ٹیکسٹائل سیکٹر کو تباہی سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں، سابق صدر اسلام آباد چیمبر
ٹیکسٹائل، فوڈ پروڈکشن، مشروبات، تمباکو، پٹرولیم، کیمیکل اور ادویات کے شعبے تنزل کا شکار ہیں
اسلام آباد(کامرس ڈیسک) اسلام آباد چیمبر کے سابق صدر شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ کپاس کی پیداوار میں زبردست کمی ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والے ٹیکسٹائل سیکٹر کو تباہی سے بچانے کے لیے کم از کم پچاس لاکھ گانٹھ کپاس کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دی جائے تاکہ کپاس کی کمی سے صورتحال بگڑنے نہ پائے۔شاہد رشید بٹ نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ ا مسال کپاس کی پیداوار میں 33فیصد کمی کا امکان ہے یعنی اس کی پیداوار ڈیڑھ کروڑ گانٹھ سے کم ہو کر ایک کروڑ گانٹھ رہ جائے گی جس سے لاکھوں کاشتکار اور ٹیکسٹائل جو ملک کا سب سے بڑا برآمدی شعبہ ہے بری طرح متاثر ہو گا۔برآمدی ہدف حاصل کرنے کے لیے کم از کم پانچ لاکھ گانٹھ درآمد کرنا ہوں گی جس پر ڈیڑھ ارب ڈالر خرچہ آئے گا تاہم اگر ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت نہ دی گئی تو اخراجات اور کاروباری لاگت میں اضافہ ہو گا جس سے پیداوار اور برآمدات متاثر ہوں گے۔ٹیکسٹائل سیکٹر کے علاوہ کپاس کے کاشتکاروں کی بحالی کے لیے بھی اقدامات کی ضرورت ہے جنھیں بھاری نقصان ہوا ہے۔انھوں نے کہا کہ ایک طرف کروڑوں افراد کو روزگار فراہم کرنے والے ٹیکسٹائل سیکٹر کا مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے جبکہ دوسری طرف بیوروکریسی کپاس کی پیداوار میں تیس لاکھ گانٹھ کے اضافہ کا بے بنیاد دعویٰ کر رہی ہے۔بڑی صنعتوں کی صورتحال میں بھی بہتری آنے کا دعویٰ کیا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بڑی صنعتوں بشمول ٹیکسٹائل، فوڈ پروڈکشن، مشروبات، تمباکو، پٹرولیم، کیمیکل اور ادویات کے شعبے تنزل کا شکار ہیں۔انھوں نے کہا کہ ایس ایم ایز کی پیداوار کی طلب میں کمی آئی جس کی وجہ سے ملازمین کو فارغ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے جبکہ نے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ میں اسی ارب روپے کے اضافہ پر تالیاں بجائی جا رہی ہیں جو اونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی کم ہے۔
0 comments:
Post a Comment