My Blogger consists of a general news in which I upload articles from all types of news including science, technology, education, crime, how-to, business, health, lifestyle and fashion.

New User Gifts

The Beautiful Raining

Pakistani Talent

How to Catching FISH!

Mount Rider

خود کو اور اپنے بچوں کو اس زہر سے بچائیں شکریہ۔

خود کو اور اپنے بچوں کو اس زہر سے بچائیں شکریہ۔

Pesticide Percentage (%) in cold drinks released from PMA (Pakistan Medical Association) recently.

1     Nestle  juice  7.2%

2     Coke              9.4%    

3     7 up              12.5%    

4     Mirinda         20.7%  

5     Pepsi            10.9%    

6     Fanta              29.1%    

7.    Sprite.            5.3%

8.    Frooti.           24.5%

9     Maza.            19.3%

It's very dangerous to the Human Liver.....
Results in Cancer !

Please confirm from PMA website  
                   
Lazmi send karain barish k liay Astaghfirullah, Astaghfirullah, Astaghfirullah,
PLZ....
send to all contacts

Soraj zmeen k qreeb aajaye ga Ye 1 nishani hy qiyamt ki
Aap s.a.w.w ne frmaya k jb meri ummt se Astaghfar krna kam ho ga,
To un par barish ka nazool kam ho ga.
Abhi
"ASTGHFIRULLAH" parhen aur aik b sms free hai to Send Krdo,
KUCH DEIR mein Arbon Astaghfar
ALLAH k Azab Ko Kam Kr Dein ge.
Don't stop it. Astaghfirullah.

Ramadan kareem

disabled goat

Big Help for cat

چڑیا کے بچے

نام نہیں ہے

گھنے جنگل کے پار افق پر سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور سورج کی شعاعیں درختوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے جنگل کی ناہموار زمین پر بمشکل پہنچ رہی تھیں۔ گویا جنگل کی زندگی میں ہر سو اجالا پھیل چکا تھا اور اس کے ساتھ ہی تمام چرند پرند بھی اپنی اپنی نگاہوں میں میٹھی اور معصوم سی انگڑائی لے کر بیدار ہوچکے تھے، وہ سب اپنی سریلی اور خوب صورت آواز میں خدائے واحد کی حمد و ثناء￿ میں مصروف تھے۔
درختوں پر بسیرا کیے پرندے بھی اپنے اپنے بچوں کو بیدار کرکے گزشتہ رات کے جمع کیے دانوں سے ان کو ناشتہ کرارہے تھے، ننھے ننھے پرندوں کے بابا جان آج کے دن کے لیے راشن تلاش کرنے نکل پڑے تھے۔ جب کہ ماما جان اپنے اپنے گھونسلوں کی صفائی ستھرائی کررہی تھیں، انہی درختوں میں سے ایک درخت پر چڑیا بی اپنے دو ننھے ننھے بچوں کے ساتھ رہ رہی تھیں، بچوں کے ابا یعنی چڑے میاں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ دانہ کی تلاش میں نکل پڑے تھے، معمول کے مطابق چڑیا بی نے اپنے بچوں کو نہلایا دھلایا اور دیگر کام کاج سے فارغ ہو کر اب وہ پڑوس کے درخت پر بی فاختہ کے بچوں کی طبیعت دریافت کرنے گئی ہوئی تھیں۔ بی فاختہ کے بچے کئی روز سے سرد موسم کے باعث بیمار ہوگئے تھے۔
جاتے جاتے چڑیا بی اپنے بچوں کو کہہ کر گئی تھیں کہ دیکھو شرارتیں نہ کرنا ورنہ شیطان کے چیلے کوے آکر تمہیں کچا کھا جائیں گے، ادھر چڑیا بی کے جاتے ہی بچوں پر کووں کا خوف طاری تھا مگر یہ ڈر ان کی شرارتی اور بے چین طبیعت پر زیادہ دیر حاوی نہ رہ سکا اور دونوں بچوں نے کھیل کود شروع کردیا۔ کھیل یہ تھا کہ دونوں بچے بیک وقت اپنے گھونسلے سے اڑان بھرتے اور زمین پر آکر ایک تنکا اٹھا کر واپس گھونسلے میں لے جاتے۔ جو پہلے واپس آتا وہ جیت جاتا
دو دفعہ تنکے اٹھا کر لانے کے بعد تیسری دفعہ آخری بار مقابلہ کے لیے دونوں نے اپنے پر تولے اور زمین پر آنے لگے، ابھی وہ زمین سے کچھ فاصلے پر ہی تھے کہ یکایک کسی چیز نے انہیں آگھیرا اور وہ دونوں ایک مضبوط شکنجے میں پھنس گئے، ننھے ننھے بچوں کے جب حواس بحال ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ دونوں کسی انسانی قافللے کے ہاتھوں جکڑ لیے گئے ہیں، جب انہوں نے سوچا کہ یہ شکاری ہمیں پکڑ کر لے جائیں گے، بس یہ جاننا تھا کہ دونوں اپنے بچا? کے لیے چیخ و پکار شروع کردی۔
ادھر چڑیا بی کو جب کسی کی چیخ و پکار سنائی دی تو وہ پریشان ہوگئیں کہ اللہ خیر کرے کہیں یہ میرے بچے تو نہیں رو رہے، جب چڑیا بی نے اپنے درخت کے قریب آکر یہ منظر دیکھا کہ ان کے دونوں ننھے ننھے معصوم سے روئی کے گالے بچے انسانی شکار بننے جارہے ہیں تو ان سے رہا نہ گیا، حلیہ سے یہ انسان تو بہت اچھے معلوم ہوتے تھے مگر چڑیا بی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر انہوں نے ان کے بچوں کو کیوں پکڑ لیا ہے، اپنی جان خطرے میں ڈال کر وہ ان چند آدمیوں کے گرد اپنے پر پھیلا کر ان کے سروں پر منڈلانے لگیں اور ساتھ ساستھ اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ میرے بچوں کو ان نیک بختوں سے نجات دلادے، یہ تو بے قصور ہیں، ابھی چڑیا بی اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ ہی رہی تھیں کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک اور شخص اس انسانی قافلہ کے ساتھ آملے۔ یہ شخص ان سب میں بہت بااخلاق، شریف اور بھلے معلوم ہوتے تھے اور اس پورے گروہ کے سردار بھی شاید یہی تھے۔ جیسے ہی انہوں نے دیکھا کہ چڑیا بی کے دو ننھے ننھے معصوم بچے ان کے ساتھیوں کے قبضے میں ہیں اور ان بچوں کی ماں پریشان ان کے گرد منڈلارہی ہے تو وہ فکر مند ہوگئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کس نے ان معصوم بچوں کو پکڑ کر بے زبان چڑیا کو تکلیف پہنچائی ہے، قافلہ کے لوگوں نے اپنے سردار کو سارا ماجرا کہہ سنایا کہ جب آپ اپنی ضرورت کے لیے گئے تو ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا، جب سے یہ چڑیا اپنے بچوں کے پیچھے ہمارے سروں پر منڈلارہی ہے۔
اس قافلہ کے سردار نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ فوراً ان معصوم بچوں کو چھوڑ دیا جائے، چنانچہ ساتھیوں نے فوراً حکم کی تعلیم کی اور یوں چڑیا بی نے ان کے سردار کو تشکر آمیر نظروں سے دیکھا اور خوشی خوش اپنے بچوں کو لے کر اپنے گھونسلے کی جانب اڑ گئیں۔
پیارے بچو! کیا آپ جانتے ہیں یہ نیک لوگ کون تھے، یہ نیک لوگ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے ساتھی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تھے اور اس قافلہ کے سردار خود ہمارے پیارے نبی حضرت محمد 
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو کہ تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر اس دنیا میں تشریف لائے۔
٭٭٭

محنت کی برکت

عائشہ ملک نذیر احمد

شاہنواز سندھ کے ایک چھوٹے سے گائوں میں رہتا تھا۔ اس کا باپ ایک زمیندار تھا۔ گھر میں اس سے محبت کرنے والی ماں باپ کے علاوہ کئی نوکر چاکر تھے۔ جو اس کا ہر وقت خیال رکھتے تھے گائوں میں کوئی اسکول نہ تھا کہ شاہنواز تعلیم پاتا۔ اس سے بہت محبت کرتا تھا۔ ہمیشہ اسے اچھی اچھی کہانیاں اور بزرگوں کے واقعات سناتا، اسے اچھی بری باتوں میں تمیز کرنا سکھاتا، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے محبت کی تلقین کرتا، اس کے ساتھ رہ کر شاہنواز بہت سی اچھی اچھی باتیں سیکھ گیا تھا۔ وہ اللہ ڈنو کا نام لینے کے بجائے اسے ہمیشہ چاچا کہہ کر پکارتا تھا۔ ایک بار گائوں میں زبردست سیلاب آیا، شاہنواز کے والدین اس وقت کسی دوسرے گائوں سے بیل گاڑی پر واپس آ رہے تھے کہ سیلاب نے آلیا اور ساتھ بہالے گیا۔ ان حالات میں شاہنواز اکثر اداس رہتا اور پریشان ہو کر رونے لگتا۔ اسے وقت میں بھی اللہ ڈنو نے شاہنواز کا ساتھ نہ چھوڑا وہ اس کی ہمت بڑھاتا رہتا اور اسے کچھ نہ کچھ کام کرنے کی تاقیات دیتا رہتا، شاہنواز کام کرنے میں شرم آتی تھی۔ ایک روز اللہ ڈنو نے اسے سمجھایا۔ بیٹا ہم مسلمان ہیں ہمیں محنت سے روزی کمانے میں شرمانا نہیں چاہیے ہمارے پیارے نبیؐ دنیا کہ عظیم ترین انسان تھے۔ وہ بھی اپنا کام خود کرتے تھے۔ تم بھی اٹھو محنت کرو محنت میں عظمت ہے اور اسی میں برکت ہے۔ مگر چاچا مجھے بتائو میں کیا کروں، کرنا کیا ہے۔ زمینیں موجود ہیں ہم اس پر محنت کریں گے تو اللہ برکت دے گا۔ اب حالات ایک بار پھر وسے ہی ہو گئے۔ جسے اس کے باپ کی زندگی میں تھے اب پھر اس کے گھر میں نوکر چاکر تھے۔ اور زمینوں پر ہاری لیکن وہ اب بھی ان کے ساتھ مل کر ہل جوتا، بیج بوتا، فصلوں کو سینچتا اور اپنی محنت کے پھل سے لطف اندوز ہوتا ہر انسان دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے خوب محنت کرتا ہے اور محنت کا پھل پاتا ہے۔
٭٭٭

قناعت

حرا ملک عزیز

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں ایک بڑھیا رہتی تھی۔ اس کے گھر میں ایک دبلی سوکھی بلی تھی، جس نے کبھی بھی خواب میں گوشت کا نام تک نہیں سنا تھا وہ کبھی بڑھیا کہ آنگن میں آنے والی چڑیا پائوں میں سے کوئی چڑیا اس کے ہاتھ لگ جاتی۔ وہ چڑیا کھا کر اپنا پیٹ بھر لیتی۔ ایک دن وہ چھت پر گئی تو ایک بلی خراماں خراماں ٹہل رہی تھی۔ بڑھیا کی بلی نے جب اپنی ہم جنس کو ایسا موٹا تازہ پایا تو حیران رہ گئی۔ اور بے اختیار بول اٹھی کہ بہن تم کہاں سے آئی ہں کیا کھاتی ہو۔ ہمسائی بلی نے جواب دیا تم جانتی نہیں میں بادشاہ کے دسترخوان کی نمک خور ہوں۔ روز صبح جب محل میں کھانا پیش ہوتا میں وہاں پہنچ جاتی ہوں پھر بڑھیا کی بلی نے پوچھا کہ یہ گوشت کیا ہوتا ہے میں نے تو بڑھیا کے گھر میں دال دلیے کے علاوہ کچھ نہیں کھایا۔ ہمسائی کی بلی نے ہنس کر کہا۔ جبھی تو تمہاری شکل بالکل لکڑی کی طرح نظر آرہی ہے۔ تمہیں تو بلی کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ ہاں اگر تو بادشاہ کے محل کے لذیز کھانے کی خوشبو سونکھ لو تو شاید تمہاری کایا پلٹ جائے، یہ خوشخبری سننے کے بعد بڑھیا کی بلی چھت سے اتر آئی اور بڑھیا سے تمام ماجرا بیان کیا بڑھیا نے نصیحت کرنے لگی کہ دیکھو لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آیا کرو۔ جو کچھ روکھی سوکھی ملتی ہے۔ اس پر قناعت کرو، مگر بلی کے دماغ میں بادشاہ کے دستر خوان کا سود ایسا سمایا تھا۔ کہ اس نے اس نصیحت کی پروا نہ کی، دوسرے دن ہمسائی بلی کے ساتھ محل جا پہنچی وہاں پہلے سے بلیاں شاہی دسترخوان کے گرد جمع ہو گئی تھی۔ بادشاہ نے یہ دیکھ کر فوراً حکم دیا کہ تیر کا نشانہ لگیں۔ بیچاری بڑھیا کی بلی کو اس حکم کی یہ خبر تھی جو نہی کھانے کی خوشبو ناک تک پہنچی تو تیر ٹانگ پر لگا گیا۔ ٹانگ سے خون ٹپکنے لگا، بلی لنگڑاتے ہوئے اپنی پوری قوت سے بھاگ گئی۔ اور کہتی گئی میں بڑھیا کی باتوں پر نصحیت کرتی تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا، اور اس نے سبق سکھ لیا کہ کسی دوسروں کی باتوں میں نہیں آئو گی۔ جو قناعت جو کچھ ملے گا۔ کھا لو گئی،
٭٭٭

