My Blogger consists of a general news in which I upload articles from all types of news including science, technology, education, crime, how-to, business, health, lifestyle and fashion.

New User Gifts

The Beautiful Raining

Pakistani Talent

How to Catching FISH!

Mount Rider

خود کو اور اپنے بچوں کو اس زہر سے بچائیں شکریہ۔

خود کو اور اپنے بچوں کو اس زہر سے بچائیں شکریہ۔

Pesticide Percentage (%) in cold drinks released from PMA (Pakistan Medical Association) recently.

1     Nestle  juice  7.2%

2     Coke              9.4%    

3     7 up              12.5%    

4     Mirinda         20.7%  

5     Pepsi            10.9%    

6     Fanta              29.1%    

7.    Sprite.            5.3%

8.    Frooti.           24.5%

9     Maza.            19.3%

It's very dangerous to the Human Liver.....
Results in Cancer !

Please confirm from PMA website  
                   
Lazmi send karain barish k liay Astaghfirullah, Astaghfirullah, Astaghfirullah,
PLZ....
send to all contacts

Soraj zmeen k qreeb aajaye ga Ye 1 nishani hy qiyamt ki
Aap s.a.w.w ne frmaya k jb meri ummt se Astaghfar krna kam ho ga,
To un par barish ka nazool kam ho ga.
Abhi
"ASTGHFIRULLAH" parhen aur aik b sms free hai to Send Krdo,
KUCH DEIR mein Arbon Astaghfar
ALLAH k Azab Ko Kam Kr Dein ge.
Don't stop it. Astaghfirullah.

Ramadan kareem

disabled goat

Big Help for cat

چڑیا کے بچے

نام نہیں ہے

گھنے جنگل کے پار افق پر سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور سورج کی شعاعیں درختوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے جنگل کی ناہموار زمین پر بمشکل پہنچ رہی تھیں۔ گویا جنگل کی زندگی میں ہر سو اجالا پھیل چکا تھا اور اس کے ساتھ ہی تمام چرند پرند بھی اپنی اپنی نگاہوں میں میٹھی اور معصوم سی انگڑائی لے کر بیدار ہوچکے تھے، وہ سب اپنی سریلی اور خوب صورت آواز میں خدائے واحد کی حمد و ثناء￿ میں مصروف تھے۔
درختوں پر بسیرا کیے پرندے بھی اپنے اپنے بچوں کو بیدار کرکے گزشتہ رات کے جمع کیے دانوں سے ان کو ناشتہ کرارہے تھے، ننھے ننھے پرندوں کے بابا جان آج کے دن کے لیے راشن تلاش کرنے نکل پڑے تھے۔ جب کہ ماما جان اپنے اپنے گھونسلوں کی صفائی ستھرائی کررہی تھیں، انہی درختوں میں سے ایک درخت پر چڑیا بی اپنے دو ننھے ننھے بچوں کے ساتھ رہ رہی تھیں، بچوں کے ابا یعنی چڑے میاں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ دانہ کی تلاش میں نکل پڑے تھے، معمول کے مطابق چڑیا بی نے اپنے بچوں کو نہلایا دھلایا اور دیگر کام کاج سے فارغ ہو کر اب وہ پڑوس کے درخت پر بی فاختہ کے بچوں کی طبیعت دریافت کرنے گئی ہوئی تھیں۔ بی فاختہ کے بچے کئی روز سے سرد موسم کے باعث بیمار ہوگئے تھے۔
جاتے جاتے چڑیا بی اپنے بچوں کو کہہ کر گئی تھیں کہ دیکھو شرارتیں نہ کرنا ورنہ شیطان کے چیلے کوے آکر تمہیں کچا کھا جائیں گے، ادھر چڑیا بی کے جاتے ہی بچوں پر کووں کا خوف طاری تھا مگر یہ ڈر ان کی شرارتی اور بے چین طبیعت پر زیادہ دیر حاوی نہ رہ سکا اور دونوں بچوں نے کھیل کود شروع کردیا۔ کھیل یہ تھا کہ دونوں بچے بیک وقت اپنے گھونسلے سے اڑان بھرتے اور زمین پر آکر ایک تنکا اٹھا کر واپس گھونسلے میں لے جاتے۔ جو پہلے واپس آتا وہ جیت جاتا
دو دفعہ تنکے اٹھا کر لانے کے بعد تیسری دفعہ آخری بار مقابلہ کے لیے دونوں نے اپنے پر تولے اور زمین پر آنے لگے، ابھی وہ زمین سے کچھ فاصلے پر ہی تھے کہ یکایک کسی چیز نے انہیں آگھیرا اور وہ دونوں ایک مضبوط شکنجے میں پھنس گئے، ننھے ننھے بچوں کے جب حواس بحال ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ دونوں کسی انسانی قافللے کے ہاتھوں جکڑ لیے گئے ہیں، جب انہوں نے سوچا کہ یہ شکاری ہمیں پکڑ کر لے جائیں گے، بس یہ جاننا تھا کہ دونوں اپنے بچا? کے لیے چیخ و پکار شروع کردی۔
ادھر چڑیا بی کو جب کسی کی چیخ و پکار سنائی دی تو وہ پریشان ہوگئیں کہ اللہ خیر کرے کہیں یہ میرے بچے تو نہیں رو رہے، جب چڑیا بی نے اپنے درخت کے قریب آکر یہ منظر دیکھا کہ ان کے دونوں ننھے ننھے معصوم سے روئی کے گالے بچے انسانی شکار بننے جارہے ہیں تو ان سے رہا نہ گیا، حلیہ سے یہ انسان تو بہت اچھے معلوم ہوتے تھے مگر چڑیا بی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر انہوں نے ان کے بچوں کو کیوں پکڑ لیا ہے، اپنی جان خطرے میں ڈال کر وہ ان چند آدمیوں کے گرد اپنے پر پھیلا کر ان کے سروں پر منڈلانے لگیں اور ساتھ ساستھ اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ میرے بچوں کو ان نیک بختوں سے نجات دلادے، یہ تو بے قصور ہیں، ابھی چڑیا بی اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ ہی رہی تھیں کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک اور شخص اس انسانی قافلہ کے ساتھ آملے۔ یہ شخص ان سب میں بہت بااخلاق، شریف اور بھلے معلوم ہوتے تھے اور اس پورے گروہ کے سردار بھی شاید یہی تھے۔ جیسے ہی انہوں نے دیکھا کہ چڑیا بی کے دو ننھے ننھے معصوم بچے ان کے ساتھیوں کے قبضے میں ہیں اور ان بچوں کی ماں پریشان ان کے گرد منڈلارہی ہے تو وہ فکر مند ہوگئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کس نے ان معصوم بچوں کو پکڑ کر بے زبان چڑیا کو تکلیف پہنچائی ہے، قافلہ کے لوگوں نے اپنے سردار کو سارا ماجرا کہہ سنایا کہ جب آپ اپنی ضرورت کے لیے گئے تو ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا، جب سے یہ چڑیا اپنے بچوں کے پیچھے ہمارے سروں پر منڈلارہی ہے۔
اس قافلہ کے سردار نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ فوراً ان معصوم بچوں کو چھوڑ دیا جائے، چنانچہ ساتھیوں نے فوراً حکم کی تعلیم کی اور یوں چڑیا بی نے ان کے سردار کو تشکر آمیر نظروں سے دیکھا اور خوشی خوش اپنے بچوں کو لے کر اپنے گھونسلے کی جانب اڑ گئیں۔
پیارے بچو! کیا آپ جانتے ہیں یہ نیک لوگ کون تھے، یہ نیک لوگ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے ساتھی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تھے اور اس قافلہ کے سردار خود ہمارے پیارے نبی حضرت محمد 
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو کہ تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر اس دنیا میں تشریف لائے۔
٭٭٭

