خود کو اور اپنے بچوں کو اس زہر سے بچائیں شکریہ۔
Heart meetJune 02, 2017Pesticide Percentage (%) in cold drinks released from PMA (Pakistan Medical Association) recently.
No comments
خود کو اور اپنے بچوں کو اس زہر سے بچائیں شکریہ۔
Pesticide Percentage (%) in cold drinks released from PMA (Pakistan Medical Association) recently.
1 Nestle juice 7.2%
2 Coke 9.4%
3 7 up 12.5%
4 Mirinda 20.7%
5 Pepsi 10.9%
6 Fanta 29.1%
7. Sprite. 5.3%
8. Frooti. 24.5%
9 Maza. 19.3%
It's very dangerous to the Human Liver.....
Results in Cancer !
Please confirm from PMA website
Lazmi send karain barish k liay Astaghfirullah, Astaghfirullah, Astaghfirullah,
PLZ....
send to all contacts
Soraj zmeen k qreeb aajaye ga Ye 1 nishani hy qiyamt ki
Aap s.a.w.w ne frmaya k jb meri ummt se Astaghfar krna kam ho ga,
To un par barish ka nazool kam ho ga.
Abhi
"ASTGHFIRULLAH" parhen aur aik b sms free hai to Send Krdo,
KUCH DEIR mein Arbon Astaghfar
ALLAH k Azab Ko Kam Kr Dein ge.
Don't stop it. Astaghfirullah.
Pesticide Percentage (%) in cold drinks released from PMA (Pakistan Medical Association) recently.
1 Nestle juice 7.2%
2 Coke 9.4%
3 7 up 12.5%
4 Mirinda 20.7%
5 Pepsi 10.9%
6 Fanta 29.1%
7. Sprite. 5.3%
8. Frooti. 24.5%
9 Maza. 19.3%
It's very dangerous to the Human Liver.....
Results in Cancer !
Please confirm from PMA website
Lazmi send karain barish k liay Astaghfirullah, Astaghfirullah, Astaghfirullah,
PLZ....
send to all contacts
Soraj zmeen k qreeb aajaye ga Ye 1 nishani hy qiyamt ki
Aap s.a.w.w ne frmaya k jb meri ummt se Astaghfar krna kam ho ga,
To un par barish ka nazool kam ho ga.
Abhi
"ASTGHFIRULLAH" parhen aur aik b sms free hai to Send Krdo,
KUCH DEIR mein Arbon Astaghfar
ALLAH k Azab Ko Kam Kr Dein ge.
Don't stop it. Astaghfirullah.
چڑیا کے بچے
Heart meetDecember 14, 2016گھنے جنگل کے پار افق پر سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور سورج کی شعاعیں درختوں کی
No comments
نام نہیں ہے
گھنے جنگل کے پار افق پر سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور سورج کی شعاعیں درختوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے جنگل کی ناہموار زمین پر بمشکل پہنچ رہی تھیں۔ گویا جنگل کی زندگی میں ہر سو اجالا پھیل چکا تھا اور اس کے ساتھ ہی تمام چرند پرند بھی اپنی اپنی نگاہوں میں میٹھی اور معصوم سی انگڑائی لے کر بیدار ہوچکے تھے، وہ سب اپنی سریلی اور خوب صورت آواز میں خدائے واحد کی حمد و ثناء میں مصروف تھے۔
درختوں پر بسیرا کیے پرندے بھی اپنے اپنے بچوں کو بیدار کرکے گزشتہ رات کے جمع کیے دانوں سے ان کو ناشتہ کرارہے تھے، ننھے ننھے پرندوں کے بابا جان آج کے دن کے لیے راشن تلاش کرنے نکل پڑے تھے۔ جب کہ ماما جان اپنے اپنے گھونسلوں کی صفائی ستھرائی کررہی تھیں، انہی درختوں میں سے ایک درخت پر چڑیا بی اپنے دو ننھے ننھے بچوں کے ساتھ رہ رہی تھیں، بچوں کے ابا یعنی چڑے میاں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ دانہ کی تلاش میں نکل پڑے تھے، معمول کے مطابق چڑیا بی نے اپنے بچوں کو نہلایا دھلایا اور دیگر کام کاج سے فارغ ہو کر اب وہ پڑوس کے درخت پر بی فاختہ کے بچوں کی طبیعت دریافت کرنے گئی ہوئی تھیں۔ بی فاختہ کے بچے کئی روز سے سرد موسم کے باعث بیمار ہوگئے تھے۔
جاتے جاتے چڑیا بی اپنے بچوں کو کہہ کر گئی تھیں کہ دیکھو شرارتیں نہ کرنا ورنہ شیطان کے چیلے کوے آکر تمہیں کچا کھا جائیں گے، ادھر چڑیا بی کے جاتے ہی بچوں پر کووں کا خوف طاری تھا مگر یہ ڈر ان کی شرارتی اور بے چین طبیعت پر زیادہ دیر حاوی نہ رہ سکا اور دونوں بچوں نے کھیل کود شروع کردیا۔ کھیل یہ تھا کہ دونوں بچے بیک وقت اپنے گھونسلے سے اڑان بھرتے اور زمین پر آکر ایک تنکا اٹھا کر واپس گھونسلے میں لے جاتے۔ جو پہلے واپس آتا وہ جیت جاتا
دو دفعہ تنکے اٹھا کر لانے کے بعد تیسری دفعہ آخری بار مقابلہ کے لیے دونوں نے اپنے پر تولے اور زمین پر آنے لگے، ابھی وہ زمین سے کچھ فاصلے پر ہی تھے کہ یکایک کسی چیز نے انہیں آگھیرا اور وہ دونوں ایک مضبوط شکنجے میں پھنس گئے، ننھے ننھے بچوں کے جب حواس بحال ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ دونوں کسی انسانی قافللے کے ہاتھوں جکڑ لیے گئے ہیں، جب انہوں نے سوچا کہ یہ شکاری ہمیں پکڑ کر لے جائیں گے، بس یہ جاننا تھا کہ دونوں اپنے بچا? کے لیے چیخ و پکار شروع کردی۔
ادھر چڑیا بی کو جب کسی کی چیخ و پکار سنائی دی تو وہ پریشان ہوگئیں کہ اللہ خیر کرے کہیں یہ میرے بچے تو نہیں رو رہے، جب چڑیا بی نے اپنے درخت کے قریب آکر یہ منظر دیکھا کہ ان کے دونوں ننھے ننھے معصوم سے روئی کے گالے بچے انسانی شکار بننے جارہے ہیں تو ان سے رہا نہ گیا، حلیہ سے یہ انسان تو بہت اچھے معلوم ہوتے تھے مگر چڑیا بی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر انہوں نے ان کے بچوں کو کیوں پکڑ لیا ہے، اپنی جان خطرے میں ڈال کر وہ ان چند آدمیوں کے گرد اپنے پر پھیلا کر ان کے سروں پر منڈلانے لگیں اور ساتھ ساستھ اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ میرے بچوں کو ان نیک بختوں سے نجات دلادے، یہ تو بے قصور ہیں، ابھی چڑیا بی اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ ہی رہی تھیں کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک اور شخص اس انسانی قافلہ کے ساتھ آملے۔ یہ شخص ان سب میں بہت بااخلاق، شریف اور بھلے معلوم ہوتے تھے اور اس پورے گروہ کے سردار بھی شاید یہی تھے۔ جیسے ہی انہوں نے دیکھا کہ چڑیا بی کے دو ننھے ننھے معصوم بچے ان کے ساتھیوں کے قبضے میں ہیں اور ان بچوں کی ماں پریشان ان کے گرد منڈلارہی ہے تو وہ فکر مند ہوگئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کس نے ان معصوم بچوں کو پکڑ کر بے زبان چڑیا کو تکلیف پہنچائی ہے، قافلہ کے لوگوں نے اپنے سردار کو سارا ماجرا کہہ سنایا کہ جب آپ اپنی ضرورت کے لیے گئے تو ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا، جب سے یہ چڑیا اپنے بچوں کے پیچھے ہمارے سروں پر منڈلارہی ہے۔
اس قافلہ کے سردار نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ فوراً ان معصوم بچوں کو چھوڑ دیا جائے، چنانچہ ساتھیوں نے فوراً حکم کی تعلیم کی اور یوں چڑیا بی نے ان کے سردار کو تشکر آمیر نظروں سے دیکھا اور خوشی خوش اپنے بچوں کو لے کر اپنے گھونسلے کی جانب اڑ گئیں۔
پیارے بچو! کیا آپ جانتے ہیں یہ نیک لوگ کون تھے، یہ نیک لوگ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے ساتھی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تھے اور اس قافلہ کے سردار خود ہمارے پیارے نبی حضرت محمد
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو کہ تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر اس دنیا میں تشریف لائے۔
٭٭٭
محنت کی برکت
Heart meetDecember 14, 2016شاہنواز سندھ کے ایک چھوٹے سے گائوں میں رہتا تھا۔ اس کا باپ ایک زمیندار تھا۔
No comments