فرائض کی ادائیگی

رابعہ ظفر

کسی شہر میں ایک خاندان والدین اور اپنے چار بیٹوں کے ساتھ رہتا تھاچاروں بیٹے چاوید، اسلم، آصف، یاسر اوپر تلے کے تھے اچھا خاصا خوشحال گھرانہ تھا ماں باپ کے دل میں اپنے بچوں کو پڑھنا لکھا کر قابل بنانے کی فکر تھی اس لیے وہ ان کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دیتے تھے لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک دن جب بچوں کے والدین کچھ سامان لینے شہر کی مارکیٹ جانے کے لیے بس میں سوار ہوئے تو تھوڑی ہی دور جا کر بس میں ایک زور دار دھماکہ ہوا سارے مسافروں کے ساتھ ان بچوں کے والدین بھی جاں بحق ہو گئے چاروں بچوں پر تو قیامت ٹوٹ گئی رشتہ داروں اور محلے والوں نے کچھ دن تو خیال رکھا کیکن کب تک؟ ایسے میں بڑے بھائی جاوید نے ہمت کری اور اپنے والدین کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہمت باندھی اس نے اپنی تعلیم ادھوری جھوڑی اور ایک کار خانے میں سروس کر لی تاکہ اپنے بھائیوں کی ضرویات کو پورا کر سکے اس مقصد کے لیے وہ اکثر ڈبل ڈیوٹی کرتا آخر اس کی رات دن کی محنت رنگ لائی اور اسلم پولس آفیسر بن گیا کچھ ہی عرصے بعد آصف ایک مشہور وکیل تھا اور یاسر ایک انجینئر لیکن تیزی سے گزرتے وقت اور محنت نے جاوید کو بہت کمزور کر دیا تھا اس نے گھر کو سنبھالا دینے کے لیے دو بھائیوں کی شادی کر دی لیکن بھابیاں گھر تو کیا سنبھالتیں اسلم اور آصف کو لیکر علیحدہ گھروں میں شفٹ ہو گئیں۔ جاوید کو بہت دکھ ہوا اور پھر یہ دکھ اس کی جان کا روگ بن گیا۔ اس کے بائی اسے سہارا دے سکتے تھے لیکن وہ تو اپنے اپنے گھروں میں مگن ہو چکے تھے ایسے میں جاوید کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی ڈاکٹروں نے ٹیسٹ کراے تو پتہ چلا کہ جاوید کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے اس نے بھائیوں سے اپنی بیماری چھپا کر اپنے علاج کے لیے ان سے کچھ رقم مانگی تو تینوں نے ٹال مٹول سے کام لیا آخر جاوید دلبرداشتہ ہو کر گھر کا ہو رہا۔ اس کو بھائیوں کے رویے پر افسوس تو بہت ہوتا تھا لیکن وہ سوچتا میں نے تو اپنا فرض نبھایا ہے اپنے والدین کی خواہش کا احترام کیا ہے کسی پر احسان تو نہیں کیا جو میں انہیں بد دعائیں دوں یہ سوچ کر وہ ذہنی طور پر مطمئن ہو جاتا۔ وہ روز بروز موت کے قریب ہو رہا تھا اور چھوٹے بھائی اپنی دنیا میں مگن کہ ایک دن جاوید زندگی کی بازی ہار گیا۔ جب بھائیوں نے اس کی موت کے بعد اس کے ٹیسٹ دیکھے تو انہیں اپنے روئیوں پر بہت ندامت ہوئی اور پھر ساری زندگی وہ اپنے آپ کو بھائی کی موت کا قصور وار سمجھ کر ذہنی خلفشار کا شکار رہے سچ ہے اپنا فرض ادا کرکے آدمی مطمئن اور فرض سے کوتاہی اسے بے چین رکھتی ہے۔ پیارے بچو! ابھی ہمارے پاس وقت ہے جم اپنے حصے کے فرائض ادا کرتے رہیں تو ہمیں اطمنان نصیب ہو گا!
٭٭٭

یہ راہ مشکل نہیں

کوثر عبدالقیوم

رمشاء کہنے کو ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوئی لیکن مسلمان کہلانے کے باوجود عمل سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسلام کے بنیادی عقائد و فرائض سے بھی بے پرواہ یہ گھرانہ دنیا کی فضولیات میں اپنا وقت اور پیسہ خرچ کررہا تھا جس کی وجہ سے پاس پڑوس والے بھی نالاں رہتے کیونکہ جب بے ہنگم گانوں کی آوازیں گونجتیں تو وہ بہت بے سکون ہوتے لیکن ہمت نہ کرتے کہ محلے میں ان کا ایک قسم کا رعب تھا کیونکہ رمشاء کے والد کا چلتا ہوا بڑا بزنس تھا اور اس کی ماما ایک بیوٹی پارلر چلاتی تھیں۔ رمشا ایک بڑے اسکول میں زیر تعلیم تھی اور اس کو اللہ نے اپنے دین سے رغبت دی تھی جب اسمبلی میں تلاوت ہوتی اور حمد و نعت پڑھی جاتی تو اسے ذہنی سکون محسوس ہوتا خاص کر جب کوئی بچی تلاوتِ قرآن کرتی تو اس کی حسرت ہوتی کہ کاش مجھے بھی قرآن کی تلاوت آتی اور میں بھی اس جگہ کھڑی ہوتی۔ مگر والدین تو دنیا کی طرف راغب اور اس ہی میں مگن جب وہ اسکول سے گھر واپس آتی تو گھر میں وہی گانے بجانے کا ماحول ہوتا کسی کو بھی شائر اسلام حد ہے آذان کی آواز کی بھی پرواہ نہ ہوتی رمشا کو یہ سب کچھ بہت برا محسوس ہوتا لیکن وہ کہتی تو کوئی نہ سنتا۔
ایک دن اسکول میں اسلامیات کا پیریڈ تھا مس روبینہ نے اس سبق سنانے کو کہا جو قرآن کی ایک سورۃ تھی۔ رمشا نے اپنا سر شرمندگی سے جھکا لیا۔ اور مس کو بتایا کہ اس نے قرآن نہیں پڑھا مس روبینہ نے کہا کوئی بات نہیں تم ہاف ٹائم میں میرے پاس اسٹاف روم میں آنا۔
جب بریک ہوئی تو رمشہ سیدھی اسٹاف روم میں مس روبینہ کے پاس پہنچ گئی۔ مس نے رمشا سے پوچھا بیٹا آپ نماز پڑھتی ہیں؟ رمشا نے انکار میں سر ہلا کر شرمندگی سے بتایا کہ مجھے تو کسی نے نماز پڑھنا سیکھائی ہی نہیں۔ ہمارے گھر میں کوئی بھی نماز نہیں پڑھتا اسی لیے مجھے بھی نماز پڑھنا نہیں آتی۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں نماز پڑھوں سیکھوں مگر یہ سب مجھے مشکل لگتا ہے کہ لوگ میرا مذاق اڑائیں گے۔ مس روبینہ نے کہا اس میں مذاق اڑانے کی کوئی بات نہیں ضرورت صرف سچھی لگن اور جذبے کی ہے اگر ہمارا ایمان پختہ ہو اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح کی طلب ہو تو پھر کچھ بھی مشکل نہیں رہتا۔ انسان اللہ کی راہ میں قدم بڑھانا ہے تو اللہ خود اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تم روزانہ ہاف ٹائم میں میرے پاس آجایا کرو میں تمہیں قرآن پڑھنا سیکھا دونگی ہم آخر اور علوم بھی تو سیکھاتے ہیں جس مضمون میں بچہ کمزور ہوتا ہے اس پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور زیادہ محنت کرتے ہیں تو پھر اس کو کیوں نظر انداز کریں مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ تم ساتویں کلاس میں بغیر سیکھے کیسے آگئیں؟ اگر تم حساب وغیرہ میں کمزور ہوتیں تو فیل کی جاتیں اور خصوصی توجہ دی جاتی۔ ہم آخر کیسے مسلمان ہیں کہ قرآن اور قرآنی کی تعلیم کے معاملے میں اتنی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ رمشا کے ساتھ دوسری ٹیچرز بھی مس روبینہ کے خیالات سے اتفاق کررہی تھیں انہوں نے کہا رمشا اس میں آپ کا قصور نہیں ہے بلکہ ہم سب کا قصور ہے انشااللہ آئندہ ہم سب اپنے اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہوئے اپنے طلباء کو دوسرے سبجیکش کی طرح اسلامیات کے مضمون پر بھی محنت کرائیں گے۔ تاکہ وہ اچھے مسلمان اور اچھے شہری بن سکیں۔
٭٭٭

علم پر عمل

شفق ناصر

زمانہ قدیم سے تعلق رکھنے والی حکایات میں سے ایک حکایت…
ایک شہزادہ اپنے استاد سے سبق پڑھ رہا تھا استاد نے اسے دو جملے پڑھائے…
’’چھوٹ نہ بولو‘‘، ’’غصہ نہ کروں‘‘
کچھ دیر بعد جب شہزادے سے سبق سنانے کو کہا گیا تو اس نے جواب دیا کہ سبق ابھی یاد نہیں ہوا۔ وہ دن تو گزر گیا۔ دوسرے دن پھر جب استاد نے سبق سنانے کو کہا تو شہزادے نے دوبارہ وہی جواب دیا کہ سبق ابھی یاد نہیں ہوا۔
استاد کو غصہ آیا مگر اس نے کچھ نہ کہا۔ تیسرا دن آگیا پھر استاد نے کہا کہ سبق سنائو، تو شہزادے نے پھر وہی بات دہرادی کہ ابھی سبق یاد نہیں ہو سکا۔ اب تو استاد اس قدر غضبناک ہوا کہ اس نے طیش میں آکر شہزادے کو زور کا تھپڑ رسید کیا کہ یہ کوئی بات ہے کہ دو چھوٹے چھوٹے جملے تین دن میں بھی یاد نہیں ہو سکے۔ تھپڑ کھا کر شہزادہ چند منٹ خاموش بیٹھا رہا اور پھر استاد سے کہنے لگا کہ اب سبق سن لیجیے مجھے یاد ہو گیا ہے۔ استاد کو اس حرکت پر بہت تعجب ہوا کہ جو سبق تین دن سے یاد نہیں ہورہا تھا، وہ تھپڑ کھاتے ہی کیسے یاد ہو گیا جب شہزادے سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا ’’بات یہ ہے کہ آپ نے مجھے دو باتیں پڑھائی تھیں، ایک ’’جھوٹ نہ بولو‘‘ اور دوسرا ’’غصہ نہ کرو‘‘ جھوٹ بولنا تو مَیں نے اس دن سے ہی چھوڑ دیا تھا ’’مگر‘‘ ’’غصہ نہ کرو‘‘ بہت مشکل چیز تھی۔ بہت کوشش کرتا رہا کہ غصہ نہ آئے مگر غصہ آجاتا تھا اب جب تک میں غصے پر قابو نہ پا لیتا آپ سے کیسے کہتا کہ سبق یاد ہو گیا ہے آج جب آپ نے مجھے تپھڑ مارا تو میں نے غور کیا کہ مجھے غصہ آیا ہے یا نہیں تو مجھے محسوس ہوا کہ تین دن کی کش مکش کے بعواس پر اب میں نے قابو پا لیا ہے کیونکہ آپ سے تھپڑ کھا کر مجھے بالکل غصہ نہیں آیا تھا اس لیے میں نے آپ کو بتا دیا کہ سبق یاد ہو گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو علم حاصل کیا جاتا ہے اس کا اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس پر عمل بھی ہو۔
٭٭٭

بلا عنوان

گلشن اکبر

ناصر! تم فضلو چچا کی دکان سے پٹاخے لانا اور احمد تم! کیک لانا اور فاضل تم پھول والے کی دوکان سے بہت ساری گلاب کی کلیاں اور گلاب کے پھول کی پتیاں اور چنبلی کے پھول کی پتیاں الگ الگ لانا اور چار بکیٹ خاص طور پر لانا آخر فیضلہ خالہ بھی تو آ رہی ہیں توقیر نے سب کو سارے کام سمجھاتے ہوئے جو انہیں آج رات کی پارٹی کے لیے کئے جانے تھے۔ ناصر بھائی پلیز آپ میرے لیے پھولجڑیاں ضرور لانا فائزہ نے اپنے بھائی سے فرمائش کرتے ہوئے کہا۔ ناصر! انار والے پٹاخے ضرور لانا کیونکہ ان کی بہت تیز آواز ہوتی ہے احمد نے بھی تاکیداً کہا۔ ’’نازیہ تمہیں تو اپنا سارا کام یاد ہے نا‘‘ توقیر نے نازیہ کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلاتے ہوئے کہا۔ جی بھائی مجھے کمرہ دیکو ریٹ کرنا ہے اور آپ سب کے کپڑے استری کرنے ہیں رات کی پارٹی کے لیے سموسے وغیرہ بنانے ہیں اور ہاں کلیاں بھی تو الگ کرکے رکھنی ہے تاکہ صبح سویرے سب فرینڈز کو بھجوا سکوں نازیہ نے بڑی سمجھداری سے اپنی ذمہ داری گنوا دی۔
ارے بچوں تم یہاں آپ کی خالہ بس آنے والی ہیں نبیلہ نے اپنے بچوں کو بہن کے آنے کی خبر سنائی اور جاتے جاتے توقیر سے کہنے گلی ’’توقیر تم اپنی خالہ کو لینے بس اسٹاپ چلے جانا‘‘
نبیلہ کے جاتے ہی سب پھر سے اپنی اپنی پلاننگ میں مصروف ہو گئے کیوں نہ خالہ کو بھی نیو ایر سر پرائز دیا جائے‘‘ نازیہ نے مشورہ دیا۔ نہیں نازیہ ہو سکتا ہے خالہ کو پسند نہ آئے ویسے بھی امی کہہ رہی تھیں کہ خالہ اب بہت مذہبی بن گئی ہیں۔ توقیر نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ خیر چھوڑو جو ہو گا دیکھا جائے گا لیکن ایک سرپرائز میری طرف سے تمہارے لیے ہے، لیکن چلو ابھی بہت وقت ہو گیا سب اپنی اپنی ڈیوٹیز سنبھال لو۔ توقیر نے سب کو متنبہ کرتے ہوئے کہا۔
تھوری دیر بعد فضیلہ بھی اپنی بہن کے گھر آچکی تھی سب بچوں نے ان کا خوش دلی سے استقبال کیا اور کیوں نہ کرتے آخر خالہ انہیں بہت محبت کرتی تھی۔
’’ارے نبیلہ مجھے آئے ہوئے شام ہو چکی ہے لیکن ابھی تک تمہارا کوئی بچہ گھر پر نہیں ہے‘‘ اور نازیہ بھی کافی دیر سے نظر نہیں آرہی آخر کہاں ہیں یہ سب فضیلہ نے مغرب کے بعد بچوں کو غیر موجودگی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ تیاریاں کر رہے ہیں سب رات کی‘‘ ’’فازیہ کمرہ ڈیکوریٹ کررہی ہے اور بچے سب اپنے اپنے کام سے باہر ہیں‘‘ فضیلہ نے جواب دیا۔ تیاریاں کیسی تیاریاں؟ کیوں کیا آج خاص دن ہے فضیلہ نے پوچھا تمہیں نہیں معلوم! آج ہیپی نیو ائیر نائٹ ہے نا۔ سب اسی کی پارٹی کی تیاریاں کر رہے ہیں نبیلہ نے چائے کے کپ رکھتے ہوئے کہا گویا کہ وہ اپنے بچوں کے کارناموں پر فخر کررہی تھی۔ نیوائیر پارٹی لیکن کیوں؟ فضیلہ نے منہ ہی منہ میں بڑ براتے ہوئے کہا ’’لیکن نبیلہ یہ تو ہمارا تہووار نہیں اور تم بچوںکو منع بھی نہیں کررہی ہو فضیلہ نے نبیلہ کو اس کی غلطی کا احساس دلایا۔
آخر بچے ہی تو ہیں اور پھر بچوں کی خوشی میں ہی تو ہماری خوشی ہے نبیلہ نے اپنے بچوں کی طرفداری کرتے ہوئے کہا یہ دو تہوار ہماری خوشیوں کے لیے کم ہیں۔ فضیلہ نے نبیلہ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ آخر سب ہی تو کر رہے ہین پھر ہم اپنے بچوں کو کیسے روکیں کیونکہ یہ سب تو باہر کے ماحول میں عام سی بات ہے ویلنٹائن، اپریل فول، نیوائیر، برتھ ڈے وغیرہ وغیرہ… پھر جب یہ چیزیں ہمارے معاشرے میں زہر کی طرح سرایت کر چکی ہے تو ہم اپنے بچوں کو اس سے کس طرح دور رکھیں اور کیسے اس زہر کا شرباق کریں؟ نبیلہ نے اپنی مجبوری کا اظہار کیا (جیسا کہ ہم ہر غلطی اور کوتاہی کی ذمہ داری معاشرہ پر ڈال دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ معاشرہ ہم سے ہی تو بنتا ہے)
خیر چھوڑو ابھی نوجوانی ہے اسی لیے مزے کر رہے ہیں جب ہماری عمروں کو پہنچیں گے تو سب کچھ چھوڑ دیں گے وقت انہیں خود ہی سمجھدار بنا دے گا۔ نبیلہ نے چائے کے خالی کپ اٹھائے اور کچن کی طرف چلی گئی۔
’’کیا ہر روز اک نیا تہوار موج مستیاں کیا یہ ہمارے مسلم معاشرہ کا شیوہ ہے کیا اس کے علاوہ اور کوئی زندگی کا مقصد نہیں ہر چیز کا دن مقرر کرکے اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہی کسی چیز کے اہم ہونے کا طریقہ ہے کیا ہمیں وقت کی قدر نہیں ہے آخر کیا جواب دیں گے جب اللہ ہم سے سوال کرے گا کہ بتائو تم نے عمر کہاں گزاری مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا کیا ہم اللہ کو ہی جواب دیں گے کہ ہم نے ساری عمر خرافات میں گزاری مال فضول رسموں اور غیر مسلم کی تقلید میں لگایا۔ آخر ہم اپنی نسل کو ان خرافات سے کیوں نہیں روک سکتے فضیلہ گہری سوچوں میں گم ہو گئی اور اپنے دل سے کوئی جواب نہ پا کر انہیں گھتیوں کو سلجھاتے ہوئے۔ اس کی آنکھ لگ گئی۔
راب بارہ بجنے میں پانچ منٹ تھے ساری تیاریاں مکمل تھی فائز بہت خوبصورت فرار زیب تن کی۔ گلاب کی کلیاں اور پھولوں کی پتیاں پورے کمرے کے ماحول کو اور مسحور کن بنا رہی تھیں۔ کیک پر چاکلیٹ سے بڑی خوبصورتی سے "Happy New Years 2013" لکھا گیا تھا نازیہ نے بھی اپنی پارٹی کو خوبصورت بنانے میں دل جان ایک کر دیا۔ اور خود بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی آخر میں فضیلہ بھی نبیلہ کے بے حد اصرار پہ ناچاہتے ہوئے بھی پارٹی میں آگئی۔ ٹھیک بارہ بجے کیک کاٹا گیا پٹاخے پھوڑے گئے ہر طرف گہما گہمی اور شور کا ماحول تھا فائزہ نے بھی اپنی پھولجڑی جلائی اور پھر ایک پھولجڑی کی چنگاری نے اس کی فرار کو جلا ڈالا اور پھر چاروں طرف آگ آگ کا شور تھا اور ان شور میں سب سے بلند آواز نبیلہ کی تھی ’’ہائے میری بچی جل گئی بچائو ہائے میری بچی…
فائزہ کو اسٹریچر پر ڈال کر ایمرجنسی روم لے جایا گیا۔ بھائی سب ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے سب کے چہرے شرمندگی عیاں تھی کہ وہ خود ہی اپنی بہن کے جلانے کا سامان لائے تھے اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا ایک لیڈی ڈاکٹر باہر آئی آپ کی بچی کا 60% فیصد جسم جل چکا ہے فراک تقریباً اس کی کھال سے چپک چکی ہے ہمیں سرجری کرنا پرے گی۔ فی الحال آپ کی بیٹی کومہ میں ہے۔
اس کے بعد نبیلہ کو ہوش نہ رہا اور وہ بہن کے ہاتھوں میں ہی جھول گئی نازیہ پر سکتہ طاری ہو گیا اسے سمجھ نہیں آرہا کہ وہ ماں کو سنبھالے یا بہن کا غم برداشت کرے فضیلہ کی حالت یہ تھی کہ وہ پھترائی ہوئی آنکھوں سے سب کو دیکھ رہی تھی فضیلہ نے بہن کے سر کو گود میں رکھے سوچ رہی تھی کہ میری بہن کا خاندان بھی ایک غلط رسم کی بھینٹ چڑھ گیا کاش فضیلہ انہیں روک لیتی تو یہ سب نہ ہوتا کیونکہ مسلمان کے تہوار ان سب خرافات سے پاک ہیں اس لیے وہ ایسی تباہی اور حادثات سے بچے رہتے ہیں فضیلہ نے ایک نظر اپنی بے ہوش بہن کے چہرے پرڈالی جس کی تباہی اپنے ہاتھوں ہی تھی اور پھر دو آنسو اس کے آنکھ سے نکلے اور اس کے گالوں پر پھیل گئے وہ سوچ رہی تھی کہ جب بھی ہم نے اپنے مذہب کو چھوڑ کر باطل مذاہب کی پیروی کی کوشش کی ہے ہم اس طرح تباہ و برباد ہوئے اور اس بار یہ تباہی نبیلہ کے خاندان کی قسمیت میں تھی۔
٭٭٭