محنت کی برکت

عائشہ ملک نذیر احمد

شاہنواز سندھ کے ایک چھوٹے سے گائوں میں رہتا تھا۔ اس کا باپ ایک زمیندار تھا۔ گھر میں اس سے محبت کرنے والی ماں باپ کے علاوہ کئی نوکر چاکر تھے۔ جو اس کا ہر وقت خیال رکھتے تھے گائوں میں کوئی اسکول نہ تھا کہ شاہنواز تعلیم پاتا۔ اس سے بہت محبت کرتا تھا۔ ہمیشہ اسے اچھی اچھی کہانیاں اور بزرگوں کے واقعات سناتا، اسے اچھی بری باتوں میں تمیز کرنا سکھاتا، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے محبت کی تلقین کرتا، اس کے ساتھ رہ کر شاہنواز بہت سی اچھی اچھی باتیں سیکھ گیا تھا۔ وہ اللہ ڈنو کا نام لینے کے بجائے اسے ہمیشہ چاچا کہہ کر پکارتا تھا۔ ایک بار گائوں میں زبردست سیلاب آیا، شاہنواز کے والدین اس وقت کسی دوسرے گائوں سے بیل گاڑی پر واپس آ رہے تھے کہ سیلاب نے آلیا اور ساتھ بہالے گیا۔ ان حالات میں شاہنواز اکثر اداس رہتا اور پریشان ہو کر رونے لگتا۔ اسے وقت میں بھی اللہ ڈنو نے شاہنواز کا ساتھ نہ چھوڑا وہ اس کی ہمت بڑھاتا رہتا اور اسے کچھ نہ کچھ کام کرنے کی تاقیات دیتا رہتا، شاہنواز کام کرنے میں شرم آتی تھی۔ ایک روز اللہ ڈنو نے اسے سمجھایا۔ بیٹا ہم مسلمان ہیں ہمیں محنت سے روزی کمانے میں شرمانا نہیں چاہیے ہمارے پیارے نبیؐ دنیا کہ عظیم ترین انسان تھے۔ وہ بھی اپنا کام خود کرتے تھے۔ تم بھی اٹھو محنت کرو محنت میں عظمت ہے اور اسی میں برکت ہے۔ مگر چاچا مجھے بتائو میں کیا کروں، کرنا کیا ہے۔ زمینیں موجود ہیں ہم اس پر محنت کریں گے تو اللہ برکت دے گا۔ اب حالات ایک بار پھر وسے ہی ہو گئے۔ جسے اس کے باپ کی زندگی میں تھے اب پھر اس کے گھر میں نوکر چاکر تھے۔ اور زمینوں پر ہاری لیکن وہ اب بھی ان کے ساتھ مل کر ہل جوتا، بیج بوتا، فصلوں کو سینچتا اور اپنی محنت کے پھل سے لطف اندوز ہوتا ہر انسان دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے خوب محنت کرتا ہے اور محنت کا پھل پاتا ہے۔
٭٭٭