عائشہ ملک نذیر احمد
شاہنواز سندھ کے ایک چھوٹے سے گائوں میں رہتا تھا۔ اس کا باپ ایک زمیندار تھا۔ گھر میں اس سے محبت کرنے والی ماں باپ کے علاوہ کئی نوکر چاکر تھے۔ جو اس کا ہر وقت خیال رکھتے تھے گائوں میں کوئی اسکول نہ تھا کہ شاہنواز تعلیم پاتا۔ اس سے بہت محبت کرتا تھا۔ ہمیشہ اسے اچھی اچھی کہانیاں اور بزرگوں کے واقعات سناتا، اسے اچھی بری باتوں میں تمیز کرنا سکھاتا، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے محبت کی تلقین کرتا، اس کے ساتھ رہ کر شاہنواز بہت سی اچھی اچھی باتیں سیکھ گیا تھا۔ وہ اللہ ڈنو کا نام لینے کے بجائے اسے ہمیشہ چاچا کہہ کر پکارتا تھا۔ ایک بار گائوں میں زبردست سیلاب آیا، شاہنواز کے والدین اس وقت کسی دوسرے گائوں سے بیل گاڑی پر واپس آ رہے تھے کہ سیلاب نے آلیا اور ساتھ بہالے گیا۔ ان حالات میں شاہنواز اکثر اداس رہتا اور پریشان ہو کر رونے لگتا۔ اسے وقت میں بھی اللہ ڈنو نے شاہنواز کا ساتھ نہ چھوڑا وہ اس کی ہمت بڑھاتا رہتا اور اسے کچھ نہ کچھ کام کرنے کی تاقیات دیتا رہتا، شاہنواز کام کرنے میں شرم آتی تھی۔ ایک روز اللہ ڈنو نے اسے سمجھایا۔ بیٹا ہم مسلمان ہیں ہمیں محنت سے روزی کمانے میں شرمانا نہیں چاہیے ہمارے پیارے نبیؐ دنیا کہ عظیم ترین انسان تھے۔ وہ بھی اپنا کام خود کرتے تھے۔ تم بھی اٹھو محنت کرو محنت میں عظمت ہے اور اسی میں برکت ہے۔ مگر چاچا مجھے بتائو میں کیا کروں، کرنا کیا ہے۔ زمینیں موجود ہیں ہم اس پر محنت کریں گے تو اللہ برکت دے گا۔ اب حالات ایک بار پھر وسے ہی ہو گئے۔ جسے اس کے باپ کی زندگی میں تھے اب پھر اس کے گھر میں نوکر چاکر تھے۔ اور زمینوں پر ہاری لیکن وہ اب بھی ان کے ساتھ مل کر ہل جوتا، بیج بوتا، فصلوں کو سینچتا اور اپنی محنت کے پھل سے لطف اندوز ہوتا ہر انسان دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے خوب محنت کرتا ہے اور محنت کا پھل پاتا ہے۔
٭٭٭
قناعت
Heart meetDecember 14, 2016ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں ایک بڑھیا رہتی تھی۔ اس کے گھر میں ایک دبلی سوکھی بلی تھی،
No comments
حرا ملک عزیز
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں ایک بڑھیا رہتی تھی۔ اس کے گھر میں ایک دبلی سوکھی بلی تھی، جس نے کبھی بھی خواب میں گوشت کا نام تک نہیں سنا تھا وہ کبھی بڑھیا کہ آنگن میں آنے والی چڑیا پائوں میں سے کوئی چڑیا اس کے ہاتھ لگ جاتی۔ وہ چڑیا کھا کر اپنا پیٹ بھر لیتی۔ ایک دن وہ چھت پر گئی تو ایک بلی خراماں خراماں ٹہل رہی تھی۔ بڑھیا کی بلی نے جب اپنی ہم جنس کو ایسا موٹا تازہ پایا تو حیران رہ گئی۔ اور بے اختیار بول اٹھی کہ بہن تم کہاں سے آئی ہں کیا کھاتی ہو۔ ہمسائی بلی نے جواب دیا تم جانتی نہیں میں بادشاہ کے دسترخوان کی نمک خور ہوں۔ روز صبح جب محل میں کھانا پیش ہوتا میں وہاں پہنچ جاتی ہوں پھر بڑھیا کی بلی نے پوچھا کہ یہ گوشت کیا ہوتا ہے میں نے تو بڑھیا کے گھر میں دال دلیے کے علاوہ کچھ نہیں کھایا۔ ہمسائی کی بلی نے ہنس کر کہا۔ جبھی تو تمہاری شکل بالکل لکڑی کی طرح نظر آرہی ہے۔ تمہیں تو بلی کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ ہاں اگر تو بادشاہ کے محل کے لذیز کھانے کی خوشبو سونکھ لو تو شاید تمہاری کایا پلٹ جائے، یہ خوشخبری سننے کے بعد بڑھیا کی بلی چھت سے اتر آئی اور بڑھیا سے تمام ماجرا بیان کیا بڑھیا نے نصیحت کرنے لگی کہ دیکھو لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آیا کرو۔ جو کچھ روکھی سوکھی ملتی ہے۔ اس پر قناعت کرو، مگر بلی کے دماغ میں بادشاہ کے دستر خوان کا سود ایسا سمایا تھا۔ کہ اس نے اس نصیحت کی پروا نہ کی، دوسرے دن ہمسائی بلی کے ساتھ محل جا پہنچی وہاں پہلے سے بلیاں شاہی دسترخوان کے گرد جمع ہو گئی تھی۔ بادشاہ نے یہ دیکھ کر فوراً حکم دیا کہ تیر کا نشانہ لگیں۔ بیچاری بڑھیا کی بلی کو اس حکم کی یہ خبر تھی جو نہی کھانے کی خوشبو ناک تک پہنچی تو تیر ٹانگ پر لگا گیا۔ ٹانگ سے خون ٹپکنے لگا، بلی لنگڑاتے ہوئے اپنی پوری قوت سے بھاگ گئی۔ اور کہتی گئی میں بڑھیا کی باتوں پر نصحیت کرتی تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا، اور اس نے سبق سکھ لیا کہ کسی دوسروں کی باتوں میں نہیں آئو گی۔ جو قناعت جو کچھ ملے گا۔ کھا لو گئی،
٭٭٭
فرائض کی ادائیگی
Heart meetDecember 14, 2016کسی شہر میں ایک خاندان والدین اور اپنے چار بیٹوں کے ساتھ رہتا تھاچاروں بیٹے چاوید، اسلم، آصف،
No comments
رابعہ ظفر
کسی شہر میں ایک خاندان والدین اور اپنے چار بیٹوں کے ساتھ رہتا تھاچاروں بیٹے چاوید، اسلم، آصف، یاسر اوپر تلے کے تھے اچھا خاصا خوشحال گھرانہ تھا ماں باپ کے دل میں اپنے بچوں کو پڑھنا لکھا کر قابل بنانے کی فکر تھی اس لیے وہ ان کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دیتے تھے لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک دن جب بچوں کے والدین کچھ سامان لینے شہر کی مارکیٹ جانے کے لیے بس میں سوار ہوئے تو تھوڑی ہی دور جا کر بس میں ایک زور دار دھماکہ ہوا سارے مسافروں کے ساتھ ان بچوں کے والدین بھی جاں بحق ہو گئے چاروں بچوں پر تو قیامت ٹوٹ گئی رشتہ داروں اور محلے والوں نے کچھ دن تو خیال رکھا کیکن کب تک؟ ایسے میں بڑے بھائی جاوید نے ہمت کری اور اپنے والدین کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہمت باندھی اس نے اپنی تعلیم ادھوری جھوڑی اور ایک کار خانے میں سروس کر لی تاکہ اپنے بھائیوں کی ضرویات کو پورا کر سکے اس مقصد کے لیے وہ اکثر ڈبل ڈیوٹی کرتا آخر اس کی رات دن کی محنت رنگ لائی اور اسلم پولس آفیسر بن گیا کچھ ہی عرصے بعد آصف ایک مشہور وکیل تھا اور یاسر ایک انجینئر لیکن تیزی سے گزرتے وقت اور محنت نے جاوید کو بہت کمزور کر دیا تھا اس نے گھر کو سنبھالا دینے کے لیے دو بھائیوں کی شادی کر دی لیکن بھابیاں گھر تو کیا سنبھالتیں اسلم اور آصف کو لیکر علیحدہ گھروں میں شفٹ ہو گئیں۔ جاوید کو بہت دکھ ہوا اور پھر یہ دکھ اس کی جان کا روگ بن گیا۔ اس کے بائی اسے سہارا دے سکتے تھے لیکن وہ تو اپنے اپنے گھروں میں مگن ہو چکے تھے ایسے میں جاوید کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی ڈاکٹروں نے ٹیسٹ کراے تو پتہ چلا کہ جاوید کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے اس نے بھائیوں سے اپنی بیماری چھپا کر اپنے علاج کے لیے ان سے کچھ رقم مانگی تو تینوں نے ٹال مٹول سے کام لیا آخر جاوید دلبرداشتہ ہو کر گھر کا ہو رہا۔ اس کو بھائیوں کے رویے پر افسوس تو بہت ہوتا تھا لیکن وہ سوچتا میں نے تو اپنا فرض نبھایا ہے اپنے والدین کی خواہش کا احترام کیا ہے کسی پر احسان تو نہیں کیا جو میں انہیں بد دعائیں دوں یہ سوچ کر وہ ذہنی طور پر مطمئن ہو جاتا۔ وہ روز بروز موت کے قریب ہو رہا تھا اور چھوٹے بھائی اپنی دنیا میں مگن کہ ایک دن جاوید زندگی کی بازی ہار گیا۔ جب بھائیوں نے اس کی موت کے بعد اس کے ٹیسٹ دیکھے تو انہیں اپنے روئیوں پر بہت ندامت ہوئی اور پھر ساری زندگی وہ اپنے آپ کو بھائی کی موت کا قصور وار سمجھ کر ذہنی خلفشار کا شکار رہے سچ ہے اپنا فرض ادا کرکے آدمی مطمئن اور فرض سے کوتاہی اسے بے چین رکھتی ہے۔ پیارے بچو! ابھی ہمارے پاس وقت ہے جم اپنے حصے کے فرائض ادا کرتے رہیں تو ہمیں اطمنان نصیب ہو گا!