ایک یاد گار دن… سارا دن خوار ہوئے ہم

فریحہ ارشد

یہ واقعہ سردی کی چھٹیوں کا ہے۔ چھٹیوں کے تیسرے دن امی نے ابو سے ہمارے پاسپورٹ بنوانے کا کہا کیونکہ امی ہم سب کو لے کر عمرے پر جانا چاہتی تھیں۔ طے یہ پایا کہ اگلے دن صبح آٹھ بجے پاسپورٹ آفس روانہ ہوجائیں گے۔ ہم چاروں بہنوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سب نے جلدی جلدی کپڑے استری کیے، جوتے چپلیں نکالیں۔ اور وہاں بھوک لگے گی اس لیے میں اور مجھ سے چھوٹی بہن کھانے پینے کی چیزیں خریدنے گئے۔ جب چیزیں لے گھر پہنچے تو ایک اودھم مچ گیا۔ اور کیوں نہ مچتا، بات ہی کچھ ایسی تھی… ہر بسکٹ چاکلیٹ والا، بے کار ٹاٹری والے پاپڑ… دونوں بڑی بہنیں غصے سے چلاّ اٹھیں۔ مریم بولی: ’’کیا اٹھا کر لے آئی ہو… دکان گئی تھیں یا کوڑے دان!‘‘ خوب ڈانٹ پڑی۔ چھوٹی بہن نے معصوم بن کر بول دیا کہ یہ تو فریحہ لائی ہے اور میری شامت آگئی۔ خیر اللہ اللہ کرکے رات گزر گئی۔
صبح سات بجے ہی امی کی دھماکے دار آواز آئی ’’کب تک منہ لپیٹے سوتی رہوگی، پاسپورٹ آفس نہیں جانا کیا؟‘‘ جیسے ہی پاسپورٹ آفس کا نام سنا اپنی تیاریاں یاد آئیں۔ فوراً اٹھ بیٹھے، جلدی جلدی تیار ہوئے، ناشتہ کیا… اور ناشتہ بھی کیا، ایک بغیر جیم یا بغیر مکھن کا سلائس چائے میں ڈبوکر کھا لیا۔ 
اس کے بعد ہم روانہ ہوگئے۔ راستے سے دادی جان کو لیا، کیونکہ ان کا پاسپورٹ بھی تو ایکسپائر ہوگیا تھا۔ صبح کے سہانے موسم سے سفر کو چار چاند لگ گئے۔ بڑا ہی سکون والا اور مزے دار سفر تھا۔ راستے میں قائداعظم کا مزار بھی آیا مگر ابو نے گاڑی روکنے سے انکار کردیا اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ خیر جلد ہی ٹھیک بھی ہوگئے۔
پاسپورٹ آفس پہنچتے ہی مشکلات شروع ہوگئیں۔ گاڑیوں کا اتنا ہجوم تھا کہ ہماری گاڑی ایک زنگ آلود ڈنڈے سے جا ٹکرائی اور اس پر ڈینٹ پڑگیا۔ اندر گئے تو لوگوں کا اتنا ہجوم تھا کہ ہمارے دلوں پر ڈینٹ پڑگئے۔ لائن اتنی لمبی تھی کہ سب ہی کے ماتھوں پر شکنیں پڑ گئیں۔ خیر ابو فارم لے کر آئے اور بیٹھ کر جلدی جلدی پُر کرنے لگے۔ ابو کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، ان کا تو باہر کے ملکوں میں کاروبار کے سلسلے میں آنا جانا لگا ہی رہتا تھا۔ فارم پُر کرکے ہم لائن میں لگ گئے۔ بہت لمبی لائن تھی۔ اللہ اللہ کرکے ہماری باری آئی اور ٹوکن لے کر ہم اگلے مرحلے پر آگئے۔ وہاں پہنچے تو سرہی چکرا گیا۔ وہاں بھی طویل قطار تھی۔ اور سر چکرانے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں پر ہم بچوں اور امی کی لائن الگ اور ابو کی لائن الگ تھی۔ پھر دادی سے کہا گیا کہ سینئر سٹیزن والی لائن میں جائیں، وہاں ہماری دادی سارا وقت کھڑی رہیں جس کی وجہ سے ان کی ٹانگوں میں شدید درد ہوگیا۔ ہم نے سوچا، تھوڑی ہی دیر کی بات ہے، نمبر آجائے گا۔ مگر کیا پتا تھا کہ گھنٹوں کھڑا رہنا پڑے گا۔ اچانک ذہن میں دادی کا خیال آیا۔ ہم بڑے پریشان ہوئے۔ بھوک کا احساس ہونے لگا تو چیزیں یاد آگئیں۔ ہم نے ساری چیزیں ختم کردیں۔ امی کو بھوک لگی، انہوں نے ہم سے چیزوں کے بارے میں پوچھا تو سامنے سے لٹکے ہوئے منہ پیش کردیئے گئے۔ امی سمجھ گئیں کہ ساری چیزیں کہاں گئیں۔
جب تصویر بنوانے کا مرحلہ آیا تو ہمارے چہرے گرمی، پسینے اور تھکن سے اتنے خراب ہوچکے تھے کہ اپنی تصویر دیکھ کر ہڑبڑانے لگے۔ پھر جب نمبر پتا چلا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں… 130 نمبر چل رہا تھا اور ہمارے نمبر 280سے شروع ہورہے تھے۔ یعنی ڈیڑھ سو نمبروں کا فرق تھا۔ ہم پریشان حال دادی کے پاس گئے، ان کا نمبر بھی کافی دور تھا۔ سخت گرمی میں کرسی بھی نہیں مل رہی تھی۔ ٹانگوں میں اتنا درد تھا کہ ہمارا تو بینڈ بج گیا۔  بھوک اور گرمی کی شدت الگ… ہمارا برا حشر ہوگیا۔ آخرکار ہمیں ایک آدھ سیٹ مل گئی اور وہ بھی ایسے  کہ دو انکلوں کو رحم آگیا اور انہوں نے اپنی سیٹ دے دی۔ ہماری حالت دیکھ کر ابو پریشان ہوگئے اور ہمارے لیے بروسٹ، برگر اور کولڈ ڈرنک لے آئے۔ وہ کھا کر ہماری حالت سنبھلی۔ پھر بھی نمبر نہ آیا، گھنٹوں ایسے ہی بیٹھے رہے۔  شدید پیاس لگنے لگی لیکن پانی ہمارے پاس نہ تھا۔ ہم سب کے دلوں میں بس ایک بات تھی ’’پانی ی ی ی…‘‘ ہماری ساری خوشیاں اور تیاریاں مٹی میں مل گئیں اور یاد کرنے لگے کہ ہم کتنے پُرجوش تھے یہاں آنے کے لیے، کتنا لڑے تھے چیزوں کے لیے… اور کیا ہوگیا۔
شام کو نمبر آیا۔ اس دوران ہمارے ماموں بھی آگئے، انہوں  نے ہمیں پانی پلایا۔ پتا چلا کہ وہاں بھی فلٹر تھا۔ اس کے پاس گئے اور اپنی شکل جو فلٹر میں دیکھی تو ہکا بکا رہ گئے۔ بال خراب ہورہے تھے، جو منہ پر لگایا ہوا تھا سب اتر گیا تھا۔ جب سب کچھ ہوگیا اور آخری مرحلہ آیا اور صرف فام جمع کرواکر گھر جانا تھا تو پتا چلا کہ دادی کا شناختی کارڈ ایکسپائر ہے۔ ہمیں اتنا غصہ آیا کہ پہلے جن لوگوں نے فارم بنایا انہوں نے ہمیں دیکھا۔ اب جب فارم جمع کروانے کا وقت آیا تو ان کی نظر پڑگئی۔ ہم نے سوچا کہ چلو ہمارا تو جمع ہوجائے گا۔ مگر انہوں نے کہا کہ محلے کے ناظم کی اسٹیمپ لگنی ضروری ہے۔ ہم بوکھلا گئے۔ صرف امی اور ابو کا فارم جمع ہوسکا اور ہم لٹکے لٹکے منہ سے جاکر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ بہت زیادہ ٹریفک جام تھا۔ پھر ابو نے دادی کا شناختی کارڈ بنوانے کے لیے گاڑی روکی۔ شناختی کارڈ آفس تو بند تھا مگر اس کے برابر میں ہی مارکیٹ تھی۔ ہم سب نے خوب شاپنگ کی اور دل کھول کر سامان خریدا۔ آخر اتنا خوار ہونے کا بدلہ بھی تو نکالنا تھا۔ پھر ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔ واپسی پر اتنا ٹریفک تھا کہ آدھے گھنٹے کا سفر دو گھنٹے میں طے ہوا۔ گھر پہنچتے ہی ہم ۔بستر پر جا لیٹے۔ سر اتنا چکرا رہا تھا کہ اسی وقت سوگئے۔
یہ میرا سب سے یادگار دن رہا جب ہم اتنا خوار ہوئے۔ پھر ابو نے محلے کے ناظم سے اسٹیمپ لگوائی اور فارم جمع کروا آئے۔ 
٭٭٭

وہ صبح ہم ہی سے آئے گی

نغمہ جاوید

’’ماما، ماما! کل ہماری مس نے ہمیں کلاس میں بتایا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے محبت کریں۔ کسی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی جان لے۔ مس نے ہمیں ایک بہت ہی اچھی کہانی بھی سنائی تھی جو ہم سب نے بڑی توجہ سے سنی۔ اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ اللہ کی زمین ہے۔ اس پر اللہ کے حکم کے مطابق چلو۔ کسی قسم کا فساد نہ کرو۔ ایک دوسرے کی مدد کرو۔‘‘ 
ماما بڑے پیار سے اپنی پھول جیسی پیاری بیٹی کو دیکھ رہی تھیں جو اسکول کے یونیفارم کو استری کرنے کے ساتھ ساتھ کلاس میں ہونے والی باتیں بھی سنا رہی تھی۔ ماما اسکول والوں سے بھی خوش ہورہی تھیں اور خدا کا شکر ادا کررہی تھی کہ اسکول کا ماحول اچھا ہے، اور ٹیچرز بچوں کو فضول سرگرمیوں میں الجھانے کے بجائے اس طرح کی قرآنی اور اخلاقی کہانیاں سناتی رہتی تھیں جس سے ان کی ذہنی سوچ اچھی ہورہی تھی۔ گڑیا سے کھانے کا بول کر ماما کچن میں گئیں اور گڑیا کے لیے کھانا نکالنے لگیں۔ ساتھ ساتھ کام کی منصوبہ بندی بھی کرتی جارہی تھیں۔ آج گڑیا کے پاپا کو شام کو کام پر سے جلدی آنا تھا کیونکہ گڑیا کی پھوپھی نے رات کے کھانے پر انہیں بلایا ہوا تھا۔ اسی لیے بیٹی کو کھانا دے کر وہ جلدی جلدی باقی کام ختم کرکے شام کو پہننے کے لیے اپنے کپڑے استری کرنے لگیں۔ شام کو گڑیا کے پاپا آگئے۔ ماں بیٹی تیار ہی تھیں۔ پاپا بولے تم لوگ رکو میں موبائل کا کارڈ لے آئوں۔ ابھی انہیں باہر گئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک زور کا دھماکا ہوا، اور پھر ہر طرف چیخ و پکار شروع ہوگئی۔ ہر کوئی مدد کے لیے چیخ رہا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ ہر طرف آگ کے شعلے اور سیاہ دھواں تھا۔ گڑیا نے باہر دیکھا، ہر طرف ملبے کے ڈھیر۔ وہ بے چین ہوکر پاپا کو ڈھونڈنے لپکی۔ وہ کہیں نظر نہ آئے۔ آخر ایک جگہ چند لاشوں میں اس کو وہ کپڑے نظر آئے جو پاپا نے پہنے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں کارڈ تو تھا لیکن جلا ہوا۔ گڑیا اپنے پاپا کو اس حالت میں دیکھ کر رو رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کل کلاس میں مس نے جو کہانی سنائی تھی کیا وہ غلط تھی؟ کیا میرے ابو مسلمان نہیں تھے؟ یہ سب جو ہلاک ہوئے ہیں کیا مسلمان نہیں تھے؟ ہمارا مذہب تو غیروں کے لیے بھی سلامتی کا مذہب ہے، وہ کہانی ان دھماکا کرنے والوں نے کیوں نہیں سنی؟ اور پھر یہ کوئی عام کہانی بھی نہیں۔ یہ تو اللہ کی آیات ہیں جو ہر مسلمان کو پڑھنی اور ان پر عمل کرنا تھا۔ ان آیات پر عمل کرنے سے ہی تو ملک میں امن قائم ہونا ہے، جس کے بعد اس طرح کے واقعات ختم ہوں گے۔ یہ کب ہوگا، کیسے ہوگا؟ یہ تو اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب میرے وطن میں صالح قیادت آئے۔ وہ لوگ آئیں جو ان آیات کو سمجھتے ہیں اور ان پر عمل کروانا جانتے ہیں۔ جن سے وہ قوتیں خوفزدہ ہیں جو یہ سب کچھ اپنی چالوں سے کررہی ہیں۔ ان کو شاید یہ یاد نہیں کہ اللہ کی چالیں ان کی چالوں سے زیادہ ہیں، کیونکہ وہ تو علیم بھی ہے، حفیظ بھی ہے، جبار بھی ہے اور قدیر بھی۔
٭٭٭

