ملیحہ لودھی کا تعلق لاہور کی ایک اپر کلاس فیملی سے ہے۔ لندن سے تعلیم مکمل کی وہاں کچھ دیر پڑھایا اور (1984) پاکستان آگئی۔
دو انگریزی اخبارات کی ایڈیٹر رہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو صاحب (مرحوم) کی سیاسی خدمات پر (پی ایچ ڈی) کا مقالہ لکھا، جس سے محترمہ بےنظیر بھٹو صاحبہ (مرحوم) کے قریب آنے کا موقعہ ملا اور (1994) میں امریکہ میں پاکستانی سفارتی مشن میں شامل کردیا گیا۔
اس کے بعد سے ابتک وہ امریکہ میں سفیر، برطانیہ میں ہائی کمشنر اور اب اقوام متحدہ میں مستقل مندوب جیسی اہم ترین پوسٹوں پر تعینات رہی ہیں۔
اس عرصے کے دوران اقوام متحدہ اور امریکہ و برطانیہ میں پاکستان کو کیا سفارتی کامیابیاں ملیں اس کا سوال ان سے چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں ایک شہری نے کیا تو وہ شدید غصے میں آ گئیں۔
"پچیس سال سے امریکہ و برطانیہ میں پاکستانی مفادات کی نگہبان ملیحہ لودھی کے بارے یہ انکشاف آپ کو حیران پریشان کر دے/گا کہ انہوں نے بخوشی اپنے بیٹے فیصل کی شادی ایک ہندو گھرانے میں کی ہے"
نئی دہلی کے ایک ایلیٹ کلاس گھرانے سے تعلق رکھنے والی ان کی بہو "گاوریکا گھمبیر شروانی" نے اپنا مذہب و نام تبدیل نہیں کیا صرف اپنے نام کے آخر میں "شروانی" لگا کر وہ فیصل شروانی کی بیوی بنی ہیں۔
اس سے آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسے نظریاتی ملک کی سب سے بڑی سفارت کار کے نظریات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ "فیصل اور گاوریکا" لندن میں رہتے ہیں۔
ملیحہ لودھی کی سمدھن کیشی گھمبیر انتہائی متحرک خاتون ہیں۔
اگر آپ فیس بک پر ان کا پبلک پروفائل دیکھیں تو دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ان کے وزٹ اور پاکستان، بھارت، سنگاپور، برطانیہ و امریکہ کی ایلیٹ کلاس پارٹیوں میں شرکت حیران کر دے گی۔
وہ (بی جے پی) اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی زبردست حامی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے نریندر مودی کی پالیسیوں کی تعریف و حمایت کرتی ہیں۔ کیشی گھمبیر "پاک بھارت" تعلقات کو بہتر بنانے کےلئے کاوشیں کرتی بھی نظر آتی ہیں۔ انہوں نے اگر بیٹی کی شادی ملیحہ لودھی کے بیٹے سے کی ہے تو اپنے گھر بھی کراچی سے بہو لائی ہیں۔
جی ہاں کیشی گھمبیر کے بیٹے ادیتہ کی شادی کراچی میں شرمین نامی لڑکی سے ہوئی ہے۔
حیران کن طور پر اس جوڑے نے بھی نام و مذہب نہیں بدلے۔
یہ سنگاپور میں رہتے ہیں، کیشی گھمبیر اپنی بہو شرمین کے خاندان سے ملنے اور شادی و دیگر تقریںات میں شرکت کرنے اکثر پاکستان بھی آتی رہتی ہیں۔ شرمین کا خاندان کراچی کے امیر گھرانوں میں شامل ہے اس کی بہن ماہین کریم کے نام سے مہنگے کپڑوں اور فیشن ڈیزائننگ کا برانڈ چلاتی ہیں۔ اس خاندان کے اثر و رسوخ کا اندازہ اس سے بھی لگا لیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ کے انگریزی روزنامے دی نیوز میں ان کا مکمل انٹرویو شائع ہو چکا ہے جس میں وہ اس بین المذاہب شادی کی افادیت بتا چکے ہیں۔
کیا یہ سب اتنا ہی سادہ ہے۔
ہرگز ایسا نہیں ہوتا کبھی سالوں بعد جا کر پتہ چلتا ہے کہ یہ سب شادیاں کسی خاص مقصد کےلئے کی جاتی ہیں۔
کیا کسی دوسرے ملک کے پالیسی سازوں تک رسائی کو عام سی بات سمجھ لینا چاہیے۔
عالمی سفارت کاری میں پاکستان کا سب سے اہم ترین مسئلہ کشمیر ہے اور بھارت سے اختلافات نظریاتی ہیں۔
ایسے حالات میں پاکستان کا مقدمہ سب سے بڑی سفارت کار کے ہاتھوں میں ہے، جس کے نزدیک ان نظریات و مسئلہ کشمیر کی مذہبی اساس کی کس قدر اہمیت ہوگی، اس کا اندازہ آپ کو اوپر بیان کردہ حقائق سے ہو ہی جائے گا۔
اب تو بہت سے واقعات دماغ میں گھوم سے گئے ہیں کہ کیسے پاکستان اقوام متحدہ و مغربی ممالک میں پاکستان کا مقدمہ بہتر طریقے سے کیوں نہیں لڑ سکا۔
(ایف ٹی اے ایف) کی پابندیوں اور سلامتی کونسل میں کچھ عرصہ پہلے بھارت کو ووٹ دینے جیسے معاملات مشکوک سے لگ رہے ہیں۔
ملکی رازوں سے آگاہ ایک اعلی ترین منصب پر فائز خاتون کے گھر میں ایک ایسی بہو موجود ہو جس کا تعلق ہی دشمن ملک سے ہے۔
کیا آپ نظریاتی بنیادوں اور دشمن ملک کے خلاف بھرپور موقف پیش کر سکتے ہیں؟
جب آپ خود ہی ان نظریات کے قائل نہ ہوں بلکہ ذاتی زندگی میں ان کو روند بھی چکے ہوں۔ کیا یہ Clash of Interest نہیں ہے جس کے تحت انہیں اس اعلی ترین عہدے پر نہیں رہنا چاہیے۔
0 comments:
Post a Comment