٭٭٭
یہ راہ مشکل نہیں
Heart meetDecember 14, 2016رمشاء کہنے کو ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوئی لیکن مسلمان کہلانے کے باوجود عمل سے کوئی تعلق نہ تھا۔
No comments
کوثر عبدالقیوم
رمشاء کہنے کو ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوئی لیکن مسلمان کہلانے کے باوجود عمل سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسلام کے بنیادی عقائد و فرائض سے بھی بے پرواہ یہ گھرانہ دنیا کی فضولیات میں اپنا وقت اور پیسہ خرچ کررہا تھا جس کی وجہ سے پاس پڑوس والے بھی نالاں رہتے کیونکہ جب بے ہنگم گانوں کی آوازیں گونجتیں تو وہ بہت بے سکون ہوتے لیکن ہمت نہ کرتے کہ محلے میں ان کا ایک قسم کا رعب تھا کیونکہ رمشاء کے والد کا چلتا ہوا بڑا بزنس تھا اور اس کی ماما ایک بیوٹی پارلر چلاتی تھیں۔ رمشا ایک بڑے اسکول میں زیر تعلیم تھی اور اس کو اللہ نے اپنے دین سے رغبت دی تھی جب اسمبلی میں تلاوت ہوتی اور حمد و نعت پڑھی جاتی تو اسے ذہنی سکون محسوس ہوتا خاص کر جب کوئی بچی تلاوتِ قرآن کرتی تو اس کی حسرت ہوتی کہ کاش مجھے بھی قرآن کی تلاوت آتی اور میں بھی اس جگہ کھڑی ہوتی۔ مگر والدین تو دنیا کی طرف راغب اور اس ہی میں مگن جب وہ اسکول سے گھر واپس آتی تو گھر میں وہی گانے بجانے کا ماحول ہوتا کسی کو بھی شائر اسلام حد ہے آذان کی آواز کی بھی پرواہ نہ ہوتی رمشا کو یہ سب کچھ بہت برا محسوس ہوتا لیکن وہ کہتی تو کوئی نہ سنتا۔
ایک دن اسکول میں اسلامیات کا پیریڈ تھا مس روبینہ نے اس سبق سنانے کو کہا جو قرآن کی ایک سورۃ تھی۔ رمشا نے اپنا سر شرمندگی سے جھکا لیا۔ اور مس کو بتایا کہ اس نے قرآن نہیں پڑھا مس روبینہ نے کہا کوئی بات نہیں تم ہاف ٹائم میں میرے پاس اسٹاف روم میں آنا۔
جب بریک ہوئی تو رمشہ سیدھی اسٹاف روم میں مس روبینہ کے پاس پہنچ گئی۔ مس نے رمشا سے پوچھا بیٹا آپ نماز پڑھتی ہیں؟ رمشا نے انکار میں سر ہلا کر شرمندگی سے بتایا کہ مجھے تو کسی نے نماز پڑھنا سیکھائی ہی نہیں۔ ہمارے گھر میں کوئی بھی نماز نہیں پڑھتا اسی لیے مجھے بھی نماز پڑھنا نہیں آتی۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں نماز پڑھوں سیکھوں مگر یہ سب مجھے مشکل لگتا ہے کہ لوگ میرا مذاق اڑائیں گے۔ مس روبینہ نے کہا اس میں مذاق اڑانے کی کوئی بات نہیں ضرورت صرف سچھی لگن اور جذبے کی ہے اگر ہمارا ایمان پختہ ہو اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح کی طلب ہو تو پھر کچھ بھی مشکل نہیں رہتا۔ انسان اللہ کی راہ میں قدم بڑھانا ہے تو اللہ خود اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تم روزانہ ہاف ٹائم میں میرے پاس آجایا کرو میں تمہیں قرآن پڑھنا سیکھا دونگی ہم آخر اور علوم بھی تو سیکھاتے ہیں جس مضمون میں بچہ کمزور ہوتا ہے اس پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور زیادہ محنت کرتے ہیں تو پھر اس کو کیوں نظر انداز کریں مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ تم ساتویں کلاس میں بغیر سیکھے کیسے آگئیں؟ اگر تم حساب وغیرہ میں کمزور ہوتیں تو فیل کی جاتیں اور خصوصی توجہ دی جاتی۔ ہم آخر کیسے مسلمان ہیں کہ قرآن اور قرآنی کی تعلیم کے معاملے میں اتنی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ رمشا کے ساتھ دوسری ٹیچرز بھی مس روبینہ کے خیالات سے اتفاق کررہی تھیں انہوں نے کہا رمشا اس میں آپ کا قصور نہیں ہے بلکہ ہم سب کا قصور ہے انشااللہ آئندہ ہم سب اپنے اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہوئے اپنے طلباء کو دوسرے سبجیکش کی طرح اسلامیات کے مضمون پر بھی محنت کرائیں گے۔ تاکہ وہ اچھے مسلمان اور اچھے شہری بن سکیں۔
٭٭٭
علم پر عمل
شفق ناصر
زمانہ قدیم سے تعلق رکھنے والی حکایات میں سے ایک حکایت…
ایک شہزادہ اپنے استاد سے سبق پڑھ رہا تھا استاد نے اسے دو جملے پڑھائے…
’’چھوٹ نہ بولو‘‘، ’’غصہ نہ کروں‘‘
کچھ دیر بعد جب شہزادے سے سبق سنانے کو کہا گیا تو اس نے جواب دیا کہ سبق ابھی یاد نہیں ہوا۔ وہ دن تو گزر گیا۔ دوسرے دن پھر جب استاد نے سبق سنانے کو کہا تو شہزادے نے دوبارہ وہی جواب دیا کہ سبق ابھی یاد نہیں ہوا۔
استاد کو غصہ آیا مگر اس نے کچھ نہ کہا۔ تیسرا دن آگیا پھر استاد نے کہا کہ سبق سنائو، تو شہزادے نے پھر وہی بات دہرادی کہ ابھی سبق یاد نہیں ہو سکا۔ اب تو استاد اس قدر غضبناک ہوا کہ اس نے طیش میں آکر شہزادے کو زور کا تھپڑ رسید کیا کہ یہ کوئی بات ہے کہ دو چھوٹے چھوٹے جملے تین دن میں بھی یاد نہیں ہو سکے۔ تھپڑ کھا کر شہزادہ چند منٹ خاموش بیٹھا رہا اور پھر استاد سے کہنے لگا کہ اب سبق سن لیجیے مجھے یاد ہو گیا ہے۔ استاد کو اس حرکت پر بہت تعجب ہوا کہ جو سبق تین دن سے یاد نہیں ہورہا تھا، وہ تھپڑ کھاتے ہی کیسے یاد ہو گیا جب شہزادے سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا ’’بات یہ ہے کہ آپ نے مجھے دو باتیں پڑھائی تھیں، ایک ’’جھوٹ نہ بولو‘‘ اور دوسرا ’’غصہ نہ کرو‘‘ جھوٹ بولنا تو مَیں نے اس دن سے ہی چھوڑ دیا تھا ’’مگر‘‘ ’’غصہ نہ کرو‘‘ بہت مشکل چیز تھی۔ بہت کوشش کرتا رہا کہ غصہ نہ آئے مگر غصہ آجاتا تھا اب جب تک میں غصے پر قابو نہ پا لیتا آپ سے کیسے کہتا کہ سبق یاد ہو گیا ہے آج جب آپ نے مجھے تپھڑ مارا تو میں نے غور کیا کہ مجھے غصہ آیا ہے یا نہیں تو مجھے محسوس ہوا کہ تین دن کی کش مکش کے بعواس پر اب میں نے قابو پا لیا ہے کیونکہ آپ سے تھپڑ کھا کر مجھے بالکل غصہ نہیں آیا تھا اس لیے میں نے آپ کو بتا دیا کہ سبق یاد ہو گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو علم حاصل کیا جاتا ہے اس کا اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس پر عمل بھی ہو۔
٭٭٭
بلا عنوان
Heart meetDecember 14, 2016ناصر! تم فضلو چچا کی دکان سے پٹاخے لانا اور احمد تم! کیک لانا اور فاضل تم پھول والے کی دوکان
No comments
گلشن اکبر
ناصر! تم فضلو چچا کی دکان سے پٹاخے لانا اور احمد تم! کیک لانا اور فاضل تم پھول والے کی دوکان سے بہت ساری گلاب کی کلیاں اور گلاب کے پھول کی پتیاں اور چنبلی کے پھول کی پتیاں الگ الگ لانا اور چار بکیٹ خاص طور پر لانا آخر فیضلہ خالہ بھی تو آ رہی ہیں توقیر نے سب کو سارے کام سمجھاتے ہوئے جو انہیں آج رات کی پارٹی کے لیے کئے جانے تھے۔ ناصر بھائی پلیز آپ میرے لیے پھولجڑیاں ضرور لانا فائزہ نے اپنے بھائی سے فرمائش کرتے ہوئے کہا۔ ناصر! انار والے پٹاخے ضرور لانا کیونکہ ان کی بہت تیز آواز ہوتی ہے احمد نے بھی تاکیداً کہا۔ ’’نازیہ تمہیں تو اپنا سارا کام یاد ہے نا‘‘ توقیر نے نازیہ کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلاتے ہوئے کہا۔ جی بھائی مجھے کمرہ دیکو ریٹ کرنا ہے اور آپ سب کے کپڑے استری کرنے ہیں رات کی پارٹی کے لیے سموسے وغیرہ بنانے ہیں اور ہاں کلیاں بھی تو الگ کرکے رکھنی ہے تاکہ صبح سویرے سب فرینڈز کو بھجوا سکوں نازیہ نے بڑی سمجھداری سے اپنی ذمہ داری گنوا دی۔