بلی اور چوہا

مؤلف مہدی آذریزدی
ترجمہ:ڈاکٹر تحسین فراقی

ایک تھی بلی جو کسی امیر آدمی کے گھر میں پلی بڑھی تھی۔ وہ اس گھر سے اتنی مانوس ہو چکی تھی کہ کسی وقت بھی وہاں سے باہر قدم نہ رکھتی تھی۔ ایک سال کیا ہوا کہ صاحب خانہ نے اپنے تنگدست اور مفلس ہمسایے کو اپنے گھر میں جگہ دی اور خود ایک لمبے سفر پر روانہ ہو گیا۔
بلی گھر میں رہ گئی۔ درویش کبھی کبھی اس کو کھانے پینے کو کچھ دے دیتا۔ آہستہ آہستہ بلی غذا کی کمی کے باعث لاغر ہو گئی اور بیمار رہنے لگی۔ وہ اس قدر کمزور ہو گئی تھی کہ ایک دن اس نے ایک چوہے کا شکار کرنا چاہا مگر نہ کام رہی۔ چوہے کو بھی بلی کی اس کمزوری کا علم ہو گیا تھا۔
بلی کو یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ چوہا کہیں اس کی کمزوری اور ناتوانی کا مذاق نہ اڑائے چنانچہ اس دن کے بعد وہ دوبارہ کبھی چوہے کی گھات میں نہ بیٹھی اور ظاہر یہ کیا گویا اسے چوہے سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ اسی اثناء میں وہ اس قدر بیمار ہو گئی کہ اس کے لیے راہ چلنا بھی دشوار ہو گیا۔
رہا چوہا، تو وہ بھی سالہا سال سے اسی گھر کا مکین تھا اور اس نے گھر کے اندر ایک بڑا تہہ در تہہ سوراخ بنا رکھا تھا۔ وہاں اس نے زندگی کے سارے لوازمات مہیا کر رکھے تھے۔ اس نے خوراک کی ایک بڑی مقدار اس سوراخ میں ذخیرہ کر لی تھی اور جب اسے اپنے اس ذخیرے کا خیال آتا، وہ خوشی سے نہال ہو جاتا۔ وہ اپنی زندگی سے بڑا مطمئن تھا۔ صرف بلی کا وجود اس کے لیے بے آرامی کا باعث تھا اور بلی بھی وہ جو اب اسے پکڑنے کی طاقت نہ رکھتی تھی!
ایک روز چوہا اپنے دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ بلی وہی بلی ہے جس کے خوف سے وہ تین تین دن سوراخ سے باہر نہیں نکلتا تھا اور جس طرح کی طاقت ہمیشہ کے لیے نہ تھی، اس کی کمزوری بھی عارضی ہے۔ دنیا میں اس طرح کی بلندی وپستی بہت ہے۔ چوہا طویل فکر میں گم اپنے آپ سے کہہ رہا تھا ’’اگر کل کلاں کو ایسا اتفاق ہو کہ بلی کو اچھی خوراک ملنے لگے اور اسے اپنی کھوئی ہوئی توانائی حاصل ہو جائے تو دوبارہ ایک خطرناک صورت حال پیدا ہو سکتی ہے، سو اب جبکہ بلی اس قدر لاغر اور کمزور ہو چکی ہے اور میرا گھر خوراک سے پر ہے تو کیا برا ہے کہ میں کوئی لذیذ کھانا اس کے لیے لے جائوں اور اس سے دوستی کی بنیاد ڈالوں۔ چونکہ اب اسے میری ضرورت ہے اس لیے ممکن ہے وہ مجھ سے دوستی کر لے اور بعدازاں جب اس کی توانائی لوٹ آئے، وہ میری جان لینے کا قصد نہ کرے اور ایک پرانی ضرب المثل ہے: ’’دوستی کتنی ہی مہنگی کیوں نہ ملے پھر بھی سستی ہے۔‘‘
یہ سوچ کر چوہے نے بلی کے لیے اس کی پسندیدہ خوراک تیار کی اور اس کے پاس لے گیا۔ اسے سلام کیا اور حال احوال پوچھنے کے بعد بولا ’’اے عزیز ہمسائی، میں اور تم دونوں ایک ہی گھر کے مکین ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے، اگرچہ ہم ایک جنس سے نہیں اور عقلمندوں کا کہنا ہے کہ ناجنس سے دوستی نہیں کرنی چاہیے لیکن چونکہ تم ایک شریف اور بے آزار بلی ہو اور تم نے مجھ سے کوئی برائی نہیں کی، میں نے یہ واجب سمجھا کہ تمہاری عیادت اور قدرشناسی کو آئوں اور تمہارا حال چال پوچھوں‘‘
بلی بولی: ’’شکریہ‘‘ میں بھی جانتی ہوں کہ تم ایک سمجھ دار چوہے ہو۔‘‘
چوہا بولا: ’’تم خود اچھی ہو۔ اب چونکہ مجھے علم ہے کہ تمہاری بیماری اور کمزوری کا سبب خوراک کی کمی ہے دوسری کوئی وجہ نہیں، میں یہ ہدیۂ ناچیز، جو اچھی بلیوں کی مرغوب غذا ہے، تمہارے دوپہر کے کھانے کے لیے لایا ہوں تو یہ کسی قابل نہیں لیکن مجھے امید ہے کہ اسے قبول کر کے تم مجھے مسرور کرو گی۔ کل بھی تمہاری زیارت کے لیے حاضر ہوں گا۔‘‘
چوہے نے غذا کا دسترخوان بلی کے آگے رکھا اور اس کے شکریے کے الفاظ سن کر اسے خدا حافظ کہا اور اپنے بل میں چلا گیا۔ اب تک بلی نے کسی چوہے کو ایسا مہربان اور اتنا دلیر نہ دیکھا تھا۔ وہ بہت خوش ہوئی اور غذا کے تحفے کو، جسے وہ قبول کر چکی تھی، کھانے لگی۔ غذا بڑی مزے کی تھی۔ وہ خود سے کہنے لگی ’’کتنا آداب شناس چوہا ہے۔ ایسے چوہے کو حقیقتا تکلیف نہیں دینی چاہیے۔‘‘
وہ دن گزر گیا۔ اگلے دن پھر چوہے نے بڑے مزے کا کھانا مہیا کیا اور دوبارہ اس کا حال احوال پوچھا اور بولا ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہاری بیماری کا سبب توانائی اور غذا کی کمی ہے اور میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ہر روز، جہاں تک ممکن ہو، تمہارے لیے قوت بخش غذا لائوں تاکہ تمہاری صحب اور سلامتی پھر سے بحال ہو جائے۔‘‘
بلی نے گزشتہ دن خوراک کا خوب مزا لیا تھا۔ سو اس نے اپنی خوشی کا ظہار کرتے ہوئے کہا ’’تمہارا اس طرح کا طرزِ عمل تمہاری اعلیٰ خوبیوں اور خیر خواہی کو ظاہر کرتا ہے۔ نۂں معلوم تم نے اس سے پہلے مجھ سے کیوں دوری اختیار کی اور ہم نے ایک دوسرے سے دوستی کیوں نہ کی؟‘‘
چوہا بولا ’’دراصل میں نے سن رکھا تھا کہ بلیاں چوہوں کو پکڑ کر ہڑپ کر لیتی ہیں۔ مجھ سے میرے بزرگوں نے کہا تھا کہ چوہے کو بلی سے دوستی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ بلی زیادہ طاقت ور ہوتی ہے اور چوہے کو محض کھانے کی خاطر چاہتی ہے نہ دوستی کی خاطر۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ جب بلی بھوکی ہو تو اس کو انصاف کا احساس نہیں رہتا لیکن اب جب میں دیکھتا ہوں کہ تم بھوک کے باعث لاغر ہو گئی ہو اور چوہوں کو تکلیف پہنچانے کی فکر میں بھی نہیں ہو تو مجھے احساس ہوا کہ ہمارے بزرگوں سے بڑی غلطی ہوئی اور انہوں نے ہمیں خواہ مخواہ ڈرایا۔ بلی خوبصورت خط و خال والی مہربان حیوان ہے اور اسے کسی سے کچھ لینا دینا نہیں۔‘‘
بلی بولی: ’’ہاں ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔ میں کبھی اپنی تعریف نہیں کرتی لیکن وہ باتیں جو تمہارے بزرگوں نے تمہیں بتائیں، ہر گز صحیح نہیں۔ تم نے خود دیکھا کہ تم دوبار یہاں آئے گئے، میں نے تمہیں نہ پکڑا نہ کھایا نہ جان سے مارا۔ تیسری بار بھی ایسا ہی ہو گا اور ہمیشہ ایسا ہی۔ ہمیں باہم دوستی کر لینی چاہیے۔ میں نے بھی تم جیسے دوست کے نہ ہونے کی وجہ سے بڑی تکلیف اٹھائی ہے اور میں تم سے سوائے دوستی کے کچھ نہیں چاہتی۔‘‘
چوہا بولا ’’تاہم بعض بلیاں ہیں کہ چوہوں کو اذیت دیتی ہیں۔
بلی بولی: ہاں ہاں۔ وہ بری بلیاں ہیں۔ اگر کسی ایک نے برا کام کیا تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سب برے ہیں۔ البتہ ہو سکتا ہے کہ بعض خود مجھے بھی برا جانتے ہوں لیکن دراصل انہیں میری پہچان نہیں۔ یہ بڈھے کھوسٹ اور نادان چوہے ہیں کہ دوستی کے معنی سے ناواقف ہیں اور ہر چیز سے ڈرتے ہیں۔ میں اصولاً چوہوں کی آمد و رفت اور ان کے ساتھ دوستی اور آشنائی سے خوش ہوتی ہوں اور مجھے کسی وقت بھی چوہے کو کھانے کا خیال نہیں آتا۔ آخر چوہے کھانے سے فائدہ کیا ہے؟ چوہا ہے کیا: گوشت اور خون کی ایک مشت۔ اس کے مقابلے میں دوستی اور اخلاص خوشی اور مسرت کا سرمایہ ہے۔ میں جب یہ دیکھتی ہوں کہ ایک چوہا میرا دوست ہے اور مجھ سے ڈر کر نہیں بھاگتا تو یوں لگتا ہے گویا مجھے بہشت بریں کی نعمت مل گئی ہو۔ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ ہم باہم مل کر بیٹھیں اور باتیں کریں اور ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہوں۔ میرے خیال میں جو بلیاں چوہوں کو کھانے کی خواہش رکھتی ہیں، دراصل کسی اصول کی پابند نہیں اور دوستی کے معنی سے واقف نہیں۔ تم چونکہ بڑے ذہین چوہے ہو، خوب سمجھ سکتے ہو کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔‘‘
٭٭٭

جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے

ایمن احسن

ایک لڑکی تھی۔ اس کا نام شمائلہ تھا۔ وہ کلاس تھری میں پڑھتی تھی۔ اس کے اندر ایک کامی تھی۔ وہ جھوٹ بہت بولتی تھی۔ ایک دن اس سے ڈرائنگ روم میں رکھا ہوا بہت قیمتی گلدان ٹوٹ گیا۔ اس کی امی نے اس سے پوچھا کیا یہ گلدان تم نے توڑا ہے۔
نہیں تو اس نے جواب دیا۔
اس کی امی پریشان ہو گئیں اوہ اب میں کیا کروں۔ اف! اسی طرح وہ اسکول میں بھی بہت جھوٹ بولتی تھی ایک دفعہ اس کا ہوم ورک بہت زیادہ تھا تو اس نے اپنا کچھ کام اپنی کزن سے کرا لیا جب اس کی مس نے اس سے پوچھا کے یہ کام کس نے کیا ہے تو اس نے اپنی مس سے بھی جھوٹ بول دیا کے یہ کام میں نے ہی کیا ہے۔
لیکن یہ آپ کی رائیٹنگ تو نہیں۔ مس نے کہا نو مس یہ میں نے ہی کیا ہے۔ اس نے کہا مس نے یقین کر لیا اور بولیں۔
’’اچھا OK‘‘
ایک دن وہ اپنی دوستوں کے ساتھ کشتی کشتی کھیل رہی تھی تو کشتی بنانے کے لیے کاغذ ختم ہو گئے تو اس نے اپنے ابو کے آفس کے کاغذات لے لیے تھوری دیر بعد اس کی دوستیں چلی گئیں کیونکہ رات ہو گئی تھی وہ بھی سو گئی جب صبح اس کی امی نے اس کو اسکول جانے کے لیے اٹھایا تو ابو نے اس سے پوچھا تم نے میرے آفس کے کاغذات کیوں لیے اپنی عادت کے مطابق اس نے اپنے ابو سے کہا کے میں نے تو نہیں لیے تو پھر یہ کیا ہے! اس کے ابو نے اس کے سامنے کشتیاں لہرائیں اور اس کو اتنا ڈانٹا کے اس نے آئندہ جھوٹ بولنے سے توبہ کر لی۔
٭٭٭

