its London-based parent.
That claim came after Amnesty vocally criticised Modi’s atrocities in Indian Occupied Kashmir (IOK). On August 5, India abrogated the Article-370, stripping the disputed valley of its special status and imposing a strict lockdown and communications blackout in the region.
“The Modi government has made a very big attempt to crush Amnesty in India,” Kumi Naidoo, Amnesty International’s secretary-general said during a visit to Washington.
“On the Kashmir question, on various human rights questions in India itself, we are not intimidated,” he said.
“While our colleagues in our Indian office are under stress, they are as committed, motivated and courageous as ever, if not more, as a result of the repression that we face.”
Modi’s government has cracked down on foreign non-governmental organisations since coming to power in 2014, suspending or banning thousands of groups, many working in health or the environment, for receiving money from abroad.
Naidoo, however, said that Amnesty – whose Bangalore office was raided last year – would survive in India as it has funding from local donors.




Amnesty has faced heated criticism from India’s right wing for its stance on the IOK.
“It is a horrific thing to actually cut people’s legitimate way of communicating with each other completely,” Naidoo said.
‘Let Kashmiris’ voices be heard’, Amnesty International urges India
“There are life-and-death issues associated with doing that. Whether it is family members needing to communicate with each other, being able to go to the doctor’s, this is something that governments need to stop doing,” he said.
“And, sadly, there are more and more governments doing it, and we need to speak out against this very strongly.”


alibaba

as

ad

web

amazon

Followers

Website Search

Tweet Corornavirus

Please Subscribe My Chennal

Sub Ki News

 
‎Sub Ki News سب کی نیوز‎
Public group · 1 member
Join Group
 
Nasrullah Nasir . Powered by Blogger.

live track

Popular Posts

Total Pageviews

Chapter 8. ILLUSTRATOR Shape Builder & Pathfinder-1

Chapter 10. Illustrator Drawing & Refining Paths-1

Labels