ارے بچوں تم یہاں آپ کی خالہ بس آنے والی ہیں نبیلہ نے اپنے بچوں کو بہن کے آنے کی خبر سنائی اور جاتے جاتے توقیر سے کہنے گلی ’’توقیر تم اپنی خالہ کو لینے بس اسٹاپ چلے جانا‘‘
نبیلہ کے جاتے ہی سب پھر سے اپنی اپنی پلاننگ میں مصروف ہو گئے کیوں نہ خالہ کو بھی نیو ایر سر پرائز دیا جائے‘‘ نازیہ نے مشورہ دیا۔ نہیں نازیہ ہو سکتا ہے خالہ کو پسند نہ آئے ویسے بھی امی کہہ رہی تھیں کہ خالہ اب بہت مذہبی بن گئی ہیں۔ توقیر نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ خیر چھوڑو جو ہو گا دیکھا جائے گا لیکن ایک سرپرائز میری طرف سے تمہارے لیے ہے، لیکن چلو ابھی بہت وقت ہو گیا سب اپنی اپنی ڈیوٹیز سنبھال لو۔ توقیر نے سب کو متنبہ کرتے ہوئے کہا۔
تھوری دیر بعد فضیلہ بھی اپنی بہن کے گھر آچکی تھی سب بچوں نے ان کا خوش دلی سے استقبال کیا اور کیوں نہ کرتے آخر خالہ انہیں بہت محبت کرتی تھی۔
’’ارے نبیلہ مجھے آئے ہوئے شام ہو چکی ہے لیکن ابھی تک تمہارا کوئی بچہ گھر پر نہیں ہے‘‘ اور نازیہ بھی کافی دیر سے نظر نہیں آرہی آخر کہاں ہیں یہ سب فضیلہ نے مغرب کے بعد بچوں کو غیر موجودگی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ تیاریاں کر رہے ہیں سب رات کی‘‘ ’’فازیہ کمرہ ڈیکوریٹ کررہی ہے اور بچے سب اپنے اپنے کام سے باہر ہیں‘‘ فضیلہ نے جواب دیا۔ تیاریاں کیسی تیاریاں؟ کیوں کیا آج خاص دن ہے فضیلہ نے پوچھا تمہیں نہیں معلوم! آج ہیپی نیو ائیر نائٹ ہے نا۔ سب اسی کی پارٹی کی تیاریاں کر رہے ہیں نبیلہ نے چائے کے کپ رکھتے ہوئے کہا گویا کہ وہ اپنے بچوں کے کارناموں پر فخر کررہی تھی۔ نیوائیر پارٹی لیکن کیوں؟ فضیلہ نے منہ ہی منہ میں بڑ براتے ہوئے کہا ’’لیکن نبیلہ یہ تو ہمارا تہووار نہیں اور تم بچوںکو منع بھی نہیں کررہی ہو فضیلہ نے نبیلہ کو اس کی غلطی کا احساس دلایا۔
آخر بچے ہی تو ہیں اور پھر بچوں کی خوشی میں ہی تو ہماری خوشی ہے نبیلہ نے اپنے بچوں کی طرفداری کرتے ہوئے کہا یہ دو تہوار ہماری خوشیوں کے لیے کم ہیں۔ فضیلہ نے نبیلہ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ آخر سب ہی تو کر رہے ہین پھر ہم اپنے بچوں کو کیسے روکیں کیونکہ یہ سب تو باہر کے ماحول میں عام سی بات ہے ویلنٹائن، اپریل فول، نیوائیر، برتھ ڈے وغیرہ وغیرہ… پھر جب یہ چیزیں ہمارے معاشرے میں زہر کی طرح سرایت کر چکی ہے تو ہم اپنے بچوں کو اس سے کس طرح دور رکھیں اور کیسے اس زہر کا شرباق کریں؟ نبیلہ نے اپنی مجبوری کا اظہار کیا (جیسا کہ ہم ہر غلطی اور کوتاہی کی ذمہ داری معاشرہ پر ڈال دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ معاشرہ ہم سے ہی تو بنتا ہے)
خیر چھوڑو ابھی نوجوانی ہے اسی لیے مزے کر رہے ہیں جب ہماری عمروں کو پہنچیں گے تو سب کچھ چھوڑ دیں گے وقت انہیں خود ہی سمجھدار بنا دے گا۔ نبیلہ نے چائے کے خالی کپ اٹھائے اور کچن کی طرف چلی گئی۔
’’کیا ہر روز اک نیا تہوار موج مستیاں کیا یہ ہمارے مسلم معاشرہ کا شیوہ ہے کیا اس کے علاوہ اور کوئی زندگی کا مقصد نہیں ہر چیز کا دن مقرر کرکے اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہی کسی چیز کے اہم ہونے کا طریقہ ہے کیا ہمیں وقت کی قدر نہیں ہے آخر کیا جواب دیں گے جب اللہ ہم سے سوال کرے گا کہ بتائو تم نے عمر کہاں گزاری مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا کیا ہم اللہ کو ہی جواب دیں گے کہ ہم نے ساری عمر خرافات میں گزاری مال فضول رسموں اور غیر مسلم کی تقلید میں لگایا۔ آخر ہم اپنی نسل کو ان خرافات سے کیوں نہیں روک سکتے فضیلہ گہری سوچوں میں گم ہو گئی اور اپنے دل سے کوئی جواب نہ پا کر انہیں گھتیوں کو سلجھاتے ہوئے۔ اس کی آنکھ لگ گئی۔
راب بارہ بجنے میں پانچ منٹ تھے ساری تیاریاں مکمل تھی فائز بہت خوبصورت فرار زیب تن کی۔ گلاب کی کلیاں اور پھولوں کی پتیاں پورے کمرے کے ماحول کو اور مسحور کن بنا رہی تھیں۔ کیک پر چاکلیٹ سے بڑی خوبصورتی سے "Happy New Years 2013" لکھا گیا تھا نازیہ نے بھی اپنی پارٹی کو خوبصورت بنانے میں دل جان ایک کر دیا۔ اور خود بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی آخر میں فضیلہ بھی نبیلہ کے بے حد اصرار پہ ناچاہتے ہوئے بھی پارٹی میں آگئی۔ ٹھیک بارہ بجے کیک کاٹا گیا پٹاخے پھوڑے گئے ہر طرف گہما گہمی اور شور کا ماحول تھا فائزہ نے بھی اپنی پھولجڑی جلائی اور پھر ایک پھولجڑی کی چنگاری نے اس کی فرار کو جلا ڈالا اور پھر چاروں طرف آگ آگ کا شور تھا اور ان شور میں سب سے بلند آواز نبیلہ کی تھی ’’ہائے میری بچی جل گئی بچائو ہائے میری بچی…
فائزہ کو اسٹریچر پر ڈال کر ایمرجنسی روم لے جایا گیا۔ بھائی سب ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے سب کے چہرے شرمندگی عیاں تھی کہ وہ خود ہی اپنی بہن کے جلانے کا سامان لائے تھے اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا ایک لیڈی ڈاکٹر باہر آئی آپ کی بچی کا 60% فیصد جسم جل چکا ہے فراک تقریباً اس کی کھال سے چپک چکی ہے ہمیں سرجری کرنا پرے گی۔ فی الحال آپ کی بیٹی کومہ میں ہے۔
اس کے بعد نبیلہ کو ہوش نہ رہا اور وہ بہن کے ہاتھوں میں ہی جھول گئی نازیہ پر سکتہ طاری ہو گیا اسے سمجھ نہیں آرہا کہ وہ ماں کو سنبھالے یا بہن کا غم برداشت کرے فضیلہ کی حالت یہ تھی کہ وہ پھترائی ہوئی آنکھوں سے سب کو دیکھ رہی تھی فضیلہ نے بہن کے سر کو گود میں رکھے سوچ رہی تھی کہ میری بہن کا خاندان بھی ایک غلط رسم کی بھینٹ چڑھ گیا کاش فضیلہ انہیں روک لیتی تو یہ سب نہ ہوتا کیونکہ مسلمان کے تہوار ان سب خرافات سے پاک ہیں اس لیے وہ ایسی تباہی اور حادثات سے بچے رہتے ہیں فضیلہ نے ایک نظر اپنی بے ہوش بہن کے چہرے پرڈالی جس کی تباہی اپنے ہاتھوں ہی تھی اور پھر دو آنسو اس کے آنکھ سے نکلے اور اس کے گالوں پر پھیل گئے وہ سوچ رہی تھی کہ جب بھی ہم نے اپنے مذہب کو چھوڑ کر باطل مذاہب کی پیروی کی کوشش کی ہے ہم اس طرح تباہ و برباد ہوئے اور اس بار یہ تباہی نبیلہ کے خاندان کی قسمیت میں تھی۔
٭٭٭
ایک یاد گار دن… سارا دن خوار ہوئے ہم
Heart meetDecember 14, 2016یہ واقعہ سردی کی چھٹیوں کا ہے۔ چھٹیوں کے تیسرے دن امی نے ابو سے ہمارے پاسپورٹ بنوانے کا کہا
No comments
فریحہ ارشد
یہ واقعہ سردی کی چھٹیوں کا ہے۔ چھٹیوں کے تیسرے دن امی نے ابو سے ہمارے پاسپورٹ بنوانے کا کہا کیونکہ امی ہم سب کو لے کر عمرے پر جانا چاہتی تھیں۔ طے یہ پایا کہ اگلے دن صبح آٹھ بجے پاسپورٹ آفس روانہ ہوجائیں گے۔ ہم چاروں بہنوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سب نے جلدی جلدی کپڑے استری کیے، جوتے چپلیں نکالیں۔ اور وہاں بھوک لگے گی اس لیے میں اور مجھ سے چھوٹی بہن کھانے پینے کی چیزیں خریدنے گئے۔ جب چیزیں لے گھر پہنچے تو ایک اودھم مچ گیا۔ اور کیوں نہ مچتا، بات ہی کچھ ایسی تھی… ہر بسکٹ چاکلیٹ والا، بے کار ٹاٹری والے پاپڑ… دونوں بڑی بہنیں غصے سے چلاّ اٹھیں۔ مریم بولی: ’’کیا اٹھا کر لے آئی ہو… دکان گئی تھیں یا کوڑے دان!‘‘ خوب ڈانٹ پڑی۔ چھوٹی بہن نے معصوم بن کر بول دیا کہ یہ تو فریحہ لائی ہے اور میری شامت آگئی۔ خیر اللہ اللہ کرکے رات گزر گئی۔