دودوست

امجد علی

کسی گائوں میں دو دوست رہتے تھے دونوں اچھے اور سچے دوست مشہور تھے۔ کبھی انہیں کسی نے آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا تھا۔ ان میں سے ایک نبیل تھا اور دوسرا فیصل پورے گائوں میں ان کی دوستی کا چرچا تھا ان کا اخلاق سب کو بھاتا تھا کہ کیونکہ وہ گائوں میں سب کا خیال رکھتے تھے وہ کبھی کسی بزرگ کی بات ٹالتے یا منع نہیں کرتے تھے اور اپنے چھوٹوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے اگر کوئی ان سے کوئی کام کہتا تو وہ خوشی خوشی کر دیتے تھے۔ ایک دن انہیں ایک بزرگ نے آگے جنگل سے اپنے مویشیوں کے لیے چارہ لانے کو کہا جنگل بہت گھنا اور سنسان تھا لیکن نبیل اور فیصل نے ایک تو بزرگ سے وعدہ کر لیا تھا دوسرے وہ بہادر بھی تھے لہٰذا وہ آگے بڑھ کر چارہ جمع کرنے لگے کہ اچانک سامنے ایک ڈاکو آکھڑا ہوا جس کے ہاتھ میں ایک بڑا چاقو تھا۔ اس وقت نبیل نے فیصل سے کہا کہ تم یہاں سے جلدی سے بھاگ جائو اور ادھر فیصل نبیل سے کہہ رہا تھا تم چلے جائو تاکہ کسی ایک کی تو جان بچ جائے وہ دونوں ہی ایک دوسرے پر اپنی جان نثار کرنے کے لیے تیار تھے اور اپنی جان سے لا پرواہ۔ یہ منظر دیکھ کر ڈاکو کو اپنے دوست کی یاد آگئی جس کی ذرا سی مخالفت پر اس نے اپنے دوست کی جان لے لی تھی ڈاکو کی آنکھوں میں شر ساری مذامت کے آنسو آگئے اس نے چاقو پھینک دیا اور ان دونوں سے بولا تم نے مجھے دوستی کے معنیٰ سمجھائے ہیں دوست وہی ہوتے ہیں جو مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے تمہاری دوستی یونہی ہمیشہ دوسروں کی راہِ ہدایت دیکھاتی رہے گی۔
٭٭٭

طہارت و پاکیزگی

رابعیہ اکرم

دین اسلام میں طہارت یعنی صفائی اور پاکیزگی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور اللہ پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘ ایک اور جگہ پر ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور اپنے کپڑے پاک صاف رکھو‘‘
آپؐ خود بھی پاک صاف رہتے اور صحابہؓ کو بھی صفائی اور پاکیزگی کی تعلیم دیتے ظاہری اور باطنی پاکیزگی کے لحاظ سے آپؐ ساری امت کے لیے بہترین نمونہ ہیں رسولؐ سادہ صاف اور پاک لباس پہنتے آپؐ کسی شخص کے بال بکھرے ہوئے یا ناخن بڑھے ہوتے تو رسولؐ ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے اور اسی شخص کو اپنی حالت درست کرنے کا حکم دیتے آپؐ نے جمعہ کے روز غسل کرنے کی تلقین فرمائی ہے خود بھی اس کا اہتمام فرماتے اور خاص طور پر اسی دن لباس تبدیل کرتے آپؐ نے سفید لباس کو پسند فرمایا کہ یہ ’’پاکیزگی کی ملامت ہے‘‘
صفائی اور پاکیزگی مسلمان کی ایک بنیادی صفت ہے اللہ تعالیٰ کے قرب اور محبت کا ذریعہ ہے اور رسولؐ کا طریقہ ہے حضورؐ نے پاکیزگی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا ’’پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے‘‘
اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے جسم لباس اور جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے اور قرآن مجید کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اس کو صرف وہی لوگ ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں‘‘ ذہنی اور جسمانی اعتبار سے پاکیزگی کی بہت اہمیت ہے‘‘ حقیقت یہ ہے کہ پاکیزہ خیالات کا تعلق انسان کے پاک صاف رہنے سے ہے انسان اگر اپنے بدن اور کپڑوں سے نجاست دور نہ کرے گندی جگہوں پر بیٹھنے کی عادت بنائے تو اس کے خیالات اور عادتیں بھی خراب ہونے لگتی ہیں آج کل ہمارے یہاں آبادیاں بڑھ کر بڑے بڑے شہر وجود میں آگئے ہیں ہر طرف ٹریفک کا دھواں اور گرد و غبار ہے ان حالات میں شہر اور ماحول کو صاف رکھنے کے لیے صفائی اور پاکیزگی کے اسلامی اصولوں پر عمل کرنے کی ضروت اور زیادہ ہو گئی ہے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہمارے پیارے رسولؐ کے اسوہ حسنہ کو ہر وقت اپنے سامنے رکھیں اور اپنے بدن لباس اور ماحول کو پاک اور صاف رکھنے کی کوشش کریں۔
٭٭٭

شیطان شہرزادہ

مترجم:تفسیر احمد

بہت عرصہ ہوا کہ ایک مغرور اور بدکار شہزادہ تھا جوسوچتا تھا کہ وہ کس طرح دنیا کی تمام مملکتوں کو فتح کرے اور انسانیت اس کے نام سے کانپنے لگے۔ اس کے سپاہیوں نے قتل و غارت مچائی، کھیتوں اور غلوں کو روند دیا اور غریبوں کے گھروں کو آگ لگادی جن کے شعلوں سے درختوں کے پتّے جل گئے اور کالی جلی ہوئی شاخوں پر لگے پھل بھن گئے۔ کئی مائیں اپنے ننگے بچوں کو لے کر بھاگیں اور دھویں کے غبار کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش کی، مگر سپاہیوں نے ان کا پیچھا کیا اور پکڑلیا۔ پھر ان کے ساتھ ظلم و سفاکی کی انتہا کردی۔ ایسا تو خود شیطان بھی نہیں کرتا، لیکن شہزادے نے اپنے سپاہیوں کی ان شیطانی حرکات کا مزا لیا۔ 
وقت کے ساتھ ساتھ اس کا دائرۂ اختیار وسیع ہوتا گیا، یہاں تک کہ لوگوں کو اس کے نام سے خوف آنے لگا۔ 
ان فتوحات سے حاصل کیے ہوئے سونے اور ان لوٹے ہوئے قیمتی خزانوں سے حاصل کی ہوئی دولت سے اس نے اپنی سلطنت کو ایسی چیزوں سے بھر دیا جن کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ اس کے بعد اس نے محلات،گرجا اور دوسری عمارتیں بنوائیں جن کی چمک دمک دیکھ کر لوگ کہتے تھے ’’واہ یہ تو عظیم شہزادہ ہے!‘‘ ایک لمحہ کے لیے بھی انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس ظالم نے دنیا میں کتنی قتل و غارت اور بربادی پھیلائی ہے۔ انہوں نے کبھی ان مظلوموں کی آہوں اور سسکیوں کو نہیں سنا تھا جو تباہ کردہ شہروں کے ملبوں سے اٹھتی تھیں۔ اور جب شہزادہ اپنے سونے، جواہر کو اور ان عالیشان عمارتوں کو دیکھتا جو اس کے نام سے بنی تھیں تو وہ بھی ان لوگوں کی طرح سوچتا تھا: ’’واہ میں تو عظیم شہزادہ ہوں! لیکن میرے پاس اور بھی زیادہ ہونا چاہیے تاکہ کوئی میری برابری نہ کرسکے۔‘‘ چنانچہ اس نے اور جنگیں لڑیں اور دوسری سلطنتیں فتح کیں۔ شکست خوردہ بادشاہوں کو سنہری زنجیروں سے اُس کے رتھ کے ساتھ باندھا جاتا تھا اور انہیں شہرکی سڑکوں پرگھسیٹا جاتا تھا۔ اور جب یہ شیطان شہزادہ اور اس کے درباری کھانے کی میز پر بیٹھتے تھے تو شکست خوردہ بادشاہوں کو ان کے پیروں کے نزدیک بٹھایا جاتا تھا اور ان کو درباریوں کے پھینکے توڑوں کو کھانا پڑتا تھا۔ 
مغرور اور بدکار شہزادے نے اپنے مجسمے تمام عوامی جگہوں اور تمام محلوں میں نصب کروائے تھے۔ وہ تو شایدگرجا گھروں کی مذہبی میز پر بھی ایسا کرتا مگر پادریوں نے کہا ’’شہزادے آپ عظیم ہیں مگر خدا آپ سے بھی بڑا ہے، اس لئے ہم آپ کا حکم نہیں مان سکتے‘‘۔ 
’’اچھا، اگر ایسا ہے تب میں خدا کو بھی فتح کرلوں گا‘‘ بدکار شہزادے نے کہا۔ 
اور پھر اپنے تکبر و غرور اور گمان سے یہ حکم دیا کہ ایک ایسا جہاز تیار کیا جائے جو فضا میں اڑ سکے۔ اس جہاز کا رنگ مور کے پروں کی طرح رنگ برنگا تھا اور اس میں ہزار آنکھیں تھیں، لیکن وہ آنکھیں دراصل بندوقوں کی نالیاں تھیں۔ 
شہزادہ اس جہاز کے بیچ میں بیٹھ کر صرف ایک بٹن دباکر ایک ساتھ ایک ہزار گولیاں چلاسکتا تھا، اور یہ بندوقیں فوراً ہی نئی گولیوں سے بھرجاتی تھیں۔ سینکڑوں عقاب اس جہاز پر اس طرح باندھے گئے تھے کہ وہ اس جہاز کو اڑا سکیں۔ اور اب جہاز ایک تیر کی طرح سورج کی طرف اڑا۔ جلد ہی زمین بہت نیچے رہ گئی۔ اوپر بلندی سے پہاڑ اور جنگل کھیتوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے اور اونچائی سے اب زمین پر کہیں کہیں سبزہ سا نظر آتا تھا۔ جیسے جیسے عقاب اپنے عظیم پروں سے اوپر اڑتے گئے ہرچیز دھند اور کہر میں چھپ گئی۔ تب خدا نے اپنے بے شمار فرشتوں میں سے ایک فرشتے کو بھیجا۔ بدکار نے فوراً ہزارگولیاں چلائیں، مگر وہ سب فرشتے کے چمکیلے پروں سے ٹکرا کر برف کے اولوں کی طرح زمین پرگریں۔ اس کے بعد شہزادے کے جہاز پر فرشتے کے سفید پروں سے خون کی ایک بوند گری۔ یہ بوند شہزادے کے جہاز کے لیے اتنی بھاری تھی کہ بوجھ سے جہاز تیزی سے زمین کی طرف گرنے لگا۔ عقابوں کے عظیم پَر ٹوٹ گئے اور شہزادے کے اردگرد تیز ہوائیں چلنے لگیں اور پھر اسے بادلوں نے گھیرلیا۔ اور یہ بادل شاید ان شہروں کی آگ کا دھواں تھا جن کو شہزادے نے جلایا تھا۔ ان بادلوں نے ایک عجیب ہیئت اختیار کرلی تھی۔ ان میں سے کچھ میلوں لمبی ٹانگوں والے کیکڑوں کی طرح تھے اور کچھ پہاڑوں کے بڑے ٹکڑے تھے یا آگ اگلتے ہوئے اژدھے۔ شہزادہ جہاز کے اندر نیم مُردہ پڑا تھا۔ آخرکار جہاز گر کر جنگل کی گھنی شاخوں میں الجھ گیا۔ 
’’میں خدا کو فتح کروں گا‘‘ اس نے کہا ’’میں نے یہ عہد کیا ہے۔ میرا عہد پورا ہوگا‘‘۔ 
پھر اس نے آنے والے سات سالوں میں اپنے لیے ایک نیا مضبوط اور عظیم الشان جہاز بنوایا جس میں وہ ہوا میں اڑ سکے۔ اس میں اس نے سخت ترین لوہے کی برچھیاں لگوائیں تاکہ ان سے جنت کی حفاظتی دیواروں کو گراسکے۔ اپنے مفتوحہ ملکوں سے اس نے اتنے جنگجوؤں کو جمع کیا کہ اگر وہ شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں تو میلوں لمبی دیوار بن جائے۔ اور ان کے لیے بھی اڑنے والے جہاز بنوائے۔ 
وہ تمام جنگجو اپنے اپنے جہازوں میں سوار ہوگئے۔ مگر جب شہزادہ جہاز کی طرف بڑھا توخدا نے مچھروں کا ایک غول بھیجا۔ یہ مچھر شہزادے کے اردگرد چکر لگانے اور بھنبھناتے ہوئے اس کے چہرے اور ہاتھوں پر ڈنک مارنے لگے۔ شہزادے نے غصہ سے ہوا میں تلوار چلائی مگر وہ ایک مچھر کو بھی نہ چھوسکا۔ تب اس نے خادموں کو ایک موٹا شاہی لبادہ لانے کو کہا۔ اور پھر اسے اس لبادے میں لپیٹ دیا گیا تاکہ مچھر اس کے جسم تک نہ پہنچ سکیں۔ تمام کوششوں کے باوجود ایک چھوٹے سے مچھر نے ان کپڑوں میں جگہ بنالی تھی۔ اس نے شہزادے کے کان میں رینگ کر ڈنگ مارا۔ جس جگہ ڈنگ لگا اس کی جلن آگ کی طرح تھی اور اس کا زہر خون میں پھیل کر تیزی سے اس کے دماغ کی طرف جانے لگا۔ شہزادے نے اپنے کپڑے پھاڑنا اور ان کو اپنے بدن سے جدا کرنا شروع کردیا۔ اب وہ برہنہ تھا اور کان میں جلن کی وجہ سے اچھل کود رہا تھا۔ 
اس کے سب جنگجو اس پر ہنس رہے تھے اور اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ شیطان شہزادہ جو خدا کو فتح کرنے چلا تھا، اس پاگل کو ایک مچھر نے شکست دے دی۔
٭٭٭