قناعت

حرا ملک عزیز

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں ایک بڑھیا رہتی تھی۔ اس کے گھر میں ایک دبلی سوکھی بلی تھی، جس نے کبھی بھی خواب میں گوشت کا نام تک نہیں سنا تھا وہ کبھی بڑھیا کہ آنگن میں آنے والی چڑیا پائوں میں سے کوئی چڑیا اس کے ہاتھ لگ جاتی۔ وہ چڑیا کھا کر اپنا پیٹ بھر لیتی۔ ایک دن وہ چھت پر گئی تو ایک بلی خراماں خراماں ٹہل رہی تھی۔ بڑھیا کی بلی نے جب اپنی ہم جنس کو ایسا موٹا تازہ پایا تو حیران رہ گئی۔ اور بے اختیار بول اٹھی کہ بہن تم کہاں سے آئی ہں کیا کھاتی ہو۔ ہمسائی بلی نے جواب دیا تم جانتی نہیں میں بادشاہ کے دسترخوان کی نمک خور ہوں۔ روز صبح جب محل میں کھانا پیش ہوتا میں وہاں پہنچ جاتی ہوں پھر بڑھیا کی بلی نے پوچھا کہ یہ گوشت کیا ہوتا ہے میں نے تو بڑھیا کے گھر میں دال دلیے کے علاوہ کچھ نہیں کھایا۔ ہمسائی کی بلی نے ہنس کر کہا۔ جبھی تو تمہاری شکل بالکل لکڑی کی طرح نظر آرہی ہے۔ تمہیں تو بلی کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ ہاں اگر تو بادشاہ کے محل کے لذیز کھانے کی خوشبو سونکھ لو تو شاید تمہاری کایا پلٹ جائے، یہ خوشخبری سننے کے بعد بڑھیا کی بلی چھت سے اتر آئی اور بڑھیا سے تمام ماجرا بیان کیا بڑھیا نے نصیحت کرنے لگی کہ دیکھو لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آیا کرو۔ جو کچھ روکھی سوکھی ملتی ہے۔ اس پر قناعت کرو، مگر بلی کے دماغ میں بادشاہ کے دستر خوان کا سود ایسا سمایا تھا۔ کہ اس نے اس نصیحت کی پروا نہ کی، دوسرے دن ہمسائی بلی کے ساتھ محل جا پہنچی وہاں پہلے سے بلیاں شاہی دسترخوان کے گرد جمع ہو گئی تھی۔ بادشاہ نے یہ دیکھ کر فوراً حکم دیا کہ تیر کا نشانہ لگیں۔ بیچاری بڑھیا کی بلی کو اس حکم کی یہ خبر تھی جو نہی کھانے کی خوشبو ناک تک پہنچی تو تیر ٹانگ پر لگا گیا۔ ٹانگ سے خون ٹپکنے لگا، بلی لنگڑاتے ہوئے اپنی پوری قوت سے بھاگ گئی۔ اور کہتی گئی میں بڑھیا کی باتوں پر نصحیت کرتی تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا، اور اس نے سبق سکھ لیا کہ کسی دوسروں کی باتوں میں نہیں آئو گی۔ جو قناعت جو کچھ ملے گا۔ کھا لو گئی،
٭٭٭

فرائض کی ادائیگی

رابعہ ظفر

کسی شہر میں ایک خاندان والدین اور اپنے چار بیٹوں کے ساتھ رہتا تھاچاروں بیٹے چاوید، اسلم، آصف، یاسر اوپر تلے کے تھے اچھا خاصا خوشحال گھرانہ تھا ماں باپ کے دل میں اپنے بچوں کو پڑھنا لکھا کر قابل بنانے کی فکر تھی اس لیے وہ ان کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دیتے تھے لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک دن جب بچوں کے والدین کچھ سامان لینے شہر کی مارکیٹ جانے کے لیے بس میں سوار ہوئے تو تھوڑی ہی دور جا کر بس میں ایک زور دار دھماکہ ہوا سارے مسافروں کے ساتھ ان بچوں کے والدین بھی جاں بحق ہو گئے چاروں بچوں پر تو قیامت ٹوٹ گئی رشتہ داروں اور محلے والوں نے کچھ دن تو خیال رکھا کیکن کب تک؟ ایسے میں بڑے بھائی جاوید نے ہمت کری اور اپنے والدین کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہمت باندھی اس نے اپنی تعلیم ادھوری جھوڑی اور ایک کار خانے میں سروس کر لی تاکہ اپنے بھائیوں کی ضرویات کو پورا کر سکے اس مقصد کے لیے وہ اکثر ڈبل ڈیوٹی کرتا آخر اس کی رات دن کی محنت رنگ لائی اور اسلم پولس آفیسر بن گیا کچھ ہی عرصے بعد آصف ایک مشہور وکیل تھا اور یاسر ایک انجینئر لیکن تیزی سے گزرتے وقت اور محنت نے جاوید کو بہت کمزور کر دیا تھا اس نے گھر کو سنبھالا دینے کے لیے دو بھائیوں کی شادی کر دی لیکن بھابیاں گھر تو کیا سنبھالتیں اسلم اور آصف کو لیکر علیحدہ گھروں میں شفٹ ہو گئیں۔ جاوید کو بہت دکھ ہوا اور پھر یہ دکھ اس کی جان کا روگ بن گیا۔ اس کے بائی اسے سہارا دے سکتے تھے لیکن وہ تو اپنے اپنے گھروں میں مگن ہو چکے تھے ایسے میں جاوید کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی ڈاکٹروں نے ٹیسٹ کراے تو پتہ چلا کہ جاوید کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے اس نے بھائیوں سے اپنی بیماری چھپا کر اپنے علاج کے لیے ان سے کچھ رقم مانگی تو تینوں نے ٹال مٹول سے کام لیا آخر جاوید دلبرداشتہ ہو کر گھر کا ہو رہا۔ اس کو بھائیوں کے رویے پر افسوس تو بہت ہوتا تھا لیکن وہ سوچتا میں نے تو اپنا فرض نبھایا ہے اپنے والدین کی خواہش کا احترام کیا ہے کسی پر احسان تو نہیں کیا جو میں انہیں بد دعائیں دوں یہ سوچ کر وہ ذہنی طور پر مطمئن ہو جاتا۔ وہ روز بروز موت کے قریب ہو رہا تھا اور چھوٹے بھائی اپنی دنیا میں مگن کہ ایک دن جاوید زندگی کی بازی ہار گیا۔ جب بھائیوں نے اس کی موت کے بعد اس کے ٹیسٹ دیکھے تو انہیں اپنے روئیوں پر بہت ندامت ہوئی اور پھر ساری زندگی وہ اپنے آپ کو بھائی کی موت کا قصور وار سمجھ کر ذہنی خلفشار کا شکار رہے سچ ہے اپنا فرض ادا کرکے آدمی مطمئن اور فرض سے کوتاہی اسے بے چین رکھتی ہے۔ پیارے بچو! ابھی ہمارے پاس وقت ہے جم اپنے حصے کے فرائض ادا کرتے رہیں تو ہمیں اطمنان نصیب ہو گا!
٭٭٭