صبح سات بجے ہی امی کی دھماکے دار آواز آئی ’’کب تک منہ لپیٹے سوتی رہوگی، پاسپورٹ آفس نہیں جانا کیا؟‘‘ جیسے ہی پاسپورٹ آفس کا نام سنا اپنی تیاریاں یاد آئیں۔ فوراً اٹھ بیٹھے، جلدی جلدی تیار ہوئے، ناشتہ کیا… اور ناشتہ بھی کیا، ایک بغیر جیم یا بغیر مکھن کا سلائس چائے میں ڈبوکر کھا لیا۔
اس کے بعد ہم روانہ ہوگئے۔ راستے سے دادی جان کو لیا، کیونکہ ان کا پاسپورٹ بھی تو ایکسپائر ہوگیا تھا۔ صبح کے سہانے موسم سے سفر کو چار چاند لگ گئے۔ بڑا ہی سکون والا اور مزے دار سفر تھا۔ راستے میں قائداعظم کا مزار بھی آیا مگر ابو نے گاڑی روکنے سے انکار کردیا اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ خیر جلد ہی ٹھیک بھی ہوگئے۔
پاسپورٹ آفس پہنچتے ہی مشکلات شروع ہوگئیں۔ گاڑیوں کا اتنا ہجوم تھا کہ ہماری گاڑی ایک زنگ آلود ڈنڈے سے جا ٹکرائی اور اس پر ڈینٹ پڑگیا۔ اندر گئے تو لوگوں کا اتنا ہجوم تھا کہ ہمارے دلوں پر ڈینٹ پڑگئے۔ لائن اتنی لمبی تھی کہ سب ہی کے ماتھوں پر شکنیں پڑ گئیں۔ خیر ابو فارم لے کر آئے اور بیٹھ کر جلدی جلدی پُر کرنے لگے۔ ابو کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، ان کا تو باہر کے ملکوں میں کاروبار کے سلسلے میں آنا جانا لگا ہی رہتا تھا۔ فارم پُر کرکے ہم لائن میں لگ گئے۔ بہت لمبی لائن تھی۔ اللہ اللہ کرکے ہماری باری آئی اور ٹوکن لے کر ہم اگلے مرحلے پر آگئے۔ وہاں پہنچے تو سرہی چکرا گیا۔ وہاں بھی طویل قطار تھی۔ اور سر چکرانے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں پر ہم بچوں اور امی کی لائن الگ اور ابو کی لائن الگ تھی۔ پھر دادی سے کہا گیا کہ سینئر سٹیزن والی لائن میں جائیں، وہاں ہماری دادی سارا وقت کھڑی رہیں جس کی وجہ سے ان کی ٹانگوں میں شدید درد ہوگیا۔ ہم نے سوچا، تھوڑی ہی دیر کی بات ہے، نمبر آجائے گا۔ مگر کیا پتا تھا کہ گھنٹوں کھڑا رہنا پڑے گا۔ اچانک ذہن میں دادی کا خیال آیا۔ ہم بڑے پریشان ہوئے۔ بھوک کا احساس ہونے لگا تو چیزیں یاد آگئیں۔ ہم نے ساری چیزیں ختم کردیں۔ امی کو بھوک لگی، انہوں نے ہم سے چیزوں کے بارے میں پوچھا تو سامنے سے لٹکے ہوئے منہ پیش کردیئے گئے۔ امی سمجھ گئیں کہ ساری چیزیں کہاں گئیں۔
جب تصویر بنوانے کا مرحلہ آیا تو ہمارے چہرے گرمی، پسینے اور تھکن سے اتنے خراب ہوچکے تھے کہ اپنی تصویر دیکھ کر ہڑبڑانے لگے۔ پھر جب نمبر پتا چلا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں… 130 نمبر چل رہا تھا اور ہمارے نمبر 280سے شروع ہورہے تھے۔ یعنی ڈیڑھ سو نمبروں کا فرق تھا۔ ہم پریشان حال دادی کے پاس گئے، ان کا نمبر بھی کافی دور تھا۔ سخت گرمی میں کرسی بھی نہیں مل رہی تھی۔ ٹانگوں میں اتنا درد تھا کہ ہمارا تو بینڈ بج گیا۔ بھوک اور گرمی کی شدت الگ… ہمارا برا حشر ہوگیا۔ آخرکار ہمیں ایک آدھ سیٹ مل گئی اور وہ بھی ایسے کہ دو انکلوں کو رحم آگیا اور انہوں نے اپنی سیٹ دے دی۔ ہماری حالت دیکھ کر ابو پریشان ہوگئے اور ہمارے لیے بروسٹ، برگر اور کولڈ ڈرنک لے آئے۔ وہ کھا کر ہماری حالت سنبھلی۔ پھر بھی نمبر نہ آیا، گھنٹوں ایسے ہی بیٹھے رہے۔ شدید پیاس لگنے لگی لیکن پانی ہمارے پاس نہ تھا۔ ہم سب کے دلوں میں بس ایک بات تھی ’’پانی ی ی ی…‘‘ ہماری ساری خوشیاں اور تیاریاں مٹی میں مل گئیں اور یاد کرنے لگے کہ ہم کتنے پُرجوش تھے یہاں آنے کے لیے، کتنا لڑے تھے چیزوں کے لیے… اور کیا ہوگیا۔
شام کو نمبر آیا۔ اس دوران ہمارے ماموں بھی آگئے، انہوں نے ہمیں پانی پلایا۔ پتا چلا کہ وہاں بھی فلٹر تھا۔ اس کے پاس گئے اور اپنی شکل جو فلٹر میں دیکھی تو ہکا بکا رہ گئے۔ بال خراب ہورہے تھے، جو منہ پر لگایا ہوا تھا سب اتر گیا تھا۔ جب سب کچھ ہوگیا اور آخری مرحلہ آیا اور صرف فام جمع کرواکر گھر جانا تھا تو پتا چلا کہ دادی کا شناختی کارڈ ایکسپائر ہے۔ ہمیں اتنا غصہ آیا کہ پہلے جن لوگوں نے فارم بنایا انہوں نے ہمیں دیکھا۔ اب جب فارم جمع کروانے کا وقت آیا تو ان کی نظر پڑگئی۔ ہم نے سوچا کہ چلو ہمارا تو جمع ہوجائے گا۔ مگر انہوں نے کہا کہ محلے کے ناظم کی اسٹیمپ لگنی ضروری ہے۔ ہم بوکھلا گئے۔ صرف امی اور ابو کا فارم جمع ہوسکا اور ہم لٹکے لٹکے منہ سے جاکر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ بہت زیادہ ٹریفک جام تھا۔ پھر ابو نے دادی کا شناختی کارڈ بنوانے کے لیے گاڑی روکی۔ شناختی کارڈ آفس تو بند تھا مگر اس کے برابر میں ہی مارکیٹ تھی۔ ہم سب نے خوب شاپنگ کی اور دل کھول کر سامان خریدا۔ آخر اتنا خوار ہونے کا بدلہ بھی تو نکالنا تھا۔ پھر ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔ واپسی پر اتنا ٹریفک تھا کہ آدھے گھنٹے کا سفر دو گھنٹے میں طے ہوا۔ گھر پہنچتے ہی ہم ۔بستر پر جا لیٹے۔ سر اتنا چکرا رہا تھا کہ اسی وقت سوگئے۔
یہ میرا سب سے یادگار دن رہا جب ہم اتنا خوار ہوئے۔ پھر ابو نے محلے کے ناظم سے اسٹیمپ لگوائی اور فارم جمع کروا آئے۔
٭٭٭
وہ صبح ہم ہی سے آئے گی
Heart meetDecember 14, 2016’’ماما، ماما! کل ہماری مس نے ہمیں کلاس میں بتایا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے محبت کریں۔
No comments
نغمہ جاوید
’’ماما، ماما! کل ہماری مس نے ہمیں کلاس میں بتایا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے محبت کریں۔ کسی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی جان لے۔ مس نے ہمیں ایک بہت ہی اچھی کہانی بھی سنائی تھی جو ہم سب نے بڑی توجہ سے سنی۔ اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ اللہ کی زمین ہے۔ اس پر اللہ کے حکم کے مطابق چلو۔ کسی قسم کا فساد نہ کرو۔ ایک دوسرے کی مدد کرو۔‘‘
ماما بڑے پیار سے اپنی پھول جیسی پیاری بیٹی کو دیکھ رہی تھیں جو اسکول کے یونیفارم کو استری کرنے کے ساتھ ساتھ کلاس میں ہونے والی باتیں بھی سنا رہی تھی۔ ماما اسکول والوں سے بھی خوش ہورہی تھیں اور خدا کا شکر ادا کررہی تھی کہ اسکول کا ماحول اچھا ہے، اور ٹیچرز بچوں کو فضول سرگرمیوں میں الجھانے کے بجائے اس طرح کی قرآنی اور اخلاقی کہانیاں سناتی رہتی تھیں جس سے ان کی ذہنی سوچ اچھی ہورہی تھی۔ گڑیا سے کھانے کا بول کر ماما کچن میں گئیں اور گڑیا کے لیے کھانا نکالنے لگیں۔ ساتھ ساتھ کام کی منصوبہ بندی بھی کرتی جارہی تھیں۔ آج گڑیا کے پاپا کو شام کو کام پر سے جلدی آنا تھا کیونکہ گڑیا کی پھوپھی نے رات کے کھانے پر انہیں بلایا ہوا تھا۔ اسی لیے بیٹی کو کھانا دے کر وہ جلدی جلدی باقی کام ختم کرکے شام کو پہننے کے لیے اپنے کپڑے استری کرنے لگیں۔ شام کو گڑیا کے پاپا آگئے۔ ماں بیٹی تیار ہی تھیں۔ پاپا بولے تم لوگ رکو میں موبائل کا کارڈ لے آئوں۔ ابھی انہیں باہر گئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک زور کا دھماکا ہوا، اور پھر ہر طرف چیخ و پکار شروع ہوگئی۔ ہر کوئی مدد کے لیے چیخ رہا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ ہر طرف آگ کے شعلے اور سیاہ دھواں تھا۔ گڑیا نے باہر دیکھا، ہر طرف ملبے کے ڈھیر۔ وہ بے چین ہوکر پاپا کو ڈھونڈنے لپکی۔ وہ کہیں نظر نہ آئے۔ آخر ایک جگہ چند لاشوں میں اس کو وہ کپڑے نظر آئے جو پاپا نے پہنے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں کارڈ تو تھا لیکن جلا ہوا۔ گڑیا اپنے پاپا کو اس حالت میں دیکھ کر رو رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کل کلاس میں مس نے جو کہانی سنائی تھی کیا وہ غلط تھی؟ کیا میرے ابو مسلمان نہیں تھے؟ یہ سب جو ہلاک ہوئے ہیں کیا مسلمان نہیں تھے؟ ہمارا مذہب تو غیروں کے لیے بھی سلامتی کا مذہب ہے، وہ کہانی ان دھماکا کرنے والوں نے کیوں نہیں سنی؟ اور پھر یہ کوئی عام کہانی بھی نہیں۔ یہ تو اللہ کی آیات ہیں جو ہر مسلمان کو پڑھنی اور ان پر عمل کرنا تھا۔ ان آیات پر عمل کرنے سے ہی تو ملک میں امن قائم ہونا ہے، جس کے بعد اس طرح کے واقعات ختم ہوں گے۔ یہ کب ہوگا، کیسے ہوگا؟ یہ تو اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب میرے وطن میں صالح قیادت آئے۔ وہ لوگ آئیں جو ان آیات کو سمجھتے ہیں اور ان پر عمل کروانا جانتے ہیں۔ جن سے وہ قوتیں خوفزدہ ہیں جو یہ سب کچھ اپنی چالوں سے کررہی ہیں۔ ان کو شاید یہ یاد نہیں کہ اللہ کی چالیں ان کی چالوں سے زیادہ ہیں، کیونکہ وہ تو علیم بھی ہے، حفیظ بھی ہے، جبار بھی ہے اور قدیر بھی۔
٭٭٭
بلی اور چوہا
Heart meetDecember 14, 2016ایک تھی بلی جو کسی امیر آدمی کے گھر میں پلی بڑھی تھی۔ وہ اس گھر سے اتنی مانوس ہو چکی تھی
No comments
مؤلف مہدی آذریزدی
ترجمہ:ڈاکٹر تحسین فراقی
ایک تھی بلی جو کسی امیر آدمی کے گھر میں پلی بڑھی تھی۔ وہ اس گھر سے اتنی مانوس ہو چکی تھی کہ کسی وقت بھی وہاں سے باہر قدم نہ رکھتی تھی۔ ایک سال کیا ہوا کہ صاحب خانہ نے اپنے تنگدست اور مفلس ہمسایے کو اپنے گھر میں جگہ دی اور خود ایک لمبے سفر پر روانہ ہو گیا۔
بلی گھر میں رہ گئی۔ درویش کبھی کبھی اس کو کھانے پینے کو کچھ دے دیتا۔ آہستہ آہستہ بلی غذا کی کمی کے باعث لاغر ہو گئی اور بیمار رہنے لگی۔ وہ اس قدر کمزور ہو گئی تھی کہ ایک دن اس نے ایک چوہے کا شکار کرنا چاہا مگر نہ کام رہی۔ چوہے کو بھی بلی کی اس کمزوری کا علم ہو گیا تھا۔
بلی کو یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ چوہا کہیں اس کی کمزوری اور ناتوانی کا مذاق نہ اڑائے چنانچہ اس دن کے بعد وہ دوبارہ کبھی چوہے کی گھات میں نہ بیٹھی اور ظاہر یہ کیا گویا اسے چوہے سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ اسی اثناء میں وہ اس قدر بیمار ہو گئی کہ اس کے لیے راہ چلنا بھی دشوار ہو گیا۔
رہا چوہا، تو وہ بھی سالہا سال سے اسی گھر کا مکین تھا اور اس نے گھر کے اندر ایک بڑا تہہ در تہہ سوراخ بنا رکھا تھا۔ وہاں اس نے زندگی کے سارے لوازمات مہیا کر رکھے تھے۔ اس نے خوراک کی ایک بڑی مقدار اس سوراخ میں ذخیرہ کر لی تھی اور جب اسے اپنے اس ذخیرے کا خیال آتا، وہ خوشی سے نہال ہو جاتا۔ وہ اپنی زندگی سے بڑا مطمئن تھا۔ صرف بلی کا وجود اس کے لیے بے آرامی کا باعث تھا اور بلی بھی وہ جو اب اسے پکڑنے کی طاقت نہ رکھتی تھی!
ایک روز چوہا اپنے دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ بلی وہی بلی ہے جس کے خوف سے وہ تین تین دن سوراخ سے باہر نہیں نکلتا تھا اور جس طرح کی طاقت ہمیشہ کے لیے نہ تھی، اس کی کمزوری بھی عارضی ہے۔ دنیا میں اس طرح کی بلندی وپستی بہت ہے۔ چوہا طویل فکر میں گم اپنے آپ سے کہہ رہا تھا ’’اگر کل کلاں کو ایسا اتفاق ہو کہ بلی کو اچھی خوراک ملنے لگے اور اسے اپنی کھوئی ہوئی توانائی حاصل ہو جائے تو دوبارہ ایک خطرناک صورت حال پیدا ہو سکتی ہے، سو اب جبکہ بلی اس قدر لاغر اور کمزور ہو چکی ہے اور میرا گھر خوراک سے پر ہے تو کیا برا ہے کہ میں کوئی لذیذ کھانا اس کے لیے لے جائوں اور اس سے دوستی کی بنیاد ڈالوں۔ چونکہ اب اسے میری ضرورت ہے اس لیے ممکن ہے وہ مجھ سے دوستی کر لے اور بعدازاں جب اس کی توانائی لوٹ آئے، وہ میری جان لینے کا قصد نہ کرے اور ایک پرانی ضرب المثل ہے: ’’دوستی کتنی ہی مہنگی کیوں نہ ملے پھر بھی سستی ہے۔‘‘
یہ سوچ کر چوہے نے بلی کے لیے اس کی پسندیدہ خوراک تیار کی اور اس کے پاس لے گیا۔ اسے سلام کیا اور حال احوال پوچھنے کے بعد بولا ’’اے عزیز ہمسائی، میں اور تم دونوں ایک ہی گھر کے مکین ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے، اگرچہ ہم ایک جنس سے نہیں اور عقلمندوں کا کہنا ہے کہ ناجنس سے دوستی نہیں کرنی چاہیے لیکن چونکہ تم ایک شریف اور بے آزار بلی ہو اور تم نے مجھ سے کوئی برائی نہیں کی، میں نے یہ واجب سمجھا کہ تمہاری عیادت اور قدرشناسی کو آئوں اور تمہارا حال چال پوچھوں‘‘
بلی بولی: ’’شکریہ‘‘ میں بھی جانتی ہوں کہ تم ایک سمجھ دار چوہے ہو۔‘‘
چوہا بولا: ’’تم خود اچھی ہو۔ اب چونکہ مجھے علم ہے کہ تمہاری بیماری اور کمزوری کا سبب خوراک کی کمی ہے دوسری کوئی وجہ نہیں، میں یہ ہدیۂ ناچیز، جو اچھی بلیوں کی مرغوب غذا ہے، تمہارے دوپہر کے کھانے کے لیے لایا ہوں تو یہ کسی قابل نہیں لیکن مجھے امید ہے کہ اسے قبول کر کے تم مجھے مسرور کرو گی۔ کل بھی تمہاری زیارت کے لیے حاضر ہوں گا۔‘‘
چوہے نے غذا کا دسترخوان بلی کے آگے رکھا اور اس کے شکریے کے الفاظ سن کر اسے خدا حافظ کہا اور اپنے بل میں چلا گیا۔ اب تک بلی نے کسی چوہے کو ایسا مہربان اور اتنا دلیر نہ دیکھا تھا۔ وہ بہت خوش ہوئی اور غذا کے تحفے کو، جسے وہ قبول کر چکی تھی، کھانے لگی۔ غذا بڑی مزے کی تھی۔ وہ خود سے کہنے لگی ’’کتنا آداب شناس چوہا ہے۔ ایسے چوہے کو حقیقتا تکلیف نہیں دینی چاہیے۔‘‘
وہ دن گزر گیا۔ اگلے دن پھر چوہے نے بڑے مزے کا کھانا مہیا کیا اور دوبارہ اس کا حال احوال پوچھا اور بولا ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہاری بیماری کا سبب توانائی اور غذا کی کمی ہے اور میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ہر روز، جہاں تک ممکن ہو، تمہارے لیے قوت بخش غذا لائوں تاکہ تمہاری صحب اور سلامتی پھر سے بحال ہو جائے۔‘‘
بلی نے گزشتہ دن خوراک کا خوب مزا لیا تھا۔ سو اس نے اپنی خوشی کا ظہار کرتے ہوئے کہا ’’تمہارا اس طرح کا طرزِ عمل تمہاری اعلیٰ خوبیوں اور خیر خواہی کو ظاہر کرتا ہے۔ نۂں معلوم تم نے اس سے پہلے مجھ سے کیوں دوری اختیار کی اور ہم نے ایک دوسرے سے دوستی کیوں نہ کی؟‘‘
چوہا بولا ’’دراصل میں نے سن رکھا تھا کہ بلیاں چوہوں کو پکڑ کر ہڑپ کر لیتی ہیں۔ مجھ سے میرے بزرگوں نے کہا تھا کہ چوہے کو بلی سے دوستی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ بلی زیادہ طاقت ور ہوتی ہے اور چوہے کو محض کھانے کی خاطر چاہتی ہے نہ دوستی کی خاطر۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ جب بلی بھوکی ہو تو اس کو انصاف کا احساس نہیں رہتا لیکن اب جب میں دیکھتا ہوں کہ تم بھوک کے باعث لاغر ہو گئی ہو اور چوہوں کو تکلیف پہنچانے کی فکر میں بھی نہیں ہو تو مجھے احساس ہوا کہ ہمارے بزرگوں سے بڑی غلطی ہوئی اور انہوں نے ہمیں خواہ مخواہ ڈرایا۔ بلی خوبصورت خط و خال والی مہربان حیوان ہے اور اسے کسی سے کچھ لینا دینا نہیں۔‘‘