پیش قدمی

ضیاء الرحمن

یہ تھوڑے پرانے زمانے کی بات ہے۔ ایک نو کیز لڑکے کو پتہ نہیں کیا خواہش تھی؟ یا جستجو سمجھ لیں! اب تو اجازت لے کر روڈ کے یا چوک کے ایک طرف سیمنٹ کی ٹنکی بنا دیتے ہیں اس میں ہلکی زنجیر سے سلور یا پلاسٹک کا کوئی گلاس باندھ دیتے ہیں تاکہ پیاسے لوگ بلامعاوضہ پانی پی سکیں۔ پہلے جو لوگ عام لوگوں کی بلا معاوضہ پانی پلانا چاہتے تھے وہ خود یا کسی آدمی کو معاوضہ پر رکھ لیتے تھے۔ وہ آدمی مشک ’’یہ مشک جو مجھے معلوم ہے کسی بری بکری کو جب ذبح کیا جاتا تھا تو اس کی کھال انتہائی ہنر مند سے بغیر کاٹے ثابت اتارلی جاتی تھی۔ اسے سکھا کر اس کے منہ والے حصہ کو کھلا چھوڑ دیا جاتا تھا یہ بھری مشک میں سے پانی نکلنے کا راستہ ہوتا تھا۔ ٹانگوں کے کونوں کو باندھ کر اس کے بند بنائے جاتے تھے جیسے اسکول کے بچے اپنی کتابوں کے بستہ کو کندھے کے ایک طرف لٹکا کر جاتے ہیں۔ اسی طرح مشک بھی کندھے کے ایک طرف لٹکائی جاتی تھی۔ پچھلا دھڑ مکمل سی کر بند کر دیا جاتا تھا۔ ’’مشک تیار‘‘۔ اب آپ اسے اتنا بھریں۔ بکری کی گردن کہہ لیں یا مشک کا منہ کہیں، پکڑنے میں آسانی ہو۔ پانی پلانا ہے تو تھوڑا سا منہ کھولا گلاس بھر دیا ہاتھ سے اس کا منہ بند کر دیا یااس میں اسی کام کے لیے ایک چمڑے کا فیتہ لگادیا جاتا تھا۔ اس سے اس کا منہ باندھ دیا، اب منہ پکڑنے کی بھی ضرورت نہیں۔ چھوٹی مشک کو مشکیزہ کہا جاتا ہے۔ تاریخی واقعہ میں کمسن مجاہدہ فاطمہ بنت عبداللہ میدان جنگ میں زخمی مسلمان سپاہیوں کو مشکیزہ سے پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی۔ فوجیوں کے پاس بھی مشکیزہ ہوتا ہے۔ پیاسے کو پانی پلانا جنت میں جانے والا عمل ہے۔ یہ بڑا نیک کام ہے۔ اسی لیے مسلمان اس نیک کام کو ضرور کرتے ہیں۔ وہ نوخیز لڑکا رافع جہاں رہتا تھا وہاں ایک بڑے چوک میں ایک آدمی اپنی مشک سے پانی پلاتا رہتا تھا صبح دھوپ نکلنے سے عصر کی نماز کے وقت تک پھر وہ گھر چلا جاتا تھا۔ یہ نیکی کا جذبہ ہی تھا رافع چاہتا تھا اس آدمی کی جگہ میں کھڑا ہو جائوں یا کم از کم اس کی مدد ہی کرتا رہوں۔ کافی دن حسرت سے دیکھنے کے بعد کیوں وہ پانی پلانے والا اکھڑ مزاج آدمی تھا۔ کسی سے کم ہی گفتگو کرتا تھا۔ اس نے اپنے والد سے مدد لینے کا ارادہ کر لیا۔ اس کے والد پڑھے لکھے عقلمند آدمی تھے۔ وہ اپنے بیٹے کی اس خواہش کو سن کر خوش ہوئے، اور اس سے کہا کہ تم اس آدمی کی جگہ کھڑا ہونا چاہتے ہو رافع نے کہا جی ہاں اس کے والد چاہتے تو حکم سنا دیتے کہ تم ایسا سے ایسا کر لو۔ مگر انہوں نے اسے مشاورتی انداز میں سمجھایا۔ رافع بڑا خوس ہوا کہ میرے والد مجھے بھی عقلمند سمجھتے ہیں۔ بات یہ طے ہوئی کہ پہلے مرحلہ میں اس جگہ کی صفائی کی جائے جہاں لوگ کھڑے ہو کر پانی پیتے ہیں۔ رافع بھی محنتی اور دھن کا پکا تھا۔ اس نے مشک والے کے انے سے پہلے پہلے اس پوری جگہ کو اچھی طرح جھاڑ وو دے ڈالی جہاں لوگ کھڑے ہوتے تھے۔ پندرہ دن تک وہ اسی طرح کرتا رہا۔ مشک والے سے لے کر پانی پینے والوں تک سب حیرت میں تھے یہ صفائی کون کرتا ہے؟ ایک تجسس تھا ارد گرد جو دوکانیں تھیں وہ سب رافع اور اس کے والد کو جانتے تھے۔ کیوں وہ یہیں کا رہنے والا بچہ تھا۔ مگر مشک اوالا دوسرے علاقے میںرہتا تھا اس لیے وہ رافع کو نہیں جانتا تھا۔ پندرہ دن کے بعد اس کے والد کے مشورے کے مطابق وہ روزانہ سے ذرا دیر سے جھاڑو دینے گیا تا کہ واپسی میں اسے مشک والا دیکھ لے۔ ایسا ہی ہوا! جب وہ واپس ہوا تو اسے محسوس ہوا کہ کوئی بھاری قدموں سے اس کے پیچھے آرہا ہے۔ پھر اسے ایک بھاری سا ہاتھ اسے اپنے کندھے پر محسوس ہوا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا مشک والا اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اس نے اسے سلام کیا! جواب دینے کے بعد اس نے کہا بیٹا جب تمہیں نیک کام کرنے کا شوق ہے تو مکمل کرو۔ اس نے شوق سے کہا فرمائیے مین اور کیا کر سکتا ہوں؟ اس نے کہا۔ بیٹا صبح سے لے کر دوپہر لوگ بری تعداد میں آتے ہیں اور سب افراتفری میں پانی پیتے ہیں جس سے مجھے بھی بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ تم جھاڑو دے کر گھر جانے کے بجائے یہیں رک جایا کرو اور لوگوں کو ایک لائن میں کھڑا کیا کرو۔ تاکہ وہ آسانی سے اپنی باری پر پانی پیا کریں مجھے بھی آسانی رہے گی اور وہ بھی خوش رہیں گے۔ رافع کے اس طرح کام کرنے سے مشک والا بھی خوش تھا اور پانی پینے والے بھی۔ کیوں اب ان کی باری جلدی آجاتی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد اس نے کہا! بیٹا اب تم ذرا یہ گلاس سنبھال لیا کرو۔ میں پانی بھر بھر کر دیا کروں گا تم لائن میں لگے لوگوں کو ترتیب سے پانی پلاتے جانا لوگوں کو اور آسانی ہو گی۔ کافی دن کے بعد مشک والے نے رافع سے کہا۔ بیٹا میں ایک ضروری کام سے جا رہا ہوں۔ تم ایک گھنٹے میری جگہ مشک لے کر کھڑے ہو جائو۔ یہ وہ وقت تھا جب رافع نے ایک طویل جدوجہد کے بعد اپنا مقصد حاصل کر لیا تھا۔ اس کامیابی پر وہ سجدہ شکر بجا لایا۔ اس کے بعد مشک والا آتا تھا مگر جلدی چلا جاتا تھا۔ آخر ایک دن اس نے رافع سے اس کے والد سے ملنے کی خواہش ظاہر کردی شام وہ کام ختم کرکے اسے اپنے والد سے ملانے لے گیا۔ اس کے والد اس شخص کو پہچان گئے وہ اس علاقے کی ایک بڑی کاروباری شخصیت تھے۔ انہوں نے لمبی چوڑی تمحید باندھے بغیر کہا۔ آپ مجھے پہچانتے ہوں گے؟ ارے بھائی آپ تو اس علاقے کی معروف شخصیت ہیں آپ کو کون نہیں جانتا؟ اب رافع کی حیرت کی باری تھی وہ تو انہیں ایک معمولی مشک والا سمجھتا تھا۔ انہوں نے انتہائی انکساری سے کہا! آج میں جو کچھ ہوں یہ سب اس پانی پلانے والی نیکی کی بدولت ہوں۔ میں نے آپ کے بیٹے میں بڑی خوبیاں دیکھیں ہیںمیں چاہتا ہوں یہ دن دوگنی چوگنی ترقی کرے۔ آج کے بعد میں ادھر نہیں آئوں گا یہ چوک اور مشک میں اس کے حوالے کرتا ہوں۔ اب میں کسی اور چوک پر کھڑا ہو کر پانی پلائوں گا۔ تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کی خدمت کر سکیں۔ آپ کو تو کوئی اعتراض نہیں ہے انہوں نے رافع کے والد سے سوال کیا؟ ارے جناب! یہ تو ہماری خوش نصیبی ہے اور میرے بیٹے کا سنہری خواب۔ طویل عرصہ کے بعد رافع ایک بڑا آدمی ہو چکا تھا۔ مالی طور بھی اور اس کے سر کے بال بھی کھچڑی جیسے سفید ہو چکے تھے۔ مگر وہ چوک پانی پلانے کی نیکی سے ہمیشہ کی طرح آباد تھا۔ آپ بھی دنیا کے ہر شعبے میں پیش قدمی کر سکتے ہیں۔ مگر علم کی سیڑھی اور مستقل مزاجی کے ساتھ۔
٭٭٭

تین مددگار

مائل خیر آبادی

ایک تھا بادشاہ۔ ہمارا تمہارا اللہ بادشاہ، آنکھوں کی دیکھی کہتے نہیں، کانوں کی سنی کہتے نہیں، مثال کے طور پر بیان کرتے ہیں کہ ایک بادشاہ تھا۔ بادشاہ چاہتا تھا کہ اس کے ملک میں سب لوگ آرام اور چین سے رہیں۔ نیکیاں پھیلیں اور برائیاں مٹیں، ملک میں چوری، ڈاکہ، لڑائی، دنگا اور لوٹ مار نہ ہو، کوئی کسی کو نہ ستائے کوئی ننگا بھوکا نہ رہے، نہ کوئی کسی کی کوئی چیز چھینے، نہ جھوٹ بولے اور نہ دھوکہ اور دھاندلی کر کے کسی کو ٹھگ لے۔
بادشاہ دن رات اسی فکر میں رہتا تھا مگر اس کے ملک میں برائیاں ختم نہ ہوئی تھیں۔ اس نے برائیوں کی روک تھام کے لیے بہت سی پولیس بھی رکھ لی تھی مگر پولیس کے سپاہی راتوں کو پہرہ تو دیتے مگر چوروں سے کہتے: ’’چوری کیے جائو۔‘‘
بادشاہ جب ساری تدبیرین کرکے ہار گیا تو اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ وہ دیر تک گڑ گڑاتا رہا۔ دعا سے فرصت پاکر بیٹھا ہی تھا کہ ایک سپاہی نے آکر کہا: ’’حضور! شیخ الہام صاحب تشریف لا رہے ہیں۔‘‘ بادشاہ نے اپنے استاد شیخ الہام صاحب کے آنے کی خبر سنی تو فوراً اٹھے اور ان کا استقبال کیا، بری عزت کے ساتھ لایا اور لونڈی غلاموں سمیت ان کی خاطر داری میں لگ گیا۔
شیخ الہام صاحب نے بادشاہ کو پریشان دیکھا تو وجہ پوچھی بادشاہ نے برائیوں کا رونا روتے ہوئے کہا:
’’سمجھ میں نہیں آتا کیسے نیکیاں پھیلیں اور برائی مٹیں؟‘‘
شیخ صاحب نے جواب دیا: ’’یہاں سے بہت دور ایک چھوٹا سا گائوں ہے ’’مومن پور‘‘ مومن پور میں ایک حکیم صاحب رہتے ہیں، ان کا نام حکیم ’’ایمان اللہ‘‘ ہے۔ ان کا ایک لڑکا ہے ’’عمل بیگ‘‘ اور ایک لڑکی ہے ’’عاقبت بیگم‘‘ اگر تم ان تینوں کو لا کر اپنے ملک میں بسائو تو تمہاری مراد پوری ہو جائے گی، ملک سے برائیاں مٹ جائیں گی اور نیکیاں پھیلیں گی۔‘‘ بادشاہ نے استاد شیخ الہام صاحب سے ایمان اللہ صاحب، عمل بیگ اور عاقبت بیگم کا اتا پتا پوچھا۔ اصطبل سے اپنا گھوڑا منگوایا، معمولی سا سامان لیا، گھوڑے پر سوار ہوا، استاد کو سلام کیا اور مومن پور کی طرف چل دیا۔
٭٭٭

اللہ کی راہ میں

ضیاء الرحمن غیور

جمیلہ اپنے نام کی طرح ہی خوبصورت تھی۔ اس کے سیاہ نرم و ملائم بال ذرا سے ہوا کے چھونکے سے چہرے پر بکھر کر اس کو اور حسین بنا دیتے تھے۔ اس کی ماں نے اس کے چہرے پر پھیلے ہوئے بالوں کو پیار سے سمیٹا۔ اس وقت وہ اس طرح اس کی گود میں لیٹی ہوئی تھی۔ جیسے وہ دنیا و مافیا سے بے خبر ہو۔ پھر کسی خیال سے چونکہ کر اس نے ایک جھر جھری لی اور مزید ماں کی گود میں دبک گئی۔ اس کے جھر جھری لینے پر ماں نے اسے اس طرح بھیچ لیا جیسے کہیں کوئی اس کی بچی کو اس سے چھین نہ لے۔ وہ سوچ رہی تھی اس کا باپ جہاد کے لیے پتہ نہیں کہاں گیا ہے پتہ نہیں زندہ بھی ہے یا شہید ہو گیا۔ اس کی یہ امانت جمیلہ اس کی گود میں لیٹی ہے اس کو بچانے کے لیے میں مسلسل سفر میں ہوں۔ مگر اس آگ و خون کے دریا میں میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اور نہ اس بچی کی زندگی کی کوئی ضمانت ہے۔ اچانک زور دار دھماکوں سے زمین لرزنے لگی۔ لڑکی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی اور زور سے چیخی۔ ابا آئو ان آوازوں سے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے جمیلہ کی ماں نے ارد گرد دیکھا۔ عورتیں بھی اپنے بچوں کو سینوں سے چمٹائے زمین پر خو فزدہ لیٹی تھیں۔ ماں نے بیٹھی کو پیار سے چمکارا۔ بیٹھی جمیلہ ہماری مدد تو صرف اللہ کر سکتا ہے اور کر رہا ہے۔ جمیلہ نے کہا ماں۔ ہماری مدد کو کوئی کیوں نہیں آتا؟ ماں نے کہا بیٹا تم اکیلی تو نہیں دنیا کے مجاہد تمہارے ساتھ ہیں۔ بمباری ذرا تھم جائے تو ہم سے محبت کرنے والوں کے تمہیں وہ معصوم چہرے دکھلائوں گی جو ہماری مدد کرنے آئے تھے اور اپنے ہی خون میں نہا کر ابدی نیند سو گئے۔ بمباری تھمی تو یہ قافلہ غار میں سے نکلا۔ خواتین اور بچوں کے ساتھ کچھ مرد بھی تھے جو راہنمائی کرتے تھے۔ جب یہ قافلہ چند بے گور و کفن لاشوں کے پاس سے گزرا تو جمیلہ کی ماں بے چینی سے آگے بڑھی مگر اسے جمیلہ کا باپ کہیں نظر نہیں آیا۔ اس نے جمیلہ کو اپنے قریب بلایا اور ایک لاش کی طرف اشارہ کرکے کہا بیٹی اس چمکتے چاند جیسے چہرے کو دیکھ رہی ہو۔ یہ عرب مجاہد ہے جو اپنی آسائشیں، سہولتیں دوست رشتے دار چھوڑ کر اس دکھ بھرے افغانستان کے پہاڑوں میں اللہ کی راہ میں آیا تھا اور شہادت پا گیا پھر ایک نوجوان کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔ یہ دیکھو، اس پاکستانی کو دیکھو۔ یہ میرا بچہ مر گیا ہے نا؟ مگر یہ مر نہیں سکتا، شہید کبھی نہیں مرتے۔ یہ ہمیشہ زندہ رہے گا جمیلہ نے بے بسی سے کہا، ماں ہمارا دشمن کون ہے؟ ماں نے کہا بیٹا اللہ کے دین کا دشمن ہمارا دشمن ہے ماں ہمارا دوست کون ہے؟ ہمارا آخری سہارا اللہ ہے اور ہمارے دوست مجاہد ہیں۔ یہ قافلہ بڑھتا رہا اور اپنی بقاء کے لیے چھپتا رہا۔ ایک دن یہ قافلہ سفر میں تھا۔ اچانک بمباری شروع ہو گئی۔ چھپنے کے لیے جگہ نہیں تھی ایک پہاڑ کے دامن میں پناہ لی لیکن ارد گرد اڑنے والے چھوٹے بڑے پتھروں اور گردو غبار نے ہر ایک کو ڈھک دیا۔ قافلے کے بچ جانے والوں نے اپنے ارد گرد نگاہ دالی تو بمباری میں زیادہ تر لوگ کام آگئے تھے جمیلہ کی ماں نے ہوش آنے کے بعد جب اٹھنے کی کوشش کی تو درد کے مارے اس کی چیخ نکل گئی۔ اس نے اپنے بدن کو ٹٹولہ تو اس کا بدن بہت زخمی تھا مگر بیٹی کا خیال آتے ہی وہ تمام تکلیفوں کو بھول گئی اس نے ارد گرد دیکھا۔ تھوڑے فاصلے پر جمیلہ سو رہی تھی وہ اپنے بدن کو گھسیٹتی ہوئی آگے بڑھی۔ آواز دی جمیلہ، مگر جمیلہ خاموش رہی۔ ماں نے قریب ہو کر اپنی بیٹی کے چہرے کو دیکھا تو اس کے چہرے پر وہی ابدی مسکراہٹ نظر آئی جو عرب پاکستانی اور دیگر شہیدوں کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی۔ ماں نے اپنے ہاتھ آگے بڑھا کر بچی کو اپنی آغوش میں سمیٹ لینا چاہا مگر اس کی ہمت نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ایک دفعہ وہ پھر بے ہوش ہو گئی۔ جب اسے دوبارہ ہوش آیا تو اسے قافلے والوں نے بتایا کہ ہم نے تمام شہیدوں کو دفن کر دیا ہے۔ جمیلہ کی ماں خاموشی سے اٹھی۔ بچی کی قبر پر گئی اور کافی دیر تک خاموشی سے آنسو بہاتی رہی۔ پھر اس نے قبر پر چہرے کی طرف اس طرح ہاتھ پھیرا جیسے وہ جمیلہ کے چہرے پر سے بال ہٹا رہی ہو۔ پھر اٹھی اور ایک طرف کو چل دی۔ قافلے کی عورتوں نے کہا جمیلہ کی ماں کہاں جارہی ہو؟ ہم سرحد کی طرف جا رہے ہیں جمیلہ کی ماں نے کہا۔ اپنی امانتوں کی حفاظت کرو۔ میں نے اپنا سب کچھ اپنے وطن پر نچھاور کر دیا۔ میں تم پر بوجھ نہیں بننا چاہتی۔ میری منزل کا کوئی پتہ نہیں میں اللہ کی راہ کی مسافر ہوں اور اللہ کی راہ میں یہ سفر جاری رہے گا۔ خدا حافظ
قافلہ دور تک ایک لٹی ہوئی افغان ماں کے پائوں سے اڑتے ہوئے غبار کو دیکھتا رہا جب اس گردو غبار نے اس ماں کو ڈھانپ لیا تو قافلے والوں نے اس گرد و غبار کی طرف ہاتھ اٹھا کر خدا حافظ کہا اور اپنی منزل کی طرف چل دیئے۔
٭٭٭