یہ راہ مشکل نہیں

کوثر عبدالقیوم

رمشاء کہنے کو ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوئی لیکن مسلمان کہلانے کے باوجود عمل سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسلام کے بنیادی عقائد و فرائض سے بھی بے پرواہ یہ گھرانہ دنیا کی فضولیات میں اپنا وقت اور پیسہ خرچ کررہا تھا جس کی وجہ سے پاس پڑوس والے بھی نالاں رہتے کیونکہ جب بے ہنگم گانوں کی آوازیں گونجتیں تو وہ بہت بے سکون ہوتے لیکن ہمت نہ کرتے کہ محلے میں ان کا ایک قسم کا رعب تھا کیونکہ رمشاء کے والد کا چلتا ہوا بڑا بزنس تھا اور اس کی ماما ایک بیوٹی پارلر چلاتی تھیں۔ رمشا ایک بڑے اسکول میں زیر تعلیم تھی اور اس کو اللہ نے اپنے دین سے رغبت دی تھی جب اسمبلی میں تلاوت ہوتی اور حمد و نعت پڑھی جاتی تو اسے ذہنی سکون محسوس ہوتا خاص کر جب کوئی بچی تلاوتِ قرآن کرتی تو اس کی حسرت ہوتی کہ کاش مجھے بھی قرآن کی تلاوت آتی اور میں بھی اس جگہ کھڑی ہوتی۔ مگر والدین تو دنیا کی طرف راغب اور اس ہی میں مگن جب وہ اسکول سے گھر واپس آتی تو گھر میں وہی گانے بجانے کا ماحول ہوتا کسی کو بھی شائر اسلام حد ہے آذان کی آواز کی بھی پرواہ نہ ہوتی رمشا کو یہ سب کچھ بہت برا محسوس ہوتا لیکن وہ کہتی تو کوئی نہ سنتا۔
ایک دن اسکول میں اسلامیات کا پیریڈ تھا مس روبینہ نے اس سبق سنانے کو کہا جو قرآن کی ایک سورۃ تھی۔ رمشا نے اپنا سر شرمندگی سے جھکا لیا۔ اور مس کو بتایا کہ اس نے قرآن نہیں پڑھا مس روبینہ نے کہا کوئی بات نہیں تم ہاف ٹائم میں میرے پاس اسٹاف روم میں آنا۔
جب بریک ہوئی تو رمشہ سیدھی اسٹاف روم میں مس روبینہ کے پاس پہنچ گئی۔ مس نے رمشا سے پوچھا بیٹا آپ نماز پڑھتی ہیں؟ رمشا نے انکار میں سر ہلا کر شرمندگی سے بتایا کہ مجھے تو کسی نے نماز پڑھنا سیکھائی ہی نہیں۔ ہمارے گھر میں کوئی بھی نماز نہیں پڑھتا اسی لیے مجھے بھی نماز پڑھنا نہیں آتی۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں نماز پڑھوں سیکھوں مگر یہ سب مجھے مشکل لگتا ہے کہ لوگ میرا مذاق اڑائیں گے۔ مس روبینہ نے کہا اس میں مذاق اڑانے کی کوئی بات نہیں ضرورت صرف سچھی لگن اور جذبے کی ہے اگر ہمارا ایمان پختہ ہو اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح کی طلب ہو تو پھر کچھ بھی مشکل نہیں رہتا۔ انسان اللہ کی راہ میں قدم بڑھانا ہے تو اللہ خود اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تم روزانہ ہاف ٹائم میں میرے پاس آجایا کرو میں تمہیں قرآن پڑھنا سیکھا دونگی ہم آخر اور علوم بھی تو سیکھاتے ہیں جس مضمون میں بچہ کمزور ہوتا ہے اس پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور زیادہ محنت کرتے ہیں تو پھر اس کو کیوں نظر انداز کریں مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ تم ساتویں کلاس میں بغیر سیکھے کیسے آگئیں؟ اگر تم حساب وغیرہ میں کمزور ہوتیں تو فیل کی جاتیں اور خصوصی توجہ دی جاتی۔ ہم آخر کیسے مسلمان ہیں کہ قرآن اور قرآنی کی تعلیم کے معاملے میں اتنی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ رمشا کے ساتھ دوسری ٹیچرز بھی مس روبینہ کے خیالات سے اتفاق کررہی تھیں انہوں نے کہا رمشا اس میں آپ کا قصور نہیں ہے بلکہ ہم سب کا قصور ہے انشااللہ آئندہ ہم سب اپنے اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہوئے اپنے طلباء کو دوسرے سبجیکش کی طرح اسلامیات کے مضمون پر بھی محنت کرائیں گے۔ تاکہ وہ اچھے مسلمان اور اچھے شہری بن سکیں۔
٭٭٭