بلی بولی: ’’ہاں ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔ میں کبھی اپنی تعریف نہیں کرتی لیکن وہ باتیں جو تمہارے بزرگوں نے تمہیں بتائیں، ہر گز صحیح نہیں۔ تم نے خود دیکھا کہ تم دوبار یہاں آئے گئے، میں نے تمہیں نہ پکڑا نہ کھایا نہ جان سے مارا۔ تیسری بار بھی ایسا ہی ہو گا اور ہمیشہ ایسا ہی۔ ہمیں باہم دوستی کر لینی چاہیے۔ میں نے بھی تم جیسے دوست کے نہ ہونے کی وجہ سے بڑی تکلیف اٹھائی ہے اور میں تم سے سوائے دوستی کے کچھ نہیں چاہتی۔‘‘
چوہا بولا ’’تاہم بعض بلیاں ہیں کہ چوہوں کو اذیت دیتی ہیں۔
بلی بولی: ہاں ہاں۔ وہ بری بلیاں ہیں۔ اگر کسی ایک نے برا کام کیا تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سب برے ہیں۔ البتہ ہو سکتا ہے کہ بعض خود مجھے بھی برا جانتے ہوں لیکن دراصل انہیں میری پہچان نہیں۔ یہ بڈھے کھوسٹ اور نادان چوہے ہیں کہ دوستی کے معنی سے ناواقف ہیں اور ہر چیز سے ڈرتے ہیں۔ میں اصولاً چوہوں کی آمد و رفت اور ان کے ساتھ دوستی اور آشنائی سے خوش ہوتی ہوں اور مجھے کسی وقت بھی چوہے کو کھانے کا خیال نہیں آتا۔ آخر چوہے کھانے سے فائدہ کیا ہے؟ چوہا ہے کیا: گوشت اور خون کی ایک مشت۔ اس کے مقابلے میں دوستی اور اخلاص خوشی اور مسرت کا سرمایہ ہے۔ میں جب یہ دیکھتی ہوں کہ ایک چوہا میرا دوست ہے اور مجھ سے ڈر کر نہیں بھاگتا تو یوں لگتا ہے گویا مجھے بہشت بریں کی نعمت مل گئی ہو۔ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ ہم باہم مل کر بیٹھیں اور باتیں کریں اور ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہوں۔ میرے خیال میں جو بلیاں چوہوں کو کھانے کی خواہش رکھتی ہیں، دراصل کسی اصول کی پابند نہیں اور دوستی کے معنی سے واقف نہیں۔ تم چونکہ بڑے ذہین چوہے ہو، خوب سمجھ سکتے ہو کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔‘‘
٭٭٭
جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے
Heart meetDecember 14, 2016ایک لڑکی تھی۔ اس کا نام شمائلہ تھا۔ وہ کلاس تھری میں پڑھتی تھی۔ اس کے اندر ایک کامی تھی۔
No comments
ایمن احسن
ایک لڑکی تھی۔ اس کا نام شمائلہ تھا۔ وہ کلاس تھری میں پڑھتی تھی۔ اس کے اندر ایک کامی تھی۔ وہ جھوٹ بہت بولتی تھی۔ ایک دن اس سے ڈرائنگ روم میں رکھا ہوا بہت قیمتی گلدان ٹوٹ گیا۔ اس کی امی نے اس سے پوچھا کیا یہ گلدان تم نے توڑا ہے۔
نہیں تو اس نے جواب دیا۔
اس کی امی پریشان ہو گئیں اوہ اب میں کیا کروں۔ اف! اسی طرح وہ اسکول میں بھی بہت جھوٹ بولتی تھی ایک دفعہ اس کا ہوم ورک بہت زیادہ تھا تو اس نے اپنا کچھ کام اپنی کزن سے کرا لیا جب اس کی مس نے اس سے پوچھا کے یہ کام کس نے کیا ہے تو اس نے اپنی مس سے بھی جھوٹ بول دیا کے یہ کام میں نے ہی کیا ہے۔
لیکن یہ آپ کی رائیٹنگ تو نہیں۔ مس نے کہا نو مس یہ میں نے ہی کیا ہے۔ اس نے کہا مس نے یقین کر لیا اور بولیں۔
’’اچھا OK‘‘
ایک دن وہ اپنی دوستوں کے ساتھ کشتی کشتی کھیل رہی تھی تو کشتی بنانے کے لیے کاغذ ختم ہو گئے تو اس نے اپنے ابو کے آفس کے کاغذات لے لیے تھوری دیر بعد اس کی دوستیں چلی گئیں کیونکہ رات ہو گئی تھی وہ بھی سو گئی جب صبح اس کی امی نے اس کو اسکول جانے کے لیے اٹھایا تو ابو نے اس سے پوچھا تم نے میرے آفس کے کاغذات کیوں لیے اپنی عادت کے مطابق اس نے اپنے ابو سے کہا کے میں نے تو نہیں لیے تو پھر یہ کیا ہے! اس کے ابو نے اس کے سامنے کشتیاں لہرائیں اور اس کو اتنا ڈانٹا کے اس نے آئندہ جھوٹ بولنے سے توبہ کر لی۔
٭٭٭
دودوست
Heart meetDecember 14, 2016کسی گائوں میں دو دوست رہتے تھے دونوں اچھے اور سچے دوست مشہور تھے۔
No comments
امجد علی
کسی گائوں میں دو دوست رہتے تھے دونوں اچھے اور سچے دوست مشہور تھے۔ کبھی انہیں کسی نے آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا تھا۔ ان میں سے ایک نبیل تھا اور دوسرا فیصل پورے گائوں میں ان کی دوستی کا چرچا تھا ان کا اخلاق سب کو بھاتا تھا کہ کیونکہ وہ گائوں میں سب کا خیال رکھتے تھے وہ کبھی کسی بزرگ کی بات ٹالتے یا منع نہیں کرتے تھے اور اپنے چھوٹوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے اگر کوئی ان سے کوئی کام کہتا تو وہ خوشی خوشی کر دیتے تھے۔ ایک دن انہیں ایک بزرگ نے آگے جنگل سے اپنے مویشیوں کے لیے چارہ لانے کو کہا جنگل بہت گھنا اور سنسان تھا لیکن نبیل اور فیصل نے ایک تو بزرگ سے وعدہ کر لیا تھا دوسرے وہ بہادر بھی تھے لہٰذا وہ آگے بڑھ کر چارہ جمع کرنے لگے کہ اچانک سامنے ایک ڈاکو آکھڑا ہوا جس کے ہاتھ میں ایک بڑا چاقو تھا۔ اس وقت نبیل نے فیصل سے کہا کہ تم یہاں سے جلدی سے بھاگ جائو اور ادھر فیصل نبیل سے کہہ رہا تھا تم چلے جائو تاکہ کسی ایک کی تو جان بچ جائے وہ دونوں ہی ایک دوسرے پر اپنی جان نثار کرنے کے لیے تیار تھے اور اپنی جان سے لا پرواہ۔ یہ منظر دیکھ کر ڈاکو کو اپنے دوست کی یاد آگئی جس کی ذرا سی مخالفت پر اس نے اپنے دوست کی جان لے لی تھی ڈاکو کی آنکھوں میں شر ساری مذامت کے آنسو آگئے اس نے چاقو پھینک دیا اور ان دونوں سے بولا تم نے مجھے دوستی کے معنیٰ سمجھائے ہیں دوست وہی ہوتے ہیں جو مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے تمہاری دوستی یونہی ہمیشہ دوسروں کی راہِ ہدایت دیکھاتی رہے گی۔
٭٭٭
طہارت و پاکیزگی
Heart meetDecember 14, 2016دین اسلام میں طہارت یعنی صفائی اور پاکیزگی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے
No comments
رابعیہ اکرم
دین اسلام میں طہارت یعنی صفائی اور پاکیزگی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور اللہ پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘ ایک اور جگہ پر ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور اپنے کپڑے پاک صاف رکھو‘‘
آپؐ خود بھی پاک صاف رہتے اور صحابہؓ کو بھی صفائی اور پاکیزگی کی تعلیم دیتے ظاہری اور باطنی پاکیزگی کے لحاظ سے آپؐ ساری امت کے لیے بہترین نمونہ ہیں رسولؐ سادہ صاف اور پاک لباس پہنتے آپؐ کسی شخص کے بال بکھرے ہوئے یا ناخن بڑھے ہوتے تو رسولؐ ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے اور اسی شخص کو اپنی حالت درست کرنے کا حکم دیتے آپؐ نے جمعہ کے روز غسل کرنے کی تلقین فرمائی ہے خود بھی اس کا اہتمام فرماتے اور خاص طور پر اسی دن لباس تبدیل کرتے آپؐ نے سفید لباس کو پسند فرمایا کہ یہ ’’پاکیزگی کی ملامت ہے‘‘
صفائی اور پاکیزگی مسلمان کی ایک بنیادی صفت ہے اللہ تعالیٰ کے قرب اور محبت کا ذریعہ ہے اور رسولؐ کا طریقہ ہے حضورؐ نے پاکیزگی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا ’’پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے‘‘
اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے جسم لباس اور جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے اور قرآن مجید کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اس کو صرف وہی لوگ ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں‘‘ ذہنی اور جسمانی اعتبار سے پاکیزگی کی بہت اہمیت ہے‘‘ حقیقت یہ ہے کہ پاکیزہ خیالات کا تعلق انسان کے پاک صاف رہنے سے ہے انسان اگر اپنے بدن اور کپڑوں سے نجاست دور نہ کرے گندی جگہوں پر بیٹھنے کی عادت بنائے تو اس کے خیالات اور عادتیں بھی خراب ہونے لگتی ہیں آج کل ہمارے یہاں آبادیاں بڑھ کر بڑے بڑے شہر وجود میں آگئے ہیں ہر طرف ٹریفک کا دھواں اور گرد و غبار ہے ان حالات میں شہر اور ماحول کو صاف رکھنے کے لیے صفائی اور پاکیزگی کے اسلامی اصولوں پر عمل کرنے کی ضروت اور زیادہ ہو گئی ہے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہمارے پیارے رسولؐ کے اسوہ حسنہ کو ہر وقت اپنے سامنے رکھیں اور اپنے بدن لباس اور ماحول کو پاک اور صاف رکھنے کی کوشش کریں۔
٭٭٭
شیطان شہرزادہ
Heart meetDecember 14, 2016بہت عرصہ ہوا کہ ایک مغرور اور بدکار شہزادہ تھا جوسوچتا تھا کہ وہ کس طرح دنیا کی تمام مملکتوں کو فتح کرے
No comments
مترجم:تفسیر احمد
بہت عرصہ ہوا کہ ایک مغرور اور بدکار شہزادہ تھا جوسوچتا تھا کہ وہ کس طرح دنیا کی تمام مملکتوں کو فتح کرے اور انسانیت اس کے نام سے کانپنے لگے۔ اس کے سپاہیوں نے قتل و غارت مچائی، کھیتوں اور غلوں کو روند دیا اور غریبوں کے گھروں کو آگ لگادی جن کے شعلوں سے درختوں کے پتّے جل گئے اور کالی جلی ہوئی شاخوں پر لگے پھل بھن گئے۔ کئی مائیں اپنے ننگے بچوں کو لے کر بھاگیں اور دھویں کے غبار کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش کی، مگر سپاہیوں نے ان کا پیچھا کیا اور پکڑلیا۔ پھر ان کے ساتھ ظلم و سفاکی کی انتہا کردی۔ ایسا تو خود شیطان بھی نہیں کرتا، لیکن شہزادے نے اپنے سپاہیوں کی ان شیطانی حرکات کا مزا لیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس کا دائرۂ اختیار وسیع ہوتا گیا، یہاں تک کہ لوگوں کو اس کے نام سے خوف آنے لگا۔
ان فتوحات سے حاصل کیے ہوئے سونے اور ان لوٹے ہوئے قیمتی خزانوں سے حاصل کی ہوئی دولت سے اس نے اپنی سلطنت کو ایسی چیزوں سے بھر دیا جن کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ اس کے بعد اس نے محلات،گرجا اور دوسری عمارتیں بنوائیں جن کی چمک دمک دیکھ کر لوگ کہتے تھے ’’واہ یہ تو عظیم شہزادہ ہے!‘‘ ایک لمحہ کے لیے بھی انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس ظالم نے دنیا میں کتنی قتل و غارت اور بربادی پھیلائی ہے۔ انہوں نے کبھی ان مظلوموں کی آہوں اور سسکیوں کو نہیں سنا تھا جو تباہ کردہ شہروں کے ملبوں سے اٹھتی تھیں۔ اور جب شہزادہ اپنے سونے، جواہر کو اور ان عالیشان عمارتوں کو دیکھتا جو اس کے نام سے بنی تھیں تو وہ بھی ان لوگوں کی طرح سوچتا تھا: ’’واہ میں تو عظیم شہزادہ ہوں! لیکن میرے پاس اور بھی زیادہ ہونا چاہیے تاکہ کوئی میری برابری نہ کرسکے۔‘‘ چنانچہ اس نے اور جنگیں لڑیں اور دوسری سلطنتیں فتح کیں۔ شکست خوردہ بادشاہوں کو سنہری زنجیروں سے اُس کے رتھ کے ساتھ باندھا جاتا تھا اور انہیں شہرکی سڑکوں پرگھسیٹا جاتا تھا۔ اور جب یہ شیطان شہزادہ اور اس کے درباری کھانے کی میز پر بیٹھتے تھے تو شکست خوردہ بادشاہوں کو ان کے پیروں کے نزدیک بٹھایا جاتا تھا اور ان کو درباریوں کے پھینکے توڑوں کو کھانا پڑتا تھا۔
مغرور اور بدکار شہزادے نے اپنے مجسمے تمام عوامی جگہوں اور تمام محلوں میں نصب کروائے تھے۔ وہ تو شایدگرجا گھروں کی مذہبی میز پر بھی ایسا کرتا مگر پادریوں نے کہا ’’شہزادے آپ عظیم ہیں مگر خدا آپ سے بھی بڑا ہے، اس لئے ہم آپ کا حکم نہیں مان سکتے‘‘۔
’’اچھا، اگر ایسا ہے تب میں خدا کو بھی فتح کرلوں گا‘‘ بدکار شہزادے نے کہا۔
اور پھر اپنے تکبر و غرور اور گمان سے یہ حکم دیا کہ ایک ایسا جہاز تیار کیا جائے جو فضا میں اڑ سکے۔ اس جہاز کا رنگ مور کے پروں کی طرح رنگ برنگا تھا اور اس میں ہزار آنکھیں تھیں، لیکن وہ آنکھیں دراصل بندوقوں کی نالیاں تھیں۔
شہزادہ اس جہاز کے بیچ میں بیٹھ کر صرف ایک بٹن دباکر ایک ساتھ ایک ہزار گولیاں چلاسکتا تھا، اور یہ بندوقیں فوراً ہی نئی گولیوں سے بھرجاتی تھیں۔ سینکڑوں عقاب اس جہاز پر اس طرح باندھے گئے تھے کہ وہ اس جہاز کو اڑا سکیں۔ اور اب جہاز ایک تیر کی طرح سورج کی طرف اڑا۔ جلد ہی زمین بہت نیچے رہ گئی۔ اوپر بلندی سے پہاڑ اور جنگل کھیتوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے اور اونچائی سے اب زمین پر کہیں کہیں سبزہ سا نظر آتا تھا۔ جیسے جیسے عقاب اپنے عظیم پروں سے اوپر اڑتے گئے ہرچیز دھند اور کہر میں چھپ گئی۔ تب خدا نے اپنے بے شمار فرشتوں میں سے ایک فرشتے کو بھیجا۔ بدکار نے فوراً ہزارگولیاں چلائیں، مگر وہ سب فرشتے کے چمکیلے پروں سے ٹکرا کر برف کے اولوں کی طرح زمین پرگریں۔ اس کے بعد شہزادے کے جہاز پر فرشتے کے سفید پروں سے خون کی ایک بوند گری۔ یہ بوند شہزادے کے جہاز کے لیے اتنی بھاری تھی کہ بوجھ سے جہاز تیزی سے زمین کی طرف گرنے لگا۔ عقابوں کے عظیم پَر ٹوٹ گئے اور شہزادے کے اردگرد تیز ہوائیں چلنے لگیں اور پھر اسے بادلوں نے گھیرلیا۔ اور یہ بادل شاید ان شہروں کی آگ کا دھواں تھا جن کو شہزادے نے جلایا تھا۔ ان بادلوں نے ایک عجیب ہیئت اختیار کرلی تھی۔ ان میں سے کچھ میلوں لمبی ٹانگوں والے کیکڑوں کی طرح تھے اور کچھ پہاڑوں کے بڑے ٹکڑے تھے یا آگ اگلتے ہوئے اژدھے۔ شہزادہ جہاز کے اندر نیم مُردہ پڑا تھا۔ آخرکار جہاز گر کر جنگل کی گھنی شاخوں میں الجھ گیا۔
’’میں خدا کو فتح کروں گا‘‘ اس نے کہا ’’میں نے یہ عہد کیا ہے۔ میرا عہد پورا ہوگا‘‘۔
پھر اس نے آنے والے سات سالوں میں اپنے لیے ایک نیا مضبوط اور عظیم الشان جہاز بنوایا جس میں وہ ہوا میں اڑ سکے۔ اس میں اس نے سخت ترین لوہے کی برچھیاں لگوائیں تاکہ ان سے جنت کی حفاظتی دیواروں کو گراسکے۔ اپنے مفتوحہ ملکوں سے اس نے اتنے جنگجوؤں کو جمع کیا کہ اگر وہ شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں تو میلوں لمبی دیوار بن جائے۔ اور ان کے لیے بھی اڑنے والے جہاز بنوائے۔
وہ تمام جنگجو اپنے اپنے جہازوں میں سوار ہوگئے۔ مگر جب شہزادہ جہاز کی طرف بڑھا توخدا نے مچھروں کا ایک غول بھیجا۔ یہ مچھر شہزادے کے اردگرد چکر لگانے اور بھنبھناتے ہوئے اس کے چہرے اور ہاتھوں پر ڈنک مارنے لگے۔ شہزادے نے غصہ سے ہوا میں تلوار چلائی مگر وہ ایک مچھر کو بھی نہ چھوسکا۔ تب اس نے خادموں کو ایک موٹا شاہی لبادہ لانے کو کہا۔ اور پھر اسے اس لبادے میں لپیٹ دیا گیا تاکہ مچھر اس کے جسم تک نہ پہنچ سکیں۔ تمام کوششوں کے باوجود ایک چھوٹے سے مچھر نے ان کپڑوں میں جگہ بنالی تھی۔ اس نے شہزادے کے کان میں رینگ کر ڈنگ مارا۔ جس جگہ ڈنگ لگا اس کی جلن آگ کی طرح تھی اور اس کا زہر خون میں پھیل کر تیزی سے اس کے دماغ کی طرف جانے لگا۔ شہزادے نے اپنے کپڑے پھاڑنا اور ان کو اپنے بدن سے جدا کرنا شروع کردیا۔ اب وہ برہنہ تھا اور کان میں جلن کی وجہ سے اچھل کود رہا تھا۔
اس کے سب جنگجو اس پر ہنس رہے تھے اور اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ شیطان شہزادہ جو خدا کو فتح کرنے چلا تھا، اس پاگل کو ایک مچھر نے شکست دے دی۔
٭٭٭