غار والوں کی کہانی



ہزاروں سال پہلے کا ذکر ہے کہ روم میں دقیانوس نامی بادشاہ حکومت کیا کرتا تھا وہ بہت ہی ظالم اور درندہ صفت آدمی تھا۔ اللہ پر یقین نہیں رکھتا تھا اور بتوں کی پوجا کرتا تھا، اس کی پوری قوم اللہ کی عبادت سے ناواقف تھی بلکہ سب کے سب بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ اسی بت پرست قوم میں کچھ سمجھدار لوگ بھی رہتے تھے۔ وہ آپس میں اکثر یہ تذکرہ کرتے تھے کہ یہ مٹی کے بت ہیں جنہیں قوم والے خدا سمجھتے ہیں۔ یہ پتھر کی مورتیاں تو اپنی ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی بھی نہیں ہٹاسکتیں۔ بھلا انسان کو کیا فائدہ یا نقصان دیں گی، کم عقل لوگ ہیں، اتنی سی بات نہیں سمجھتے پھر بادشاہ بھی عجیب آدمی ہے لوگوں کو سختی کے ساتھ ان کی پوجا کرنے پر زبردستی مجبور کرتا ہے۔ بچو! جو لوگ بتوں کی عبادت سے انکار کرتے تھے، بادشاہ ان کو آگ میں ڈال دیتا تھا، ان کے ناخن کھینچ لیتا تھا۔
اس قوم میں ہر سال عید کا میلہ لگتا تھا جس میں تمام لوگ شرکت کے لیے جاتے تھے، یہاں کْشتیاں ہوتی تھیں، دوڑ کے مقابلے ہوتے اور طرح طرح کے کھیل تماشے ہوتے تھے، سارے انعام تقسیم ہونے کے بعد بتوں کی پوجا ہوتی اور مٹھائی تقسیم کی جاتی تھی، ان تمام تمام فضول تماشوں سے تنگ آکر چند لوگ ایک درخت کے سائے میں آکر بیٹھ گئے، ان میں سے کوئی کسی کو نہیں جانتا تھا، آخر ایک نے دوسرے سے تعارف کرایا اور پوچھا بھائی تم سب یہاں کیوں بیٹھ گئے، پہلے نے کہا مجھے بت پرستی سے نفرت ہے، دوسرا بولا ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیوں کی عبادت کرنا کہاں کی عقلمندی ہے، تیسرے نے کہا، پوری قوم جاہل ہوچکی ہے، کوئی بھی خدا کو نہیں جانتا۔
بچو! سب نے مل کر عہد کیا کہ وہ ہرگز بتوں کی پوجا نہیں کریں گے بلکہ صرف اس خدا کی پرستش کریں گے جو سب کا مالک ہے۔
جس نے چاند، تارے، زمین، آسما، پانی اور انسان سب کو پیدا کیا ہے وہی سب کو کھلاتا ہے، پیدا کرتا ہے اور موت دیتا ہے، ان چند ساتھیوں نے مل کر مکان خریدلیا اور وہاں رہنے لگے اور اپنے میں خدا کی عبادت شروع کردی۔ اڑتے اڑتے یہ خبر ان کی قوم میں پھیل گئی کہ چند نوجوان بتوں سے باغی ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں، چند چغل خوروں نے یہ خبر بادشاہ کو بھی پہنچادی۔ بادشاہ نے یہ سنا تو غصے سے لال پیلا ہوگیا اور کہنے لگا میں اس ملک میں بتوں کے خلاف بولنے کی کسی کو اجازت نہیں دے سکتا، اس نے حکم دیا کہ نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جائے اور اس کے سامنے پیش شکیا جائے، جب یہ نوجوان گرفتار ہو کر محل میں گئے تو کیا دیکھا کہ بہت ہی خوب صورت محل ہے، اونچے اونچے کمرے،وسیع دالان، خوبصورت باغیچے، جگہ جگہ قیمتی قالین بچھے ہیں، دیواروں پر خوبصورت اور ریشمی پردے لٹک رہے ہیں، درجنوں نوجوان ہاتھوں میں تلواریں لیے محل کی حفاظت کررہے تھے لیکن اللہ پر ایمان رکھنے والا یہ ن وجوان کسی چیز سے متاثر نہیں ہوئے کیوں کہ وہ صرف اللہ کو بڑا طاقت والا مانتے تھے اور جو اللہ کو بڑا سمجھتے ہیں وہ کسی دوسرے سے قطعی نہیں ڈرتے اور نہ کسیس کے سامنے جھکتے ہیں۔ یہ نوجوان بھی بے خوف بادشاہ کے سامنے گئے بادشاہ نے ان سے کہا، میرے ہم وطنوں میں نے سنا ہے کہ تم قوم کے خدا?ں کو برا بھلا کہتے ہو اور ایک ایسے خدا کو مانتے ہو جسے کبھی آنکھ سے دیکھا بھی نہیں شاید تم جوان ہو اسی لیے اپنے مذہب سے بھٹک گئے ہو، دیکھو تم ان باتوں سے باز آجا? میں تمہیں اچھے اچھے عہدے اور انعام دوں گاا۔
بچو! بادشاہ نے جب اپنی بات ختم کی تو ایک قیدی نوجوان نے کہا بادشاہ سلامت ہم اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت ہرگز نہیں کرسکتے۔ ہمارا خدا بڑی طاقت والا ہے، پھر آپ کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ آپ بھی جھوٹے خدا?ں کو چھوڑ کر سب سے بڑے اور سچے خدا کی بندگی کریں جو مارتا بھی ہو اور زندہ بھی کرتا ہے، سب کو وہی رزق دیتا ہے، پانی برساتا ہے، فصل اگاتا ہے اور اولاد دیتا ہے۔
بچو! بادشاہ نے جب دیکھا کہ نوجوان خدا کی تعریفیں کیے جارہے ہیں تو زور سے چلایا کہ بکواس بند کرو اور غصے سے کانپنے لگا۔ اس نے نوجوانوں سے کہا کہ میں تمہارے باپ دادا کی عزت کرتا ہوں ورنہ تمہیں ابھی اور اسی جگہ قتل کردیتا، تمہیں سوچنے کا موقع دیتا ہوں اگر تم اپنے ارادوں سے باز نہیں آئے تو گردن اڑا دوں گا اور اگر بتوں کو مان لیا تو دربار میں جگہ دوں گا۔ یہ مسلمان نوجوان بادشاہ کے دربار سے نکل کر سیدھے اپنے عبادت خانے میں آئے یہ وہی مکان تھا جو انہوں نے خریدا تھا۔ سب نے مل کر مشورہ کیا کہ ہم شہر سے دور کسی پہاڑ کے غار میں چل کر رہتے ہیں۔ وہاں اللہ کی عبادت کریں گے اور جب تک اس ظالم بادشاہ کی حکومت ختم نہیں ہوجاتی ہم اسی جگہ رہیں گے۔
رات کو جب سب لوگ سوگئے اور ہر طرف اندھیر چھاگیا تو یہ نوجوان خاموشی کے ساتھ اٹھے اپنا سامان باندھ کر کندھے پر رکھا اور شہر سے پہاڑ کی طرف چل دیے۔ انہوں نے ایک کتا پال رکھا تھا وہ کتا بھی ان کے ساتھ چل دیا، چلتے چلتے دوسرے دن دوپہر کو یہ ایک پہاڑ کے پاس پہنچے وہاں ایک غار تھا ان نوجوانوں نے اپنے ہاتھوں سے اس غار کو صاف کیا اور غار میں بیٹھ کر سستانے لگے۔ طویل فاصلہ پیدا چلنے کی وجہ سے یہ بہت تھک چکے تھے کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹ گئے، ان کا کتا غار کے منہ پر بیٹھ کر پہرہ دینے لگا۔ تھکن اور رات بھر پیدل چلنے کی وجہسے انہیں نیند آنے لگی اور ایک ایک کرکے سب سوگئے، کتا ہوں ہی پہرہ دیتا رہا۔
بچو آپ کو حیرت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی نیند سلایا کہ وہ غار کے اندر تین سو سال تک سوتے رہے۔ نہ انہیں بھوک لگی اور نہ بیمار ہوئے، تین سو سال کے بعد سب ایک ایک کرکے اٹھ گئے، ایک دوسرے سے پوچھنے لگے بڑی گہری نیند تھی، ہم کتنی دیر تک سوتے رہے، دوسرے نے جواب دیا، آج ہم سارا دن سوئے، آج شاید دوسرا دن نکل آیا ہے، ایک ساتھی کہنے لگا دو دن ہوگئے ہمیں سوتے ہوئے اب بہت بھوک لگ رہی ہے، انہوں نے کہا ہم میں سے ایک آدمی جا کر بازار سے کھانا لے آئے، ان میں سے یملیخا نامی نوجوان کچھ پیسے لے کر کھانے کا سامان لینے شہر کی طرف جانے لگا سب نے اسے اچھی طرح سمجھادیا کہ کسی کو ہمارے بارے میں مت بتانا ورنہ ظالم بادشاہ گرفتار کرکے قتل کردے گا۔ جب سب نے یملیخا کو اچھی طرح سمجھادیا تو وہ شہر چلاگیا۔ اس نے دیکھا کہ شہر کا نقشہ ہی بدل گیا ہے اور اونچی اونچی عمارتیں، سڑکیں، گلیاں سب کچھ تبدیل ہوگیا یہاں تک کہ ملک میں چلنے والا سکہ بھی بدل گیا، جب یملیخا کھانے کی ایک دکان پر گیاا ور ظالم بادشاہ کے زمانے کا سکہ پیش کیا تو دکاندار حیران رہ گیا اور کہنے لگا یہ تو بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا سکہ ہے تمہیں کہاں سے ملا، چند اور لوگ بھی جمع ہوگئے اور کہنے لگے اس نوجوان کو قدیم خزانہ مل گیا ہے جس میں سے یہ سکہ نکال لایا ہے، نوجوان حیران و پریشان لوگوں کو سمجھانے لگا کہ میرے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے۔ یہ میرا اپنا سکہ ہے لیکن لوگوں نے اسے گرفتار کرکے بادشاہ کے سامنے پیش کردیا۔ اس نئے نادشاہ کا بیدوسس تھا، یہ بہت نیک دل اور ایماندار بادشاہ تھا، جب اسے یہ سکہ دکھایا گیا تو اس نے وزیر سے مشورہ کیا، وزیر نے بتایا کہ تین سو سال قبل جب دقیانوس بادشاہ حکمران تھا یہ سکہ جب چلتا تھا بادشاہ نے نوجوان سے نام پوچھا تو نوجوان نے سب کچھ سچ سچ بتادیا کہ وہ چند ساتھی اپنا ایمان بچانے کی غرض سے فرار ہوگئے تھے۔
بادشاہ ساری کہانی سن کر حیرت زدہ رہ گیا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان نوجوان کو تین صدیوں تک سلائے رکھا، اس عرصے میں کئی بادشاہ تبدیل ہوگئے تھے، یملیخا نے بادشاہ سلامت سے اجازت لی اور اپنے ساتھیوں سے ملنے گیا، ساتھیوں سے مل کر اس نے سارا حیرت انگیز واقعہ سنایا اور بتایا کہ بادشاہ بھی مسلمان ہے، ابھی وہ اپنے ساتھیوں کو یہ بتایں بتا ہی رہا تھا کہ بادشاہ خود اپنے حفاظتی عملے کے ساتھ غار تک پہنچ گیا۔ سب ساتھیوں نے بادشاہ کا استقبال کیا۔ کچھ دیر بادشاہ ساتھ رہ کر رخصت ہوگیا۔
یہ سب ساتھی غار کے اندر چلے گئے اور اللہ کے حکم سے سب کے سب انتقال کرگئے۔ سب لوگ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ تین سو سال تک بغیر کھائے پیئے انہیں سلا کر دوبارہ اٹھا سکتا ہے تو مرنے کے بعد بھی اپنے بندوں کو قیامت کے دن زندہ کردے گا اور اب تک جتنے بھی جاندار مرے ہیں سب کو اٹھا کر اللہ اپنے سامنے پیش کرے گا اور نیکی اور بدی کا فیصلہ کرے گا۔
٭٭٭

