فریقین مثبت پیش رفت کے خواہاں ہیں، عمل میں تیزی کا امکان ہے،زلمے خلیل زاد
افغان امن عمل بتدریج جاری ہے اور بہتر سمت کی طرف بڑھ رہا ہے، ترجمان طالبان سہیل شاہیں
فریقین دستاویزات کو حتمی شکل دینے کے لیے پرامید،انخلا،سیزفائر اور بین الافغان بات چیت جیسے اہم نکات شامل
واشنگٹن(ایچ ایم نیوز) امریکا اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کا اگلا دور دوحہ میں آج (ہفتے) سے شروع ہورہا ہے۔افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ ختم کرنے کے لیے دونوں فریقین دستاویزات کو حتمی شکل دینے کے لیے پرامید ہیں جن میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا، قومی سطح پر سیزفائر اور بین الافغان بات چیت جیسے اہم نکات شامل ہیں۔امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ قطر اور افغانستان کے حالیہ دورے کی بنیاد پر میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ دونوں فریقین مثبت پیش رفت کے خواہاں ہیں۔انہوں نے تصدیق بھی کی کہ امریکا اور طالبان کے مابین مذاکرات کا اگلا دور 29 جون کو شروع ہوگا۔طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا کو بتایا کہ افغان امن عمل بتدریج جاری ہے اور بہتر سمت کی طرف بڑھ رہا ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس عمل میں تیزی کا امکان اس وقت ہے جب افغان رہنما ساتھ بیٹھ کر مستقبل کے اسلامی نظام اور حکومت کی تشکیل سازی کے لیے روڈ میپ تیار کرنے کے لیے راستہ بنائیں گے۔واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے مابین دوحہ میں 6 مذاکراتی دور ہوچکے ہیں لیکن زیر بحث نکات پر حمتی آمادگی میں ناکامی رہی۔چھٹے مذاکراتی دور میں بھی ناکامی پر زلمے خلیل زاد نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ صرف مذاکرات ناکافی ہیں ۔ان کے اس بیان کے بعد سمجھا جانے لگا کہ مذاکرات میں ٹھہرا ئوآگیا۔اس سے قبل 13 مارچ کو زلمے خلیل زاد نے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کے تازہ دور میں دونوں فریقین نے 'بڑی کامیابیوں' کا دعوی کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ فوجیوں کے انخلا اور انسداد دہشت گردی کو یقینی بنانے کے مسودے پر متفق ہیں۔
0 comments:
Post a Comment