علم پر عمل

شفق ناصر

زمانہ قدیم سے تعلق رکھنے والی حکایات میں سے ایک حکایت…
ایک شہزادہ اپنے استاد سے سبق پڑھ رہا تھا استاد نے اسے دو جملے پڑھائے…
’’چھوٹ نہ بولو‘‘، ’’غصہ نہ کروں‘‘
کچھ دیر بعد جب شہزادے سے سبق سنانے کو کہا گیا تو اس نے جواب دیا کہ سبق ابھی یاد نہیں ہوا۔ وہ دن تو گزر گیا۔ دوسرے دن پھر جب استاد نے سبق سنانے کو کہا تو شہزادے نے دوبارہ وہی جواب دیا کہ سبق ابھی یاد نہیں ہوا۔
استاد کو غصہ آیا مگر اس نے کچھ نہ کہا۔ تیسرا دن آگیا پھر استاد نے کہا کہ سبق سنائو، تو شہزادے نے پھر وہی بات دہرادی کہ ابھی سبق یاد نہیں ہو سکا۔ اب تو استاد اس قدر غضبناک ہوا کہ اس نے طیش میں آکر شہزادے کو زور کا تھپڑ رسید کیا کہ یہ کوئی بات ہے کہ دو چھوٹے چھوٹے جملے تین دن میں بھی یاد نہیں ہو سکے۔ تھپڑ کھا کر شہزادہ چند منٹ خاموش بیٹھا رہا اور پھر استاد سے کہنے لگا کہ اب سبق سن لیجیے مجھے یاد ہو گیا ہے۔ استاد کو اس حرکت پر بہت تعجب ہوا کہ جو سبق تین دن سے یاد نہیں ہورہا تھا، وہ تھپڑ کھاتے ہی کیسے یاد ہو گیا جب شہزادے سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا ’’بات یہ ہے کہ آپ نے مجھے دو باتیں پڑھائی تھیں، ایک ’’جھوٹ نہ بولو‘‘ اور دوسرا ’’غصہ نہ کرو‘‘ جھوٹ بولنا تو مَیں نے اس دن سے ہی چھوڑ دیا تھا ’’مگر‘‘ ’’غصہ نہ کرو‘‘ بہت مشکل چیز تھی۔ بہت کوشش کرتا رہا کہ غصہ نہ آئے مگر غصہ آجاتا تھا اب جب تک میں غصے پر قابو نہ پا لیتا آپ سے کیسے کہتا کہ سبق یاد ہو گیا ہے آج جب آپ نے مجھے تپھڑ مارا تو میں نے غور کیا کہ مجھے غصہ آیا ہے یا نہیں تو مجھے محسوس ہوا کہ تین دن کی کش مکش کے بعواس پر اب میں نے قابو پا لیا ہے کیونکہ آپ سے تھپڑ کھا کر مجھے بالکل غصہ نہیں آیا تھا اس لیے میں نے آپ کو بتا دیا کہ سبق یاد ہو گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو علم حاصل کیا جاتا ہے اس کا اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس پر عمل بھی ہو۔
٭٭٭

