نشہ آور اشیا پاکستان کے راستے گزرتی ہیں،انچارج اینٹی نارکوٹکس فورس
کرا چی (اسٹاف رپورٹر)پورٹ کنٹرول یونٹ اینٹی نارکوٹکس فورس کے انچارج محمد ایوب نے کہاہے کہ نشہ آور اشیا اور قدرتی منشیات کی بڑی مقدار پاکستان کے راستے گزرتی ہے، ہمارے پاس جیویانی سے کراچی تک ایک ہزار کلو میٹر لمبا ساحل ہے،ہوائی اڈے ، بندرگاہ اور اور رابطہ سڑکیں بھی ہیں، ہم اتنے وسیع علاقے میں منشیات کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم اپنے مینڈیٹ کے مطابق خدمات انجام دیتے ہیں اور منشیات ، نشہ آور اشیا ، اور پری کرسر کیمیکلز سے متعلق تمام جرائم کی تفتیش اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روزفیڈریشن ہائوس میں فیڈریشن ممبران سے گفتگو میں کیا۔اس موقع پر نائب صدر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری خرم اعجاز ، کنوینر ایف پی سی سی آئی کی قائمہ کمیٹی برائے کسٹمز شبیر حسن منشا اوردیگر نے بھی خطاب کیا۔محمد ایوب نے کہاہے کہ ہم جانتے ہیں کہ تاجر کبھی بھی منشیات لے جانے میں شامل نہیں ہوتے ہیں لیکن جب وہ دوسروں کو بغیر کسی احتیاط کے کیریئر کی سہولیات کی پیش کش کرتے ہیں تو ان کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہم تاجروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ صرف قابل اعتماد لوگوں کے ساتھ کام کریں، ہم صرف 1 سے 5 فیصد مشکوک کنٹینروں کی فزیکل جانچ کرتے ہیں اور ہم نے ہولڈنگ کی مدت کو کم سے کم کردیا ہے کوئی بھی اصل کی طرح دوبارہ پیکنگ نہیں کرسکتا، لیکن ہم تاجروں کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنی ٹیم لاکر سامان دوبار پیک کرلیں۔سنگل ونڈو کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں محمد ایوب نے کہا کہ منشیات ایک بین الاقوامی جرم ہے ، ایف بی آر، کسٹم، کوسٹ گارڈز ، اے این ایف اور دیگر محکمے اپنے اختیارات کے تحت کام کر رہے ہیں ، ہمارے پاس صرف 4 ٹرمینلز پر کنٹینر روکنے اور چھوڑنے کی محدود رسائی ہے۔ ہمیں بی ایل، انوائس، یا دیگر دستاویزات موصول نہیں ہوتی ہیں۔ اور کسٹم ہمیں وی بوک سسٹم تک رسائی کی اجازت دینے سے انکار کرتا ہے۔ خرم اعجاز نے کہا کہ کرونا لاک ڈاؤن کے دوران عالمی معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی تھی اور یہاں پاکستان میں ایف پی سی سی آئی تجارت اور صنعت کا ایک اعلی ادارہ ہونے باعث ہے صنعت اور تجارت کے فروغ کے لیے اپنی جدو جہد جاری رکھے ہوئے تھا،ہم لاک ڈاؤن کی سنگین صورتحال کے دوران معیشت کے فروغ کے لیے خدمات انجام دینے پر اے این ایف کے کردار کی بھی تعریف کرتے ہیں،منشیات کی غیر قانونی برآمد کو روکنے جو کہ عالمی منڈی میں برآمد کے لیے ایک شرط ہے اور پاکستان کی ساکھ کی حفاظت کے لیے خدمات انجام دینے پر اے این ایف کو قابل ستائش سمجھتے ہیں۔ انہوں نے بندرگاہوں پر کنٹینر کارگو کی جانچ کے دوران سامان کے نقصانات سے متعلق برآمد کنندگان کی شکایات پر شدید تشویش کا اظہار کیا جو نقصانات خاص طور پر سامان کو دوبار صحیح طرح پیک نہ کرنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ شبیر حسن منشا نے کہا کہ کنٹرول شدہ کیمیکلز کا اندراج آئی فارم اور ای فارم میں ہونا چاہیے اور تاجر کو اس کا پہلے سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنا چاہئے اس طرح کنٹرول شدہ کیمیکلز کی غیر قانونی درآمد / برآمد کو روکا جا سکتا ہے۔
0 comments:
Post a Comment