یہ فرانسیسی نوجوان عبداللہ اے کی تصویر ہے جنہوں نے دو دن قبل گستاخ کارٹونسٹ معلم کا سر قلم کیا تھا۔ 2002 میں روس کے دارالحکومت ماسکو میں پیدا ہونے والا عبد اللہ عام نوجوانوں کو طرح دل میں کئی خواب سجائے زندگی کی منزلیں طے کر رہا تھا۔ خانہ جنگی اور بد امنی سے اسے نفرت تھی، کیونکہ اسی عفریت نے اس کے ماں باپ کو چیچنیا چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ حالات نے عبداللہ کے خاندان کو فرانس کی سرزمین پر پناہ گزین کی حیثیت سے جگہ دلوائی تو اس نے جی لگا کر پڑھنا شروع کردیا۔ وہ خود کو سنوار کر ایک خوشگوار زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ پیرس کی گلیوں میں عبد اللہ کی زندگی اس وقت بے چینی کا شکار ہو گئی جب اس کے اسکول ٹیچر سیموئل نے آپ علیہ السلام کے گستاخانہ خاکے بنائے۔ کلاس کے مسلم بچوں نے اس بات کی شکایت کی جس پر والدین نے انتظامیہ کے پاس اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ عبد اللہ کو تب بہت مایوسی ہوئی جب یہ سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا۔ عبد اللہ کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔
یہ 16 اکتوبر کی تاریخ اور جمعے کا دن تھا۔ کارٹونسٹ معلم نے پھر سے خاکے بنائے اور اس بار طلبہ کو بھی بنانے کا کہا۔ یہ دیکھ کر عبداللہ کے جذبات شدید مجروح ہوئے۔ وہ اندر ٹوٹ گیا۔ اسے اپنی زندگی بے کار لگنے لگی۔ فرانس کی چکاچوند ترقی اور اسبابِ عیش و عشرت میں اس کا دم گھٹنے لگا۔ وہ اپنے عشق کے ہاتھوں بے بس ہوچکا تھا۔ وہ عشق کے "عین" "شین" سے گزر کر "قاف" کو بھی عبور کرچکا تھا۔ عقل سے ماوراء عشق نے عبداللہ کو بے خود سا کردیا۔ اس نے خنجر اٹھا کر کارٹونسٹ کا تعاقب شروع کردیا۔ شام 5 بجے کے قریب موقع پا کر اس نے سیموئل کی گردن دبوچ لی اور آنا فانا اس کا سر قلم کر کے رکھ دیا۔ سیموئل کی گردن زمین پر پڑی تھی اور ادھر عبد اللہ کی روح کو سکون مل گیا تھا۔ وہ جس منزل کی تلاش میں سرگرداں تھا، وہ آخر اسے مل چکی تھی۔ اسی لمحے سائرن کی گونج میں پولیس کی گاڑیاں پہنچ گئیں۔ عبد اللہ مسکرا رہا تھا۔ اس نے ہاتھ میں خنجر اور ایک چھوٹی ہسٹل تھام رکھی تھی۔ 18 سالہ اس خوبرو جوان سے پولیس اس قدر خوفزدہ تھی کہ ایک قدم آگے نہیں بڑھ رہے تھے۔ پھر عشق کی آخری حد بھی پوری ہوگئی۔ عبد اللہ نعرۂ تکبیر بلند کر کے آگے بڑھا اور دوسری طرف سے پولیس مین کی پسٹل سے گولی نکل کر عبد اللہ کی طرف بڑھنا شروع ہوئی۔ پیرس کی سرزمین جہاں جانا کسی بھی انسان کا خواب ہوتا ہے، جہاں کی چمک دھمک دیکھنے والی آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے، جہاں کی سج دھج سے کوئی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، اسی پیرس کی زمین میں آج عشق جھوم رہا تھا۔ عشقِ حقیقی نے اس شام دنیاوی لذتوں کو ٹھوکر مار دی۔ عبد اللہ کی تکبیر جوں ہی ختم ہوئی، گولی اس کے سر میں پیوست ہوگئی۔ شہید کی روح موت سے پہلے نکل جاتی ہے، عبداللہ کو موت کی سختی نہیں جھیلنی پڑی، عبداللہ کی روح "فزت و رب الکعبہ" (رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا) کی صدا لگا کر جسم سے کوچ کر گئی۔ فرشتوں کی قطاروں میں عبداللہ مسکراتا ہوا جنت کی جانب چل پڑا جہاں سرکار دو جہاں، رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عاشق کے استقبال کے لئے کھڑے تھے۔ عبداللہ کا پیغام دنیا کے نام تھا کہ جب تک آزادئ اظہار کے نام پر مسلمانوں کی عزیز ترین متاع پر ڈاکے ڈالے جائیں گے، تب تک ہزاروں خوبرو عبداللہ پیرس جرمنی، امریکا و یورپ کی سرزمینوں میں اپنی زندگیاں قربان کرتے رہیں گے۔ غازی علم الدین شہید سے لے کر عبداللہ تک کی تاریخ اس بات کی کھلی گواہی ہے!۔۔
0 comments:
Post a Comment