بلا عنوان

گلشن اکبر

ناصر! تم فضلو چچا کی دکان سے پٹاخے لانا اور احمد تم! کیک لانا اور فاضل تم پھول والے کی دوکان سے بہت ساری گلاب کی کلیاں اور گلاب کے پھول کی پتیاں اور چنبلی کے پھول کی پتیاں الگ الگ لانا اور چار بکیٹ خاص طور پر لانا آخر فیضلہ خالہ بھی تو آ رہی ہیں توقیر نے سب کو سارے کام سمجھاتے ہوئے جو انہیں آج رات کی پارٹی کے لیے کئے جانے تھے۔ ناصر بھائی پلیز آپ میرے لیے پھولجڑیاں ضرور لانا فائزہ نے اپنے بھائی سے فرمائش کرتے ہوئے کہا۔ ناصر! انار والے پٹاخے ضرور لانا کیونکہ ان کی بہت تیز آواز ہوتی ہے احمد نے بھی تاکیداً کہا۔ ’’نازیہ تمہیں تو اپنا سارا کام یاد ہے نا‘‘ توقیر نے نازیہ کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلاتے ہوئے کہا۔ جی بھائی مجھے کمرہ دیکو ریٹ کرنا ہے اور آپ سب کے کپڑے استری کرنے ہیں رات کی پارٹی کے لیے سموسے وغیرہ بنانے ہیں اور ہاں کلیاں بھی تو الگ کرکے رکھنی ہے تاکہ صبح سویرے سب فرینڈز کو بھجوا سکوں نازیہ نے بڑی سمجھداری سے اپنی ذمہ داری گنوا دی۔
ارے بچوں تم یہاں آپ کی خالہ بس آنے والی ہیں نبیلہ نے اپنے بچوں کو بہن کے آنے کی خبر سنائی اور جاتے جاتے توقیر سے کہنے گلی ’’توقیر تم اپنی خالہ کو لینے بس اسٹاپ چلے جانا‘‘
نبیلہ کے جاتے ہی سب پھر سے اپنی اپنی پلاننگ میں مصروف ہو گئے کیوں نہ خالہ کو بھی نیو ایر سر پرائز دیا جائے‘‘ نازیہ نے مشورہ دیا۔ نہیں نازیہ ہو سکتا ہے خالہ کو پسند نہ آئے ویسے بھی امی کہہ رہی تھیں کہ خالہ اب بہت مذہبی بن گئی ہیں۔ توقیر نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ خیر چھوڑو جو ہو گا دیکھا جائے گا لیکن ایک سرپرائز میری طرف سے تمہارے لیے ہے، لیکن چلو ابھی بہت وقت ہو گیا سب اپنی اپنی ڈیوٹیز سنبھال لو۔ توقیر نے سب کو متنبہ کرتے ہوئے کہا۔
تھوری دیر بعد فضیلہ بھی اپنی بہن کے گھر آچکی تھی سب بچوں نے ان کا خوش دلی سے استقبال کیا اور کیوں نہ کرتے آخر خالہ انہیں بہت محبت کرتی تھی۔
’’ارے نبیلہ مجھے آئے ہوئے شام ہو چکی ہے لیکن ابھی تک تمہارا کوئی بچہ گھر پر نہیں ہے‘‘ اور نازیہ بھی کافی دیر سے نظر نہیں آرہی آخر کہاں ہیں یہ سب فضیلہ نے مغرب کے بعد بچوں کو غیر موجودگی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ تیاریاں کر رہے ہیں سب رات کی‘‘ ’’فازیہ کمرہ ڈیکوریٹ کررہی ہے اور بچے سب اپنے اپنے کام سے باہر ہیں‘‘ فضیلہ نے جواب دیا۔ تیاریاں کیسی تیاریاں؟ کیوں کیا آج خاص دن ہے فضیلہ نے پوچھا تمہیں نہیں معلوم! آج ہیپی نیو ائیر نائٹ ہے نا۔ سب اسی کی پارٹی کی تیاریاں کر رہے ہیں نبیلہ نے چائے کے کپ رکھتے ہوئے کہا گویا کہ وہ اپنے بچوں کے کارناموں پر فخر کررہی تھی۔ نیوائیر پارٹی لیکن کیوں؟ فضیلہ نے منہ ہی منہ میں بڑ براتے ہوئے کہا ’’لیکن نبیلہ یہ تو ہمارا تہووار نہیں اور تم بچوںکو منع بھی نہیں کررہی ہو فضیلہ نے نبیلہ کو اس کی غلطی کا احساس دلایا۔
آخر بچے ہی تو ہیں اور پھر بچوں کی خوشی میں ہی تو ہماری خوشی ہے نبیلہ نے اپنے بچوں کی طرفداری کرتے ہوئے کہا یہ دو تہوار ہماری خوشیوں کے لیے کم ہیں۔ فضیلہ نے نبیلہ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ آخر سب ہی تو کر رہے ہین پھر ہم اپنے بچوں کو کیسے روکیں کیونکہ یہ سب تو باہر کے ماحول میں عام سی بات ہے ویلنٹائن، اپریل فول، نیوائیر، برتھ ڈے وغیرہ وغیرہ… پھر جب یہ چیزیں ہمارے معاشرے میں زہر کی طرح سرایت کر چکی ہے تو ہم اپنے بچوں کو اس سے کس طرح دور رکھیں اور کیسے اس زہر کا شرباق کریں؟ نبیلہ نے اپنی مجبوری کا اظہار کیا (جیسا کہ ہم ہر غلطی اور کوتاہی کی ذمہ داری معاشرہ پر ڈال دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ معاشرہ ہم سے ہی تو بنتا ہے)