کیسی آواز؟

سارہ خالد

وہ جاڑے کی اندھیر اور خوفناک رات تھی۔ ایک رفتار سے برستی طوفانی بارش کا شور کمروں تک سنائی دے رہا تھا۔ زمینی بجلی دوپہر سے ہی غائب تھی جبکہ آسمانی بجلی وقفے وقفے سے کڑک کے بادلوں میں سے جھانکتی تو سارا صحن روسن ہو جاتا۔
ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔ لوگ گھرون میں دبکے بیٹھے تھے۔ دور کہیں سے آتی کتے بلی کی آوازیں ماحول کو عجیب سوگوار اور دہشت زدہ بنا رہی تھیں۔
کمرے میں جلتی واجد سفید موم بتی کا ننھا سا شعلہ اندھیرے سے لڑتا ہولے ہولے لرز رہا تھا۔ کمرے کے ایک طرف لکڑی کی پیٹی میں چھوٹی چھوٹی کترنوں کے نرم بستر پر ننھے سے گرم کمل میں لپٹا دو دھیا خرگوش منہ باہر نکال کر اپنی پیاری سی گول گول آنکھوں سے اپنی محسنہ کے موجود ہونے کا یقین کرکے پھر سے کمل میںمنہ چھپا لیتا۔
ضحی بستر کے ایک طرف بچھی جائے نماز پہ نماز پڑھ رہی تھی۔ دعا مانگ کے اس نے منہ پہ ہاتھ پھیرا اور بستر پہ آگئی۔
’’یہ لو بیٹا دودھ پی کے سونا۔‘‘ بوا دروازہ کھول کے اندر آئیں تو ٹھنڈی ہوا کا تیز جھونکا اندر آگیا انہوں نے دروازہ بند کرکے دودھ کا گلاس قریبی میز پہ رکھ کے زوہا کو ہدایت دی۔
’’بوا آپ یہیں سوئیں گی ناں؟‘‘ اس نے بستر جھاڑ کے دودھ کا گلاس اٹھاتے ہوئے بوا کو دیکھا۔
’’ہاں بیٹا۔ فکر نہ کرو بس باورچی خانہ سمیٹ کے آتی ہوں یہیں سوں گی۔‘‘ کمرے کی دوسری جانب لگے ضحی کی چھوٹی بہن ثمرہ کے خالی بستر کی طرف اشارہ کرکے وہ اچھی طرح دروازہ بند کرکے باہر نکل گئیں۔
وہ گلاس کالی کرکے کمبل میں دبک گئی۔ جلتی ہوئی موم بتی کا قد ہر لمحہ چھوٹا ہو رہا تھا۔
امی بابا ثمرہ کو لے کر بہاولپور گئے ہوئے تھے۔ نانا ابا کی طبیعت کئی روز سے ناساز تھی پرسوں فون پہ بات کرتے ہوئے وہ رو پڑے تو امی گھبرا گئیں۔ بابا بھی پریشان ہو کے اسی شام ٹرین کے ٹکٹ لے آئے یوں تو بہاولپور جانا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اکثر وہ سب چھٹیاں وہیں گزارتے تھے۔ ددھیال، ننھیال سب وہین تھا۔ مگر آج کل بارشیں زوروں پر تھیں۔ نانا ابا سے ملنے کی شدید خواہش کے باوجود امی موسم کے خیال سے تذبذب کا شکار تھیں۔
نانا ابا کے فون نے فیصلہ آسان کر دیا۔ آج دوپہر امی بابا چھوٹی ثمرہ کو لے کر روانہ ہو گئے علی اور ضحی کو گھر پر بوا کی نگرانی میں چھوڑ دیا۔ بوا سالوں سے اس گھر کی ملازمہ تھیں۔ گویا گھر کی فردہوں۔ وہ بالکل نانی دادی کی طرح بچوں کا خیال رکھتی تھیں۔
علی کھانا کھا کے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ ضحی اپنے اور ثمرہ کے مشترکہ کمرے میں آگئی۔ اس طوفانی رات میں اکیلے سونے کا خیال ہی سوہانِ روح تھا۔ وہ تو شکر ہے بوا نے اس کے ساتھ سونے کی ہامی بھر لی تھی۔
خیالات کے طوفان میں بہتے بہتے نجانے کب ضحی نیند کی وادی مین اتر گئی۔ 
چھن… چھن… چھن…
رات کے کسی پہر ضحی کی آنکھ عجیب سی آواز سے کھل گئی۔ اس نے کمبل سے تھوڑا سا منہ باہر نکال کے باہر جھانکا۔ موم بتی پگھل پگھل کے ختم ہونے کو تھی۔ اس کی مدھم روشنی میں کمرہ لرزتا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ بوا ثمرہ کے بستر پہ بے خبر سو رہی تھیں۔ ننھا سپیہ خرگوش بھی میٹھی نیند کے مزے لے رہا تھا۔
تواتر سے بارش برسنے کی ٹپ ٹپ، بادلوں کے گرجنے کی آواز… اور … اور ایک عجیب سی تھورے تھوڑے وقفے سے گونجتی آواز…
ضحی نے یک لخت منہ کمبل میں گھسا کے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ ’’پہ نہیں کس چیز کی آواز ہے…‘‘ اس نے ڈرتے ڈرتے سوچا۔
یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی گرم توے پہ ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مار رہا ہو… عجیب ہی سی کوئی آواز تھی… نہیں… شاید کسی عجیب الخلقت مخلوق کے پنجے رگڑنے کی آواز…
’’کہیں کوئی جن بھوت تو…‘‘ اس نے دل ہی دل میں سوچا اور مزید ڈر گئی۔
آواز تواتر سے آ رہی تھی… اسے جتنی سورتیں یاد تھیں وہ سب دہرا لیں… آیت الکرسی پڑھ کے تھوڑا سا منہ کمبل سے باہر نکال کے سارے کمرے میں پھونک دی… مگر آواز نہ رکی…
چھن… چھن… یا شاید … خر خر… خوف بڑھنے لگا… اس کی نیند اڑ گئی۔ ’’کیا کروں… بوا کو جگا دوں؟؟ نہیں نہیں… وہ بچاری تو سارے دن کی تھکی ہاری ہیں…‘‘
بہت دیر اسی حال میں گزر گئی… آخر اس نے دھیرے سے بوا کو آواز دی… ایک بار دو بار، تین… بوا ٹس سے مس نہ ہوئیں شاید گہری نیند میں تھیں…
آواز ہنوز آرہی تھی… وہ دل ہی دل میں لرزتی کانپتی رہی… آخر اس نے بوا کے بستر پہ ان کے ساتھ سونے کا فیصلہ کیا… اب اکیلے سونا ممکن نہیں رہا تھا۔ وہ کمبل لپیٹ کے اٹھ گئی۔
جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہی تھی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی۔ وہ جلدی سے بوا کے قریب پہنچ گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ بوا کو ہلاتی… اسے عجیب سا احساس ہوا۔
’’اوہ!‘‘ وہ عجیب و غریب آوازیں جنہوں نے اسے سوتے سے اٹھا دیا تھا دراصل بوا کے منہ سے آرہی تھیں۔ غالباً وہ اسی انداز میں خراٹے لیتی تھیں۔ بے ساختہ اس کی ہنسی نکل گئی۔ ڈر خوف سب بھاگ گئے… اتنی سی دیر میں اس کا آدھا خون خشک ہو گیا تھا…
وہ اسی طرح منہ پہ ہاتھ رکھے ہنستی ہوئی واپس بستر کی طرف چل دی۔
صبح بے حد روشن تھی۔ رات بھر برس کے بارش اب تھمی تھی۔ وہ تلاوت کے بعد باورچی خانے میں آگئی۔
’’بیٹا رات ٹھیک سے تو سوئیں ناں؟ مینہ خوب برسا ہے۔ ڈر تو نہیں لگا؟‘‘ بوا نے پراٹھا بیلتے ہوئے پوچھا۔
’’بہت اچھی رات گزری بوا۔‘‘ اس نے ہنسی چھپا کے انہیں اطمینان دلایا اور پھر زور سے ہنس دی۔
٭٭٭

دو موزے والا

گلشن ناز

یہ اُس وقت کی بات ہے جب عرب میں اسلام کا سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ ہر طرف ظلم و زیادتی کا دور دورہ تھا۔ عرب کے لوگوں کا کوئی خاص مشغلہ نہ تھا۔ کاشت کاری نہ ہونے کی وجہ سے ان کی ساری گزربسر صرف اونٹوں کے گوشت، دودھ اور کھجوروں پر ہوتی تھی۔ ذریعہ معاش صرف تجارت تھا اور باقی وقت آبا و اجداد کے حسب و نسب اور ان کے کارناموں کے قصے پر فخر کرتے گزارتے، یا پھر موسیقی کی محفل اور شراب نوشی اور شعرو شاعری میں ان کا وقت گزتا تھا۔ ان میں حسنین نامی ایک شخص بہت بے وقوف تھا، بہت کوشش کے باوجود بھی سوائے نقصان کے کچھ ہاتھ نہ آتا تھا۔ لیکن اس کی ناکامیوں کی وجہ یہ تھی کہ وہ بہت شیخی بگھارتا تھا اور کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتا تھا۔
اس کی بیوی ایک سمجھدار عورت تھی، وہ اسے کسی نہ کسی طرح ترغیب دے کر کچھ نہ کچھ کام دلوادیتی، لیکن یہ ہمیشہ اپنی بے وقوفیوں سے ناکام ہو جاتا۔
ایک مرتبہ اس کی بیوی نے اسے ایک گوّیے کے پاس کام دلوادیا۔ اس کی بیوی چاہتی تھی کہ یہ ایسا کام کرے جس میں اس سے کوئی بے وقوفی سر زد نہ ہو… اور گوّیا بننا ہی اس کو سب سے بہتر کام لگا، کیونکہ اس میں صرف گانا اور کمانا ہوتا تھا۔ استاد، حسنین سے دن بھر کام کراتا اور رات کو اسے گانا سکھاتا۔ اب بے چارا حسنین دن بھر کام کرتا اور رات کو گلا پھاڑ پھاڑ کر گانا گاتا۔ ایک عرصہ تک وہ دلجمعی سے یہی کام کرتا رہا۔
ایک مرتبہ اس کے استاد کی طبیعت ناساز تھی اور اس کو ایک بزمِ طرب میں بھی جانا تھا، لیکن طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے وہ جانہ سکا۔ اس نے اپنے شاگرد حسنین کو وہاں گانے کے لیے بھیج دیا۔  حسنین وہاں پہنچا تو لوگوں نے اس کا استقبال بڑے پُرجوش انداز میں کیا۔ جب حسنین نے دیکھا کہ لوگ اس کو بہت عزت دے رہے ہیں تو اس کا سینہ فخر سے پھول گیا۔ اس نے دل میں سوچا کہ مجھے موسیقی کا سارا علم حاصل ہوگیا تب ہی مجھے استاد نے محفل میں بھیج دیا ہے۔
جب محفلِ موسیقی شروع ہوئی تو اس نے سوچاکہ میں استاد کے طریقے کے مطابق کیوں گائوں؟ میں کچھ الگ طریقے سے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کروں گا۔
یہ سوچ کر اس نے گانا، گانا شروع کیا۔ وہ بے ہنگم آواز میں گاتا رہا۔ پہلے تو لوگ ہنستے رہے، اور یہ سمجھے کہ شاید محفل میں مزاح و نشاط پیدا کرنے کے لیے ایسا گا رہا ہے۔ لیکن جب لوگوں کی برداشت سے باہر ہوگیا تو وہ سمجھے یہ گوّیا نہیں بلکہ ہمیں بے وقوف بنا کر ہم سے پیسے بٹورنا چاہتا ہے۔ یہ سوچ کر لوگوں نے اسے مارنا پیٹنا شروع کردیا۔ حسنین کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ لوگ اس کے ساتھ اس قدر ذلت آمیز سلوک کیوں کررہے ہیں۔ اس نے بھاگنے میں ہی عافیت جانی اور بچتا، بچاتا ہوا گھر لوٹ آیا۔ پھٹے ہوئے کپڑے، بکھرے ہوئے بال، چہرے اور ہاتھوں پر مار کے نشان دیکھ کر اس کی بیوی سمجھ گئی کہ یہ ضرور اس کی کسی بے وقوفی کی سزا ہے۔ جب حسنین نے اپنی ’’اس عزت افزائی‘‘ کی داستان سنائی تو اس کی بیوی نے غصے سے سر پیٹ لیا۔ جب علاقے کے لوگ اس کی بیوی سے پوچھتے کہ حسنین کیا کچھ لے کر لوٹا ہے؟ تو یہ اس کی عزت بچانے کے لیے یہی کہتی کہ سوائے دو موزوں کے کچھ ہاتھ نہ آیا، لہٰذا وہ صرف دو موزے ہی لے کر لوٹا ہے۔
پھر کچھ دنوں تک اس کی بیوی اس کی خدمت کرتی رہی۔ ایک دن اس کی بیوی نے سنا کہ ایک قافلہ یمن کی طرف تجارت کی غرض سے جا رہا ہے۔ اس نے سوچا کہ حسنین کی اتنی بے عزتی کے بعد کوئی اس کو یہاں کام نہیں دے گا۔ حسنین کو یمن بھیج دیا جائے۔ وہاں نیا ملک، نئے لوگ ہوں گے تو ہوسکتا ہے تھوڑے بہت پیسے کما لائے۔ یہ سوچ کر اس بے چاری نے گھر کی چند چیزیں رہن رکھوا کر ادھار لیا اور اس کو تجارت کا سامان دے کر یمن کی طرف روانہ کردیا۔ یمن جاکر حسنین تجارت کرتا رہا، لیکن جب تھوڑا منافع ہونے لگا تو وہ اپنی طبیعت کے موافق یہ سوچنے لگا کہ اب میرا شمار بڑے بڑے تاجروں میں ہونے لگا ہے، اب کچھ بھی کسی بھی دام بیچوں، لوگ مجھ سے ضرور خریدیں گے۔ یہ سوچ کر حسنین نے چیزوں کے نرخ بڑھا دیے۔
ایک دن ایک اعرابی اس کے پاس موزہ خریدنے گیا۔ بھائو تائو کے دوران دونوں میں تلخی ہوگئی۔ اعرابی نے موزے خریدے اور واپس چلا گیا۔ اگلے روز حسنین اپنا ساز و سامان باندھ کر واپس جانے کی تیاری کرنے لگا۔ اعرابی کو پتا چلا تو اس نے حسنین کو دھوکا دینے کی ٹھانی۔ وہ اعرابی حسنین کے راستے میں بیٹھ گیا۔ حسنین اپنا سازو سامان لادے قافلے والوں سے ملنے جا رہا تھا۔ ایک موزہ اُس اعرابی نے حسنین کے راستے میں ڈال دیا اور کچھ آگے کچھ فاصلے پر دوسرا موزہ ڈال دیا اور خود ایک طرف چھپ گیا۔
حسنین جب وہاں پہنچا اور اس کی نظر جب موزے پر پڑی تو کہہ اٹھا کہ یہ تو اعرابی کے موزوں کی طرح ہے۔ اس نے سمجھا کہ اعرابی غصے میں خرید کر یونہی پھینک کر چلا گیا ہوگا۔ موزہ نہیں اٹھایا، آگے گیا تو دوسرا موزہ دیکھا۔ اب اسے افسوس ہوا کہ اس نے پہلا موزہ کیوں نہ اٹھایا۔ اس لیے اونٹنی وہیں باندھ کر پہلے موزے کو اٹھانے چلا گیا۔ اعرابی نے دیکھا کہ اب حسنین اپنا سامان مع اونٹنی چھوڑ کر چلا گیا تو وہ اونٹنی اور اس پر لدا ہوا سامان لے اڑا۔
حسنین بے چارہ دو موزے اٹھائے گھر آیا۔ جب لوگ اور اس کی بیوی پوچھتی کہ کیا لائے ہو؟ تو کہتا کہ میں دو موزوں کو ساتھ لایا ہوں۔
لوگ آج تک حسنین کی مثال دیتے ہیں۔ جب کوئی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو اور ناکام و نامراد لوٹے تو لوگ اس وقت محاوراتی طور پر حسنین کے متعلق یہی کہتے ہیں کہ یہ دو موزے لے کر لوٹا ہے۔ 
٭٭٭

alibaba

as

ad

web

amazon

Followers

Website Search

Tweet Corornavirus

Please Subscribe My Chennal

Sub Ki News

 
‎Sub Ki News سب کی نیوز‎
Public group · 1 member
Join Group
 
Nasrullah Nasir . Powered by Blogger.

live track

Popular Posts

Total Pageviews

Chapter 8. ILLUSTRATOR Shape Builder & Pathfinder-1

Chapter 10. Illustrator Drawing & Refining Paths-1

Labels