خیر چھوڑو ابھی نوجوانی ہے اسی لیے مزے کر رہے ہیں جب ہماری عمروں کو پہنچیں گے تو سب کچھ چھوڑ دیں گے وقت انہیں خود ہی سمجھدار بنا دے گا۔ نبیلہ نے چائے کے خالی کپ اٹھائے اور کچن کی طرف چلی گئی۔
’’کیا ہر روز اک نیا تہوار موج مستیاں کیا یہ ہمارے مسلم معاشرہ کا شیوہ ہے کیا اس کے علاوہ اور کوئی زندگی کا مقصد نہیں ہر چیز کا دن مقرر کرکے اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہی کسی چیز کے اہم ہونے کا طریقہ ہے کیا ہمیں وقت کی قدر نہیں ہے آخر کیا جواب دیں گے جب اللہ ہم سے سوال کرے گا کہ بتائو تم نے عمر کہاں گزاری مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا کیا ہم اللہ کو ہی جواب دیں گے کہ ہم نے ساری عمر خرافات میں گزاری مال فضول رسموں اور غیر مسلم کی تقلید میں لگایا۔ آخر ہم اپنی نسل کو ان خرافات سے کیوں نہیں روک سکتے فضیلہ گہری سوچوں میں گم ہو گئی اور اپنے دل سے کوئی جواب نہ پا کر انہیں گھتیوں کو سلجھاتے ہوئے۔ اس کی آنکھ لگ گئی۔
راب بارہ بجنے میں پانچ منٹ تھے ساری تیاریاں مکمل تھی فائز بہت خوبصورت فرار زیب تن کی۔ گلاب کی کلیاں اور پھولوں کی پتیاں پورے کمرے کے ماحول کو اور مسحور کن بنا رہی تھیں۔ کیک پر چاکلیٹ سے بڑی خوبصورتی سے "Happy New Years 2013" لکھا گیا تھا نازیہ نے بھی اپنی پارٹی کو خوبصورت بنانے میں دل جان ایک کر دیا۔ اور خود بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی آخر میں فضیلہ بھی نبیلہ کے بے حد اصرار پہ ناچاہتے ہوئے بھی پارٹی میں آگئی۔ ٹھیک بارہ بجے کیک کاٹا گیا پٹاخے پھوڑے گئے ہر طرف گہما گہمی اور شور کا ماحول تھا فائزہ نے بھی اپنی پھولجڑی جلائی اور پھر ایک پھولجڑی کی چنگاری نے اس کی فرار کو جلا ڈالا اور پھر چاروں طرف آگ آگ کا شور تھا اور ان شور میں سب سے بلند آواز نبیلہ کی تھی ’’ہائے میری بچی جل گئی بچائو ہائے میری بچی…
فائزہ کو اسٹریچر پر ڈال کر ایمرجنسی روم لے جایا گیا۔ بھائی سب ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے سب کے چہرے شرمندگی عیاں تھی کہ وہ خود ہی اپنی بہن کے جلانے کا سامان لائے تھے اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا ایک لیڈی ڈاکٹر باہر آئی آپ کی بچی کا 60% فیصد جسم جل چکا ہے فراک تقریباً اس کی کھال سے چپک چکی ہے ہمیں سرجری کرنا پرے گی۔ فی الحال آپ کی بیٹی کومہ میں ہے۔
اس کے بعد نبیلہ کو ہوش نہ رہا اور وہ بہن کے ہاتھوں میں ہی جھول گئی نازیہ پر سکتہ طاری ہو گیا اسے سمجھ نہیں آرہا کہ وہ ماں کو سنبھالے یا بہن کا غم برداشت کرے فضیلہ کی حالت یہ تھی کہ وہ پھترائی ہوئی آنکھوں سے سب کو دیکھ رہی تھی فضیلہ نے بہن کے سر کو گود میں رکھے سوچ رہی تھی کہ میری بہن کا خاندان بھی ایک غلط رسم کی بھینٹ چڑھ گیا کاش فضیلہ انہیں روک لیتی تو یہ سب نہ ہوتا کیونکہ مسلمان کے تہوار ان سب خرافات سے پاک ہیں اس لیے وہ ایسی تباہی اور حادثات سے بچے رہتے ہیں فضیلہ نے ایک نظر اپنی بے ہوش بہن کے چہرے پرڈالی جس کی تباہی اپنے ہاتھوں ہی تھی اور پھر دو آنسو اس کے آنکھ سے نکلے اور اس کے گالوں پر پھیل گئے وہ سوچ رہی تھی کہ جب بھی ہم نے اپنے مذہب کو چھوڑ کر باطل مذاہب کی پیروی کی کوشش کی ہے ہم اس طرح تباہ و برباد ہوئے اور اس بار یہ تباہی نبیلہ کے خاندان کی قسمیت میں تھی۔
٭٭٭

ایک یاد گار دن… سارا دن خوار ہوئے ہم

فریحہ ارشد

یہ واقعہ سردی کی چھٹیوں کا ہے۔ چھٹیوں کے تیسرے دن امی نے ابو سے ہمارے پاسپورٹ بنوانے کا کہا کیونکہ امی ہم سب کو لے کر عمرے پر جانا چاہتی تھیں۔ طے یہ پایا کہ اگلے دن صبح آٹھ بجے پاسپورٹ آفس روانہ ہوجائیں گے۔ ہم چاروں بہنوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سب نے جلدی جلدی کپڑے استری کیے، جوتے چپلیں نکالیں۔ اور وہاں بھوک لگے گی اس لیے میں اور مجھ سے چھوٹی بہن کھانے پینے کی چیزیں خریدنے گئے۔ جب چیزیں لے گھر پہنچے تو ایک اودھم مچ گیا۔ اور کیوں نہ مچتا، بات ہی کچھ ایسی تھی… ہر بسکٹ چاکلیٹ والا، بے کار ٹاٹری والے پاپڑ… دونوں بڑی بہنیں غصے سے چلاّ اٹھیں۔ مریم بولی: ’’کیا اٹھا کر لے آئی ہو… دکان گئی تھیں یا کوڑے دان!‘‘ خوب ڈانٹ پڑی۔ چھوٹی بہن نے معصوم بن کر بول دیا کہ یہ تو فریحہ لائی ہے اور میری شامت آگئی۔ خیر اللہ اللہ کرکے رات گزر گئی۔
صبح سات بجے ہی امی کی دھماکے دار آواز آئی ’’کب تک منہ لپیٹے سوتی رہوگی، پاسپورٹ آفس نہیں جانا کیا؟‘‘ جیسے ہی پاسپورٹ آفس کا نام سنا اپنی تیاریاں یاد آئیں۔ فوراً اٹھ بیٹھے، جلدی جلدی تیار ہوئے، ناشتہ کیا… اور ناشتہ بھی کیا، ایک بغیر جیم یا بغیر مکھن کا سلائس چائے میں ڈبوکر کھا لیا۔ 
اس کے بعد ہم روانہ ہوگئے۔ راستے سے دادی جان کو لیا، کیونکہ ان کا پاسپورٹ بھی تو ایکسپائر ہوگیا تھا۔ صبح کے سہانے موسم سے سفر کو چار چاند لگ گئے۔ بڑا ہی سکون والا اور مزے دار سفر تھا۔ راستے میں قائداعظم کا مزار بھی آیا مگر ابو نے گاڑی روکنے سے انکار کردیا اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ خیر جلد ہی ٹھیک بھی ہوگئے۔
پاسپورٹ آفس پہنچتے ہی مشکلات شروع ہوگئیں۔ گاڑیوں کا اتنا ہجوم تھا کہ ہماری گاڑی ایک زنگ آلود ڈنڈے سے جا ٹکرائی اور اس پر ڈینٹ پڑگیا۔ اندر گئے تو لوگوں کا اتنا ہجوم تھا کہ ہمارے دلوں پر ڈینٹ پڑگئے۔ لائن اتنی لمبی تھی کہ سب ہی کے ماتھوں پر شکنیں پڑ گئیں۔ خیر ابو فارم لے کر آئے اور بیٹھ کر جلدی جلدی پُر کرنے لگے۔ ابو کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، ان کا تو باہر کے ملکوں میں کاروبار کے سلسلے میں آنا جانا لگا ہی رہتا تھا۔ فارم پُر کرکے ہم لائن میں لگ گئے۔ بہت لمبی لائن تھی۔ اللہ اللہ کرکے ہماری باری آئی اور ٹوکن لے کر ہم اگلے مرحلے پر آگئے۔ وہاں پہنچے تو سرہی چکرا گیا۔ وہاں بھی طویل قطار تھی۔ اور سر چکرانے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں پر ہم بچوں اور امی کی لائن الگ اور ابو کی لائن الگ تھی۔ پھر دادی سے کہا گیا کہ سینئر سٹیزن والی لائن میں جائیں، وہاں ہماری دادی سارا وقت کھڑی رہیں جس کی وجہ سے ان کی ٹانگوں میں شدید درد ہوگیا۔ ہم نے سوچا، تھوڑی ہی دیر کی بات ہے، نمبر آجائے گا۔ مگر کیا پتا تھا کہ گھنٹوں کھڑا رہنا پڑے گا۔ اچانک ذہن میں دادی کا خیال آیا۔ ہم بڑے پریشان ہوئے۔ بھوک کا احساس ہونے لگا تو چیزیں یاد آگئیں۔ ہم نے ساری چیزیں ختم کردیں۔ امی کو بھوک لگی، انہوں نے ہم سے چیزوں کے بارے میں پوچھا تو سامنے سے لٹکے ہوئے منہ پیش کردیئے گئے۔ امی سمجھ گئیں کہ ساری چیزیں کہاں گئیں۔
جب تصویر بنوانے کا مرحلہ آیا تو ہمارے چہرے گرمی، پسینے اور تھکن سے اتنے خراب ہوچکے تھے کہ اپنی تصویر دیکھ کر ہڑبڑانے لگے۔ پھر جب نمبر پتا چلا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں… 130 نمبر چل رہا تھا اور ہمارے نمبر 280سے شروع ہورہے تھے۔ یعنی ڈیڑھ سو نمبروں کا فرق تھا۔ ہم پریشان حال دادی کے پاس گئے، ان کا نمبر بھی کافی دور تھا۔ سخت گرمی میں کرسی بھی نہیں مل رہی تھی۔ ٹانگوں میں اتنا درد تھا کہ ہمارا تو بینڈ بج گیا۔  بھوک اور گرمی کی شدت الگ… ہمارا برا حشر ہوگیا۔ آخرکار ہمیں ایک آدھ سیٹ مل گئی اور وہ بھی ایسے  کہ دو انکلوں کو رحم آگیا اور انہوں نے اپنی سیٹ دے دی۔ ہماری حالت دیکھ کر ابو پریشان ہوگئے اور ہمارے لیے بروسٹ، برگر اور کولڈ ڈرنک لے آئے۔ وہ کھا کر ہماری حالت سنبھلی۔ پھر بھی نمبر نہ آیا، گھنٹوں ایسے ہی بیٹھے رہے۔  شدید پیاس لگنے لگی لیکن پانی ہمارے پاس نہ تھا۔ ہم سب کے دلوں میں بس ایک بات تھی ’’پانی ی ی ی…‘‘ ہماری ساری خوشیاں اور تیاریاں مٹی میں مل گئیں اور یاد کرنے لگے کہ ہم کتنے پُرجوش تھے یہاں آنے کے لیے، کتنا لڑے تھے چیزوں کے لیے… اور کیا ہوگیا۔
شام کو نمبر آیا۔ اس دوران ہمارے ماموں بھی آگئے، انہوں  نے ہمیں پانی پلایا۔ پتا چلا کہ وہاں بھی فلٹر تھا۔ اس کے پاس گئے اور اپنی شکل جو فلٹر میں دیکھی تو ہکا بکا رہ گئے۔ بال خراب ہورہے تھے، جو منہ پر لگایا ہوا تھا سب اتر گیا تھا۔ جب سب کچھ ہوگیا اور آخری مرحلہ آیا اور صرف فام جمع کرواکر گھر جانا تھا تو پتا چلا کہ دادی کا شناختی کارڈ ایکسپائر ہے۔ ہمیں اتنا غصہ آیا کہ پہلے جن لوگوں نے فارم بنایا انہوں نے ہمیں دیکھا۔ اب جب فارم جمع کروانے کا وقت آیا تو ان کی نظر پڑگئی۔ ہم نے سوچا کہ چلو ہمارا تو جمع ہوجائے گا۔ مگر انہوں نے کہا کہ محلے کے ناظم کی اسٹیمپ لگنی ضروری ہے۔ ہم بوکھلا گئے۔ صرف امی اور ابو کا فارم جمع ہوسکا اور ہم لٹکے لٹکے منہ سے جاکر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ بہت زیادہ ٹریفک جام تھا۔ پھر ابو نے دادی کا شناختی کارڈ بنوانے کے لیے گاڑی روکی۔ شناختی کارڈ آفس تو بند تھا مگر اس کے برابر میں ہی مارکیٹ تھی۔ ہم سب نے خوب شاپنگ کی اور دل کھول کر سامان خریدا۔ آخر اتنا خوار ہونے کا بدلہ بھی تو نکالنا تھا۔ پھر ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔ واپسی پر اتنا ٹریفک تھا کہ آدھے گھنٹے کا سفر دو گھنٹے میں طے ہوا۔ گھر پہنچتے ہی ہم ۔بستر پر جا لیٹے۔ سر اتنا چکرا رہا تھا کہ اسی وقت سوگئے۔
یہ میرا سب سے یادگار دن رہا جب ہم اتنا خوار ہوئے۔ پھر ابو نے محلے کے ناظم سے اسٹیمپ لگوائی اور فارم جمع کروا آئے۔ 
٭٭٭

alibaba

web

amazon

Followers

Website Search

Tweet Corornavirus

Please Subscribe My Chennal

Sub Ki News

 
‎Sub Ki News سب کی نیوز‎
Public group · 1 member
Join Group
 
Nasrullah Nasir . Powered by Blogger.

live track

Brave Girl

Popular Posts

Total Pageviews

Chapter 8. ILLUSTRATOR Shape Builder & Pathfinder-1

Chapter 10. Illustrator Drawing & Refining Paths-1

Labels